چار پانچ سال ہوئے میں نے اپنے عزیزوں رفیقوں کے کہنے سے اپنی زندگی کے حالات لکھنے کا ارادہ کیا۔ ابتداء تو میں نے کر دی ، مگر ابھی پہلا ورق الٹنے کی
بھی اور یہ نوبت بھی نہیں آئی تھی کہ بمبئی میں بلوے شروع ہو گئے اور یہ کام رک گیا۔ اس کے بعد اور واقعات پیش آئے ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں قید ہو کر یر اورا کی جیل میں پہنچ گیا۔ اسی جیل میں میرے ساتھی جیرام داس بھی قید تھے ۔ انہوں نے فرمائش کی کہ تم سب کام چھوڑ کر آپ بیتی کو ختم کر دو۔ میں نے کہلا بھیجا کہ میں اپنے مطالعے کا پرو گرام بنا چکا ہوں ، اور جب تک اسے پورا نہ کر لوں کسی اور کا خیال بھی دل میں نہیں لا سکتا۔ اگر میں قید کی معیاد یر اور میں گزارتا تو آپ بیتی ضرور ختم ہو جاتی۔ کیونکہ جب میں چھوٹا ہوں تو ایک سال اس کام کے لئے باقی تھا۔ اس سوامی انند جی نے پھر اسرار شروع کیا، اور میں بھی جنوبی افریقہ کی ستیا گری کی تاریخ سے فارغ ہو گیا ہوں ۔ اور اس لیے جی چاہتا ہے کہ نوجوانوں میں چھاپنے کے لئے آپ بیتی لکھنا شروع کر دوں ہوامی جی یہ چاہتے تھے کہ میں اسے الگ لکھوں اور کتاب کی صورت میں چھپواؤں مگر مجھے اتنی فرصت نہیں ہے ۔ میں تو بس اتنا کر سکتا ہوں کی مفت وار ایک باب لکھتا جاؤں۔ آخر تو جیون کے لئے کچھ نہ کچھ لکھنا پڑتا ہے۔ پھر آپ بیتی ہی کیوں نہ لکھ دیا کروں ہوامی جی اس پر راضی ہو گئے ۔ لیجیے میں نے بھی سنت سے کام شروع کر دیا ۔۔
مگر میرے ایک باخدا دوست کو اس بارے میں کچھ شبہ ہے۔ جو انہوں نے میری خاموشی کے دن ! مجھ سے بیان کیے،انہوں نے مجھ سے کہا، یہ آپ کو کیا سوجھی کہ اس جھگڑے میں پڑ گئے ۔ آپ بیتی لکھنا مغربی ملکوں کا دستور ہے۔ میں نے آج تک نہیں سنا کہ مشرق میں سوا ان لوگوں کے جن پر مغرب کا اثر ہو گیا ہے۔ کسی نے آپ بیتی لکھی ہو ، اور آپ لکھیں گے کیا؟ ۔ فرض کیجیے آپ آج جن اصولوں کے قائل ہیں، انہیں کل ترک کر دیجیئے ۔یا اب جو تجویزیں آپ کے سامنے ہیں، وہ آئندہ بدل جائیں تو کیا اس کا اندیشہ نہیں کہ جو لوگ آپ کی تحریر اور تقریر پر عمل کرتے ہیں ، وہ دھوکے میں پڑ جائیں گے ۔ کیا آپ کے خیال میں یہ بہتر نہ ہو گا کہ آپ ابھی اس قسم کی کتا ہیں لکھیں بلکہ کبھی لکھیں۔
ان دلیلوں کا مجھ پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوا ۔ لیکن اصل میں میرا مقصد اس قسم کی کتاب لکھنا نہیں ہے۔ جو آپ بیتی کہلاتی ہے۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ میں نے حق کی تلاش میں جو تجربے کیے ہیں ، ان کی کہانی سنادوں، اور یہ بیچ ہے کہ ساری عمر انہی تجربوں میں گزری ہے۔ اس لیے یہ کہانی آپ بیتی بن جائے گی ۔ لیکن اگر کتاب کے ہر صفحہ میں سوا ان تجربوں کے کسی چیز کا ذکر نہ ہوا تو میں ایسی آپ بیتی لکھنے میں کوئی ہرج نہیں سمجھتا۔ اب چاہے یہ میرے نفس کا فریب ہوں مگر مجھے یقین ہے کہ ان تجربوں کا ایک مسلسل بیان پڑھنے والوں کے لئے فائدے سے خالی نہ ہو گا۔ سیاست کے میدان میں جو تجربے میں نے کیسے ہیں، وہ ہندوستان میں بلکہ ایک حد تک مہذب دنیا میں مشہور ہو گئے ہیں ۔ میری نظر میں نہ ان تجربوں کی کوئی وقعت ہے۔ اور نہ مہاتما کے لقب کی، جو ان کی بنا پر لوگوں نے مجھے دے رکھا ہے۔ مجھے اکثر اس لقب سے بہت دکھ پہنچا ہے۔ اور جہاں تک مجھے یاد ہے، کبھی ایک لمحے کے لئے بھی اس نے میرے دل کو نہیں لبھایا ، البتہ ان روحانی تجربوں کو
میں خوشی سے بیان کروں گا، جو صرف مجھے ہی کو معلوم ہیں ۔ اور جن کی بدولت مجھے سیاسی میدان میں کان کرنے کے لئے تھوڑی بہت قوت حاصل ہوئی ۔ اگر یہ تجربے واقعی روحانی ہیں تو خودستائی کی ذرا بھی گنجائش نہیں ۔ ان کا کچھ اثر میری ذات پر ہوسکتا ہے۔ تو یہی کی میری عاجزی اور بڑھ جائے ۔ گزرے ہوئے زمانہ پر میں جتنا غور کرتا ہوں ، اتنی ہی مجھ پر اپنی نارسائی کھلتی جاتی ہے۔
وہ چیز جس کی مجھے تلاش ہے۔ جس کی آرزو اور سعی میں میں تمہیں سال سے بے چین ہوں ہمعرفت نفس، دید الہی ، حصول موکشا سے ہے ۔ یہی تلاش ، یہی کوشش میرا اوڑھنا بچھونا ہے۔ یہی میری زندگی ہے ۔ میری تحریر وتقریر کامیری ساری سیاسی جد وجہد کا یہی مقصد ہے۔ لیکن چونکہ ہمیشہ سے یقین ہے کہ جو کام ایک شخص کے لئے ممکن ہے ۔ وہ سب کے لئے ممکن ہے۔ اس لیے میں نے جتنے تجربے کیے وہ خلوت
کی تاریکی میں نہیں، بلکہ جلوت کی روشنی میں کیے۔؟ ۔ اور میرے خیال میں اس سے ان کی روحانی قدرو قیمت میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔
بعض معاملے بندے اور خدا کے درمیان ایسے ہوتے ہیں جن کی کسی اور کو خبر نہیں ہوتی ۔ ظاہر ہے یہ چیزیں بیان میں نہیں آسکتیں ۔ جن تجربوں کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ایسے نہیں ہیں، مگر ہیں یہ بھی روحانی، بلکہ یوں کہیے کہ اخلاقی تجربے، کیونکہ اخلاق ہی مذہب کی جان ہے ۔
اس کہانی میں صرف ان مذہبی باتوں کا ذکر ہو گا، جنہیں بچے اور بوڑھے دونوں اچھی طرح سمجھ سکیں۔ اگر میں ان کو جذبات سے الگ ہو کر سچائی اور عجازی سے بیان کر سکا تو ان سے اور بہت سے تجربے کرنے والوں کو روحانی ترقی میں مدد ملے گی۔ میرا ہرگز یہ دعوئی نہیں کہ یہ تجر بے مکمل ہیں۔ میں انہیں اس سے زیادہ قابل
حق کی تلاش
مصنف: | مہاتما گاندھی |
ناشر: | نایاب ڈاٹ نیٹ |
شہر: | لاہور |
سن: | 2006 |
درجہ بندی (DDC): | 954.035092 |
صفحات: | 721 |
موضوع: | تربیت |
کتاب/جریدہ: | کتاب |
زبان: | اردو |
ڈاhttps://www.iqbalcyberlibrary.net/ur/969-416-228-002.html#pdfdownloadؤن لوڈ: | |
حاشیہ: | مہاتما گاندھی۔ حق کی تلاش۔ (لاہور: نایاب ڈاٹ نیٹ، 2006)، ص. 721۔ |