دشمن سے حفاظت کا تیر بہدف عمل دشمن سے حفاظت کا تیر بہدف عمل حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو عملیاتی دنیا میں بے شمار وظائف و عملیات کئے اور مختلف چلہ وظائف کے تجربات ہوئے۔ جو طاقت میں نے قران و حدیث کے اعمال میں دیکھی وہ کسی دوسرے عمل میں دکھائی نہ دی۔اگر کسی کو ڈھنگ آجائے کہ ان اعمال سے کام کیسے لینا ہے تو ہر قسم کے اناپ شناب اعمال اور ناکامیوں سے اپنے دامن کو بچا لیتا ہے۔ہمیں عملیات کی بے اثری دکھ ہوتا ۔ہر جگہ اسی کا رونا روتے ہیں۔قران واھادیث سے منتخب کردہ اعمال میں کسی اجازت یا کسی کی محتاجی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ہر مسلمان ان سے کام لے سکتا ہے۔لیکن اس میدان کے ماہرین جانتے ہیں یہ انکے تجربات ہوتے ہیں ،کام تو ہوجاتا ہے اگر ہنر مندی سے کیا جائے جلد ہوجاتا ہے اور تسلی بخش نتائج دیکھنےکو ملتے ہیں۔یہ عمل میں نے بہت بار آزمایا اور بہترین نتائج پائے۔ آئے حدیث کی طرف چلتے ہیں ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کو کسی قوم سے خوف ہوتا تو یہ دعا پڑھتے: «اللَّهُمَّ إنَّا نَجْعَلُكَ في نُحُورِهِمْ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ». ترجمہ: اے اللہ! ہم تجھ کو ان کے سامنےکرتے ہیں اور تیرے ذریعے ان کی شرارتوں (برائیوں) سے پناہ مانگتے ہیں شرح الحديث : آپ ﷺ نے فرمایا: “اللهم إنا نجعلك في نحورهم”۔ یعنی ہم تجھے ان کے سامنے کرتے ہیں تاکہ تو انہیں ہم سے دور کرے اور ہمیں ان سے بچائے۔ یہاں “نَحر” (سینہ) کا ذکر بطور خاص کیا گیا کیونکہ یہ دفع کرنے میں اور جس کو دفع کیا جا رہا ہے اس پر قابو پانے میں سب سے تیز اور سب سے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے، اور دشمن لڑائی کےلیے اٹھ کھڑے ہونے کے وقت اپنے سینے ہی سے سامنا کرتا ہے۔ یا پھر اس میں دشمنوں کو ذبح کرنے یا انہیں قتل کرنے کی نیک شگونی ہے۔ “ونعوذ بك من شرورهم”۔ (اور ہم تیرے ذریعے ان کی شرارتوں سے پناہ مانگتے ہیں) چنانچہ اس صورتِ حال میں اللہ تعالیٰ تمہارے لیے ان کے شر سے کافی ہوجائے گا۔ مطلب یہ کہ ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ تو انہیں ہم سے روک دے، ان کے شر کو ہم سے ہٹا دے اور ان کے سلسلے میں ہمیں کافی ہو جا اور ہمارے اور ان کے مابین حائل ہوجا۔ یہ دو آسان لفظ ہیں جنہیں اگر کوئی شخص ایمانداری اور خلوص دل سے پڑھے گا تو اللہ تعالی اس کا دفاع کرے گا۔ اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کام لینے کا آسان طریقہ۔۔۔۔۔ جب کوئی ضرورت پیش آئے دشمن سے حفاظت درکار ہو۔مخالفین سے چھٹکارا چاہتے ہوں۔یا کوئی کام آ پڑے تو۔اس دعا کو صرف اکتالیس بار پڑھنا ہے۔۔۔آنکھیں بند ہوں۔دمن کا تصور ہو۔۔آپ جو چاہتے ہیں۔خدا کی ذات پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے اس کا تصور کریں۔۔۔ذہن میں ایسا منظر پیدا کریں کہ گویا حقیقی دنیا آپ کے سامنے موجود ہے۔۔یعنی اگر دمن آپ کے قابو مین آجائے تو آپ اس کے ساتھ کیا کریں گے؟یا کسی سے کس طرح کام لیں گے ۔۔یہ سوچ کر مکمل انہماک و توجہ سے اکتالیس بار تلاوت کریں۔۔تعداد کی طرف توجہ کریں۔اکتالیس ہی ہونا چاہئے۔۔اس کے بعد دمن کو سامنے سمجھ کر پھونک مار دیں۔۔۔آپ کا کام ہوجائے گا۔جتنی توجہ میں انہماک ہوگا اتنی جلدی کام ہوگا۔۔کئی بار بار تو ایک دو بار کی پڑھائی کام کر جاتی ہے۔۔۔۔
جنات کا علم غیب
جنات کا علم غیب۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو قران و احادیث مین انسان کو ہر اس چیز کا علم دیا گیا ہے جس کی ضرورت ہدایت اور قرب خداوندی کے لئے ضروری ہو۔ عمومی طورپر عاملین اور عامۃ المسلمین قران و احادیث مطالعہ کرنے کے بجائے،سنی سُنائی باتوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔جب تک کسی معاملہ کو صاف نہ کرلیا جائے اعتقاد تو کیا معمولی سا فیصلہ دینا بھی مشکل ہوتا ہے۔ جنات کا ماخذ و مبلغ علم کیا ہے؟ کچھ لوگ خلط مباحث کرتے ہیں۔وہ جنات کے نام پر رچائے گئے سوانگ کو بطور دلیل پیش کرتے ہین کہ فلاں نے یوں کردیا فلان نے ایسا کردیا۔سب سے پہلے بحث و مباحثہ کا دائرہ مقرر کرلین تاکہ خلط مباحثہ سے محفوظ رہیں۔ (1)جنات کا وجود ہے۔اس سے کسی کو انکار نہیں ۔البتہ ان کے بارہ میں معلومات محدود ہیں ،ان کی باتوں کی تصدیق کا کوئی ذیرعہ نہین ہے۔جس کی بنیاد پر جنات سے منسوب باتوں کی تصدیق کی جاسکے (2)جنات کا ماخذ و مبلغ علم کیا ہے؟ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ اس بارہ میں پختہ معلومات حاصل کرکے حتمی حکم لگا سکیں۔اس لئے ہر وہ بات جو خلاف حقیقت ہو،وہ جنات سے منسوب ہو یا کسی انسان نے گھڑی ہو اس کی تصدیق لازم نہیں ہے۔ میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ جنات اگر کوئی حدیث بیان کریں تو اس کی توثیق نہیں کی جاسکتی ہے۔کیونکہ لیلۃ الجن میں جنات کے قبائل نے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی تھی۔اس ملاقات کے بعد اصحاب النبیﷺکو دینی طورپر کئی احکامات دئے گئے۔مثلاَ۔گوبر۔ہڈی وغیرہ سے استنجا نہ کیاجائے۔سانپ کو گھروں میں دیکھو تو اسے وارننگ دو ۔دوبارہ دکھائی دے تو مار دو۔ ۔۔۔صحابہ کرام کے ساتھ جنات کا ہمکلام ہونا۔ بے شمار شواہد ہیں کہ اسلامی نظریات و عقائد کے مطابق جنات کا وجود ہے۔آج بھی اس کا اظہار ہوتا ہے۔ غیب کی خبریں (یعنی ایسی باتیں جو آنکھوں سے پوشیدہ ہوں ۔لیکن ان کا وجود ہو)جاننے کا تجسس ہر زمانے میں رہا ہے۔آج بھی اس میں کمی نہیں آئی۔حضرت عمررضی اللہ عنہ ایک ایسی عورت کے پاس پہنچے جس کا دعویٰ تھا کہ اس کا جنات سے تعلق ہے۔ایک جنگ کے حالات اور نوید فتح سننے کے لئے بے چین تھے۔یہی بے چینی اس عورت تک بھی لے گئی۔حیرت انگیز طورپر اس کی بتائی ہوئی باتین درست ثابت ہوئیں۔ انسانوں سے جنات کا علم حاصل کرنا۔ دستیاب معلومات کے مطابق جو جنات انسانوں سے تعلیم حاصل کرتے رہے ۔یہی علوم تھے جنہیں ہم انسان پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ان سے انہیں کیا فائدہ ملتا ہے معلوم نہیں۔البتہ دینی و شرعی طورپر جنات بھی انسانوں کی طرح مکلف ہیں اس لئے دینی طورپر علوم حاصل کرنا وہ بھی انسانوں سے مجبوری ہے۔بصورت دیگر کسی علم کے بارہ میں نہیں سنا کہ وہ علم بھی جنات نے انسانوں سے سیکھا ہے۔البتہ جب میںجرمنی کی تاریخ کا مطالعہ کررہا تھا تو ایک ماہر معیشت کے بارہ مین پڑھا تھا کہ اس نے معیشت پر پُر مغز کتابیں لکھیں ۔اس کا کہنا تھا کہ میرے ساتھ جنات ہوتے ہیں۔وہ مجھ سے لکھواتے ہیں۔۔۔غالبا یہ ہٹلر کی سوانح عمری۔کتاب تھی جس کانام ۔ہٹلر کا عروج و زوال “تھا۔آئے قران و حدیث کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ حدثنا عمرو، قال: سمعت عكرمة، يقول: سمعت أبا هريرة، يقول: إن نبي الله صلى الله عليه وسلم قال: ” إذا قضى الله الأمر في السماء، ضربت الملائكة بأجنحتها خضعانا لقوله، كأنه سلسلة على صفوان، فإذا فزع عن قلوبهم قالوا: ماذا قال ربكم؟ قالوا للذي قال: الحق، وهو العلي الكبير، فيسمعها مسترق السمع، ومسترق السمع هكذا بعضه فوق بعض – ووصف سفيان بكفه فحرفها، وبدد بين أصابعه – فيسمع الكلمة فيلقيها إلى من تحته، ثم يلقيها الآخر إلى من تحته، حتى يلقيها على لسان الساحر أو الكاهن، فربما أدرك الشهاب قبل أن يلقيها، وربما ألقاها قبل أن يدركه، فيكذب معها مائة كذبة، فيقال: أليس قد قال لنا يوم كذا وكذا: كذا وكذا، فيصدق بتلك الكلمة التي سمع من السماء .(صحيح البخاري (6/ 122) ترجمہ : حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ آسمان میں اپنا کوئی حکم بھیجتا ہے تو فرشتے عاجزی سے اپنے پروں کو پھڑ پھڑانے لگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد اس طرح ہوتا ہے کہ جیسے صاف پتھر پر زنجیر ماری جاتی ہے جب فرشتوں کی گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے دریافت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا ارشاد فرمایا؟ تو دوسرا عرض کرتا ہے کہ جو کچھ فرمایا حق فرمایا، اس وقت شیاطین بھی زمین سے اوپر تلے آسمان کی طرف جاتے ہیں اور اس حکم الٰہی کو سن کر اوپر والا نیچے والے کو بتاتا ہے اور اس طرح یہ ایک دوسرے سے باتیں اڑالیتے ہیں، سفیان نے اس موقعہ پر اپنی ہتھیلی کو موڑ کر اور پھر انگلیوں کو ملا کر بتایا کہ شیاطین اس طرح ایک پر ایک ملے ہوئے ہوتے ہیں اور اوپر والا نیچے کو اور وہ اپنے نیچے والے کو اور پھر اسی طرح یہ اطلاع زمین پر ساحروں اور کاہنوں تک پہنچائی جاتی ہے، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ فرشتے شیاطین کو آگ کا کوڑامارتے ہیں بات پہنچانے سے قبل اور ان کے بات پہنچانے کے بعد انہیں لگ جاتی ہے اور وہ اپنے نیچے والے کو خبر کر دیتا ہے، پھر یہ کاہن ایک بات میں سو باتیں جھوٹ ملا کر لوگوں سے بیان کرتے ہیں اور ایک سچی بات کی بدولت سب باتوں میں ان کی تصدیق کی جاتی ہے جناتی علوم اور انسانی معلومات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ وہ لوگ سرقہ سے کام لیتے ہیں۔جیساکہ اس حدیث مبارکہ میں بتایا گیا ہے۔وہی علوم انسان کے لئے القاء کئے جاتے تھے جنہیں جنات چوری چھپ کے سنا کر اپنی ضرورت کے مطابق توڑ مروڑ کرکے اپنے کام نکالا کرتے تھے۔ قران کریم نے انسانی اور جناتی صفات کو بیان فرمایا ہے ۔انسان کے لئے صفت علم کو بطور وصف قرار دیا ہے کہ آدم کو تمام اشیاء کے نام بتائے گئے۔یعنی بنیادی داٹا انسانی خمیر میں رکھ دیا گیا۔اسے جو استعمال کرنا جانتا ہے وہ فائق و اعلی منصب پالیتا ہے جو
کتابوں کی اہمیت
کتابوں کی اہمیت کتابوں کی اہمیت علم اور بصیرت کا سفر تیز رفتار تکنیکی ترقی اور ہمیشہ بدلتے ڈیجیٹل منظر نامے کی حامل دنیا میں، کتابوں کی اہمیت کم ہوتی دکھائی دے سکتی ہے۔ تاہم، معلومات کے زیادہ بوجھ کے دور میں بھی، کتابیں علم، بصیرت اور ذاتی ترقی کے انمول ذرائع کے طور پر ثابت قدم رہتی ہیں۔ یہ مضمون ہماری زندگیوں میں کتابوں کی گہرائی کی اہمیت کو بیان کرتا ہے، افق کو وسیع کرنے، تخلیقی صلاحیتوں کو تحریک دینے، اور انسانی عقل کو پروان چڑھانے کی ان کی صلاحیتوں کو تلاش کرتا ہے۔ فہرست کا خانہ تعارف کتابیں علم کے دروازے کے طور پر تخیل اور تخلیقی صلاحیتوں کی طاقت کتابیں: معاشرے کا آئینہ ادب کے ذریعے خود کی دریافت عظیم ترین دماغوں سے سیکھنا ڈیجیٹل دور اور کتابوں کی بقا جدید دنیا میں پڑھنے کی عادت کو فروغ دینا پڑھنے کا شوق پیدا کرنے میں والدین کا کردار پڑھنے کے ذریعے تنقیدی سوچ کو بڑھانا افسانہ بمقابلہ غیر افسانہ: ایک متوازن نقطہ نظر شیئرنگ کی خوشی: بک کلب اور مباحثے۔ تحریری الفاظ میں ثقافتی ورثے کا تحفظ چیلنجز پر قابو پانا: ناخواندگی اور کتاب تک رسائی نتیجہ کتابیں علم کے دروازے کے طور پر کتابیں صدیوں سے انسانیت کی قابل اعتماد ساتھی رہی ہیں، جو زمانوں کی جمع شدہ حکمت کے لیے دریچے کا کام کرتی ہیں۔ وہ اپنے صفحات کے اندر ان گنت افراد کے خیالات، تجربات اور دریافتیں رکھتے ہیں جنہوں نے ہماری دنیا کو تشکیل دیا ہے۔ چاہے وہ تاریخی واقعات کو سمجھنا ہو، سائنسی نظریات کو سمجھنا ہو، یا فلسفیانہ تصورات کو تلاش کرنا ہو، کتابیں گہرائی سے سیکھنے کے لیے ایک منظم پلیٹ فارم مہیا کرتی ہیں۔ تخیل اور تخلیقی صلاحیتوں کی طاقت زبان کی فنکاری سے کتابیں ہمارے اندر تخیل کے شعلے بھڑکاتی ہیں۔ الفاظ قارئین کو دور دراز کہکشاؤں، تصوراتی دائروں اور مختلف ادوار تک پہنچانے کی قابل ذکر صلاحیت رکھتے ہیں۔ جیسے جیسے قارئین کرداروں اور ترتیبات کا تصور کرتے ہیں، ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو تقویت ملتی ہے، جس سے حیرت اور اختراع کے احساس کو فروغ ملتا ہے جو صفحات سے باہر تک پھیلا ہوا ہے۔ کتابیں: معاشرے کا آئینہ ادب معاشرے کی عکاسی کے طور پر کام کرتا ہے، اس کی اقدار، تنازعات اور خواہشات کو سمیٹتا ہے۔ کلاسک ناولوں سے لے کر عصری کاموں تک، کتابیں انسانی تجربے کو اس کی تمام پیچیدگیوں میں سمیٹتی ہیں۔ متنوع داستانوں کے ساتھ مشغول ہو کر، قارئین دوسروں کی زندگیوں کے بارے میں بصیرت حاصل کرتے ہیں، ہمدردی اور ثقافتی تفہیم کو فروغ دیتے ہیں۔ ادب کے ذریعے خود کی دریافت پڑھنا محض ایک فکری جستجو نہیں ہے۔ یہ خود کی دریافت کا سفر ہے۔ کرداروں کی فتوحات اور مصیبتیں قارئین کے اپنے چیلنجوں سے گونجتی ہیں، تعلق اور خود شناسی کے احساس کو فروغ دیتی ہیں۔ یہ خود آگاہی ذاتی ترقی، جذباتی ذہانت، اور کسی کی شناخت کے بارے میں گہری تفہیم کا باعث بن سکتی ہے۔ عظیم ترین دماغوں سے سیکھنا تاریخ کے عظیم ذہنوں نے اپنے خیالات کو کتابوں میں قلمبند کیا ہے اور اپنے پیچھے حکمت کا خزانہ چھوڑا ہے۔ اپنے آپ کو فلسفیوں، سائنسدانوں اور بصیرت کے کاموں میں غرق کرکے، ہم جنات کے کندھوں پر کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ تحریریں بے وقت رہنمائی پیش کرتی ہیں، جو ہمیں تنقیدی سوچنے اور اپنے فکری افق کو وسعت دینے کی ترغیب دیتی ہیں۔ ڈیجیٹل دور اور کتابوں کی بقا ڈیجیٹل میڈیا کے غلبہ والے دور میں، طبعی کتابیں مستقل مزاجی اور صداقت کی علامت کے طور پر برداشت کرتی ہیں۔ صفحات پلٹنے کا تجربہ اور کاغذ پر سیاہی کی خوشبو ایک حسی تعلق پیدا کرتی ہے جسے ڈیجیٹل فارمیٹس نقل نہیں کر سکتے۔ ای کتابوں کی سہولت کے باوجود، اچھی طرح سے تیار شدہ کتابوں کی الماری کی رغبت برقرار ہے۔ جدید دنیا میں پڑھنے کی عادت کو فروغ دینا بے شمار خلفشار کے ساتھ توجہ کے لیے کوشاں ہیں، پڑھنے کی عادت کو فروغ دینا ارادے کا تقاضا کرتا ہے۔ پڑھنے کے لیے وقفہ وقت کا تعین کرنا، پڑھنے کے لیے آرام دہ مقامات بنانا، اور اسکرینوں سے رابطہ منقطع کرنا ایسی حکمت عملی ہیں جو افراد کو کتابوں کی دنیا کو اپنانے میں مدد کر سکتی ہیں۔ پڑھنے کا شوق پیدا کرنے میں والدین کا کردار والدین اپنے بچوں میں پڑھنے کا شوق پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بلند آواز سے پڑھنا، متنوع انواع تک رسائی فراہم کرنا، اور پڑھنے کے مثبت ماحول کو فروغ دینا کتابوں کے لیے زندگی بھر کی تعریف پیدا کر سکتا ہے۔ پڑھنے کے ذریعے تنقیدی سوچ کو بڑھانا پلاٹوں کا تجزیہ کرنا، کرداروں کے محرکات کو الگ کرنا، اور بنیادی تھیمز کو سمجھنا یہ سب تنقیدی سوچ کی مہارت کو فروغ دینے میں معاون ہیں۔ جیسے جیسے قارئین گہری سطح پر داستانوں کے ساتھ مشغول ہوتے ہیں، وہ جانچنے، سوال کرنے اور آزادانہ رائے قائم کرنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔ افسانہ بمقابلہ غیر افسانہ: ایک متوازن نقطہ نظر افسانہ اور غیر افسانہ دونوں منفرد فوائد پیش کرتے ہیں۔ افسانوی کہانیاں ہمدردی اور جذباتی ذہانت کو پروان چڑھاتی ہیں، جب کہ نان فکشن علم اور حقائق فراہم کرتا ہے۔ ان انواع کو متوازن کرنا ذہن کو تقویت بخشتا ہے اور فکری افق کو وسیع کرتا ہے۔ شیئرنگ کی خوشی: بک کلب اور مباحثے۔ دوسروں کے ساتھ بانٹنے سے پڑھنے کی خوشی میں اضافہ ہوتا ہے۔ کتابوں کے کلب اور مباحثے تشریحات کے تبادلے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں، جاندار مباحثوں کو جنم دیتے ہیں، اور مشترکہ ادبی مفادات پر مبنی روابط استوار کرتے ہیں۔ تحریری الفاظ میں ثقافتی ورثے کا تحفظ کتابیں ثقافت اور ورثے کے برتن ہیں، زبانوں، روایات اور اس کی حفاظت کرتی ہیں۔
جناتی دنیا سے سناشائی
جناتی دنیا سے سناشائی جناتی دنیا سے سناشائی حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔ جناتی دنیا سے انسانوں کا غیر مرئی تعلق رہا ہے۔عمومی طورپر جنات سے منسوب کچھ انسانوں پر محیط تجربات یا کچھ کیفیات کا ظہور ہوتا ہے۔جو خود بتاتے ہیں۔لوگ ان کی متغیر طبیعت کو دیکھتے ہیں تو حکم لگا دیتے ہیں کہاسے جنات نے قابو کیا ہوا ہے؟۔یا اس پرجنات مسلط ہیں۔ جب ایک مریض یا متاثرہ شخص کے بارہ میں کچھ باتیں مشہور ہوجائیں تو باقی لوگ مرچ مصالحہ لگا کرآگے روایت کردیتے ہیں۔ اس بارہ میں باتیں ذہن میں رکھئے۔ (1)جنات ذدہ یا آسیبی شخصیات نے ایسا کونسا کام ہے جس میں نرالہ پن ہو۔یا ایسا کارنامہ انجام دیا ہو جو دوسروں کے بس کی بات نہ ہو۔ (2)ہمارے پاس کوئی ایسی کسوٹی نہیں کہ جناتی اثرات والے انسان کے علاوہ کوئی تصدیقی ذریعہ موجود نہیں۔کہ جو حرکات و سکنات جناتی/یا آسیب لوگ کرتے ہیں وہ حقیقت پر مبنی ہیں؟ سطور بالا میں بتایا گیا ہے کہ دیکھنے والے لوگ بھی سوائے مریض یا پھر عامل کے کوئی یقینی ذریعہ نہیں رکھتے جس کی بنیاد پر تشخیص کی جاسکے کہ دکھائی دی جانے والی حرکات جنات کی ہیں؟۔ جنات کے متعلق وطائف و عملیات۔ انسانی نفسیات ہے کہ ان دیکھی چیزوں اور انہونی باتوں پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔ہر اس بات کو تسلیم کرتا ہے جہاں اس کی رسائی نہ ہو۔جنات سے منسوب باتیں بھی اسی زمرے میں آتی ہیں۔ وہ باتیں متاثر کُن ہوتی ہیں جن کی نسبت ایسی دنیا سے ہوجائے جو دیکھی نہ ہو۔یا ایسی شخیصات کی طرف ہوجائے۔جس تک رسائی نہ ہو۔تو حکایات کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ عجیب غریب خیالات و نظریات جنم لینے لگتے ہیں۔ مشرق سے ہی نہیں مغربی لوگ بھی ان دیکھی باتوں اور غیر یقینی حکایات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ یہ باتیں جہالت پر مبنی ہیں۔لیکن ایسا نہیں ہے۔چند جماعتیں پڑھ جانے یا کسی سند یا ڈپلومہ حاصل کرنے سے معاشرتی طورپر پھیلی ہوئی باتوں کی تردید و توثیق نہیں کی جاسکتی۔اگر کسی معاملہ میں تحقیق و تدقیق نہ ہو۔تو ان کے نظریات بھی دوسروں سے الگ نہیں ہوتے۔۔ کچھ لوگ جنات و جادو سحر کو جذباتی انداز میں اپنا لیتے ہیں۔وہ عملیاتی کتب اور عاملین کے ہورہتے ہیں۔جو چلہ وظیفہ ملا کرگزرتے ہیں۔جب تک تھک نہیں جاتے اس وقت تک من تن دھن سے لگے رہتے ہیں۔آہستہ آہستہ۔مایوسی ہونے لگتی ہے ۔زبان پر اس قسم کی باتیں آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ اگر کوئی قابل استاد مل جاتا تو کامیابی مل جاتی۔۔۔۔ میں نے قسم کے چلے کئے ہیں۔اگر کہیں سے اجازت مل جائے تو بات بن جائے۔۔۔ میرے استاد نے چلہ تو کروایا لیکن بتانے سے پہلے فوت ہوگئے۔مجھے استعمال کرنا نہیں آتا؟ چلہ میں کامیاب تو ہوگیا لیکن جنات قول و قرار نہیں کرتے۔ میں نے چلہ کیا کامیابی ملی۔لیکن بد پرہیزی ہوئی۔۔چلہ بگڑا ۔اور اثرات سے محروم رہ گیا میں نے عمل کیا تھا۔لیکن مجبوریوں کی وجہ سے پرہیز نہ کرسکا۔اس لئے عمل چھوڑ دیا میں بہت عاملوں کے پاس پھرا ہوں ۔لیکن کامل استاد نہ مل سکا۔اگر مل جائے تو بات بن جائے۔ جناتی علاج میںخرابی کی اصل بنیاد۔ نہ تو کسی کو جنات کے وجود سے انکار ہے۔نہ ہی اعمال جنات سے۔خرابی تو ہے یہاں پر جنات و جادو کے بارہ میں جو غیر حقیقی خیالات اور باتیں گردش کرتی ہیں لوگ ان کی تصدیق چاہتے ہیں۔جب کہ یہ ناممکن ہے۔مثلاََ جنات کے بارہ میں عجیب و غریب باتیں پائی جاتی ہیں کہ جنات سے کام لیا جاتا ہے۔سارے کام چٹکی بجانے میں کردیتے ہیں۔۔سوالات کا فوارا جواب ملتا ہے۔۔۔امراض سے شفاء یقینی ہوتی ہے۔ان تمام باتوں کو حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سب سے پہلے سمجھنا ہوگا کہ عامل و جنات کی حدود کیا ہیں؟۔۔ کام کرنے کا طریقہ کیا ہے؟۔۔۔ تجربات کیا کہتے ہیں؟۔۔۔ جس کام کی توقع رکھتے ہیں اس کے امکانات کس قدر ہیں؟ جنات حقیقت ہیں/۔۔۔قران کریم نے ان کے وجود کو تسلیم کیا ہے۔۔انسانں کی طرح ایک مخلوق ہیں۔۔۔انسانوں سے ان کا تعلق ممکن ہے۔لیکن ہر چیز کے امکانات ہوتے ہیں۔۔۔اس پر آگے چل کر بات ہوگی۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کالم انٹر نیٹ کے لئے لکھا ہے۔۔۔۔۔
Importance of Carbohydrates in Human Diet
Importance of Carbohydrates in Human Diet Abstract: Carbohydrates, often referred to as the body’s primary source of energy, play a crucial role in maintaining human health and well-being. This essay explores the significance of carbohydrates in the diet, discussing their various forms, functions, and effects on the body. From simple sugars to complex starches, carbohydrates contribute to energy production, brain function, and overall metabolic balance. This article also addresses common misconceptions about carbohydrates and provides insight into their role within a balanced diet. Essay: Carbohydrates are fundamental macronutrients that serve as a primary source of energy for the human body. Comprising a diverse array of compounds, carbohydrates are found in various foods and play a vital role in maintaining overall health and functionality. This essay delves into the importance of carbohydrates in the human diet, exploring their forms, functions, and impact on well-being. List of Topics: Introduction to Carbohydrates and their Classification The Role of Carbohydrates in Energy Production Simple Sugars: Fuel for Immediate Energy Complex Carbohydrates: Sustaining Vitality Carbohydrates and Brain Function The Connection Between Carbohydrates and Insulin Dietary Fiber: Promoting Digestive Health Misconceptions About Carbohydrates and Weight Gain Carbohydrates in Athletes’ Diets: Performance and Recovery Balancing Carbohydrate Intake within a Healthy Diet The Role of Carbohydrates in Energy Production Carbohydrates are the body’s preferred energy source, providing the fuel needed for everyday activities and bodily functions. Simple sugars, such as glucose and fructose, are rapidly absorbed, providing quick bursts of energy. Complex carbohydrates, on the other hand, release energy gradually, sustaining the body’s vitality over a more extended period. Carbohydrates and Brain Function The brain heavily relies on glucose as its primary energy source. Carbohydrates help maintain cognitive function, memory retention, and concentration. A diet lacking in carbohydrates may lead to fatigue, decreased mental acuity, and impaired decision-making. Carbohydrates and Insulin Carbohydrates play a crucial role in regulating blood sugar levels. Upon consumption, carbohydrates are broken down into glucose, causing a rise in blood sugar. The hormone insulin helps transport glucose into cells, where it is either used for energy or stored as glycogen in the liver and muscles. Dietary Fiber: Promoting Digestive Health Dietary fiber, a type of carbohydrate, aids in maintaining a healthy digestive system. Fiber adds bulk to stool, facilitating regular bowel movements and preventing constipation. Additionally, it helps control appetite and promotes a feeling of fullness. Misconceptions About Carbohydrates and Weight Gain Carbohydrates have often been unfairly blamed for weight gain. While excess calorie intake from any macronutrient can lead to weight gain, it’s essential to recognize the difference between nutrient-dense carbohydrates and highly processed, sugary foods. Whole grains, fruits, and vegetables offer vital nutrients and should be included in a balanced diet. Carbohydrates in Athletes’ Diets For athletes, carbohydrates are especially crucial. They provide the energy needed for high-intensity workouts and aid in post-exercise recovery. Carbohydrate-rich meals before and after exercise help replenish glycogen stores and optimize performance. Balancing Carbohydrate Intake Balancing carbohydrate intake is vital for overall health. While carbohydrates are essential, excessive consumption of refined sugars and processed foods can contribute to health issues such as obesity and type 2 diabetes. Opting for whole, unprocessed foods and monitoring portion sizes are key to maintaining a balanced carbohydrate intake. Frequently Asked Questions: Are all carbohydrates the same? How do carbohydrates affect blood sugar levels? Can a low-carb diet be beneficial for weight loss? What are the best sources of dietary fiber? How do carbohydrates impact diabetes management? Is it necessary to consume carbohydrates before exercise? What role do carbohydrates play in children’s diets? Are there “good” and “bad” carbohydrates? How can one strike a balance between carbohydrates and other nutrients? Can carbohydrates be consumed in the evening without negative effects? Conclusion: Carbohydrates form the backbone of a healthy and balanced diet. From supplying energy to supporting brain function and digestive health, these macronutrients are indispensable to human well-being. It is crucial to recognize the various forms of carbohydrates and their effects on the body, debunking common misconceptions and making informed dietary choices. By incorporating a variety of nutrient-dense carbohydrates into our meals and practicing moderation, we can harness the benefits of carbohydrates while promoting optimal health and vitality.
اطباء کے حیرت انگیز کارنامے
اطباء کے حیرت انگیز کارنامے اطباء کےحیرت انگیز کار نامے مقدمه بسم الله الرحمن الرحيم جناب حکیم خورشید احمد شفقت اعظمی صاحب ریسرچ آفیسر انچارج لٹریری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن جامعہ ہمدرد کیمپس، نئی دہلی 62… بلا شبہ آج تہذیب حاضر کی چمک نے ہماری نگاہوں کو خیرہ کر دیا ہے چنانچہ ہماری مرعوبیت کی انتہا یہ ہے کہ جس چیز پر مغرب کی مہر لگ جائے اسے مستند سمجھ لیا جاتا ہے… سے اسل اکتساب فیض کیا ہے. بلکہ رسم ورہ تحقیق میں ایسے بھی بہت سے مقامات آئے ہیں کہ مغرب نے طب مشرق کی بہت سی حقیقتوں کو بیک جنبش قلم پہلے تو مسترد کر دیا لیکن خرابی بسیار کے بعد وزبارہ تسلیم بھی کر لیا…کیونکہ اس کا کوئی متبادل ہی نہیں تھا ماضی حال اور مستقبل باہم اس طرح مربوط ہیں کہ ایک دوسرے کے لیے ناگزیر کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں، ایک حصہ دوسرے کے لیے بنیاد بن جاتا ہے . یہی قانون قدرت ہے اور پھر طلب یہ نانی کی پشت پر تو برسہا برس کے تجربات کی مہر تصدیق ثبت ہے اسی زندہ و تابندہ ماضی کی افادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے تاریخ علوم کے ماہر اور عہد آفریں شخصیت جارج سارٹن نے انٹروڈکشن ٹو دی ہسٹری آف سائنس میں لکھا ہے … اس طب مغرب نے ربانی لوگ۔ ماضی میں سائنس کے ارتقاء سے پوری طرح واقف ہیں وہی زیادہ بہتر زیادہ درست اور زیادہ آزادانہ طور پر دور حاضر کی ہر علمی ترقی پر غور وفکر اور اظہار خیال کر سکتے ہیں برخلاف ان لوگوں کے جو اپنے زمانے میں ہی محصور ہیں اور صرف اسی حالت اور وضع کو دیکھنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ جسے دور حاضر کے علمی واقعات نے اپنے قبضہ میں لے رکھا ہے۔” دوسرے لفظوں میں سلف سے رشتہ جوڑے بغیر خلف ایک بے معنی لفظ ہے یہ ایک سائسٹی تک پہنچ (Scientific Approach) ہے اسلاف پرستی نہیں … یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی جدید ہمیشہ جدید نہیں رہتا، آج کا جدید ہی کل کا قدیم بنے گا لیکن اس کے باوصف ہر قدیم کی افادیت ختم ہو جائے یہ بھی ضروری نہیں، جدید و قدیم کا نعرہ محض ذہنوں میں انتشار پیدا کرنے کے لیے بلند کیا گیا ہے۔ یونانی اطباء کی بصیرت افروز حذاقت آج بھی اتنی ہی ہے جتنی کل تھی قدیم اطباء کے حالات ۔ اطباء قدیم کے حالات و کوائف نیز سریری مشاہدات پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کیسے پیچیدہ امراض کا علاج وہ چنگیاں بجاتے کر دیتے تھے اور الجھے ہوئے مسائل کس خوش اسلوبی سے مل کر دیا کرتے تھے کہ آج ان پر افسانہ یا سحر کا گمان ہوتا ہے تجویز تشخیص کی غیر معمولی صلاحیتیں انہیں قدرت نے ودیعت کی تھیں لیکن اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو قدرتی فیضان کے ساتھ ساتھ ہمیں برسہا برس کی مشتق و مزاولت کی کارفرمائی بھی صاف نظر آئے گی جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں عصر حاضر کی ترقی یافتہ تکنیکی سہولتیں میسر نہ تھیں نتیجہ کار مطالعہ و تجربہ اور غورو تشخص ہی ان کا شعار بن گیا تھا۔ اعتراف حقیقت چنانچہ ان کی فنی فتوحات پر آج کے سائنس دان بھی دم بخود ہیں… پروفیسر بوئر (Prop. Boyer) نے نہ صرف اس حقیقت کا اعتراف کھلے دل سے کیا ہے بلکہ ان سے استفادہ کا صحیح طریقہ بھی بتایا ہے… اطباء قدیم کے اصول و نظریات گویا ایک مخزن ہیں جن سے مفید حقائق کو برآمد کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ گہری اور تحقیقی بصیرت کو کام میں لا کر صحیح مطالب کو غلط مضامین سے جدا کر لیا جائے یہ اقدام خالص سونے کو خارجی مادوں ( آمیزشوں) سے چھانٹنے کے مترادف ہے. یہ کام تاریخ و تذکرہ اور خود معالجات کی قدیم کتابوں کے وسیع مطالعہ اور ژرف نگاہی کا طالب تھا چنانچہ یہ قرعہ فال ہمارے ہونہار نو جوان طبیب حکیم عبدالناصر فاروقی لیکچرار جامعہ طبیہ دیوبند (یوپی) کے حصہ میں آیا جنہوں نے بڑی محنت اور دیدہ ریزی سے اسے انجام دے کر زیر نظر کتاب “اطباء کے حیرت انگیز کار ہے تالیف کی ہے. حکیم عبد الناصر سلمہ اس خانوادے کے چشم چراغ ہیں جو نہ ہی اور علمی خدمات کے سلسلہ میں ایک بلند ٓٓ؎ مقام کا حامل ہے… امام اہل سنت مولانا عبدالشکور فاروقی مجددی رحمہ اللہ مدیر النجم ” لکھنو عزیز موصوف کے پردادا تھے ۔ خاندانی پس منظر پر تفصیل سے روشنی خود مصنف نے ڈالی ہے. راقم الحروف ذاتی طور پر بھی مصنف سے ان کے عہد طفولیت سے واقف ہے… الولد سر لابیہ کے بمصداق ان کی افتاد طبع کا اندازہ سن شعور کے آغاز سے ہی ہونے لگا تھا جس میں ملنی تعلیم اور ذوق مطالعہ نے مزید جلا پیدا کر دی.. . ان کی تحریری صلاحیت خاندانی وراثت کی غمازی کرتی ہے. حکیم عبد الناصر سلمہ کی یہ اولین تحریری کاوش ایک تعمیری بلکہ انقلابی قدم کا پیش خیمہ ثابت ہوگی اور نہ صرف ماضی سے باخبری کا ذریعہ بنے گی بلکہ اس کے مطالعہ سے ذہن کے دریچوں سے حوصلہ اور امنگ کی نئی کرنیں بھی داخل ہوں گی … یہ محض پر لطف حالات اور واقعات کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ فہم و بصیرت کا روشن چراغ بھی ہے جس سے ہزاروں نئے چراغ جلیں گے اور نئی نسل کو حوصلہ امنگ نیز فنی خود اعتمادی حاصل ہوگی یہی مصنف کی آرزو بھی ہے … کتاب کا اسلوب عام فہم اور زبان یا محاورہ ہے اس خوبصورت فنی مرقع کو دیکھ کر مصنف سے بجا طور پر ہم بڑی امیدیں وابستہ کر سکتے ہیں. خدا انہیں پروان چڑھائے اور ان کے ذوق مطالعہ وتحریر کو بھی تا کہ اردو زبان میں طبی کتب کے سرمایہ میں اضافہ ہوتا رہے امید ہے کہ فنی حلقوں اور عوامی سطح دونوں میں یہ کتاب قبول عام حاصل کرے گی … شفقت اعظمی: نئی دہلی 14 جنوری 1994. ڈائون لوڈ کریں لنک
انسانی جسم میں چربی کا کردار طب نبوی کی روشنی میں
انسانی جسم میں چربی کا کردار طب نبوی کی روشنی میں انسانی جسم میں چربی کا کردار طب نبوی کی روشنی میں حکیم المیوات :قاری محمد یونس شاہد میو ٢٧ وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دے کہ تیرے پاس پا پیادہ اور پتلے دبلے اونٹوں پر دور دراز راستوں سے آئیں۔ تعارف انسانی جسم میں چربی کا کردار توانائی کا ذخیرہ ہارمون کی پیداوار سیلولر ڈھانچہ اور تحفظ غذائی اجزاء جذب صحت پر چربی کا اثر دماغی صحت دل کی صحت عصبی نظام پھیپھڑوں کا فنکشن آنکھ اور جلد کی صحت ہاضمہ کا عمل ہارمون ریگولیشن چربی کے معیار کو متاثر کرنے والے عوامل پروسیسنگ اور حرارت چربی کی اقسام ذخیرہ اور استعمال چکنائی کے فوائد اور نقصانات اکثر پوچھے گئے سوالات Ackerman میں نتیجہ ؎ انسانی جسم میں چربی کا کردار اور طب نبوی کی تعلیمات سے اس کا تعلق دلچسپی کا موضوع رہا ہے۔ قرآنی آیت وزن میں کمی کو فروغ دینے میں جسمانی مشقت اور گہری وادیوں کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ انسانی جسم میں چربی کا کردار چربی انسانی جسم میں توانائی کا ایک لازمی ذریعہ ہے۔ غذا کی مقدار ناکافی ہونے پر جسم کا میٹابولزم اور نظام ہاضمہ غیر متوازن ہو جاتا ہے جس سے غیر ضروری چربی جمع ہو جاتی ہے۔ کسی بھی استعمال شدہ کھانے کو جسم کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اور اضافی چربی کو مستقبل کی توانائی کی ضروریات کے لیے ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ جب جسم کو توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اور خوراک کی کمی ہوتی ہے تو جمع شدہ چربی کو رزق کے ذریعہ استعمال کیا جاتا ہے۔ جسمانی سرگرمی چربی کے جلنے کو تیز کرتی ہے، جیسا کہ مذکورہ آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ چربی یا چکنائی یہ جسم کی بناوٹ کے لیے بھی ضروری ہے اور توانائی کے حصول کے لیے بھی۔ ایک گرام چربی سے 9 میڈیکل کیلوری توانائی ملتی ہے۔ انسانوں اور جانوروں کے جسم میں ضرورت سے زیادہ چربی کو ذخیرہ کرنے کی بڑی گنجائش ہوتی ہے چربی توانائی کا سست ترین ذریعہ۔ توانائی کے تمام ذرائع میں سے چربی توانائی میں تبدیل ہونے میں سب سے سست ہے۔ آپ کو اپنی خوراک میں کچھ چکنائی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ جسم کو کچھ غذائی اجزاء جذب کرنے میں مدد ملے۔ چربی توانائی کا ایک ذریعہ ہے، اور ضروری فیٹی ایسڈ فراہم کرتی ہے جسے جسم خود نہیں بنا سکتا۔ کوئی بھی چکنائی جسے آپ کا جسم توانائی کے لیے استعمال نہیں کرتا وہ جسم کی چربی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ بہت زیادہ چکنائی کھانے سے وزن بڑھ سکتا ہے۔
جنات -غیب دانی اور عاملین
جنات -غیب دانی اور عاملین جنات -غیب دانی اور عاملین حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہدمیو گزشتہ سے پیوستہ۔دوسری قسط (سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کی طرف سے زوم پرپڑھائی جانے والی طب و عملیات کی کلاس کے مضامین کا خلاصہ۔ یہ کلاس پاکستانی وقت رات نوبجے ہوتی ہے ،جس میں دنیا بھر سے لوگ شرکت کرتے ہیں ،ایک دن طب دوسرے دن عملیات پر اسباق پڑھائے جاتے ہیں) انسانی سوچ تخلیق ہوتی ہے۔ اوراد۔پڑھائی اورذکر تمام مذاہب و مکاتیب فکر اور اقوام و ملل میں پایا جاتاہے۔جو لوگ مذہب کے پیروکار ہوتے یں وہ اپنی ضروریات کے لئے کچھ آیات یا منتر یا اشلوک وغیرہ منتخب کرکے مخصوص تعداد میں ورد کرتے ہیں۔ جو لوگ مذہب کو نہیں جانتے یا نہیں مانتے وہ خود ساختہ عبارات دوہراتے ہیں۔جوکام مذہبی لوگ مذہبی کتب یا عبارات مقدسہ سے لیتے ہیں وہی کام مذہب بیراز لوگ اپنی من پسند عبارات سے لیتے ہیں۔ اس دوران جو خیالات پختہ کئے جاتے ہیں وہ متشکل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔اگر ورد اور ذکر نہ بھی کیا جائے تو بھی غور و تدبر کرنے سے بہت سے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔جتنے بھی دنیا میں آج تک علوم و فنون ترتیب دئے گئے یا دئے جارہے ہیں یا دئے جائیں گے سب غور و فکر اور گہری سوچ کا نتیجہ ہیں۔انسان اپنی ضرورت کے مطابق سوچتا ہے۔ موجودہ اور پیش آمدہ مسائل کے بارہ مین غوروفکر کرتا ہے جو مسائل دوسروں کی زندگیاں اجیرن کردیتے ہیں وہ غور و تدبر والے اذہان کا میدان عمل ہوتے ہیں ۔کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہو تا۔جو بات ذہن میں آجائے سمجھو دنیا میں اس کا وجود ممکن ہے۔یعنی انسانی سوچ ایک تخلیقی شاہکار ہوتی ہے۔جو سوچ سکتے ہو وہ کربھی سکتے ہو۔ شروع میں ہر کوئی غیر موجود چیزوں کو ناممکن سمجھتا ہے۔آج جتنی بھی ایجاد ات روزہ مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔آج سے سو سال پہلے ان کا تصور بھی ناممکن تھا۔لیکن آج ان کے بغیر زندگی ناممکن دکھائی دیتے ہیں۔ دنیا اتنی سرعت سے تغیر پزیر ہورہی ہے کہ انسانی عقل بھی دھنگ رہ جاتی ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک لوگوں کی سوچ اور روابط محدود تھے۔آج روابط میں تیزی آرہی ہے۔ جو کام دنیا کے کسی بھی کونے میں ہورہاہوں آن کی آن میں وہ دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے۔یہ سہولت اس قدر آسان و دستیاب ہے کہ افریقہ کے جنگل میں بیتھا ہوا جنگلی ایک ٹویٹ کرتا ہے تو۔دنیا کے متمدن ترین شخص یا ملک تک اس کی رسائی ہوتی ہے۔یہ تو ہوئی اطلاعات کی سرعت۔ جنات اور غیب دانی۔ جنات کی قوت پرواز بہت زیادہ ہے۔یہ ان کی جبلی صفت ہے۔میں نے ایک کتاب میںپڑھا تھا کہ ایک جن ایک منٹ دنیا کے سات چکر لگا سکتا ہے۔قران کریم کے نظریات کے مطابق بلندی میں خاص تک جاسکتے ہیں۔انسانوں کی طرح انہیں آکسیجن کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔جنات اپنی لطافت کی وجہ سے سریع الرفتار ہوتے ہیں۔جس قدر سریع التاثیر اس کے لئے آکسیجن ضروری ہوتی ہے۔جبکہ جنتا کی رفتار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ سریع الحرکت چیز بہت زیادہ گرم ہوجاتی ہے۔فضاء میں جتنی بھی چیزیں انسانی ساختہ اشیاء حرکت کرتی ہیں تو انہیں ایسی دھاتوں سے بنایا جاتا ہے جو بہت زیادہ درجہ حرارت برداشت کرسیں۔جنات کے بارہ جو معلومات دستیاب ہیں ان میں حقائق کم اور حکایات زیادہ دستیاب ہیں انسانی تحقیقات میں بہت سی ایسی چیزیں سامنے آچکی ہیں اور ایسے حساس آلات ایجاد کئے جاچکے ہیں۔جو دکھائی نہ دینے والے سنگلز کو محسوس کرتے ہیں۔۔بہت ساری شعاعیں دریافت ہوچکی ہیں۔۔موبائیل فون تو ہر ایک کے پاس موجود ہے۔اسی طرح کی بہت ساری ڈوائسز مارکیٹ میں موجود ہیں۔ غیب دانی کی مبہم اصطلاح۔ انسان جنات کے بارہ میں خیال کرتے ہیں کہ وہ غیوبات کا علم رکھتے ہیں۔ہم ان دیکھی چیزوں کے بارہ میں سوالات کرتے ہیں۔لیکن یہ تصور جس قدر عام پایا جاتا ہےاتنا ہی ادھورا ہے۔سب سے پہلے تو علم الغیب ایک ایسی مبہم اصطلاح ہے جس کا فیصلہ کم ہی لوگ کرنے کے اہل ہیں۔ممکن ہے جس چیز کو لوگ غیب سمجھتے ہیں وہ سمجھنے والے کی معلومات کے مطابق تو پوشیدہ ہو لیکن سب کے لئے ایسا نہ ہو،کچھ لوگ ان غیوبات سے واقف ہوں۔۔اگر یوں کہا جائے کہ جس چیز کا وجود ہو وہ غیب نہیں ہوسکتی کیونکہ وجود اس بات کا متقاضی ہے کہ اسے دیکھا جائے۔اس کے بارہ میں کسی نہ کسی کو پتہ ہو فلاں چیز وجود میں آچکی ہے۔اس لئے غیب کی اصطلاح ان معنوں میں استعمال کی جائے گی جو کسی کی علمی کمی ہو۔ پوشیدہ امور اور جنات جولوگ خیال کرتے ہیں کہ جنات سے ان امور پر بات کرسکیں گے جو اُن کے نزدیک غیر معلوم ہے ۔ممکن ہے جنات کے پاس اس بارہ میں معلومات ہوں جو آپ سے پوشیدہ ہیں۔ایسی صورت میں آپ کے سوالوں کے جوابات مل جائیں گے۔یہ جنات ہی سے کیا کوئی بھی جاننے والا اس بارہ میں مفید معلومات دے سکتاہے۔ی اد رکھئے جنات بھی غیب نہیں جانتے۔۔۔ سورہ سبا میں اس کی تردید موجود ہے۔اس قسم کی توقع کرنا کہ جنات سے ایسی باتیں معلوم کرلیں گے جنہیں عام لوگ نہیں جانتے تو غیر مناسب بات ہوگی جنات ان باتوں سے کوئی تعلق یا دلچسپی نہیں رکھتے جن کی انہیں ضرورت نہ ہوجنات اور انسانوں کی جروریات و ترجیحات جداگانہ ہوتی ہیں۔کیونکہ ان کی تخلیق اور ضروریات زندگی انسانوں سے بالکل مختلف ہوتی ہیں۔خود اپنی بارہ مین اندازہ لگالین جن چیزوں کی ضرورت نہیں ہوتی وہ آنکھوں کے سامنے رہتے ہوئے بھی اوجھل رہتی ہیں۔جب سوال کیا جائے کہ فلاں چیز تو آپ کے سامنے تھی۔دیکھا کیوں نہیں؟جواب ملتا ہے میرا دھیان نہیں گیا یعنی توجہ نہیں تھی۔یہی چیز جنات سے بھی متوقع ہے۔ ہم جنات سے ممکنہ حد تک ایسے سوالات کرتے ہین جن کی طرف ان کا دھیان ہی جاتا۔یا ان باتوں کی اہمیت ہی نہیں سمجھتے۔جب جنات سے ایسے امور پر بات چیت کی جائے جن میں انہیں دلچسپی نہ ہوتو اس کی اہمیت و افادیت کا اندازہ خود لگا سکتے ہیں ؟ میری عملیات زندگی کے تجربات۔ کتب عملیات میں بے شمار ایسے اعمال لکھے ہوئے ہیں
مجموعہ چہل حدیث
مجموعہ چہل حدیث مجموعہ چہل حدیث (اشاعت حسب ارشاد شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا کاندھلوی رحمہ اللہ) کتاب کا تعارف بقلم نصیر الدین ناظم کتب خانہ یحیوی، سہارنپور: “اس مجموعہ میں اپنے اپنے زمانہ کے چھ اکابر علماء یعنی مولانا عبد الرحمن جامی، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، علامہ ملا علی قاری، نواب قطب الدین صاحب مظاہر حق، علامہ مفتی عنایت احمد صاحب صاحب تواریخ حبیب الہ، مولانا محمد حسین صاحب دہلوی المتخلص بفقیر -رحمہم اللہ – کی چہل حدیثیں مع ترجمہ پیش کی جا رہی ہیں۔ ان کو سب سے پہلے مولانا عبد الاحد مالک مطبع مجتبائی نے طبع کرائی تھیں، جو مختصر ہونے کے ساتھ بہت ہی مفید اور جامع احادیث پر مشتمل تھیں۔ جس کی وجہ سے حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا دامت برکاتہم کو بہت پسند تھیں، اور حضرت موصوف کاخیال ہے کہ بچوں کو بجائے مفید الطالبین کے یہ مجموعہ پڑھایا اور یاد کرایا جائے کہ مختصر ہونے کی وجہ سے آسان ہے، اور ابتدا ہی سے بچوں کے دل و دماغ میں حضور پاک ﷺ کی حدیثیں راسخ ہو جائیں گی۔ لیکن اس کے نسخے نایاب ہو گئے تھے۔ حضرت موصوف اس کو کافی عرصہ سے تلاش کرا رہے تھے۔ بہت تلاش کے بعد یہ ایک نسخہ دستیاب ہو گیا جو کہ حضرت شیخ الحدیث صاحب مد ظلہ کے ارشاد سے عکسی طبع کرایا گیا ہے۔ اس مجموعہ میں جن احادیث کی تخریج نہیں تھی، ان کی تخریج حضرت مولانا محمد یونس صاحب شیخ الحدیث مظاہر علوم نے فرمائی ہے۔ اس مجموعہ کی طباعت میں سعی کرنے والے حضرات کے لیے قارئین سے دعا کی درخواست ہے۔ ناشر نصیر الدین، ناظم کتب خانہ یحیوی، مظاہر علوم، سہارنپور۔” اس مجموعہ میں مندرجہ ذیل علماء و مشائخ کی مرتب کردہ چہل احادیث ہیں: حضرت مولانا عبد الرحمن جامی رحمہ اللہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ مولانا قطب الدین خان صاحب رحمہ اللہ صاحبِ مظاہر حق مفتی عنایت احمد صاحب رحمہ اللہ مؤلف تواریخ حبیب الہ مولوی محمد حسین صاحب دہلوی المتخلص بہ فقیر رحمہ اللہ
عملیات میں کونسی طاقت کب کام کرتی ہے؟
عملیات میں کونسی طاقت کب کام کرتی ہے؟ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو عملیات میںبنیادی بات یہ ہے کہ عامل کس طاقت سے کس وقت کتنا کام لے سکتاہے ۔یا کسی طاقت سے کام لینا ممکن بھی ہے کہ نہیں؟ عاملین مختلف طاقتوں سے کام لینے کے چکر میں بہت سے وظائف و چلہ جات کرتے ہیں۔میدان عملیات میں نئے آنے والے تو اس قدر دیوانے ہوتے ہیں کہ جو کسی نے بتایا ،کسی کتاب میں پڑھا کہیں سے سُن لیا۔بس تسبیح پکڑی اور شروع ہوگئے ۔ یہ جذبہ جنوں سالوں پر محیط رہتا ہے اس کے بعد جب مطلوبہ نتائج سامنے نہین آتے تو ماتھا ٹھکنتا ہے۔طبیعت مین کچھ بیزاری نمایاں ہونے لگتی ہے۔۔۔آئے اس گتھی کو سلجھاتے ہیں۔۔ انسان اور جنات میں طاقت کا توازن بہت مختلف ہوتا ہے۔جنات اپنی ساخت کے اعتبار سے لطیف ہوتے ہیں جب تک وہ کثاقت میں متشکل نہ ہوجائیں کسی ٹھوس چیز کو فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا سکتے،البتہ لطیف اشیاء کا بہائو اور رفتار کثیف اشیاء کی نسبت سبک تر ہوتی ہے اس لئے دو نوں میں فرق مراتب موجود ہوتا ہے۔ کیا جنات دیکھنا ممکن ہے؟ جنات اصلی حالت میں دکھائی نہیں دیتے جب تک کہ وہ کسی مادی ۔کثیف شکل میں نہ آجائیں۔جو لوگ بھی جنات دکھنے کے دعوے دار ہوتے ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ میں نے فلاں شکل میں جنات دیکھے،چلہ وظائف کرنے والے بھی یہی کہتے ہیں کہ دوران عمل مجھے جنات یا ہمزاد/موکلات اس شکل میں دکھائی دئے۔یعنی جنات کی دکھائی دینے والی صورت یہ تھی۔ایسا نہیں ہے کہ جنات اس شکل کے تھے۔ اس لئے عاملین کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اصل حالت مین جنات دکھائی نہیں دیتے۔البتہ استثنائی صورت کہیں بھی ممکن ہوسکتی ہیں۔ مشاہدہ کہتا ہے بعض اوقات جب موسم اب نارمل ہوجاتا ہے۔جس میں آندھی طوفان۔گھٹن کا ماحول۔سورج چاند گرہن کے اوقات۔وغیرہ کائناتی تغیرات سے کچھ پردے آنکھوں سے ہٹ جاتے ہیں یا فیسز کی ایک دبیز تیہ جمع ہونے پر جنات دکھائی دےسکتے ہیں۔کیونکہ انسانی آنکھ میں تیزی پیدا ہوجاتی ہے۔لیکن یہ مواقع کم کم واقع ہوتے ہیں۔عملیات کی پرانی کتب میں کئی دھونیاں۔ سرمے۔ وغیرہ منقول ہیں کہ ان کے استعمال سے جنات دکھائی دیتے ہیں۔ جنات موکلات اور انسانی طاقتیں۔ سطور بالاہم بتا چکے ہیں کہ لطافت کے لحاظ سے جنات انسان سے زیادہ لطیف ہوتے ہیں۔اور طاقت کے اظہارکے لئے وجود کا ہونا یا کثافت کا اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے۔اس کی مثال جدید ٹیکنالوجی سے لی جاسکتی ہے کہ سوفت میں کوڈنگ کتنی بھی اعلی درجہ کی ہو کتنی ہی بہترین پروگرامنگ ہو۔اسے عملی طاقت دینے کے لئے ہارڈ وئیر کی ضروت پڑتی ہے۔مشین لرننگ سے آپ ایک بڑی فیکٹری کو آسانی سے چلا سکتی ہیں کیونکہ کمان وصول کرنے کے لئے مادی شکل موجود ہے۔ یہی مثال آپ جنات اور انسان پر بھی فٹ کرسکتے ہیں۔جنات کو طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے کسی وجود کی ضرورت ہوتی ہے۔مشرق و مغرب سب لوگ اسی کے قائل ہیں۔ آپ مغربی و مشرقی معاشرت پر مبنی فلم ڈرامے۔دیکھتے ہیں اور لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں تو غیر مادی و غیر مرئی مخلوقات کے لئے مادی جسم کاہونا ضروری قراردیا جاتاہے یعنی اگر کسی بدروح یا جن کا واقعہ فلمایا گیا ہے توجن و بدورح کے لئے ایک میڈیم کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔۔۔ عامل کی لئے بنیادی ضرورت۔ میڈیم ایسے لوگوں کو بنایا جاتا ہے جو حساس ہوں۔ان کے خیالات میں انتشار نہ ہو۔جب چاہیں کسی خاص نکتہ پر اپنی توجہ مرکوز کرسکیں۔ جنات یا عامل کی ہدایات کو بہتر انداز میں پرسوُ کرسکیں۔منشتر خیالات۔الجھاہوا ذہن کبھی بہتر میڈیم یا بہتر عامل نہیں بن سکتے،اس لئے ذہن کو خیالات سے پاکیزہ کرنا ۔توکہ اور یکسوئی حاصل کرنا بنیادی شرائط میں سے ہوتا ہے۔ جولوگ پرانی عملیاتی کتب کا مطالعہ رکھتے ہیں ۔ جانتے ہیں کہ جنات و موکلات قابو کرنے لئے ایسے مقامات کا انتخاب کیا جاتا تھا جہاں انسانی آوزیں یا دیگر شور و غل کانوں میں نہ پڑیں ۔ اس لئے چلہ کشی کے لئے رات ایک پہر گزرنے کا انتظار کیا جاتا ہے۔یا پھر دور دراز جنگلات اور پہاڑوں کو چُنا جاتا ہے۔جہاں ہوُ کا عالم ہوتا ہے کسی قسم کی آواز کانوں میں نہ پڑے۔عمل کے دوران کسی خلل کا سامان نہ کرنا پڑے، جوکام مسلمان کرتے ہیں وہی یندو جوگی ۔عیسائی راہب اور یہودی ربی۔اور یودمت کے پیشوا کرتے ہیں۔فرق ہے تو صرف اتنا کہ اپنے اپنے عقائد و نظریات کے مطابق عبارات منتخب کرلی جاتی ہیں۔۔ایک مخصوص تعداد جسے عمومی طورپر لکھنے والا لکھتا ہے یا بتانے والا بتاتاہے کے مطابق ورد کیا جاتا ہے۔ جاری ۔۔۔ہے۔۔۔۔