حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
قران کریم ایک حقیقت ہے جس کی پہلی آیات ہی لاریب فیہ یعنی اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں سے شروع ہوتی ہے۔یہ علوم کا بحر ذخار AIجدید ٹیکنالوجی کے دور میں کیا ہماری ضروریات پوری کر پائیے گا؟۔معلوماتی ڈیٹا اس قدر عام آدمی کی دسترس میں آچکا ہے کہ ایک موبائل کی سکرین پوری دنیا کھول کر رکھ دیتی ہے۔ AIجدید ٹیکنالوجی کی ابھی شروعات ہے ہر آں و ہر پل ہوشربا ترقی ہورہی ہے۔ایسے میں دینی طبقہ کی ذؐہ داری بنتی ہے کہ پیش آمد مسائل اور چیلنجز کے مقابلہ کی تیار کریں۔دیندار طبقہ ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ اس بات کی احتیاج رکھتا ہے کہ اس پر نظر ثانی کی جائے۔مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب۔سکول اور دنیاوی تعلیمی اداروں کے کرکولم /تعلیمی پاکیسی۔زراعت۔طب۔غذاو خوراک۔سفری انتظام۔دن رات کے نظام الاوقات سب ہی کچھ بدلنے والا ہے۔جو اس بدلائو کو قبول نہ کریںگے۔کچھ
عرصہ بعد وہ جیتی جاگتی دنیا میں اجنبی بن کر رہ جائیں گے۔
حدیث دل
قران کریم ایک ابدی حقیقت ہے ۔اس کے بھید اور اسرار کے سمندر رہتی دنیا تک بوقت ضرورت وقرا فوقتا کھلتے رہیں گے۔ڈیڑھ ہزار سالوں میں بے شمار تراجم و تفاسیر اور مفاہیم پر مبنی کتب لکھی گئیں۔ہر کسی نے بساط بھر قران کر اپنی سمجھ کے مطابق سمجھانے اور اس کی تشریح کی کوشش کی ۔ہر ایک کو اخلاص
نیت کی بنیاد پر اجر ملے گا۔۔
تفاسیر اور مسلکی چھاپ
ان تفاسیر و مفاہیم میں ایک نکتہ کانٹا بن کر چبھتا ہے کہ لکھنے والا نے اپنے مسلک و مذہب اور نظریات کی سیاہی میں قلم ڈبوکر یہ محنت شاقہ کی۔شاید یہی وجہ ہے کہ آھ بھی جب کتب تفاسیر کی تقسیم کی جاکتی ہے تو مسلکی و مذہبی وابسطگی نمایاں ہوکر باتتی ہے کہ لکھنے والا اگر غیر جانب دار ہے تو کم از کم مطالعہ کرنے والے لوگ اپنی مسلکی وابسطگی کے پیش نظر ان کی تفاسیر کا مطالعہ کرتے ہیں۔
گوکہ یہ عیب تقریبا پورے مذہبی لٹریچر پر صادق آتی ہے۔عمومی طورپر وہی تفاسیر جامع کہلائیں جن کے ماننے والے یا ہم مسلک لوگ زیادہ تعداد میں موجود تھے۔اگر یہ کتب مسلکی چھاپ سے الگ ہوتیں تو ان کا دائرہ اثر بہت وسیع ہوتا۔تفاسیر اور کتب احادیث اور تشریحات نکات قرانی پر مبنی کتب کے ساتھ ساتھ حدیث میں بھی یہی حال دیکھنے کو ملا۔فقہ تو رہی ایک طرف اس میں مسلکی چھاپ ہی الگ ہوتی ہے۔سر ورق مسلک لکھا جاتا ہے۔اگر مسلکی یا فرقہ واریت کی بنیاد پر ان علوم کی تقسیم نہ ہوتی ت و اس وقت علوم و فنون کی کتب کا بہت بڑا ذخیرہ ہماری لائبریریوں میں موجد ہوتا ۔ کتب احادیث میں سے صرف سنن ترمذہ کو اٹھا کر دیکھ لیں کہ کتنے بڑے بڑے اہل علم ہوگزرے ہیں ۔جو صاحب فقہ اور ساحب مسلک تھے مجتہد تھے۔علوم و فنون کے شناور تھے۔لیکن افسوس کہ ان کی تصانیف دنیا سے ناپید ہوچکی ہیں ۔اس میں زمانہ کی دست و برد کے علاوہ مسلکی تنفر بھی کار فرماہے کہ جن وسائل کی بنیاد پر اپنے مسلک و مذہب کی کتب محفوظ کی گئی تھیں ۔دیگر کی بھی محفوظ کی جاسکتی تھیں۔الیکن اس کی
نظریں خال خال ہیں۔
قران کریم کے مفسرین کے تفسیری رجحانات۔
جب بھی کسی مفسر نے قران کریم کی تفسیر لکھی ہے تو اس مین اس کا مسلکی و مذۃبی رجحان کے علاوہ ان علوم و فنون کی بھی واضھ جھلک پائی جاتی ہے جس مین انہیں مہارت تھی۔قران کریم کی آیات و مفاہیم کو بیان کرتے ہوئے طبعی رجحان کو ایسی تطبیقی سانچے میں ڈھالا کہ پڑھنے والا سمجھتا ہے کہ فلاں سورت یا آیت کا مفہوم وہی ہے جو مصنف نے بیان کیا ہے؟یا پھراپنی رجحانات کی تائید میں آیات قرانیہ کو اس انداز مین پیش کیا ہے کہ گویا مصنف کے خیالات عین قران کریم کے مصداق ہیں۔
مثلاََ رازی کی تفسیر الکبیر کے مطالعہ سے علم کلام اور فلسفیانہ دلائل کی طولانی بحث سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورا قران فلسفیانہ ابحاث کا مرقع ہے۔
امام جار اللہ زمحشری کی الکشاف کو اٹھا کر دیکھ لیں ۔پڑھنے والا ششدر رہ جاتا ہے کہ قران کریم میں شاہد بلاغت اور ادب کے سب باتیں ضمنی انداز مین بیان ہوئی ہیں۔ابو الحیان اندلسی کی البحر المحیط میں نحو اور مسائل لغات کا راج ہے۔
آلوسی کی روح المعانی مین دس بیس رائج علوم پر تشریحات سے مرعوب ہونے کو دل کرتا ہے۔
جدید دور میں آجائیں تو مفتی عبدہ مصری۔رضا رضا کی المنار دیکھ کر سیاسی مسائل کا راج پاٹ دکھائی دیتا ہے۔
مولانا عبد لاحق دہلوی صاحب کی تفسیر حقانی میں عیسائی منشری اور ہندو پنڈتوں کا دنگل دکھائی دیتا ہے۔
تفسیر مظہری میں فقہ حنقی کے دلائل اور تصوف کی چادر تنی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
اس کے علاوہ اہل تصوف نے بھی روز قلم صرف کیا۔اور اپنے مسائل راپہنبانہ سے دلائل کے انبار لگا دئے۔
البتہ ابن کثر کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے تفسیر القران بالقران کی سعی مشکور کی ہے
مولانا ابو الکلام آزاد کے علوم و افکار نے قران فہمی کا بہترین اسلوب متعارف کرایا ہے لیکن ان کی ثقیل اردو اور پر مغز ادبی تحریرات عوام کی سمجھسے بہت بالا تھے ۔ان کی کاوشنوں کو بھی عوام نے بطور تبرک دیکھا ۔
رہی بات مسلکی اعتبار سے تو تفسیر عثمانی ۔بیان القرران للتھانوی۔معارف القران۔لتھانوی۔معارف القران مفتی محمد شفعؒ وغیرہ نے کاوشیں دیوبند کی مہر سے متعارف ہیں ۔مسلک بریلوی کی کنز الایمان اعلی حجرتؒ۔مفتی نعیم الدین مراد آبادی وغیرہ پر مسلک بریکویہ کی مہر ثبت ہے۔
اس کے علاوہ مودودی مرحوم کی تفسیر اور اور مولانا اصلاحی کی تفسیر۔گوکہ الگ پہچان رکھتی ہیں لیکن مسلکی رجحانات نے انہیں بھی مصنفین کے ساتھ نتھی کردیا ۔
اہل تشیع نے بھی بہترین فتسیری مواد مرتب کیا ہے گو کہ ان کے مسلکی رجحانات مذکورہ بالا لوگوں کے ساتھ کم میل کھاتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے بلند پایہ کتب لکھیں ہیں ۔
یہی حال مسلک اہل حدیث کی تفسیری کاوشوں کا ہے کہ انہوں نے تفسیری خدمات میں بہترین کاوشیں کیں لیکن یہ کاوشیں بھی مسلک کی بھیمٹ طڑھ گئی ہیں۔مسلکی تعصب سے بالا تر ہوکر ان علمی خزائن کا مطالعہ کی جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک علمی جزیرے کا نقشہ مختلف ٹکروں میں بٹا ہوا ہے ۔جب ان سب کو ملاکر دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ پڑھنے والی کے کئے تسلی کا سامان مہیا ہوگیا ۔
مفسرین کا عمومی سہو(غلطی)
تفسیری مواد کا مطالعہ کیا جائے تو ہر زمانہ میں کوئی نہ کوئی ساحب ایمان ایسا مل جاتا ہے جو قران کی تفسیری خدمات کے لئے خود کو وقف کرلیتا ہے۔
لیکن وہ مروجہ عقائد و افکار سے بہت مرعوب ہوتا ہے۔وہ ان افکار کے اثبار یا انکار میں ان آیات کو پیش کرتا ہے جن کے بارہ میں ان کا خیال ہوتا ہے کہاثاب و یارد میں یہ آیات وزنی دلائل کا کام دے سکتی ہیں۔پھر ان نظریات و افکار کے اثبات یا رد میں وہ آیات پیش کرکے عہدہ برا ہوجاتے ہیں کہ ہم نے اسلام پر حکملہ اوروں کا دندان شکن جواب دیدیا ہے مخالف سے اس کا جواب نہ بن سکے گا۔تاریخی اوراق مین مخالفین کو جو چیلنجز ملتے ہیں شاید وہ اسی قبیل سے ہیں ۔۔سوط الاہام ۔سرسید احمد کی تفسیری خدمات یا غلام احمد پرویز کی تفسیری خدمات دیکھ لیں۔کہ عیسائی مشنریوں اور ہندوانہ تحریکات کے رد میں ان لوگوں نے جو کاوشیں اس وقت کے لحاظ سے قابل قدر تھیں۔یا غلام احمد پرویز کی تفسیری خدمات کو دیکھیں تو یوں لتگا ہے کہ عربی ڈکشبری اور مغربی فلسفہ۔اور عقلی دلائل کا انبار ہیں۔
قصہ کوتا تفسیری میدان میں بہت کام ہوا ۔اور ہورہا ہے۔سچی بتات تو یہ ہے کہ مسلمان قران پڑھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے ۔اگر کبھی جذبہ ایمانی جوش مارے بھی تو مسلکی اعتبار سے کسی تفسیر یا خلاصہ کا مطالعہ کرکے سمجھ لیا جاتا ہے کہ قران سمجھ لیا۔حالانکہ اس نے قران کریم بجائے لکھنے والے کے افکار ورجحانات کو پڑھا ہے جسے مطالعہ کرنے والے نے مفاہیم قران کا درجہ دیا اور عین قران سمجھ کر یقین کیا۔
قران کریم کو اگر سادہ ترجمہ کے ساتھ پڑھا جائے تو زیادہ آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔جو لوگ کہتے ہیں کہ کسی مستند عالم کی ےتفسیر یا ترجمہ کے علاوہ قران کریم کے مطالعہ سے بہکنے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ایسے لوگوں سے اتنا کہا جاسکتا ہے کہ قران کریم کا مطالعہ اگر گمراہی کا سبب بنتا ہے تو ہدای ت کہاں رہ گئی؟۔جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں دراصل خوف ذدہ ہوتے ہیں ہ اگر قران کریم کو سمجھ لیا گیا تو قبائے بزرگی تار تار ہوجائے گا۔اسیے لوگوں کو قران کریم کے سمجھنے سے زیادہ اس بات کا خدشہ بے چین کئے رکھتا ہے کہیں۔مسلکی یا ذاتی بزرگی کے جال سے مرید نکل نہ جائے؟۔