ادویات کے منافع ومضرات کیا ہوتے ہیں؟
قسط دوم۔
عمومی طورپر نسخوں کو ان کے لکھے ہوئے فوائد کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے۔ضرورت مند جب مطالعہ کرتا ہےکہ اس کی ضرورت کا ذکر موجود ہے تو نسخہ بنانے کی تدابیر کرتا ہے۔اس سلسلہ میں کئی رکاوٹیں پیش آتی ہیں سب سے پہلی رکاوٹ تو یہ کہ ہے اس کے اجزاء کو تلاش کرنا ہی جان جوکھوں کا کام ہے۔پھر بنانے کی ترکیب اس قدر پیچیدہ ہوتی ہے کہ بہت سا وقت کا صرف ہوتا ہے۔پھر مرحلہ استعمال کا آتا ہے۔
اناڑی کو معلوم نہیں ہوتا کہ نسخہ کا استعمال کیا ہے؟۔
جب ناکافی معلومات کی وجہ سے ضرورت مند نسخہ کو استعمال کرتا ہے تو اس کے سامنے نسخہ کے منافع و مضرات نہیں ہوتے۔جس سے نقصان کا خدشہ رہتا ہے۔اس سلسلہ میں انگریزی ادویات کے ڈبہ پر لکھی ہوئی ہدایات میں ایک بات یہ بھی ہوتی ہے کہ نسخہ کو ڈاکٹر کی ہدایت مطابق استعمال کریں۔
نقصان کی صورت میں اپنے معالج سے رجوع کریں۔جب کہ دیسی نسخہ جات کو اتنا لاوارث سمجھاجاتا
یہ بھی پڑھئے
ہے کہ تیمار داری کے لئے آئے ہوئے لوگ بھی مریض کو دو چار نسخے مع فوائد بتاجاتے ہیں ۔کہ فلاں فلاں چیزیں آپ استعمال کریں۔بیماری سے جان چھوٹ جائے گی۔
دیسی طب میں منافع و مضرات پر بحث۔
بہت پہلے طبی کتب ۔عقاقیر کے فوائد پر مبنی کتب میں لکھا ہوا پڑھتا تھا کہ فلاض چیز فلاں عضو فلاں بیماری کے کے لئے فائدہ مند ہے اور ۔فلاں عضو اور فلاں علامات والے مریض کے لئے غیر نافع ہے۔،ساتھ میں مقدار خوراک۔ بھی لکھا ہوتا تھا۔عمومی طورپر ان ہدایات کو معالجین نظر انداز کردیتے ہیں۔
قرابدینی نسخہ جات۔
عمومی طورپرفارماکوپیاز۔اور قرابدین۔اور بیاضوں میں اجزاء کے اوزان کو دیکھیں تو بہت باریکی دکھائی دیتی ہے۔مثلاََ نسخہ ترتیب دیتے وقت۔ماشہ، رتیوں تک کا حساب رکھا جاتا ہے۔عربی، فارسی وغیرہ زبانوں میں لکھی ہوئی کتب یا آج سے تقریباپچاس۔سال پہلے تحریر شدہ طبی دستاویزات کو دیکھیں تو اوزان میں احتیاط واضح دکھائی دیتی ہے۔
سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان کے کمپوزروں کو اس وقت مشکلات کا سامانا کرنا پڑتا ہے جب نسخہ جات میں فیصد اور اعشاریوں۔اور بٹوں کے حساب لکھنے پڑتے ہیں۔۔اوزان کو پنساری لوگ دیکھتے ہیں نہ معالجین اس طرف توجہ دیتے ہیں۔۔جب کہ نسخہ جات کی روح خالص اجزاء اور ان کے اوزان ہوتے ہیں۔
انہیں کی بنیاد پر منافع و مضرات لکھے جاتے ہیں۔
ایک ماہر طبیب حازق معالج اپنی ضرورت اور تجربہ کے تحت کسی بھی دوا کو کہیں بھی استعمال میں لاسکتا ہے۔یہ نسخہ سے زیادہ معالج کا تجربہ ہوگا۔۔جب طب میں مہارت پیدا ہوجاتی ہے تو ان لمبے چوڑے نسخوں کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
درمیانہ راستہ۔
جولوگ علم العقاقیر میں مہارت رکھتے ہیں انہیں عمومی طورپر لمبے چوڑے نسخوں کی ضرورت پیش نہیں آتی۔وہ مریض کے لئے مفردات ہی تجویز کرتے ہیں۔اگر معالج محسوس کرے کہ مرض میں شدت ہے اور دوا اس پائے کی نہیں ہے تو امدادی طورپر ایک دو اجزاء کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ مفردات کام نہیں کرتے؟بلکہ مرض کی شدت و خفت کی بنیاد پر اجزاء میں کمی پیشی کردیتی جاتی ہے۔
اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے۔
جب مفردات سے کام لیا جاتا ہے تو معالج و مریض دونوں کے لئے آسانی رہتی ہے۔مریض بھاری خرچہ سے بچ جاتا ہے۔معالج کو اس مرف دوا کے منافع و مضرات کا گہرا علم و تجربہ مل جاتا ہے۔اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ مرض کی کس نوعیت میں کتنی مقدار میں دوا کارآمد ہوگی۔۔۔یوں معالج کے تجربے میں دن بدن اضافہ ہوتا جاتا ہے۔مشاہدات کی نت نی دنیا سامنے آتی ہے۔ اس جہت سے معالج جتنی کوشش کرتا ہے اس کے سامنے مفردات کے فوائد کی حیرت انگیز دنیا کھلتی جاتی ہے۔۔۔
بقیہ اگلی قسط میں۔۔