باغ و بہار
باغ و بہار
باغ و بہار
تحریر: احمد
باغ و بہار اردو کی مختصر ترین داستانوں میں انفرادی حیثیت اور امتیازی اہمیت کی حامل ہے۔ باغ و بہار کا اصل نام قصہ چہار درویش ہے اور اس کا تاریخی نام باغ و بہار ہے۔ یہ قصہ در اصل فارسی زبان میں تھا، کہا جاتا ہے کہ امیر خسرو نے اپنے شیخ اور پیر حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کےعلالت کے دنوں میں ان کا دل بہلانے اور غم ہلکا کرنے کے غرض سے تحریر کیا تھا۔ لیکن یہ بات اس لیے فرضی اور بے سند معلوم ہوتی ہے کہ امیر خسرو سنی صوفی تھے جبکہ باغ و بہار کے تخلیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی شیعہ مصنف کی تحریر ہے۔
یہ قصہ جتنا اردو میں مقبول ہوا فارسی میں بھی اس کو اتنی ہی شہرت ملی۔ اس کے دو اردو ترجمے کیے گئے ایک میر عطاحسین تحسین نے “نوطرز مرصع “کے نام سے کیا جس کی زبان دیسی اور غیر ملکی الفاظ کی آمیزش سے ثقیل اور بوجھل ہو گئی، دوسرا ترجمہ میر امن نے تحسین کے اسی ترجمے کو اپنی زبان میں سہل کر کے لکھا۔ مولوی عبد الحق کے مطابق باغ و بہار کا اصل ماخذ عطا حسین تحسین کی نوطرز مرصع ہے جو قصہ چہار درویش کا ترجمہ ہے۔
سبب تالیف اور سن تصنیف
1800ء کے قریب تقریباً پورے ہندوستان پر انگریزوں کا غلبہ ہو چکا تھا۔ انگریزوں کے ہندوستانی زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے امور سلطنت کے چلانے میں انہیں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، لہذا انگریز ملازمین کو ہندوستانی زبان سکھانے کے غرض سے 1800ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل مارکوس ویلزلی کے حکم سے کلکتہ میں” فورٹ ولیم کالج “کا قیام علم میں لایا گیا اور ڈاکٹر جان برتھ وک گلکرسٹ ہندوستانی شعبے کے سربراہ مقرر کیے گئے۔ گل کرسٹ کی سرپستی میں میر امن وہلوی، سید حیدر بخش حیدری، میر شیر علی افسوس، مرزامظہر علی خاں ولا، کاظم علی جواں، خلیل علی خاں اشک، میر بہادر علی حسینی،نہال چند لاہوری، للولال جی وغیرہ کی ایک جماعت تشکیل دی گئی ۔ ان حضرات کے ذمے قصہ کہانیوں کے آسان زبان میں ترجمے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ان حضرات کاوشوں کے نتیجے میں متعدد کتابیں تیار کی گئیں مثلاً باغ و بہار، توتاکہانی، آرایش محفل، بیتال پچیسی، سنگھاسن بتیسی، داستانِ امیر حمزہ، نثرِ بے نظیر، اخلاق ہندی، مذہبِ عشق اور ان کے علاوہ بہت سی کتابیں تیار کی گئیں لیکن مذکورہ کتابوں کو قبولیتِ عامہ حاصل ہوئی۔ البتہ مذکورہ کتابوں میں بھی جتنی قبولیت باغ و بہار کو حاصل ہوئی کسی دوسری کتاب کو نہ ہو سکی۔
میر امن کے بیان کے مطابق انہوں نے اس کتاب کو 1215ھ کے اخیر اور 1801ء کے آغاز میں تحریر کرنا شروع کیا، 1802ء میں یہ پایہ تکمیل کو پہنچی۔ پہلی بار 1802ء میں اس کے 102 صفحات گل کرسٹ کے ایک” انتخابِ ہندی مینول “میں چہار درویش کے عنوان سے شائع کیے گئے اور مکمل کتاب باغ و بہار کے نام سے 1218ھ مطابق 1803ء میں ہندوستانی پریش کلکتہ سے شائع ہوئی۔ مذکورہ کتاب کے متعدد نسخے شائع کئے گئے، لیکن ان میں دو نسخے (1) نسخہ مولوی عبد الحق (2) نسخہ رشید حسن خان زیادہ مشہور ہوئے۔(باغ وبہار،ص:11)
” میر امن دہلوی ” نام و نسب و حالات زندگی
نام: میر امن
تخلص: لطف
میر امن کے آباء و اجداد سلاطینِ مغلیہ کے عہد میں ہندوستان آئے۔ سلاطین مغلیہ کا برتاؤ ان کے آباء کے ساتھ ہر دور میں قابل ستائش رہا، ہر دور میں انہیں اونچے منصب اور جاگیریں عطا کی گئیں۔ میر امن کی پیدائش دلی میں ہوئی اور یہیں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ احمد شاہ درانی کے حملے اور سورج مل جاٹ کے قبضے نے میر امن کے خاندان دہلی سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔ بالآخر مجبوراً 1760-61ء میں دلی کو خیر آباد کہ کر مع اہل و عیال عظیم آباد(پٹنہ) کا رخ کیا۔
ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد میر امن 1798-99ء میں کلکتہ پہونچے۔ یہاں نواب دلاور جنگ کے چھوٹے بھائی محمد کاظم علی خاں کے استاذ مقرر ہوئے۔ دو سال اس خدمت پر مامور رہے، اس کے بعد میر بہادر علی حسینی کے توسط سے ڈاکٹر گل کرسٹ تک رسائی ہوئی۔ 4/ مئی 1801ء میں 40 روپئے ماہانہ تنخواہ پر فورٹ ولیم کالج میں ماتحت منشی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ پانچ سال کالج کی خدمت کرنے کے بعد 1806ء میں بسبب ضعیفی چار ماہ کی زائد تنخواہ کے ساتھ کالج کی خدمات سے سبک دوش ہوئے۔ اس کے بعد میر امن کہاں گئے کب وفات پائی ان تمام چیزوں کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بعض تذکرہ نویش میر امن کی تاریخ وفات 1808ء کلکتہ میں لکھتے ہیں۔ میر امن نے دوران ملازمت دو کتابیں (1) باغ و بہار (2) گنجِ خوبی( ترجمہ اخلاقِ محسنی مولفہ ملا حسین واعظ کاشفی) تحریر کیں۔
آغازِ قصہ باغ و بہار
داستان کا آغاز بادشاہ آزاد بخت کے تمہیدی قصے ہوتا ہے،وہ کچھ اس طرح ہے:
ملک روم میں آزاد بخت نامی ایک عادل، نیک اور انصاف پرور بادشاہ رہتا ہے۔ اسے ہر قسم کے آسائش و آرام کی چیزیں میسر تھیں، لیکن وہ اولاد کی دولت سے محروم تھا۔ لاولدی کے غم میں تخت و تاج سے کنارہ کشی اختیار کر کے وہ گوشہ نشینی کا خواہاں ہوا۔ وزیر کے بہت سمجھانے پر اس نے اپنے ارادہ کو ترک کر دیا۔ ایک دن اس نے کسی کتاب میں پڑھا کہ اگر کوئی شخص افسردہ و رنجیدہ ہو تو قبرستان جائے اور زندگی کی بے ثباتی کو خیال میں لائے ان شاء اللہ رنج والم دور ہوگا۔حسب ہدایت اس نے شب میں قبرستان کا رخ کیا، وہاں اسے ایک چراغ کی روشنی میں چار درویش نیم غنودہ حالت میں بیٹھے نظر آئے۔ تھوڑی دیک بعد ایک کو چھینک آئی اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور چاروں درویش بیدار ہو گئے۔ بادشاہ آزاد بخت چھپ کر ان کی آپ بیتی سننے لگا۔
قصہ پہلے درویش کا
پہلا درویش دو زانو بیٹھا اور اپنا قصہ کہنا شروع کیا:
یا معبوداللہ! ذرا ادھر متوجہ ہو اور ماجرا اس بے سرو پا کا سنو!
یہ سر گزشت میری ذرا کان دھر سنو!
مجھ کو فلک نے کر دیا زیر و زبر سنو!