الہامی نسخے ۔یعنی ۔مجربات صالحین
الہامی نسخے ۔یعنی ۔مجربات صالحین
مرتبہ:۔مولانا حکیم ابو الوحید عبدالمجید صاحب خادم ایڈیٹر طبی میگزین۔سوہدرہ ۔ضلع گوجرانوالہ
کچھ کہی ان کہی باتیں۔
جس میں صرف وہی نسخہ جات اور مجربات خاص اہتمام سے جمع کئے گئے ہیں جو مختلف بزرگوں سے مختلف اوقات میں بذریعہ الہام و کشف یا خواب میں بتائے گئے ہیں اور تجربہ پر سو فی صد مفید و کامیاب ثابت ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیش لفظ
مقدس و محترم نسخوں کا مبارک دگرانمایہ مجموعہ جو اسوقت آپ کے زیر مطالعہ ہے اپنے اندروہ تحریم و تقدیس رکھتا ہے۔ جواب تک اورکسی کتاب کو نصیب نہیں ہوئی یعنی اس مکرم گنجینہ مجربات میں وہ پاک اور پوتر دوائیں درج ہیں جو انبیا ، اولیا، صلحا، ابدال ۔غیاث، رشیوںمہرشیوں اوتار وں، منیوں مہاتماؤں، اور دوسرے بزرگوں کو وحی والہام کے ذریعے یا اشارہ داستعارہ کے طور پربتائی گئیں۔ اس قسم کا القاء یا اشارہ بعض اوقات معمولی اشخاص کو بھی ہو جاتا ہے ۔ اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ جب کوئی شخص شدید مرض میں مبتلاہو جاتا ہے ۔ اور دوا دارو کرنے کرانے کے باوجود ما یو سی اُس پر تسلط جما لیتی ہے۔ تو وہ عالم بیم وہر اس میں مضطرب و بیخود ہو کر مایوسوں کی آخری اسی امیدگاہ اور لا تقنطو امن رحمتہ اللہ کی نوید جانفز اسا نیوالے طبیب علی الاطلاق کا سہار الیتا اور اسے عجز وانکسار سے پکارنے لگتا ہے پر اس مجیب الدعوات قاضی الحاجات حکیم مطلق کی حکمت بالغہ جوش میں آتی ہےاور اسے بیداری یا خواب میں بتادیا جاتا ہے کہ فلاںدواکھائویا کھلاؤ پھر وہ دوا چاہے کیسی ہی حقیر اور معمولی سی ہو مریض استعمال کرتا ہےتو اس زبردست حکیم کے حکم سے وہ کامل شفا پاجاتا ہے۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔۔
بغیر حساب اس قسم کے نسخےا گرچہ چندسے باہر ہیں لیکن ہمنے نہایت تحقیق تفحص صرف وہی نسخے مرتب ومتخب کئےہیں جوروایات صحیحہ مطابق درست ہیں۔بفرض محال اگر کوئی سند راست طور پر غلط بھی ہو تواس میں ہمارا کوئی قصور نہیں بلکہ اس کا گناہ روایت کندہ کی گردن پرہو گا : عبدہ۔ابوالوحید عبدالمجید خادم
۔۔۔
الہامی نسخے .الہامی دواؤں کی تاریخ و فضیلت
تاریخ طب کے در ق الٹئے جائیں ۔ تو اطبا کا وہ گروہ کسی ایک سچا نظر آئے گا ۔ جو طب کو الہامی سمجھتا ہے۔ اس جماعت کی رائے میں علم طب بذریعہ وحی و الہام نازل ہوا اور دیوتاؤں ، رشیوں نبیوں اور پیغمبروں نے اس کی بنیاد رکھی ۔ پھر یہ قصہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا۔ بلک طیبوں کا یہ گروہ مذہبی افتراق کی وجہ سے اس میں کئی رنگ آمیزیاں کرتا ہے ۔ اور بہت مختلف خیال دکھائی دیتا ہے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ علم طب کی ابتدا حضرت آدم صفی اللہ سے ہوتی :: عَلَمَ آدَ ہَ الأَسْمَاء كُلما کی آیت کر یہ ہی استدلال کرتے اور ثبوت ہم پہنچاتے ہیں کہ حکیم علی الطلاق جل شانہ نے جناب ابوالبشر علیہ اسلام کو وحی کے
ذریعہ دواؤں اور دیگر اشیاء کا علم سکھایا۔
بعض اصحاب حضرت شیث علیہ السلام کو عظیم طب مانتے ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ سب سے پہلے حضرت داؤد پر اور پھر حضرت سلیمان پرطب نازل ہوئی۔ چنا نچہ زبور میں اس کا ثبوت ملتا ہے۔ ایک جماعت کا قول ہے ۔ یہ جناب لقمان طبیب اول ہیں، اوران پر ہی طب کا نزول ہوا ہے۔ یہودی کہتے ہیں کہ حضرت موسی علیہ اسلام ہی سے طب
وجود عالم شہود
سے منصہ شہود پر جلوہ ریز ہوا۔ چنانچہ روایت ہے کہ ایک بار موچل کے مبارک میں درد اٹھا ۔ تو آپ کوہ طور تشریف لے گئے ۔ اور جناب باری کے حضور میں اپنی تکلیف بیان فرمائی حکیم مطلق نے ارشاد کیا کہ فلاں بوٹی یا فلاں دوا کھاؤ حضرت موسی نے اُس پر عمل کیا، تو درد رفع ہو گیا علی ہذا/ توریت مقدس میں بھی بعض دواؤں کا ذکر موجود ہے۔
نصاری کا خیال ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام طب کے موجد و ملہم ہیں۔ جہاں آپ روحانی علاج کرتے تھے ۔ وہاں جسمانی مداوا بھی فرماتے تھے اسی طرح عیسائیوں کا ایک فرقہ کہتا ہے کہ سب سے اول جناب عیسی کی والدہ ہیں حضرت مریم کو علم طب عطا ہوا۔ اور یہ تو ایک صحیح واقعہ ہے کہ حضرت مسیح کی ولادکے وقت جومریم علی
السلام در درز میں مبتلا ہوئیں۔ تو آپ کو الہام ہوا کہ کھجور کے
درخت کے پاس جا، آپ نے شارہ پاتے ہی کھجور کا رخ کیا۔ اور اس کے پاس کر چند کھجوریں تناول فرمائیں جن کے کھانے سے نہ صرف درد زہ ہی میں سکون نصیب ہوا بلکہ جناب روح اللہ حضرت مسیح علیہ السلام نہایت سہولت کیساتھ دنیا میں تشریف لے آئے۔ قرآن کریم میں وا وحَنَا إِلَى مَرْيَمَ میں اسی اہم واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ اور جب سے اب تک یہ علاج مشہور ہے کہ جب کوئی عورت ولادت کی دشواروں میں گرفتار ہو تو اس کھجوریں یا چھوہارے دودھ میں پکاکے کھلاتے رہیں جس سے تکلیف دور ہو جاتی ہے ۔ مجوسیوں یعنی آتش پرستوں کے زعم میں جناب زطشت پر طلب کا نزول جوا کہتے ہیں کوہند اور کشدندپاؤلا میں، جو اس مذہب کی دو مشہور کتابیں ہیں بہت سی دواؤں کا ذکر یا یا جاتا ہے، مجوسی اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ زرتشت کا کوئی مرید خاص قولنج کی بیماری میں مبتلا ہوا ۔تو اگنی دیوتا نے عالم خواب میں اس سے کہا کہ ارنڈ کے بیج آگ میں بریاں کر کے پانی میں گھوٹ لو اور گرم کر کے پی جاؤ ” مریض نے اس کی تعمیل کی، تو پانچ سات بڑے بڑے سدےخارج ہو ئے اور مرض جاتا رہا۔
برادران ہنود کا عقیدہ ہے کہ آیور دیک جس کے لغوی معنی فن شفا بخشی ہیں برہما جی ریشی نے پایا۔ اور انہی سے تمام دنیا میں پھیلا۔ چنانچہ قدیم دیدوں اور شاستروں میں علم طب اور بیشمار ادویہ کی صراحت موجود ہے۔ علاوہ بریں ایک وایت کے مطابق دھنو متری جی اس علم کے موجد ہیں۔ بند د کہتے ہیں کہ دھنونتری جی نے جس وقت سمندر سے ظہور فرمایا۔ تو آپ کے ایک ہاتھ میں ہلیلہ تھا۔ اور دوسرے ہاتھ میں جونک تھی جس کا فلسفہ یہ ہے کہ آیو رویدک میں معدہ اور خون کا فساد نام بیماریوں کی جڑ ہے۔ چنانچہ امراض معدہ کے لئے ہڑ اور امراض خون کیو اسطے جونک آپ کو عطا کی گئی۔
قدیم آرین
جناب دھنونتری کے چارہاتھ مانتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ اُن کے ایک ہاتھ میں ہرڑا دوسرے میں جونک تیسرے میں لوہا اور چوتھے میں برہمی تھی۔ اور یہی چار چیزیں کل اعضائے انسانی کے امراض کو شفا بخشنے میں کافی تھیں مثلاً : ہلیلہ امراض معدہ کو جونک امراض خون کو ، و با امراض جگر کو اور برہمی امراض دل وباغ کو بقول ہنود یہ چاروں اشیا سب اول دنیا میں پیدا ہوئیں یا علاج معالجہ میں برتی گئیں ، قدیم شاستروں کی اصطلاح میں ان کو چار دست بھی کہتے ہیں، اسی طرح ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ طب کا گیان اندرمہا راج پر جاتی دکھش آدتی، اشونی روشی اتر بیہ مہارشی چرک ، رشی شسرت اور رشی راگ بھٹ پر بھی وقتا فوقتا ہوتار ہایعنی الہامات کے ذریعے بھی دواؤں کا علم ان بزرگوں کو دیا گیا کہتے ہیں کہ جب لنکا کی جنگ میں راون کے ہاتھوں کئی آدمی مجروح اوربہوش ہوئے تو شری رام چندر جی مہاراج کو بھگوان نے کسی بوٹی کا حلیہ بتایا کہ اسکو منگوا کر ہر تو۔ رام جی نے ہنومان کوحکم دیا کہ فلاں پہاڑ پر وہ ٹوٹی ہے ۔ اسے اکھاڑا لاؤ چنانچہ وہ استعمال کی گئی ۔ تو سب لوگ اچھے ہو گئے۔ اسی طرح کرشن جی کوتلسی کے خواص بتائے گئے۔ ایک مرتبہ چرک رشی کہیں جارہے تھے کہ پاؤں میں ٹھوکر آئی کہ گر کر بیہوش ہو گئے ۔ اسی حالت میں اشارہ ہواا کہ جس بو ٹی کے پاس گرے ہو اسی کے پتے چبا کر رس نگل جاؤ اورثنقل کو پاؤں پر باندھو، ہوش آنے پر آپ نے ایسا ہی کیا تو سب تکلیف جاتی رہی جب آپ نے اپنی کتاب ۔چرک سنگھا” میں بھی اس کو لکھ لیا علی ہذالقیاس۔
قدیم آیورویدک (طب ہندی)میں اس قسیم کی کئی روایات مذکور ہیں۔ اور بہت سے نگھنٹوؤں اور سنگھاؤں میں انکی حوالے پائے جاتے ہیں۔ اورحقیقت یہ ہے کہ ہندو مذہب ہی طب کو الہامی مانتےمیں سب زیادہ راسخ الاعتقاد واقعہ ہوا ہے ۔
اہل چین کا خیال ہے کہ شہنشاہ ہوانگ ٹی کو سب سے پیشتر طب وادویہ کا القا ہوا۔ ان کی قدیم روایات کے مطابق اس بادشاہ نے خدا سے خبر پا کرکئی حیرت انگیز علاج کئے ،
یہ شہنشاہ حضرت مسیح سے ۳۶۸۷ سال پہلے ہو گزرا ہے۔ اس کی ایک خشتی کتاب میں جو لندن کے عجائب خانہ میں رکھی ہوئی ہے ۔ مذکور ہے کہ یہ دوائیں خدا کی طرف سے اس کے بنائے چین کے شاہ ہوانگ پر اتریں۔ اس عبارت کے نیچے کوئی چارسو کےقریب دوائیں درج ہیں جن میں سے بعض مشہور دواؤں کے نام یہ ہیں ہے۔ سویا کلپا۔لتا، چاندی، تانبا، جنگلی زیرہ، مچھلی کی ہڈی، چینی گھاس،موتی سمندری سیپ – پودینہ – افیون قدیم چینی کہتے ہیں کہ علاج اور دواؤں کا علم بادشاہ کو خواب میں بتایا جاتا تھا ۔
مصر میں امحو طب ایک مشہور اور عالم طبیب گذرا ہے لیکن قدیم مصری اس کو رب الشفا یا طب کا دیوتا مانتے تھے۔ اور اس کے بت بنا کر پوچھتے تھے ۔ ان کا عقیدہ تھا کہ امحوطب پر غیب سے دوائیں ظاہر ہوتی ہیں جن کے کھانےسے دکھ دورہو جاتے ہیں اُس زمانے میں شفا خانوں کی جگہ مندر ہوا کرتے تھے جہاں میں جا کر پجاریوں اور بنوں سے بیماری کا حال بیان کرتے اور اُن پجاریوں کے ذریعے جود دو کھانے کا حکم ملتا وہی کام میں لاتے تھے۔ روایت ہے، کہ کوئی شخص تین سال سے سنگر ہنی میں گرفتار تھا۔ اور اس عرصہ میں رواج کے مطابق کئی جھاڑ پھونک تعویز گنڈے کر چکا تھا لیکن کچھ بھی فائدہ نہ ہوتا تھا۔ آخر وہ امحو طب کے ثبت کے پاس جا کر سو گیا۔ خواب میں اس کو ایک دیوتا ملا اس نے پوچھا کیوں میاں۔مندر میں کس لئے آئے ہو ؟ مریض نے کہا تین سال سے دست جاری ہیں ۔ علاج کرانے آیا ہوں ممکن ہے۔ دیوتاؤں کی مہربانی سے اچھا ہو جاؤں۔ دیوتا نے جھڑک کر کہا دور ہو۔ بد معاش کہیں کا ناپاک بدن سے مندر میں چلا آیا۔ جا اور گوند کا حلوہ کھا۔ مریض نے گھر آ کے گوند کا حلوہ کھایا ، توشفاپا گیا ۔
بابل کے عجائبات اور علمی وقتی ترقیاں کوئی ڈھکی چھپی نہیں یہ وہی عجیب غریب شہر ہے جو طوفان نوح کے بعد زمین پرسب سے پہلے نظر آیا۔ حال ہی میں آثار قدیمہ کے ماہرین نے اس کے اورنینوا کے کھنڈروں سے جو پرانی خشتی کتا بیں بر آمد کی ہیں ۔ اُن کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اہل بابل میں علم طب اس طرح شروع ہوا، کہ واقف اور تجربہ کارلوگ جنہیں بیماریوں کی شناخت ہوتی ہے، مریض کے سامنے آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاتے اورخدا یا کسی دیوتا سے دعا مامانگتے اسی حالت میں ان کو الہام یا القا ہوتا کہ اسکو فلاں دوا کھلاؤ پس وہ چیز کھلانے سے مرض دفع ہو جاتا تھا۔
عبرانی لوگ بھی اس طریق سے علاج کراتے تھے۔ قدیم عبرانیوں سے اس قسم کی بہت سی رواتیں اورحکایتیں ان کے قدیم لٹریچر میں موجود ہیں جن کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ۔
قدیم یونانی بھی حصول شفا کے لئے دہی ذرائع اختیار کرتے تھے جن کا اوپر کئی بار کرکیا جا چکا ہے، یونانیوں کا ایک دیوتا تھا ۔ استقلی بیوس ۔ یہ ان کا رب الشفاء تھا ۔ مندروں میں اُس کے مجسمے نصب تھے۔ اور ہر ایک مندر میں ایک ایک پجاری رہتا تھا جس کےپاس مریض جاتے تھے پجاری مریض کو مندر کے بڑے کمرے میں سلا دیتا تھا۔ نیند کی حالت میں وہ دیوتا کی زیارت کرتا اور اسکواپنی تکلیف سناتا تھا ، پھر دیوتا اس کے لئے دوا تجویز کرتا اور اس طرح مرضی صحت حاصل کر لیتا تھا۔
اہل یونان کی روایت کے مطابق سب سے پہلا مرکب جو دوا کے طور پر برتا گیا، ایارج۔ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کا نسخہ مفصل تذکرہ اسی کتاب میں کسی جگہ درج ہے ۔ملاحظہ فرمائے
پرانے رومی بھی الہامی طب کے قائل تھے ۔ اور اُن کے ہاں بھی دیوتاؤںکے ذریعہ علاج کرانے کی رسم تھی۔
اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک مذاہب میں بھی کم بیشتر الہامی دواؤں کی روایات ملتی ہیں لیکن قلت گنجائش کی وجہ سے ہم اُن کو درج نہیں کر سکے۔ ہم مسلمان طب کو مستقل طور پر الہامی نہیں مانتے ، بلکہ دوسرے علوم وفنون کی کتاب کو بھی آیا علم اور فن جانتے ہیں لیکن اس سے انکار نہیں۔ کہ ہماری الہامی اور آسمانی کتاب قرآن حکیم میں کئی قسم کےقونیں طب موجودہیں اور طب حکمت کو خیر کثیر کا یہ عطافرمایا گیا ہے۔ اسی طرح اس مقدس د محترم کتاب میں بہت سی دوائوں کا بھی ذکر آتا ہے مثلاً: شہد موتی، مونگا۔ سونٹھ ۔ شیر خشت ، دو دھ چاندی سونا ،حریر ،پیاز تھوم مسور، خربوزہ ، ساگ پات گندم تصویر کھجور انگور وغیرہ ان چیزوں کا مفصل تذکر کسی وقت علیحدہ کتاب میں شائع کریں گے۔ علاوہ بریں حضور سرور عالم علیہ التحیۃو السلام کی احادیث متبرکہ میں بھی بہت سی دوائیں اور بعض امراض کے مداوے ثابت ہیں جو طب نبوی کے نام سے معروف ہیں، یہ امر اس قسم کی دوسری روایات چاہے کوئی ان کو ضعیف سمجھے یا قوی موضوع جانے یا اصلی مجازی مانے یا حقیقی اور باطل ٹھہرائے یا صادق صاف ظاہر کرتی ہیں کہ ہر زمانہ میں حق سبحانہ اپنے محبوب بندوں پر طب کا کچھ نہ کچھ حصہ وحی والہام اشارہ و استعارہ اور القا، رویا کے ذریعے نازل فرماتارہا ہے۔ اور اب جبکہ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق وحی کا دروازہ بند ہو چکا ہے بعض صحاب کو خواب یا بیداری میں اشارہ کے طور پر علم ہو جاتا ہے ۔ کہ فلاں مرض میں فلاں چیز برتی جائے۔ پھر جب استعمال کیا جاتا ہے۔ تواس معمولی او حقیر سی دوا کی معجز انما اورسحرافزا تاثیر کو دیکھےکربقراط اور جالینوس کی روحیں بھی گوشہ لحد میں جھومنے لگتی ہیں۔ اور وہ فوائدظہور میں آتی ہیں۔ جوانسان کے سان وگمان میں بھی نہیں ہوتے ۔
ممکن ہے۔ کہ اطبا یا عام پڑھے لکھے لوگوں کا وہ مغرب زدہ گردہ جو سائینس اور کیمیسٹری کو قدرت کا حریف سمجھتا ہے اور برقی و بخار( بجلی اور بھاپ) کے کرشموں کو دیکھ کر خداکی ہستی ہی کا منکر ہو رہا ہے، ہماری اس تحریر سے بہت جزیز ہوا اور الہامی داؤوں ، ان کی فضیلت اور اُن کے معجربات کے ماننے ہی سے انکار کر دے یا اس کی دلیل وثبوت طلب کرے سو اس جماعت کو سب سے اول ہم یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ ہے
برق گر جائیگی اک دن اور اڑ جائیگی بھاپ
دیکھنا اکبر چائے رکھنا اپنے آپکے اس کے بعد یہ گزارش ہے کہ بھلا انسان کو تو چھوڑیے ۔ کہ ظن، قیاس وہم ، وسواس جھوٹ اور مبالغہ سے بھی کام لیتا ہے، آپ ذرا حیوانات ہی کو لیجئے اور آپ پسند اور بھی حیران ہونگے کہ حکیم مطلق ان سے بھی ہم کلاکام ہوتا ہے ۔ اور ان کو آگاہ فرماتا ہے ، کہ یہ کام اس طرح کرور یہ چیز اس طرح بنائو۔ فلاں چیز تمہارے لئے مفید ہے، فلاں زہر ہے شہد کی مکھی پر وحی نازل فرمائی وَاَوَحَيْنَا اِلَی النخل کہ پہلے موم سے گھر بناؤ پھر یہ پھول سونگھو۔ ان کی ذرا ذراسی مٹھاس پیٹ میں جمع کرتی جاؤ پھر موم کے گھر میں جا کر مٹھاس اُگل ڈالو تو شہد بن جائیگا چیونٹی کو باد و باراں کی آمد سے پہلے متنبہ کر دیا جاتا ہے کہ اپنے انڈے اٹھا کے سوراخوں میں بھر لو اور اشیائےخوردنی کا ذخیرہ کر لو۔
طب اور جانور
ایک شخص بندروں کے مارنے کی غرض سے حلوے میں زہر ملا دیتا ہے بند ر کھانے سے پہلے اسے سونگھتے ہیں اورمعلوم کر لیتے ہیں کہ اس میں زہر ہے ایک بندر اُٹھتا ہے۔ اور کسی درخت کی لکڑی لا کر حلوے میں پھیرتا ہے، پھر تمام بندر حلوے کو چٹ کر جاتے ہیں لیکن ان کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔ بتاؤ کیا یہ بندر بھی کسی جالینوس یا بقراط کے شاگرد تھے، یا ان کا استاد وہی طبیب مطلق تھا۔ جس نے زہروں کا تریاق حیوانات کو بھی سکھا دیا۔ سبزی خور حیوان چرتے چھتے جب کوئی زہریلی بوٹی دیکھ پاتے ہیں۔ تو ہر گز نہیں کھاتے ، چو ہے زہر کھالیں ۔ تو پانی کی تلاش میں پھر تے ہیں۔ اگر مل جائے تو اُسے پی کر بچ جاتے ہیں ۔کتا کوئی مضر چیز کھالے توقے کر ڈالتا ہے۔ ایکبار کووں میں بیماری پھیل گئی ۔کئی کوے ہلاک ہو گئے چند روز کے بعد کیا دیکھتے ہیں کہ کوے آپس میں حقنہ کر رہے ہیں ۔ اور اُس کی لئے جو پانی برتتے ہیں۔ کسی خاص جگہ سے لاتے ہیں۔ اس تدبیر سےاُن کی وبا دور ہو گئی ۔
اب بتائیے کیا یہ شواہد، یہ دلائل یہ براہین، اس بات کو ثابت نہیں کرتی کہ اشرف المخلوقات انسان سے لے کر ضعیف الموجودات حیوان تک اپنے مالک حقیقی سےوہ تمام باتیں سیکھ جاتا ہے جن کی اسے ہرفت ضرورت ہے۔ اور جن میں طب اور دواؤں کا علم بھی شامل ہے ۔
فتبارک اللہ حسن خالقین !
آیئے ! اب ہم آپ کو بتائیں کہ ” الہامی نسخے کیا ہیں؟۔ کن کن امراض میں مفید ہیں۔ وہ کس طرح ناز ل ہوئے کس پر اُترے۔ اُن کی فضیلت وبرتری کیوں ہے۔ اس اجمال کی تفصیل ذیل میں ملاحظہ فرمائیے۔ اور خداکا شکر بجالا ئے کہ اُس نے ہمارے فائدے کے لئے کیا کیاعجیب چیزیں تخلیق فرمائی ہیں ۔