عید کی چھٹی اور نواب ناظم میو سو ملاقات سمپت اور سپوت میں سب کو ساجھو ھوئے نتھو کال کپوت سو بوساوے ناں کوئے حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو ۔۔۔۔۔۔۔ عید کی خوشی سبن نے رہوے ہے۔لیکن اگر گوشت کھاکے کائی مخلص دوست سو ملاقات ہوجائے تو سونا پے سہاگہ۔۔خوشی مٹھی کھٹی کو مزہ دیوے ہے عید کے دوسرے دن جمعہ المبارک کی نماز سو پیچھے، واپسی پے جناب نواب ناظم میو صاحب سو ملن کے مارے اُن کے گھر پہنچو۔نواب صاحب نے زرہ نوازی کری اور اپنا قیمتی وقت میں سو ایک گھنٹہ ملاقات کے مارے مخصوص کردئیو۔بے تکلفی سو بات چیت ہوئی۔علم و ادب۔میواتی تاریخ۔میو ثقافت۔اور میواتی پے لکھی گئی کتابن پے بات چیت ہوئی۔اور غور فکر کرو گئیو کہ میو قوم /میواتی ادبی انداز میں کیسے ترقی کرسکاہاں اور میواتی اَدب کا مہیں کیسےموڑاجا سکاہاں۔\ نواب صاحب کی زندگی کو بہت بڑو حصہ لکھتے لکھاتے گزرَو ہے۔ان کی کتاب بہت گہرائی کی حامل ہاں ۔ اِن کی شاعری میں جان ہے۔اردو تو اِن کی اعلی درجہ کی ہے لیکن جب میواتی میں شعر کہوا ہاں تو ان میں بھی ندرت اور نرالہ پن دکھائی دیوے ہے۔۔مطالعہ کی وسعت اور قلم پے گرفت اور الفاظ کو چنائو ان کو خاص ہنرہے۔ دوران ملاقات کچھ بات سوشل میڈیا۔ویب سائٹس۔اور میو قوم کا ڈیٹا بیس کی تیاری۔اورمیواتی ادب اور میو قوم کا بہترین افراد کی بائیو گرافی۔اور تہذیب و تمدن پے محنت ۔اور ایسو اَدب جو لکھو تو گئیو لیکن وسائل کی کمی وجہ سو لکھن والان کی صندوق میں دھرو دھرو دیمک کی خوراک بن رو ہے۔اور کم وسائل واکی اشاعت میں رکاوٹ ہاں۔ سب سے اہم بات سعد میومیموریل ورچوئل سکلز پاکستان کا بارہ مین مشاورت ہوئی کہ ای پلیٹ فارم میو قوم اور بالعموم سارا پاکستان اور دنیا بھر کا انسانن کے مارے فائدہ مند ہوسکے ہے۔اور یا کو فیض کیسے عام ہوسکے ہے۔ایسا نظام کا بارہ میں بات چیت ہوئی کہ یاکو پھیلائو علاقائی یا ملکی سطح سو زیادہ بڑھ کے ہوئے۔ورچوئل سکلز کو مطلب ای ہے کہ جہاں کوئی ضرورت مند ہوئے یاسو فائدہ اٹھا سکے ہے۔ جناب نواب ناظم صاحب نے ایک پتہ کی بات کہی کہ سعد ورچوئل سکلز اے ادارہ بنائیو۔چاہے کوئی بھی قیمت اد ا کرنی پڑے۔زیادہ مخیر بننا کے بجائے کام اور ہنر پے توجہ دئیو۔جاکو ہنر سکھادئیو ۔اُو بہتیرو کمالئیو گو ۔مستحق لوگن کی رعایت کرئیو۔خامخواہ پلپلا مغز کو مت بنئیو۔یابات میں ان کی زندگی کو تجربہ اور ذاتی مشاہدات جھلک را ہا۔میرے مارے ان کا مشورہ بہت معنی راکھے ہا۔بہت دھیان سو ُاِن کی بات سُنی۔بلکہ پلے باندھ لی۔ نواب صاحب نے اکرام وانعام میں کمی نہ چھوڑی۔ٹھنڈا گرم مشروبات کے بعد واپسی پے اپنی کئی قیمتی کتابن سو نوازو۔ای نواب صاحب کی زرہ نوازی ہے کہ اُنن نے کتابن کے قابل سمجھو۔یہ کتاب میری زندگی کا قیمتی اثاثہ بن کے میری لائبریری میں محفوظ رہیں گی۔ان کتابن نے بطور حوالہ کام میں لائونگو۔ میں سمجھوں ہو نواب ناظم صاحب کو اعتماد میرے مارے سند کی حیثیت راکھے ہے۔مشہور ہے کہ خوشبو والا پے سو خوشبو ملے گی۔اگر خوشبو نہ بھی خریدو تو مہک ضرور محسوس ہوئے گی۔
Unity of the Meo Nation. The critical need of the hour
Unity of the Mayo Nation. The critical need of the hour میو قوم کی یکجائی۔ وقت کی اہم ضرورت Unity of the Mayo Nation. The critical need of the hour وحدة دولة مايو. الحاجة الماسة للساعة حکیم المیوات:قاری محمد یونس شاہد میو قوم ایک شیشہ کی طرح رہوے ہے۔جائے انسان بوقت ضرورت کام میں لاوے ہے جتنو شیشہ صاف شفاف ہوئے گو وامیں دیکھن والااے اپنو چہرہ اتنو ای صاف دکھائی دئے گو اگر شیشیہ ایک ہی فریم ہوئے لیکن ثابت نہ رہے۔ٹوٹ کے کئی ٹکڑا ہوجاواں تو دیکھن والو کدی بھی اپنا چہرہ اے ایک نہ دیکھ سکے ہے بلکہ کتنا ٹکڑا ہونگا اتنا چہرہدکھائی دینگا۔ قوم کو فرد اگر اپنی ذات اے بھول کے قوم کی نمائیندگی کرے گو تو دیکھن والا اے اپنو چہرہ بھی صاف دکھائی دئے گو،اورشیشہ بھی ملوک لگے گو۔ جب قوم قوم بنے ہے تو افراد کی شناخت رہوے ہے اور جب افراد قوم سو اپنا آپ اے اونچو دیکھن لگ پڑا ہاں تووا اُونچائی اے کھود کے کھڈو بنا دیوا ہاں جا پے کھڑا ہوکے اُونچا بنا ہا۔یعنی قوم اُو پہاڑ کی اونچائی ہے جاپے کھڑو ہوکے آدمی اپنا قد اے بڑے محسوس کرے ہے اور جب کوئی یا اونچائی سو نیچے اٹر کے اونچو دکھائی دینا کی کوشش کرے ہے تو اُو صرف پانچ فٹ کو ای رہ جاوے ہے۔ قوم انسان کو بلندی دیوے ہے اونچائی بخشے ہے قوم سو پہنچان بنے ہے۔انسان کو شناخت ملے ہے مال و دولت عہدہ۔اور بزنس کتنو بھی بڑھ جائے لیکن انسان کی شناخت کے مارے قوم ضروری ہے کیونکہ قوم امتیازی شناخت دیوے ہے۔ میو قوم کا کچھ لوگ کم فہمی کی وجہ سو اپنی قوم اے دُبکاواہاں حالانکہ قوم کائی کو نیچے نہ دکھاوے ہے۔نیچو تو انسان کا کرتوت دکھاواہاں۔بلند کردار انسانی کی ذات کے ساتھ قوم کا بھی سَر بلند کرے ہے اور نیچ کام انسان اے اپنی ذات کے ساتھ قوم کی شرمندگی کو سبب بھی بنے ہے ۔قوم تو ایک شناخت ہے۔ایک مجموعہ ہے جا کی فرد اکائی ہے کچھ لوگ میو قوم سو منسوب ہاں۔لیکن میو کہلانو پسند نہ کراہاں ای میو قوم کی خامی نہ ہے کہ لوگ یاسو منسوب ہونو مناسب نہ سمجھاہاں بلکہ ان کی احساس کمتری ہے۔اور میو قوم کی عظمت سو بے خبر ہاں اگر وے سمجھاہاں کہ میو کہلانا سو ان کی ذات میں کمی آجائے گی تو میو قوم تو عظم،ت کو نام ہے۔بونا اور کم قد کاٹھ والا یا کی عظمت اے کہا سمجھاں؟۔۔کائی اونچائی اے دیکھن کے مارے اونچو قد چاہے یا پھر اونچی جگہ پے کھڑو ہونو پڑے ہے ۔کم ظرف اور چھوٹی سوچ کا لوگ کہا جانا کہ عظمت کائیں سو کہواہاں؟
Meo nation’s future, database preparation. Saad Virtual Skills’ ambition
Meo nation’s future, database preparation. Saad Virtual Skills‘ ambition؎ٓ میو قوم کو مستقبل ،ڈیٹا بیس کی تیاری۔سعد ورچوئل سکلز کا عزائم حکیم المیوا ت قاری محمد یونس شاہد میو جب سو سعد ورچوئل سکلز پے کام کرنو شروع کروہے میواتی قوم کا لوگن سو میل میلاپ کی ضرورت محسوس ہوئی،مختلد پروگرامز میں جانا کو اتفاق ہوئیو،انفرادی ملاقات کری۔کچھ لوگ ملن آیا،تو کچھن نے اپنے پئے بلایا، کل موراں والی حویلی للیانی ضلع قصور جانو ہوئیو ۔ای ملاقات مشتاق احمد امبرالیامیو۔شکرہ اللہ میو۔سردار افضل میو،کی خواہش پے کری گئی ،جناب ادریس نمبردار اور ریحان میو۔جناب لیاقت علمی میو،نمبراد صاحب کا دوسرا عزیز و اقارب،،،،،،،بھئ موجود ہا۔نمبردار صاحب نے رویاتی مہمان نوازی کو بھرپور مظاہرہ کرو۔ میو قوم کا حالات اور معاملات۔اور میو کی ترقی اور میو قوم کا اجتماع اور اتفاق پے بات ہوئی۔بہت معاملات زیر بحث آیا،اصل ملاقات تو سعد ورچوئل سکلز پے کرنی ہے کہ یا کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یا مصروفیت کا دور میں جب نفسا نفسی کو عالم ہے کیوں اوکھلی میں موصل کے نیچے مونڈھ دے راہو؟ ہم نے اپنی بات جاری راکھتے ہوئے میزبانن کو بتائیو کہ،میو قوم جب تک کمائی کرن کو بندر نہ سیکھے گی آگے بڑھنو بہت مشکل رہے گو،یامارے میو جوان چاہے ان کی تعلیم زیادہ ہے یا کم کوئی مڈل بھی پڑھو ہوئیو ہےتو واکو انٹر نیٹ کو ہنر سکھائیو جائے۔ای کامرس۔ڈیجیٹل مارکٹنگ،گھر بیٹھ کے کیسے پیسہ کمائیو جائے،اوراپنی ضروریات کیسے پوری کری جاواں؎ ہماری قوم کو سب سو بڑو المیہ ای ہے کہ ایک دوسرا پے اعتبار نہ کراہاں۔جن پے اعتبار کروجائے وے ہاتھ دکھا دیواہاں۔؎ یہی بات زیر بحث رہی کہ اب پیسہ کی شفافیت کوئی بڑی بات نہ ہے۔ہم ایک ایسو سوفٹ وئیر دے راہاں جو آن لائن ہوئے گو۔کوئی بھی انسان کھول کے دیکھ سکے ہے کہ پیسہ کس نے دئیو اور کہاں خرچ کرو اچنبا کی بات ای ہے کہ کائی مذہبی یا سیاسی جماعت کے پئے میو قوم کو ڈیٹا موجود نہ ہے۔ ہم نے سعد ورچوئل سکلز کا پلیٹ فارم سو منصوبہ بنائیو ہے کہ ایک ڈیجیٹل فارم وٹس ایپ گروپس،فیس ،بک،لنکڈن۔پنٹرس۔ٹیوٹر۔اور دسرا ذرائع سو بھیجو جائے۔جائے فِل کرکے،ریپالئی کردئیو جائے تو ایک ڈیٹا بیس میں جمع ہوجائے گو۔ایک کام ایکسو دو منٹ کو ہوئے گو،کائی کو خرچہ ہوئے گو نہ وقت کو ضیاع۔لیکن ہم میوقوم کی ٹھیک تعداد پتو کرن میں کائی حد تک کامیابی حاصل کرلینگا۔ موسو کئی لوگن نے کہو کہ بڑا بڑا لیڈر،اور میون کی سیاسی سماجی تنظمن سو رابطہ کروں؟میں نے جواب دئیو ان کے پئے دوسرا بہت سا کا ہاں۔۔یاکام اے تو کوئی دوسرو ای کرسکے ہے۔کائیں کو میرا بنابنایا کام اے خراب کرن کو ڈولاہا۔ نمبردار ادریس نے ہم کو ہر طرح سو تعاون کو یقین دیوائیو۔بہت خوشی ہوئی۔ یاسو پہلے جناب عثمان غنی میو گجومتہ والا نے دو کمپیوٹر دین کی حامی بھری امید ہے۔پہلی ملاقات میں یہ اپنو وعدہ پورو کردینگا۔
معجزة سورة القرآنية
معجزة سورة القرآنية معجزة سورة القرآنية هذا الكتاب لم يعد القرآن آياتٍ مُنجَّمات، ولا جُملاً مُنفصلاتٍ تجمعها نجوم وتفرقها فواصل ونقاط. بهذا السِّفر يتجلى القرآن كتاباً يتكون من فصولٍ هي السور. ولكلّ سورةٍ عنوانُها . ويُثبت كلّ فصلٍ هنا أن عنوان السُّورة هو موضوعها الذي تدور حوله كلّ آياتها. ولم يعد في القرآن تكرارٌ بل توظيف معلومات. بهذا السِّفر يبدأ عهدٌ جديدٌ في علوم القرآن. وبه يسقطُ حائط جهلٍ كان يتعرض لسهام فئتين من الناس: الملحدين من العرب والمستشرقين وعلماء الأديان من الغرب . ونتج عن دراسة موضوع العنوان نتائج تجاوزت إثبات الإعجاز فيه إلى أمرٍ آخر لا يقل أهميةً. فعند اعتبار العنوان محوراً للسورة، والتحقّق من أنه عنوانها بالمعنى الحقيقي المتعارف عليه في أصول الكتابة، واستعماله كأحد ضوابط التفسير، لا تبقى حاجةٌ لأحاديث أسباب النزول؛ التي يفتقر معظمها إلى المصداقية. وكذلك يُستغنى عن فكرة مكِّية الآية أو مدنيتها في التفسير لأنها الأخرى غير مؤكدةٍ إلا في بعض الحالات. كما يُستغنى عن أخطر بل أسوأ جزءٍ في تراث الأمة، وهو معظم الأقوال المنسوبة لصحابةٍ أجلاء كابن عباس، والاجيال التَّالية من المفسرين ، حيث تتناقض الروايات المنسوبة للشخصٍ الواحدٍ حول نفس الآية. ووصفناها بالسوء لأنها قَيَّدَت عقولَ علماء التفسير، وحرمت الأمة من معرفة المعنى الحقيقي لآياتٍ كثيرةٍ؛ خصوصاً عندما رفع معظم علماء الأمة شعار أولوِّية النقل على العقل؛ وفعلاً تعطل العقل. وبهذا السفر صار القرآن مُعجِزاً لغير العرب. فإثبات معجزة العنوان وإمامته للسورة لزمه تفكيك السُّورة وتحليلها، ودراسة طريقة صياغتها وترتيب المعاني الواردة فيها، وعلاقة أجزائها بعضها ببعض. فظهر ضربٌ آخر من ضروب إعجاز القرآن وهو تفوقها من زاوية فن كتابة النثر بأنواعه كما ألهمه الله للبشر حتى هذا الزمن؛ وهو ما لم تكن البشرية قد عرفته يوم نزول القرآن ولا بعده بقرون. وفي الكتاب ما ينشئ عند القارئ مهارة الفهم ومهارة كتابة النثر بأنواعها جميعاً وخصوصا المقال بأنواعه والقصة القصيرة والرواية. فهذه النماذج موجودة في القرآن بأبهى صورها. ومن أهداف هذا الكتاب أن يكون قاعدةً لإصلاح العلاقة بين الأمة وبين دينها . فيمكن أن يُبنى عليه تفسيرٌ سليمٌ للقرآن يخلو من التناقضات وينير مساحاتٍ جعلها التفسير بالنقل غامضةً وغير مقنعةٍ. وعلى ضوء التفسير السليم المقنع للعقل والملتزم بقواعد فهم النصوص يمكن إصلاح السُّنَّة. فيُقبَل منها ما يتفق مع التفسير السليم للقرآن أو يتماشى مع روح القرآن وقيِمَه الأساسيَّة. ويُبعَد ما يخالف تفسير القرآن وروحه. وعلى ضوء الفهم السليم للقرآن وتنقية السنة يمكن إصلاح الفقه، ووضع فلسفة حياة إسلامية تضاهي أرقى ما عرفت البشرية من مناهج الحكمة إن لم تتفوق عليها.
Mewati sit-down. A better decision after thinking about it.
میواتی بیٹھک۔سوچ بچار کچھ بہتر فیصلہ۔ جلوس مواتي قرار أفضل بعد التفكير فيه حکیم المیوات :قاری محمد یونس شاہد میو میون کی بیٹھک عید کے تیسرے دن (2023)بروز اتوار موکو فون آئیو کہ قریشی والا گائوں میں میون کی ایک بیٹھک ہوری ہے ۔وامیں شرکت کرنی ہے۔میو کا نام پے موئے جو بھی بلائے ،جہاں بھی بلا ئے میںبھگو چلوجائو ہوں۔آدھا گھنٹہ میں طاہر نمبر دار(قریشی والا گائوں) کا گھر پہنچ گئیو ۔قریشی والا کاہنہ نو لاہور سو پانچ سات کلو میٹر دور ایک گائوں ہے۔واجگہ پہنچو تو بیسیوں لوگ پہلے سو موجود ہا۔ہر کوئی اپنا اپنا خیالات کو کواظہار کررو ہو۔ بات کو موضوع ہو کہ میو برادری کا رشتہ بغیر جہیز کے کسے ممکن بنایا جاسکاہاں۔ مختلف لوگن کی مختلف تجاویز ہی۔ای محفل تقریبا تین چار گھنٹہ چلی۔یا میں قصور لاہور۔سیالکوٹ۔ضلع ننکانہ صاحب سو تعلق راکھن والا میو شریک ہا۔ موئے دیکھ کے حیرت ہوئی کہ بہت سا معزز اور معاشرتی طورپے موثر لوگ بھی شریک محفل ہا۔بہترین تجاویز زیر غور آئی۔کچھ پرانی بات دُہرائی گئی تو کچھ نیا ارادہ / نیا نظریات پیش کرا گیا۔ سب سو گھنی اچنبا کی بات ای ہی کہ کچھ لوگ ایسا بھی موجودہا، جنن نے بغیر جہیز اور بغیر ڈیمانڈ کے بچہ بچین کی شادی کری ہی۔جب میں نے پوچھو کہ یا کو ریکارڈ موجود ہے؟۔جواب ملو واٹس ایپ گروپ میں مسیجز اور تصویر سینڈ کردی ہی۔ تعجب ہوئیو کہ ایک بہترین اور قابل تقلید کام کو ہماری پئے کوئی تحریری ثبوت موجود نہ ہو۔ ہر کائی نے اپنو تعارف کرائیو۔اِن مین نوکری پیشہ لوگ۔زمیندار۔علماء۔ لکھاری ۔میڈیا کا لوگ۔پراپرٹی ڈیلر۔وغیرہ سمیت کئی موثر شخصیات کی موجودگی میں بات چیت ہوئی۔اور میون کی کئی گھنٹہ کی یا محفل میں توُ تکار۔میں نا مانوں۔ایسی کیسے ہوسکے ہے؟ہم کائی سو کم ہاں۔ جیسا الفاظ سنن کو نہ ملا۔ جو کہ میون کی محلفن کا خاصہ ہاں۔ میں نے اپنی باری پے جب تعارف کرائیو تو ایک سوال کرو کہ سو پچاس لوگ موجود ہو،تَم میں سو کوئی بتانو پسند کرے گو کہ تم نے مرن سو پیچھے لوگ کیوں یاد راکھاں؟ ای بات کچھ لوگن کا ذہنن میں پہلی بار آئی اور کانن نے پہلی بار سُنی ہی۔ میں نےکہو اگر تم زندہ رہنو چاہو تو ایسا کام کرو جو لوگن کی ضرورت ہوواں۔اور لوگ تم نے یاد راکھن پے مجبور ہوجاواں۔جیسے کوئی کتاب لکھ دئیو۔میو قوم کے مارے کوئی ایسو کام کرجائو کہ یاد گار بن جائے۔ انسان اے کون یاد راکھے ہے؟ ۔صرف کارنامہ یاد راکھاجاواہاں ۔ جہاں بہت سی بات طے پائی۔ اُن میں رسومات سو پاک کم خرچہ شادی ممکن بنانو۔ ایک دوسرا کو بغیر لالچ کے رشتہ دینو اور لینو۔ روزگار کا ذرائع تلاش کرنا۔ ایک ایسو نظام متعارف کرانو۔کہ غریب کی غربت واکی حرمت بن جائے۔ اور گھرن میں بیٹھی بیٹین کا رشتہ مناسب انداز مین ہوجاواں ۔ لمبی چوڑی بارات کی حوصلہ شکنی کری جائے۔۔ فنڈ کی موجودگی۔ ایک اہم بات ای بھی کری گئی کہ میو قوم کو ایسو فنڈ ہونو چاہے کہ جائے قوم کی فلاح و بہبود غریب کی بچی کی شادی واکا گھر میں عزت نفس کو خیال کرتے ہوئے ممکن بنائی جائے۔ نہ غریب اے پتو چلے سہارو کہاں سو ملو ہےَ یا سہارا دین والان کو اجازتے ہوئےکہ وے غریب کی عزت اُچھالاں؟۔ وسائل و روزگاار پے جب بات چیت ہوئی تو بہت سا شرکاء نے مناسب و معقول تجاویز دی۔ میں نے اپنی باری پے بتائیو کہ۔ سعد ورچوئل سکلز میون نے فلاح و بہبود پے کام کرری ہی۔ جامیں۔ویب ڈزائیننگ۔فری لانسسنگ۔ای کامرس۔ورچوئل انداز میں سکھائی جانگی۔ پئے کا لوگ کلاس میں بذات خود شرکت کرسکنگا۔اور دور کا لوگن کو الیکٹرونس ایپلیکیشنز کے ذریعہ ہنر سکھائیو جائےگو۔ امید ہے اگر بچہ محنتی اور توجہ سو پڑھن والو اور سمجھن والو ہوئیو تو دو سو تین مہینہ میں کم از کم گھر بیٹھو معقول حد تک کما سکے گو۔ میں یابا ت پے حدک رہ گئیو کہ میون نے میری بات غور سو سُنی۔ تعاون کو یقین دِلائیو۔اپنا بچہ سکلز سیکھن کے مارے پیش کرا۔ اگر میرو ساتھ۔عاصد رمضان میو(ماہر تعلیم،ضلع قصور) مشتاق میو امبرالیا۔ شکر اللہ میو جیسا محنتی و مخلص ساتھی نہ ہوتا تو شاید یا منصوبہ اے میو قوم کے سامنے پیش نہ کرسکتو۔ الحمد اللہ یائی ہفتہ میں کلاس شروع ہوجانگی۔ جب اپنو کمانگا۔اپنو کھانگا۔تو جہیز کی ضرورت ای نہ پڑے گی۔ بُرو بھلو کہن سو بہتر ہے تم میو قوم اے مالی لحاظ سو مضبوط کردئیو۔ پیسہ تو جہاں ہوئے گو ،ضرور بولے گو۔۔ سعد ورچوئل سکلزپاکستان، میو قوم کی ا مانت ہے جو کوئی بھی یا کے ساتھ چلے ۔ تجربہ ۔ہنر۔سکلز۔مہارت۔مالی جانی تعاون۔علمی خدمات شئیر کرنو چاہئے۔کرسکے ہے۔ کچھ ایسا پروجیکٹ ہاں جن پے کام ہورو ہے ۔جلد قوم کے سامنے پیش کردیا جانگا۔ شرکاء محفل کا نام جو یاد رہ گیا لکھ رو ہوں جاسو پتو چل سکے کہ میو قوم بات ای نہ بناوے ہے اب کام بھی کرنگ لگ پڑی ہے۔
ایک پرُ وَقار کتابن کی تقریب رونمائی/پزیرائی۔
میو اور میو قوم کے مارے خوشخبری۔ ایک پرُ وَقار کتابن کی تقریب رونمائی/پزیرائی۔ (1)جناب نواب ناظم میوصاحب (2)حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو صاحب (3)محترمہ نسیم اقبال صاحبہ میو 5/جولائی2023 بمقام: ضلع کونسل ہال قصور۔۔۔بتعاون:ضلعی حکومت قصور من جانب: (1)میو انٹر نیشنل ہائی سیکنڈری سکول(رجسٹرڈ)حویلی رامیانہ قصور (2)سعد میومیموریل ورچوئل سکلز کاہنہ نو لاہور پاکستان
Ead Mubark
Ead Mubark قربانی والی عید مبارک حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو آج (1444ھ2032)عید کا دن ہے ۔اہل اسلام خوشی بھرے من سے نئے کپڑے پہن کر خوشیاں منارہے ہیں کیوں نہ منائیں اللہ نے انہین کوش رہنے کا حکم دیا ہے۔ابھی کچھ دیر میں سنت ابراہیمی ادا کریں گے۔یہ میری اور میرے اہل خانہ کی دوسری عید ہے جو ہم اپنے بیٹے سعد کے بغیر گزار رہے ہیں ۔ اس دنیا میں کسی کے آنے یا جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن کچھ زخم کاص موقعوں پر اتنے ہی گہرے ہوجاتے ہیں جتنی خوشیاں ہوتی ہیں۔کیونکہ زندہ کردار جو دل کے قریب ہو عین اس وقت دکھائی نہ دے جو ایسے موقعوں پر خاصا ہمیت رکھتا ہے تو اس کا ہیولہ ذہنوں پر چھایا رہتا ہے۔ وہ چلتا پھرتا دکھائی دیتا ہے۔بچے عیدی کے لئے والدین سے جھگڑتے ہیں لیکن سعد یونس نے پچھلی عید پر اپنے والدین کو عیدی تھی۔یہ انوکھی بات تھی۔اس نے ضد کرکے زیادہ مقدار مین سویاں اور دیگر کھانے بنوائے اپنے ہاتھ سے پورے محلے میں تقسیم کئے ۔اس کا کہنا تھا میرے محلے میں جو بھی رہتا ہے میں اس کے گھر کھانا دینے جائوں گا میرے لئے سب برابر ہیں۔ان کا تعلق کسی بھی مسلک یا برادری سے ہو۔ اس نے قربانی کا جانور خود منتخب کیا،اس کا گوشت خود تقسیم کیا۔بہن بھائیوں کو عیدی دی مجھے محسوس ہوا کہ اب میرے کاندھوں سے ذمہ داری کا بوجھ سعد نے اپنے کاندھوں پراٹھا لیا ہے۔لیکن مجھے کیا معلوم تھا میرے لئے میرا بیٹا چراغ سحر کا کردار ادا کررہاہے ۔آج گھر میں سب کچھ ہے لیکن خوشیاں سعد اپنے ساتھ لے گیا ہے۔اللہ میرے بیٹے کو ایسے ہی خوش رکھے جیسے وہ ا س دنیا میں ہمیں خوش رکھتا تھا۔اور لوگوں کی خوشی کے لئے ہمہ وقت مستعد رہتا تھا۔مانتا ہوں کہ وقت بڑی بڑی کھائیاں بھر دیتا ہے ۔لیکن شاید ابھی اس گہرے زخم کے بھرنے میں عرصہ لگے گا۔اس وقت عید کے لئے کپڑے تیار کئے جارہے ہیں لیکن طبیعت مائل نہیں ہورہی ہے۔ اللہ میرے رب کا حکم نہ ہوتا تو شاید عید کے لئے بھی گھر سے نکلنا مشکل ہوتا۔ہم اللہ کی تقسیم پر راضی ہیں۔ کر بھی کیا سکتے ہیں؟۔اللہ کا حکم سر ماتھے پر ۔آج مجھے جتنی بے قراری ہے بیان کرنے کے لئے شاید الفاظ موجود نہین ہیں۔کہین احساسات ھی الفاظ مین بیان ہوسکتے ہیں؟ مجھے اب احساس ہوا ہے کہ دنیا میں سب سے بڑا بوجھ بیٹے کے جنازہ کو کاندھا دینا ہوتا ہے۔سب سے بڑی بے قراری خوشی کے موقع پر اپنو کی جدائی ہوتا ہے سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ پاکستان سعد میموریل ورچوئل سکلز پاکستان کی طرف سے دل کی گہرائیوں سے اہل اسلام کو عید مبارک
The War of the Worlds
The War of the Worlds he War of the Worlds describes the fictional 1895 invasion of Earth by aliens from Mars who use laser-like Heat-Rays, chemical weapons, and mechanical three-legged ”fighting machines” that could potentially be viewed as precursors to the tank. After defeating the resistance the Martians devastate much of eastern England, including London.
My Life and Work
My Life and Work Book Excerpt ks.Doubtless, our order will merge by degrees into another, and the new one will also work–but not so much because of what it is as because of what men will bring into it. The reason why Bolshevism did not work, and cannot work, is not economic. It does not matter whether the industry is privately managed or socially controlled; it does not matter whether you call the workers’ share “wages” or “dividends”; it does not matter whether you regimental the people as to food, clothing, and shelter, or whether you allow them to eat, dress, and live as they like. Those are mere matters of detail. The incapacity of the Bolshevist leaders is indicated by the fuss they made over such details. Bolshevism failed because it was both unnatural and immoral. Our system stands. Is it wrong? Of course, it is wrong, at a thousand points! Is it clumsy? Of course, it is clumsy. By all right and reason it ought to break down. But it does not–because it is instinct with certain economic and moral fundamentals. The e Free Download
The basic philosophy of Hajj is to solve the problems of the oppressed Muslim Ummah
The basic philosophy of Hajj is to solve the problems of the oppressed Muslim Ummah حج کا بنیادی فلسفہ مظلوم امت مسلمہ کی پریشانیوں کا حل حکیم المیوات:قاری محمد یونس شاہد میو ۔۔۔۔۔۔۔۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جہیں میرے اللہ نے اپنے گھر بلایا تمام حاجیوں کو۔۔۔حج مبارک ! اے اللہ اس بارکت عمل کی برکت سے میرے ملک پر اپنا کرم فرما حج کا عمل اہل اسلام کے نزدیک بنیادی ارکان میں سے ایک ہے۔جسے مالی آسودگی اور خاص نصاب مال پر واجب کیا گیا ہے۔زندگی میںایک بار حج فرض ہے۔اس کے بعد جتنی بار بھی حج کیا جائے ثواب زائدہ میں شمار ہوگا۔ حج کا بنیادی فلسفہ۔ اہل اسلام کے بنیادی عقائد میں سے کچھ بنیادی اراکین میں ایک حج بھی ہے۔عبادات کو معاشرتی و معاشی انداز سے دیکھا جائے تو ایک منظم معاشرہ اور فلاحی ریاست کا مستحکم لائحہ عمل دیکھائی دیتا ہے۔ کلمہ طیبہ(1) (2)نماز انسان اور بندہ کے درمیا ن باہمی گفتگو راز و نیاز کا نام ہے۔ (3 )روزہ انسانی صحت اور معاشرہ میں احساس کمتری اور مالی لحاظ سے کمزور لوگوں کی بھوک بیاس اور دیگر محرومیوں سے دوچار لوگوں کے درد کے احساس کا نام روزہ ہے ۔جسے عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ (4)زکوٰۃ۔یہ فریضہ خالصتا معاشرتی پہلو رکھتا ہے۔۔تاکہ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم کردہ معاشرہ کے مالی طورپر کمزور حجرات کو سہارا دیا جاسکے۔اور ریاستی معاملات کے معاشی پہلو کو بہتر انداز میں سنوارا جاسکے۔ (5)حج اسلامی معاشرہ و ریاست کا وہ پہلو ہے جہاں مالی طورپر آسودہ حال لوگوں کو اس حالت میں بلایا جاتا ہے کہ وہ مالی آسودگی کے باوجود بہت سی آشائشوں کو ترک کرنے اور احکامات کو پورا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ایک جیسا لباس ایک جیسی حرکات و سکنات۔اور خط قانون کو روندنے پر ایک جیسے جرمانے اور مالی سزائوں کانفاذ ایسا تصور ہے جس میں انفرادیت و اجتماعیت کا اعلی تصور ابھرتا ہے۔ جہاد یہ ریاستی عمل ہے جسےریاستی سرپرستی میں کیا جاتا ہے(6) مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ جب سے مسلمانوں نےعبادات کی روح سے منہ موڑا ہے اور حقیقی تصور و عبادت اور اس میں چھپے زار کو بھلایا اس وقت سے روبہ زوال ہیں۔حج کا جتنا بڑا اجتماع ہوتا ہے اگر ایک فیصد بھی اس کی حقیقی روح کو سمجھ لیں تو مسلمانوںزوال کے سمجھ سکتے ہیں اور اسکا تدارک کیا جاسکتا ہے۔احتاجوں اور قرادادوں کے بجائے اگر مسلمان اپنی عبادات کی روح کو سمجھ لیں اور ان کے تقاضوں کو پورا کرلیں تو بہت سے مسائل کا بہتر حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔یہ اسلامی روح بھی ہے اور منشائے خداوندی بھی