جشن میلاد النبیﷺ۔کیا پایا ۔کیا کھویا؟
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
گذشتہ کل پورے ملک میں میلاد النبی کے نام پر طرح طرح کی محافل کا انعقاد کیا گیا ۔جلوس نکالے گئے۔ڈھول ڈھماکے ہوئے ۔سارے دن بازاروں میں آوازے کسے گئے۔بڑوں سے لیکر بچوں تک سب نے اپنے جذابت کا اظہار اپنے اپنے انداز میں کیا۔
کچھ باتیں ہیں۔ممکن ہے اسے مخالفت و موافقت کے ترازو میں تولا جائے۔مختلف قسم کی موشگافیاں کی جائیں ۔دلائل کے انبار لگائے جائیں ۔اور استدلال کی ایسی فضا پیدا کردی جائے کہ محسوس ہونے لگے کہ دین اسلام میں سوائے میلاد کے کچھ باقی نہیں ہے۔
سر فہرست جو بات سوچنے یا کرنے کی ہے وہ یہ کہ کیا دین اسلام کی تکمیل ہوگئی ہے؟۔۔۔اور یہ اسلام میں مطلوب ہے؟۔۔۔
اگر اسلام کی تکمیل اس عمل کے بغیر موجود ہے تو یہ اہتمام ۔حلال و حرام کے فتوے کیا معنی رکھتے ہیں ؟
اس وقت کہلائے جانے والے مسلمان۔وہ دیوبندی ہوں یا بریلوی۔یا ان کی شاخیں۔سب ہی ایک طوفانی لہر کا شکار ہیں البتہ اعمال و افعال کے انداز اپنے اپنے ہیں۔۔۔
یہ دین تو نہیں ہے ۔نہ دین کی خدمت ہے۔۔۔البتہ مسلک و فرقہ کی ترویج اور لوگوں کی نفسیاتی تسکین
کا سامان ضرور ہے۔۔
بریلوی اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے پاس لوگوں کو متوجہ کرنے کا ایک موقع ہوتا ہے۔
دیوبندی اسلئے کرتے ہیں کہ لوگ ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ لوگوں کے لئے ایسے پروگرام کئے جائیں تاکہ ہم بھی عشق رسول کی کچھ علامات کا اظہار کرکے دوست احباب یا مخالفین کو بتا سکیں کہ ہم بھی عاشق رسول ہیں۔
دین حقہ کا مطلوب معاشرہ۔
دین اسلام ایکمکمل دین ہے۔جولوگ اس کی تکمیل کو نہیں مانتے وہ اپنی تسکین کا سامان خود تراشیدہ دلائل کے بل بوتے پر مہیا کرتے ہیں۔جواز میں دور دراز کی کوڑی ملاتے ہیں۔
یاد رکھئے دین اپنے احکامات میں کوئی ایسی چیز شامل نہیں رکھتا جس کے فوی یعنی دنیا میں یا آخرت میں فوائد اثرات مرتب نہ ہوں۔
انسانیت کو کسی نہ کسی انداز مین فائدہ نہ ہو۔۔۔اسلام کا ایک رکن خواہ اس کا تعلق کسی بھی شعبہ سے ہو۔کی ادائیگی سب سے پہلے رکن ادا کرنے والے کو فائدہ پہنچتا ہے ۔پھر مخلوق ہو۔
اگر کسی کو بھی فائدہ نہ پہنچے تو سمجھو دین نہیں ہے۔تخیلاتی دنیا ہے۔جسے وہ دین سمجھ رہا ہے۔
۔گلیوں بازاروں میں جو کچھ ہوتا ہے کیا یہ مچلوب اسلام ہے ۔اسلام کا کونسا رکن پورا کیا جاتا ہے۔
آج کی مروجہ علامات اس سے قبل نہ تھیں ۔تو ان لوگوں کے بارہ میں کیا حکم لگائیں گے؟
رہی بات دلائل و شواہد اور مناظرہ جات کی تو بھائی ہم نے اسلام کو سمجھا ہی اتنا ہے کہ اپنت مفادات کا تحفظ ہوجائے۔مخالف کو نیچا دکھایا جائے۔مسلک کے کارکنوں کو راضی رکھا جائے۔ضروریات دین کے بجائے اپنی ضروریات کی تکمیل کا سامان بہم پہنچایا جائے۔۔
لایعنی قص و حاکایات۔کرامات مجہول قسم کے قصے۔یا من گھڑت روایات کا اہتمام کیوں کیا جاتا ہے؟۔۔کیا دین اسلام اتنا کمزور ہوچکاہے کہ اسے خوابوں کے ذریعہ تقویت دی جائے؟
یاد رکھئے جو کام رسول اللہﷺ نے تلقین فرمائے۔جن کی تکمیل ختم نبوت کہلاتی ہے۔وہ مکمل اور پوری شکل میں بہترین طریقے سے ہم تک پہنچے ہیں۔کیا ہمیں اس پر اعتماد نہیں ہے؟
بہرحال مسلمان جس ڈگر پر چل رہے ہیں وہ اسلام ہر گز نہیں ہے۔اسلام کے نام پے مسلمانوں نے ایک ایسی چیز اپنے پر مسلط کرلی ہے جو مطلوب خدا ہے نہ مقصود دین ہے۔
لڑنے مرنے جھگڑے کے لئے ہمہ تن تیار رہنے والے قوم ان تمام روشن ہدایات۔تحمل برد باری ۔سے عاری ہوچکی ہے۔
کیا کوئی مسلمان بتا سکتا ہے اس عمل کے نتیجہ میں دین کو کیا تقویت ملی ؟ اور معاشرہ میں کونسے مفید اثرات مرتب ہوئے۔
البتہ کچھ مذہبی لوگوں نے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرلیا۔سال بھر آسودگی رہے گی۔
یہ علماء نما مخلوق دین اسلام کو چھپاتے اور وہ چیزیں ظاہر کرتے ہیں جن سے دین کی نہیں ان کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔
جس قدر میلاد کے نام پر عقش رسول کا اظہار کیا جاتا ہے اگر ایک فیصد بھی سچے دل سے دین کے ساتھ وابسطگی اختیار کرلیں تو ہمارے معاشرہ ۔بدکرداری۔دین بے زاری۔لوٹ مار۔دھوکہ دہی۔ختم ہوکر رہ جائے۔۔۔