The Islamic view of sunrise/sunset twilight in Islam. And its importance and usefulness اسلام میں طلوع /غروب شفق کا اسلامی نکتہ نظر۔اور اس کی اہمیت و افادیت *** شفق (Twilight) اور اس کی اقسام *** آپ نے اکثر مشاہدہ کیا ہوگا کہ سورج کے غروب ہونے کے بعد بھی روشنی فضا میں موجود رہتی ہے، اسی طرح سورج نکلنے سے پہلے ہی روشنی اُفق (Horizon) سے نمودار ہونی شروع ہوجاتی ہے، جو سورج نکلنے تک بتدریج پھیلتی ہے۔ یہ روشنی ”شفق“ (Twilight) کہلاتی ہے۔ شفق دراصل طلوعِ آفتاب سے قبل اور غروبِ آفتاب کے بعد نمایاں ہونے والی وہ روشنی ہے جو سورج کی شعاعوں کے باعث اس وقت پھیلتی ہے جب سورج اُفق سے نیچے ہوتا ہے۔ جیسے جیسے سورج اُفق سے نیچے چلا جاتا ہے تو یہ روشنی بتدریج کم ہوتی جاتی ہے، حتیٰ کہ سورج کے اُفق سے 18 درجے زاویہ سے نیچے ہونے پر بالکل ختم ہوجاتی ہے۔ اس شفق کی مندرجہ ذیل 3 اقسام ہیں:۔ 1۔ شفقِ مدنی (Civil Twilight) جب سورج افق سے 6 درجے زاویے تک موجود ہوتا ہے تو یہ روشنی شفقِ مدنی کہلاتی ہے۔ اس روشنی میں روشن ستارے/سیارے دکھائی دے سکتے ہیں۔ افق اور زمینی اجسام میں بآسانی تمیز کی جاسکتی ہے اور مصنوعی روشنی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ 2۔ شفقِ بحری (Nautical Twilight) سورج کے افق سے 6 درجے سے 12 درجے کے درمیان موجودگی پر جو روشنی دکھائی دیتی ہے اسے شفقِ بحری کہتے ہیں، کیونکہ اس وقت جہاز ران (Sailors) افق اور مشہور ستاروں کی مدد سے اپنی سمت کا تعین آسانی سے کرسکتے ہیں۔ زمینی اشیاء تقریباً پہچانی جاسکتی ہیں، مگر مصنوعی روشنی کی نسبتاً ضرورت ہوتی ہے۔ 3۔ شفقِ فلکی (Astronomical Twilight) سورج کے افق سے 12 درجے یا 18 درجے کے درمیان موجودگی پر افق پر نظر آنے والی روشنی شفقِ فلکی کہلاتی ہے۔ اس حالت میں روشنی صرف اُفق پر ہی موجود ہوتی ہے اس لیے مصنوعی روشنی کی ضرورت لازمی ہوجاتی ہے۔ اہم بات: یہ شفق جہاں فلکیات اور سمت کے تعین میں اہم کردار ادا کرتی ہے وہاں دینی لحاظ سے بھی اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ شفقِ فلکی کے شروع ہونے سے صبح کے وقت فجر کا وقت شروع ہوتا ہے اور شام کو اس کے اختتام سے عشاء کا وقت شروع ہوتا ہے۔ تحریر: محمد عدنان طاہر، ملتان
میو قوم ایک طاقت ہے۔ اگر کوئی کام لے سکے
میو قوم ایک طاقت ہے۔ اگر کوئی کام لے سکے حکیم المیوات قاری محمدیونس شاہد Meo nation is a force.If someone can work کہا خود کھڑا ہونا کے مارے دوسران کی ٹانگ کھینچ نو ضروری ہے؟۔ میو قوم کی بہت ساری خوبی ہاں لیکن کچھ پہلو ایسا بھی ہاں جن کی اصلاح ہونو ضروری ہے قانون قدرت ہے کائی بھی چیز کا دو رُخ رہواہاں شخصیت کی تکمیل میں دونوں پہلو ضروری ہاں موقع محل اور ضرورت کا حساب سو ہم کائی پہلو سو اچھو تو کائی پہلو سو بُرو سمجھاہاں اگر کوئی اِ ن باتن نے سمجھ جائے کہ کونسو پہلو کہاں استعمال کرنو ہے اور کونسا پہلو کی کہاں ضرورت ہے تو واکی ساری بات اچھی لگاہاں۔ میون میں مشہور ہے کہ یہ ایک دوسرا کی ٹانگ کھنچائی کراہاں ان میں کچھ صفات ایسی ہاں جنن نے لوگ اچھو نہ سمجھاہاں آُپ نے بالکل ٹھیک سمجھو۔ایسو ای ہوئے گو لیکن اگر یہی صفات بہتر انداز سو کام میں لائی جاواں تو خوبی ہاں یہ بات وا وقت زیادہ مشہور ہی یا ان کو اظہار زیادہ ہو جب میو قوم کے مارے آگے بڑھن کا مواقع کم ہا۔ آج ہمارے پئے آگے بڑھن کا پہلی کی نسبت مواقع زیادہ ہاں اگر کہیں کوئی ٹکرائو دیکھو جاوے ہے تو واکو سبب کم علمی اور حالات کی اونچ نیچ ہے۔پہلے لڑائی اور ٹانگ کھنچائی کو سبب روزی کا ذرائع ہا۔محدود قسم کی سہولت ہی۔ وا وقت یہ بات خاصیت مانی جاوے ہی کیونکہ وقت زیادہ ہو مصروفیت اور وسائل کم ہا آج وقت کم ہے اور وسائل اور ذائع آمدن زیادہ ہاں یامارے اب میون نے پہلی والی بات چھوڑ دینی چاہاں ضروری تو نہ ہاں کہ کائی دوسرا اے گِرا کے ای کھڑا ہوواں کھڑا ہونا کے مارے بھتیری تھاں موجود ہے دنیا بہت کھلی اور وسیع ہے۔اگر ایک جگہ مین گنجائش کم ہے تو تھوڑا سا پائون کی مانٹی اے چھوڑ کے آگے سرَک جائو۔ ہمارا باپ دادان کے پئے زمین جوڑی کے علاوہ وسائل نہ ہونا کے برابر ہا زمین سو آمدن پے زندگی کی گزر بسر ہی۔ بیٹھن کے مرے وہی پُور اور پین کے مارے حقہ ہو جب بہت سی طاقت ایک تھاں میں اکھٹی ہوجائے تو رگڑ پیدا ہوکے گرمی پیدا ہونو سائنس کو اصول ہے میون میں طاقت اور خالص پن زیادہ ہو طاقت کو اظہار کائی نہ کائی طریقہ سو ہووے ہے اگر بہتر منصوبہ بندی ہوئے تو یہی طاقت ترقی میں تبدیل ہوجاوے ہے اگر کوئی مقصد نہ ہوئے تو ای طاقت(انرجی) ضائع ہوجاوے ہے تاریخ گواہ ہے دشمن کا مقابلہ میں جب بھی انرجی کی ضرورت پڑی ای ساری طاقت جمع ہوکے دشمن پے ٹوٹ پڑی بہترین نتائج سامنے آیا۔ جب کوئی مصرف نہ رہو تویہی انرجی ٹانگ کھنچائی میں لگن لگی یہی انرجی ہی جو ہمارا باپ دادان نے دشمن کے خلاف استعمال کری آج ہم ان کا کارنامان نے بڑا فخر سو اپنی اولاد کو سنا واہاں اب قوم کے مارے اللہ نے بہتر مواقع مہیا کردیا ہاں۔ الگ الگ وسائل دیدیا۔کاروبار الگ الگ ہاں تعلیم کی دولت ہے۔سرکاری عہدہ ہاں زمین جوڑی ہے۔رہن کے مارے بہترین رہائش گاہ ہاں بالکن نے اچھی پڑھائی کرکے اپنو آپ منوائیو ہے بے شمار میون کا سکول و کالج ہاں۔ تنظیم اور جماعت ہاں۔ ای الگ بات ہے کہ جتنی تنظیم اور جماعت ہاں ان کی طاقت بکھری پڑی ہاں۔ان کی فکر مین اتفاق نہ ہے۔ فکری یکجہتی نہ ہونا کی وجہ سو آج بھی میون کی طاقت رگڑ کھاری ہے۔اگر کوئی اللہ کو بندہ یا طاقت کو صحیح استعمال کرسکے تو میو قوم کا نصیب جاگ جاواں۔ قوم کا بڑان نے اگر یا جہت سو نہ سوچو تو نئی پود میں سو کوئی ایسو ضرور پیدا ہوئے گو جو یاطاقت سو کام لینا کو ہہنر جانے گو اور میون کے مارے رحمت کو فرشتہ بنے گو۔ بھائی مخالفت ۔ٹانگ کھچائی۔غیبت چغلی چانٹی زندگی کی نشانی ہاں۔جو یا بات کی نشان دہی کراہاں کہ طاقت موجود ہے لیکن واکو ٹھیک مصرف موجود نہ ہے رگڑ اور گرمائش طاقت کی علامت ہاں گرمی ہوں پیدا ہووے ہے جہاں مشنری کا کائی پُرزہ میں رگڑ پیدا ہوری ہے۔اگر وا پرزہ کی مرمت کردئیو گا تورفتار بہتر ہوجائے گی۔اور کارکردگی میں اضافہ ہوجائے گو جو لوگ میون کی کچھ کمزورین نے بار بار گنواواہاں دراصل انکا سوچنا کو زاویہ ٹیڑھو ہے۔ پانی کتنو بھی صاف ہوئے وامیں تصویر ٹیرھی دیکھے ہے
عامل کامل کتاب Pdf
عامل کامل کتاب Pdf عامل کامل کتاب Pdf عامل کامل کتاب کاش البرنی صاحب نے لکھی ہے۔ یہ کتاب 142 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لئے تحفہ ہے جو روحانی علوم میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنی ضروریات میں عملیات سے خود کام لینا چاہتے ہیں۔ اس کتاب میں اصلاحات کی مکمل تشریح، اور ان کے تجربات دئے گئے ہیں۔ مصائب کے حل، مقاصد کے حصول، کے طریقے، نقوش کا حسابی نظام، اور حروف کی قوتوں کو قابو میں لانے کے طریقے تفصیل کے ساتھ لکھے گئے ہیں۔ کاش البرنی کی کتاب کی فہرست اس کتاب کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔ اعمال کا اثر، علم جفر الصلاحات جفریہ معہ اعمال، اعداد کا بلحاظ مراتب جمع کرنا، جدول عنصری، اعداد متحابہ، قواعد حروف بنیات، طریقہ تکسیر جفری، قانون زبر و بنیات، مخارج اعداد، حروف کے مرکز، قواعد طلسم، نقش بنانے کا قاعدہ، نقشہ ابجد ملفوظی، ایک خفیہ راز، نام ستارہ اور برج معلوم کرنے کا طریقہ، مراتب سفلی، حب کے لئے سات بتیاں، طلسم تسخیر، طلسم ترقی، عمل حروف صوامت، نقوش و عملیات، نقوش کے چند عملیات، عمل بغض، قانون قدرت اور عملیات، دفع آسیب و جادو وغیرہ۔ ڈائوں لوڈ کے لئے اس لنک پر کلک کریں کاشی برنی صاحب کی دوسری کتب پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں
شبرات کی کتلی میون کی روایت
شبرات کی کتلی میون کی روایت شبرات کی کتلی میون کی روایت حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو خوشی کہیں سو بھی ملے، کائی بھی ملے ،انمول چیز ہے میوات میں کوئی گھر ایسو نہ ہو۔جو شبرات اے خوشی نہ سمجھتو ہوئے۔ای خوشی وا وقت تک مکمل نہ ہووے ہی جب تک شبرات والے دن حلوہ اور سوجی کی کتلی نہ بنا لیوے ہا۔ شبرات سوجی کی کتلی اور چھوٹی عید سیوین کے بغیر ادھوری ہی عید کے دن ایک میو،۔بابا۔ سیمی کھان میں لگو پڑو ہو۔ لوگ دگانہ پڑھ کے واپس آیا تو تائو سیمین میں لگو پڑو ہو۔ بالک کہین لگا تائو ۔ایسو لگے ہے کہ توئے سیمی بہت اچھی لگاہاں؟ تائو کہن لگو۔ ارے !میں توسیمین نے ویسے ھی نہ کھائو ہوں۔ لیکن میں کہا کروں۔ سارے دن ہل جوتے ہو۔یامارے روزہ نہ راکھ سکو۔ ہارو تھکے آوے ہو۔ جلدی نیند آجان کی وجہ سوتراویح بھی نہ پڑھ سکو آج نہاتے دھوتے عید کی نماز بھی ہاتھ سو نکل گئی۔ نیا لتا پہن لیا اپر عید گاہ نہ جاسکو۔لیٹ ہوگئیو اب سیمی نہ کھائوں تو کہا کافر ای مر جائوں ؟ یامارے سیمی کھاکے کفارہ ادا کررو ہوں ہم نے خوب یا دہے۔بچپن مین سوجی کی کتلی کئی دن تک گھرن میں موجود رہوے ہی۔ جیبن میں بھری ڈولے ہا۔ بکری کی طرح منہ چلے ہو ویسے بھی شبرات کے دن ہون والی کتلی تحفہ میں بھی دی جاوے ہی۔ کئی گھرن میں تو کتلی اتنی کیڑی بنائی جاوے ہی مسوڑہ بھی چھل جاوے ہا۔لیکن کاری گری ایسی ہی کہ یہ کتلی کتنا دن دھری رہوے ہی۔ان کو ذائقہ نہ بدلے ہو۔ نہ یہ بُسے ہی۔نہ ان کو رنگ و بو بدلے ہو۔ بلکہ جیسے جیسے دن گزرے ہا۔ ان کا ذائقہ مین اضافہ محسوس ہووے ہو بچپن میں یہی کل کائنات ہی۔ جا گھر میں دو تین دن کے مارے کتلی بچی رہوے ہی خوش قسمت سمجھو جاوے ہو۔ ممکن ہے آج کی پود ۔ہماری یا خوشی اے محسوس نہ کرسکے وازمانہ میں جیسے خوراک خالص ہی ایسے ای خوشی بھی خالص ہی وسائل کم، خوشی زیادہ ہی۔آج وسائل زیادہ خوشی کم ہاں۔ پکی بات ہے خوشی وسائل کی وجہ سے نہ ملاہاں۔ خوشی تو خدا کی دین رہوے ہے ،جاکو بھی دئے۔ ہمار ا بابا کو کہنو ہو بیٹا ! جب خوشی منا تو خوش رہ۔دوسرا فکرن نے چھوڑ دے خوامخواہ کا فکر توئے کہیں کو نہ چھوڑنگا۔ جاکام اے کرا، وائی اے کر۔ایک وقت میںدو کام مت کر نماز پڑھا تو نماز پڑھ ،یا دوران دوسرا فکرن نے چھوڑ دے روٹی کھاواتو روٹی کھا ۔دوسری باتن نے پیچھے دھکیل دے۔ جب دو چیز مل جاواہاں تو ان کو ذائقہ بھی بدل جاوے ہے جب تو خوش ہووا تو فکرن نے پئے مت آن دے۔ بس ایک و قت میں ایک کام کر۔بڑھاپا سو بچو رہا گو تیرا سوچا سو کائنات نہ بدل سکے گی۔تیرا فضول سوچا سو تیری صحت ضرور خراب ہوجائے گی۔ بچپن کی شبرات کی خوشی سو کھائی گئی کتلی آج بھی یا دہاں واقت کی سوچ بھی خوشی دیوے ہے۔ خوش رہو خوشی دئیو۔توہا میو دھرتی کو دئیو۔
میری فریاد میو قوم کی پنچایت میں
میری فریاد میو قوم کی پنچایت میں ۔۔ میری فریاد میو قوم کی پنچایت میں میو میری پہچان ۔ کا گروپ ایڈمن سو بات چیت۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو قاری صاحب سے گزارش ھے کہ ایسے پوسٹ گروپ میں بار بار نہ لگائی جائیں جو برادری میں اختلافات کو ھوا دیتی ھیں۔ یہ گروپ آپ کی پوسٹ کے لئے موضوع نہیں۔ پلیز متعلقہ فورم پر یہ نقطہ اٹھائیں اور اگر آپ نے اپنی برادری کے لئے کوئی ویلفیر کا کام کیا ھے تو اسے نمایاں کریں بجائے دوسروں پر اپنی رائے ٹھونسنے اور تنقید کرنے سے۔ اجتماعی شادیاں صرف میو برادری کے لئے ھی نہیں بلکہ دوسری برادریوں کے لئے بھی ھے اور دوسری تنظیمیں میں ایسا کرتی ھیں لیکن اس سلسلے میں میو برادری کو ھی تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ھے؟جہاں تک برادری کی غیرت کا تعلق ھے کہ تو اس وقت برادری کی غیرت کہاں چلی جاتی ھے غریب بیٹی جہیز نہ ھونے کی وجہ سے اپنی برادری کو بد دعاییں دیتی ھوئی بن بیاھے بوڑھی ھو جاتی ھے؟ اگر غریب لوگ اپنی مرضی سے اجتماعی شادی میں شریک ھوتے ھیں تو کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں پہچتا۔ ھاں البتہ شادی کے طیقے پر اگر اعتراض ھو تو متعلقہ لوگوں سے بات کریں۔ اسگروپ میں وہ لوگ شامل نہیں لیکن منع کرنے کے باوجود ایسی مخالفانہ پوسٹیں کیوں لگائی جارھی جو کہ گروپ انتظامیہ کی سمجھ سے باھر۔ گروپ کے نظم وضبط کو ھر صورت قائم رکھا جائے گا ان شاء الله۔ اس لئے مہربانی کرکے اصلاحی اور اپنی برادری کے بارے اچھی چیز شیئر کی جائے۔ اگر برادری کے لئے آپ کی خدمات ھیں تو گروپ شیئر کی جائیں لیکن کسی بھائی پر کیچڑ نہ اچھالا جائے جو کہ گروپ کے قوانین کے خلاف ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلام جی محترم میری سمجھ میں نوں نہ آوے ہے کہ اختلاف یا اتحاد کو نکتہ اغاز و اختتام کہا ہے؟ کونسی ایسی بات ہے جا میں کائی اختلاف ہے۔۔ کوئی ایک بات بتائو اگر میں واکی مناسب دلیل نہ دے سکو تو معذرت کرلونگو۔۔ ۔آپ لوگ کونسا اتحاد کی بات کرو ہو۔؟؟؟۔ صرف بول بتلانا سو قوم کی خدمت کہو ہو۔؟؟ ۔یا کوئی ٹھوس پروگرام ہے جامیں خلل پڑ و ہے۔؟؟ ۔اگر میو اتنا نازک مزاج ہوگا ہاں کہ بات بھی برداشت نہ ہاں تو پھر اپنا میو دیو یا دنیاسو مقابلہ اور بڑان کی کہانین نے چھوڑو کوئی یاسو کام کرو جا میں کائی اے اختلاف نہ ہوئے عجیب بات ہے کوئی باتن نے کہن سو بھی اختلاف ۔نئی بات بتان سو بھی اختلاف ۔ ۔کائی کی بلیک میلنگ کی نشاندہی سو بھی اختلاف ۔ ۔جناب موجود کوئی ایسی بات بتا دئیو جو سبن کے نزدیک متفق ہوئے۔۔ ۔میں واپے چل لئیونگو۔۔۔ محترم چند لوگن کی نازک مزاجی قوم کو مزاج نہ ہے۔۔۔ میں بار ہا کہہ چکو ہوں کہ م یرو مقصد شخصیات نہ ہاں۔ ۔میں کائی کو نام نہ لئیو ہوں ۔۔ ۔یا کو مطلب تو ای ہوئیو کہ چور کی ۔۔۔۔تنکا۔۔۔ ۔جو لوگ ان باتن نے بھی نہ سنن سکا ہاں جو برادری کا ہر فورم پے کری جاری ہاں تو ان سو سادہ مزاج کون ہوئے گو؟۔ اگلی بات ای ہے کہ جب تک آپ لوگن کا رد عمل اور رائے نہ جانوگا۔ ۔تم نے کیسے پتو چلے گو کہ قوم کو مزاج اور سو کہا ہے۔۔۔۔ اگر آپ لوگ تحریری باتن نے بھی اختلاف کہو ہو تو برادری میں نکل کے دیکھو۔ ۔جا برادری کو نام لئیو جارو ہے۔۔ واکی سوچ اور خیالات کہا ہاں؟؟۔۔۔ مولو سمجھائو کہ برادری میں ہم شامل نہ ہاں۔ ۔۔یا پھر برادری میں شامل ہونا کے مارے کوئی تمغہ لینو پڑے ہے۔۔۔۔؟؟۔ ایک بات ای بھی ہے میو میری پہچان۔۔۔گروپ اگر قوم کو نمائیندہ ہے تو کوئی بھی میو قوم کو فرد اپنی پہچان کروا سکے ہے۔۔۔۔ کوئی بھی اپنا نکتہ نظر واضح کرسکے ہے۔۔ ۔کہا چند لوگن کی سوچ ای قوم کی سوچ ہے؟؟؟؟۔ ۔۔ای قوم بانجھ تھوڑی ہے کہ یا کا سوچن پے بھی پابندی لگا دی جائے۔ ۔۔۔۔میو میری پہچان کو کام اپنا باپ دادان کی روایت کے مطابق۔ بھلائی کا کامن میں مدد برائی سو روکنو۔۔ ۔مظلوم کا حق میں لاٹھی اٹھانو۔۔۔ یہ سب میو قوم کا خاصہ ہا۔۔۔ ۔۔آج انن سو آپ لوگ اختلاف کہو ہو۔۔۔۔۔ موکو کوئی ایک کسوٹی دیدیو کہ جاسو کائی اے اختلاف نہ ہوئے۔۔۔ ۔۔میں بہت سا لوگن سو واقف ہوں جو میو میری پہنچان سو اتفاق نہ راکھاہاں ۔۔۔تو کہا ۔۔میو میری پہنچان بند کردیواں؟؟؟۔۔۔ یا کائینات مینںکونسی ایسی چیز ہے جا کو ایک ہی رُخ ہوئے۔ ۔۔۔زندہ تو رہا ایک گھاں کو۔ ۔مردہ بھی دو رخ راکھاہاں۔۔۔ ۔کہا کائنات میں کوئی۔۔۔ ایسی بات آج تک دکھائی بھی دی ہے جا میں کائی اے اختلاف نہ ہوئے۔ ۔۔۔اسلام سو بڑھ کے کونسی متفقہ بات ہوئے گی۔۔ ۔یاکا بارہ میں بھی لوگ بہت سا اختلاف راکھاہاں۔۔ ۔۔دیکھ لئیو اگر موسو کوئی تکلیف ہے۔۔ تو موئے کوئی اعتراض نہ ہے گروپ میں سو ریمو کردئیو۔۔ ۔یا کہوگا میں خود لیفٹ ہوجائونگو۔۔۔۔ بہر حال اگر موئے کائی اتفاقی بات کو پتو چل جائے تو زندگی میں بہت بڑی کامیابی سمجھونگو۔۔۔۔ ۔جولگ اپنان کی باتن نے اختلافی سمجھاہاں وے دوسری قومن کے سامنے کیسے ٹہر سنکنگا۔ ۔۔ دیکھ لئیو۔۔۔۔میری تحریر محتاط ہاں۔۔۔اگر ناقابل برداشت ہاں۔۔۔۔ تو موئے سمجھا دئیو کہ میو میری پہچان گروپ۔۔ ۔کہ قوم کے مارے کونسی خدمات ہاں ۔۔ یا قوم کے مارے کہا منصوبہ ہے کہ جاپے چل کے قوم ترقی کرسکے ہے۔۔۔۔۔؟؟؟ کہا میو میری پہچان اتنو نازک مزاج ہے جہاں کائی کو بھی ٹھیس پہنچ سکے ہے۔۔۔ اگلی بات ای ہے کہ کونسو متعلقہ فورم ہے۔؟؟؟ ۔۔۔برادری کی بات تو ہر میو فورم پے ہونی چاہاں ۔۔ ۔جب تک ہم ذمہ داری قبول نہ کرنگا۔۔ ۔۔۔ہم سو کون ذمہ دار کہے گو ۔ ۔۔کون اعتبار کرے کریگو۔؟ ۔۔۔میری کی پہچان ۔۔۔ذمہ داری کو نام ہے۔۔ ۔۔کہا قوم کو کوئی آدمی /فورم ایسو ہے جو بات برادشت کرسکے؟؟؟۔۔۔ کونسو متعلقہ فورم ہے۔۔۔ نشاند ہی کردئیو مہربانی ہوئے گی۔۔ آپ کہا سمجھو ہو کہ میو میری پہچان گروپ میں ہی قوم کی نمائیندگی ہے۔ ۔۔یا میری پوسٹ صرف میو میری پہنچان
Dehydration causes stones to form in the body
Dehydration causes stones to form in the body پانی کی کمی جسم میں پتھریاں بننے کا سبب ہے يتسبب الجفاف في تكوين حصوات في الجسم حکیم المیوات قاری مھمد یونس شاہد میو کہاجاتا ہےپانی/ روزانہ 8 سے 12 کپ پانی پیجئے۔ پانی پینے کے بارہ میں کوئی حتمی اصول نہیں ہے۔ہر کوئی اپنی جسامت کے لحاظ سے پانی کی مقدار متعین کرسکتا ہے۔بھاری بگرکم وجود والوں کے لئے زیادہ پانی جبکہ ہلکے وجود والوں کے کم مقدار میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔جو لوگ چٹ پٹی اشیاء ۔کڑھائی۔مچلی کباب۔یا اس قسم کی دیگر غذائی استعمال کرتے ہیں انہیں زیادہ مقدار میں پانی استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو لوگ سبزیاں یا فطری(نیچرل) غذائی استعمال کرتے ہیں انہیں کم مقدار میں پانی ضرورت ہوتی ہے۔بھنی ہوئی اشیاء کھانے سے جسم کو پانی کی زیادہ طلب ہوتی ہے،اگر مناسب مقدار میں پانی نہ پیا جائے تو نظام ہضم میں گڑ بڑ پیدا ہوجاتی ہے۔اس قسم کی غذا کے ہضم میں زیادہ مقدار پانی کی چاہئے جب پانی نہیں ملتا تو جسم میں ذخیرہ شدہ پانی خرچ ہوتا ہے۔ سخت ضرورت کے ےحے جب یہ پانی استعمال ہوجاتا ہے توجسمانی طورپر دیگر اعضاء پانی طلب کرتے ہیں۔ اگر بروقت پانی پی لیا جائے تو جسم نقصان سے محفوظ رہتا ہے ۔کچھ عرصۃ تو ہمارا نظام اس غیر طبعی حالت کو برداشت کرتا رہتا ہے لیکن پھر جسم مین کھچائو اکرائو۔گردوں میں تکلیف۔اعضاء شکنی۔نیند کی کمی۔مزاج میں چڑا چڑا پن نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ جسم میں پتھریاں کیوں پیدا ہوتی ہیں۔ جب انسان پانی کی مقدار پوری نہیں کرپاتا گردوں کو خون صاف کرنے کے لئے مناسب پانی نہیں ملتا جس سے رسوب بننا شروع ہوجاتا ہے۔یہی رسوب رفتہ رفتہ پتھری کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔عمومی طورپر پتھری خارج کرنے کی تدابیر کی جاتی ہیں۔دوائیں کھائی جاتی ہیں جب تکلیف میں کم نہ ہوتو آپریشن تک تجویز کیا جاتا ہے سوال یہ ہے کہ پتھریاں آتی کہا ں سے ہیں؟ یہ پتھریاں ہمارے جسم کے وہ فضلات ہوتے ہیں نہیں گردے خون کی صفائی کےدوران بطور کثافت خون سے الگ کرتے ہیں،اگر جسم کے اندر مناسب مقدار میں پانی ہوتو اس مادہ کو جسم آسانی کے ساتھ براہ حالبین /مثانہ خارج کردیتا ہے۔ بصورت دیگر یہی کثافت معمولی معمولی مقدار میں جمع ہوکر پتھری کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔گردے مثانے مین بننے والی پتھر دراصل وہی فضلات ہوتے ہیں جنہیں جمارا جسم خارج کرنا چاہتا ہے۔لیکن کسی خرابی کی وجہ سے خارج نہیں کرپاتا۔ معالج کو چاہئے کہ وہ پتھری خارچ کرنے یا پتھری توڑنے پر توجہ ضرور دے مگر ان اسباب کو مد نظر رکھے جو پتھری کی پیدائش کا سبب ہیں۔ کھانے کے بعد چاہئے۔ پنے سے جسم میں پانی طلب کم ہوجاتی ہے۔جو لوگ کھانے کے بعد پانی کے بجائے چاہئے پینے کے عادی ہوتے ہین انہیں عمومی طورپر پانی کی کمی شکایت رہنے لگتی ہے۔چائےانسانی جسم میں پانی طلب کی اشتہا کم کردیتا ہے۔ایسے لوگوں کے لئے معالجین پانی کی خاص مقدار متعین کرتے ہیں۔ لیکن عام انسان جو سادہ غذا استعمال کرتا ہے اس کا جسم از خود پانی کی طلب کرکے اپنی مناسب مقدار پوری رکھتا ہے جولوگ پتھریوں کی وجہ سے پریشان ہوں انہیں چاہئے وہ پھلوں کے جوس۔اور اناج کا ابا ہوا پانی۔قہوہ جات کا استعمال کریں۔ بالخصوص سونف۔پودینہ۔اجوائن۔کے قہوہ جات سخت پتھریوں کو ٹوڑنے میں مددگار ہوتےہیں۔ معالجاتی مشاہدہ میں محسوس ہوا کہ جو لوگ پتھریوں کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں ان کے ہاضمے بھی خراب رہتے ہیں۔ پانی کی کمی پورا کریں۔غذا کے انتخاب میں اھتیاط سے کام لیں پتھریوں سے پریشان کو چٹ پٹے کھانے ترک کردیں ۔تازہ سبزیان کھائیں ۔موسمی پھلوں کا جوس مسیر ہوتو استعمال کریں دیہاتی لوگ چاٹی کی لسی پیا کریں ۔اس سے پانی کی کمی بھی پوری ہوگی پتھریاں بننے کا عمل بھی کمزور ہوگا۔ پانی کے مناسب استعمال استعمال سے جلد پر جھریاں پڑنے کا عمل کمزور ہوجاتا ہے اگر پانی کی مقدار پوری ہوتو چہرہ ہشاش ترو تازہ دکھائی دیتا ہے پانی کی پوری مقدار نیند کے عمل کو بہتر بنانے میں معاون ہے
Eastern people toil in the field of operations
Eastern people toil in the field of operations مشرقی لوگوں کی میدان عملیات میں محنت Eastern people toil in the field of operations الناس الشرقيون يكدحون في ميدان العمليات حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو مشرقی لوگ کتنے بھی مادہ پرست ہوجائیں پھر انہیں کسی نہ کسی انداز میں روحانی لوگوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔عملیات ایک ہنر و فن ہیں۔جو دیگر فنون کی طرح اساتذہ کرام کی نگرانی میں سیکھے جاتے ہیں۔لیکن آج پریس اور میڈیا کا دور ہے عملی مواد ہر ایک دسترس میں آچکا ہے عملیاتی کتب مفت میں ڈائون لوڈ کے لئے دستیاب ہیں۔لیکن استاد کی جگہ بہر حال خالی رہتی ہے۔ہر فن کے کچھ رموز ایسے ہوتے ہیں جنہیں اساتذہ کے جوتوں میںبیٹھ کر سیکھا جائے تو آسانی سے سمجھ میں آجائے ہیں۔ ہمارے ہاں عمومی طورپر عملیات چلوں وظائف اور تعویذات سکھانے کا نام ہے۔ کچھ وظائف کرا دئے جاتے ہیں،،شرائط اس قدر تنگ و سخط ہوتی ہیں کہ عام لوگ اس میدان میں آنے کا سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ چلہ وظائف تلقین کرنے کا عجیب انداز اختیار کیا جاتاہے ایک مخصو ص عبارت یا الفاظ مخصوص تعداد میں پڑھنے کی تلقین کردی جاتی ہے۔ ساتھ میں کچھ ان دیکھے ڈر و خوف والی باتیں بھی بتادی جاتی ہیں کہ چلہ کے دوران اس قسم کے فلاں فلاں شکل و صورت میں خوف ذدہ کیا جاسکتا ہے۔۔۔ بتانے والا بتاکر فارغ ہوجاتا ہے سالک بیک وقت چومکھی لڑائی لڑتا ہے۔ عاملیں کی پریشانیاں ایک تو پرہیز وں کا خیال اور پابندی۔ دوسرا عبارت کی تصحیح۔ تیسرا تعداد کا شمار۔ چوتھا ان جانا خوف جس کا کوئی وجود نہیں ہوتا ،جس سے سالک ہمہ وقت لرزاں و ترساں رہتا ہے۔ چلہ وظائف خدا خدا کرکے مکمل ہوجاتا ہے۔ لیکن اثرات کیسے پیدا ہوں اس چلہ کی کامیابی کا ٹیسٹ کیسے کیا جائے۔ ساتھ میں اجازت کی دم اور لگا دی جاتی ہے۔ قصہ کوتاہ استاد کو معلوم ہوتا ہے کہ چلہ میں اثرات کیسے پیدا ہوتے ہیں نا شاگرد پوچھنے کی جسارت کرسکتاہے۔ عقیدت و اعتماد کی بنیاد پر یہ سلسلہ نسل در نسل آگے بڑھتا رہتا ہے۔ سینکڑوں عملیاتی کتب اس وقت مارکیٹ میں موجود ہیں۔ ان میں ملتے جلتے اعمال دئے گئے ہیں۔ کچھ کتب میں حالات کے بدلائو کی وجہ سے پرانے اعمال حذف کرکے ان کی جگہ حالات حاضرہ کے مطابق لکھ دئے گئے ہیں۔ لیکن کسی کتاب میں یہ بحث دیکھنے کو نہیں ملی کی عملیات کام کیسے کرتے ہیں؟ کونسا عمل کس قوت کام دے گا۔یا یہ عملیات کن قوانین کے تحت موثر ہوتے ہیں ۔ چلہ وظائف محنت کے باوجود کام کیوں نہیں دیتے؟ البتہ موکلات کی تعداد،ان کی شکل و صورت کیسے ہوگی،ان سے کونسے کام لئے جاسکتے ہیں؟ یا کونسے امور ہیں جن کے کرنے سے عمل ختم ہوجاتا ہے؟ دوسری اہم بات پرہیزوں کی ہے جس کی ہر کتاب میں طویل فہرست لکھی ہوئی ملتی ہے۔ بغور مطالعہ کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہمزاد موکلات اور جنات کو نہیں بلکہ عامل کو قابو کرنے کے طریقے بتائے جارہے ہیں۔ ستم بالائے ستم کہ کچھ اعمال میں شرط ہوتی ہے ساری زندگی پرہیزوں میں گزارنی پڑے گی نہیں تو عمل ضائع ہوجائے گا۔ تعویذات کی حقیقت۔اور اثرات۔ عملیات کی دنیا میں تعویذات کا اہم کردار ہے ۔ برصغیر میں بہت کم ایسے مقامات ملیں گے جہاں لوگوں کے بازو یا گلے یا بٹوے میںکوئی تعویذ/پڑھاہوا دھاگہ،کسی نیک بندے کی کوئی نشانی موجود نہ ہو۔ انسان تو رہے ایک طر ف گاڑیوں اور دفاتر و مکانات کی نکروں کونوں اور درازوں میں تعویذات ملیں گے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ تعویذات برکت کا سبب ہیں اور آفات و بلیات کو ٹالتے ہیں۔ مصائب و ناگہانی سے محفوظ رکھتے ہیں۔ تعویذات کی حقیقت کیا ہے؟ اسلام سے ان کا کتنا تعلق ہے؟ رسول اللہ ﷺسے کوئی ریاضی کے فارمولے یا مثلث و مربع۔مسدس کے تعویذات و گراف کا ثبوت نہیں ملتا ہے۔ جب دوسری یا تیسری صدی میں یونانی علوم و فنون کے تراجم ہوئے تو ان علوم و فنون سے آشنائی ہوئی جن سے دیگر اقوام روسناش تھیں۔ ان میں ریاضی اور اس کی مختلف اقسام بھی تھیں۔ اہل ہند بھی اس سے واقف تھے۔ بنیادی طورپر تعویذات ریاضی کی اقسام میں سے ہیں، کچھ لوگوں نے آیات قرانیہ اور اسماء اللہ الحسنی و دیگر ادعیہ کی کے اعداد نکال کر ان کے فوائد تحریر کئے ہیں۔ اس فن پر کئی ایک کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اردو میں کاش برنی کی کتب میںعامل کامل حصہ اول۔دوم۔ قواعد عملیات۔۔۔۔۔ وغیرہ فنی لحاظ سے بہترین کتب ہیں۔ جن میں اعداد نکالنے پھر انہیں خاص ترکیب سے خانوں میں پُر کرنے ان کے کام لینے کے طریقے لکھے گئے ہیں،جب انسان کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ تعویذات کی چال اور اقسام کس مقصد کے لئے استعمال کی جاتی ہے تو تعویذات کے اثرات معلوم کرنے کے لئے ایک راستہ ہموار ہوجاتا ہے۔ جب کسی کے گھر میں کوئی تعویذ نکلتا ہے تو ہنگامہ برپاء ہوجاتا ہے۔ لوگ عاملین سے ملتے ہیں کہ ہمارے گھر میں تعویذات ملے ہیں۔ اگر عامل تعویذات کے چال (آتشی،بادی۔آبی۔خاکی) اور اقسام(مثلث۔مربع مخمس وغیرہ کا علم رکھتا ہوگا تو آسانی سے بتاسکتا ہے کہ یہ تعویذات کس مقصد کے لئے لکھا گیا ہے۔ کیونکہ تعویذات کی پہچان چال اور اقسام سے کی جاتی ہے۔ اس فن کے ماہرین کا کہنا ہے اگر تعویذ کو ٹھیک چال کے ساتھ سادہ گنتی سے ہی پر کردیا جائے تو موثر ہوتا ہے۔ نقش بھرنےکےبنیادی اصول عاملین نے نقوش کی بہت سی قسمیں بیان کی ہیں ۔ مگر بنیادی نقش تین ہی ہیں۔مثلث،مربع مخمس اس کے علاوہ مسدس، مسبع، مثمن وغیرہ کی اقسام انہی کے اضافے سے پیدا ہوئی ہیں ۔ یہی وجہ ہےکہ مثلث،مربع مخمس تینوں نقوش کی زکوۃ ادا کرنےکےبعدکسی اورنقش کی زکوۃاداکرنےکی ضرورت نہیں رہتی، نقش بھرنےکےلئے مندرجہ ذیل امور کاجانناضروری ہے ۔1۔اعدا طبعی۔۔۔2۔اعدادطرح ۔۔۔3۔اعداد تقسیم۔۔4۔اعدادکسر۔۔5۔خانہ کسر اعداد طبعی۔ ۔۔ نقش کےجتنےخانے ہوں ان پر ایک بڑھادیں اور پھر نصف اعداد لےکر ایک ضلع کے خانوں سے ضرب دے اعدادطبعی حاصل ہوں گے ۔ اعدادطرح ۔۔نقش کےتمام خانوں کوشمار کریں.خانوں کی جوتعداد ہواس میں ایک کم کردیں ۔ باقی کونصف کرلیں.
ڈھائی ڈھوکلو۔،ڈبیہ میںٹونٹی لگانو۔
ڈھائی ڈھوکلو۔،ڈبیہ میںٹونٹی لگانو۔ ڈھائی ڈھوکلو۔،ڈبیہ میںٹونٹی لگانو۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میوات میں بالک چھوٹا بچپن میں جو کھیل کھیلے ہا ان میں ڈھائی ڈھوکلو بھی نامی کھیل بھی ہو۔ ہم نے بھی اپنا بچپن میں ڈھائی ڈھوکلو کھیلو ہو فرصت کی گھڑی میسر ہی۔زندگی میں غم و فکر کم ہا جب بجلی کو رواج نہ ہو ۔دن ڈھلے مغرب سو پیچھے ڈبیہ ۔یا لال ٹین میں ٹونٹی لگادی جاوے ہے موئے ابھی تک یاد ہے کہ ،ڈبیہ بلان کے مارے چولہا میں سو ٹونٹی لے جاکے ڈبیہ کی باتی میں لگاوے ہا۔ اچھی طرح یاد ہے۔ ایک دن مائی کہن لگی بیٹا اندھیر ہورو ہے ڈبیہ بلادے۔بھائی بہنن مین میرو پانچوئوں نمبر ہے میرا دو بڑا بھائی، وے بھی کم عمر ہا۔وائی جگہ کھڑا ہا۔ میں نے ضد کرکے ٹونٹی اپنا ہاتھ مین لی اور ڈبیہ میں لگائی لیکن ٹونٹی بُجھ گئی۔میں نے وائی تھاں پیھنک دی۔ ٹانڈ پے چڑھ کے دیوا بلانو رہوے ہو۔ مین ٹونٹی پھینکی تو رضائی پے ٹونٹی گری۔ کچھ دیر میں گھر دھوانںسو بھر گئیو۔ مائی روٹی پکاتی پکاتی جلدی سی گھر میں گئی دیکھو تو گودڑان میںآگ لگ ری ہی۔ رول پِٹ گئی۔آنڈی گوانڈی اکھٹا ہوگیا۔ آگ بجھا دی۔میں تو بچہ سمجھ کے مائی نے چھوڑ دئیو لیکن میرا دونوں برا بھائیں نے اچھی کٹائی ہوئی وسائل کم ہا۔مائی نے اگلے دن سوڑن کا ٹکڑا دھوپ میں سوکھایا پھر سوئین سو سیا۔ اور تھیکلا لگا لگا کے ہمارے مارے دوبارہ سو رضائی تیار کری۔۔اُ دن موئے ایسو یاد ہے جیسے کال کی بات ہوئے۔ مائی نے میرا بڑا بھائی یا بات پے مارا ہا کہ اُنن نے بالکن کے ساتھ باہر ڈھائی ڈھوکلو کھیلن کے مارے جانو ہو۔ مائی کہہ ری ہی کہ ۔روٹی کھاکے جائیو۔ رات تک میں روٹی ٹوکن نے کہا سنبھالتی پھرونگی اگر وے دھیان دیتا تو موکو توٹی نہ پکڑاتا خود ڈبیہ بلاتا ۔اور بستران میں آگ نہ لگتی۔ یا میں شک نہ ہے کہ اُن دنن میں لتا کپڑا۔بھانڈا اور گھریلو استعمال کی چیز بہت محدود ہی ایک ہی گلاس پلہینڈی پے دھرو رہوے ہو ایک آدھ کٹوری ہی، جامیں سارا باری باری لگان لیوے ہا۔ ایک ایک گھاٹ پے دو دو سوے ہا۔ بڑا بالک عمومی طورپے باہر باپ کے ساتھ سوے ہا ۔جب کئی بالک بڑا ہوجاوے ہا تو دو بھائی بھی ایک کھاٹ پے سونو بُرو نہ سجھے ہا۔
Do drugs accumulate in existence
Do drugs accumulate in existence کیا دوائیں وجود میں جمع رہتی ہیں؟ Do drugs accumulate in existence? هل المخدرات تتراكم في الوجود؟ جسم میں دواؤں کا رد عمل حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو میدان طب میں زندگی کے بہت سے قیمتی سال بیتے حکماء و اطباء سے ملاقاتیں رہیں طرح طرح کی باتیں سننے کو ملیں۔عجیب کہانیوں سے سماعت سے ٹکرائیں۔پرانے حکماء کی باتیں جو ہم تک پہنچیں یا پھر ان کی بیاضیں پڑھنے کو ملیں ان میں شنگرف کچلہ سم الفار وغیرہ ادویات کے بارہ میں سنا کہ یہ گردوں کو خراب کردیتی ہیں یا ان کے منفی اثرا ت ضرورت مرتب ہوجاتے ہیںکیونکہ یہ اشیاء داخل جسم ہونے کے بعد ان کا خراج نہیں ہوتا، یہ جسم میں جمع رہتی ہیں تاحیات ان سے پیچھا نہیں چھڑایاجاسکتا ۔ان کے افعال و اثرات سے تو انکار ممکن نہیں لیکن ان کا جسم کے اندر جمع رہنا والی بات کچھ ہضم نہیں ہوتی ۔غذا یا دوا جس مزاج کی بھی ہوں اپنے متعلقہ عضوکو متأثر کرکے خارج از جسم ہوجائےمثلاََ گرم چیزیں جگر۔خشک دل میں تر دماغ میں اپنے اثرات مرتب کر تی ہیں اور جسم سے خارج ہوجاتی ہیں ۔اگر یہ فارمولا مان لیا جائے تو 70یا 80سال کی عمر تک تو کئی کلو ادویات ہمارے جسم میں جمع ہوکر ذخیرہ کے طور پر جمع ہونگی عجیب بات ہے فضول باتیں بھی لوگوں میں رائج ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ *ادویات جسم میں کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں؟* کوئی بھی دوا جب کھائی جاتی ہے تو انسانی جسم میں جانے کے بعد خون میں پہنچ کر اپنا اثر ظاہر کرتی ہے۔ *خون پر ادویات کے اثرات* *١۔اعصابی ادویہ کے خون پر اثرات* اعصابی ادویہ چوں کہ تری کی حامل ہوتی ہیں اس لئے جب اعصابی ادویہ کھائی جاتی ہیں تو خون میں رطوبت غریزی بڑھ جاتی ہے۔خون کا قوام پتلا ہو جاتا ہے چونکہ خون میں ابتدائی طور پر کھاری اثر زیادہ ہو جاتا ہے اس لئے خون میں جمنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔اخراجِ خون بھی نہیں ہوتا۔یہ تمام صفات کیلشیم میں بھی پائی جاتی ہیں۔ آک کا دودھ سونف،زیرہ سفید،قلمی شورہ،جو کھار،صندل،کهربا شمعی وغیره اس قبیل کی ادویہ ہیں۔یہ ادویہ خون کے قوام کو پتلا کرنے میں مدد دیتی ہیں۔جب کبھی اخراج خون روکنا ہو تو اس قسم کی ادویہ کھلا کر خون بند کیا جا سکتا ہے۔ *اہم نکتہ:* ان ادویہ کےاثرات عضلاتی ادویہ سےختم کیےجاسکتےہیں۔ *٢۔خون پر عضلاتی ادویہ کے اثرات* یہ بھی پڑجئے پھل کھانے کے اوقات طب نبوی کی روشنی میں عضلاتی ادویہ خشک سرد سے خشک گرم اور مزاج کی حامل ہوتی ہیں۔اس لئے ان کے استعمال سے خون میں ترشی وسودا کی زیادتی ہو جاتی ہے۔ان ادویہ کے استعمال سے خون کا قوام گاڑھا ہو جاتا ہے اور یہی وہ ادویہ ہیں جن کے استعمال سے لیفین یا انجماد کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔اگر جسم کےکسی حصہ سے خون نکلناشروع ہو جائے تو یہی ادویہ لیفین پیدا کر کے خون کا اخراج بند کر سکتی ہیں۔ ان ادویہ میں پھٹکڑی،گیرو، دم الاخوا ئین اورکونین وغیرہ شامل ہیں۔ یہ بھی پڑھئے علاج و ادویات میں تجربات کے آسان طریقے یہ تمام عضلاتی اعصابی ادویہ ہیں یہ خون کا قوام گاڑھا کر کے اخراج خون کو روکتی ہیں۔جبکہ عضلاتی غدی ادویہ خون کے قوام میں پتلا پن پیدا کرتی اور خون میں خشکی گرمی بڑھا کر اخراجِ خون کاباعث بنتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بغیرمزاج و ماہیتِ مرض کو سمجھے ایسی ادویہ کے کثرتِ استعمال سے اکثر خونی قے،خونی دست، بلغم میں خون آنا،حیض کی کثرت،استحاضہ اور جریانِ خون جیسی علامات پیدا ہو جایا کرتی ہیں۔اس قسم کی ادویہ خون کو جمنے نہیں دیتیں۔ان میں پپیتہ،لونگ دارچینی،ازراقی،مصبر،مرکی وغیرہ شامل ہیں۔ *اہم نکتہ:* ان ادویہ کےاثرات غدی ادویہ سےختم کیےجاسکتےہیں۔ *٣۔خون پر غدی ادویات کے اثرات* غدی ادویه محرک جگر و غدود اور مولد صفرا ادویہ ہیں یہ ادویہ خون میں لیفین اور فائبرین کو کم کر دیتی ہیں جس سے خون میں پتلا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ انجماد خون کی صفت کم ہو جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس مزاج کےافراد اگر کسی وجہ سے زخمی ہو جائیں تو خون کا اخراج جلد بند نہیں ہوتا۔یا درکھیں غدی ادویہ کے استعمال سے خون میں نمکیات کی زیادتی ہو جاتی ہے جس سے خون منجمد نہیں ہوتا۔لیکن اگر کیلشیم اوگزالیٹ یا کیلشیم لیکٹیٹ وغیرہ مریض کو کھلا دیئے جائیں یا ان کی پچکاری کی جائے تو نمک نیوٹرل ہو جاتاہے جس سے پھر انجماد خون ہونے لگتا ہے۔سائنسی اصطلاح میں نمک(سوڈیم کلورائیڈ )میں اگر الکلی ملادی جائے تو نمک بے اثر یا ختم ہو جاتا ہے۔ غدی ادویہ میں اجوائن دیسی،حب سلاطین،بائچی،رائی،سنڈھ اور مرچ سیاہ وغیرہ شامل ہیں۔ *اہم نکتہ:* غدی ادویہ کے اثرات اعصابی مزاج کی ادویہ سے ختم کئے جاسکتے ہیں۔۔*
بھوت کا پائوں جب بندھاں
بھوت کا پائوں جب بندھاں بھوت کا پائوں جب بندھاں ۔جب گھروالان کا بندھاں حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو میو قوم کتنی بھی ماڈرن بن جائے لیکن یاکا خون کو ابھار کدی مٹھو نہ پڑے ہے۔کدی نہ کدی جوش مارے ہے میون کا گروپ میں ،میو بہت مہذب باتن نے کراہاں لیکن کدی کدی ان کو سوئیو ہوئیو میو جاگ جاوے ہے اور ایک دوسرااے گلھیان سو بھی نہ چوکا ہاں۔ ایک اہم بات جو میون کا سوشل گروپن میں دیکھن کو ملی ہے اُو ای ہے کہ ہمارا گروپن میں اظہار مافی الضمیر گنجائش کم ہے جو چیز ایڈمن کے خلاف ہوئے ،یا وائے اچھی نہ سمجھے تو وارننگ جاری کردیوے ہے دراصل ابھی شاید لوگ غلط فہمی کا شکار ہاں وے سمجھا ہاں کہ اُ نکی مرضی ۔قوم کی مرضی ہے؟ حالانکہ قوم کی سوچ ان کی پابند نہ ہے۔ گروپ تو ایک پنچائت ہے جامیں ہرکوئی بول سکے ہے ای کہا بات ہوئی کہ اپنی طبیعت کے خلاف بات اے قوم کے خلاف سمجھ لئیو۔ ہم نے آگے بڑھن کے مارے ذاتی سوچ اور قومی سوچ میں فرق کرنو پڑے گو۔جب شخصیات اور افراد یا معمولی سی بات اے سمجھن لگ جانگا تو بہت سا اختلاف پیدا ہون سو پہلے ای ختم ہوجانگا۔ یامارے جن لوگن نے گروپ بنا راکھاہاں وے اپنی عادت سے نظر ثانی کراں۔ جب گروم میو قوم کا نام سو چلا راہاں تو اچھی مرضی کہاں باقی بچے ہے۔ ایڈمن اکیلو تو قوم نہ ہے۔ جب بھی کوئی چج کی بات کرے وائے نکال باہر پھینکو ہو۔ ای میو قوم کو نمائیندہ گروپ ہے یا پھر تہارو ذاتی بنگلہ/بیٹھک۔ اگر اپنی ذات کی حد تک رہنو ہے تو میو قوم کا نام اے استعمال مت کرو جو چاہے کرتا پھر و تم نے کون پوچھے ہے؟ بُرو نہ مائو تو کہہ سکو ہوں تم نے جانے کون ہے؟ لفظ میو قوم ہی تہاری پہچان ہے کم از کم یاکی تو لاج راکھو۔ اگر تم نے اپنی عادت نہ بدلی تو میو قوم کو جوان اب سوچن لگ پڑو ہے۔اُو خود بدل دئے گو۔ پھر کہتا پھروگا کہ آج کال کی اولاد نافرمان ہے بڑان کی قدر نہ کرے ہے۔ یامارے جوانن کی باتن نے سنو۔ ان کا سوالان کو جواب دئیو۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو