جامع المسانید
پیش لفظ
استاذی المکرم حضرت علامہ مولانا حافظ عبدالستار سعیدی صاحب دامت برکاتہم العالیہ، شیخ الحدیث و ناظم تعلیمات جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور شیخو پورہ) کچھ عرصہ قبل میاں چنوں جامعہ کنز الایمان تشریف لائے ، راقم نے المعجم الصغیر کا اردو تر جمہ پیش کیا۔ آپ نے بنظر غائر جائزہ لیا اور بہت پسند کیا اور ساتھ ہی فرمایا امام طبرانی کی معاجم ثلاثہ میں علم وعمل بالخصوص عقائد اہل سنت کا بہت بڑا خزانہ پوشیدہ ہے لیکن عوام تو کیا بہت سارے خواص بھی اس سے بے خبر ہیں۔ صغیر کے ترجمہ کے بعد کیا ہی اچھا ہو کہ اوسط اور کبیر پر بھی کام کیا جائے اور المعجم الصغیر کی طرز پر ان کی بھی موضوعاتی فہرستیں مرتب کی جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اس کے محبوب کریم ملی تعلیم کے توسل سے اوسط کا کام شروع کر دیا، ایک جلد تک تو کام بہت برق رفتاری سے ہوا ، اس کے بعد حالات دگرگوں ہونا شروع ہو گئے اور ہر آنے والا دن ایک نئی ابتلاء اور آزمائش لے کر آتا رہا۔ جب دل و دماغ پر سوچ فکر اور غم کا بوجھ ہوتو ذہنی آسودگی ختم ہو جاتی ہے توجہ کا ارتکار نہیں رہتا، جس کی بناء پر تصنیف وتحریر اور انشاء پردازی جیسے کام کرنے کی صلاحیت منجمد ہو جاتی ہے۔ حالات کی کشتی ابھی بھی تکالیف کے بھنور سے نکلی نہیں تھی کہ ایک اور موج نے آلیا۔ قبلہ والد گرامی حضرت قبلہ صوفی محمدرفیق قادری رحمۃ اللہ علیہ داغ مفارقت دے گئے۔ اناللہ وانا اليه راجعون ۔
آئی ایسی موج کہ ساحل چھوٹ گیا
وہ میرا ساحل تھا مجھ سے چھوٹ گیا، وہ میرا سائباں تھا، جو نہ رہا۔ میرے دکھ درد کا ساتھی بہت دور چلا گیا۔ اس کی مفارقت کا گھاؤ کبھی بھی نہیں بھر سکتا ،اللہ تعالیٰ ان کے مزار کو اپنی رحمت سے بھر دے، آمین ۔
المعجم الاوسط ایک سال ) آپ کے ہاتھ میں ہوتی اگر آزمائشوں کے اس گرداب میں نہ پھنسا ہوتا۔ لیکن ہر کام کا اللہ
تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک مقرر وقت لکھا ہوا ہے، اُس سے پہلے وہ نہیں ہوسکتا، شاید ابھی اس کا وقت نہیں آیا تھا، بہر حال ، اللہ جل مجدہ نے دوبارا ہمت دی، رسول اکرم کی ٹیم کی نگاہ کرم ہوئی، والد گرامی کے مزار پر انوار پر مستقل حاضری کا فیض ملا، حالات درست ڈگر پر چلے ، خیالات مجتمع ہوئے طبیعت کا جمود ختم ہوا، دوبارہ کام شروع کیا اور آج سے ۲ ماہ قبل الحمد لله المعجم الاوسط ۸ جلدوں میں آپ تک پہنچ چکی ہے۔ اور آج قبلہ ابا جی کا دوسر اعرس مبارک ہے اور اس موقع پر جامع المسانید کا تحفہ ان کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
مترجم کا مسلک
ہر ترجمہ میں یہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرا مسلک اہلسنت و جماعت ہے بنی حنفی بریلوی ہوں۔ اعلیٰ حضرت امام
احمد رضا خان اور مشائخ اہلسنت کے معمولات کا پابند اور ان کی تشریحات اور تاویلات پر قائم ہوں ۔ اس لئے میرے کسی بھی ترجمہ کو میرے مسلک کے خلاف دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا کسی بھی غیر معمول بہا حدیث کے بارے میرا موقف وہی ہے جو اہل سنت کا ہے اور اس کے بارے وہی تاویل معتبر ہے جوا کابرین اہل سنت سے منقول ہے۔
تاہم حدیث شریف کا ترجمہ من حيث الحدیث کرتا ہوں۔ کیونکہ رسول اکرم علم کی یہ دعا اللہ تعالی اس شخص کو سرسبز وشادات ( خوش و خرم ) رکھے جو میری بات سن کر آگے پہنچا دے اس شخص کے لئے ہے جو آپ مسلم کی بات سن کر اپنی جانب سے ردو بدل کئے بغیر من و عن آگے پہنچادے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جس تک حدیث پہنچائی گئی ہے وہ پہنچانے والے سے زیادہ سمجھدار اور صاحب علم ہو، وہ اس حدیث سے وہ بات اخذ کر لے جو پہنچانے والا نہ کر سکا۔
المعجم الاوسط کا کام بھی پایہ تکمل کونہیں پہنچا تھا۔ اسی دوران میرے محسن جناب حضرت علامہ مولانامحمد اشرف زاہد عطاری صاحب دامت بر کاتہم العالیہ کا فون آیا۔ اس فون سے قبل آپ سے میری شناسائی نہ تھی ، یہی فون پہلا تعارف تھا۔ علیک سلیک کے بعد تعارف ہوا، حضرت موصوف چک نمبر ۵۸ ( گ ب ) تحصیل جڑانوالہ ضلع فیصل آباد کے رہنے والے ہیں، جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور کے قدیم فضلاء میں سے ہیں۔ حضرت نے مستدرک حاکم کے کام کرنے پر بہت شاباش دی اور بہت اچھی دعاؤں سے نوازا۔ ساتھ ہی خواہش کا اظہار کیا کہ اگر آپ امام خوارزمی کی ” جامع المسانید پر کام کریں تو کیا ہی اچھا ہو، اس سے پہلے اس کا کوئی اردو ترجمہ موجود نہیں ہے۔
راقم نے فور فرمائش قبول کرلی اور جناب مولا نا اشرف زاہد عطاری صاحب نے اپنی ذاتی لائبریری سے جامع المسانید کے دو نسخے بذریعہ ڈاک روانہ فرما دئیے۔ کتاب کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ اور چند دنوں میں ہی بلا تاخیر اس پر کام کا آغاز کر دیا۔ کام کرنے میں کتنی کامیابی ملی ہے، یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے، بہر حال اپنی دن رات کی محنت آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔ یادر ہے ساتھ ہی ساتھ الـمـعـجـم الکبیر کا کام بھی چل رہا ہے اور اب تک اس کی ۵ جلد میں چھپ چکی ہیں ۔
جامع المسانید کا مختصر تعارف جامع المسانید بنیادی طور پر امام اعظم ابو حنیفہ الاللہ کی ان ۱۵ مرویات کا مجموعہ ہے جو آپ کے مختلف اصحاب نے تالیف کی تھیں، ان تمام مسانید کا اور ان کے مولفین کا ذکر جامع المسانید کے مقدمہ میں آرہا ہے ،
حضرت امام ابوالموید محمد بن محمود خوارزمی بینیہ نے ان ۱۵ مسانید کو جمع کیا ہے ، ان کو فقہی ابواب کی طرز پر مرتب کیا اور ہر باب کے تحت اس سے متعلق احادیث ذکر کی ہیں ، ان کی اسناد کا آغا ز امام اعظم ابوحنیفہ بی ینز سے کیا ہے، اس کے بعد حدیث بیان کی ہے۔ پھر اس کے ذیل میں صاحب مسند سے لے کر امام اعظم با لنز تک مکمل سند بیان کی ہے اور اس کے بعد اُس حدیث کی بابت احناف کا موقف بھی واضح کیا ہے۔ ہم نے حدیث کی عربی عبارت پر اعراب لگائے ، اس کے بعد سند سمیت اس کا ترجمہ کیا ہے ، پھر ذیل میں اسانید کی عربی عبارت شامل کی گئی ہے اور اس کے بعد اسانید کا ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔
اسانید کے ضمن میں جہاں کہیں عربی عبارات بطور متن ہیں، ان کو عربی رسم الخط کے ذریعے واضح کیا گیا ہے۔ اور اس کے بعد وہیں پر قوسین میں اس عربی عبارت کا ترجمہ بھی دیا ہے۔
اصل کتاب میں احادیث پر عنوانات نہیں تھے، میرے مخلص احباب کا مشورہ تھا کہ معاجم ثلاثہ والا انداز یہاں پر بھی اپنا یا جائے اور ہر حدیث پر اس کا عنوان قائم کیا جائے ، چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ ہی بیوی کی اس کتاب میں ہر روایت کے اوپر اس کا مرکزی خیال عنوان حدیث کے طور پر ذکر کر دیا ہے۔
حدیث کے اختتام پراس کی تخریج بھی شامل کی گئی ہے اور اس سلسے میں ہم نے جامع المسانید کے حق الاستاذ شیخ نجم الدین
محمد در کافی کی تحقیق سے استفادہ کیا ہے۔ جامع المسانید میں کل ۷۸ ۱۷ احادیث بمعہ اسانید ہیں۔ اور ان مرویات میں تقریبا سب موضوع زیر بحث آئے ہیں۔
قرون اولیٰ میں کسی مجموعہ حدیث کا مولف نہ ہونا کوئی عیب نہیں ہے
کچھ لوگوں کو اعتراض ہے کہ امام اعظم یا اللہ کا کوئی بڑا مجموعہ حدیث کیوں نہیں ہے؟ ویسے بحث کی تو کوئی انتہا نہیں ہوتی لیکن اگر بات سمجھنا چاہیں تو چند الفاظ کافی ہوتے ہیں۔ آپ صرف اس بات پر غور کر لیں ،
کہ امام اعظم ابوحنیفہ بیان کی پیدائش ۸۰ ہجری کی ہے۔ اور آپ کا وصال مبارک ۱۵۰ ہجری کا ہے۔ امام اعظم دینہ کا وجود مسعود خیر القرون میں تھا، آپ تابعی ہیں ، ثم الذين يلسونھم کا مصداق ہیں، وہ سچائی کا زمانہ تھا، اس زمانے کی سچائی کی شہادت خود سر کا رد بینہ سلام نے دی ہے۔
اس دور میں علماء وفقہاء اور ارباب علم وفن اپنے حافظے پر بھروسہ رکھتے تھے۔ علم کو لکھنے کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا ، یہی وجہ ہے کہ آپ کو صرف امام اعظم ہی یہ ہی نہیں بلکہ اس دور کے کسی بھی عالم کا مجموعہ احادیث نہیں ملے گا۔۔ آپ چاہ کر بھی اُس دور کے کسی عالم کا مجموعہ حدیث نہیں ڈھونڈ پائیں گے۔ امام بخاری بینیہ کی پیدائش سے بھی ۴۴ سال قبل امام اعظم ابوحنیفہ لیلین کی رحلت فرما گئے تھے۔ خیر القرون کازمانہ گزر چکا تھا، جھوٹ عام ہو گیا ، اہل علم میں سے بعض فتنہ پرور لوگوں نے علم میں خیانتیں شروع کر دیں ، رطب و یابس کو خلط ملط کیا جانے لگا ، اسلام کے اصل ماخذ ضائع ہونے کا اندیشہ ہوا، جب محدثین کرام نے احادیث لکھنے کا کام شروع کیا۔ ان کے دور میں دین کی اعلیٰ خدمت یہی تھی کہ اچھی طرح چھان بین کر کے صحیح احادیث کو یکجا کر لیا جائے ، چنانچہ محدثین نے یہ ذمہ داری نبھائی ہے،اور خوب نبھائی ہے۔
فقہاء نے جوذ مہ داریاں ادا کی ہیں ، وہ جمع حدیث سے کچھ کم نہیں من گھڑت اور باطل روایات کو الگ کر کے صحیح احادیث کو جمع کرنا ، پھر ان کو خبر تواتر مشہور، عزیز ، واحد، نیز متصل اور منقطع اور حدیث کے دیگر درجات میں تقسیم کرنا بھی اگر چہ اپنے طور پر ایک بہت بڑی خدمت ہے لیکن اسی پر اکتفاء کرنے سے امت کے مسائل حل نہیں ہوتے کیونکہ محدثین کو تو جو صحیح روایت ملتی ہے ، وہ اپنے مجموعہ میں شامل کر لیتے ہیں۔ ان کا اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ وہ قابل عمل ہے یا نہیں ، اس کا حکم صرف ایک شخص کے لئے خاص ہے یا سب مسلمانوں کے لئے عام ہے۔ وہ حدیث کسی
مخصوص خطہ کے لئے ہے یا پوری روئے زمین والے اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ یہ کام محد ثین نہیں کرتے ۔ بلکہ محد ثین کے جمع کئے ہوئے اس ذخیرے پر عمل کرنے کا طریقہ فقہاء سکھاتے ہیں۔ مثال کے طور پرمحدثین نے ایک حدیث نقل کی ہے ” جب تم بیت الخلاء میں جاؤ تو اپنا چہرہ اور پشت قبلہ کی جانب مت کرو، بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو اب فقہاء کرام کی تشریحات کے بغیر آپ اس پر عمل کر کے دکھائیے ۔ کہ چہرہ مشرق یا مغرب کی جانب ہو لیکن ایسی صورت میں قبلہ کی جانب چہرہ یا پشت نہ ہو۔ حدیث کی جتنی کتابیں پڑھتے جاؤ گے، یہ حدیث آپ کو بار بار ملتی جائے
گی ۔ سندیں بدل بدل کر یہ حدیث آئے گی ۔ لیکن ان کتب حدیث میں آپ کو اس پر عمل کا طریقہ نہیں ملے گا۔ ہاں کسی فقیہ کے پاس جاؤ تو وہ بتائے گا کہ یہ حدیث ایک مخصوص علاقے والوں کے لئے ہے، یہ حدیث ان لوگوں کے لئے ہے جو قبلہ سے شمال یا جنوب کی طرف رہتے ہیں، ان کو حکم ہے کہ پیشاب یا پاخانہ کرتے وقت چہرہ یا پشت قبلہ کی جانب نہ کرو بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف کر لو۔ اس حدیث میں اگر چہ یہ الفاظ موجود نہیں ہیں کہ یہ حکم کسی مخصوص خطے کے لوگوں کے لئے ہے لیکن اہل علم حدیث پر عمل کرنے لئے ہمیں راستہ نکال کر دیتے ہیں۔
امام اعظم ابو حنیفہ ہی نے کسی موضوع کی بھی حدیث کو تشنہ نہیں چھوڑااحادیث کو جمع کرنا ، پھر ایک ہی حدیث کو ایک ہزار اسانید کے ساتھ نقل کرنا بے شک ایک خدمت ہے۔ لیکن امت کی اصل خدمت یہ ہے کہ اُن ایک ہزار میں سے چاہیے صرف ایک حدیث کو بیان کر لو لیکن امت کو اس پر عمل کا طریقہ بتا دو۔ یہی ہے وہ کمال جو امام اعظم ابو حنیفہ جینیا میں ہے۔ آپ نے قرآن وحدیث پر ایک ساتھ عمل کیا ہے۔ امام اعظم پر قلت حدیث کا اعتراض کرنے والے ہمیں صرف ایک بات کا جواب دے دیں، کہ قرآن اور حدیث کا کوئی ایک ایسا موضوع بتادیں جس پر امام اعظم ابو حنیفہ بھی منہ کے ہاں گفتگو نہ ہوئی ہو، اور جس کے بارے میں آپ نے امت کو احکام بیان نہ کئے ہوں۔ ہمیں تو اللہ کریم کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمیں ایسے امام سے نوازا ہے جس نے ایک ایک آیت اور ایک ایک حدیث میں جس قدر احتمالات ممکن تھے سب پر غور کر کے ہمیں قابل عمل احتمالات الگ کر کے دے دیتے ہیں۔
اکثر جید محدثین ایک یا دو واسطوں سے امام اعظم ابوحنیفہ ہالینڈ کے شاگرد ہیں اگر محدثین کرام کے ساتھ تقابل کیا جائے تو صرف ایک ہی بات عرض کروں گا محد ثین کے پاس اسانید عالیہ میں سب سے بڑا سرمایہ ثلاثیات ہیں ۔ امام بخاری جیسیہ کی پوری بخاری میں صرف ۲۲ ثلاثیات ہیں ۔ اور آپ کو شاید یہ پڑھ کر حیرانگی ہو کہ ان میں سے ۲۱ کی اسانید امام اعظم ابو حنیفہ بنانا کے تلامذہ کے واسطے سے ہیں۔ اور آپ ان مسانید میں پڑھیں گے کہ امام بخاری اور عام مسلم پیسیا کے استاذ حضرت امام اعظم کے شاگرد ہیں۔ اور بعض مقامات پر سیخین کے دادا استاد ، امام اعظم بلای مینا کے شاگرد ہیں۔ بطور مثال دو چار ذکر ہم یہاں پر کر دیتے ہیں، ویسے تیسری جلد میں جہاں ان مسانید کے رواۃ کا تذکرہ ہے وہاں بہت تفصیل موجود ہے