تاریخ طلسمات عہد بہ عہد
طلسمات کی تاریخ
علم الطلسمات۔۔۔
طلسمات کا لفظ ارباب لغت کے نزدیک فہم و ادراک سے بعید اوسربستہ راز کے معانی کا حامل ہے۔ اصطلاح میں بھی علم کو غیرمانوس حقیقت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ علمائے علوم فلکیات کے نزدیک طلسم قو ائے ارضیہ اور حقائق ربانیہ کا علم ہے ،جس کا موضوع خیالات میں تصرف کر کے ظاہر میں باطنی مشاہدات کا وجود یاخلاف معمول واقعات کے خیالی اجسام کا پیدا کرتا ہے۔
طلسمات کافن محض عجائبات کے ظہور تک محدود نہیں بلکہ یہ علم مقدس انسانی زندگی میں درپیش تمام مشکلات و واقعات سے بھی بحث کرتاہے۔ طلسمات کے
جملہ عمليات کو تسخیرحاضرات و روحانیات عناصرو حیوانات، تسخیر قلوب و خیالات اور اسمائے طلسمات چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے علم طلسمات ایک مکمل اور مضبوط قوانین کا نام ہے۔(مطالب العيون- جلد اول صفحہ 73)
طلسمات کی تاریخ
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
مورخین نے فن طلسمات کو مختلف ادوار میں تقسیم کر کے بیان کیا ہے، ان میں سے اس کے ابتدائی مراحل کا ذکر اوراق تاریخ میں نہیں ہے۔ یہ زمانہ کئی ہزار سال قبل ازمسیح کا خیال کیا جاتا ہے۔ اس دور کے بارے میں اتنا پتہ ملتا ہے
کہ یونانی ماہرین فن کو اس فن میں کمال حاصل تھا اور وہ انسان کی جملہ ضروریات و مشکلات کا حل طلسمات کی طاقت سے پیش کرتے تھے دوسرے دور کا ذخیرہ بھی بہت کم ملتا ہے۔ تیسرے دور میں تاریخ سے طلسمات کے بارے میں جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان کے مطابق اس دور میں طلسمات کا بہت زور تھا۔
اس عہد میں کالدو سریاں اور شاہان ایران نے اس فن کی سرپرستی کی جس سے اس فن میں بہت زیادہ ترقی ہوئی۔ یہ دور تین سو سال قبل از مسیح کا تھاچوتھادور اس عہد میں طلسمات نے یونانیوں کے بعد عربوں کی کوشش سے نئی زندگی حاصل کر کے عام مقبولیت پائی۔ اس دور میں عربوں نے اس فن کی کتابیں اور کامل و ماہر ہستیاں جمع کیں اور فلکیاتی علوم و فنون کی ترقی کے لئے ذرائع اختیار کئے۔
مرطاس نے اس فن کا محققانہ مطالعہ و مشاہدہ کر کے بہت سے طلسماتی اسرارورموز اور فنی حقائق کو بیان کیا ہے۔ اس طرح اس نے اس فن کے بہت سے ابتدائی اصول بھی وضع کئے۔ اس نے بہت سی کتابیں بھی لکھیں، جو آج کل تقریبا مفقود ہیں۔ صرف چند ایک کاذکر نوامیس رمانی المتوفی 37ء کی تصنیفات میں ملتا ہے۔
سن عیسوی کی دوسری صدی کے آخر میں مشہور طبیب جالینوس کا نام بھی فلکیات کی تاریخ میں ملتا ہے۔ جالینوس نے طب کے ساتھ اپنے شوق تحقیق کے لئے علوم فلکیات کا راستہ بھی تلاش کیا۔ اس نے طلسماتی معلومات پر انسانی امراض کی تشخیص کاطریقہ ایجاد کیا۔ جالینوس نے ہی سب سے پہلے طلسمات کاباقی
فلکیاتی علوم سے ایک علیحدہ باب تیار کیا، تاریخ فلکیات میں جالینوس کا نام نہایت عظمت سے لیا جاتاہے ۔ اس کی تحقیقات کو عطائے فن نے عمر دراز تک اپنایا
جالینوس نے طلسمات کے موضوع پر بات کی کتابیں لکھیں، لیکن ان میں سے اکثر ضائع ہو چکی ہیں۔ جو کتابیں موجود ہیں ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ فن کے بارے میں تمام معلومات کو بہت سادہ اور صاف الفاظ میں تحریر کر دیاہے۔ جالینوس ہی وہ پہلا ماہر فن ہے جس نے طلسمات کے فن کو طب کے بارے میں بھی تقابلی حیثیت سے بیان کیا ہے۔
جالینوس کے بعد علمائے فن نے فن کے بارے میں انتہائی غفلت کا ثبوت دیا کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا کہ فلکیات کافن مکمل ہو گیا ہے اور اب اس میں مزید ترقی کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد فلکیاتی باب میں کوئی معتد بہ اضافہ نہ ہو سکا۔
چار صدیوں تک طلسمات نے بہت عروج پایا لیکن اندر ہی اندر یہ فن زوال کا شکار ہوتا چلا گیا جو غیر محسوس طور پر بڑھتا رہا۔ چوتھی صدی عیسوی کا آخری زمانہ فلکیاتی علوم و فنون کے لئے بہت منحوس تھا اور اس دور میں فن اپنی زندگی کے آخری ایام میں تھا کہ عربوں کا زمانہ آیا جس سے اس فن کا شمار زندہ علوم میں ہونے لگا۔
ہماری نئی کتاب دروس العملیات کا مقدمہ
شیخ ہمدانی حکیم طاوس ابن طرماح ہمدان میں پیدا ہوئے۔ نوامیس انہی کی تصنیف ہے۔ جسے بعد کے علمائے فن نے تاریخ فلکیات پر پہلی منضبط کتاب قرار دیا ہے، ان کی تصنیف کا عربی ترجمہ حکیم ابوبکر زکریا رازی نے کیا ہے۔
(از۔۔بوستان طلسمات)
عرب جہاں پہلے جہالت اور تاریکی چھائی ہوئی تھی اس دور کے آخر میں سنبھلا اور علم و فن کی طرف متوجہ ہوا۔ اور ارباب فن نے دوسرے علوم و فون کے ساتھ فلکیات کے فن کو بھی مدون کیا، اور طلسمات کے باب میں قائل قدر اضافے کئے۔ .
منصور بغدادی نے کتاب سماوی وصیل۔ علامہ ابوالحسن اعمالی نے عوارف الحروف، جلال ابن النمیر کشفی نے ہرامس جلالی جیسی معروف شہرہ آفاق کتابیں لکھیں ہیں اس طرح متاخرین علماے فن نے اس کی تکمیل میں کمال کوششیں کیں اور فلکیاتی علوم و فنون میں نئی نئی معلومات کا اضافہ کر کے فن کی اپنی علیحدہ حیثیت کی بنیاد قائم کر دی۔
///////////////
یہ بھی پڑحین
1 Comment
[…] ۔چلہ وظائف محنت کے باوجود کام کیوں نہیں دیتے؟ […]