مولانا وحید الدین خان کا سفر میوات ایک علمی و تجزیاتی مطالعہ

0 comment 31 views

مولانا وحید الدین خان کا سفر میوات ایک علمی و تجزیاتی مطالعہ

Advertisements

حکیم المیوات قری محمد یونس شاہد میو

1. تعارف

یہ رپورٹ مولانا وحید الدین خان کی شخصیت، ان کے فکری سفر، اور ان کی تصنیف “میوات کا سفر” کا ایک علمی و تجزیاتی مطالعہ پیش کرتی ہے۔ اس کا مقصد مولانا کی زندگی کے اہم پہلوؤں، ان کے علمی و دعوتی کام کی نوعیت، اور میوات کے تاریخی، سماجی اور ثقافتی پس منظر کو واضح کرنا ہے۔ یہ رپورٹ دستیاب معلومات کی بنیاد پر مولانا کے میوات کے سفر اور اس کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیتی ہے۔

1.1. مولانا وحید الدین خان: ایک تعارفی خاکہ

مولانا وحید الدین خان، جو 1 جنوری 1925 کو اتر پردیش، ہندوستان کے ضلع اعظم گڑھ کے گاؤں مڈاریا میں پیدا ہوئے ، عالم اسلام کے ایک مشہور اسکالر اور سماجی مصلح کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی ابتدائی زندگی میں ہی والد فرید الدین خان کا انتقال ہو گیا تھا، جس کے بعد ان کی پرورش والدہ زیب النساء خاتون نے کی اور چچا صوفی عبد الحمید خان نے ان کی تعلیم کی ذمہ داری سنبھالی ۔ انہوں نے اپنی بنیادی مذہبی تعلیم مدرسۃ الاصلاح، سرائے میر، اعظم گڑھ سے حاصل کی، جہاں سے وہ 1944 میں فارغ التحصیل ہوئے ۔ روایتی تعلیم کے بعد، انہوں نے جدید علوم اور انگریزی زبان کا ذاتی مطالعہ شروع کیا، جس سے ان کی علمی وسعت میں اضافہ ہوا ۔ مولانا 21 اپریل 2021 کو 96 برس کی عمر میں دہلی کے اپولو اسپتال میں کووڈ-19 کے باعث انتقال کر گئے ۔  

مولانا کا فکری سفر چار نمایاں ادوار پر مشتمل ہے: 1948 تک مدرسۃ الاصلاح سے فراغت کے بعد دین کے از سر نو مطالعے کا دور؛ 1948 سے 1963 تک جماعت اسلامی کے ساتھ تعلق کا دور؛ 1963 سے 1976 تک روایتی مذہبی فکر سے تعلق کا دور؛ اور 1976 میں ماہنامہ “الرسالہ” کے اجراء سے لے کر 2021 میں وفات تک کا دور ۔ ان کی تحریریں، جو اردو، عربی اور انگریزی میں 200 سے زائد کتب پر مشتمل ہیں، ان کی علمی قابلیت کا سب سے بڑا ثبوت ہیں ۔ ان کی مشہور تصانیف میں “تذکیر القرآن” نمایاں ہے ۔ ان کی صاحبزادی ڈاکٹر فریدہ خانم نے ان کی اردو کتب کے انگریزی تراجم میں اہم کردار ادا کیا، جس کا اعتراف مولانا نے خود کیا ۔ وہ عربی، انگریزی، اردو اور ہندی پر عبور رکھتے

تھے ۔  

مولانا وحید الدین خان کو دانشور طبقے میں عام طور پر امن پسند مانا جاتا تھا ۔ ان کا بنیادی مقصد مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا اور غیر مسلموں میں اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنا تھا ۔ انہیں ہندوستان کے دوسرے سب سے بڑے شہری اعزاز پدم وبھوشن سے نوازا گیا ۔ ان کے فکری ارتقاء اور جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت سے ان کی علیحدگی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مستقل علمی جستجو اور قائم شدہ فکری دھاروں سے انحراف کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے۔ انہوں نے جدید سائنسی دلائل سے اسلام کی حقانیت کو واضح کرنے پر زور دیا ، جو ان کی یہ گہری بصیرت کو ظاہر کرتا ہے کہ روایتی اسلامی علم اور عصری فکری مباحث کے درمیان ایک پل تعمیر کرنا ضروری ہے۔ یہ نقطہ نظر ان کے تمام علمی کام میں جھلکتا ہے، اور اس کا اطلاق ان کے سفرناموں، بشمول “میوات کا سفر” پر بھی ہوتا ہے۔  

1.2. میوات: تاریخی، سماجی اور ثقافتی پس منظر

میوات ایک وسیع تاریخی پس منظر کا حامل علاقہ ہے، جس کا تعلق پانچویں صدی کی قدیم متسیہ بادشاہت سے جوڑا جاتا ہے ۔ 1372 سے 1527 تک، اس پر خانزادہ راجپوتوں نے حکمرانی کی، جو دراصل ہندو راجپوت تھے جو بعد میں مسلمان ہوئے ۔ سلطان فیروز شاہ تغلق نے 1372 میں کوٹلہ قلعہ کے راجہ ناہر خان (سابقہ راجا سونپر پال) کو میوات کی سرداری عطا کی، جس سے یہ ایک موروثی طرز حکمرانی کا آغاز ہوا ۔ میواتی خانزادہ حکمرانوں کا دور 1527 میں حسن خان میواتی کی جنگ خانوا میں وفات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، جس کے بعد میوات مغل سلطنت کا حصہ بن گیا ۔  

جغرافیائی طور پر، میوات میں ہریانہ کے ضلع نوح اور تحصیل ہتھن، راجستھان کے ضلع الور (تجارہ، کشن گڑھ باس، رام گڑھ، لکشمن گڑھ تحصیلیں) اور اراولی رینج، بھرت پور ضلع (پہاڑی، نگر، کمان تحصیلیں) اور اتر پردیش کے ضلع متھرا کا کچھ حصہ شامل تھا ۔  

میوات کا سماجی و ثقافتی ڈھانچہ منفرد ہے، جہاں 2016 میں میواتیوں کی کل تعداد 400,000 تھی ۔ یہ لوگ خود کو رام، ارجن اور کرشن کی اولاد بتاتے ہیں، جو ان کے ہندو پس منظر کی عکاسی کرتا ہے ۔ اس علاقے میں ہندو اور مسلم تہذیب کا ملا جلا رنگ نظر آتا ہے، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ میواتی مسلمان اپنی اسلامی شناخت کو مزید مضبوط کر رہے ہیں ۔ میواتی زبان، جو ہریانوی اور راجستھانی کا امتزاج ہے، دیہاتوں میں بولی جاتی ہے ۔ یہ علاقہ بھارتی کلاسیکی موسیقی کے “میواتی گھرانہ” کا بھی مرکز ہے ۔  

میوات صدیوں سے مسلم اکثریتی علاقہ رہا ہے، لیکن تعلیمی لحاظ سے پسماندگی کا شکار تھا ۔ اس تعلیمی خلا کو پر کرنے کے لیے تبلیغی جماعت نے اہم کردار ادا کیا۔ مولانا الیاس، جو تبلیغی جماعت کے بانی تھے، اور ان کے والد مولانا اسماعیل نے نظام الدین، دہلی میں میواتیوں کو دینی تعلیم سے جوڑنے کی کوششیں کیں ۔ مولانا الیاس نے 1920 میں میوات میں دینی بیداری کا جائزہ لیا اور 1922 میں نوح شہر میں ایک بڑے مدرسے کی بنیاد رکھی ۔ 1925 میں، فیروزپور نمک گاؤں کی بڑی مسجد سے گھاسیڑا گاؤں کے لیے پہلی تبلیغی جماعت روانہ کی گئی، جس نے میوات اور تبلیغی جماعت کے درمیان ایک مضبوط تاریخی رشتہ قائم کیا ۔  

2. “میوات کا سفر” کتاب کا تجزیہ

مولانا وحید الدین خان کی تصنیف “میوات کا سفر” ان کے مشہور سفرناموں میں سے ایک ہے ۔ یہ کتاب 1988 میں مکتبہ الرسالہ، نظام الدین ویسٹ، نئی دہلی سے شائع ہوئی اور 222 صفحات پر مشتمل ہے ۔ یہ کتاب ان کی ان تحریروں کا حصہ ہے جو ان کی ڈائریوں اور مشاہدات پر مبنی ہیں ۔ ان کے سفرنامے، بشمول “میوات کا سفر”، ان کے دنیا بھر کے اسفار کے دوران حاصل کردہ منفرد تجربات اور بصیرتوں کا مجموعہ ہیں، جو عالمی رہنماؤں، ممتاز اسکالرز اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ ان کی ملاقاتوں پر مشتمل ہیں ۔ ان کے سفرنامے قاری کو زندگی کے تجربات اور روحانی و عملی اسباق سے روشناس کراتے ہیں ۔  

2.1. کتاب کا تعارف اور مرکزی موضوعات

“میوات کا سفر” مولانا وحید الدین خان کے ان سفرناموں میں شامل ہے جو ان کی وسیع سفری سرگرمیوں کا حصہ ہیں ۔ ان کی تحریریں ان کے پڑھنے، سوچنے اور مشاہدہ کرنے کی پوری زندگی کا عکاس ہیں، جسے وہ اپنی ڈائریوں کے صفحات کا حصہ قرار دیتے تھے ۔ ان کی یہ کتاب بھی اسی فکری سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس میں وہ اپنے سفری تجربات سے گہرے روحانی اور عملی اسباق اخذ کرتے ہیں ۔ تاہم، دستیاب معلومات میں “میوات کا سفر” کے تفصیلی مندرجات یا اس کے اہم نکات کا خلاصہ موجود نہیں ہے ۔ یہ کتاب اردو ادب میں سفرنامے کے زمرے میں آتی ہے اور ریختہ بُکس لائبریری پر آن لائن دستیاب ہے ۔  

2.2. میوات کے بارے میں مولانا کے مشاہدات و افکار

دستیاب معلومات میں مولانا وحید الدین خان کے میوات کے سفر کے دوران کیے گئے مخصوص مشاہدات یا ان کے تفصیلی افکار کا براہ راست ذکر نہیں ہے ۔ تاہم، ان کی عمومی فکری روش اور تحریری انداز سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے مشاہدات کس نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔ مولانا کی پوری زندگی پڑھنے، سوچنے اور مشاہدہ کرنے میں گزری، اور وہ فطرت اور انسانی تاریخ دونوں کا گہرا مطالعہ کرتے تھے ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا میوات کا سفر بھی محض ایک سیاحتی دورہ نہیں ہوگا بلکہ گہرے فکری و دعوتی مقاصد کے تحت کیا گیا ہوگا۔ ان کے مشاہدات میں میوات کے سماجی و ثقافتی ڈھانچے، اس کی تعلیمی پسماندگی، اور وہاں کے لوگوں کی دینی حالت پر گہری نظر شامل ہو سکتی ہے۔  

تاہم، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مولانا وحید الدین خان کی مقبولیت کا دائرہ محدود رہا اور ان کے نظریات سے مسلمانوں کے مختلف حلقوں میں شدید اختلاف پایا جاتا تھا ۔ ان کی شہرت میں بدنامی کا عنصر غالب رہا، اور وہ اپنے رفقاء اور تلامذہ کی کوئی مضبوط ٹیم بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے جو ان کی فکری وراثت کو سنبھال سکے ۔ یہ صورتحال اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کے میوات کے بارے میں مشاہدات اور افکار، اگرچہ ان کی کتاب میں موجود ہوں گے، لیکن ان کی فکری نوعیت کے پیش نظر، انہیں بھی مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ ان کی تحریروں میں مسلمانوں کی موجودہ تحریکوں کی ناکامی کا ذکر بھی ملتا ہے، جسے وہ خدا کی نظر میں نامطلوب قرار دیتے ہیں ۔ یہ ممکن ہے کہ میوات کے سماجی و دینی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے انہوں نے اسی فکری فریم ورک کو استعمال کیا ہو۔  

2.3. میواتی معاشرے پر ممکنہ اثرات اور دعوتی فکر

دستیاب معلومات میں مولانا وحید الدین خان کے میوات کے سفر کے براہ راست اثرات یا ان کی دعوتی فکر کے میواتی معاشرے پر مخصوص اثرات کے بارے میں کوئی تفصیل موجود نہیں ہے ۔ تاہم، ان کی عمومی دعوتی فکر اور اس پر ہونے والی تنقید کو مدنظر رکھتے ہوئے ممکنہ اثرات کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔  

مولانا کی دعوتی فکر کا مرکزی نکتہ امن، ہم آہنگی اور اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنا تھا ۔ وہ مسلمانوں میں یکطرفہ صبر اور اعراض کی تعلیم کو عام کرنے پر زور دیتے تھے ۔ ان کی تحریروں میں تذکیر و نصیحت کا پہلو غالب تھا، اور وہ جدید علوم کے ذریعے اسلام کی صداقت کو واضح کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ پرتشدد سرگرمیاں آج کی دنیا میں منسوخ ہو چکی ہیں اور ان کی جگہ پرامن سرگرمیوں نے لے لی ہے ۔  

تاہم، مولانا کی دعوتی فکر پر کئی اہم اعتراضات بھی اٹھائے گئے ہیں۔ ایک بڑی شکایت یہ تھی کہ وہ دعوت کے کام پر غیر مشروط زور دیتے تھے، لیکن تربیت نفس، ضبط نفس اور تہذیب نفس کو اولیت نہیں دیتے تھے ۔ یہ نقطہ نظر میوات جیسے معاشرے کے لیے خاص طور پر اہم ہو سکتا ہے، جہاں تبلیغی جماعت نے تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے اور دینی بیداری لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، جس کا آغاز بنیادی طور پر مدرسے کے قیام اور پھر گاؤں گاؤں جا کر بڑوں کی ذہن سازی سے ہوا ۔ مولانا وحید الدین خان نے خود بھی تبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن بعد میں اسے خیرباد کہہ دیا ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا دعوتی ماڈل تبلیغی جماعت کے عملی ماڈل سے مختلف تھا۔  

دارالعلوم دیوبند جیسے معروف دینی اداروں نے مولانا وحید الدین خان کے بعض نظریات کو “زیغ و ضلال” (گمراہی) قرار دیا ہے ۔ ان کے متنازعہ نظریات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع و نزول کا انکار، امام مہدی کے وجود کا انکار، اور علامات قیامت کے بارے میں بے بنیاد شکوک و شبہات کا اظہار شامل ہے ۔ اس کے علاوہ، ان پر امام حسین کو “جاہ طلب اور موجب فساد” قرار دینے اور مرزا غلام احمد قادیانی اور سلمان رشدی کا دفاع کرنے جیسے الزامات بھی لگائے گئے ۔ دارالعلوم دیوبند نے عام مسلمانوں کو ان کی کتابوں اور لٹریچر کے مطالعے سے احتراز کا مشورہ دیا ہے ۔ یہ تنقیدیں اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ مولانا کی فکری و دعوتی کاوشوں کو مسلم معاشرے کے اندر ایک وسیع اور متفقہ قبولیت حاصل نہیں ہو سکی۔ میواتی معاشرے پر ان کے سفر یا تحریروں کے اثرات کا جائزہ لیتے وقت ان تنقیدی پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔  

3. نتائج

مولانا وحید الدین خان ایک کثیر التصانیف اور منفرد فکری رجحانات کے حامل اسلامی اسکالر تھے، جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ پڑھنے، سوچنے اور مشاہدہ کرنے میں گزارا ۔ ان کی تصنیف “میوات کا سفر” ان کے سفری تجربات اور مشاہدات کا حصہ ہے جو ان کے دیگر سفرناموں اور ڈائریوں کی طرح روحانی اور عملی اسباق پر مشتمل ہے ۔ تاہم، دستیاب معلومات کی روشنی میں، اس رپورٹ میں “میوات کا سفر” کے تفصیلی مندرجات یا اس کے میواتی معاشرے پر براہ راست اثرات کے بارے میں مخصوص تفصیلات فراہم نہیں کی جا سکیں۔  

مولانا کا فکری سفر، جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت سے ان کی علیحدگی، اور ان کے جدید سائنسی دلائل سے اسلام کی حقانیت کو واضح کرنے پر زور، ان کی علمی آزادی اور روایتی و جدید علوم کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کا بنیادی مقصد امن، ہم آہنگی اور اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنا تھا، جس کے لیے انہوں نے پرامن دعوت کو اپنا نصب العین بنایا۔

اس کے باوجود، مولانا کے بعض نظریات پر مسلم علمی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی، خاص طور پر ان کے شاذ نظریات اور جہاد، نبوت، اور علامات قیامت جیسے بنیادی اسلامی عقائد کی تشریح کے حوالے سے۔ ان اختلافات نے ان کی مقبولیت کو محدود کیا اور انہیں مسلم امت کے اندر ایک متفقہ مقام حاصل کرنے سے روکا۔ لہٰذا، اگرچہ “میوات کا سفر” ان کے علمی ورثے کا ایک حصہ ہے، لیکن اس کے مخصوص مشاہدات اور میواتی معاشرے پر اس کے اثرات کے بارے میں مزید گہرائی سے مطالعہ کرنے کے لیے کتاب کے اصل متن اور مقامی تاریخی ریکارڈز کا جائزہ لینا ضروری ہوگا۔

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme