اورنگ عالمگیر کلا طرز حکومت رواداری کا عظیم باب
( 24/اکتوبر 1618ء مطابق 15/ ذی قعدہ،1027ھ ۔۔۔۔۔( 1658ء تا 1707)
اورنگ عالمگیر کلا طرز حکومت رواداری کا عظیم باب۔2
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
جنوبی ہند آج بھی بڑے بڑے مندروں کے لئے مشہور ہے آخر وہ آج تک کیسے قائم ہے اگر اورنگ زیب مندروں کے خلاف تھا تو جنوبی ہند کے موجودہ منادر کس طرح اس سے محفوظ رہے۔ دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر اورنگ زیب اسلامی شریعت کے مطابق مذہبی و معاشرتی کاموں کو کرنے والا تھا تو کیا مندر کو گرا کر اس پر مسجد تعمیر کرنے کی اجازت
شریعت دیتی ہے؟ شریعت میں اس کی قطعی اجازت نہیں کہ دوسروں کی زمین چھین کر یا اس پر قبضہ کر کے اس پر مسجد تعمیر کرلی جائے۔ پھر اگلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا مغل حکمرانوں کے پاس زمینوں کی کمی تھی جس کی وجہ سے مندر کو توڑ نا ضروری سمجھا؟ اور حقیقت یہ ہے کہ عمارت بنانے کا شوق اورنگ زیب کو نہیں تھا۔ خواہ وہ محلات ہوں یا مساجد۔ اسکے زمانے میں زیادہ تر مساجد کی مرمت ہی کی گئی ہے۔
“بنارس فرمان” نام سے مشہور ایک فرمان میں ذکر ہے کہ بنارس کے محلہ گوری میں سکونت پذیر ایک برہمن خاندان کو یہ فرمان جاری کیا گیا تھا جس کی مکمل تفصیل پہلی بار1911ء میں جرنل آف دی رائل ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگا میں شائع ہوئی تھی۔10مارچ1659ء کو اورنگ زیب کے ذریعہ دئیے گئے اس فرمان کے مطابق ایک مسلمان ہندو مندر کو توڑ کر عام لوگوں کے لئے جگہ بنانا چاہتا تھا لیکن اورنگ زیب نے اس پر پابندی لگا دی۔ (بحوالہ بی۔ا ین پانڈے)
شراوک فرقہ کے ستی داس جوہری کو اورنگ زیب نے 1660ء میں نثار اور آبو جی کے پہاڑیوں (اونچائی پر موجود زمین) کو بطور عطیہ دیا اور اپنے عہدے داروں کو حکم بھی دیا کہ ان پہاڑیوں میں سے کوئی ٹیکس نہ وصول کیا جائے اور اگر کوئی بھی دشمن راجہ ان پہاڑیوں پر قبضہ کرنا چاہے تو اس کی حفاظت کی جائے گی۔ اپنے عہد حکومت کے آخری 27سال اورنگ زیب نے جنوبی ہند میں گزارے لیکن اس درمیان کوئی ہندو مندر نہیں توڑا۔
(بحوالہ مندر کا مغلیہ رشتہ، انڈیا ٹو ڈے،[ہندی] مدیر ارون پوری شمارہ 21،15،1۔ستمبر 1987ء۔شری رام شرما مغل شاسکوں کی دھارمک نیتی صفحہ 162)
گیا جو صوبہ بہار کا ایک تاریخی و مذہبی شہر ہے وہاں کے ایک مندر کو اس نے زمین عطیہ کی۔(بحوالہ تاریخ، کشمیر، صفحہ 165، اور اورنگ زیب ایک نئی درشتی، ڈاکٹر اوم پرکاش پرساد۔صفحہ 23)
سچائی یہ ہے کہ سیاسی معاملات میں بغیر کسی تفریق کے ہندو اور مسلمان دونوں اورنگ زیب کا ساتھ دیتے تھے مثال
کے طور پر ایک علاقائی زمیندار “گوکلا” کی رہنمائی میں متھرا کے بیس ہزار جاٹوں نے بغاوت کر دی۔ یہ واقعہ 1669ء کا ہے۔ اس بغاوت کو دبانے کے لئے اورنگ زیب خود گیا اور گوکلا کو سزائے موت ملی۔ اسی طرح 1672ء میں نارنول کے نزدیک کسان اور مغل افسران کے درمیان ایک جنگ جس کا قائد “باغی ستنامی نام” کی ایک مذہبی تنظیم کا صدر تھا۔ شروع میں ان کی لڑائی علاقہ کے افسر سے ہوئی بعد میں یہ بڑی شکل اختیار کر گئی اس لڑائی کو بھی ختم کرنے اورنگ زیب خود گیا۔ اس بغاوت کو کچلنے میں اہم بات یہ تھی کہ علاقہ کے ہندو زمینداروں نے مغلوں کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے یہ بغاوت کچل دی گئی۔
اورنگ زیب ایک حوصلہ مند اور بہادر شخص تھا۔ کسی بھی کام کو بڑی سنجیدگی اور ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر کرنے کی قدرت صلاحیت اس میں تھی۔ ایک طرف جہاں اس نے پندرہ برس کی عمر میں تنہا ایک پاگل ہاتھی کا سامنا کیا وہیں دوسری طرف 87 برس کی عمر میں واگن کھیڑا کا گھیرا(محاصرہ) ڈالنے والوں میں مورچوں کی کھائیوں میں بے خوف کھڑے ہوکر اپنی دلیری و جوانمردی کی مثال پیش کی۔ نزدیک آئے خطرات کے وقت بھی حوصلہ افزا باتیں کرنا اس کی ہمت کا ثبوت ہے۔
دوسرے شاہزادوں کے رہن سہن کے بر خلاف اورنگ زیب بہت سی کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا۔ کافی باریکی سے سوچنے کی عادت اور سنجیدگی پسند اورنگ زیب فارسی ، ترکی اور ہندی بہت اچھی طرح بولتا تھا۔ اسی کی وجہ سے اسلامی قانون کا ایک بڑا ذخیرہ “فتاوی عالمگیری” ہندوستان میں تیار ہوا۔ اورنگ زیب کے اخلاق اتنے اچھے تھے اسی کے سبب جب وہ شہزادہ تھا اس نے اپنے والد کے شاہی دربار میں موجود اعلی ترین عہدیداروں و منصب داروں کو اپنا دوست بنالیا تھا۔ اپنی اس فطرت وخصلت کو بادشاہ بننے کے بعد اورزیادہ بہتر بنایا۔ رعایا نے اسے “شاہی پوشاک میں ایک درویش” کا لقب دیا۔ سادہ اور با اصول زندگی گزارنے والا اورنگ زیب عیش و عشرت سے ہمیشہ دور رہا۔ اس کی چار بیویاں تھیں۔
(1) دل رس بانو
(2) نواب بائی
(3)اورنگ آبادی بیگم
(4) ادئے پوری۔
زندگی کے آخری لمحے تک ادے پوری ہی اس کے ساتھ رہی جس سے اس نے 1660ء میں شادی کی تھی۔
انتظامی امور کو دیکھنے کے لیے وہ سخت محنت کرتا تھا۔ کام کا بوجھ جب زیادہ رہتا تو ایک دن میں دوبار دربار لگاتا۔ شاہی دربار کے اطالوی (اٹلی کے) ڈاکٹر گیمیگی نے خود نوشت میں لکھا ہے:
” اورنگ زیب کا قد ٹھگنا، ناک لمبی ، جسم دبلا پتلا اور بڑھاپے کی وجہ سے جھکا ہوا تھا۔ اسکار رنگ گندمی اور چہرہ گول جس پر سفید داڑھی تھی۔ مختلف کام کاج کے متعلق پیش کی گئی عرضداشت پر وہ خود اپ نے ہاتھ سے حکم لکھتے ہوئے میں نے دیکھا ہے جس کے باعث میرے دل میں اس کے لئے مزید احترام و عزت بڑھ جاتی تھی۔ زیادہ عمر ہونے کے باوجود
لکھنے پڑھنے کا کام کرتے وقت چشمہ نہیں لگاتا تھا۔ اس کے شگفتہ چہرے کو دیکھ کر یہی محسوس ہوتا تھا کہ اسے اپنے کام سے بہت دلچسپی ہے۔”
90/ سال کی عمر میں بھی اس کی چستی پھرتی میں کوئی کمی نہیں تھی اس کی یادداشت بہت تیز تھی اگر کسی کو بھی اس نے دیکھ لیا یا جو بات اس نے ایک بارسن لی وہ پوری زندگی نہیں بھولتا تھا۔ بڑھاپے کی وجہ سے وہ کچھ اونچا ضرور سننے لگا تھا۔ ایک حادثہ میں داہنا گھٹنا اکھڑ گیا تھا جس کا علاج ٹھیک سے نہ ہوسکا تھا اس لئے وہ لنگڑانے لگا تھا۔ اورنگ زیب نے فقیروں جیسا سادہ زندگی گزارنا ہی پسند کیا۔
ماخوذ از کتاب: اورنگ زیب عالمگیر
مصنف: پرویز اشرفی