انسانی ذہن قدرت کاکرشمہ
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
خالق کائنات نے انسانی ذہن کو اس انداز میں بنایا ہے کہ اس کی حقیقت تک رسائی آج تک ممکن نہ ہوسکی ،اس جکائنات میں آج تک جتنی مشینیں بن چکی ہیں یا بن رہی ہیں ان کا کل انسان ہے ۔انسان کی ذات میں خدا نے نور عل،شعور اور وجدان وغیرہ الگ الگ رکھے ہوئے ہیں ۔اگر وجود انسانی تماسم مشینوں کا کل ُ ہے تو اس میں اتنی صلاحتیں ہیں کہ تمام مشینوں کا کام سرانجام دے سکے۔لیکن ہم اس سے تمام مشینوں کا کام لینے سے اس لئے قاصر ہوتے ہیں کہ ہمارے ہاتھوں میں اس وجودکا کنٹرول نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے مختلف Knobsکے بارے میں ہمیں ضروری علم حاصل ہوتا ہے
۔ْاگر ہمیں اس کا علم ہوجائے تو یہی انسان وجود ریڑیو کی طرح بولنے لگتا ہے ۔یہی وجود اس جگہ سے دوسری جگہ چشم زردن مین منتل ہوسکتا ہے۔اس سے ہم ایٹم بم سے زیادہ خطرناسک کام لیسکتے ہیں ۔لیکن ہمارے پاس اس کا کنٹرول پینل نہیں ہوتا اس لئے ہم اس کو کمتر سمجھتے ہیں ۔ہم اپنے آپ کو جتنا وسیع سمجھیں گے اتنا ہی وسع ہوگا جتنا محدود سمجھیں گے اتنا ہی محدود ہوگا ۔
انسا دماغ قدرت کی اعلی تریںاور پیچیدہ تریں تخلیقات میں سے ایک ہے ۔جو قدرت الہی کو سمجھنا چاہتے ہیں انہیں ذہن انسا اور دماغ انسانی کے بارہ کچھ معلومات ضرور ہونی چاہیئں۔انسان زمین پر اللہ کا نائب ہے جسے خلافت کے لئے تخلیق کیا گیا ہے اور انسانی روح کے اندر بے پناہ صلاحیت اور غیرمحدود طاقت ہے اس پر آگے چل کر بات ہوگی ،سر دست ہم ذہن انسانی اور دماغ انسانی پر لکھتے ہیں۔
آپ کے دماغ کی طاقت اتنی زیادہ ہے کوئی پچیس تیس سال پہلے سائنس دانوں نے اندازہ کیا گیا تھا کہ دماغ کے جتنے کردار(Function)ہیں اتنے کام کرنے
کے لئے اگر مشینیں لگائی جایئں تو ایک شہر کی جگہ کے برابر جگہ درکار ہوگی اور اتنی ترقی اور نئے نئے کمپیوٹر ایجاد ہونے کے بعد انہوں اس سائز کو خاصہ کم کرلیا ہے 1995میں ان کو فٹ بال سٹیڈیم کے برابر جگہ درکار تھی ۔
ذہن کی توانائی کی ساہمیت اتنی زیادہ ہے کہ آپ جتنی خوراک کھاتے ہیں اس کا بیس فیصد دماغ استعمال کرتا ہے ،دراصل دماغ ہی ہمارے دل اور پورے جسم کو
کنٹرول کرتا ہے ۔
اس وجود انسانی کی کلید اعظم تصور ہے روحانبی اعمال ہوں یا سائنسی ہنر مندی تصور کا کردار بنیادی ہے اس کے ساتھ وت ارادی بھی اہمیت کی حامل ہے لیکن تصور
زیادہ اہم ہے قوت ارادی تصور یا قوت متخیلہ کا حصہ ہے ،وت متخیلہ کے بغیر قوت ارادی پیدا نہیں ہوسکتی۔تصور کی مدد سے سالک خدا کو پاسکتا ہے ۔لیکن وت ارادی سے خدا کبھی حاصل نہیں ہوسکتا۔قوت متخیلہ ہی وہ سواری ہے جو انسان کو اَن دیکھی اور اَن جانی منزلوں کی طرف لے جاتی ہے۔ اگر انسان اپنے تصور کی باگیں تھام سکے اور اس کلید اعظم سے اپنے وجود کے مقفل دروازے کھولنے ک اہنر رکھتا ہوتو کرامتیں ظہور میں آتی ہیں ۔
اسی نکتے کو اگر ہم تخلیق کائنات کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں تو بات مزید واضح ہوجاتی ہے ۔جب خالق کائنات نے کہا ’’کن‘‘ ہوجا ۔تو اس کے ساتھ ہی کائنات کی ہرچیز اپنی تکمیل کے ساتھ پیدا ہوگئی تھی ۔یہ جاری عمل ہے ۔لیکن ہر شئے کا فیکون اسکے اندر ہے ۔اگر کائنات کی تخلیق میںکن اور اس کے بعد فیکون کی کرشمہ سازی نہ ہوتی یتو یہ کائنات نامکمل ہوتی ۔ایک چھوٹے سے ذرے کے اندر بھئی اس کی تکمیل یا فیکون موجود ہے ۔
ایک ایٹم کے اجزاء کو دیکھ لیں ۔اس کا ہر جز اپنی تکمیل کے ساتھ موجود ہے ۔اس ایٹم کی مدد سے چاہیں تو شہر تعمیر کردیں اور اگر چاہیں تو اس سے ہنستی بستی بستیاں تباہ و برباد کردیں ۔اسی طرح انسان کے اندر فیکون کار فرماہے اور تمام قوتوں کی تکمیل و تشکیل انسانی وجود کے اندر ہے انسان کا مسئلہ ہی ہے کہ وہ اپنے وجود کے بند تالے کو کھولنے والی چابی کو استعمال میں نہیں لاسکتا ۔جو لوگ اپنے وجود کی اس چابی کو استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔
وہ اپنی منفی قوتوں کو کلید اعظم کے زور کے زور پر مرتکز کرتے ہیں اور پھر ان منفی قوتوں کی کمک کے لئے شیطانی منتروں کا ورد یا چاپ کرتے جس سے وہ جو شیطانی کام چاہیں کرسکتے ہیں ۔یہی کالاجادو ہے ۔بعینہ اس طرح مثبت قوتوں کو اسی کلید اعظم کی مدد سے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔دونوں قوتوں کے استعمال کا نکتہ ایک ہے
کیونکہ ان کا خالق بھی ایک ہے ۔
پیٹ خالی رکھو ،بیماریاں نہ پالو۔
دماغ کی تین قسمیں بیان جاتی ہیں ان میں سے ایک لاشعور بھی ہے اور لاشعور وہ طاقت ہے جسے کائنات کی ان لہروں سے منسلک کردیا گیا ہے جسے ماضی حال اور مستقبل کی سب چیزوں کے بارہ علم ہوتا ہے۔قران کریم کی تصریح کے مطابق انسان کی روح میں ہر علم سم کا علم سمودیا گیا ہے علم الاسماء جوکہ باوا انسانیت کو تلقین ہوئی تھی کا جائز طور پر وارث ہے اس میں خدا نے اپنی نیابت کے ساتھ ساتھ اپنی روح بھی
پھونکی تھی[القران] تمام علوم انسان کے اندر روح میں موجود ہیں روح سے یہ علم لاشعور میں آتا ہے زہنی لاشعور کو اپنی کوششوں اور یقین کی مدد سے صحیح طریقے سے کام پر لگاسکتے ہیں اسی لاشعور کے گرد ساری روحانیت گھومتی ہے اس لئے اسے سمجھنا ضروری ہے ۔
ایک خبر اور اطلاع جو آپ کہیں سے سنتے یا حاصل کرتے ہیں لاشعور کو یاد تو ہوجاتی ہیں لیکن اسے ہر وقت اٹھائے نہیں پھر تا بلکہ اسے اپنے مال خانے میں جمع کردیتا ہے ۔دماغ میں کل18ارب خلئے(Cell)ہوتے ہیںاس لئے کسی چیز کو یاد (Retieve)کرنے میں سے مشکل نہیں ہوتی۔کیونکہ ایک خلیہ کی یاداشت کی گنجائش بہت سی ہوتی ہے ۔
انسانی ذہن کمپیوٹر سے ملتے جلتے طریے سے کام کرتا ہے ۔بلکہ ایسا کمپیوٹر جس کے آگے ساری دنیا کے کمپیوٹر ملاکر رکھے جایئں تو بھی ان کی صلاحیت انسانی دماغ کے مقابلے میں اتنی کم ہے جیسے کسی نومولود بچے کا دماغ بالغ آدمی کے دماغ کے سامنے یہ امریکی سائنس دان کے الفاظ ہیں ۔انسانی دماغ مین ایک چھوٹا سارہ ایسا ہوتا ہے جو کبھی تباہ نہیں ہوسکتا چاہئیے اس پر ایٹمی دھماکہ کردیا جائے ۔
ڈاکٹر بھی اب اس بات کو ماننے لگے ہی کہ بہت سی بیماریوں کا تعلق نفسیات اور ذہن سے ہوتا ہے ۔پہلے وہ کہتے تھے کہ30%بیماریاں ذہنی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ،پھر وہ 50%بیماریوں کی وجہ نفسیاتی ماننے لگے ہیں ۔اب وہ تقریباََ75%بیماریوں کی وجہ نفسیاتی بتاتے ہیں۔وہ دن دور نہیں جب وہ 90%تک آجایئں گے ۔