بیاض محمود خانی
معمولات مطب ان نسخوں کے لکھنے سےپہلے کئی ضروری باتیں علوم
ہونی چاہئیں ۔ علا معمولات مطلب سے کون سے
نے مردہ ہیں اور یہ کس قسم کے ننے میں عملہ ان نسخوں کو کن حضرات نے مرتب کیا ہے۔ اورکیوں کیا ہے۔ جب کتابوں میں سب کچھ لکھا ہے تو پھر ان کی کیا ضرورت تھی ۔
ایجاد و ضرورت معمولات مطلب اہل علم حضرت پر یہ بات بخوبی واضح ہے کہ تغیرات و امراض
جسمانی کی جزئیات بے شمار اور غیر محدود ہیں اور قدرتی طور پر انسان کے ذمہ یہ فرض عائد ہے کہ امراض کے علاج کی کوئی سبیل نکالے اور ان بے شمار جزئیات کو کسی فطری قاعدہ کے ماتحت منضبط کر کے ان کے اقسام مقرر کرے اور ہر قسم کے لئے علاج متعین کرے اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو ان بے شمار جزئیات کی تفصیل انسان کے دماغ کی وسعت سے بہت زیادہ ہے اس کے علمی احاطہ میں ان کا محدود ہونا غیر ممکن ہے اس سے لازمی طور پر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ان بے شمار جزئیات امراض کے لئے کوئی مفید طریقہ علاج قائم کرنا غیر ممکن ہے اسی لئے حکماء نے حسیم انسان کے فطری حالات و عارضی تغیرات پر غور فرما کر ایسے قواعد کلیہ بنائے جو ان بے شمار تغیرات کو محیط ہیں۔ اور ہر وہ مرض جو جیم انسانی میں پیدا ہو سکتا ہے اس قانون فطری کے احاطہ سے باہر نہیں جا سکتا۔ مثلاً جب سے دنیا آباد ہے اور جب تک رہے گی ہر فرو بشر کو ہر حالت اور ہرزمانہ میں کسی قسم کا بھی مرض ہوگا ۔ جسمانی ساخت یا مزاج و اخلاط در طوبات یا اردوآع و بخارات میں خلاف طلع تغیر ہوئے بغیر مرض کا تحقق ناممکن ہے۔ اس مثال سے یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ غیر محدود خبر یات امراض کو ان تین اقسام پر تقسیم کر کے ان کا انضباط سہیل
و آسان ہو گیا۔ اب ہر قسم کے لئے طریقہ علاج بھی آسانی سے متعین ہو سکتا ہے ۔ اسی طرح قدرت نے اور یہ بھی بے شمار پیدا کی ہیں اور ہوتی رہیں گی ان تمام ادویہ کا جزئیاتی علم بھی انسان کے لئے منتصر و نا ممکن ہے اور خصوصا ایسی صورت میں کہا ایک جماعت نے اپنے زمانہ کی ادویہ تو تحقیق کرلیں مگر اس جماعت کے زمانہ
کے بعد جو قدرت
ان کے علاوہ اور ادویہ پیدا کرے گی ان کو تحقیق کرنے والی دوسری جماعت ہوگی۔ لہذا علم الادویہ بھی مکمل ہی نہ ہو سکی گا ۔ اور جب تم امراض کی طرح یہاں بھی جزئیاتی طر ترکو چھوڑ کر قانون قدرت کے کلیات کی طرف متوجہ ہو جاؤ گے تو اس کثرت پر قابو حاصل کر لوگے اور چند مقام پر ادویہ کو بھی تقسیم کر کے اور نوعیت و خراج کے لحاظ سے اقسام امراض کے بالمقابل متعین کر کے علاج کے طریقوں میں آسانی پیدا کر سکو گے ۔ خاندان شریفی کے حکماء نے جس طرح علم طب کے بڑے اور اہم موضوعات – رجے تشخیص مرض بذریعہ تنبض – اصول علاج میں ممتاز اور نمایاں ترقی کی ہے۔ اسی طرح علم ادویہ کے موضوع کو بھی معراج کمال تک پہونچایا ہے۔ اور متقدمین کے اصولی معیار پر قرابادینوں کے مرکبات کو جانچا ہے اور کسان عمل پر عرصہ تک آزما کر کتابی صورت میں جمع کر دیا ہے۔
پھرا اور یہ مفردہ اور مرکبہ کے ایسے اصولی نسخے مرتب کئے جو با وجود تعداد میں کم ہونے کے امراض کے اکثر حالات پر حاوی ہیں۔ اور مختلف بدرقوں اور اوئی اوئی تغیر سے تمام جزئیات امراض کو مفید ہیں۔ ان سنتوں کا نام معمولات مطلب ہے ۔ خاندان شریفی کی یہ علمی وعملی ترقی طبی دنیا پر غیر معمولی احسان ہے ۔ ان معمولات مطلب کے نسخوں ہی سے ہر تعلیم یافتہ طبیب قابل وحارق بن سکتا ہے۔ یہ عمولات مطلب خاندان شریفی میں عرصہ سے مروج ہیں اور علاج میں بہت ہی کامیاب ہیں۔ ہندوستان کے اکثر حاذق حکماء بھی ان معمولات کو سہل الحصول اور مفید مانتے ہیں اور انہی پر عمل کرتے ہیں۔ ان نسخوں کے مفید ہونے کا ایک راز اور بھی ہے وہ یہ کہ متقدمین و متاخرین میں سے وہ حکما رجو علاج میں ممتاز مہارت رکھنے والے ہیں ان کی تحقیق ہے کہ اکثر امراض کی ابتدا یا نزلہ وزکام سے ہوتی ہے یا معدہ و دیگر آلات منضم کی خرابی ہے ۔ یا اخلاط در رطوبات کے خاص تغیرات سے ۔ اور ان معمولات مطلب میں بعض اس قسم کے نسخے ہیں جو نزلہ زکام کی جڑ بنیاد کو کھو دیتے ہیں ۔ اس لئے جتنے امراض نزلہ زکام سے پیدا ہو نیوانے ہیں یہ تنے ان کو ضرور مفید ہوتے ہیں ۔ اور بعض نسخے اس قسم کے ہیں جو خلاط و رطوبات