دین کی دعوت میں اہل میوات کا کردار
حضرت سید محمد نظام الدین اولیاء( 1237ءتا 1324ء) ولد سید احمد بخاری دہلی کے پاس ہی جنوب میں واقع ایک بستی میں مدفون ہیں جو اب انہی کی طرف منسو ب ہو کر’ بستی نظام الدین اولیاء‘ کہلاتی ہے۔ آپ کے القابات نظام الاولیاء،محبوب الہی، سلطان المشائخ، سلطان الاولیاء‘، ’زری زر بخش‘ وغیرہ ہیں۔ نام کے بعد اولیاءکا اضافہ غیر معمولی ہے۔ اولیاء، جمع ہے ولی کی۔ ’ولی ‘اللہ والے کو کہتے ہیں۔
اصولاً ان کا نام نظام الدین ولی ہو ناچاہیے تھا کیونکہ ایک شخص تھے اور ایک انسان کے لیے واحد کا صیغہ ولی ہو نا چاہیے تھا۔ لیکن ان کو ولی کے بجائے اولیاءکہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ بظاہر یہی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے یا انگریزی محاورے کے مطابق ایک آدمی پر مشتمل فوج کی حیثیت رکھتے تھے۔ دین کی جو خدمت اولیاءکی ایک جماعت نے سرانجام دینا تھی وہی حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے اکیلے ہی سرانجام دی۔
مرزا الہی بخش جو بہادر شاہ ظفر کے سمدھی تھے، دلی اجڑنے کے بعد بستی نظام الدین میں رہائش پذیر ہوئے۔ ان کے بنگلے کے قریب واقع مسجد ’بنگلے والی ‘ کے نام سے معروف ہوئی۔ مولاناسماعیل کاندھلویؒ (متوفی 26 فروری 1898ء)نے اس مسجد کو اپنی محنت کا مرکز بنایا۔ میواتیوں کی خوش قسمتی کہ یہ مسجد میوات اور دلی کے رستے پر واقع تھی
۔ مولانا اسماعیل کاندھلویؒ آتے جاتے مسافر میواتیوں کا سامان اترواتے اور ان کو ٹھنڈا پانی پیش کرتے۔ عزت و احترام پر مبنی یہ سلوک ان میواتیوں کو دوبارہ اس مسجد میں آنے پر مجبور کردیتا۔ مولانا اسماعیل ؒمیواتی مزدوروں کو اجرت دے کر لاتے مسجد میں لاتے اور اُن کو دین کی تعلیم دیتے، کچھ ہی دنوں میں ان میواتی مزدوروں نے اجرت لینا چھوڑدی اورمستقل دین کے طلب گار بن گئے۔ یہ تعلق شناسائی میں تبدیل ہوا اور پھر عقیدت میں ڈھل گیا۔
مولانااسماعیل کاندھلویؒ دنیا سے رخصت ہو کر میواتیوں کے دلوںمیںجابسے۔ والد کی محنت کو ان کے بڑے بیٹے مولانا محمد ؒ نے بڑی خوش اسلوبی سے آگے بڑھایا۔ اُن کے بعد یہ ذمہ داری مولانا محمد الیاسؒ(1986تا1944) کے کاندھوں پرآن پڑی، جو معجزہ نرگس کے ہزاروں سال رونے کے بعد وقوع پذیر ہوتا ہے وہ اِن تین باپ بیٹوں کی چند دہائیوں پر مشتمل محنت کے بعد دنیا والوں نے وقوع پذیر ہوتے دیکھا، اب میوات میں جا بجا دیدہ ور پیداہوچکے تھے۔ 1941 میں میوات کے ایک قصبہ’ نوح‘ میں اجتماع کے لیے میدان تیار ہونے لگا
۔ یہ پانی پت کا میدان نہیں تھا کہ کوئی جنگ لڑی جاتی بلکہ یہ تو’ لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں‘ کا دل کش نظارہ تھا۔ یہاں دلی نہیں بلکہ دل کو فتح کرنے کی تیاری کی جارہی تھی۔ نوح کے اس اجتماع میں 20سے 25ہزار لوگ شریک ہوئے۔ قصبے کی تقریبا ًسب مسجدوں میںنماز ہوئی، پھر بھی ہجوم اتنا تھا کہ چھتوں اور بالا خانوں پر آدمی ہی آدمی تھے،
سڑکوں پر نمازیوں کی صفیں تھیں اور آمد ورفت بند ہو گئی تھی۔ نوح میں حاجی عبدالغفور میواتیمرحوم ہمیشہ مولانا(الیاسؒ)اور ان کے کثیر تعداد رفقاءکے میزبان ہوتے اور بڑی عالی حوصلی گی سے ضیافت ہوتی تھی، بعض اوقات نوح سے باہر بھی بڑے اہتمام سے کھانا لے کر جاتے تھے۔
1947کے بعد میواتیوں کی ایک بڑی تعداد ہجرت کر کے پاکستان آگئی، یہاں ان کو لاہور، قصور اور سیالکوٹ کے پاک بھارت سرحدی علاقوں میں آباد کیا گیا۔ لاہور اورقصور کے سنگم پر ایک قصبہ ’رائے ونڈ‘ کے نام سے آباد ہے جو متحدہ ہندوستان کے نقشوں پر صرف اس وجہ سے نظر آتا تھا کہ وہاںسے گزر کر ریلوے لائن لاہور(موجودہ پاکستان ) سے فیروز پور(موجودہ بھارت ) کی طرف جاتی تھی۔
رائے ونڈاسٹیشن کے ساتھ ہی ایک قبرستان کی مسجد میں مولانا الیاسؒ کے تربیت یافتہ شاگرد حافظ محمد سلیمان میواتیؒ (متوفی1992)نے حفظ کے مدرسے کی بنیاد ڈالی جو بعد میں موجودہ تبلیغی مرکز کی جگہ منتقل ہوا اورحافظ محمد سلیمان میواتی اس کے مدرس اول مقرر ہوئے۔ حافظ صاحب مرکز کے امام اور خطیب بھی تھے۔ رائے ونڈ کے تبلیغی مرکز کو’ مدرسہ عربیہ رائے ونڈ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور مرکز میں چائے کی پیالیوں پر یہ نام1993 تک روغن سے لکھا ہواملتا تھا اور شاید اب بھی لکھا جاتاہو۔ حافظ سلیمان میواتی ؒکے رفقاءمیں حاجی عبدالرحمن میواتیؒ، میاں جی عبداللہ میواتیؒ اور دیگر شامل تھے۔ علاقہ میوات سے آئے ہوئے یہ تمام حضرات مولانا الیاس کے فیض یافتہ تھے۔
رائے ونڈ(لاہور، قصور) میں بھی اللہ والوں کی ایک ایسی ہی عارضی بستی وقتاً فوقتاً آباد ہوتی رہتی ہے جس میں دیواریں بانس کی اور چھتیں کپڑے کی ہوتی ہیں۔ 24تا26فروری 2018رائے ونڈ کی اجتماع گاہ کے ایک حصے میں لاہور، قصور اور میوات کا جوڑ ہورہا ہے جہاں اہل میوات ایک بارپھر دین کی محنت کو زندہ کرنے کے لیے جمع ہیں۔ اتفاق ایسا ہے کہ میواتیوں کے محسن اول مولانا اسماعیل کاندھلوی ؒ کی تاریخ وفات بھی 26فروری ہے، جن کی محنت سے پیدا ہونے والے یہ اللہ والے جہاں اپنے تمبو اور قنات لگا لیں وہ اولیا کی بستی بن جاتی ہے۔ جیسے ہی اجتماع گاہ میں بانس کی فصل اگتی ہے تویہ اللہ والے ان پر کپڑے کی چھتیں ڈال کر ان بستیوں کو آباد کردیتے ہیں۔
یہ عارضی لیکن مستقل اورد یر پا اثر رکھنے والی بستیاں دنیابھر میں ادھر ادھر دو چار دنوں کے لیے آباد ہوتی رہتی ہیں اور پھر ان بستیوں کے مکین ’تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا، پھر نہ جانے کدھر گیا وہ‘ کے مصداق انسانوں کے سمندر میں جذب ہو جاتے ہیں۔ لیکن جیسے سمندر میں کھاری اور میٹھے پانی کی دو لہریں ساتھ ساتھ چلتی ہیں مگر ایک دوسرے میں جذب نہیں ہوتیں اسی طرح یہ لوگ بھی معاشرے میں موجود دیگر انسانوں کے رنگ میں رنگے نہیں جاتے بلکہ اپنی الگ شناخت اورلہر برقرا رکھتے ہیں۔
چاروں طرف سے کھلی اوراوپر کی طرف سے معمولی کپڑے سے ڈھکی یہ رہائش گاہیں سردی، گرمی اور بارش کو روکنے میں پوری طرح ناکام ہوتی ہیں۔ باد ل گھِر آئیں، دھند پڑے یا تیز دھوپ، ان بستیوں کے مکین کبھی نہیں گھبرات
ے۔ کئی بار یہ بادل صرف گرجتے ہی نہیں بلکہ موسلا دھار برستے بھی ہیں۔ بھیگے بستر اور کپڑوں کے ساتھ یہاں بسنے والے لوگ آس پاس کی مساجد اور فیکٹریوں میں پناہ لیتے ہیں اور بارش تھمتے ہی واپس اپنی بستی میں آجاتے ہیں جو کیچڑ میں بدل چکی ہوتی ہے
۔ اختتامی دعا کے بعد کچھ تو واپس گھروں کو چلے جاتے ہیں جب کہ کچھ لوگ اللہ کے رستے میں نکل جاتے ہیں۔ یہاں وہاں پھرتی ہوئی تبلیغی جماعتوں کو دیکھ کر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ لوگ گم نام راہوں کے ایسے بھٹکے ہوئے مسافرہیں جن کی کوئی منزل اور ٹھکانہ نہیں۔
لیکن ان سادہ دل بندوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد ’صحبتے با اولیائ(اللہ والوں کے ساتھ ایک گھڑی )‘ کی قدر وقیمت کا صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان سے ملنے کے بعد ہی جانا جاسکتا ہے کہ در بدر پھرنے والے یہ لوگ ذہنی طور پرکس قدرمطمئن اور یکسو ہیں جو صرف ایک ہی نکتے پر ہی محنت کرتے ہیں کہ کیسے اللہ کے بندوں کو اللہ کے ساتھ جوڑا جائے؟
2 Comments
Your comment is awaiting moderation.
Thank you for your sharing. I am worried that I lack creative ideas. It is your article that makes me full of hope. Thank you. But, I have a question, can you help me?
[…] دین کی دعوت میں اہل میوات کا کردار […]
[…] دین کی دعوت میں اہل میوات کا کردار […]