ابوبکرمحمد بن زکریا رازی کا میدان طب میں کردار
ابوبکرمحمد بن زکریا رازی کا میدان طب میں کردار
قاری محمد یونس شاہد میو
اسلامی طب مسلسل ارتقاء کے منازل طے کرتی رہی، انہوں نے یونانی اطبا کے تنائج پر ناقدانہ نظر ڈالی اور کئ نظریات کو باطل قرار دے کر متبادل نظریات قائم کئے جو بار بار کے تجربات سے درست ثابت ہوئے ۔یوں مسلمانوں نے یونانی نظام طب کو بعینہ قبول کرنے کے بجائے سخت ناقدانہ اور مجتھدانہ روش اختیار کرتے ہوئے طب عربی/طب اسلامی کا نظام وضع کر لیا ۔
اس میں رازی کا نام ہمیشہ احترام سے لیا جائے گا ۔رازی کو مغرب میں Rhazes کہا جاتا ہے ۔ابو بکر محمد بن زکریا رازی 251ھج میں رے(ایران) میں پیدا ہوا ۔بغداد میں حنین ابن اسحاق کے ایک شاگرد سے طب کا علم حاصل کیا۔ علی ربن الطبری سے بھی علم حاصل کرنے کی روایت ملتی ہے ۔اس نے یہ علم ادھیڑ عمری میں حاصل کیا تھا ،کچھ عرصہ رے کے ہسپتال کا افسر اعلی رہا پھر بغداد کے ہسپتال میں افسر اطبا(Seniour Doctor ) مقرر کیا گیا، اس طرح رازی کو تجربات کا بہت موقع ملا، رازی غیر معمولی کیسسز کو باقاعدہ نوٹ کر لیا کرتا تھا اور کیس کے ہر مرحلے کی اسٹڈی کرتا تھا، بعض اوقات وہ ایسے مشکل امراض کی تشخیص کر لیتا تھا جس میں دیگر اطبا ناکام رہتے تھے ۔
رازی نفسیاتی علاج پر بھی یقین رکھتا تھا ۔ایک سامانی امیر منصور بن نوح جب پیروں کو مفلوج کر دینے والی بیماری کا شکار ہوا تو رازی کو علاج کے لئے بلایا گیا، رازی نے اس کا علاج نفسیاتی جھٹکے psychological shock دے کر کیا جس سے امیر منصور تندرست ہو کر اپنے پیروں پر چلنے کے قابل ہو گیا ۔
رازی بہت بڑا ماہر تشریح الاعضاء Anatomist بھی تھا ۔اس پر اس کی “کتاب المنصوری” کا حوالہ دیا جا سکتا ہے
۔اس کتاب میں وہ دل کی ساخت ،وریدوں veins اور شریانوں arteries کے بارے میں حیرت انگیز معلومات فراہم کرتا ہے ۔
رازی نے مختلف علوم پر 200 کتابیں لکھیں جن میں خاص طب پر 130 ضخیم اور 28 مختصر کتابیں(جنہیں رسائل طب بھی کہا جا سکتا ہے )شامل ہیں ۔رازی کی سب سے ضخیم طبی کتاب “الحاوی” ہے، اس سے زیادہ مفصل کتاب آج تک کسی طبیب نے نہیں لکھی نہ مشرق میں نہ مغرب میں ۔الحاوی کی تالیف پر رازی نے پندرہ برس صرف کئے، مسلمانوں نے اس علمی ورثے کی بڑی حفاظت کی اور اسے ضائع نہیں ہونے دیا ۔حیدرآباد دکن سے الحاوی 22 جلدوں میں شائع ہو چکی ہے ۔ یہ کتاب عرب میڈیسن میں لینڈ مارک ہے ۔اس کتاب میں طب کے ہر مسئلے پر تمام یونانی اور عرب اطباء کی آرا نقل کرنے کے بعد رازی نے اپنی طبی رائے بیان کی ہے اور دلائل کے طور پر اپنے طبی تجربات بیان کئے ہیں ۔الحاوی کے بعض حصے یورپ میں علم طب کے درسی نصاب میں صدیوں شامل رہے۔
سسلی کے ایک یہودی طبیب فرج ابن سالم نے الحاوی کا لاطینی میں ترجمہ کیا(678ھج/1278ء)۔ یورپ میں زر کثیر خرچ کر کے اس کتاب کو 1486 میں
شائع کیا گیا ۔۔۔جس کے پھر 50 سال کے اندر پانچ ایڈیشن شائع کئے گئے
رازی کی دوسری کتاب جس نے مشرق و مغرب میں یکساں شہرت حاصل کی “کتاب المنصوری “یا “طب المنصوری “ہے۔اسے لاطینی میں Liber Almansoris کہتے ہیں ۔ اس میں علم تشریح الاعضاء سے بحث کی گئی ہے ۔
رازی کی کثیر التعداد تالیفات میں سے “الجدری والحصبہ ” وہ مشہور کتاب ہے جس کا یورپ میں بڑا خیر مقدم کیا گیا ۔یہ کتاب چیچک اور خسرہ سے متعلق ہے ۔رازی نے خون کے خمیر میں چیچک کا سبب دریافت کیا اور البرٹ بک سے صدیوں پہلےکئ بیماریوں کے سلسلےمیں جراثیم کی پیدائش کا خدشہ ظاہر کیا ہے ۔آغاز ہی میں اس کتاب کا ترجمہ لاطینی زبان میں ہو گیا پھر انگریزی ترجمے کے بھی متعدد ایڈیشن شائع کئے گئے ۔
“الطب الروحانی ” یا “طب النفوس “رازی کی وہ کتاب ہے جو روح کی طب پر ہے، اس کتاب میں اس نے بتایاہے کے انسان کے نفسیاتی اور اخلاقی عوارض کا علاج کیسے کیا جا سکتا ہے ۔
رازی کی دیگر طبی تصانیف میں الجامع۔۔۔۔المدخل۔۔۔۔المرشد ۔۔۔الطب الملوکی ۔۔۔۔الکافی اور الفاخر وغیرہ شامل ہیں ۔رازی ہی نے سب سے پہلے الکحل کو دافع عفونت antiseptic کے طور پر استعمال کیا ۔اسی نے سب سے پہلے پارے کو بطور سہل purgative استعمال کیا، جس کو قرون وسطی کے مغرب میں “سفید رازی “album rhasis کے نام سے موسوم کرتے تھے ۔
رازی کے فلسفیانہ عقائد انکار نبوت پر مبنی تھے،اس حوالےسے اس پر تنقید تو ہوئی لیکن طب کے میدان میں اس ہی کے قول کو قول فیصل مانا جاتا تھا ۔آج بھی پیرس یونیورسٹی کی دیواروں پر دو مسلمان طبیبوں کی تصاویر کو امتیازی طور پر آویزاں کیا جاتا ہے، ایک رازی دوسرے بو