زندگی میںکچھ نہ کچھ ضرور کرو
کچھ نہ کچھ ضرور کرو
حکینم قاری محمد یونس شاہد میو
زندگی میں کچھ نہ کچھ تو ضرور کرنا چاہئے چینی کہاوت ہے کہ انسان کو تین کام ضرور کرنے چاہئیں،ایک درخت لگائے،ایک کتاب لکھے ایک بیٹا پیدا کرے،اپنی بقاء کے سلسلہ میں ہر کوئی ہاتھ پائوںمارتا ہے،راقم نے بھی مسجد کی امامت سے لیکر طب و حکمت عملیات ،نوکری اور نہ جانے کیا کچھ کیا،لیکن جب طب و عملیات میں قدم رکھاتو یہ کام جتنا آسان دکھائی دیتا تھااتناہی مشکل نکلاجس کے پاس بھی جاتا وہی خزانے کے اوپر سانپ کی طرح اس پر بیٹھا پھونکارتاہواملا،پہلی بات کہ اس موضوع پر بات کرنے کے لئے کوئی آمادہ نہ ہوتاتھا،اگر کسی نے ہمت کی بھی تو ایسے مرموز انداز میں گفتگو کی کہ مخاطب کچھ نہ سمجھ سکے کچھ بتایا بھی تو اجازت کی دُم ساتھ میں لگادی تاکہ ساری عمر دست نگری میں گزارے ،شاگرد میں خود اعتمادی پید کرنااسے اس میدان میں خود کفیل کر نا شجر ممنوعہ ہیں
اگر کسی کو بے لوث استاد مل گیاتو وہ بہت خوش نصیب ہے اساتذہ کو ہر وقت یہ خوف لرزاں و ترساں رکھتاہے کہ کہیں شاگرد برابری کا دعویٰ نہ کردیں یا ہماری اجارہ داری کو گرہن نہ لگ جائے شاید یہی خوف تھا کہ بہت سے نایاب و قیمتی گوہر امساک کی چادر اوڑھے آسودہ خاک ہوگئے اگر ان کی بیاض میں کوئی بات ملی بھی تو اتنی ادھوری کہ نہ ملنا بہتر تھا کیونکہ اس کے ادھورے پن کی وجہ سے استفادہ مشکل ہی نہیںبلکہ ناممکن تھا ایک کتاب میں پڑھا کہ کسی علاقے میں ایک درزی اپنی ترپائی میں نفاست کی وجہ سے دور و نزدیک مشہور تھا بہت سو ں نے کوشش کی لیکن کسی کو راز بتاکر نہ دیا۔
مرنے لگا تو اپنے بیٹے کو بلاکر کہتاہے راز بتانے کو اب بھی جی نہیں کررہا لیکن تو میرا خون ہے تجھے بتاتا ہوںاچھی ترپائی کے لئے سوئی میںچھوٹا دھاگہ استعمال کرتے ہیں اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بخل و امساک کس خوفناک حد تک ذہنو ں میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں،یہ خرابی یہاں سے پیدا ہوتی ہے کہ ہم نے فن و ہنر کو رزق کے زریعہ نہیں بلکہ عین رزق تصور کرلیا کہ اگر یہ دروازہ کسی کے قبضہ میں چلا گیاتو ہمارا کیا بنے گا؟لیکن پیدا کرنے والے جو وعدہ کیا ہوا ہے کہ میں تم کو رزق دونگا اور وہ آسمان میں ہے[وفی السماء رزقکم وما توعدون ]اس کا تم سے وعدہ ہے،بہت سے لوگوں کی کم نصیبی ہے کہ وہ اچھے انداز میںاسباب مہیاکرسکے نہ وہ اچھے موکل بن سکے انہوںنے اپنی غلطیوںاور کوتاہ اندیشیوں ،اور بے اعتدالیو ں کو بد قسمتی کا نام دیدیاکیونکہ روزی کے لئے بہر حال اسبا ب کرنا رَسم دنیا ہے اللہ تو اس بات پر قادر ہے کہ بغیر کئے روزی دیدے۔مگر اس کا قانون یہ کہ وہ اسباب اور زرائع سے روزی رسانی کیا کرتا ہے بے عملی نے ہمیں اللہ سے بھی دور کردی اور کاہلی نے ہمیں محنت و مشقت سے باز رکھا ہم خدا کے ہوسکے نہ ٹھیک انداز میں دنیا کے بن سکے اگر ہم اپنی بساط بھر محنت کریں اپنے کام سے انصاف برتیں تو کوئی وجہ نہیں کہ روزی کے در و ا ز ے ہم پر نہ کھولے جائیں …
دنیا میں بہت سے شعبے ہیںاور زندگی میں ہر شعبے کے ساتھ کبھی نہ کبھی ضرورت پڑتی رہتی ہے ہرکام کی اپنی کشش ہوا کرتی ہے اور قدرتی طورپر انسان کسی نہ کسی شعبے کی طرف مائل ہوتا ہے جس میں وہ اعلی کارکردگی دکھاسکتاہے ،مثلاََ کچھ لوگ اعلی دماغ لیکر پیدا ہوتے ہیں ساری زندگی دوسروں سے کام لیتے ہیں اور اسی انداز میں زندگی گزار دیتے ہیں اورکچھ لوگ ماتحتی میں کام کرنا پسند کرتے ہیں ہر کوئی اپنے لئے ایسے ہی ذرائع استعما ل کرتا ہے جو اسکی مناسبت رکھتے ہیں لیکن بنیادی ضروریات ہر کے ساتھ لگی ہوئی ہیں خوشی غمی رنج و راحت نشیب و فراز انکی جتنی کوشش ہوتی ہے اللہ اسی کے مطابق ذرائع پیدا کردیتاہے ایک آدمی اگر ماہانہ ایک لاکھ روپے لے رہا ہے جبکہ اس کے مقابل ایک مزدور آدمی پانچ دس ہزار لے رہا ہے ،اب دونوں اپنی اپنی ضروریات کو احسن انداز میں پورا کر رہے ہیں
،رشتے ناطوں کے وہ تمام بکھیڑے جو لاکھ والے کے ساتھ منسلک ہیں وہی معاملات پانچ ہزار والے کو بھی پورے کرنے ہوتے ہیں ،فرق ہے تو صرف سوچ اور انداز فکر کا ہے ہر کوئی اپنی جگہ پر مطمئن ہے ایک وہ بھی ہے جس کا کوئی معقول ذریعہ آمدن نہیں مگر زندگی کے تمام وظائف وہ بھی پورے کررہاہے ہم میں سے ہر کوئی اپنے حصے کام کر رہا ہے ملتا اسے ضرورت کے مطابق ہی ہے اگر پیسوں میں روزی ہوتی تو معقول آمدن نہ رکھنے والے تو کب کے اس دنیا سے ناپید ہوچکے ہوتے ہر کوئی اپنی خواہشات کو اتنی ہی بڑھاتاہے جس قابل وہ اپنے آپ کو مستحق تصور کرتا ہے ایک آدمی معمولی تنخوہ میں گزارا نہیں کرسکتاتو کسی حالت میںاس کام کو جاری نہیںرکھ سکتااسے ترک کرکے ایسا کام کرن لگے گا جس میں اس کی تسکین ہوگی کیونکہ اسے اپنی آدمن کے مطابق اپنے گھر کا میزانیہ تیار کرناہے
بہت سے لوگ ایک جگہ کام کرتے ہیں مگر روتے رہتے ہیںکسی وقت انکی شکایات کی پٹاری بند نہیں ہو تی اسکے باوجود وہ اس کام میں جُتے ہوئے ہیں،در حقیقت وہ قول و فعل کے تضاد کا شکار ہیں اگر وہ اپنی بات میں سنجیدہ ہوتے تو کب کے اس کام کو خیر آباد کہہ کر کسی طبعی مناسبت والے کام میں لگ چکے ہوتے لیکن اس سب کے باوجود انسان دیکھتا ہے کہ کچھ معاملات اس کے ہاتھ میں نہیں ہوتے وہ چاہتاکچھ ہے اورہوتاکچھ ہے ،رزق کا معاملہ ہی ایسا ہے کہ کسی کے انداز فکر سے اس میں تغیرات بہت کم آتے ہیں ،جو اعلی سوچتا ہے اسے اعلی ملتا ہے جو ادنی سوچتا ہے اسے ادنی ملتا ہے سوچ سمجھ کر فیصلہ کر آپ کاکام ہے
اگر یہ سب بحث سمجھ میں نہ آئی ہوتو ایک دن اپنے گھر کے بارہ میں سوچئے کہ جو ضروریات گھر کا لازمی حصہ ہیںوہ کیسے پوری ہوتی ہیں گھر کی چھوٹی چھوٹی چیزیں نمک مرچ آٹادال وغیرہ جب آپ ان کا باریک بینی سے تجزیہ کریں گے تو حیران رہ جائیں گے کہ اتنا زیادہ خرچ اور یہ معمولی سی آمدن مگر اللہ کانظام ہے کہ ہر ایک کو بنیادی ضروریات بروقت مل رہی ہیں ہم نے کبھی سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کہ یہ نظام احسن انداز میں کون چلارہا ہے ؟ہاں ناشکرا انسان ہماری گفتگو کا موضوع نہیں ہے ۔