چاند سے انسانی وجود سے مشابہت
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
چاند کا تعلق انسان کے بدن کے ساتھ ہے،بچہ پیدا ہوتا ہے توہلال کی صورت ہے
۔ پھر جیسے قمر الناقص النور میں چاندکو زوال ہے ور وہ گھٹتا جاتاہے،اسی طرح انسان بھی شباب کے بعد زوال کی طرف بڑھتاہے
حتیٰ کہ اماوس کی رات آپہنچتی ہے اور وہ مثل قمر کے غروب ہوجاتاہے
،جسم کی تمثیل چاند کے ساتھ ہے کیونکہ چاند انسان پر براہ راست اثر انداز ہوتاہے اس کے مقابلہ میں سورج جتنا طلوع ہوتا ہے
اتنا ہی غروب ہوتاہے اور یہ گھٹتا بڑھتا نہیںہے ان اس کی تمثیل انسانی روح کے ساتھ ہے ،
چاندسورج کی وجہ سے منور ہے انسانی جسم بھی روح کی وجہ سے منور اور زندہ ہے،
سو ر ج ایک بہت اہم عنصر ہے جو کائینات میں جاری و ساری ہے ان دونوں کا صر ف فرد کی زندگی پر ہی اثر نہیں
بلکہ یہ دونوں اقوام کی زنگی پر براعظموں پرا و ر کا ئینا ت کے سیاروں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں
،صرف چندروز کے لئے سورج اور چاند کے دئے بجھا دئے جائیںتو کائینات میں وہ تغیر آئے
جس کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے،سورج کی روشنی زندگی کیاساس ہے [روحانیت کیا ہے ؟ ص۳۶۔۶۷]
{ستاروں کا ثر جسم انسانی پر}
نظام شمسی میں جتنے سیارے ہیں وہ سب اپنی شعاعوں سے مخلوقات ارضی پر اپنے اثرات ڈالتے رہتے ہیں
انکی شعاعیں ایٹمو سفیر سے گذر کر جب جسم انسانی تک آتی ہیں تو اس کے اندر داخل ہوکر اپنی مختلف قسم کی تاثیریں ظاہر کرنا شروع کردیتی ہیں
جسم کے بعض مسام[سیلز] کھولتی ہیں جن سے خوشی پیدا ہوتی ہے اور بعض کو بند کرتی ہیں جن سے مایوسی چھاجاتی ہے ،
بعض خون کے دورانیہ کو تیز کردیتی ہیںاور بعض سست کچھ کو بیحس بناتی ہیں تو کچھ میں بجلی کوندا دیتی ہیں
یہ بھی پڑھیں
روحانی امراض کا جڑی بوٹیوں سے علاج
انہیں اعتبارات سے انہیں سعد و نحس کہا جاتا ہے انکا براہ راست اثر پہلے نفس پر ہوتا ہے
پھر جسم پر اگر کسی عمل سے نفس انسانی میں پوری قوت پیدا ہوجاتی ہے تو وہ مضر اثرات کو پھیلے سے روک دیتا ہے مفید باتوں میںمعاون بن جاتا ہے۔
مصفت،اب دی لائٹ آف استارس نے اپنی ضخیم کتاب میںاس کی پوری تو جیح کردی ہے
یہ بھی پڑھیں
شرت چندر چیٹرجی
اس کے مصنف ایک بنگالی بابو اسٹرانومی کے ماہر ہنری پدوچیٹر جی ہیںجنہوں نے اپنی زندگی کے
پچیس سال ستا ر و ں کے اثرات معلوم کرنے میں گذار دئے یہ کتاب کلکتہ سے[۱۹۲۴ء ]میں طبع ہوئی اہل ذوق کے لئے یہ بہت مفید کتاب ہے ٭
{ نحوست سیارگان کے بارہ می ںایرانی لوگوں کا نظریہ
ایرانی لوگ اجتماع[شمس و قمر ]اور استقبال دونوں کو منحوس بتاتے ہیں،اجتماع کے دن کی نحوست کاسبب یہ ہے اس کے دوران جب اور شیاطین سے دنیا میں مزاج فاسد ہوتاہے جس کے سبب دنیا میں اس دوران جنون اور دماغی امراض پیدا ہوتے ہیں ،سمندر میں جوار بھاٹا[مد و جزر]اور پانی میں کمی واقع ہوتی ہے ۔مذکر قمریوں کو مرگی ہوجاتی ہے اور جس پانی[مادہ منویہ] سے رحم میں بچے کا حمل قرار پاتاہے وہ بچہ ناقص الخلقت ہوجاتاہے ،جو بال جسم سے اکھیڑا جا ئے وہ مشکل سے [جمتا ]دوبارہ اُگتاہے جو پودا اس زمانہ میں زمین میں لگایا جائے اس کا پھل بہت کم ہوگا خاص طور پر اگر اس دوران کسوف[گرہن ]واقع ہو جا ئے اگر اس دوران مرغی انڈوں کو سینے کے لئے ان پر بیٹھے تو وہ گندے ہوجائیں گے اور نرگس مرجھا جائیگی۔الکندی کا قول ہے اجتماع[شمس و قمر] اس وجہ سے مکروہ ہے کہ چاند جو جسموں کا رہنما ہے جلنے لگتاہے اور اس کی وجہ سے ڈر ہوتاہے بلا اور فنا واقع نہ ہوجائے۔استقبال کی نحوست کاسبب یہ ہے کہ زردشتیوں کے عقیدہ کے مطابق اس موقع پر دیو اورجادو گر مکدر ارواح کے ساتھ شیفتگی پیدا کرلیتے ہیں اسکی وجہ سے مرگی زیادہ ہوجاتی ہے ۔جو پودا اس موقع پر بویا جائے اس میں کیڑے لگے اور متعفن پھل پیدا ہوتے ہیں [آثار الباقیہ عن قرون الخالیہ ص۳۶۸]
{پرانی شراب نیا لیبل}
حیرت کی بات ہے کہ کتب عملیات میں بھی بغض اور نفاق جدائی کے اعمال اور دشمن پر بیماری کے تسلط کے لئے بھی انہی اوقات کو منتخب کیا گیا ہے اکثرنحس عمل انہی اوقات میں کئے جاتے ہیں۔پہلے لوگوں اور آج کے عاملین میں فرق صرف نام کا ہے ،جو کام پہلے لوگ ستاروں سے منسوب کیا کرتے تھے آج وہی کام اسلام کا لیبل لگا کر کیا جاتاہے ۔اگر کوئی کہے کہ یہ وہ اوقات ہیں جو نجومیوں نے قائم کئے تھے ان کا ستاروں کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے ۔یہ سن کر عاملین حضرات تاویلات کی پٹاری کھول کے رکھدیںگے ۔صحیح بات تو یہ کہ آج کے عاملین نام کی تبد یلی
یہ بھی پڑھیں
الانسان فی القران
کے ساتھ وہی کام کرتے دکھائی دیتے ہیںجو صدیوں پہلے کے لوگ کیا کرتے تھے۔
ستاروں سے متعلق کئی اشکالات ہیں پہلے بھی تھے آج بھی پائے جاتے ہیں مثلاََ اگر زمین کے باسیوں کی زندگی کے واقعات بیرونی سیاروں کے زیر اثر ہیں تو تین سیارے یورانس،نیپچون،پلوٹو کی دریافت (بالرتیب۱۷۸۱،۱۸۴۶،۱۹۳۰)سے پہلے کی پیش گویئاں کس حد تک صحیح ہیں ؟ایک اور غور طلب بات یہ ہے سیاروں کے یونانی نام اور رومی صفات دیومالائی روایات سے اخذ کئے گئے ہیں دیوتائوں کی صفات،جنگ ،محبت ، امن حتی کہ کاشتکاری اور کاروبار وغیرہ بھی دیوتائوں کے نام رکھنے والے سیاروں سے منسوب ہیں۔اگر آج بین الاقوامی فلکیاتی یونین ان سیاروں کے نام بدل دے تو کیا ان کی صفات بھی بدل جائیں گے؟کیا یہ صفات انسانی بس میں نہیں ہیںکہ آج سے چند ہزار برس پہلے ان کا نام رکھنے سے ان میں پیدا ہوگئیں؟