اصحاب بدر 313کے اسماء مبارکہ اصحاب بدر 313کے اسماء مبارکہ
آپ کی صحت آپ کے ہاتھ
آپ کی صحت آپ کے ہاتھ کتاب یہاں سے ڈائون لوڈ کریں
اسلامی کتب خانے
اسلامی کتب خانے
Meri Kahani
Meri Kahani Meri Kahani Download Categories: Biography, Histroy Books, PoliticalTags: Jawaharlal Nehru, Meri Kahani
Tareskh-e-Balochistan
Tareskh-e-Balochistan Download Category: Histroy BooksTags: Gul Khan Naseer, Tareskh-E-Balochistan Reviews (0)
کہا ای میو قوم کی نمائیندگی ہے؟
کہا ای میو قوم کی نمائیندگی ہے؟ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو کال میں نے سوشل میڈیا پے عید ملن پارٹی کی تصویر دیکھی ،جو تقریبا میو قوم ،یا میو بولی کا نام پے بنن والا سارا گروپن میں شئیر کری گئی ہی۔ ان پے کئی لوگن نے کمنٹس بھر کرا لائک بھی ملا پہلے تو اپنی لکھائی پڑھائی میں مصروف ر ہو کیونکہ یا وقت میواتی زبان پر کچھ لکھ رو ہوں کہ دوسری ہندستانی زبانن میں میواتی کی حیثیت اور تاریخی پس منظر کہا ہے؟یاکی قدامت وکہنگی کتنی ہے اور میواتی بولی لسانی و ادبی لحاظ سو کتنی اہمیت راکھے ہے۔ جب کچھ فرصت ملی تو میرے سامنے پھر عید ملن والی تصویر آگئی ہے۔میرو ماتھو ٹھٹ کو۔ غور سو دیکھو تو بڑا بڑا نام موجود ہا۔ ان میں اعلی افسیران۔آرامی و سیول سرویسز سو ریٹارڈ۔اور حاضر سروس لوگ۔ سیاسی کھونٹیل موجود ہا۔ فلاں میجر۔فلاں کرنل فلاں برگیڈئیر۔ فلاں ایم پی اے۔وغیرہ میں نے تصویر زوم کرکے دیکھی تو ایک بھی عام آدمی یا غریب طبقہ سو تعلق راکھن والو۔ یا پھر میو قوم کی مالی طورپے نامساعد حالات میں خدمت کرن والان کی تصویر موجود نہ ہی بہت سا لوگ ایسا بھی دکھائی نہ دیا ہا جو کدی ان محفلن کا روح رواں رہوے ہا۔جن کا دم سو محفل سجے ہی۔ای تو کوئی خاص بات نہ ہی البتہ ایک بات بار بار ذہن میں کھٹے ہی کہ یا عید ملن پارٹی میں میو قوم اور میون کے مارے کائی مسئلہ پے۔میو قوم کا دکھ درد۔ان کا مسائل۔ ان کی ضرورت آن والا چیلنجن کا بارہ میں کوئی لائحہ عمل۔ یا پھرقوم کا جوانن کا مستقبل کا بارہ میں مشاورت کائی ایک کو بھی ذکر موجود نہ ہو۔ ایسو لگے ہے کہ قوم کو نام تو صرف تقریر یا چوہدر کے مارے استعمال کرو جاوے ہے۔ باقی ضرورت محسوس نہ کری جاوے ہے۔ سوچن کی بات ای ہے کہ یہ سب موٹا موٹا لوگ ایک تھاں اکھٹا ہویا۔اگر نوں بتا دیتا کہ ان ساران نے میو قوم کے مارے کہا کرو ہے یا میو قوم کا بارہ میں مستقبل میں کونسو منصوبہ زیر غور ۔یا زیرتکمیل ہے تو بہت خوشی ہوتی؟ لیکن ایسی بات سوچنو تو بائولہ پن ہے یاد راکھو اگر تم میو قوم کا نام اے استعمال کرو اور میون کو اپنا محکمہ یا عہدان سو میون کو فائدہ نہ پہنچائو ہو تو ای بات بوڑھاپا میں تنگ کرے گے ۔جب یہ امانت تم سو لیکے آن والان کا ہاتھ میں تھما دی جانگی اور تہارے پئے اپنی بات آن والی نسل کے مارے کوئی کارنامہ سنان کے مارے موجود نہ ہوئے گو ہماری نفسیات میں ای بات بیٹھ چکی ہے کہ ہماری محفل یا بیاہ شادی یا وقت تک سجا نہ ہاں جب تک کائی کھونٹیل اے نہ بلا لیواں۔ اگر تھوڑو سو پروگرام ایسے ترتیب دئیو جاوے کہ میون کا نام پے چوہدر کرن والان نے یا بنیاد پے بلائو کہ وے آکے بتاواں کہ اُنن نے میو قوم کے مارے کہا کچھ کرو ہے۔جو زیادہ خدمت کرے ،واکو گھنی عزت دئیو جو صرف گپوڑ لگائے۔وائے اگلاسٹاپ پے چھوڑ آئو اگر ایسی سوچ پیدا ہوگئی تو کھونٹیل اپنی ناک کے مارے ایسا کام کرنگا جنن نے دس بیس بندان کے سامنے بتا سکاںکہ ہم نے قوم کی فلاں خدمت کری ہے۔ تنقید مقصد نہ ہے۔ اصل بات ای ہے کہ وسائل اور میو قوم کو نام عطیہ خدا وندی ہاں جولوگ میو قوم کا نام سو متاثر ہاں۔ یا جو لوگ قوم کا نام اے استعمال کراہاں دونوں مخلص ہاں۔ لیکن دونوں کے سامنے کوئی لائحہ اور میو قوم کی فلاح و بہبودکو پروگرام نہ ہے ایسی عید ملن پارٹی اور چنوا لوگ میو قوم کی سوچ۔ثقافت۔ان کا مسائل۔ان کی ضرورت اور آن والا وقت کا چیلنجن کی نمائیندگی نہ کراہاں ہماری نئی نسل ہمارا ہاتھ سو نکلتی جاری ہے قوم کی نمائیندگی کا نام پے خواب غفلت میں آرام میں مصروف ہاں۔ یا وقت عید ملن پارٹین کے بجائے۔ قوم کا پڑھا لکھا جوانن کے مارے بہتر مستقل کا پروگرام بنایا جاواں طلباء کے مارے مواقع پیدا کرا جاواں غریبن کا مسائل بتلایا جاواں ہم نے ایسی بات پے اعتراض نہ کرونو چاہے جو اپنا وسائل اور اپنا پیسہ کی بنیاد پے پارٹی دی ہوئے لیکن قومی سوچ کی بنیاد پے ایسی سوچ آنو کوئی بڑی بات نہ ہے
گندھارا
گندھارا_ از_ولی_اللہ_خان_گزشتہ_پانچ_ہزار_سال_کی_داستان_عقابی گندھارا ایک قدیم ریاست تھی جوشمالی پاکستان میں خیبرپختونخوا اورصوبہ پنجاب کےعلاقے پوٹھوہارکے کچھ علاقوں پرمشتمل تھی۔ پشاور، ٹیکسلا، تخت بائی، سوات ،دیر اور چارسدہ اس کے اہم مرکز تھے۔ یہ دریائے کابل سے شمال کی طرف تھی، گندھارا چھٹی صدی قبل مسیح سے گیارہویں صدی تک قائم رہی۔ لفظ گندھارا کے بہت سے معانی نکالے جاتے ہیں، تاہم محققین کسی ایک معنی پر متفق نہیں۔ بعض مؤرخین کی تحقیق کے مطابق وسطی ایشیاء سے آنے والے قبائل کے ایک سردار کا نام گندھاریہ تھا جس نے اپنے نام سے یہ نو آبادی قائم کی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سردار کی ایک بیٹی کا نام گندھاری تھا، جس کے نام پر اس علاقے کا نام گندھاری رکھ دیا گیا تھا جو بعد میں بگڑ کر گندھارا کہلایا۔ بعض کے خیال میں لفظ گندھارا کے معنی یہاں کی مشہور اون پر پڑ گیا تھا۔ بھیڑوں کی یہ اون بہت نفیس تھی اور اس کی شہرت کا ڈنکا پورے برصغیر میں بجتا تھا۔ افغانستان کے مشہور شہر قندھار سے بھی اس کی نسبت بیان کی جاتی ہے۔ ٹیکسلا جب بدھ مت کا مرکز تھا، تو اس وقت قندھارا سے بہترین سنگ تراش آئے تھے اور انھوں نے ہند، یونانی اور ایرانی فن کی آمیزش سے اپنے ہنر کے اعلیٰ جوہر دکھائے جس کے باعث یہاں کا نام ’’قندہارا‘‘ اور پھر ’’گندھارا‘‘ پڑ گیا۔ گندھارا کا صدر مقام:۔ گندھارا کے صدر مقام کے بارے میں کئی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ٹیکسلا جو اسلام آباد کے قریب واقع ہے، اسے بھی گندھارا کا صدرمقام قرار دیا جاتا ہے اور پشکلاوتی جو اَب چارسدہ کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور پشاور کے قریب واقع ہے،کو بھی گندھارا کا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وادئ پشاور کو بھی قدیم زمانے میں گندھارا کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور یہ ایک طویل عرصے تک گندھارا کا صدر مقام رہ چکا ہے۔ ’’ہنڈ‘‘ کو بھی گندھارا کے صدر مقام کی حیثیت سے جانا جاتا ہے جہاں سکندرِ اعظم نے دریائے سندھ (اباسین) عبور کیا تھا۔ وادئ سوات کوبھی گندھارا کے صدر مقام کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔کیوں کہ سوات میں بُدھ مت اور گندھارا تہذیب کے قدیم اثرات کی بہتات ہے۔ سوات میں برآمد ہونے والی گندھارا تہذیب اور گندھارا آرٹ کے بعض نادر نمونوں سے یہ اندازہ لگتا ہے کہ سوات میں گندھارا تہذیب کوبڑا عروج حاصل تھا اور اس تہذیب کے اثرات یہاں اس قدر زیادہ ملتے ہیں کہ سوات پر گندھارا آرٹ کی ایک بڑی فیکٹری کا گمان گزرتا ہے۔ جہاں بہترین نقش و نگار کی حامل کندہ کاری اور نفیس سنگ تراشی کے نمونے سلطنت گندھارا کے دیگر علاقوں میں بھی سپلائی کئے جاتے تھے۔ سوات میں جہان آباد میں بُدّھا کا قد آور خوب صورت مجسمہ گندھارا آرٹ کا ایک بہترین اور نایاب نمونہ ہے۔
نبض اور تحریکات
نبض اور تحریکات مقصد تالیف اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم بالقلم کا فن عطاء فرماکر اس کائنات کی آبادی کے لئے دنیا میں بھیج دیا انبیائے کرام اور نیک لوگوں نے ہمیں اعتدال کے ساتھ اس دنیا میں رہنے اور اعتدال کو قائم رکھنے کے لئے اعتدال بخشا،جب بھی اس اعتدال میںانحراف ہوگا توعلم و تجربات کی روشنی میں اعتدال کو قائم کرنے کا نام طب و حکمت ہے، قران کریم نے اسے خیر کثیر کہا ہے، اس کے قواعد و ضوابط اور صدیوں کے تجربات نے اس انحرافی کیفیت(بیماری)کو پرکھنے کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے جسے نبض سناشی کہا جاتا ہے،اس میں مہارت طبیب کے لئے بہت ضروری ہے،جو طبیب اس ہنر میں مہارت چاہتا ہے وہ محنت سے کام لے، تجربا ت کا تسلسل اس کے لئے نئے افق کھولنے کا سبب ہوگا۔سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبو ی ﷺ کاہنہ نو لاہور بحیثیت ادارہ مصروف عمل ہے کہ مختصر و جامع انداز میں اسلاف کے اس ورثہ کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کردے۔کئی کتب شائع ہوکر قبولیت عامہ حاصل کرچکی ہیں۔ ادارہ خاصل طب نبویﷺ جو قرآن و احادیث میں موجود ہے کی اشاعت کے لئے سرگرم عمل ہے۔ بالخصوص احادیث کی امہات کتب اور معتبر تفاسیر سےطبی جواہر کو جمع کرکے مفاد عامہ کی خاطر شائع کر رہا ہےمثلاََ(1)صحاح ستہ میں مذکورہ احادیث اور ان کی تخریج اسناد(2)احادیث میںمذکورہ غذائیں اوردوائیں(3)طب نبوی عصر حاضر کے تناظر میں(4)قران کریم سے اخذ کردہ طبی نکات(5)مدارس کے طلباء اور علماء کے لئے طب سیکھنا کیوں ضروری ہے؟۔ عربی سے اردو تراجم میں(1) طب نبوی للذہبی(2)طب نبوی لامام الرضاء(3) المنہل الروی فی الطب نبوی المؤلف: ابن طولون(4)كتاب الأمراض والكفارات والطب والرقيات للمقدسی(5)الطب النبوي للاصفہانی(6)لأطعمة والأشربة في عصر الرسول جیسی کتب شامل ہیں۔انشا اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔اس کے علاوہ عملیات بھی زندگی میں اہمیت رکھتے ہیں۔اس موضوع پر اہم اور بنیادی کتب لکھی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس نیک کام کو جاری و ساری رکھے،ادارہ کے ماہرین درس نظامی کے لئے آٹھ سالہ کورس بھی ترتیب دے رہے ہیں جو انشا اللہ اہل علم کی مشاورت کے بعد جلد مدارس میں تدریس کے لئے پیش کردیا جائے گا۔ حررہ۔عبد ضعیف۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو۔منتظم اعلی ادارہ ہذا ۔ نبض اور تحریکات۔کچھ نبض کے بارہ میں۔ کچھ اہم باتیں۔ مشینی تحریک میں خالص خلط بنتی ہے اور یہی خلط اس عضو کی خوراک ہوتی ہےمثلاََ غدی عضلاتی غدد جازبہ(گرم خشک) میں جگر کی خوراک خالص صفرا ہوتی ہے۔اسی طر ح خبر رساں اعصاب کی خوراک خالص بلغم ہے’’اعصابی غدی‘‘ تحریک ہوتی ہے۔ اسی طرح تیسرا عضو ارادی عضلات عضلاتی اعصابی تحریک ہے۔ان تینوںتحریکوں میں تینوں خالص اخلاط پیدا ہوتے ہیں اور جسم میں جمع ہوتے رہتے ہیں،اگر اخلاط اعتدال کے ساتھ جسم میں پیدا ہوکر جمع رہیں تو صحت قابل رشک رہتی ہے۔اگر کسی وجہ سے اعتدال قائم نہ رہے تو یہ اخلاط کی بے اعتدالی وبال جان بن جاتی ہے اس افراطی کیفیت کو معتدل کرنے کے لئے ہمیںمشینی کیفیات پیدا کرنا پڑتی ہیں مشینی تحریکات جسم سے فالتو اخلاط و غیر ضروری مواد کو خارج از جسم کرکے انسانی صحت کو اعتدال کی طرف لاتے ہیں۔ تکمیل جسم یا حیاتی امور طبعیہ۔ جب غذاء کھائی جاتی ہے (1)سب سے پہلے کیفیات بنتی ہیں، (2)اس کے بعد اخلاط (3)،اسکے بعد اعضاء (4)اس کے بعد ارواح (5)اس کے بعد قویٰ یعنی قوت بنتی ہے (6) قوت سے فعل صادر ہوتے ہیں۔ یہ کل 6 مراتب ہوئے طرح افعال بھی6ہوتے ہیں اور یہ تینوں اعضائے رئیسہ پر منقسم ہیں (1)احساس کا ہونا ’’اعصابی عضلاتی‘‘ (2)حکم کا ہونا (3)ارادی حرکت (4)غیر ارادی حرکت (5)غذا کو جذب کرنا یعنی ہضم کرنا (6)فضلہ خارج کرنا۔ پانی ہوا اور حرارت کی بدولت جسم کا نظام چل رہاہے ان کے حد اعتدال سے کم یا زیادہ ہونا مرض (بیماری) کہلاتاہے، جو ا س راز کو سمجھ لے گا کسی بھی مرض کا بفضلہ تعالیٰ علاج کرسکتاہے۔ نبض دیکھنے کا آسان طریقہ۔ کلائی پر چاروں انگلیاں برابر رکھیں اور دو چیزوں کا احساس کریں(1)ہوا(2)پانی۔ہوا یا پانی کو محسوس کرنا مشکل کام نہیں ہے۔اگر نبض میں ہوا کی زیادتی ہے تو نبض میں قوی پن اور سختی ہوگی،اسی طرح اگر نبض میں پا نی کی زیادتی ہے تو نرمی اور سستی ہوگی،اگر ان دونوں باتوں کا احساس نہ ہو تو باقی حرارت ہی بچتی ہے ان تینوں کے علاوہ کوئی چوتھی چیز نہیں ہے۔ پانی والی نبض کے دو اطوار (1) پانی والی نبض کا پہلا طور۔اگر پانی کا تعلق حرارت کے ساتھ ہے تو شرائط نبض میں حجم کو سمجھئے یہ نبض کلائی میں شہادت والی انگلی کے نیچے دباؤ دینے سے محسوس ہوگی طب کی زبان میں اسے کام بلغم(ترگرم) یعنی قانون مفرد کیے مطابق اعصابی غدی ہو گی یعنی دماغ کا تعلق جگر کے ساتھ جڑا ہوا ہے بالفاظ دیگر پانی میں حرارت موجود ہے (2)پانی دوالی نبض کا دوسرا طور پانی والی نبض کا تعلق حرارت سے ٹوٹ کرخشکی سے جڑ گیا ہے اس نبض کی شناخت یہ ہوگی کہ شہادت والی انگلی کے نیچے بغیر دباؤ دئے یعنی اوپر ہی محسو ہوگی،اہل طب اسے پختہ بلغم یعنی تر سردکا نام دیتے ہیں،قانون مفرد والے اسے اعصابی عضلاتی کہتے ہیں،اس نبض کو شرائط قوام کے تحت سمجھنا چاہئے یعنی اب دماغ کا تعلق جگر کے بجائے دل سے جڑ گیا ہے۔ ہوا والی نبض کے دو اطوار (1)ہوا والی نبض کا پہلا طور۔اگر ہوا کا تعلق پانی سے ہے تو اس نبض کا احسا س شہادت والی انگلی کے ساتھ والی انگلی تک ہوگا اور مقام کے لحاظ سے دو انگلیوں تک محسوس کی جاسکتی ہے،اہل طب اسے سودائے خام اور مفرد اعضاء والے اسے عضلاتی اعصابی(خشک سرد)نبض کہتے ہیں، اب دل کا تعلق دماغ کے ساتھ جڑ گیا ہے،شرائط نبض میں مقام کو سمجھیں۔ (2)ہوا والی نبض کا دوسرا طور ہوا کا تعلق پانی سے ہٹ کر جگر(حرارت) سے جڑ گیا ہے اسکی شناخت یہ ہوگی کہ شہادت والی انگلی کے ساتھ والی دو انگلیوں تک محسوس ہوگی،اہل طب اسے سودائے پختہ(خشک گرم)مفرد اعضاء والے عضلاتی غدی کہتے ہیں اسے شرائط قرع(چوٹ) کے تحت سمجھیں۔ حرارت والی نبض کے دو اطوار۔ (1)حرارت کا تعلق ہوا کے
جنات کا سائنسی تجزیہ
جنات کا سائنسی تجزیہ
تاریخ طب اطباء قدیم
تاریخ طب اطباء قدیم پیش لفظ روایتوں کا لہو جنس رائیگاں تو نہیں جدید خاکوں میں بھر لو یہ رنگ بہتر ہے یہ کیا کہ اپنے ہی چہروں سے لوگ ڈر جائیں اسی کا نام ہے صیقل تو زنگ بہتر ہے مختا رہاشمی طالب علمی کا وہ دور جس میں درس میں شریک ہوتا تھا کچھ اساتذہ نے پڑھایا لکھایا یا کچھ خود پڑھے لکھ لیا ، امتحان دیا اور پاس ہو کر آگے بڑھ گیا۔ برسوں یہ سلسلہ چلا تھا، کتنا اچھا دور تھا،ہر اس شخص کو جو طالب علم رہ چکا ہے وہ سہانا دور یاد آتا ہے۔ اس طالب علم کے لئے علمی دنیا میں دوسرے حصہ کی زندگی پہلے دور سے بالکل مختلف ہو جاتی کہنے کو تو پڑھاتے ہیں لیکن پہلے خود پڑھتے ہیں اور اس انداز سے پڑھتے ہیں کہ خود مطمئن ہوں یا نہ ہوں دوسروں کے دل و دماغ کے لئے اطمینان کا سامان ضرور فراہم کردیں۔ بہر وال کا جوا اس طرح سے دیں کہ جذبہ سوال و جواب مجروح نہ ہونے پائے۔ یہ کتنا مشکل کام ہوتا ہے اس کا اندازہ اساتذہ ہی لگا سکتے ہیں۔ بہت سے سوالات ایسے ہوتے ہیں کہ کلاس میں جواب دے کر پیچھا چھڑا لیا جاتا ہے لیکن کچھ سوالات ایسے ہوتے ہیں کہ کلاس کے باہر بھی پچھا نہیں چھوڑتے ہیں۔ اسی قسم کا ایک سوال بار بار صرف اس کالج کے نہیں بلکہ دوسرے کالجوں کے طلباء نے بھی کرنا شروع کر دیا کتاب دوبارہ کب تک چھپ کر آئے گی ؟ دل کی بات کیسے بتاتا اپنے خیال میں ان کو سہلاتا رہا، ٹالتا رہا لیکن جب مخلصین کا اسرار بڑھا تو مجبور ہو کر پھر کتابوں کی ورق گردانی کرنی پڑی۔ طبع اول پر