رزق کا معاملہ کیا ہے
رزق کا معاملہ
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
یہ معاملہ بہت حساس ہے حالانکہ اس کا ذمہ خود خالق کائینات نے اپنے سر لے رکھا ہے
،کائینات کا نظام کچھ اس انداز میں گردش کررہا ہے کہ رزق کا کوئی خاص راستہ نہیں ہے جہاں سمجھا جاسکے کہ اس رہ سے چل کر ضرور رزق مل جائیگا
،ایک حدیث ہے کہ رزق انسان کو اس طرح تلاش کرتا ہے جیسے موت انسان کو ڈھونڈتی پھرتی ہے
،ایک اور جگہ ہے کہ انسان اس وقت تک ہرگز نہیں مر سکتا جب تک وہ اپنے حصہ کا رزق مکمل نہ کرلے رزق کس طرح اور کس انداز میں لکھا ہے اور اس کے ملنے کی کیا صورت ہے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ہر ایک بساط بھر کوشش میں لگا ہوا ہے اللہ نے اس کی روزی کے اسباب وہیں سے مہیا کردئے ہیں جہاں وہ مصروف عمل ہے مثلاََ ایک تاجرتجارت سے بے شمار دولت جمع کرلیتا ہے
مگر دوسرا اسی راستہ میں اپنا تمام اثاثہ برباد کرکے محروم و مایوس ہوکر باہر نکلتا ہے ایک نوکری میں بہت خوش ہے تو دوسرا کسی کی ماتحتی کو سیوہان روح مانتا ہے ایک مزدور زور بازو سے رزق مہیا کرتا ہے تو ایک ٹھگ بھی پوری زندگی مصروف عمل رہتا ہے ایک سنار زرگری سے دولت پیدا کرتا ہے
تو دوسرا مٹی کے برتن بناکر اپنا پیٹ پالتا ہے کوئی بھی ایک اندازہ سے زیادہ رزق نہیں کما سکتا جہاں اس کا رزق بکھیر دیا گیا وہیں اس کی ضروریات بھی بنادی گئی ہیں رزق تو سمندر کے کنارے پٹی ہوئی گیلی ریت کی طرح ہے جہاں ہاتھ مارو گے پانی چِگ چگانے لگ جایئگا
اسی طرح جس ہنر میں بھی ہاتھ ڈالوگے اسی سے رزق کے سوتے پھوٹنا شروع ہوجایئںگے پھر پیدا کرنے والے نے ہر انسان کی تخلیق ایک مخصو ص طرز پر کی ہے ہر ایک کے دل میں اس کے کام کے بارے محبت ڈال دی گئی ہے مگر انسان جلد باز ہے حسد کا عنصر اس میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے،
جب اپنے شعبہ میں کسی نئے آنے والے کو دیکھتا ہے تو جل بھن جاتا ہے لیکن کشادہ دلی ہی زندگی گزار نے کا بہترین طریقہ ہے
عاقل و سمجھدار ان چکروں میں نہیں پڑتا،اگر کوئی غلطی کی وجہ سے غلط شعبے میں چلا جائے تو جلد یا بدیر وہ وہاں سے الگ ہوجاتا ہے اور اپنے
پسندیدہ کام کی طرف لپکنے لگتا ہے …