طب قدیم کی عظمت
از۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔
یادر کہیں کہ طب قدیم تسلیم کرتی ہے کرجسم انسان چارا خلاط سے مرکب ہے۔ اور اخلاط ہمیشہ ارکان سے پیدا ہوتے ہیں جن کے نام پانی، ہوا ، آگ اورمٹی میں اور ارکان پھرا خلاط اور بدن کے اعضاء کا ایک مسلسل تعلق ہے یعنی اول ارکان پھر اخلاط اور آخر میں اعضا بنتے ہیں اور ان ہی مفرد اعضا ء دل جگر اور دماغ کے بگڑنے سے مرض پیدا ہوتا ہے۔ یہ اخلاط اور مفرد اعضاء ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن چوتھی خلط یا عضو بے جان ہے جس قسم کا ڈھانچہ بنتا ہے
ماڈرن فرنگی طلب بھی تسلیم کرتی ہے کہ جب چار ٹشور قسم کے اعضا سے مرکب ہے اور ہر عضو کا مزاج ایک دوسرے سے مختلف ہے لیکن الحاتی عضو بے حرکت ہے جس سے جسم کا ڈھانچہ تیار ہوتا ہے اسطرح حیاتی اعضاءو
ہی تین دل ، دماغ، جگر رہ گئے ۔
اب ان چار اخلاط اور چار انسجہ کواگر تطبیق دیا جائے تو وہ ایک ہی معلوم ہوتے ہیں یعنی اور غلط بلغم سےنسج اعصاب ودماغ بنتا ہے اور یہی اسکی غذا اورجز دن ہے
۲ ۔ خلط۔خون (سرخی سے نسبیح عضلاتی وقلبی بنتا ہے اور یہی اسکی غذا اور جزبدن ہے۔
3۔ در خلط صفرا سے نسیج غدی جگر بنتا ہے اور یہی اسکی غذا اور جز بدن ہے۔
۴ در خلط سودا۔سے نسیج الحاقی بنتا ہے اور یہی اسکی غذا اورجیز بدن ہے لیکن بے جان ہے۔
گویا اخلاط اور انسجہ لازم وملزم ہیں یہ وہ حقائق ہیں جن سے کوئی سائنس انکار نہیں کر سکتی جب ان پر سال ہا سال غوروفکر کیا گیاتو طب قدیم کی تھیوری صحیح طور پر سامنے آگئی اور ظاہر ہو گیا کہ فرنگی طب صرف طب قدیم کا ہی ایک حصہ ہے جو غلط راستہ پر چلا دیا گیا ہے۔ یہی وہ مقام اور موڑ (ٹرن) تھا جس سے تجدید طب کی روئیں پیدا ہو ئیں جس سے نہ سصرف تشخیص مرض میں آسانیاں اور علاج میں سہولیتیں پیدا ہوگئی ہیں۔ بلکہ فن علاج اور طب قدیم کی عظمت بھی سے چمک اٹھی ہے