امراض انسانی کا تشخیص نامہ
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ/سعد ورچوئل سکلز پاکستان
یہ مرض کو سمجھنے میں جہاں نہایت سہل ہے وہاں مصدقہ اور تحقیق شدہ اور قانون قدرت اور فطرت کے عین مطابق ہے اس سے مریض جہاں بھی تکلیف بتاتے مرض کی فورا تشخیص ہو جاتی ہے یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ مفرواعضا یا اعضاء رئیسہ صرف تین ہیں۔ جنکے نام ہیں۔ دل ، دماغ اور جگر۔ دل عضلات کا مرکز ہے اور اعصاب کا مرکز دماغ ہے اور جگرغد و و غشار کا مرکز ہے پس تحریکیں بھی تین ہی ہو سکتی ہیں یعنی یا تو تحریک دل میں ہوگی یا دماغ میں یا پھر جگرمیں اور چوتھی تحریک نہیں ہو سکتی کیونکہ جب مفرد اعضا ہی تین ہیں تو چوتھی تحریک ، کہاں سے آئے گی؟ ۔
2:
دوسری بات یہ سمجھ لیں کہ جس مفرد عضو میں تحریک ہوگی اسکے بعد والے منفرد عضو میں تحلیل ہوگی اور تحلیل سے بعد والے مفرد عضو میںتسکین ہوگی۔کیونکہ تحلیل اور تسکین خود کار (قدرتی) تحریک کے تحت ہوتی ہیں ۔ تیسری بات یہ سمجھ لیں کہ جب تک مفرد اعضاء میں تحریکات اعتدال پر ہوتی ہیں تو اسکا نام صحت ہے لیکن جب اسمیں شدت ہو جاتی ہے تو اسکا نام مرض ہے چونکہ تینوں اعضاء اسمیں پردوں کے ذریعے ملے ہوتے ہیں اس تعلق سے ہی انسانی مشین چلتی ہے اسلئے مرض کی تشخیص اور علاج کی سہولت کے لئے ہر مفرد عضو کی دودو تحریکیں بن جاتی ہیں
اعضاء کی دو، دو تحریکیں
اعصاب کی دو تحریکیں اول اعصابی غدی ، دوم اعصابی عضلاتی ہیں۔ عضلات کی دو تحریکیں اول عضلاتی غدی ، عضلاتی اعصابی ہیں۔
غدد وغشاء کی دو تحریکیں اول غدی عضلاتی ، دوم غدی اعصابی ہیں ۔
یاد کر لیں کہ جہاں تحریک شدید ہے وہی مقام مرض ہے اور جہاں پر تحلیل اور تسکین ہیں وہ دونوں اس مرض کی علامتیں ہیں البتہ جس مفرد عضو میں سوزش و مرض ہے وہ جہاں جہاں بھی جسم میں پھیلا ہوا ہے اس تحریک شدید کا اثر آہستہ آہستہ سب جگہ ہوتا ہے کیوں کہ مفرد اعضا جسم ہیں اسطرح اوپر تلے پھیلے ہوئے ہیں کہ جسم کا کوئی ایسا مقام نہیں ہے جہاں پر یہ آپس میں ملے ہوئے نہ ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی جگہ جو درم . و درد اور دانے و سوزش آستہ آہستہ تمام جسم میں پھیل جاتے ہیں اور یہ بھی یادرکھیں کہ مختلف مقامات پر جو مختلف اقسام کی سوزشیں اور اورام اور پھوڑ ہے وابھار ہوتے ہیں ۔وہ مقامات کا مختلف ہونا ہوتا ہے۔
مرض کی شناخت۔۔
اب مریض اپنے جس حصہ جسم پر ہاتھ رکھنے معالج فوراً مفرد اعضاء کی خرابیوں کو جان سکتا اور اپنا علاج یقین کے ساتھ کر سکتا ہے تاکہ قدرت کی قوتوں کے سخت فطری طور پر مریض کو شرطیہ آرام ہو جائے جس مفرد عضومیں تحریک شدید یا سوزش یا درم ہو جاتا ہے تو مرض کے بعد علامات پیدا ہو جاتی ہیں جو بے چینی ، درد، جلن ، سوزش ، ابھار اوربخار وغیرہ سے ظاہر ہوتی ہیں یا درکھیں کہ علامات ہر گز نہ دبا ئیں جیسا کہ فرنگی طب میں کرتے ہیں کیونکہ علامات کا علاج کرنے سے ایک تو مریض کو سخت تکلیف اٹھانی پڑتی ہے
۔دوسرے اگر علامات دب گئیں تو مرض کی تشخیص مکمل نہ ہو سکے گی۔
تیسرے مرض اندر ہی اندرمزمن اور خوفناک ہوتی جائے گی اور مریض موت کے منہ میں چلا جائے گا ۔ پس علامات کا علاج کر کے ان کو دبا دینا نہایت مہلک ہے
آسان طریقہ یہ ہے کہ عضوی اور کیمیا دی تحریک جو پیدا ہو چکی ہے یعنی جس مفرد عضو میں مرض ہے اور اسکے اسباب جو خون میں پیدا ہو چکے ہیں ان کو سمجھ کر اس سے بعد والی تحریک پیدا کر دیں مثلاً اعصابی عضلانی ترین ہے تو عضلاتی اعصابی دوا دیگر مرض کو رفع کریں اسطرح خود مرض لوٹ جائے گی اور بہت جلد شفا ہو گی اب اسکی وجہ بھی سمجھ لیں۔
مفرد اعضا کا باہمی تعلق۔۔۔۔۔
چونکہ تین مفرد اعضاء ہیں اور تینوں کا آپس میں پردوں کے ذریعہ تعلق ہے جن سے انسانی مشین چلتی ہے اور ہر مفرد عضو کی اسطرح دو تحریکیں ہو جاتی ہیں ۔ عین اسی طرح کیفیات بھی تین ہیں اور ہمیشہ دو دو بولی جاتی ہیں کیونکہ مزا جا بھی کبھی کوئی کیفیت مفرد نہیں ہوتی یہ قدرتی ہے یعنی گرمی یا سردی کبھی تنہا نہیں پائی جاتی اور ہمیشہ گرمی خشک گرمی تری ہوگی کیونکہ ہر چیز غذا ہو یا دوا یا زہر یہ ایک طرف مفرد عضو اثر انداز ہوتی ہے اور دوسری طرف خون پر جیسے غدی عضلاتی لگائیے (گرم خشک) اور غدی اعصابی (گرم تر) لیکن اول حصہ مفرد عضور مشینی طور پراثر انداز ہوتا ہے اور اسکا دوسراحصہ خون میں کیمیاوی یا خلفی طور پر اثر کرتا ہے
کیفیات کی تعداد
اسطرح کیفیات بھی 6 ہو جاتی ہیں جیسے اعصابی عضلاتی مرض میں جو تر سرد مزاج ہے اسکا پہلا لفظ اعصابی اعصاب میں رطوبت کی شدت یا سوزش وودرم کو ظاہرکرتا ہے اور دوسرا لفظ عضلاتی خون میں خلطی طور پر کچھ خشکی پیدا کر رہا ہے چونکہ خلطی یا کیمیاوی تحریک ہی صحت کی طرف جاتی ہے یعنی خون کے دور ان کو چالو کرتی ہے اسلئے اس میں شفا ہے اسلئے ہر عضو کی تحریک کے بعد اس سے جو کیمیاری اثرات میں شفا پیدا ہوتے ہیں ان ہی کو بڑھا دینے سے صحت ہوتی ہے بس اسی میں شفا ہے اب یہ ثابت ہو گیا کہ جب اعصابی عضلاتی سوزش و مرض اور ورم ہو تو عضلات اعصابی دیوا دیکر عضلات میں تحریک شدید کردیں اسطرح اعصاب میں تحلیل ہو جاتے گی اور اعصابی مرض اور اسکی علامات بے چینی ، درد ، جلن ، سوزش اور بخار وغیرہ رفع ہو جائیں گے کیونکہ اعصاب و دماغ میں تحلیل کی وجہ سے خون اکٹھا ہو جائے گا اور یہ اپنی گرمی اور حرارت سے مرض اور اسکی علامات کو رفع کر دیگا اور مریض صحت پائے گا یہی قدرتی علاج ہے کیونکہ قدرت خود بھی عضلات کی طرف تحریک کر رہی تھی لیکن قدرت اپنا کام آہستہ آہستہ کرتی ہے جس سے دیر ہو جاتی ہے اور معالج سمجھ کر جب قدرت کی پیروی کرتا ہے تو مریض انجیکشن سے پہلے صحت یاب ہو جاتا ہے
تخلیق و تقسیم جسم۔
قدرت نے جسم کو ا سطرح بنایا ہے کہ اسکے دو حصے داہنا اور بایاں حصہ کر دیئے ہیں اسمیں قدرت کا راز یہ ہے کہ بیماری یا مرض صرف ایک طرف ہوتی ہے چاہیے ئیں طرف ہو یا بائیں طرف البتہ علاج میں غفلت یا غلط علاج کرنے سے مرض رفتہ رفتہ دوسری طرف بھی پھیل جاتی ہے لیکن کمی و پیشی ضرور رہتی ہے یعنی ابتدائی حصہ زیادہ دکھی رہتا ہے جیسے آنکھ یا سر اور ناک یا دانت وغیرہ میں یا تو انہیں طرف تکلیف شروع ہوگی یا بائیں طرف لیکن بعداً دونوں طرف تکلیف پھیل تو ضرور جاتی ہے لیکن کمی دبیشی ضرور رہتی ہے اسمیں قدرت کا یہ راز ہے کہ بیک وقت تمام جسم کو کسی مرض سے انسان پر پہنچے ۔ کہ سب ایک طرف تیری و سوزش اور درد اور جلن ہو جاتی ہے تو قدرت دوسرے مفرد عضو میں تقویت دابتدائی صورت میں تحلیل اور تیسرے مفرد عضومیں تسکین در طوت یا غذائیت پہنچا رہی ہوتی ہےقدرت کی کوشش اسوقت تک جاری رہتی ہے کہ جب تک کوئی مفرد عضو بالکل ناکارہ نہ ہو جائے یعنی مریض کی موت نہ ہو جائے یہ قدرت کا خود کار انسان پر ایک احسان عظیم ہے یعنی خدا کی انسان پر ایک خاص رحمت ہے ۔
جسم کے دو حصے اسطرح کردئے ہیں کہ سر کے درمیان سے جہاں پر مانگ نکلتی ہے وہاں سے ایک سیدھا فرضی خط کے کہ ناک کے اوپر سے سیدھے منہ و ٹھوڑی اور سینہ وپیٹ سے گزرتا ہوا مقعد کی لیکر تک پہنچ جاتا ہے عین اسی طرح پشت کی طرف سے ریڑھ کی ہڈی پر سے گزرتا ہوا یہ خط پہلی مقعد کی لکیر سے مل جاتا ہے اسطرح انسان دوحصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے دایاں حصہ اور بایاں حصہ اور یہ دونوں حصے جدا جدا اپنے اندر بے شمار قدراتی راز رکھتے ہیں۔ ان میں سے کیچھ نبض کے بیان میں بتا بھی چکا ہوں . اب دونوں دوائیں اور بائیں حصوں کو چھو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے
کیونکہ مفرد اعضا کی چھ تحریکیں ہوتی ہیں یعنی ہر حصہ جسم کے تین مقام مقرر کر دیئے ہیں اسطرح ان چھ حدود میں سے کسی ایک میں جب تحریک ، بے چینی ، درد ، جلن، سوزش و درم اور بخار ہو گا تو اصل مرض ہوگی لیکن اگر یہی علامتیں ان مقامات کے علاوہ کسی اور جگہ ہونگی تو ان مقاموں کی علامات ہوگی بس یہی مرض اور علامت میں فرق سے مثلاً اعصابی عضلاتی مرض ہے تو اسکا پہلا لفظ اعصابی مفرد عضو کے ذاتی فعل کو بتاتا ہے یعنی اعصاب میں رطوبت کی تیزی و شدت پیدا کر کے سوزش و ورم پیدا کرتا ہے اور تحریک کا دوسرا لفظ عضلاتی خون میں اس سوزش مغفردعضو کی رطوبات شامل ہو کر کیمیاوی طور پر خلط کو ظاہر کرتا ہے یعنی پہلی کیفیت مشینی ہے اور دوسری کیفیت دموی یا خلطی ہے، اب اس اعصابی عضلاتی مرض کے علاج اس تحریک کو آگے کی طرف بڑھا دینے سے ہو گا یعنی عضلاتی علاج کرنا پڑے گا جس سے خون کا دوران صحیح ہو جائے گا اور مرض رفع ہو جائے گی یہاں اس بات کو خوب یاد کر لیں کہ خون دل سے غدد پر اور غدد سے اعصاب پر چلتا ہوا واپس اپنے اصل مقام قلب میں آجاتا ہے خون کو الٹا نہیں چلایا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مرض کی ہر تحریک کو خون کئے دران کے مطابق آگے کو کیا جانا چاہیئے اسپر جتنا غور کرو گے اتنا ہی زیادہ علم تشخیص پر دسترس حاصل کر لو گے۔