محسن میو قوم کوغم۔ محسن میو قوم کوغم۔ سکندر سہراب میو کی اہلیہ کوانتقال پُر ملال۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو زندگی کی کچھ گھڑی اور لمحات ایسا بھی رہوا ہاں انسان قادر الکلام ہونا کے باوجود اپنا جذبات کو اظہار نہ کرسکے ہے۔ای کیفیت میرے اُوپر بھی بیت چکی ہے یاکو مشاہدہ فخر میوات،قادر الکلام شاعر۔ادیب،مصنف بہت سی کتابن کو لکھاری،جناب سکندر سہراب میو کی اہلیہ کی وفات کے وقت دیکھن کو ملو۔(مرحومہ و مغفورہ کی بخشش کاملہ فرمائے آمین) ہم نے دیکھو کہ سکندر سہراب جیسو قلم کو دَھنی۔قادر اکلام شاعر آپ اپنی شریک حیات کی وفات پے گُم سُم دیکھو۔انن نے مشکل ترین مضامین نہایت آسان الفاظ میں سہل ممتنع کا انداز میں بیان کردیا جن کا بیان کے مارے کئی صفحات درکار رہوے ہا۔ان کی قادر اکلامی نے یہ چند لفظن میں یچند سطرن میں اَدا کردیا اُن کا بوڑھاپا کی چہرہ پے پھیلی ہوئی جھری ایک دستان غم بیان کرری ہے ان جُھرین میں غم کا سمندر ٹھاٹھ ماررو ہو۔لیکن خاموشی اور متانت ایسی کہ بیان سو باہر۔۔65 سالہ رفیقہ حیات کی جدائی نے چہرہ اور پیشانی پے پڑی لکیر گہری سو گہری کردی ہی۔گیارہ مہینہ پہلے غم کی لکیر پڑھتے سیکھو ہو جب میرو بیٹا سعد یونس مرحوم موئے چھوڑ کے بہت دور چلو گئیو ہو واکی جدائی نے موکو غم کی لکیر پڑھنو سکھائیو ہو۔۔ جب سنکدرسہراب میو جیسا جہاندہ اہل علم کا چہرہ کی جھری کو علم ہوئیو تو میرو قلم و الفاظ میرو ساتھ چھوڑ گیا۔۔یا وقت میںاپنی ساری قوتین نے جمع کرکے ان سطرن نے لکھ رو ہو یا دکھ کی گھڑی میں موئے ایک بات کو شدت سو احساس ہوئیوجا انسان نے میو قوم کے مارے اپنی پوری زندگی وقت کردی واکی یا دُکھ کی گھڑی میں چند لوگ شریک ہویا۔ باباذدہ ڈاکٹر محمد اسحق میوشہزاد جواہر میو۔شکر اللہ۔مشتاق امبرالیا۔ ماسٹر نصر اللہ میو۔عمران بلا میوماسٹر قاسم میو۔ماسٹر رمضان میو۔۔ سردار افضل میو۔محمد سلیم میو۔محمد رمضان میو۔جاوید نور میو چند گنی چُنی شخصیات جنازہ میں شریک ہوئی۔حالانکہ سوشل میڈیا پے دھیرئیں سو رول پِٹری ہی۔لیکن۔۔۔۔۔حاضری مایوس کن اللہ تعالٰی جناب سکندر سہراب میو کو یا صدمہ اے جھلن کی ہمت دئے یہ چراغ سحر ہاں میو قوم کی ناقدری عروج پے ہے۔ یائے کھوکے پیچھے سو جو روئوگا آج ان کی قدر کرلئیو۔ ۔۔۔۔۔۔ایک مایوس کن رویہ پے گلہ۔۔۔ جاتے جاتے موئے پرویز اقبال صاحب میو ایکسپریس کا رویہ کو شکوہ کہ جب دس لوگ برادری کا بیٹھا ہوواں تو سبن سو ہاتھ ملائو یا کائی سو مت ملائو۔جن لوگوں سو طبعی مناسبت نہ ہے،برادری میں تو ان سو بھی ملو جاوے ہے۔ای کہا بات ہے دھنیڑی لوگن نے دیکھ کے تو باچی کھل جاواہاں اور عام آدمی کا مہیں دیکھ کے توڑی پڑ جاواں ای شکوہ یا بنیاد پے کہ ہم میو میڈیا کا لوگن سو امید راکھاہاں اگر یہ لوگ ہی امیر غریب پسند ناپسند کرنگا تو قوم کو خدا حافظ میں بھی ایسی ہی طبیعت کو مالک ہوں۔لیکن جادن سو میو قوم کو نام لینو شروع کرو ہے اپنی طبیعت پے جنر کرنو شروع کردئیو ہے پرویز صاحب اگر یہی رویہ رہو تو سارا میو نواب ہاں۔۔۔ موئے کوئی دیلنو دینو نہ ہے لیکن تم جا خدمت کا مدعی ہو وا منصب کے خلاف ہے اور اگر میرے خلاف یائی بنیاد پے کوئی خبر لگانو چاہو تو موئے خوشی ہوئے گی لیکن اپنا منصب و مرتبہ کا لحاظ سو اپنا رویہ پے نظر ثانی کی ضرورت ہے
بالوں کو رنگنے کے فوائد اور نقصانات ۔
بالوں کو رنگنے کے فوائد اور نقصانات ۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو تعارف دنیا بھر میں بال رنگنے کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے کوئی ملک و خطہ ایسا نہیں جہاں بالوں کو نہ رنگا جاتا ہو بالوں کو رنگنا ایک مقبول رجحان بن گیا ہے، جو افراد کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرنے اور اپنی ظاہری شکل کے ساتھ تجربہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ چاہے سرمئی بالوں کو ڈھانپنے کے لیے، ایک نیا روپ آزمانے کے لیے، یا فیشن کا بیان دینے کے لیے، بالوں کے رنگ کے اختیارات وسیع اور متنوع ہیں۔ تاہم، کسی بھی کاسمیٹک طریقہ کار کی طرح، بالوں کو رنگنے کے اپنے فوائد اور نقصانات کے ساتھ آتا ہے۔ اس مضمون میں، ہم بالوں کے رنگ کے فوائد اور نقصانات کا جائزہ لیں گے، جس سے آپ کو بالوں کی اگلی تبدیلی شروع کرنے سے پہلے باخبر فیصلہ کرنے میں مدد ملے گی۔ بالوں کی رنگت کے فوائد بہتر ظاہری شکل اور اعتماد: بالوں کو رنگنے کے بنیادی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ یہ آپ کی ظاہری شکل اور خود اعتمادی کو فوری فروغ دے سکتا ہے۔ ایک اچھی طرح سے منتخب کردہ بالوں کا رنگ آپ کی خصوصیات کو بڑھاوا دے سکتا ہے، آپ کی جلد کے رنگ کو پورا کر سکتا ہے، اور ایک تازہ اور جوان نظر فراہم کر سکتا ہے۔اپنی پسند کا رنگ دے کر بالوں کو جازب نظر بنایا جاسکتا ہے تخلیقی اظہار: بالوں کا رنگ فنکارانہ اظہار کی اجازت دیتا ہے، جو آپ کو مختلف شیڈز، ٹونز اور اسٹائل کے ساتھ تجربہ کرنے کے قابل بناتا ہے۔ آپ ایک ایسا رنگ منتخب کر سکتے ہیں جو آپ کی شخصیت، مزاج، یا موجودہ رجحانات کے مطابق ہو، اپنے منفرد انداز کو ظاہر کرتا ہو۔محافل میں جانے اور دوست احباب میں خوبصورت نظر آنے کے لئے منتخب کلر کام میں لایا جاسکتا ہے سرمئی بالوں کے لیے چھلنی: سرمئی بال عمر بڑھنے کا ایک قدرتی حصہ ہیں، لیکن بہت سے لوگ اسے بالوں کے رنگ سے ڈھانپنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اپنے بالوں کو رنگنے سے آپ کو زیادہ جوان ظاہری شکل حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور یہ زیادہ مثبت خود کی تصویر میں حصہ ڈال سکتا ہے۔ استرتا: بالوں کا رنگ ناقابل یقین استعداد پیش کرتا ہے، جو آپ کو مستقل تبدیلیاں کیے بغیر مختلف شکلوں اور طرزوں کے درمیان سوئچ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ آپ اپنے بالوں میں گہرائی اور طول و عرض شامل کرنے کے لیے ہائی لائٹس، لو لائٹ، اومبری، بالائیج اور دیگر مختلف تکنیکوں کو آزما سکتے ہیں۔ فیشن اسٹیٹمنٹ: بولڈ اور متحرک بالوں کے رنگوں نے ایک جرات مندانہ فیشن بیان کرنے کے طریقے کے طور پر مقبولیت حاصل کی ہے۔ واضح بالوں کے شیڈز آپ کو الگ کر سکتے ہیں اور آپ کی مجموعی شکل کے لیے ایک منفرد لوازمات کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔ بالوں کی رنگت کے نقصانات بالوں کو نقصان: بالوں کو بار بار رنگنے سے نقصان ہو سکتا ہے، کیونکہ رنگوں میں موجود کیمیکل بالوں کے قدرتی تیل اور پروٹین کو چھین سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں خشکی، ٹوٹ پھوٹ اور پھوٹ پڑ سکتی ہے، خاص طور پر اگر مناسب دیکھ بھال نہ کی جائے۔ الرجک رد عمل: کچھ افراد بالوں کو رنگنے والے بعض اجزاء سے الرجک رد عمل پیدا کر سکتے ہیں، جس کی وجہ سے جلد میں جلن، خارش، یا اس سے بھی زیادہ شدید رد عمل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس خطرے کو کم کرنے کے لیے مکمل درخواست دینے سے پہلے پیچ ٹیسٹ کا انعقاد ضروری ہے۔ دیسی انداز میں اگر تدارک چاہیں تو روغن ارنڈ کا لگائیں۔اس سے پئیر کلر سے پیدا ہونے والی خشکی اور بالوں کا کمزور ہونا جیسی علامات کے لئے بہترین حل ہے بار بار دیکھ بھال: بالوں کا رنگ ایک بار کا عہد نہیں ہے۔ رنگ کو متحرک رکھنے اور نمایاں جڑوں کی نشوونما کو روکنے کے لیے اسے باقاعدہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وقت طلب ہو سکتا ہے اور اس کے لیے سیلون میں زیادہ بار بار جانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ رنگ کا دھندلا ہونا: وقت کے ساتھ ساتھ، سورج کی روشنی، دھونے اور دیگر ماحولیاتی عوامل کی وجہ سے بالوں کا رنگ ختم ہو سکتا ہے۔ رنگ کی ابتدائی متحرکیت کو برقرار رکھنے کے لیے ٹچ اپس اور رنگ محفوظ کرنے والے خصوصی شیمپو اور کنڈیشنرز کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ قدرتی نظر آنے والے نتائج کے لیے محدود رنگ کی حد: غیر روایتی بالوں کے رنگوں کے ساتھ قدرتی نظر آنے والے نتائج حاصل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ پیسٹل اور متحرک شیڈز کو پری لائٹننگ کی ضرورت ہو سکتی ہے، جو نقصان دہ ہو سکتی ہے، اور حتمی نتیجہ ہمیشہ توقعات کے مطابق نہیں ہو سکتا۔ نتیجہ بالوں کو رنگنا خود کے اظہار اور ظاہری شکل کو بڑھانے کا ایک مقبول طریقہ ہے، جو تخلیقی تجربات سے لے کر سرمئی بالوں کی کوریج تک وسیع پیمانے پر فوائد پیش کرتا ہے۔ تاہم، ان فوائد کو ممکنہ خرابیوں کے خلاف وزن کرنا ضروری ہے، جیسے بالوں کو پہنچنے والے نقصان، الرجی، دیکھ بھال، اور رنگ ختم ہونا۔ اپنے بالوں کو رنگنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے، اپنے بالوں کی صحت، اپنے طرز زندگی اور ضروری دیکھ بھال کے لیے اپنی رضامندی پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔ کسی پیشہ ور ہیئر اسٹائلسٹ سے مشورہ کرنے سے آپ کو باخبر فیصلہ کرنے اور ممکنہ نقصانات کو کم کرتے ہوئے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ # اپنے لیے بالوں کے صحیح رنگ کا انتخاب بالوں کا رنگ آپ کی مجموعی شکل اور انداز کو نمایاں طور پر متاثر کر سکتا ہے۔ چاہے آپ اپنے بالوں کے قدرتی رنگ کو بڑھانا چاہتے ہیں یا بالکل مختلف کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں، صحیح بالوں کے رنگ کا انتخاب ضروری ہے۔ اس آرٹیکل میں، ہم بالوں کے رنگ کا انتخاب کرتے وقت غور کرنے والے عوامل پر بات کریں گے اور صحیح انتخاب کرنے میں آپ کی مدد کے لیے کچھ تجاویز پیش کریں
Saad meo is the face of Virtual Skills Pakistan.
Saad meo is the face of Virtual Skills Pakistan. سعد ورچوئل سکلزپاکستان کی منہ دکھائی۔ سعدمیو ورچوئل سکلزپاکستان کی منہ دکھائی۔ Saad meo is the face of Virtual Skills Pakistan. حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو میون میں بے شمار صلاحیت موجود ہاں۔ای محنتی قوم جاکام کے پیچھے پڑجائے وائے پورو کرکے دم لیوے ہے۔محنت بھی پُرا خلوص سے کرے ہے سیکھنا سکھانا کو عمل قومن نے بہت اُونچو لے جاوے ہے۔اور قوم کی ترقی میں بنیادی حیثیت راکھے ہے۔تعلیم کا بہت سا ذارائع ہاں۔ان میں سوُ دیکھ کے سیکھنو سُن کے سیکھنو۔پڑھ کے سیکھنو۔وغیرہ ذرائع ہاں۔۔۔۔۔ لیکن ڈیجیٹل ہنر مندی کے مارے ماہرین کی ضرورت پیش آوے ہے سعد ورچوئل سکلز پاکستان کا منتظمین نے میو قوم کا جوانن کے مارے ایسو انتظام کرو ہے کہ فری لانسنگ۔ویب ڈزائننگ۔گرافیکس ڈزائننگ کوننٹنٹ رائٹنگ۔ڈیجیٹل مارکٹنگ۔گیسٹ پوسٹنگ۔آرٹیفیشل انٹلیجنس سیکھنا میں آسانی رہے اور ہر کوئی غریب امیر یاسو فائدہ اٹھا سکے۔۔ بہت اُرمیلا باندھا۔کئی پلاننگ کر ی بہت سالوگن سو رابطہ کرا۔ ہم نے کام شروع کرن سو پہلے جا پریشانی کو سامنو کرنو پڑو اُو ای ہی کہ ہمارے بات سمجھن والا بہت کم لوگ موجود ۔اتنی محنت اگر ہم طلباء کے اوپر کرتا تو وے کئی کورس سیکھ جاتا۔۔کچھ لوگن کو کہنو ہے کہ جو کورسز مارکیٹ میں پچاس ہزار سو دو لاکھ تک بِک راہاں ۔تم انن نے کیسے مفت میں پڑھا سکو ہو؟ ان کو کہنو ہے بغیر پیسہ لئے کون ایسا مہنگا ہنر سمکھاوے ہے؟ دوسرا اعتراض ای کرو جاوے ہے کہ اگر بچی سیکھنو چاہواں ۔ان کے مارے کہا بندو بست کرو ہے۔سبن نے پتو ہونو چاہے بہن بیٹی اور خواتین کے ایسی بچی ٹرینڈ کری گئی ہاں جن کو کام صرف خواتین اور عورتن کی ٹیویشن ہوئے گو بچی کا سلسلہ میں کائی مرد کو عمل دخل نہ ہوئے گو۔ورچوئل کلاسز ہوواں یا فزیکل عورتن کے مارے الگ سو بندو بست کرو گئیو ہے اللہ اللہ کرکے اُو دن بھی آئیو کہ کلاسز کو اجراء ہوئیو۔ اور پہلی کلاس کی بسم اللہ ہوئی نوجوانن نے بہت توجہ اور خلوص سو شرکت کرے۔ برادی کا دوستن نے بھرپور حوصلہ افزائی کری۔اپنا پان پیغامات ریکارڈ کرایا۔وے جلد سوشل میڈیا پے دیکھا جاسکنگا۔ گروپ فوٹوز میں یہ لوگ دکھائی دےرا ہاں۔۔۔۔۔ سچی بات تو ای ہے یا کلاس کا شروع کرن میں۔سردار افضل میو شکر اللہ میو۔مشتاق احمد امبرالیا میو۔ماہر تعلیم عاصد رمضان میو محمد آصف میو(ٹیچر)ڈاکٹر عبد المنان میو۔ چوہدری آس محمد میو ان کے علاوہ بہت سالوگ وے ہاں جنن نے ہمارے ساتھ ہر قسم کی مشاورت و تعاون کو یقین دلائیو۔ایسی تکنیکی مہارت شئیر کری جو سعد ورچوئل سکلز کی انتظامیہ اور طلباء کے لئے بہت مفید ثابت ہونگی ہم نے اپنی ذمہ داری نبھادی ہے۔برادری یاسو سلسلہ سو کتنو فائدہ اُٹھاوے ہے اور ہم کنتو قوم کے مارے بھلو کام کرسکاہاں۔وقت بتائے گو۔ کائی بھی کام کی شروعات مشکل رہوے ہے۔جب چل پڑے تو اللہ تعالیٰ راستہ آسان کردیوے ہے۔۔۔۔ ای پہلی کلاس امید ہے روشن مستقبل کے مارے سنگ میل ثابت ہوئے گی جا چیز اے ہم لوگن کو زبانی نہ سمجھا سکاہاں۔وائے یہ بچہ سیکھ کے کرکے بتانگا کچھ کام بتائیو سو نہ بلکہ کرکے دکھایا سو سمجھ میں آواہاں۔
Mayo Welfare Foundation Address Pakistan Independence Day. 14th August 2023.
Mayo Welfare Foundation Address Pakistan Independence Day. 14th August 2023. میو ویلفئیر فائونڈیشن پتوکی یوم آزادی پاکستان 14اگست2023۔ مؤسسة تخاطب يوم استقلال باكستان .14 أغسطس 2023. حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو میو قوم ہر روز ایک نئی جہت کے ساتھ سامنے آراہاں 14اگست2023میرو مصروف ترین دن گزرو۔دھیر دھیرئیں مشتاق میو امبرالیا کو فون آئیو کہ ڈیرہ اختر حسین کماہاں لاہور پہنچ جائوں ہم دونوں باپ بیٹا(دلشاد یونس)موقع پے پہنچا تو پہلے سو کئی مہمان موجود ہا جناب شہزاد جواہر اور بابازادہ ڈاکٹر اسحق میو اور یاسر سلطان میو دو دیگر معززین موجود ہا۔بہت سو میری پہلی ملاقات ہی۔لیکن میرا نام سو یہ سب لوگ واقف ہا پر تکلف ناشتہ سو پیچھے شیبر احمد عثمانی میو (سابقہ مشیر وزیر اعظم پاکستان)اور اخترحسین بادشاہ میو(سابقہ ایم پی اے)تشریف لایاانن نے14اگست کی نسبت سو پرچم کشائی کری۔بعد میں سردارافضل میو۔شکراللہ میو۔مشتاق امبرالیا۔دلشادیونس میو رائو شریف میو کے پئے چاچو والی گیا۔ہوں سوتقریبااڈھائی بجے ہم رائو محمد اسرائیل میو کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ پتوکی چلاگیا۔ہوں رائو تحسین صاحب نے۔قوم ہیرو یاسر سلطان کے اعزاز میں تقریب کو بندو بست کرو ہو۔الجنت شادی حال میں میو برادری استقبال کے مارے موجود ہی پتوکی والان نے جا انداز میں جشن آزادی کا سلسلہ میں جلوس نکالو۔اور جو پرُوقارتقریب منعقد کری گئی ۔پتوکی میں یا تقریب کو سہرا میو ویلفئیر فائونڈیشن پتوکہ کہنہ کو اعزاز ہے۔ میں انتظامیہ کا میو جوانن سو زیادہ واقف نہ ہوں ۔لیکن کمال کو انتظام اور بہترین تقریب اور آزادی کیک کاٹنو اور حاضرین کو خون گرما دین والی تقریر۔میو بچان کو پروگرام پیش کرنو بہت بھلو لگو۔یا تقریب میںیاسر میو کووالد بابا سلطان سو بھی ملاقات ہوئی۔ان کو بائی شہنال ساتھ ساتھ رہوے ہے ۔۔۔۔ قوم کو پیغام۔ تقریب میں سیاسی سماجی ۔شخصیات۔صحت،ایجوکیشن،زمیندار۔محنت کش۔کاروباری شخصیات نے تقریر کری اور سامعین نے جن جذبات کو اظہار کرو ایسو لگے ہے کہ میو قوم انگڑائی لے ری ہے۔بہت جلد جاگ جائے گی۔میون کو آپس میںمیل میلاپ اور رابطہ میں اتنی تیزی حالات میں بدلائو کو اشارہ کررو ہے۔آن والا سیاسی میدان میں اگر سیاسی رہنمان نے سیاسی شعور کو مظاہرہ کرو تو سیاسی اعتبار سو بہت بدلائو آئے گو۔اور میو طاقت کو اظہارہوئے گو جولوگ سیاسی اعتبار سو میون کو اہمیت نہ دیوے ہا۔اُنن نے پتو لگ جائے گو
میو قوم اور تقریبات جشن آزادی2023
میو قوم اور تقریبات جشن آزادی2023 MEO Nation and Independence Celebrations 2023 حکیم المیوات قاری محمدیوشاہد میو۔ آج14اگست2023ہے۔پاکستان کو آزاد ہوئے۔۔۔سال ہوچکاہاں میو قوم نے تقسیم ہند کے دوران دنیا کی سب سو بڑی ہجرت ہوئی اور میو قوم سب سو زیادہ متاثر ہوئی۔نوں سمجھو کہ ای ہجرت میو قوم کی قربانی کو دوسرو نام ہے کیسی شکر گزار قوم ہے لُٹی پِٹی۔گھر بار مال و اولاد چھوڑا۔ایک وطن سو دوسرا وطن مہیں چل دیا۔سب کچھ لٹانا کے باوجودمیوقوم جشن آزادی جوش و جذبہ سو مناری ہے کچھ تقریبات13 اگست2023 13 اگست 2023 کو ملی نغمہ کی تقریب ہوئی۔میو ایکسپریس کی طرف سو موکو بھی دعوت ملی ہی لیکن کچھ مجبوری کی وجہ سو نہ پہنچ سکو۔حافظ جعفر ضیاء کو گائیو ہوئیو ملی نغمہ سوشل میڈیا پے اپنو لوہا منوارو ہے۔پچھلا سال بھی موکو دعوت ملی ہی۔شرکت ہوئی۔امید ہے ای کامیاب تقریب ہوئی ہوئے گی۔ ملی نغمہ کا سلسلہ میں بھائی ریاض نور نے اور ان کی بیٹی ردا فاطمہ نورنے بھی بہترین کاوش کری ہاں جنت جیسی دھرتی میری پھولن جیسو دیس(اشاعترہبر میوات۔ویب چینل) رداء فاطمہ اپنی محنت اور باپ کی شفقت سو جو اللہ کو ان پے انعام ہے بہت آگے جائے گی۔ ریاض نور نے خود بھی قومی ترانہ گائیو ہے۔ای دیس ہماری دھڑکن ہے۔۔۔۔۔ سعد ورچوئل سکلز کی افتتاحی تقریب۔ میو قوم کے کچھ احباب جن کا دلن میں میو قوم کی ہمدردی۔اور کچھ کرن کی دھن میں جوانن نے سعد ورچوئل سکلز قائم کرکے میو قوم کا نوجوانن کو دعوت دی کہ جدید ڈیجیٹل ہنر سیکھ کے اپنا پائون کے کھڑا ہوجائو۔ہنر مند بنو۔خود کمائو ۔دوسران کی مدد کرو قوم کی خدمت کرو۔ 141گست2023 بروز پیر پاکستان بھر میں جشن آزادی کی تقریبات ہوری ہاں۔میوقوم میں لاتعداد علمائے کرام موجود ہاں یاکے علاوہ میوقوم تعلیمی میدان میں بہت سا ادارہ کام کرراہاں وے سب اپنی اپنی جگہ پے جشن آزادی کی تقریبات منعقد کرراہاں علمائے کرام مدارس و مساجد میں شہدائے پاک و ہند کے ثواب کی خاطر قران خوانی اور دعائے ترحیم کرراہاں۔میں نے کئی میو علماء کی عادت دیکھی وے اپنی قوم و ملک اور اسلام کے مارے خصوصی دعا کراہاں۔ان کی نیک دعا قوم کے مارے وقف ہاں میری معلومات کے مطابق میو قوم کا بہت سا لوگ جشن آزادی کی تقریبات منعقد کرراہاں قومی ہیرو یاسر سلطان میو کا اعزاز میں کماہاں گائوں اختر حسین شہید کا ڈیرہ پے۔جناب شہزاد جواہر صاحب کی رہائش گاہ پے دن دس بجے میوقوم کو فخر جناب یاسر سلطان میو کا اعزاز مین تقریب ہوری ہے موکو بھی دعوت ہے۔یامضمون سو فارغ ہوکے پہنچ رو ہوں۔ واکے بعد پتوکی کا میو جوان اور برادری کا لوگن نے یاسر سلطان کا اعزاز میں بہت بڑی تقریب کو پروگرام بنائیو ہے۔جامیں قوم پرچم لہرائیو جائے گو یاکے علاقہ بے شمار تقریبات منعقد ہوری ہاں۔جن کو ذکر یا مختصر سی تحریر مین مشکل ہے الحمد اللہ میو قوم جا انداز سو آگے بڑھ ری ہے۔یاکو جوش و جذبہ دیکھن کے قابل ہے ملک و قوم کا بارہ میں نیک سگالی۔بہترین جذبات انکی حب الوطنی کا نشانی ہاں۔
جادو اور جنات کے بارہ میں عرب و عجم کے مجربات
جادو اور جنات کے بارہ میں عرب و عجم کے مجربات حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو اس کتاب میں ملائکہ کی حقیقت اور انسان سے ان کے پوشیدہ تعلقات ،جنات و جادو کے بارہ میں بنیادی باتیں اور لطیف بحثیں کی گئی ہیں۔قران و حدیث ۔مرتاض عاملین اور ذاتی مشاہدات پر انحصار کرتے ہوئے ہر بات کو مستند انداز میں لکھا گیا ہے اس کا مصنف عملیاتی میدان میں 27سالہ آبلہ پائی کا تجربہ رکھتا ہے کتاب یہاں سے حاصل کریں۔۔۔ڈائون لوڈ لنک
جھریاں(Freckles)
جھریاں(Freckles) جھریاں(Freckles) حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو عمومی طورپر جھریاں انسانی عمر اور تجربہ کی نشانی سمجھی جاتی ہیں۔جھریاں دیکھنے سے بادی النظر عمر ریسدہ ہونے کا خیال دلاتے ہیں۔جہاں عمر رفتہ کا تعلق ہے وہیں پر کچھ طبی اور غذائی کمی اور دیگر خامیوں کی نشان دہی ہوتی ہے۔گوکہ اس پر بہت ساری تحقیقات ہوچکی ہیں اور بے شمار نسخہ جات ترتیب دئے اور جدید لبورٹریز میں فارمولے ترتیب دئے۔لیکن خاطر خواہ نتائج نہ نکل سکے۔یہی جھریاں کچھ امراض و علامات کی نشان دہی کرتی ہیں۔ عام غیر کینسر والے جلد کے نشانات ہیں۔ بہت سے لوگ انہیں بنائو سنگھار کی وجوہات کی بناء پر ناپسند کرتے ہیں یا ان کے بارے میں خود کو باشعور محسوس کرتے ہیں۔ اگر جھریاں تکلیف کا باعث بنتی ہیں اور آپ انہیں دور کرنا چاہتے ہیں، تو مناسب تدابیر اختیار کرسکتے ہیں۔ضروری نہیں کہ جو طریقہ اختیار کریں ان سے من چاہے نتائج حاصل کرسکیں۔ بجٹ، خطرات اور وقت کی کمٹمنٹ کی بنیاد پر علاج کے مختلف اختیارات دستیاب ہیں۔ یہ جاننے کے لیے پڑھیں کہ آپ اپنے جھریاں کیسے ہٹا سکتے ہیں۔ فریکل (جھریاں)کیا ہے؟ جھریاں عام، غیر سرطانی جلد کے نشانات ہیں جن کا جسم کے سورج کی روشنی والے علاقوں کے لیے خطرہ ہوتا ہے۔ یہ چپٹے، ٹین براؤن گھاو 1-2 ملی میٹر ہیں اور چہرے، گردن، سینے، بازوؤں اور کمر پر ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ 2 یا 3 سال کی عمر میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور اکثر 20 سال کی عمر کے بعد غائب ہو جاتے ہیں۔ دھوپ میں اضافے کے ساتھ، گرمیوں میں جھریاں زیادہ واضح ہو جاتی ہیں، اور سردیوں میں ختم ہو سکتی ہیں۔ فریکلس کا کیا سبب بنتا ہے؟ جلد کی اوپری تہہ (ایپیڈرمیس) میں میلانوسائٹس کے ذریعہ میلانین کی پیداوار میں اضافہ فریکلز کی ظاہری شکل کا باعث بنتا ہے۔ سورج سے نکلنے والی UV شعاعیں ایک حفاظتی طریقہ کار کے طور پر میلانین کی پیداوار کو متحرک کرتی ہیں۔ تاہم، UV روشنی کی نمائش بھی جھری کی تشکیل کا باعث بنتی ہے۔ جینیات بھی freckles کی ظاہری شکل میں ایک کردار ادا کرتا ہے. صاف ستھری جلد کی قسموں کو سورج کے سامنے آنے پر ان کی نشوونما کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے، اس لیے سنہرے بالوں والے یا سرخ بالوں والے افراد میں جھریاں زیادہ ہوتی ہیں۔ جھریوں کو کیسے روکا جائے۔ فریکلز سے لڑنے کا سب سے آسان طریقہ ان کو روکنا ہے۔ دھوپ کی حفاظت اور پرہیز جھریوں کے ساتھ ساتھ جھریوں اور جلد کے کینسر سے بچنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ سورج سے بچنے کے علاوہ، آپ کو ٹیننگ بیڈز سے بھی پرہیز کرنا چاہیے، جو یووی لائٹ خارج کرتے ہیں اور جھریوں کا سبب بنتے ہیں۔ سورج سے بچاؤ کے کچھ اچھے نکات یہ ہیں: سن اسکرین۔ روزانہ SPF 50 کے ساتھ وسیع اسپیکٹرم سن اسکرین کا استعمال کریں۔ پانی. اگر آپ تیراکی یا پسینہ آ رہے ہیں تو پانی سے بچنے والی سن اسکرین کا انتخاب کریں۔ ٹائمنگ کیمیکل سن اسکرین لگائیں، جیسے ایوبینزون یا آکسی بینزون، سورج کی نمائش سے 30 منٹ پہلے۔ کیمیائی سن اسکرین کے برعکس، آپ سورج کی نمائش سے فوراً پہلے زنک آکسائیڈ یا ٹائٹینیم ڈائی آکسائیڈ کے ساتھ فزیکل سن اسکرین لگا سکتے ہیں۔ دوبارہ درخواست دیں۔ اگر آپ دھوپ میں ہیں تو ہر 1-2 گھنٹے بعد سن اسکرین کو دوبارہ لگائیں۔ لباس۔ UPF 50 کے ساتھ سورج سے بچاؤ کے لباس، چوڑی کناروں والی ٹوپیاں، اور UV سے تحفظ دینے والے چشمے پہنیں۔ دن کا وقت. سورج کی نمائش کے لئے دن کے چوٹی کے اوقات سے بچیں (صبح 10 بجے سے شام 4 بجے تک)۔ سایہ۔ دھوپ سے بچانے کے لیے سایہ تلاش کریں۔ چھتری کے استعمال پر غور کریں۔ ذمہ داری سے ٹین کریں۔ اگر آپ ٹین دیکھنا چاہتے ہیں تو اسپرے ٹین کا استعمال کریں۔ ایسے طریقے جن سے لوگ جھریوں کو دور کرسکتے ہیں۔ چونکہ فریکلز بے ضرر ہیں، آپ کو انہیں ہٹانے کی ضرورت نہیں ہے جب تک کہ وہ آپ کو کاسمیٹک طور پر پریشان نہ کریں۔ علاج کے مختلف اختیارات دستیاب ہیں۔ بورڈ سے تصدیق شدہ ڈرمیٹولوجسٹ سے علاج کے بارے میں بات کرنا بہتر ہے جو آپ کے لیے صحیح علاج کا انتخاب کرسکتا ہے۔ کیمیائی چھلکے ہلکی، ہموار جلد کو ظاہر کرنے کے لیے کیمیائی چھلکے جلد کی اوپری تہوں کو ہٹاتے ہیں جن میں جھریاں ہوتی ہیں۔ چھلکے کی گہرائی پر منحصر ہے، انہیں ہفتوں کا وقت درکار ہو سکتا ہے۔ عام ضمنی اثرات میں لالی، سوجن، کرسٹنگ، خارش اور ڈنک شامل ہیں۔ داغ اور انفیکشن کا خطرہ بھی ہے۔ لیزر علاج کئی لیزر علاج فریکلز سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ کچھ لیزر صرف جلد کے روغن کو نشانہ بناتے ہیں، جیسے IPL، جبکہ دیگر جھائیاں دور کرنے کے لیے جلد کی تہوں کو ہٹاتے ہیں، جیسے CO2۔ لیزر جتنا زیادہ ناگوار ہوگا، زخموں اور انفیکشن کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔لیزر کا استعمال جلد یا بدیر نقصانات کا سبب بن سکتا ہے۔اگر اس طریقہ علاج سے بچا جائے تو بہتر ہے کریوسرجری فریکلز کو دور کرنے کے لیے کریوسرجری روغن پیدا کرنے والے خلیات کو تباہ کرنے کے لیے ایک بہت ٹھنڈا مائع (مائع نائٹروجن) استعمال کرتا ہے۔ کرائیو سرجری کے ساتھ ہائپو پگمنٹیشن اور داغ پڑنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، جس سے یہ سیاہ جلد کی قسموں کے لیے کم مطلوبہ علاج کا اختیار بن جاتا ہے۔ کچھ مریضوں کو علاج کے بعد چھالے یا خون بہنے کا تجربہ ہوتا ہے۔ یہ طریقہ علاج تجرباتی طورپر تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے بہتر نتائج کا حصول بہت مشکل ہوتا ہے۔کیونکہ ہر وہ غیر طبعی طریقہ علاج جس سے جسم کو مناسبت نہ ہو نقصان کا سبب بنتا ہے۔جلد بدیر نتائج بد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے Microneedling مائیکرونیڈلنگ ایک ایسے آلے کا استعمال کرتی ہے جس میں بہت سی چھوٹی سوئیاں ہوتی ہیں تاکہ جلد میں مائیکرو انجری پیدا ہو کر روغن کو توڑ سکے۔ یہ آپ کے جسم کو خود کو ٹھیک کرنے اور روغن کو دور کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ بہت سے معالج اثرات کو بڑھانے کے لیے اسے پلیٹلیٹ سے بھرپور پلازما یا
A sore throat is a sign of anxiety
A sore throat is a sign of anxiety Table of Contents Introduction Understanding Anxiety and Its Physical Manifestations The Surprising Connection Between Anxiety and Sore Throats A Sore Throat is a Sign of Anxiety Exploring the Link between Anxiety and Physical Symptoms Unveiling the Intricate Relationship: Anxiety and Throat Discomfort Understanding the Mechanisms The Body’s Response to Anxiety: Physiological Changes How Anxiety Triggers Sore Throat Pain: Exploring the Mechanisms Dry Mouth and Throat Irritation: Unraveling Anxiety’s Effects The Mind-Body Connection Stress, Anxiety, and Immune System Impact Chronic Anxiety’s Influence on Physical Habits Deciphering the Cause: Anxiety or Infection? Distinguishing Between Anxiety-Induced and Infection-Related Sore Throats Immediate Relief: Natural Solutions for Sore Throat Discomfort Practical Strategies for Relief Mindful Breathing Techniques: Calming the Mind and Throat Stress Management Strategies: Finding Balance Hydration and Herbal Remedies: Soothing the Irritated Throat Cognitive Behavioral Therapy (CBT): Restructuring Anxious Thoughts Seeking Professional Guidance: Overcoming Persistent Symptoms FAQs about Anxiety and Sore Throat Can Anxiety Physically Cause a Sore Throat? Differentiating Between Anxiety-Related and Infection-Related Sore Throats Lifestyle Changes for Dual Relief: Anxiety and Sore Throat Anxiety’s Impact on the Immune System Medication Options for Managing Anxiety-Related Throat Discomfort Duration of Anxiety-Induced Sore Throat Discomfort By navigating this comprehensive table of contents, readers can access specific sections of the article that address their questions and concerns about the intriguing connection between anxiety and sore throats. From understanding the physiological mechanisms to practical strategies for relief, this article provides a holistic view of this unique relationship A sore throat is a sign of anxiety Sore throat can bother a person from time to time. This problem can be temporary or a sign of a major disaster. Polluted environment and consumption of adulterated food and opaque water can also cause a sore throat. China does it. Many of its treatments and cures are well-known, but here we will write some useful tips along with the symptoms. Introduction We’ve all experienced moments of anxiety — that anxious feeling that subsides when faced with challenges. But did you know that anxiety can go beyond emotional distress and actually cause physical symptoms? One such symptom is a sore throat. This article aims to highlight how anxiety and sore throats are linked, supported by both scientific findings and real-life experiences. A sore throat is a sign of anxiety Anxiety is a complex emotional response that triggers a cascade of physiological changes in the body. This involves activating the body’s stress response, which can lead to muscle tension, shortness of breath, and increased heart rate. These physical changes can affect the throat area, possibly causing irritation and discomfort. If diagnosed in time, a person can avoid major problems. Exploring Mechanisms: How Anxiety Triggers Sore Throat Pain When anxiety strikes, the body’s fight-or-flight response is activated, which releases stress hormones like cortisol. This hormonal surge can cause muscle tension in the neck and throat area, which contributes to the sensation of a sore throat. Additionally, anxiety can lead to dry mouth as a result of decreased saliva production, further exacerbating throat irritation. Due to fear and cough, the foreskin also becomes dry. The mind-body connection: How psychological factors affect physical well-being The mind-body connection plays an important role in the experience of physical symptoms. Stress and anxiety can weaken the immune system, making the body more vulnerable to infections like the common cold or the flu – both of which can present with a sore throat. Moreover, chronic anxiety can lead to habits such as clearing the throat or coughing, exacerbating the pain. Unraveling the puzzle: Is it a nuisance or a real infection? It is important to distinguish between a sore throat caused by anxiety and a sore throat caused by a true infection. While anxiety can contribute to sore throats, it’s important not to ignore potential medical problems. Consulting a health care professional can help rule out infection or other underlying conditions. Our experiments have shown that sucking on a piece of ginger from a sore throat provides immediate relief. Practical Strategies to Relieve Sore Throat Pain and Anxiety Mindful Breathing Techniques: Breathe in calmly, release tension. Practice deep breathing exercises to promote relaxation and reduce muscle tension in the throat area. Inhale deeply for a count of four, hold for a count of four, and exhale for a count of six. Gargling with salt water or sucking on a lump of salt in the mouth works as first aid when the sore throat is bothersome. Stress Management: Finding Your Zen Engage in stress-relieving activities such as meditation, yoga, or tai chi to reduce overall levels of anxiety and reduce physical symptoms. There are numerous ways to relieve mental stress. Focusing on engages the mind which causes relief for the throat Hydration: Soothe the throat. Stay well hydrated to prevent dry and irritated throat. Herbal teas with soothing properties, such as chamomile or licorice root, can provide relief. An itchy or scratchy throat is relieved by a warm drink or salty and spicy tea. This may provide temporary relief, if not permanent. Can support until reaching a doctor. Cognitive Behavioral Therapy (CBT): Reengineering thought patterns CBT can help reframe anxious thoughts and behaviors, reducing the likelihood of experiencing physical symptoms. Professional support: Seeking expert guidance If anxiety and sore throat persist, consider consulting a mental health professional or counselor for appropriate strategies and support. Frequently Asked Questions About Anxiety and Sore Throat Q: Can anxiety actually cause physical symptoms like a sore throat? A: Yes, anxiety can trigger physiological changes that lead to sore throats, including muscle tension and dryness. Q: How can I tell the difference between an anxiety-related sore throat and an infection? A: Consultation with a medical professional is essential for an accurate diagnosis. They can rule out infection and provide appropriate guidance. Q: Are there any specific lifestyle changes that can relieve both anxiety and sore throat? A: Engaging in
میو قوم بہادر(1857) اورمیوات کا شہداء
میو قوم بہادر(1857) اورمیوات کا شہداء میو قوم بہادر(1857) اورمیوات کا شہداء حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔ میوات کا بسن والا میو قوم کا فرزندن نے تاریخ میں ایس ان مٹ نشانات چھوڑا ہاں۔متعصب لوگ مٹانو بھی چاہواہاں تو نہ مٹا سکا ہاں۔میوات کا علاقہ میں خاک و خون سو لکھی گئی داستانن سو آج بھی۔تاریخ کی کتابن کی سرخی قائم ہے۔کوئی کتنی بھی ڈنڈی مار لئے میو قوم کا نام سو بغیر تحریک آزادی ہند مکمل ہو ای نہ سکے ہے۔میو قوم کا شہدا کی کلازوال داستان۔۔۔ میوات مسلم اکثریتی علاقہ ہے جہاں میو مسلمان سب سو زیادہ تعداد میں ہاں۔ میو قوم لا نام پے ہی یا علاقہ سو میوات کہو جاوےہے۔ مسلم اکثریتی ہوناکی وجہ سو ہی ای علاقہ ہندو انتہا پسندن کو کھٹکتو رہوے ہے۔ کچھ ہندو تنظیم تو یا علاقہ سو ’چھوٹو پاکستان‘ بھی کہواہاں۔ جب کہ میو قوم کا خمیر حب الوطنی رچی بچی ہوئی ہے۔میوقوم کو دامن آج تک غداری وطن فروشی کا داغ سو پاک رہو ہے اگر تاریخ میں ذرا پیچھے جاواںتوپتو چلو ہے کہ میوات کا دس ہزار بہادرن نے انگریزن کے خلاف 1857 کی جنگ آزادی میں ہنستے ہنستے جان قربان کر دی ہی۔ شہید ہون والا زیادہ تر میو مسلمان ہا ۔جو لوگ میوقوم کی حب الوطنی پے شک کراہاں شاید وے تاریخ سو بے خبر ہاں۔ گڑگاؤں گزٹمیر کے مطابق میون نے 1800 سو پہلے سو ہی انگریزن کی ناک میں دم کرراکھوہو۔ سنہ 1803 میں انگریز مراٹھا جنگ کے دوران میو جنگجون نے دونوں افواج کو نقصان پہنچایوہو اور لوٹ پاٹ کری ہی۔ انگریز یابات سو کافی ناراض ہا اور دانت پیسے کہ موقع ملے تو میون کو سبق سکھاواں۔ سال 1806 میں نگینہ کا نوٹکی گاؤں کا میون نے مولوی عوض خاں کی قیادت میں انگریزن سو ٹکر لی۔یا ہار سو انگریز گھبرا گیا اور دہلی کا ریزیڈنٹ سیکٹن نے سنہ 1807 میں ایک خط کے ذریعہ اپنا افسران کو ہدایت دی کہ میون سو مفاہمت کر لینی چاہئے۔ حالانکہ ای انگریزن کی ایک چال ہی اور وے صحیح وقت کا انتظار میں ہا اورای موقع ان کو نومبر 1857 میں ملو۔ میوات کا لوگن سو حب الوطنی کو ثبوت کون مانگ سکے ہے؟ مورخ اور اکھل بھارتیہ شہید سبھا کے چیئرمین شرف الدین میواتی کہوے ہے کہ 1842 میں میوات کو محصول 11 لاکھ 14 ہزار طے کرو گیو ہو جو کہ فصل کی پیداوار سو بھی کہیں زیادہ ہو اور یاکو اعتراف خود لارڈ کننگھم نے کرو ہو۔ بتایو جاوے ہے کہ 10 مئی 1857 کو میواتی سپاہی چاند خان نے انگریزن پے گولین کی بوجھاڑ کردی ہی جا کے بعد بغاوت کی آگ ملک بھر میں پھیل گئی ہی۔ مہارشی دیانند یونیورسٹی روہتک سو میوات کی بغاوت پے ریسرچ کر چکی شرمیلا یادو کو ماننو ہے کہ 20 ستمبر 1857 کو انگریزن نے دہلی پے قبضہ کر لیو ہو اور ان کی نظر اب میوات میں موجود میو باغین پےہی۔ شرمیلا کی ریسرچ کے مطابق دہلی پے قبضہ کے بعدایک سال تک انگریزی فوج نے میوات میں تشدد برپا راکھو۔ 8 نومبر 1857 کو انگریزن نے میوات کے سوہنا، تاؤڑو، گھاسیڑا، رائسینا اور نوح سمیت سینکڑوں گاؤں میں قتل و غارت کری۔ انگریزن کی کماؤں بٹالین کی قیادت لیفٹیننٹ ایچ گرانٹ کر رو ہو۔ای دستہ کئی گاؤن نے تباہ کرتو ہویو گاؤں گھاسیڑا تک جا پہنچو۔ 8 نومبر کو گھاسیڑا کے کھیت میں انگریز اور میواتین کا بیچ زبردست جنگ ہوئی۔ گاؤں گھاسیڑا کے 157 میواتی یا جنگ میں شہید ہویا لیکن جوابی حملہ میں انن نے انگریز افسر میک فرسن قتل کر دیو۔ 19 نومبر 1857 کو میوات کا بہادرن نے دبانے کے مارے بریگیڈیر جنرل سوراج، گڑگاؤں رینج کو ڈپٹی کمشنر کلی فورڈ اور کیپٹن ڈومنڈ کی قیادت میں ٹوہانا، جیند پلاٹونن کے علاوہ بھاری توپ خانہ سپاہین کے ساتھ میوات کا روپڑاکا، کوٹ، چلی مالپوری پے زبردست حملہ بول دیو۔ وا دِن اکیلا گھاسیڑا کا 425 میواتی بہادر بے رحمی سو قتل کردیا گیا۔ یا دوران انگریزن نے میوات کا سینکڑوں گاؤن میں آگ لگا دی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یا دوران انگریزن نے تین ہزار افراد کو یا تو پھانسی دی یا گولی مار کرکےہلاک کر دیا۔ حالانکہ مورخین کو خیال ہے کہ یا دوران دس ہزار سو زائد افراد شہید ہویا۔ 1857 کا غدر کا ان شہدا کی یاد میں میوات ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے 2007 میں 12 گاؤں میں شہید مینار تعمیر کرانا کو کام شروع کروہو جاسوکہ لوگ اپنا پرُ وقار ماضی اے یاد راکھ سکاں۔ حالانکہ 13 یادگارن میں سو محض 9 کو کام ہی ابھی تک مکمل ہو سکو ہے۔ مورخ محمد ارشد نے بتایو کہ کہ روپڑاکا گاؤں کا 425 شہدا کی یاد میں سال 1983 میں وا وقت کا وزیر اعلیٰ بھجن لال اورو ا وقت کا ممبر پارلیمنٹ چودھری رحیم خان اور رکن اسمبلی اظمت خان نے ش’ہید اسمارک‘ تعمیر کرایاہا۔
جنگ آزادی مئی ۱۸۵۷ء اور میوقوم
جنگ آزادی مئی ۱۸۵۷ء اور میوقوم ۱۸۵۷ ء میں دلی کے جنوب میں سرائے لاٹ سے لے کر الور تک اور متھرا سے لے کر نار نول تک میوات تھا۔یہی وہ علاقہ تھا جو انگریزوں کے لئے قبرستان بن گیا تحریر:سکندرسہراب میو جس قوم نے مادر وطن کوغیروں کی غلامی سے بچانے کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دیں اورجب غداروں کی ضمیر فروشی کے نتیجے میں ملک کو غیروں نے اپنا غلام بنا لیا تو جس قوم نے زنجیر غلامی کوتوڑنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی اور سب سے زیادہ جانی اورمالی نقصان برداشت کیا،جس کی جدی پشتی ملکیتی زمینیں اور جاگیریں انگریزوں نے اس لئے ضبط کر لیں کہ اس قوم نے جنگ آزادی میں انگریزوں کو بہت نقصان پہنچایاتھا، اس کا ذکرتاریخ میں کہیں نہیں ۔ اس قوم کے ہیروز کا ذکر کرتے ہوئے تاریخ لکھنے والوںکواس کی قوم کا نام لکھنے کی توفیق نہ ہوئی۔ میرا اشارہ میو اورمیواتیوںکی طرف ہے۔ ۱۸۵۷ء کے غازیوں میں سب سے بڑا نام بھونری کے جنرل بخت کا ہے۔جو میوات میں بھونری کی پہاڑیوںمیں دفن ہے۔انگریز آخر دم تک جس کا پتہ نہ لگا سکے۔اگر ہمار ے بزرگ ہمیں اس بات سے آگا ہ نہ کرتے کہ جنرل بخت میو تھا ۔وہ اور ایک شہزادہ (جسے کسی شہزادی نے یہ کہہ کر اس کی جھولی میں ڈال دیا تھا کہ جنرل یرا بیٹا آپ کے پاس امانت ہے)بھونری کی پہاڑیوںمیں دفن ہیں ،اگر ظہیر دہلوی دلّی کاآنکھوں دیکھا حال میں جنرل بخت کا حلیہ ٹھیٹ میو کابیان نہ کرتا اور عشرت رحمانی اپنی ۵۷ء کی تاریخ میںجنرل بخت کی زبان سے نکلا ہوا ٹھیٹ میواتی زبان کایہ فقرہ نقل نہ کرتا کہ’’ہم جا کی مونڈ ی پہ پنہاں دھر دیاں اُو باشادہ بن جاوے ‘‘یعنی ہم جس کے سر پر اپنی جوتی رکھ دیتے ہیں وہ بادشاہ بن جاتا ہے‘‘تو ہمیں شاید کبھی معلوم نہ ہوتاکہ جنگ آزادی ۵۷ء کا عظیم ہیرو جنرل بخت میوتھا۔ یار لوگ تو اسے بے دھڑک روہیلہ پٹھان لکھتے ہیں ۔اس فقرے سے متعلق واقعہ مختصر یہ ہے کہ جب الٰہی بخش اورحکیم احسن اللہ جیسے غداروں کی سازشوںسے انگریز دہلی پر قابض ہو گئے تو جنرل بخت،بادشاہ بہاد ر شاہ ظفرکے پاس گیا اور اسے دہلی چھوڑ کرکسی اورمحفوظ جگہ سے لڑائی جاری رکھنے کامشورہ دیا۔بادشاہ نے آمادگی ظاہر کی اوراگلے دن ہمایوںکے مقبرے میںملنے کو کہا۔انگریزوں نے الٰہی بخش کے سپرد یہ کام کیا تھا کہ بادشاہ کو انقلابیوں کے ساتھ جانے سے روکے۔ جنرل بخت کے جاتے ہی وہ بادشاہ کے پاس آیااوربڑھاپے، برسات،بیگمات ،شہزادے، شہزادیوںاور سفر کی صعوبتوں کا ایسا نقشہ کھینچا کہ بادشاہ تذبذب کاشکار ہو گیا۔اس پر اس نے یہ وعدہ کیا وہ انگریزوں سے بادشاہ کی صلح کرا دے گا۔اس پرایک خواجہ سرا نے کہا ’’حضور۔۔صاحب عالم ا لٰہی بخش تو انگریزوں سے ملے ہوئے ہیں ،آپ بخت خاں بہادر کی گذارش پر توجہ فرمائیے۔مرنا اور تکلیف اٹھانا تو زندگی کے ساتھ ہے ‘‘بادشاہ نے اس کے کہے پر توجہ نہ دی۔ الٰہی بخش ہر بات کی اطلاع انگریزوںکو دے رہا تھا۔حکم آیا کہ جیسے بھی ہو ۲۴ گھنٹے تک بادشاہ کو روکو ۔ جنرل بخت اگلے دن بادشاہ کے پاس آیا تو الٰہی بخش بھی موجود تھا۔جب اس نے دیکھاکہ بادشاہ ہتھے سے اکھڑنے والا ہے تو اس نے جنرل بخت پرچوٹ کی کہ لارڈ گورنر صاحب لگتا ہے آپ جہاںپناہ کی آڑمیں خود حکومت کرنا چاہتے ہیں‘‘اس پر جنرل بخت نے غصے میں تلوار کھینچی اورکہا ’’ہم جا کی منڈی پہ پنہاں دھر دیواں او بادشاہ بن جاوے ہے‘‘۔ اس پر بادشاہ نے کہا کہ بہادرہمیں تیری ہر بات کا یقین ہے مگر جسم کی قوت نے جواب دے دیا ہے۔ ہم اپنامعاملہ تقدیرکے حوالے کرتے ہیں۔مجھ کو میرے حال پر چھوڑ دو‘‘جنرل بخت چلا گیا،الٰہی بخش کی مخبری پر ہڈسن فوجی دستے کے ساتھ گرفتار کرنے کے لئے ہتھکڑیاں لے کرآیاتو بادشاہ کی آنکھیں کھلیں کہ اس کے ساتھ دھوکا ہو گیا۔اس نے کہا،بخت کو بلاؤ مگر تب بخت دور جا چکا تھا۔۱۸۵۷ء میں دلی کے جنوب میں سرائے لاٹ سے لے کر الور تک اور متھرا سے لے کر نار نول تک میوات تھا۔یہی وہ علاقہ تھا جو انگریزوں کے لئے قبرستان بن گیا۔ میوات کا ایک ایک گاؤںانگریزکی تربیت یافتہ ،منظم ،جدید ترین اسلحہ سے لیس فوج کے لئے سخت میدان جنگ ثابت ہوا۔ برگیڈئیر جنرل شاور کے الفاظ میں’’مجھ پر ہر اس گاؤںمیں حملہ ہوا جہاں سے میں گذرا۔ مجھے دشمنوںکے خلاف لگاتار ہوشیار رہنا پڑا‘‘میواتی کسانوں نے ہل کے دستہ کی جگہ تلوار کا دستہ پکڑ لیا اور باز کی طرح فرنگی افواج پر ٹوٹ پڑے پہلے سوہنا اور تاؤڑو کے درمیان ایڈن سے لوہا لیا۔بعدازاں نوح میں انگریزوں کا صفایا کیا ۔ رائے سینا میں کلیوفورڈ کاسر قلم ہونے سے انگریز فوج حیرت زدہ ہو گئی۔ گھاسیڑہ ،روپڑا کا،مَہُو،فیروز پور،دوہا،پنگواں ہوڈل میں انگریز فوج کو وہ سبق سکھایا کہ انگریز فوج بھی ان کی بہادری کی داد دیے بغیر نہ رہ سکی۔ لارڈ کیننگ کے الفاظ میں ’’میوقوم نے مسلمان بادشاہوںکو بھی تنگ کیا تھا،ہمیں تو کچھ زیادہ ہی پریشان کیا ہے‘‘ اس کے علاوہ اندور ، گوالیار ،علی گڑھ،الٰہ آباد ،ناگپور،جھانسی، بجنور، بلند شہراور پیلی بھینت کے میواتیوں نے بھی انگریزوں کوناکوں چنے چبوائے۔اگرچہ پٹیالہ ،جیند، نابھا،الور، گوالیار ،کوٹہ،میواڑ، مارواڑاورجنوب کی بیشتر ریاستوں کے حکمرانوں نے انگریزوں کاساتھ دیایا الگ تھلگ رہے ،اس کے باوجود ان علاقوں میں باغی عوام کودبانے کے لئے انگریزوں کوایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑا۔سکھ ، مراٹھے ،راجپوت،مغل،ترک ،پٹھان، گور کھا ،جاٹ اور میو برادری نے بڑ ی جانبازی دکھائی مگر فرنگیوں کی سیاست، منصوبہ بندی اور جدید ہتھیار ہندوستانیوں پرجتنے بھاری پڑے، اس سے زیادہ غداروں اور قوم فروشوں نے انقلابیوں کی ناکامی اور انگریزوںکی کامیابی میں اپنا گھناؤنا کردار ادا کیا ۔دلی کے جنوب میں واقع اور ہریانہ کے ساتھ مشرقی راجستھان کے الور اور بھرت پور اضلاع میںپھیلے ہوئے میوات کے عوام نے انگریزوں سے ملک کو بچانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی ۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے معروف میواتی شہیدوںمیں پننگواں کا سالار صدرالدین جو سقوط دہلی کے بعد بھی کوئی تین ماہ تک انگریزوں کا مقابلہ کرتا رہا،یہاں تک اس کے