روح انسانی اور طبی نظریات
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
نفس انسانی اور نفسیات
یعنی جذبات جبکو انگریزی فیزو سائیکلوجی کہتے ہیں یا در کھیں یہ مسئلہ نظریہ مفرداعضا سے ہی حل ہو سکتا ہے اسکو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی آج تک یورپ و امریکہ اور روس و چین کی حکو متیںٹکر ماررہی ہیں لیکن سب بے سود ثابت ہوئی ہیں پس جب تک سمپل آرگن تھیوری کو نہ سمجھا جائے گا وہ ہر گز نفسیات میں کامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے مضمون تو لمبا ہے میں یہاں ارشادات ہی لکھوں گا لیکن یہ مدلل اور مفید ہونگے بشرط زندگی کسی اور موقع پر وضاحت سے تحریر کروں گا لیکن سمجھدار اور عقلمندوں کے لئے یہی کافی ہیں
روح انسانی
رویے کوئی ایسی چیز نہیں جس کو ہم آنکھوں سےدیکھ اور ہاتھوں سے چھو سکیں یا اسکو کسی دوسری حس سے معلوم کر سکیں بلکہ جس طرح سورج اور چاند کوان کی روشنی سے پہچاناجاتا ہے۔ یا دھوئیں کو دیکھ کہ جان لیا جاتا ہے کہ وہاں آگ روشن ہے یا پرندوں کو اڑتے دیکھ کر اندازہ لگالیا جاتا ہے کہ اس جگہ پانی ضرور ہو گا اس طرح روح کا عمل بھی آثار کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ جاننے کا تعلق اگر دماغ سے ہے تو سمجھنے کا تعلق دل سے ہے اور فائدہ اٹھانے کا تعلق جگرکے ساتھ ہے اور یہ سارے اسرار در موز اس اس و ادراک اور قیاس میں پنہاں ہیں۔ احساس ہم کو حواس خمسہ ظاہری یعنی دیکھنا ، سننا، چکھنا ، سونگھنا اورچھونایہ علم احساسات ہیں جن کو یہ پانچ کرم اندریاں ( قوتیں) سرانجام دیتی ہیں ۔
یہ بھی ٌپڑھئے
221 گرام: انسانی روح کا وزن معلوم کرنے کی خاطر کیا جانے …
ان کو قوت مدر کہ ظاہری بھی کہتے ہیں انکا کام یہ ہے کہ یہ باہر کی معلومات دماغ کی اندرونی قوتوں تک پہنچاتاہے۔
اور اک
یہ حواس خمسہ باطنی سے حاصل ہوتا ہے انکو گیان اندرماںاور مدرکہ باطنی بھی کہتے ہیں یہ بھی پانچ ہیں ۔
1:حس مشترک اسکا مقام دماغ کاپہلا(اگلا) حصہ ہے جو احساس کو برقرار رکھتی ہے۔
۲ : قوت خیال یہ تمام احساسات کا خزانہ ہے جسمیں احساسات محفوظ رہتے ہیں
۳:قوت متفکرہ اسکا مقام دماغ کا درمیانی حصہ ہے یا دپرا کی دونوں قوتوں کے احساسات کا اظہار کرتی ہے ۔
4: قوت واہمہ یہ کی چیز کے معنے بتاتی ہے اسکامقا م موخر دماغ کا مقدم حصہ ہے۔
۔ ۵: قوت حافظہ یہ وہم کے ادر کات کو محفوظ رکھتی اور بوقت ضرورت اور اک کرتی ہے ان تمام قوتوں سے اور اک کا علم پختہ ہو جاتا ہے۔
قیاس
اسکے معنے ہیں گمان کر نا یعنی کسی قسم کی اٹکل اور اندازہ لگانا اس علم سے فکر پیدا ہوتا ہے اور عقل اس سے جلا پاتی ہے علم قیاس سے ہی دنیا دی حکومتوں کے قانون بنتے ہیں اور عدالتوں کے فیصلے بھی اسی پر ہوتے ہیں علم طب میں امراض کی تشخیص اور تجویز دوا اسی کے مطابق مقرر کئے بجاتے ہیں یہ فلسفہ کی جان ہے گویا احساس و ادراک اگر منبع ہیں تو قیاس مخزن حکمت ہے
یہ بھی پڑھئے
جب انسان عالم ارواح سے عالمِ وجود میں آیا
اب سنئے انسانی روح کے متعلق
جب انسانی روح اور اک ونطق(بولنا) سے کام لیتی ہے تو اسکو نفس ناطقہ کہتے ہیں اور جب امراض جسم کی اصلاح کرتی ہو تو اسکو قوت مد برہ یا روح طبعی کہتے ہیں اور جب اپنے کمال اور ارتقا کی طرف ہو جاتی ہے یعنی روح کی سے ناطہ جوڑ لیتی ہے تو یہ مذہبی روح یا روح امر ربی ہو جاتی ہے اور اس سے انسان اشرف المخلوقات ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اسطرح اسکو و جدان والہام ہو جاتا ہےاور یہ علم ادراک سے حاصل ہوتا ہے ۔ اب آپ سمجھ گئے ہونگے کہ انسانی روح ایک ہی ہے لیکن قوتوں کےذریعہ تین حصوں میں بٹ جاتی ہے ۔
روح انسانی تین قوتوں کا مرکب ہے جس سے یہ جسم پر کنٹرول کرتی ہے۔
1: نفسیاتی قوت جس کا مرکز یا ہیڈ کوارٹر اعصاب و دماغ ہے۔
۲: حیوانی قوت جس کا مرکز عضلات و دل ہے یعنی یہ قلب کو کنڑول کرتی ہے
طبعی قوت جس کا مرکز غدد و جگر ہے یعنی غدد و جگر کنٹرول کرتی ہے ۔ قوت نفسیاتی روح و جسم کے تعلق کو قائم کھتی ہے اس کو من کہتے ہیں مطلب یہ کہ پانچ کرم اندریوں اور پانچ گیان اندریوں اور گیارویں من کے انسان پر کنٹرول کرتی ہے ۔ اعصاب دماغ روغن ساکن ہیں یہ اپنی جگہ نہیں بدلتے صرف اپنے تاثرات سے حکم صادر فرماتے ہیں۔ یہاں یہ بھی یاد کرلیں کہ انسان بھی تین ہی قسم کے ہوتے ہیں۔
1: ستوگنی یعنی نیک وچاروں والے جو ہمیشہ پر مارتھ کا کام کرتے ہیں یعنی قدرتی یا فطری قانون پر چل کرپرماتما تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انکو مہاتما اور اولیاءکہتے ہیں اور دنیا ان کی پوجا کرتی ہے ان کے وچاروں کی لہریں سفید رنگ کی ہوتی ہیں۔ یہی نور کہلاتا ہے اور اسی نور سے سب رنگ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی روح یا آتما کو پرماتما میں جوڑ کر اسمیں تین ہو جاتے ہیں اور یہ من یعنی نفس کہلاتا ہے
2: دو سری قسم کے انسان میں رجوگنی یہ پرمارتھہ یعنی پر ماتما کے راستہ پر بھی چلتے ہیں اور سوار تھ کے راہ پر بھی یہ لوگ ہر آدمی کے دکھ درد میں مدد کرتے ہیں ۔ انکے خیالات کی لہروں کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔ اور یہی انسانی خون کا رنگ ہے اور اسی سے آدمی خوشی و مسرت حاصل کرتا ہے۔ ایسے لوگ دنیا میں بار بار پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں تا آنکہ ایک طرف یعنی پر مارتھ نا سوارتھہ کاپلپڑ بھاری نہ ہو جائے پھر یہ یا ترک میں پرورش کرتے ہیں ۔
۳: تیسری قسم کے لوگ نموگی ایسے لوگ صرف اپنا سوار تھ پورا کرتے ہیں یعنی صرف اپنی مطلب براری کا دھیان ہوتا ہے چاہے دوسرے کو جان سے ہی ہاتھ دھونے پڑیں۔ یہ دنیا میں بے ایمان ،چور ، اچھکے ڈاکو کہلاتے ہیں اور سب ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ عموما جیلوں جنگلوں اور دوسرے بڑے استھانوں پر اپنا جیون گزارتے ہیں۔ ان کی وچاردھارا کا رنگ کالا( سیاہ) ہوتا ہے اور یہی لوگ ہیں جو مختلف ٹولیوں میں گھومتے پھرتے ہیں بس ان سے جتنا ہی دور رہا جائے اتنا ہی انسان کے لئے اچھا ہے آج کل ہمارے دیش میں ان جیسے لیڈروں کی بھرمار ہے جسکی وجہ سے دیش رسائل کی طرف جا رہا ہے ۔ چونکہ میرا موضوع طب ہے اسلئے روح بھی کی طرف آتا ہوں یا د رکھیں کہ انسان کے تین حیاتی مفرد اعضاء ہیں انکو اعضائے ریئسہ بھی کہتے ہیں۔ یعنی دل جگر اور دماغ چو تھا الحاقی مفرد عضو ہے وہ صرف ان تینوں کا آپس میں اتحاق کرتا ہے یعنی بھرتی کا کام کرتا ہے۔
2: تین ہی کیفیات ہیں۔ گرمی سردی خشکی چوتھی کیفیت جوتری ہے وہ بہت جلد سردی میں تبدیل ہو جاتی۔
3: تین ہی اخلاط یا خون کے عنصر ہیں اور انکو ہی انسانی مزاج کہتے ہیں۔بلغم ، صفرا، سودا چو تھی خلط خون ہے جو ان تینوں اخلاط کا مرکب ہے
4:تین قسم کی ہی ادویات ہیں سردادویہ (کھاری)، خشک ادویہ(ترش)اور گرم ادویہ( نمک) انہیں تمام اقسام کی اغذیہ ، ادویہ اور ز ہر شامل ہیں ان کو موالید ثلاثہ کہتے ہیں۔
۵: مین ہی قسم کے علاج ہیں ، علاج بالغذاءعلاج بالدوا اورعلاج بالتدبير
6:تین ہی قسم کی امراض ہیں، بلعمی، صفراوی ، سوداوی .
7:تین ہی قسم کی انسانی قوتیں ہیں۔ قوت نفسیاتی جس کا مرکز دماغ ہے۔ قوت حیوانی جس کا مرکز دل ہے۔ اور قوت طبعی جس کا مرکز جگر ہے اور ان تمام قوتوں پر روح یا قوت مدیرہ بدن جس کو انگریزی میں وائٹل فورس کہتے ہیں حکومت کرتی ہے یعنی روح طبعی ان تینوں قوتوں کا مرکب ہے یا یوں کہ لو کہ روح بھی ایک ہی ہے لیکن جسم کو کنٹرول کرنے کے لئے اور اپنے فرائض انجام دینے کے لئے تین صورتوں میں بٹ جاتی ہے۔ یہی طبعی روح انسان کی مالک و مختار ہے اور یہ سب کچھ انسانی خون کے لطیف اجزا سے پیدا ہوتا ہے اور جو خون کا
کثیف حصہ ہوتا ہے اس سے مفردا عضاء وجود میں آتے ہیں ۔
فرنگی طب روح کے علم سے بے خبر ہے
لیکن خون کےلطیف بخارات کی قائل ہے اور یہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ خون کے لطیف بخارات ہوں اسمیں پائے جاتے ہیں اہم کام انجام دیتے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تصوران کو طب یونانی سے ملا ہے جسےقوت طبعی جوجسم غذا اورنشوونما کا کام دیتی ہے اس کو وہ نیچرل فورس ( NATUREL FORES) کہتے ہیں جسکا مقام جگر ہے قوت نفسانی جو جسم میں احساسات اور تحریکات کا باعث ہوتی ہے اس کووہ منٹ فورس کہتے ہیں ( MENUTEL FORES ) جسکا مرکز دماغ ہے تیسری قوت حیوانی جو جسم میں حرکات داخل قائم کرتی ہے اسکو وہ انیمل فورس کہتے ہیں جس کا مقام دل ہے لیکن مذہی روح یا طبعی روح وغیرہ اور ان کے مظاہر اور آثار سے بالکل نا آشنا ہیں بلکہ ان سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور نہ ہی آج تک انکو نفس کے اصل مقام کا ہی پتہ چلا ہے پھر جذبات کو کیسے سمجھ سکتے ہیں۔