رمضان ایک رحمت جسے زحمت بنادیا گیا
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
بحمد اللہ رمضان المبارک۱۴۴۴ھ کا چاند نظر آگیا ہے۔خوش نصیب لوگ ہیں جنہیں یہ مبارک ساعتیں نصیب ہوئی ہیں۔روزہ کا تصور انسانی زندگی میں بدسلائو کی نشان دہی کرتا ہے کہ جو چیزیں زندگی کے دیگر ایام میں مباح تھیں ان سے ہاتھ کھینچ لیا جاتا ہے ۔انسان اپنے لمحات کو محتاط انداز میں صرف کرتا ہے۔ہر مسلمان کو شکر کرنا چاہئے کہ ایک فرض الیہہ کے ساتھ ساتھ زندگی کا ایسا نظام الاوقات میسر آیا جس میں فوائد ہی فوائد اور نفع ہی نفع ہے۔
قران کریم نے روزہ اور رمضان کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے فرمایاہے کہ لعلکم تتقون۔کہ تم پرہیز گار بن جائو۔۔اس کی عملی شکل رسول اللہ ﷺ کی سیرت مطہرہ میں ملتی ہے۔ام المومین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔آمد رمضان پر رسول اللہ ﷺکے معمولات ۔عبادات سخاوت۔اور ایثار و انفاق میں نمایاں فرق دیکھا جاتا تھا۔
اس سے پہلے لوگ کیسے تھے ہمیں کتب بینی سے ان کے معمولات شب و روز معلوم ہوتے ہیںلیکن اس وقت جو مسلمانوں کو دیکھتے ہیں تو ان کی طبیعت پر رمضان کا اثر برعکس ہوتاہے۔سخاوت کی جگہ کنجوسی۔امانت و دیانت کے بجائے بے ایمانی۔منافع خوری ملاوٹ۔دو نمبری۔روزہ داروں کو اشیائے ضروریہ میں ہوش ربا اضافہ۔ رمضان المبارک کے خواص و صفات قریب سے بھی نہیں گزرے۔نہ ہی مسلمان اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
نیکی کے پیمانے جو اللہ اور اس کے رسول نے مقرر فرمائے ہیں ہمیں انہیں اپنانا تو درکنار۔سوچنا تک گوارا نہیں کرتے۔۔ہر سحر و افطار میں گلی گلی محلہ محلہ ایسے نظائر دیکھنے کو ملیں گے کہ۔ایک تاجر ملاوٹ والا سامان مہنگے داموں روزہ رکھ کر چھوٹی قسمیں کھاکر فروخت کرے گا۔اور جماعت کے وقت یا افطاری کے لئے تیز قدموں کے ساتھ مسجد کی طرف لپکے گا کہ تکبیر اولی کے ساتھ نماز مل جائے۔
بڑی ڈھٹائی کے ساتھ۔دونمبر طریقے سے مومنانہ شکل کے ساتھ دھوکہ دہی سے کام لیا جاتا ہے
۔آخر رمضان میں طویل دسترخوان سجادیا جاتا ہے کہ افطاری کرائی جارہی ہے۔کرانے والے کو بھی معلوم ہے یہ دو نمبر کا پیسہ ہے۔افطاری کرنے والوں کو بھی معلوم ہےیہ لقمہ مشتبہ ہے۔لیکن مجال ہے جو کسی کی زبان سے حرف نکیر نکلے۔۔۔کچھ تو ذخیرہ اندوزی میں اتنا کمالیتے ہیں رمضان یا بعد از رمضان عمرہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
مجھے دنیا کا علم نہیں لیکن مملکت خداداد پاکستان میں رمضان دو نمبری کے دھندہ کا موسم بہار ہوتا ہے۔مسجدیں بھری ہوئی ہیں ۔قران تراویح میں مکمل ہورہا ہے ۔مساجد سجائی جارہی ہیں۔صفیں مکمل ہیں۔لیکن کردار و افعال میں کوئی تبدیلی نہیں۔۔بے ایمانی میں فرق محسوس ہوا نہ ایمان داری کی جھلک دکھائی دی۔عجیب تقوی ہے جس نے مسلمانوں کو مزید سنگ دلی سے دوچار کیا ہے۔
اگر رمضان اور اس کی نیکی کے تصورات وہ ہیں جو اس وقت قائم ہیں تو بھوکے مرنے پیاسے رہنے کی ضرورت نہیں ۔۔جیساکہ حدیث میں آیا ہے کچھ لوگوں کو بھوک و پیاس کے علاوہ نہیں ملتا۔
اور اگر رمضان اور روزہ کا مفہوم و مقصود وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے مقرر فرمائے ہیں تو یہ پاکستانی مسلمانوں کے قریب سے بھی نہیں گزرے۔۔البتہ ایک فریضہ ہے جسے بھوک و پیاس کے نام پر پورا کیا جاتاہے اس کے علاوہ کوئی بتادے کہ مسلمانوں کو فلاں فلاں فوعائد حاصل ہوئے ہیں۔پاکستان میں دونمبری کا سیزن ہے۔حیف ہے کہ اس بات کو برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔
جو روزہ ہماری موجودہ زندگی میں بدلائو نہ لاسکا عجیب بات ہے ہم جنت کے فیصلہ اس کے بل بوتے پر کرانے پر تلے ہوئے ہیں۔
کوئی ایک صفات جو روزہ دار کی بتائی گئی ہے پیدا نہیں ہوتی کوئی ایک برائی جو عام زندگی میں جسے برائی سمجھا جاتا ہو ترک نہیں کی جاسکتی تو کیسا رمضان اور کیسا غیر رمضان۔۔؟؟؟
علمائے کرام کی جہاں نماز باجماع۔فضائل و مسائل بیان کرنا۔روزہ کا صرف وہی رخ بیان کرنا جو سچے روزہ دار کے لئے ہے۔کے علاوہ حلال و حرام ۔جائز و ناجائز۔لین دین ۔تجارت معاشرت۔رحم دلی ایچار۔محبت ۔بھائی چارہ۔نیکی کا سینہ میں موجزن ہونے کے آچار بھی بیان کریں، جب تہدیدات سے ٓنکھ بچاکر فضائل اور فوائد ہی بیان ہونگے۔ایک روزہ کی فضیلت کا انبار لگادیا جائے گا۔تو کون کرداری صائم بننے کی کوشش کرے گا؟؟؟