امام ابویوسف بحیثیت ماہرِ معاشیات امام ابویوسف بحیثیت ماہرِ معاشیات پی ایچ ڈی مقالہ محقق :منور حسین چیمہ(اسسٹنٹ پروفیسر) نشرر مکرر : طوبیٰ ریسرچ لائبریری 4 ربیع الثانی 1444 ہجری بشکریہ : ایچ ای سی ویب DOWNLOAD
علم الاقتصاد
علم الاقتصاد علم الاقتصاد: جس کا معروف نام علم سیاستِ مدن ہے ڈائون لوڈ لمک
حفاظت کا بے خطاء عمل
حفاظت کا بے خطاء عمل حفاظت کا بے خطاء عمل انسانی زندگی حادثات سے بھری ہوئی ہے،بے یقینی کی صورت حال نے انسان کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے،حادثات،روزی روٹی کے معاملات،حسد و کینہ کی فضاءاور افراتفری کے ماحول اور امراض کی بڑھتی ہوئی صورت حال میں کچھ تحائف در رسولﷺ سے ملے ہیں،یہ چیزیں پرکھنے کی نہیں بلکہ یقین کے ساتھ کرنے والی ہوتی ہیں،چند گھڑیاں صرف کرکے روحانی و جسمانی فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں،فوائد احاطہ کرنا ممکن نہیں،البتہ ہماری کفایت کے لئے یہ مختصر اعمال ایک خزانہ ہیں بعض کاملین نے لکھا ہے کہ آسیب ذدہ کو باوضو ۱۱بار [لاحو ل ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم] پڑھ کر دم کریں مریض کو آسیب سے خلاصی ہوکر شفاء ہوگی [آسان ص۲۲۷ج۱۰] یہ کلمات عرش کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہیں ان کے اثرات تک انسانی ذہن کی رسائی ممکن نہیں ہے، کیونکہ انسانی ذہن کی ایک پہنچ ہے اور یہ انسانی سوچ سے بھی زیادہ مفید ہیں ستر امراض کا علاج تو احادیث میں بتایا گیا ہے جن میں سے کم ترین بیماری غم و ہم ہے اور طب جسمانی میں غم کا کوئی علاج موجود نہیں ہے ،رزق میں اضافہ تو معمولی بات ہے ہر ایک کو اپنے ورد میں شامل کرلینا چاہئے بندہ کا تجربہ ہے اس کے عامل رزق کی تنگی نہیں ہوتی اور ناگہانہ آفات و بلیات سے غیبی انداز میں حفاظت ہوتی ہے بچوں کی نظر بد میں بھی یہ کلمات موثر ہیں حکیم المیوات۔قاری محمد یونس شاہد میو
میوات میں اسلام کا داخلہ(2)
میوات میں اسلام کا داخلہ(2) مداری سلسلے کی کوششیں حکیم المیوات۔قاری محمد یونس شاہد میو میواتیوں کو شاہ بدیع الدین مدار مکن پوری سے عقیدت و ارادت ہے، وہ ان کے نام کے جھنڈے کھڑے کرتے ہیں،اور ان کے عرس میں بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے شاہ مدار اور ان کے سلسلے کے فقرا نے بھی میواتیوں میں کام کیا ہے ۔شاہ مدار،شیخ محمدطیفوری کے مرید بتائے جاتے ہیں،وہ سلاطین شرقیہ کے قاضی شہاب الدین دولت آبادی(849ھ/1245ء)کے ہم عصر تھے۔() شاہ مدار کے خلاف آف اور مدار یہ فقراء کا سلسلہ ملک میں خاصا پھیلا ہوا تھا۔مداریہ سے سلسلے ایک بزرگ شاہ عبدالغفور عرف بابا کپور تھا، ان کا قیام گوالیار میں تھا،اور وہیں(979ھ/1571ء)انتقال ہوا ۔ مولف تذکرہ المتقین لکھتے ہیں۔ مدتے رسم تلقین وارشاد جاری داشتہ در گوالیار آسودہ، خانقاہش نور علی نوربعمارت عالی پختہ سنگی اساس بنایافتہ آستانہ وزیارت گاہ خلائق است۔(تذکرہ المتقین فی احوال خلفائے سید بدیع الدین،مولوی امیر حسن مداری،کانپور1323ھ۔جلد دوم صفحہ 97) ایک زمانے تک تلقین و ارشاد کی رسم جاری رکھی، گوالیار میں دفن ہوئے، ان کی خانقاہ نورعلی نور ہے، پختہ عالی عمارت پتھر کی بنی ہوئی ہے ان کا آستانہ جب زیارت گاہ خلائق ہے۔ بابا کپور کی توجہ و ارشادسے ایک شخص بابا گوپال مع اپنے چیلوں کے داخل اسلام ہوئے اور انہیں خرقہ خلافت ملا،مولف تذکرہ متقین لکھتے ہیں۔بابا گوپال یکے از امرائے ہند بود۔۔۔۔۔چوں از بابا صاحب (بابا کپور)دوچار شد۔بقدمش درافتادوداخل اسلام شد۔حضرت صلاحیتش راملاحظہ فرمود ازکمال عنایت درآغوش عاطفت بگرفت وازنظرفیض اثر پیمانہ مراد ش لبریزفرموددرفقایش کہ چیلہ وے بودند در تعلیم شان بطریق اسلام ترمیم فرمودہ۔(حوالہ بالا) بابا گوپال ہندوستان کے سربرآوردہ شخص تھے ۔جب ان کی بابا صاحب (بابا کپور)سے ملاقات ہوئی تو وہ ان کے قدموں پر گر پڑے اور اسلام قبول کرلیا ،حضرت بابا کپور نے ان کی صلاحیت ملاحظہ کی اور بڑی مہربانی سے ان کو اپنی آغوش میں لیا اور اپنی نظر فیض اثر سے ان کی مراد کا پیمانہ بھر دیا اور ان (بابا گوپال )کے ساتھیوں کی تعلیم میں جو ان کے چیلے تھے اسلام کے طریقے پر ترمیم کردی۔۔۔ مداری فقراء کی جماعت ملک میں بالالتزام دورہ کرتی تھیں۔ان کی ایک باقاعدہ تنظیم تھی اور وہ ہتھیار وغیرہ بھی رکھتے تھے،بعض شواہدو قرائن کی روشنی میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کم حیثیت اور پسماندہ طبقوں میں خاص۔طور سے تہذیب وتبلیغ کے فرائض انجام دیتے تھے،شاہ مدار کے سالانہ عرس کے موقع پرہر اس مقام سے جہاں ان کا مرکزیاشاخ ہوتی تھی دو روزہ یا سہ روزہ اجتماع ہوتا تھا، علم اور جھنڈے کھڑے کیے جاتے تھے اور بھرپور قافلہ مکن پور کو روانہ ہوتا تھا، اس سے شاید اپنے رعب وغلبہ کا اظہار مقصود ہوتا تھا۔یہ روایت کسی قدر آج بھی ہندوستان میں موجود ہے اور مختلف مقامات پر شاہ مدار کی بیرق اور علم کھڑے کئے جاتے ہیں، ابوالفضل لکھتا ہے۔ کہ و مہ ہندی بوم بد و گردد والا پائے گی برگزارد۔۔۔ہر سال روز فرو شدن اُو گروہا گرہ مردم از دوردستہا آنجا رسند وہریکے زنگار نگ علم یا خود بردہ نیایشہا بجا آورد۔(آئین اکبری ص 212)۔۔ سرزمین ہند کے چھوٹے بڑے ان کے گرویدہ ہوئے اور ان کی تعظیم بجا لاتے۔۔۔ ان کے یوم وصال پر ہر سال لوگ گروہ درو دور وہاں پہنچتے اور اپنے ساتھ رنگارنگ کے عالم لاتے اور اظہار عقیدت کرتے ۔بابا کپور کے خلفاء کے نو گروہ تھے (تذکرہ المتقین صفحہ 93تا97)۔ (1)نوروزی (2)سوختہ شاہی (3)کمربستہ (4)لعل شہباز ی۔(5)گوپال (6)مکھا شاہی(7)کلامی(8)قادری(9)کریم شاہی۔اسی طرح دوسرے اکابر خلفاء کے گروہ ہوں گے۔تذکرہ المتقین صفحہ 41 پر لکھتے ہیں۔ بعد از وفات حضرت قطب المدارحضرت خواجگاں از مرید اں و خلفائے خویش بعضے از ارجمنداں در ممالک ہندستان بہ قریات و قصبات و شہرات مامور کردند تا خلق را ازاوشاں نفع برسد و حیات و ممات ایشاں بخیر بگزرد،پس ایں انتظام راہدیں طریق نظم دادہ و علاوہ اوشاں چند کساں ر نصے مفتخرنمودہ حکم دورہ داند کہ متواتر نگراں حال شاں باشندچنانچہ زمانہ بدیں منوال بسرشد و نتیجہ سعی ایشاںترقی پزیرفت۔۔حضرت قطب المدار کی وفات کے بعد حضرت خواجگان نے اپنے بعض سعادت مند خلفا اور مریدوں کو ملک ہندوستان کے گاؤں قصبوں اور شہروں میں مامور کر دیا تاکہ مخلوق کو ان سے فائدہ پہنچے اور ان کی زندگی و موت اچھی طرح گزرے، پس انتظام کو اس طرح جاری کیا اور ان کے علاوہ کچھ لوگوں کو منصب سے سرفراز فرمایا، ان کو دورہ کرنے کا حکم دیا تاکہ ان کے حال کی متواتر نگرانی رکھیں،چنانچہ ایک زمانہ اس طرح گزرا اور ان کی کوشش کا نتیجہ اچھا رہا ۔ سالار مسعود غازی سے تعلق ۔ سید سالار مسعود غازی کی پیدایش 22 جنوری 1015ء میں اجمیرمیں ہوئی۔ سید سالار مسعود غازی سلطان محمود غزنوی کے بھانجے تھے۔ آپ کے والد کا نام سیدسالار ساہو غازی اور والدہ کا نام سترے معلٰا تھا جو سلطان محمود غزنویکی بہن تھیں۔ سیدسالار ساہو غازی محمد بن حنفیہ حضرت علیؓ کی نسل سے تھے۔ سالار مسعود اسلام کی تبلیغ کے لیے جنوبی ایشیا کے لیے 11ھویں صدی کی ابتدا میں اپنے چچا سالارسیف الدین اور استاد سید ابراہیم مشہدی بارہ ہزاری (سلطان محمود غزنوی کے سالار اعظم) کے ساتھ آئے میواتیوں کے عقیدت سالار مسعود غازی (بہرائچ)سے بھی ہیں وہ ان کے نام کے جھنڈے کھڑے کرتے ہیں اور خاص طریقے سے نیا ز دلاتے ہیں (تاریخ میوات صفحہ 53) میلے میں شرکت کرتے ہیں خیال یہ ہے کہ یا تو خود سالار مسعود غازی نے میوات میں تبلیغ اسلام کی ہوگی، یا پھر ان کی درگاہ کے مجاوروں یا فقیروں کے ذریعہ میواتیوں کا تعلق سالار مسعود کی درگاہ سے ہوا ہوگا، افسوس کے سالار مسعود غازی کے حالات کے سلسلے میں تاریخ خاموش ہے ۔تاریخ میں سب سے پہلا حوالہ تاریخ فیروزشاہی میں ملتا ہے۔ ضیاءالدین برنی لکھتا ہے ۔سلطان محمد بعد فراغ فتنہ عین الملک ازبنگر میں و عزیمت ہندوستان فرمودوتر بہرائج رفت واپسی پہ سالار مسعود شہید را از غذات سلطان محمود سبکتکین بود،زیارت کرد د مجاوران روضہ اورا صدقات بسیار داد(تاریخ فیروز شاہی۔ضیاء الدین برنی۔تصحیح سرسیداحمدخان کلکتہ 1862صفحہ 491) ،عین الملک کے فتنے سے فارغ ہونے کے بعد سلطان محمد نے بن
میوات میں اسلام کا داخلہ (1)
میوات میں اسلام کا داخلہ (1) میوات میں اسلام کا داخلہ (1) حکیم المیوات۔قاری محمد یونس شاہد میو راجپوتوں کی ایک قدیم شاخ میواتیوں کے تاریخی حالات کی طرف رجوع کرتے ہیں۔جو ہمارے موضوع سے گہرا تعلق رکھتی ہیں علاقہ میوات علاقہ میوات کے حدود یہ ہیں۔ شمال میں دہلی اورپلول ،جنوب میں ہاڈوتی، مشرق میں بھرتپور اور دریائے جمنا اوربرج کا دیس۔ مغرب میں کوٹ قاسم اور ریواڑی ۔۔میوات کی لمبائی تقریبا سو میل اور چوڑائی تقریبا ستر میل ہے، اب سے پچاس سال پہلے اس علاقے میں میواتیوں کی آبادی کم و بیش 12 لاکھ تھی، بیماریوں اور قحط کی وجہ سے مختلف اوقات میں میواتیوں نے اس علاقے سے نقل مکانی کر کے دوسرے علاقوں میں بھی اپنی بستیاں بسا لیں۔قیام پاکستان کے بعد بہت سے میواتی ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ میواتی زیادہ تر زراعت پیشہ ہیں ،مگر جنگ یورپ اول 1914ءتا 1918 ۔جنگ دوم1939تا45ء،میں بہت سے میواتی فوج میں بھرتی ہوئے بلحاظ حکومت علاقہ میوات مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم رہا ۔ 1ریاست الور اس میں اکثر حصہ میوات کا ہے، بڑے بڑے قصبات یہ ہیں ۔رام گڑھ، کشن گڑھ ،کھٹومر۔ننڈا ور،گوبن گڑھ ،راجگڑھ ۔پٹوکرہ،کھیرتل۔ 2۔ریاست بھرت پور یہ جاٹوں کی ریاست تھی، میوات کے خاص قصبات یہ ہیں۔ دیک ،کاما ،گوپال گڑھ ۔اجر بڑا ،کمبیر۔سیکری ۔گل پاڑہ وغیرہ ۔ 3۔ضلع گورگاؤں ۔ جس میں زیادہ تر فروزپور اور نوح کی تحصیل کا علاقہ ہے، بڑے بڑے قصبے یہ ہیں ۔فروزپور ۔پونا ہا نہ ۔پنگون ۔نگینہ ۔تاوڑو ۔سہنا ۔بچھو ر ۔ میواتی قوم میواتی قوم تو مر، جادو، چوہان، پنوار، کچھواہہ،ر اٹھو،گوجر راجپوتوں سے عبارت ہیں ،پھر ان کی شاخ در شاخ پال اور گوت میں تقسیم ہوتی ہے چشتی مشائخ کی تبلیغی کوششیں ہم نے پچھلے صفحات میں راجپوتوں کے مختلف قبائل اور خاندان کے مشرف باسلام ہونے کا ذکر کیا ہے۔ ظاہر ہے ان میں کچھ میواتی بھی ہوں گے، بہرحال صوفیہ کی مقدس جماعت کے فیوض و برکات سے میوات کی آبادی میں بھی مستفید ہوئیں۔ اس ضمن میں خواجہ معین الدین اجمیری اور ان کے سلسلے کے مشایخ کی کوششوں کو سب سے زیادہ دخل ہے شیخ جمال الدین لکھتے ہیں ۔: بیشترے کفار نامدار ازاں دیار بہ برکت آثار زبدۃ الابراربہ تشریف ایماں مشرف شد ند/ اس علاقے کے بہت مشہور کفار زبدۃ الابرابر خواجہ بزرگ کی برکت سے ایمان سے مشرف ہوئے۔ (ان بزرگوں کے حالات کیلئے دیکھئے اخبار الاخبار۔شیخ عبدالحق دہلوی صفحہ35۔188۔ نیز سلطان التارکین مرتبہ احسان الحق فاروقی صفحات 376) چشتی سلسلہ کے دوسرے بزرگ صوفی حمید الدین ناگوری (673ھ/1274ء) خواجہ حسین ناگوری(901ھ/1295ء)شیخ احمد د مجد شیبانی نارنولی (927ھ/1521ء) خواجہ خانو گوالیاری(940ھ)وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، جن کی تبلیغ کوششوں سے میواتی داخل اسلام ہوئے ہوں گے۔ حسین خنگ سوار۔ میوات میں تبلیغ اسلام کے سلسلے میں حسین خنگ سوار کا نام بھی قابل ذکر ہے۔ تاریخ میوات کے مولف لکھتے ہیں(تاریخ میوات، از مولوی عبدالشکور۔ دار مطالعہ دہلی 1919صفحہ 52) میوات میں ابتدا حضرت میراں صاحب سید حسین خنگ سوار نے اسلام کی ا شاعت کی۔ تومر نسل کے تمام فرقے جو گوت اور پال کے نام سے مشہور ہیں۔ اس زمانے میں مسلمان ہوئے۔ حسین رنگ سوار قطب الدین ایبک کے عہد میں داروغہ شہر تھے، ان کے تعاون سے خواجہ بزرگ کے کام کو خوب کامیابی ہوئی ،مؤلف تاریخ فرشتہ لکھتا ہے۔ سلطان قطب الدین ایبک او( حسین خنگ سوار) را داروغہ بلدہ ساختہ بود۔قدوم شیخ را بااعزاز و اکرام تلقی فرمود، وچوں از علم تصوف واصطلاحات صوفیہ بہرہ تمام داشت ۔صحبت خواجہ رانعمت شگرف دانستہ، اکثر اوقات بمجلس شریف حاضرمی شدوبسیارےاز کفار ببرکت انفاس آں پیر طریقت بشرف ایماں مشرف گشتند وآنانیکہ ایماں نیاوردند محبت خواجہ را در دل جائے دادہ پیوستہ، فتوح بے حد وعد بحضرت اُو می فرستادند۔(تاریخ فرشتہ جلد دوم۔تباہ نول کشور لکھنؤبارہ سو اکاسی ہجری،صفحہ 377) سلطان قطب الدین ایبک نے ان(حسین خنگ سوار)کو اس شہر(اجمیر)کا داروغہ مقرر کیا،شیخ(خواجہ بزرگ)کے آنے پر نہایت اعزاز و اکرام کے ساتھ ان کا استقبال کیا،چونکہ وہ علم تصوف اور صوفیاء کی اصطلاحات سے بہرہ کامل رکھتے تھے،لہذا خواجہ صاحب کی صحبت کو بڑی نعمت سمجھا وہ اکثر(خواجہ صاحب کی)مجلس میں حاضر ہوتے تھے اور اس پیر طریقت(خواجہ بزرگ)برکت سے بہت سے کفار اس ایمان سے مشرف ہوئے اور جو لوگ ایمان نہیں لائے انہوں نے بھی خواجہ کی محبت کو اپنے دل میں جگہ دی ،وہ ہمیشہ بہت زیادہ فتوحات ان کی خدمت میں بھیجتے تھے۔ ایک موقع پر کفار نے حسین رنگ سوار پر حملہ کیا اور شہید کردیا، خواجہ غریب نواز جنازہ پڑھائی ،ان کا مزار گنج شہیداں کے پاس تاراگڑھ کی پہاڑی پر واقع ہے (تاریخ فرشتہ جلد دوم صفحہ 377،معین الارواح اس محمد خادم حسین زبیری ۔آگرہ 1953صفحہ 418تا421،احسن السیر از محمد اکبر جہاں شگفتہ۔آج میری بارہ سو چورانوے،صفحہ 113،علم و عمل ۔وقائع عبدالقادر خانی۔جلد دوم ، مرتب محمد ایوب قادری صفحہ 44) ..شیخ موسی شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی (757h/1356ء)کہ ایک خلیفہ شیخ موسی جو میوات میں پہنچے ،انہوں نے وہاں تبلیغ و تذکیر کا کام انجام دیا ہے، ان کا مزار پلہ تحصیل نوح 27 جمادی الاول کو بڑا زبردست میلہ ہوتا ہے، جس میں میوات کے عوام الناس بکثرت شریک ہوتے ہیں(ملاحظہ ہو آئین اکبری۔حصہ دوام صفحہ 211،اخبار الاخبار صفحہ 97)
امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کا مولانا عبید اللہ سندھی کی وفات پر اظہار تعزیت
امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کا مولانا عبید اللہ سندھی کی وفات پر اظہار تعزیت پڑے لوگوں کی بڑی باتیں امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کا مولانا عبید اللہ سندھی کی وفات پر اظہار تعزیت حکیم قاری محمد یونس شاہد میو مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنے ایک خط میں امامِ انقلاب عبیداللّٰلہ سندھی کی بے مثل خدمات اور وفات حسرت آیات کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے ، یہ خط ماہنامہ الرحیم حیدر آباد ماہ جولائی اگست 1968ء میں مطبوعہ ہے اور یہ مولانا سندھیؒ کے نواسے مولانا میاں ظہیر الحق دین پوری کے نام لکھا گیا تھا ، ملاحظہ فرمائیں۔ ’’دہلی 15 ستمبر 47ء عزیز القدر مولوی ظہیر الحق دین پوری سلمہٗ السلام علیکم ورحمۃ اللّٰلہ آپ نے آزادی پر مبارک باد کا پیغام بھیجا۔ شکریہ! خط پڑھتے ہی مولانا عبید اللّٰلہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ کی یاد آئی اور اس طرح آئی کہ صدائے درد ، زبان تک پہنچی اور زبان نے نوک قلم کے حوالہ کیا۔ قصہ بہت طویل ہے اسے مختصر کیا جائے , تب بھی وقت سازگاری نہیں کرتا۔ 1914ء کی عالمگیر جنگ کے ایام تھے۔ ولی اللّٰہی قافلہ کے امیر حضرت مولانا محمود حسن قدس سرہٗ نے انتہائی نامساعد حالات میں مولانا عبید اللّٰلہ سندھی کو کابل بھیج دیا۔ ان کو وہاں مختلف ممالک کے سیاسی رہنماؤں سے مل کر کام کرنے کا موقع ملا۔ ان مین جرمن ، فرانسیسی اور جاپانی سیاستدان چند ایک ایسے بھی تھے جو آج اپنے اپنے ملک میں برسر اقتدار ہیں اور عنانِ حکومت انہی کے ہاتھ میں ہے۔یہ لوگ اس وقت کے سیاسی رفیق یا مشیر ہیں کہ جب مولانا نے کابل میں حکومت مؤقتہ قائم کی خود اس کے وزیر ہند منتخب ہوئے اور ریشمی خطوط کی تحریک چلا کر برٹش حکومت کو للکارا اور میدانِ جنگ میں شکست دے کر اپنا مؤقف منوایا۔ برطانوی نمائندہ نے جنگ کے خاتمہ پر مصالحتی دستاویز پر دستخط کرتے ہوئے حکومت کابل کی خود مختاری کا اعلان کیا۔ ہندوستان کے مطالبۂ آزادی کو تسلیم کیا اور بتدریج ہند کو چھوڑ دینے کی وضاحت کر دی۔ اس کا انتقام برٹش حکومت نے امیر امان اللّٰلہ خان سے لے لیا ، مگر مولانا عبید اللّٰلہ سندھی رحمۃ اللّٰلہ علیہ کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ یہ مولانا کا ذاتی سیاسی اثر تھا جس سے وہ مرعوب تھی۔ پچیس سال کی جلا وطنی کے بعد 1939ء میں جب یہاں پہنچے تو دوسری جنگ کا آغاز تھا۔ انہوں نے اپنی تحریک کانگرس میں پیش کرنے کے لئے میدان ہموار کیا۔ گاندھی جی تک نے اس تحریک کی مخالفت کی۔ اس کے باوجود ہندوستان چھوڑ دو کا نعرہ ہاؤس نے مار دیا اور اس کی گونج بیکنگھم پیلس سے ٹکرائی۔ یہ سب کچھ مولانا نے باہر بیٹھ کر کیا۔ کسی بھی بحث میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی کبھی کسی اجلاس میں شرکت کی ، یہ فن صرف وہی جانتے تھے۔ ایک ملاقات میں چائے پر میں نے ان کے چہرہ سے کچھ ایسا تاثر قبول کیا کہ جس کی بنا پر ان سے پوچھ بیٹھا فرمایا کہ چاہتا ہوں سوبھاش اسی وقت باہر چلے جائیں۔ کچھ دیر خاموش ہو کر رخصت ہوئے اور اوکھلے اپنی قیام گاہ پر چلے گئے۔ دوسرے دن اوکھلے سے دہلی کو ملانے والی آٹھ میل لمبی سڑک کے ایک ویران گوشہ میں سوبھاش سے ان کی ملاقات ہو گئی۔ دوسری ملاقات ان کی بالی گنج کلکتہ میں ہوئی۔ اسی ہی ملاقات میں اسے جاپان جانے کیلئے رخصت کیا۔ حکومت جاپان کے نام وزیر ہند حکومت مؤقتہ کی حیثیت سے اسے ایک شناختی کارڈ دیا اور وہاں کے فوجی بورڈ کے سربراہ کے نام اپنا ذاتی پیغام۔ سوبھاش کے وہاں پہنچنے پر حکومت جاپان نے فوج میں ان پر اپنے اعتماد کا اعلان کیا۔ ادھر اعلان ہونا تھا کہ ادھر احمد نگر کے قلعہ سے کانگرس ہائی کمان کی رہائی بلا شرط منظور کر لی گئی ، ورنہ حکومت کا یہ فیصلہ تھا کہ پورے قلعہ کو بمع سیاسی قیدیوں کے بم سے اڑا دیا جائے۔ ساتھ ہی ہند کی آزادی کا اعلان کر دیا اور ہم آزاد ہو گئے ، کون جانتا ہے کہ کس کی قربانیاں ہیں؟ جاپانی حکومت نے حضرت مولانا پر اعتماد کیا۔ اس جرم کی سزا اسے ہیروشیما میں بھگتنی پڑی۔ حضرت مولانا کو ایسا زہر دیا کہ جس نے ان کی ہڈیوں سے کھال کھینچ لی۔پھر ان کی دونوں آنکھیں نکال لیں اور 22 اگست 1944ء کو اس مقام میں پہنچے جو پہلے ہی دن سے اللّٰلہ تعالیٰ نے ان کے لئے اپنے حضور میں مخصوص کر رکھا تھا یُدْخِلُھُمُ الْجَنَّۃَ عَرَّفَھَالَھُمْ۔ اس وقت آسمان اشک بار تھا۔ زمین رو رہی تھی۔ ہندوستان سوگوار تھا۔ جرمن اور جاپان کا علمی اور سیاسی طبقہ بھی شریکِ ماتم تھا , مگر حکومت برطانیہ نے اس خبر کو افواہ سمجھا۔ تاج کے حکم سے وائسرائے ہند کے ذریعہ ایک تحقیقاتی محکمہ قائم ہوا۔ اس نے برطانیہ کے تمام سفارت خانوں سے رابطہ قائم کیا۔ تب کہیں جا کر اطمینان نصیب ہوا اور یکم ستمبر 45ء کو پورے ایک سال نو دن بعد سرکاری طور پر اس امر کی تصدیق کی کہ مولانا واقعی فوت ہو گئے ہیں۔ ایک انقلابی کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈال دیں اور پوری دنیا کو دوسرے پلڑے میں تو وہ ایک پوری دنیا پر بوجھل ہوتاہے۔ اب صرف ایک بات باقی ہے اور اس یاد کے ساتھ غم ، غم صرف اس کا نہیں کہ یہ لوگ جدا ہو گئے۔ غم اس کا ہے کہ وہ دنیا ہی مٹ گئی جس دنیا کی یہ مخلوق تھے۔ ہم اس کاروانِ رفتہ کے پسماندگان رہ گئے ہیں۔ جنہیں نہ تو قافلہ کا سراغ ملتا ہے نہ منزل سے آشنا ہو سکتے ہیں۔ نہ ہمیں کوئی پہچانتا ہے نہ ہم کسی کے شناسا ہیں۔فَمِنْھُمْ مَنْ قَضَیٰ نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَنْ یَّنْتَظِرْ۔ آزادی صد مبارک، ان شہداء کو اور اللّٰلہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ان کی تربت پر ہوں۔ میں خیریت سے ہوں۔ الحمد للّٰلہ اپنی خیریت سے مطلع کرتے رہا کریں۔ والدہ صاحبہ کی خدمت میں سلام عرض کر دیں! والسلام۔ ابو الکلام۔‘‘
ہندستنان اور علم حدیث (تیرہویں اور چودہویں صدی ہجری میں)
ہندستنان اور علم حدیث (تیرہویں اور چودہویں صدی ہجری میں) ڈائون لوڈ لنک۔۔۔LNK
تمام ادیان کے منسوخ ہونے کا سبب
تمام ادیان کے منسوخ ہونے کا سبب تمام ادیان کے منسوخ ہونے کا سبب حکیم قاری محمد یونس شاہد میو علامہ عبد الکریم حلبی لکھتے ہیں:اور جو دو لوحیں حضرت موسی علیہ السلام سے منسوب تھیں (۱)لوح ربوبیت (۲) لوح قدرت چونکہ سب لوحین اپنی قوم کے سامنے ظاہر نہیں فرمائیں(کیونکہ وہ ان کے سمجھنے کی اہلیت ہی نہ رکھتے تھے) اس کے بعد کوئی ایسا کامل نہیں ہوا اور ان کا وارث نہیں بنا بخالف اس کے آںحضرتﷺ نے کوئی چیز نہیں چھوڑی سب کی تبلیغ کردی جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:مافرطنا فی الکتا ب من شئی۔ہم نے کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں رکھی اور دوسری جگہ فرمایا ہے:وکل شئی فصلناہ تفصیلا۔ہر چیز کو ہم نے کھول کر بیان کردیا ۔اس لئے آپﷺ ملت سب ملتوں سے بہتر ہے اور ان کا دین سارے ادیان کا ناسخ ہے اس لئے کہ وہ سب ان چیزوں کو لائے جن کو پہلے نبی فردا َ فرداََ لاچکے ہیں اور اس چیز کا اضافہ فرمادیا جو سابقہ انبیاء کے علوم میں نہ تھی پس اس کمی کی وجہ سے ان کے دین منسوخ ہوگئے اورآپﷺ کا دین اپنے کمال کی وجہ سے شہرت پاگیا کما قولہ تعالی الایوم اکلمت لکم دینکم ۔[انسان کامل از عبد الکریم الحلبی] آںحضرت ﷺ کی ،پیدائش کے بعد آپﷺ کو سارے جہاں کی سیر کرائی گئی اور آواز آئی تاکہ لوگ اس کے تعارف سے آگاہ ہوں اس کی ذات اس کی صفات اور انکی ہمہ گیری سے آگاہ ہوں اور وآتوا خلق آدم ومعرفت شیث ۔وشجاعت نوح۔وخلۃ ابراہیم۔واستسلام اسمٰعیل وفصاحت صالح و حکمت لوط ورضا ء ت اسحق،وبشریٰ یعقوب،وجمال یوسف،وشدت موسی وجہاد یوشع و ھُّدیٰ دانیال ووقار الیاس وقلب ایوب ولحن دائود و طاعت یونس و عصمت یحیٰ وزہد عیسیٰ واغنسوا فیہ اخلاق الانبیاء۔آدم کے اخلاق معرفت شیث۔شجاعت نوح۔ابراہیم کی دوستی۔اسمعیل کی قربانی صالح کی فصاحت ۔لوط کی حکمت۔رضاء اسحق ۔ یعقوب کی بشارت۔یوسف کا حسن۔موسی کی سختی۔یوشع کا جہاد۔دنیال کی محبت۔الیاس کا وقار۔ایوب کا دل۔دائود کی آواز۔یونس کی اطاعت۔یحیٰ کی پاک دامنی۔ عیسیٰ کا زہد۔غرض کہ تمام انبیاء کے اخلاق اس میں جذب کردئے جایئں۔ النبذۃ الکافیہ میں لکھا ہے: اس بات پر ہر مسلمان و کافر کا اتفاق ہے کہ رسول اللہﷺ کو قبائل ملوک اور ہر طرح سے اور ہرجہت کلی طور پر مبعوث کیا گیا تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو ہر امیر و غریب تک پہنچادیں[النبذۃ الکافیہ ۱/۳۲] ابن قیم کہتے ہیں:البتہ آں حضرتﷺ نے بادشاہوں اور دوسری قوموں کی طرف خطوط اور دعوت بھیجی تاکہ ہر کسی ہر ایک حجت قائم ہوجائے[اعلام الموقعین ۴ / ۵ ۶ ۲] حضرت عبد العزیز دباغ فرماتے ہیں:قران کریم میں اس قدر علوم و معارف موجود ہیں کہ اگر حضرت موسی علیہ السلام جن پر تورات نازل ہوئی اور حضرت عیسی علیہ السلام جن پر انجیل نازل ہوئی حضرت دائود علیہ السلام جن پر زبور نازل ہوئی یہ تینوں حضرات اگر نزول قران کے زمانے تک دنیا میں موجود رہتے تو اپنے اوپر نازل ہونے والی کتابوں کی بجائے قران کریم اور نبیﷺ کی پیروی کرتے۔[ابریز صفحہ۲۲۹]لوکان موسیٰ و عیسیٰ حین لاتبعانی[ ابن کثیر۱/۳۷۹] نبیﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ جب کسی امت پر رحم کرتا ہے تو اس کے نبی کو پہلے بلاتا ہے اور جس امت پر خیر کا ارادہ نہیں کرتا اس کی امت کو پہلے اپنے پاس بلالیتا ہے،پس نبی کو اس کے لئے پیش رو اور پہلے پہنچ کر ترتیب بنانے والے کی طرح بنادیتا ہے۔ اور جب اللہ کسی امت کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو نبی زندہ ہوتا ہے اور ان کی تباہی و بربادی دیکھ رہا ہوتا ہے اور قوم کی تباہی سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرر ہاہوتا ہے۔اس لئے کہ یہ لوگ نبی کو جھٹلاتے رہے اور اس کے حکم کی نافرمانی کرتے رہے۔ [ابن حبان۱۶/۱۹۸الاوسط طبرانی۴/۳۲۵ تذکرۃ الحفاظ۳/۷۹۱ الکامل فی الضعفاء الرجال۷/۵۲۵]
ختم نبوت
ختم نبوت حکیم قاری محمد یونس شاہد میو منزہُُ عن شریک فی محاسنہٖ۔۔۔ فجوھر الحسن فیہ غیر منقسمٖ نبیﷺ کی ذات اقدس محاسن(قابل تعریف عادات،خصائل)میں کسی کی شرکت (برابری و ہم سری)سے پاک ہے کیونکہ آپﷺ کی ذات میں جو حسن موجود ہے اسے تقسیم ہی نہیں کیا جاسکتا۔[قصیدہ بردہ شریف از مام شرف الدین بوصیری] ہر کہ آمد عمارت نو ساخت… رفت و منزل بدیگر ے پرداخت۔۔ جو یہاں آیا اس نے نئی عمارت بنائی اور جو گیا وہ عمارت کو دوسروں کے لئے خالی کرگیا[گلستان سعدی] ختم نبوت اور اس ا مت کا خاتم الامم ہونا بہت بڑی خصوصیت اور اعلی درجے کا کمال ہے نبوت اللہ کے خزانوں میں سب سے قیمتی ترین متاع ہے اس جو چیز جتنی قیمتی ہوتی ہے اس کی نقالی بھی اسی قدر زیادہ ہوتی ہے۔آںحضرت ﷺ نے جھوٹے متنبیوں اور نبیوں سے ڈرا سو ڈرایا پہلے انبیاء بھی اس بارہ میں اپنی امتوں کو خبرادر کرتے رہے ۔چنانچہ حزقیل میں ہے۔اور خدا وند کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے مرد آزاد۔ اسرائیل کے [جھوٹے] نبی جو نبوت کرتے ہیں ان کے خلاف نبوت کر اور جو اپنے دل سے بات بنا کر نبوت کرتے ہیں ان سے کہہ خداوند کا کلام سنو،اور خداوند یوں فرماتا ہے کہ احمق نبیوں پر افسوس جو اپنی رو ح کی پیرو ی کرتے ہیں انہوں نے کچھ نہیں دیکھا … کیا تم نے جھوٹی غیب دانی نہیں کی کیونکہ تم کہتے ہو خداوند نے فرمایا ہے اگرچہ میں نے نہیں فرمایا [دیکھئے حزقی ایل باب ۱۳] احضرت یرمیاہ نے اپنی قوم سے خطاب کرتے وہئے فرمایا تھا’’ملک میں ایک حیرت افزا اور ہولناک بات ہوئی ہے ،نبی جھوٹی نبوت کرتے ہیں اور کاہن ان کے وسیلے سے حکمرانی کرتے ہیں[یرمیاہ باب۵ نشان ۳۰]ایک اور موقع پر انہوں نے ہی کہا ’’میں نے سامریہ کے نبیوں میں حماقت دیکھی ہے ،انہوں نے بگل کے نام سے نبوت کی ہے اور نبی اسرائیل کو گمراہ کیا ، میں نے یروشلم کے نبیوں میں بھی ایک ہولناک بات دیکھی۔وہ زناکار ،جھوٹ کے پیروکار بدکاروں کے حامی ہیں،یہاں تک کہ کوئی اپنی شرارت سے باز نہیں آتا[یرمیاہ باب۲۳ نشان ۱۳] اور انجیل متیٰ میں حضرت عیسی علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا گیا ہے :اس وقت اگر کوئی تم سے کہے دیکھو مسیح یہاں ہے یا وہاں ہے تو یقین نہ کرنا کیونکہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہونگے اور ایسے بڑے نشان اور عجیب کام دکھائیں گے کہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو گمراہ کرلیں گے[انجیل متیٰ باب ۲۴ آیت۲۳تا۲۵]اگر اس ٹکڑے کو اس مضمون کے ساتھ ملاکر پڑھاجائے جہاں یہ حدیث بیان ہوئی کہ تم پہلے لوگوں کی قدم بقدم پیری کروگے تو سب الجھنیں دور ہوجایئں گی۔ ختم نبوت اور آخری امت ہونے کی وجہ سے اس معاملہ کی حسا سیت و نزاکت اور زیادہ ہوجاتی ہے کیونکہ انبیائے بنی اسرائیل آخر ان جھوٹوں کا پردہ چاک کردیا کرتے تھے اب تو یہ سلسلہ بھی مفقود ہوچکا ہے،ختم نبوت کا مسئلہ اجتماعی ہے اس بارہ میں مسلمانوں کے کسی طبقہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے،امت میں جب کبھی متنبیوں کے فتنوں نے سر اُٹھایا تو امت اس کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے[تفصیل کے لئے ابو القاسم دلاوری رفیق صاحب کی کتاب[ آئمہ تلبیس ] اور ماضی قریب میں مزار قادیانی کا بہت بڑا فتنہ رونما ہوا اس کے خلاف فرزندان اسلام نے جو مدافعت کی اس کی تفصیل کے لئے دیکھئے[ مقدمہ بھاولپور]سید المرسلین خاتم النبیین حضرت محمد مصطفے ﷺ کی فضیلت کے بار ہ میں بیشمار نشانیاں سابقہ کتب اور ادیان سماویہ میں آئی ہیں بقول انجیل میرے بعد آنے والا ہے جو مجھ سے زور آور ہے میں اس لائق نہیں کہ جھک کر اس کی جوتیوں کا تسمہ کھولوں[مرقس باب اول آیت۸] اس موضوع پر اتنا کچھ لکھا گیا ہے اور ابھی تک لکھا جارہا ہے جو ورفعنالک ذکرک کی عملی تفسیر ہے تمام انبیاء کو رحمت سے پیدا کیا گیا۔ لیکن سیدنا و مولانا حضرت محمدﷺ سراپا رحمت ہیں۔وما ارسلنک الارحمۃ اللعالمین ۔یہ دنیا کا وہ وسیع ترین موضوع ہے جس کا ابھی تک احاطہ نہیں ہوسکا بقول حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کان خلقہ القران۔اور قران کلام خدا وندہ ہے قل لو کان البحر مداد لکلمات ربی…اللہ تعالی نے آپﷺ کے اسم مبارک محمد[ﷺ] کو عرش کے پائیوں کے اوپر لکھا ہوا ہے جنت کے محلوں [المستدرک۲ /۲ ۷ ۶مجمع الزوائد۸/۲۵۳] درختوں کے پتوں اور آسمانوں پر یہ اسم شریف لکھا ہوا ہے۔ابو یعلی طبرانی نے اوسط میںابن عساکر نے حضرت ابی ہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے نبیﷺ نے فرمایا: اسراء کی رات میں جس آسمان پر بھی گیا وہاں اپنا نام لکھا ہوا پایا محمد رسول اللہﷺ ابوبکر میرے بعد ہونگے [مجمع الزوائد ۹ / ۱ ۴ ] بلکہ بعض انبیاء کے کاندھو پر بھی لکھا ہوا تھا[فتح العلیم ص۲۸] مسجد نبوی کا آخری مسجد ہونا۔ نبیﷺ نے فرمایا میں تمام انبیاء کے آخر میں ہوں اور میری مسجد بھی تمام انبیاء کے بعد ہے اور آخری ہے[مسلم نسائی القرطبی۸/۲۵۹]مسجد نبوی ﷺ میں ایک نماز کا ثواب ہزار نمازوں کے برابر ملتا ہے [مسلم۲/۱۰۱۳:رقم1395] ابن حبا ن ۴ / ۹ ۹ ۴ ، الاحادیث المختارہ۹/۳۳۲]
سال 2022 کا آخری سورج گرہن اور اعمال بندش
سال 2022 کا آخری سورج گرہن اور اعمال بندش سال 2022 کا آخری سورج گرہن اور اعمال بندش عاملین کے لئے سنہری موقع حکیم المیوات۔قاری محمد یونس شاہد میو حقیقی مدبر اللہ تعالٰی ہے۔ ہمارا ایمان ہے کائنات میں اللہ کی مرضی اور اس کی منشاء کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔۔اس کے حکم کے بغیر نفع و نقصان ممکن نہیں۔۔اس نے کائنات میں مختلف قوانین رائج کئے ہیں جو ان کے ماتحت رہ کر کام کرتا ہے فوائد و ثمرات سے جھولی بھر لیتا ہے۔ عاملین کے لئے سنہری موقع۔ عاملین ایسے مواقع کی تلاش میں سرداں رہتے ہیں ،اور ایسی گھڑیوں کا سالوں تک انتظار کرتے ہیں کہ اپنے اعمال ۔چلوں۔وظائف کی تکمیل کرسکیں،گرہن کے وقت عالمین کے نزدیک بندش و قبض کی طاقتیں زیادہ موثر ہوتی ہیں۔بندشوں کے اعمال انہی ساعات میں سرانجام دئے جاتے ہیں۔۔۔ان اوقات میں کئے گئے کام حیرت انگیز طورپر موثر اور کارگر ہوتے ہیں۔۔۔ ہمارے اساتذہ کی طرف عملیاتی طورپر حروف صوامت اور دیگر بندشوں کے اعمال عطاء ہوئے۔۔گرہنوں میں ان کی زکوٰۃہدی جاتی ہے۔اور مخصوص تعداد میں انہیں لکھا یا پڑھا جاتا ہے،،ایک ہی دن مین پڑھنے والا عامل بن جاتا ہے۔۔ سعد طبیہ کالج کا ایک شعبہ عملیات بھی کام کررہا ہے۔۔بہت سے احباب اس سے وابسطہ ہیں۔۔ان کے علاوہ دیگر عاملین جنہیں اجازت ،رہنمائی کی ضرورت ہو جرور رابطہ فرمائیں۔۔ کسوف کا معنی سورج گرہن اور خسوف کا معنی چاند گرہن ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں جس دن (آپ کے صاحبزادے) حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو سورج گرہن لگا۔ لوگوں نے کہا : ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے سورج گرہن لگا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اﷲِ. لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَّلَا لِحَيَاتِهِ. فَإِذَا رَأْيْتُمُوْهَا فَافْزَعُوْا لِلصَّلَاةِ. مسلم، الصحيح، کتاب الکسوف، باب صلاة الکسوف، 2 : 619، رقم : 901 ’’بے شک سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کے مرنے جینے سے ان کو گرہن نہیں لگتا پس جب تم ان نشانیوں کو دیکھو تو نماز پڑھو۔‘‘ ماہر فلکیات ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق جزوی سورج گرہن پاکستان سمیت یورپ ،ایشیا، شمال مشرقی افریقا کے کئی ممالک میں دیکھا جائے گا، پاکستان میں جزوی طور پر سورج کو گرہن لگے گا اوراس کا آغاز مقامی وقت کے مطابق دوپہر 3 بج کر 57 منٹ پر ہوگا، اس دوران سورج کا ایک حصہ گہرا ہوجائے گا، ، جزوی اور رواں سال کے آخری سورج گرہن کا مجموعی دورانیہ 2 گھنٹے ہوگا، پاکستان میں سورج گرہن کا اختتام 5:56 منٹ پر ہوگا۔ یادرہےکہ زمین پر سورج گرہن اس وقت لگتا ہے جب چاند دورانِ گردش زمین اور سورج کے درمیان آ جاتا ہے، جس کی وجہ سے سورج کا مکمل یا کچھ حصہ دکھائی دینا بند ہو جاتا ہے، اس صورت میں چاند کا سایہ زمین پر پڑتا ہے چونکہ زمین سے سورج کا فاصلہ زمین کے چاند سے فاصلے سے 400 گنا زیادہ ہے اور سورج کا محیط بھی چاند کے محیط سے 400 گنا زیادہ ہے، اس لیے گرہن کے موقع پر چاند سورج کو مکمل یا کافی حد تک زمین والوں کی نظروں سے چھپا لیتا ہے،چاند کے سورج اور زمین کے درمیان آجانے کا عمل سورج گرہن کہلاتا ہے