حکیم محمد کبیر الدین۔مصنف طبیب ۔مترجم۔
محمد کبیر الدین
Muhammad Kabiruddin
تعارف
علامہ محمد کبیر الدین انصاری کی شخصیت کو اگر طب یونانی کے تعلق سے مجاہد طب سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اگر بیسویں صدی (20th cent. AD) کے اوائل میں علامہ نے طبی تصنیف و تالیف کے میدان میں علمی جہاد نہ چھیڑا ہوتا تو بہت ممکن تھا کہ طب یونانی ہندوستان میں لسانی بحران سے دوچار ہو کر آج قصہ پارینہ ہو گئی ہوتی۔ جہاں علامہ نے عربی زبان میں طب پر مقالات تحریر کئے وہیں طب یونانی کی بنیادی کتابوں کا اردو زبان میں ترجمہ کر کے اس طب کو آئندہ نسلوں تک پہنچانے کا معقول انتظام کر دیا۔ آج طب یونانی کا نصاب تعلیم جن کتب پر مشتمل ہے ان میں زیادہ تر علامہ محمد کبیر الدین کے ذریعہ ہی تحریر کردہ ہیں۔
طب یونانی کا یہ مشہور مصنف و مترجم (1894AD) میں صوبہ بہار کے ضلع مونگیر، قصبہ شیخو پورہ میں پیدا ہوا تھا اور تمام عمر طب کی خدمت میں گزارنے کے بعد 82 سال کی عمر کو پہنچ کر 1976AD کو اس دار فانی سے رخصت ہو گیا۔
تعلیم و تربیت
کبیر الدین کا تعلق ایک علمی خانوادہ سے تھا، چنا نچہ ابتدائی تعلیم گھر سے ہی شروع ہوئی جو دینی اور لسانی تعلیمات پر مشتمل تھی۔ اس کے بعد حصول علم کی غرض سے ہی ترک وطن کیا اور لکھنو ، کانپور اور دہلی سے علم طب اور عربی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ یہی نہیں اپنے شوق کی بناء پرفن خطاطی میں بھی کمال حاصل کیا۔
فضل و کمال
کبیرالدین بیک وقت ایک فاضل طیب، بہترین استاد اور جلیل القدر مصنف و مترجم ثابت ہوئے۔
کبیر الدین بحیثیت طبیب علمی اعتبار سے کبیر الدین طب کے ہر پہلو پر درک رکھتے تھے۔ اگر چاہتے تو طبابت میں بھی کامل ہو جاتے۔ لیکن اپنے استاد محترم جناب حکیم اجمل خاں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے طبی درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کو اپنا میدان خاص بنایا۔
کبیر الدین بحیثیت استاد
طب یونانی پر مکمل عبور ہونے کی بنا پر آپ نے بطور مدرس بھی انا قام بنایا۔ انھوںنے استاد کے طور پر آیورویای یونانی بی کا یہ قرول باغ بنی دیلی، جام طیب کی قاسم جان، دہلی، نظامیہ طبیہ کالج ، حیدر آباد اور اجمل خان طبیہ کالج علی گڑھ، میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ آج بھی یہ چاروں طبی مراکز طب یونانی کی چوٹی کی درسگاہوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ اور ان تمام جگہوں پر کبیر الدین کو بطور مدرس مدعو کیا گیا تھا۔ بیشک کبیر الدین ان اساتذہ میں سے تھے کہ جن کی شاگردی بھی باعث فخر و امتیاز ہوتی ہے۔
کبیر الدین بحیثیت مصنف
: شاید خدا کو کبیر الدین سے طب یونانی کی تصنیف و تالیف و تراجم کا کام لینا ہی مقصود تھا، جو بعد میں اس فن کی بقاء کا سبب بنا۔ چنانچہ جب وہ مدرسہ طبیہ اگلی قاسم جان، دہلی سے طب یونانی کی تعلیم حاصل کر چکے تب ان کی علمی بصیرت دیکھ کر ان کے استاد محترم حکیم اجمل خاں نے ان کو ہدایت کی کہ وہ طبی تصنیف و تالیف کو اپنا میدان خاص بنا ئیں تو بہتر ہے۔ پھر کیا تھا استاد کی بات پر عمل کرتے ہوئے کبیر الدین نے علمی جہاد چھیٹر دیا۔ اس وقت طب یونانی کی بنیادی کتا ہیں چونکہ عربی و فارسی زبانوں میں ہی تمھیں، لہذا ان زبانوں سے واقفیت کم ہونے کی بنا پر ان تک عام طالب علم کی رسائی نہ تھی ، اس لئے کبیر الدین نے محسوس کیا کہ طب یونانی کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اردو تراجم کئے جائیں۔ چنانچہ آپ تن، ہن اور دھن سے ترجمے کے کام میں جٹ گئے اور انتہائی مہارت کے ساتھ اہم طبی کتابوں کے اردو تراجم کر ڈالے۔ آپ چونکہ صرف مترجم ہی نہ تھے، طبیب فاضل بھی تھے، اس لئے بعض دشوار مسائل کی تفسیر بھی آپ نے کی، اور کچھ نکات پر اپنی کامل رائے کا اظہار بھی کیا ۔ حکیم صاحب نے طب یونانی کی جن کتابوں کے تراجم کے یا ذاتی طور پر جو کتابیں یا رسائل و جرائد تحریر کئے ان کی فہرست طویل ہے۔ ذیل میں صرف ان کتابوں کی فہرست پیش کی جارہی ہے جو آپ کے ذریعہ اردو میں دستیاب ہو ئیں اور طبی نصاب تعلیم میں شامل کی گئیں۔
کلیات قانون اول اور دوم – ترجمہ کبیر اول، دوم، سوم اور چہارم ۔ افادہ کبیر اول اور دوم یاض کبیر اول اور دوم کلیات نیسی اول اور دوم، تشریح کبیر اول اور دوم کتاب الادویہ، کتاب لتكليس وغیرہ ۔ ان کتب کے علاوہ بھی علامہ نے طب کے مختلف موضوعات پر مقالات الصيد لدا ریر کئے جو ہاری اور اعلی طبی جرائد میں شائع ہوئے ۔ آپ نے خود بھی حیدر آباد سے شائع ہونے والے طبی جریدہ اسیح کی طباعت و اشاعت کے لئے مدیر اعلیٰ کے فرائض انجام دیئے ۔ مختصر یہ کہ بیسویں صدی میں طب کے علمی سفر کاسپہ سالار حکیم کبیر الدین کے علاوہ اور کوئی نہیں کہ جس نے اردو تالیفات کے ذریعہ نئی نسل کو
علم طب سے روشناس کروایا۔