3 تیر بہدف روحانی تشخیصات۔ my youtube Chennal Tibbb4all My Posted Website dunyakailm
میو معاشرہ کی ایک سچی کہانی۔ ماما پھوپھی کان کو آپس میں بیاہ
میو معاشرہ کی ایک سچی کہانی۔ ماما پھوپھی کان کو آپس میں بیاہ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو ہمارا ایک دوست بیلی نے ای کہانی سنائی۔میون کی اکڑ اور ان کا مزاج کی سختی پے حیرت ہوئی شاہ جی ایک دن ہمارے ساتھ چوکری مار کے بے تکلفی سو مھفل مین بیٹھا ہا۔میون کا مزاج کے بارہ میں بات چیت چلی تو مخلتف آراء اور الگ الگ بات سامنے آئی ۔شاہ نے ایک واقعہ مزاج کے طورپے سُنائیو جب تبلیغی جماعت نئی نئی بنی ہی۔میون کی حضرت جی الیاس رحمۃ اللہ علیہ سو بہت عقیدت ہی۔آخری فیصلہ اور اپنا معاملاتن نے چھتہ والی مسجد یعنی مولونا کے پئے آکے نبیرے ہا۔ایک دن میون مین انہونی ہوئی اور ایک جوان جوڑا نے مرضی سو بَھگ کے بیاہ کرلئیو۔پھوپھی کی چھوری ہی۔اور ماما کو چھورا ہو۔میو رسم رواج کے طورپے ماما کی بیتی سو بیاہ کرلیوے ہا لیکن پھوپھی کی بیتی کو سگی بہنن جیسو پیار دیوے ہا۔گوکہ اسلام مین یاکو کوئی تصور نہ ہے۔حجورؤ نے اپنی پھوپھی کی بیٹی سو بیاہ کرو ہو۔خیر میون نے ای بات ہضم نہ ہوئے اور لٹھ اُٹھا کے مارن کو بھگا ۔چھورا ،چھوی اے بھی دیکھ رو ہو کہ جے ہاتھ آگیا تو خیر نہ ہے۔بات دو کاندن سو ہوتی ہوئی برادری کی پرے پنچایت تک جاپہنچی۔ چھوری والا کہوے ہا ہم تو جان سو مارنگا۔چاہے پھانسی لگ جاواہاں۔چھورا والا ن کو کہنو ہو بھئی جو غلطی ہوگی معافی دئیو۔اُنن نے رچن بسن دئیو۔۔۔بات بڑھتے بڑھتے حجرت جی الیاس ؒ کے پئے جا پہنچی۔میون نے پگڑ باندھا۔لٹھ اُٹھایا۔حقہ بغل مین دابے حجرت الیاسل کی مسجد مین جا پہنچا۔مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی،حضرت میون کی نفسیات اور مزاج سو خوب واقف ہا۔جانے ہا کہ میون سو کیسے بات منوائی جاسکے ہے۔۔۔پہلے تو حضرت جی نے پانی تانی کو پوچھو۔میون کا حقہ تازہ کروایا۔پھر تسلی سو بٹھا کے دنوں فریقن کی غور سو بات سُنن لگا۔۔معاملہ اور مزاج کی گرمی دیکھ کے حضرت نے اپنو انداز اختیار کرو ۔اور ساران سو پوچھن لگو۔۔۔ تم اللہ اے مانو ہو۔؟۔۔۔۔ میو کہن لگا کیوں نہ ماناں ہاں کھوب مانا ہاں ۔۔ حضرت جی۔۔اچھو تو اللہ کا رسولﷺ اے بھی مانو ہو؟ میو۔۔ارے حضرت جی ای بھی کوئی پوچھن والی بات اے۔۔کھوب مانا ہاں ۔ حضرت جی ۔۔کہا ان دونون کی باتن نے بھی مانو ہو؟ میو۔۔ہاں ان کی ساری بات سچی پکی اور صحیح ہاں ۔ حضرت جی۔۔۔تو بھائی اللہ اور واکا رسولﷺ کو حکم ہے کہ پھوپھی کی چھوری سو بیاہ ہوسکے ہے میو ۔۔حضرت جی کچھ بھی کہہ لے یا بات اے نا مان سا۔۔۔۔
Distribution of Afghanistan’s doctors is the future of medicine.
Distribution of Afghanistan’s doctors is the future of medicine. Distribution of Afghanistan’s doctors is the future of medicine. Hakeem Al Miwat Qari Muhammad Younis Shahid Mayo Indigenous medicine is a transparent fountain. Its every drop is nectar. Its name is transparent. Medicine is the priceless gift of nature which has always been represented by people who have complete faith in religion. It is the payment of religious rituals. I was very firm. The piety and purity were strong. Those whose diagnosis was the best, the treatment was unchanged. They had excellent expertise in the matter of diseases and treatment. Even today, medicine is in the hands of such people who claim to be religious. In Muslim countries, where the imam of the mosque used to meet the needs of the sweeper, a few vials used to be the glory of the room. There was stuff. Ever since the theory of single organs, which is a method inspired by Hazrat Sabir Multani, and it was brought out by his students with their lives and blood, then what happened? It felt that – we are not the same. Every prescription is a target. When it was published, a Hakeem Mohammad Aziz Naqshbandi Sahib from Buner contacted and provided details about the Hakims of Afghanistan (He has his own pharmacy and hospital-like institution in Buner Mela Ground Swari, his name is “Kanz-ul-Hikmat” in Pashto language). The WhatsApp Guru is also working, in which there are a large number of rulers of Afghanistan (Islamic State of Afghanistan). There are a large number of our students in Afghanistan. They also contact us when necessary. Hearing the name of Afghanistan, the concept of an Islamic society emerges. Through the media. The news that circulates from Disease of doctors. The disease that has hollowed out the medicine and doctors of Pakistan and India (sectarianism) is present in Afghanistan under the name of Qari Shafiullah Group. Abdullah Shamorzai. I am very sad to hear. Both the groups have been busy with the struggle to give legal status to the organs of the government since time. One thing has been decided that both of them are trying to provide legal legitimacy to the doctors and the people by making the government towards indigenous medicine. Thus, the power that should have united is busy dividing and dividing its collective. While the benefit lies in the unity. Faction of doctors of Pakistan This disease is also present in the doctors of Pakistan and India. They are divided into factions. They are sincerely engaged in the protection of individuals, organizations and interests. This is the situation of the leaders, but the superficial minded people who are in the form of rulers are the blood of these factions. All of them claim that they are engaged in the service of medicine. The general thinking of doctors does not go beyond the official permission to write physician or hakim on an official cover and letter pad. The concept of such a medical service is an illusion. If the aim is to serve medicine, then anyone who does good work should be supported and not pulled by its strings. Of course, there are people who are involved in the medical field without showing off, in the people of God. There is respect for them. Some people are impersonators. And there are others in the form of doctors. Sincere people are busy in work, while one group is busy in winding up interests. That is, trying to cover their body by stringing these scissors more and more with the body of medicine. I am busy. Otherwise, as many people as are related to medicine in Pakistan, India and Afghanistan. Those institutions are colleges. Or pharmacies. Do not influence the words of the relatives. I am surprised when a ban is imposed by the government or relief is given to doctors. The reaction of drug sellers in the form of doctors is visible. Everyone is in need of insight. A doctor does not need anyone, but everyone needs a doctor. Every society puts an expert and wise man in the spotlight. But fraudsters play with people’s trust in the name of a doctor in disguise.
A combination of eastern and western magic
A combination of eastern and Western magic مشرقی و مغربی جادوگروں میں اشتراک A combination of eastern and western magic حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو جہاں تک جادو کا تعلق ہے یہ ہر قوم و ملت اورتمام قطعات ارضی میں اس کا چلن موجود ہے۔عرب و عجم۔مصر افریقہ۔اور دیگر خطوں میں بسنے والی اقوام کے علوم و فنون کسی حد منظر عام پر آچکے ہیں۔جدید ٹیکنالوجی کے توسط سے ایسی خفیہ دستاویزات منظر عام پر آچکی ہیں جنہیں راز مخفی اور صدری علوم کہہ کر چھپا لیا جاتا تھا لیکن آج ان کی حیثیت تبدیل ہوچکی ہے۔مذہب کے نام پر نورانی علم کا نام دیا جائے یا پھرمذہب بےزاری سے وابسطگی کو شیطانی نام دیا جائے۔ہر کوئی اپنی خفیہ و نادیدیہ طاقتوں سے کام لیتا ہے۔اس کی وضاحت ہم نے اپنی کتب میں (دروس العملیات۔جادو کے بنیادی قوانین اور ان کا توڑ وغیرہ)کرچکے ہیں۔بات سمھنے کی کوشش کیجئے۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ کچھ اشعار میں جادو بھرا ہوتا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ دو آدمی ۱؎ پورب سے آئے تو ان دونوں نے خطبہ دیا، لوگ حیرت میں پڑ گئے، یعنی ان کے عمدہ بیان سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعض تقریریں جادو ہوتی ہیں یعنی سحر کی سی تاثیر رکھتی ہیں“ راوی کو شک ہے کہ «إن من البيان لسحرا» کہا یا «إن بعض البيان لسحر» کہا۔تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 47 (5146)، الطب 51 (5767)، سنن الترمذی/البر والصلة 81 (2029)، (تحفة الأشراف: 6727)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/16، 59، 62، 94، 4/263) (صحیح ) یعنی جادو گر لفاظی سے کام لیتا ہے اپنے علم و ہنر کی تشریح کے لئے بہت زیادہ تعریفیں کرتا ہے۔ بلیک میجک نامی کتاب میںجادو کے بارہ لکھا گیا ہے :” جادوگر و عامل کی فکر کی یکسانیت جادو کا بڑا سحر اس قسم کی فکر میں ہے جس پر۔یہ مبنی ہے. جادوئی سوچ بے ترتیب نہیں ہے، اس کے اپنے قوانین ہیں اوراس کی اپنی منطق ہے، لیکن یہ عقلی کی بجائے شاعرانہ ہے۔ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے۔جو عام طور پر سائنسی طور پر غیر ضروری ہوتے ہیں، لیکن جو اکثر نظر آتے ہیں۔ شاعرانہ طور پر درست یہ سوچ کی ایک قسم ہے جو ہر جگہ رائج ہے۔” یعنی جادو کچھ قوانین کےماتحت ہوتا ہے۔دوسری بات یہ کہ اسے پیش کرنے اور اس کی تعریف کرنے کے لئے بہترین الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔جادو کا تصور کوفناک ہوتا ہے اس لئے ایسے الفاظ جو انسانی نفسیات مین ڈرو کوف طاری کردیں کام مین لائے جاتے ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جادو /عملیات وغیرہ مین جو قوانین رائج ہین ان کا کسی مذہب یا قوم و ملک سے تعلق نہین ہے بلکہ انسسانی فطرت یا نفسیات سے تعلق ہے۔جب ہم یہود۔عیسائی۔اور ہنود اور مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیںتو ہمیں جادو گر یا عامل کی مذۃبی وابسطگی اور معاشرتی نفسیات کے عوامل کار فرما دکھائی دیتے ہیں۔مثلاََ جادو گر کے بارہ مین جب سُنا یا بتایا جاتا ہے تو اس کی بھیانک صورت پیش کی جاتی ہے۔ بلیک میجک نامی کتاب پڑھ لیں۔ہماری باتیں سچ معلوم ہونگی۔مصنف لکھتے ہیں:” ان کے جادوگروں کے جنہوں نے اس سے انکار کیا۔ (یہی خیالات مسلمانوں کے بھی ہیں) اسی طرح، پرانے grimoires کے مصنفین، یا جادونصابی کتابیں، جو قاری کو برائی کو دور کرنے کے طریقے بتاتی ہیں۔ گھومنا، لوگوں کو مارنا، نفرت اور تباہی پھیلانا یا زبردستی کرناعورتیں محبت میں اس کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے لیے خود کو نہیں سمجھتی تھیں۔ سیاہ جادوگر. اس کے برعکس، grimoires کے ساتھ پیک کر رہے ہیںخدا اور فرشتوں کے لیے دعائیں، روزے اور خودغرضی اور ظاہری تقویٰ Honorius کے Grimoire میں بنیادی عمل،جسے عام طور پر ان سب میں سب سے زیادہ شیطانی سمجھا جاتا ہے، اوور فلوخدا اور عقیدت مندوں کے لئے پرجوش اور مکمل طور پر سمیر اپیل کے ساتھ ماس کے اقوال، اس میں کالے مرغ کی آنکھیں پھاڑنا بھی شامل ہے۔ میمنے کو ذبح کرنا، اور اس کا مقصد شیطان کو بلانا ہے۔یہ صرف یہ نہیں ہے کہ لوگ فطری طور پر بدتمیزی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ خود پر لیبل لگاتے ہیں اور یہ کہ انسانی دماغ ہمیشہ بہترین تلاش کرسکتا ہے۔شیطان کو پیدا کرنے یا دشمن کو نقصان پہنچانے کی وجوہات اور تباہی جادوگر سیٹ کرتا ہے۔”اس طویل ترین اقتباس سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ جو کام جادو کے نام پر ایک خطہ مین کیا جاتا ہے۔بعینہ وہی دوسری جگہ کیا گیا ہے۔ مختصرا کہا جاتا کستا ہے بھلائی کا تصور مذہب کے ساتھ یا مذہبی لوگوں کے ساتھ وابسطہ ہوتا ہے۔جب کہ بُرائی مذۃب بیزارلوگوں کے ماتھے کا تلک ہوتا ہے۔جبکہ جادو گروں یا عاملین کی کتب کے مطالعہ سے بات واضح ہوجاتی ہے کہ مندرج اعمال میں کوئی خاص فرق نہین ہوتا۔البتہ ا عمال کی نسبت اپنے اپنے نظریات کے مطابق کی جاتی ہے۔اور پڑھائی میں دونوں اپنے اپنے نظریات کے مطابق اس طاقت کو پکارتے ہین جس پر یقین ہوتا ہے۔یعنی مذہبی لوگ خدا کو پکارتے ہیں کیونکہ ان کی ایمانی وابسطگی خدا کے ساتھ ہوتی ہے۔جب کہجادوگر سمجھے جانے والے لوگ ان طاقتوں کو مخاطب کرتے ہیں جنہیں مذہب میں شیطانی قوت یا تخریبی طاقت سے منسوب کرتے ہیں۔دونوں کے اعمال کو دیکھا جائے اور ان کے قوانین و قواعد کا مطالعہ کیا جائے تو ایک جیسی باتیں ملتی ہین ۔مانتاہوں یہ باتین اشتعال کا سبب بن سکتی ہیں لیکن حقائق منہ چڑھ کر بولتے ہیں۔
بڑھے ہوئے پروسٹیٹ سکڑنے کا تیز ترین طریقہ کیا ہے؟
بڑھے ہوئے پروسٹیٹ سکڑنے کا تیز ترین طریقہ کیا ہے؟ What is the fastest way to shrink an enlarged prostate حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو عمر کے لحاظ سے پراسٹیٹ کی حالت بڑھاپے میں کئی ایک امراض بڑی شدت سے حملہ آور ہوتے ہیں انسانی زندگی کو عام طور پر تین بڑے ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے، بچپن،جوانی اور بڑھاپا۔ان ادوار کے بدنی مسائل،غذائی ضروریات اور معمولات کی نوعیت بھی جداہوتی ہے جبکہ بیماریاں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ ہاں ایک حقیقت جس سے طبی نقطہ نظر سے انکار ممکن نہیں کہ بچپن اور بڑھاپے میں ایک قدر مشترک ہے، وہ ہے کمزوری۔ بچپن میں بچے کی قوتِ مدافعت کمزور ہوتی ہے، بڑھاپے میں بھی جسمانی اعضاء کی کارکردگی میں ضعف واقع ہونے سے بیماریوں کے خلا ف قوتِ مدافعت کمزور پڑجاتی ہے پراسٹیٹ مَردانہ تولیدی نظام کا ایک غدود ہے جو پیشاب کی نالی کے گِرد واقع ہوتا ہے ۔پیشاب کی نالی ،مثانے سے پیشاب کو باہر لاتی ہے۔ عمر کے لحاظ سے جسامت نوجوان افراد کے پراسٹیٹ غدود کی جسامت اخروٹ کے برابر ہوتی ہے۔اِس کی جسامت عمر کے ساتھ رفتہ رفتہ بڑھتی جاتی ہے۔ پراسٹیٹ غدود ایک دُودھ نما رطوبت پیدا کرکے اُسے ذخیرہ بھی کرتا ہے ۔یہ رطوبت منی میں شامل ہوجاتی ہے ۔منی بذاتِ خود ایک رطوبت ہوتی ہے جس میں ،انزال کے دوران منی کے جرثومے تیرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔پراسٹیٹ کی رطوبت میں غالب حِصّہ ،شکریات ،لحمیات، اور دِیگر کیمیائی اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے،جن کی مدد سے منی کے جرثومے عورت کے جسم میں زندہ رہ پاتے ہیں۔ عورتوں کے مسائل عورتوں میں، پیشاب کی نالی کا غدود (paraurethral gland) پایا جاتا ہے جسے زنانہ پراسٹیٹ غدود کہا جاتا ہے ۔عورتوں کے اِس غدود کو ،مَردانہ پراسٹیٹ غدود کے مترادف خیال کیا جاتا ہے۔یہ غدود عورتوں میں ،اُن کی پیشاب کی نالی کے گِرد پایا جاتا ہے۔عورتوں میں اِس غدود سے ،جنسی لطف کی انتہائی کیفیت (orgasm) کے ،مَردانہ پراسٹیٹ غدود سے مشابہ رطوبت خارج ہوتی ہے ایک بڑھا ہوا پروسٹیٹ (سومی پروسٹیٹک ہائپرپالسیا یا بی پی ایچ) ایک عام مسئلہ ہے جو ہر عمر کے مردوں کو متاثر کرتا ہے۔ اگرچہ بار بار پیشاب آنا، کمزور دھارا، اور ندی کو شروع کرنے یا روکنے میں دشواری جیسی علامات کا تجربہ کرنا پریشان کن ہوسکتا ہے، امید ہے۔ بڑھے ہوئے پروسٹیٹ کو صحیح علاج سے نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔ عام لوگ تو اس سے پریشان ہوتے ہیں لیکن نمازی لوگوں کو بہت زیادہ پریشانی کا سامان کرنا پڑتا ہے،باجماعت نماز کے دوران جب قطرات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو نمازی کو اپنی جماعت کی نماز سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ بوڑھے افراد کے امراض میں سب سے زیادہ اذیت ناک اور تکلیف دہ بیماری غدہ قدامیہ(پروسٹیٹ گلینڈ) کی سوزش یا عظمِ غدہ قدا میہ ہے۔ یہ دورِ جدید کا ایک کثیر الوقوع اور صرف مردوں کا مرض ہے۔دنیا کے ہر خطے میں یکساں طور پایا جاتا ہے،عام طور پر 50 سال کی عمر کے بعد سامنے آتا ہے۔ایسے افراد جو صحت کے حوالے سے بے احتیاطی اور لا پرواہی کے مرتکب ہوتے ہیں انہیں یہ مرض40 سال کے بعد لاحق ہونے کے خطرات موجود ہوتے ہیں۔اسے تکلیف دہ اس لیے بھی سمجھا جاتا ہے کہ یہ بوڑھے اور ضعیف افراد کا مرض ہے جبکہ ضعیف افراد تو پہلے ہی انحطاط پزیر ہوتے ہیں، قوتِ مدافعت کمزور پڑجانے سے ان میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی سکت بہت کم رہ جاتی ہے۔ بڑھے ہوئے پروسٹیٹ کو سکڑنے کا سب سے عام اور تیز عمل کرنے والا طریقہ ادویات کے ذریعے ہے۔ الفا بلاکرز جیسے ٹیرازوسن، ڈوکسازوسن، اور ٹامسولوسین مثانے اور پروسٹیٹ کے پٹھوں کو آرام دے کر BPH کی علامات کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں، جس سے پیشاب کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ دوسری دوائیں جیسے 5-alpha-reductase inhibitors (جیسے finasteride) بڑھے ہوئے پروسٹیٹ غدود کے سائز کو کم کرنے میں مدد کر سکتی ہیں۔ دونوں پیشاب کی نالی کے انفیکشن اور بڑھے ہوئے پروسٹیٹ سے پیدا ہونے والی دیگر پیچیدگیوں کے خطرے کو کم کرنے میں بھی مدد کر سکتے ہیں۔ بڑھے ہوئے پروسٹیٹ کی وجہ سے ہونے والی علامات کو کم کرنے کا دوسرا طریقہ طرز زندگی میں تبدیلیاں کرنا ہے۔ کم سیال پینے سے پیشاب کرنے کی خواہش کم ہو سکتی ہے، اور الکحل اور کیفین سے پرہیز کرنے سے مثانے کی کھچاؤ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ورزش علامات کو کم کرنے میں بھی مدد کر سکتی ہے کیونکہ یہ خون کی گردش کو بہتر بناتی ہے، اس طرح پروسٹیٹ کی سوجن کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ آخر میں، سرجری ایک زیادہ سخت آپشن ہے جو تیزی سے صحت یابی کا باعث بن سکتی ہے۔ پروسٹیٹ کا ٹرانسوریتھرل ریسیکشن (TURP) پروسٹیٹ سے بڑھے ہوئے ٹشو کو ہٹاتا ہے اور چند ہفتوں کے اندر پیشاب کے بہاؤ کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔ بڑے پروسٹیٹ کے لیے دیگر جدید سرجریز کی جا سکتی ہیں، جیسے کہ لیزر سرجری، لیکن ان کے لیے صحت یاب ہونے کی طویل مدت درکار ہوگی۔ آخر میں، اگر آپ بڑھے ہوئے پروسٹیٹ میں مبتلا ہیں، تو آپ کے پاس اختیارات ہیں۔ ادویات اور طرز زندگی میں تبدیلیاں علامات کو تیزی سے کم کرنے میں مدد کر سکتی ہیں، جبکہ سرجری جلد صحت یابی فراہم کر سکتی ہے۔ اپنے ڈاکٹر سے بات کریں کہ آپ کی صورتحال کے لیے کیا بہتر ہے۔ دیسی نسخہ جات۔ طبِ قدیم غدہ قدامیہ کی سوزش کا مکمل،شافی اور کامیاب علاج موجو دہے۔ وقتی افاقہ کے لییِ کیسو کے پھولوں کو پانی میں پکا کر بیرونی طور پر ٹکور کرنے سے فوری آرام ملتا ہے۔ اسی طرح تمباکو کو پانی میں ابال کر نیم گرم باندھنے سے بھی فوری طور پر درد سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ گلِ بنفشہ5 گرام، بادیاں5گرام ،جڑ کاسنی5گرام ،مکو خشک 5 گرام،بیج قرطم5 گرام،خطمی5 گرام اور منقیٰ 9 عددکو ایک پاؤپانی میںپکا کر چھان لیں۔ دن میں دو بار شربتِ بزوری کے چار چمچ ملا کر استعمال کریں۔سماق دانہ کو باریک پیس کر ہموزن مصری ملا کر نہار منہ 5 گرام کی خوراک دینے سے بھی مرض کی
وزن کم کرنے کے لئے درکا ر وقت
وزن کم کرنے کے لئے درکا ر وقت Time needed to lose weight حکیم المیوات:قاری محمد یونس شاہد میو دنیا بھر میں اس وقت یہ پوچھا جارہا ہے کہ۔ وزن کم کرنے کے لئے درکا ر وقت۔۔وزن کیسے کم کریں۔میرا وزن بڑھ رہا ہے۔ کچھ لوگ وزن کم کرنے کے لئے جلد بازی کرتے ہیں۔زن کم کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔جب ایک بار وزن برھنا شروع ہوجائے تو بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔کتنا وزن کرنے کے لئے کتنا وقت درکار ہے بہت اہم سوال ہے۔ 30 کلوگرام (تقریباً 66 پاؤنڈ) وزن کم کرنے میں جو وقت لگتا ہے وہ بنیادی طور پر ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ مختلف متغیرات پر انحصار کرتا ہے جن میں آپ کا جاری وزن، عمل انہضام، حرکت کی سطح، اور وہ حکمت عملی جو آپ وزن میں کمی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وزن میں کمی کی ایک محفوظ اور قابل انتظام رفتار کو ہر ہفتے تقریباً 0.5 سے 1 کلوگرام (1 سے 2 پاؤنڈ) کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس اصول کو استعمال کرتے ہوئے، اگر آپ 30 کلو گرام وزن کم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تو اس میں لگ بھگ 30 سے 60 ہفتے، یا تقریباً 7 سے 14 ماہ لگ سکتے ہیں۔ اس کے باوجود، یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ زیادہ تیزی سے وزن میں کمی کھانے کے طریقہ کار یا طرز زندگی میں تبدیلی کے بنیادی مراحل میں قابل فہم ہو سکتی ہے، تاہم اسے محفوظ اور قابل عمل ہونے کی ضمانت کے لیے طبی خدمات کے ماہر کی ہدایت پر ختم کیا جانا چاہیے۔ . غور کرنے کے لیے یہاں چند اضافی عوامل ہیں: خوراک: آپ جس قسم کی خوراک کی پیروی کرتے ہیں، بشمول کیلوری کی کھپت اور صحت بخش توازن، آپ کے وزن میں کمی کی رفتار میں بہت بڑا حصہ ڈالتی ہے۔ ایک یکساں، کیلوری پر قابو پانے والی خوراک ممکنہ وزن میں کمی کے لیے بنیادی ہے۔ ورزش کریں : معیاری فعال کام وزن میں کمی کو تیز کرنے اور عام صحت پر کام کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ آپ جتنے زیادہ متحرک ہوں گے، اتنی ہی زیادہ کیلوریز آپ استعمال کر سکتے ہیں، جو آپ کے وزن میں کمی کے مقاصد کو زیادہ تیزی سے حاصل کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ عمل انہضام: میٹابولک ریٹ ایک فرد سے دوسرے میں تبدیل ہوتا ہے۔ عام طور پر کچھ لوگوں کا ہاضمہ تیز ہوتا ہے، جو اس بات پر اثر انداز ہو سکتا ہے کہ وہ کتنی تیزی سے شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ مستقل مزاجی: آپ کے کھانے کے معمولات اور ورزش کے معمولات کے ساتھ پیش گوئی کے مطابق باقی رہنا طویل سفر کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ پتلا ہونا بہت سے معاملات میں ایک ترقی پسند سائیکل ہے، اور مستقل مزاجی اہم ہے۔ بیماریاں: بعض بیماریاں یا ادویات وزن کم کرنے کی کوششوں کو متاثر کر سکتی ہیں۔ صحت مندانہ منصوبہ شروع کرنے سے پہلے طبی خدمات فراہم کرنے والے سے بات کرنا بہت ضروری ہے، خاص طور پر اس موقع پر کہ آپ کو صحت کے بنیادی خدشات لاحق ہوں۔ پشت پناہی اور سمت : طبی خدمات کے ماہر، غذائیت کے ماہر، یا فٹنس کوچ کے ساتھ کام کرنا آپ کو اپنی مرضی کے مطابق سمت اور پشت پناہی دے سکتا ہے تاکہ آپ کو اپنے وزن میں کمی کے مقاصد کو محفوظ طریقے سے اور کامیابی سے حاصل کرنے میں مدد ملے۔ یاد رکھیں کہ بہت زیادہ تیزی سے ہولناک وزن صحت کے منفی نتائج کا حامل ہو سکتا ہے اور دیرپا نتائج کا اشارہ نہیں دے سکتا۔ زندگی کے مناسب انداز میں تبدیلیاں کرنے میں صفر ہونا ضروری ہے جو وزن میں کمی کے ساتھ ساتھ عمومی صحت اور خوشحالی کو بھی آگے بڑھاتا ہے۔ کوئی بھی صحت مند منصوبہ شروع کرنے سے پہلے طبی خدمات کے ماہر سے مسلسل بات کریں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ آپ کی واحد ضروریات اور شرائط کے لیے موزوں ہے۔
میو قوم کا گلا کی ہڈی، بدوکی میوکالج ۔
میو قوم کا گلا کی ہڈی، بدوکی میوکالج ۔ حکیم المیوات:قاری محمد یونس شاہد میو ہم بچپن میں سنے ہا کہ بدوکی گائوں میں میون کو ایک کالج بن رو ہے جو میوقوم کی ترقی میں ہراول دَستہ ثابت ہوئے گو۔ وا وقت میون کی تنظیمن کی نرسری نہ ہی۔نہ گھر گھر میون کی جماعت ہی ۔میون میں چوہدری تو ہا لیکن اپنی اپنی حد تک ہا۔دور تک تانگ نہ اڑاوے ہا۔ (ای مہابھارت دس بیس لوگن میں لڑی گئی۔جاکوخمیازہ پوری قوم بدنامی کی صورت میں برداشت کرری ہے۔خدا جانے کتنا لوگ یا کُشتی میں اپنی جوانی اور بوڑھاپا ائ رسوا کرن گا۔ای پھیت کس کے لگے گی) ہم نے تو شروع سو ای دیکھو اور سنو ہو کہ میو آپس میں مل کے نہ بیٹھا ہاں ۔لیکن جب قوم کی بات آوے ہے تو سارا اکٹھا ہوجاواہاں جب بدوکی میو کالج کا بارہ میں آواز اُٹھے ہی تو زمین کی قیمت نہ ہی ،لوگن میں دان پُن کو جذبہ موجود ہو۔بھوک تو ہی لیکن اتنی نہ ہی کہ قوم اے بیچتا۔ممکن ہے ہم نے اِن باتن کو پتو نہ ہوئے۔ لےدے کے میون مین “انجمن ترقی میوات”نامی ایک تنظیم ہی۔جو میو قوم کی غالباََ اکلوتی نمائیندہ تنظیم ہی۔وقت اور زندگی کا دن ریت کی طرح ہاتھ سو پھسلتا رہا۔بچپن سو لیکے جوانی ۔جوانی سو پختہ عمر میں جاپہنچا۔لیکن میو قوم کو نمائیندہ کالج نہ بن سکو۔ کدی مَدی کائی میو اے جوش آوے ہے۔اورمیو کالج کا بارہ کٹی جلین نے سناوے ہے ،جب ہارجاوے ہے تو چُپ ہوجاوے ہے۔ دو تین دیہائین سوُ بدوکی کالج قوم کی رگن میں گنڈوا کی طرح سرَ سرَارَو ہے۔لیکن بات آگے نہ بڑھ ری ہے۔۔ یا میں بہت سا لوگن نے پر ُخلوص کوشش کری۔ہم کائی کی نیت پے شک نہ کرسکاہاں ۔مولانا محمد احمد قادری قوم کا محسن لوگن میں سو ہاں۔ کوئی کچھ بھی کہے لیکن اُن کی پالیسی او ردور اندیشی کی داد دینی پڑے ہے۔یانے میو قوم کے مارے بہت کچھ کرو ہے ۔گوکہ کامیابی و ناکامی کو پیمانہ ہر کائی کو اپنو اپنو رہوے ہے۔ہم کوشش کی داد دیوا ہاں۔بدوکی کالج میں اُنن نے حتی الوسع کوشش کری۔پھر جناب ارشد صاحب کی باری آئی اُنن نے بھی اپنی سی کری،اور خوب بھاگ دوڑ کری۔آج کل شہزاد جواہر صاحب انجمن ترقی میوات کی صدارت پے براجمان ہاں۔ محترم محمد یوسف بدکی ۔سبحان خاں بدوکی وغیرہ نے اپنو مثبت کردار ادا کرو۔۔کئی دن پہلے محترم پرویز صاحب میو ایکسپریس والا نے ایک پوسٹ لگائی۔پھر کرنل محمد علی صاحب نے۔ایک بیس منٹ تک کو وائس میسج میڈیا کے حوالے کرو۔سارا اپنو اپنو اخلاص پیش کراہاں۔اصل بات تو ای ہے واکمی اے دور کراں جا کی وجہ سو اتنو بڑو کام کھٹائی میں پڑگئیو) ۔کیونکہ میون نے اب لٹھ تلوار ۔بھالان کی جگہ موبائل پکڑ لیا ہاں ۔اور جن کو دِن ،رات گالین نے دیواہاں ۔اُن یہودین کی بنائی ہوئی اپلیکیشن وٹس ایپ۔فیس بک اور ٹیوٹر وغیرہ پے جہاد میں مصروف ہاں۔دن کو یا رات کو ۔یا سوتا میں کائی وقت آنکھ کھلے تو ایک جلو کٹو میسج بھیج کے پھر سوجاواہاں۔سمجھاہاں کہ ہم نے اپنا حصہ کو جہاد کردئیو۔جنت پکی ہے میو قوم کی بڑی خدمت کردی ہے۔ کرنل صاحب نے رائو غلام محمد۔جمیل صاحب وغیرہ کئی شخصیات کا نام بھی لیا۔لیکن بہت سا نام چھوڑ دیا ۔بھول گیا۔رہ گیا۔خدا معلوم کہا بنو۔ممکن ہے، وے روس جاواں۔کیونکہ رُوسنو ہمارو قوم امتیاز ہے۔ بدکی کالج بنے یا نہ بنے ۔میں میو قوم سو ایک بات پوچھنو چاہوں ۔ممکن ہے کوئی جہادکا جوش میں آکے میری الجھن دور کردئے۔ ای مو اَکیلا کی الجھن نہ ہے بلکہ پوری نئی نسل کی الجھن ہے۔اگر بڑا بوڑھا ۔ٹھونڈا قسم کا لوگ یا الجھن اے دور کردیواں تو ۔ہم پے اور آن والی نسلن پے احسان ہوئے گو۔ بدوکی کالج چالیس سال سو کھینچا تانی کو شکا ر ہے ۔یا دَوران میو قوم کہاں کہاں پہنچ گئی۔ جو لوگ چٹنی روٹی اے غنیمت سمجھے ہا ۔وے روسٹ اور پیزان تک پہنچ گیا۔ پیدل سو سائکل۔سائکلن سو پرادون تک کو سفر کرلئیو۔۔یعنی مادی ترقی کرلی۔ لیکن ایک بات کوئی نہ بتا سکو کہ میون کی ٹھیک تعداد کہا ہے؟ پاکستان میں کتنا میو بس را ہاں ؟یا صوبہ پنجاب مین ان کی تعداد کہا ہے؟ ہر کوئی اپنو اپنو تجزیہ کرے ہے کہ پاکستان میں میون کی تعداد۔ڈیڑھ کروڑ ہے۔۔۔ یا تعداد اے بہت سا پڑھ لکھا میو بتاواہاں۔ما شاء اللہ میون کی نسلی بڑھوتری دوسری قومن سو کہیں گھنی ہے۔ ڈیڑھ کڑور آدھی کرلئیو۔پچھتر لاکھ ہویا۔دو چار لاکھ اور کم کردئیو۔محتاط اندازہ کے مطابق۔پچاس لاکھ لگا لئیو۔ اگر پچھتر لاکھ لوگ صرف ماہانہ سو روپیہ چندہ دیواں۔تو ۔۔۔۔۔۔کروڑوں روپیہ جمع ہووے ہے۔ مان لئیو کہ صرف ایک لاکھ لوگ ہی سو روپیہ ماہانہ دیواں۔یعنی ایک فیصد لوگ ہی سو روپیہ جمع کرائے تو۔ ایک سال میںکئی بدکی کی کالج بنایا جاسکاہاں۔۔ رہی بات اعتماد کی تو ایک سوفٹ وئیر بنایا جاسکاہاں ۔ جامیں سن کچھ آن لائن ہوئے آنہ آنہ کو حساب ہوئے خرچہ ہون والی ایک ایک پائی لکھی جائے۔ جو چاہے اپنا موبائل پے آن لائن حساب دیکھ لئے۔بے ایمانی کو تاثر ہی ختم ہوجائے۔۔۔۔ چلو مانو کہ سو روپیہ بہت بڑی رقم ہے۔ڈیڑھ کروڑ لوگ صرف ایک روپیہ ماہانہ چندہ دیواں تو سالہ اٹھارہ کروڑ جمع ہووے ہے۔۔۔جب تک آن لائن سسٹم نہ ہوئے گو ۔لوگ اعتبار نہ کرسکنگا۔ کیونکہ قوم کا نام پے بہت سا دھوکہ فراڈ ہوچکاہاں۔پھر میو قوم کی نفسیات ہے اپنان پے اعتبار نہ کراہاں۔ دوسرا ن ۔کا ۔۔۔۔۔ٹینٹ پے دَھری ڈولاں ہاں۔۔۔کرن والابنو راستہ بہت ہاں ۔۔ جب انسان چلے ہے تو ایسو لگے ہے کچھ دور جاکے آسمان زمین پے جالگے گو راستہ بند ہوجائے گو۔ لیکن جب چل پڑے ہے تو راستہ کھلتا جاواہاں۔۔۔ بہتر ہے کہ بدوکی کالج کا ماتم اے چھوڑو زندہ قومن کی طرح اپنو راستہ بدلو۔۔ اللہ کی زمین بہت کھلی ہے۔۔۔ جے صرف رول ای مچانی ہے تو مچاتو رہو۔۔۔یاکے علاوہ کر بھی کہا سکو ہو؟ ہر میو کو درجہ بدرجہ سلام پہنچے۔۔۔۔۔خیر اندیش۔۔۔۔۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
ایک ماہ میں وزن کم کریں
ایک ماہ میں وزن کم کریں حککیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو پاؤنڈ کم کرنا، خاص طور پر پیٹ کے علاقے میں، اچھی پرہیز، معیاری سرگرمی، اور طرز زندگی میں تبدیلیوں کے امتزاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ صرف ایک مہینے میں بڑے نتائج ایک ٹکڑا ٹیسٹنگ ہو سکتے ہیں، لیکن ان دس اشارے پر عمل کرنے سے آپ کو وزن کم کرنے کے منصوبے پر سب کچھ حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے: ایڈجسٹڈ ڈائیٹ: کھانے کے اچھے طریقے کے استعمال پر روشنی ڈالیں جس میں دبلی پتلی پروٹین، سارا اناج، قدرتی مصنوعات، سبزیاں اور ٹھوس چکنائی شامل ہو۔ سنبھالے ہوئے کھانے کی اقسام، میٹھی باتیں اور غیر صحت بخش مشروبات سے دور رہیں یا ان کو محدود کریں۔ سیگمنٹ کنٹرول: سیگمنٹ کے سائز پر توجہ مرکوز کریں تاکہ ملوث ہونے سے بچیں۔ دن کے دوران زیادہ معمولی، لگاتار عیدیں کھانا آپ کے ہاضمے کو متحرک رکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ہائیڈریشن: دن کے دوران بہت زیادہ پانی پیئے۔ ہائیڈریٹ رہنے سے آپ کی خواہش کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور آپ کے جسم کے عمومی کام کو مزید فروغ مل سکتا ہے۔ شوگر کو ختم کریں: اضافی شکر کے استعمال کو کم کریں، کیونکہ وہ وزن میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ نامیاتی مصنوعات جیسے خوشگواری کے باقاعدہ چشموں کا انتخاب کریں۔ ہائی فائبر فوڈ کے ذرائع: اعلی فائبر فوڈ ذرائع جیسے سارا اناج، سبزیاں اور سبزیاں اپنے کھانے کے طریقہ کار میں شامل کریں۔ فائبر آپ کو زیادہ دیر تک بھرا ہوا محسوس کرنے میں مدد کرسکتا ہے اور انضمام میں مدد کرسکتا ہے۔ قلبی سرگرمی: معیاری قلبی سرگرمیوں میں حصہ لیں جیسے توانائی سے بھرپور ٹہلنا، دوڑنا، تیراکی، یا سائیکل چلانا۔ ہر ہفتے 150 منٹ کی اعتدال پسندی والے کارڈیو کو پیچھے نہ رکھیں۔ طاقت کی تیاری: فٹ بلک بنانے کے لیے طاقت کی تیاری کی سرگرمیاں شامل کریں۔ پٹھوں میں بہت زیادہ کیلوریز بھی استعمال ہوتی ہیں اور آپ کے پتلے ہوتے ہی آپ کے جسم کو ڈھالنے میں مدد مل سکتی ہے۔ مرکز کی سرگرمیاں: ان مشقوں پر روشنی ڈالیں جو آپ کے مرکز کے پٹھوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، جیسے بورڈز، کرنچز، اور ٹانگ اٹھانا۔ جب کہ اسپاٹ میں کمی کی جانچ ہو رہی ہے، اپنے مرکز کو مضبوط کرنے سے خطے میں مزید موقف اور ٹون ہو سکتا ہے۔ آرام کا معیار: اس بات کی ضمانت ہے کہ آپ کو تسلی بخش اور معیاری آرام مل رہا ہے۔ آرام کی عدم موجودگی تڑپ سے جڑے کیمیکلز کو پریشان کر سکتی ہے اور وزن میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ دباؤ کو کم کریں: دباؤ کو کم کرنے کی حکمت عملیوں کی مشق کریں جیسے غور، یوگا، یا گہرا آرام۔ بے چینی کے زیادہ احساسات وزن میں اضافہ کر سکتے ہیں، خاص طور پر پیٹ کے علاقے کے آس پاس۔ یاد رکھیں کہ قابل انتظام وزن میں کمی کے لیے کچھ سرمایہ کاری اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ سونے کے لئے جاؤ، غیر معمولی اقدامات کے بجائے تبدیلیاں. اپنے کھانے کے طریقہ کار میں بہت زیادہ بہتری لانے یا ورزش کرنے سے پہلے کسی ماہر طبی ماہر سے مشورہ کریں، خاص طور پر اس صورت میں جب آپ کو کوئی بنیادی بیماری ہو۔
گوشت کے متبادل سبزیاں
گوشت کے متبادل سبزیاں حکیم المیوات:قاری محمد یونس شاہد میو کھانے پینے میں گوشت کے متبادل سبزیاں اس وقت دنیا بھر مین ڈسکس کیا جارہا ہے۔گوشت کے بدلے سبزیاں صحت کے لئے اہم قدم ہے۔اگر گوشت کے بدلے سبزیاں اختیار کی جائین تو موٹاپا جیسی مزی بیماریوں سے نجات مل سکتی ہے کھانے کے ذرائع گوشت جیسے سپلیمنٹس میں دولت مند ایک ایسی دنیا میں جو رفتہ رفتہ تندرستی، آب و ہوا اور اخلاقی سوچ کے بارے میں آگاہ ہو رہی ہے، بہت سے لوگ اپنے وزن پر قابو پانے کے منصوبوں میں گوشت کے برعکس آپشنز تلاش کر رہے ہیں۔ پودوں پر مبنی خوراک سے پرہیز ان کے طبی فوائد اور قدرتی اثر میں کمی کی وجہ سے بہت زیادہ پھیل گیا ہے۔ اس صورت میں کہ آپ کھانے کے ذرائع پر غور کر رہے ہیں جو گوشت کی طرح سپلیمنٹس دیتے ہیںمترادف ہیں۔ خلاصہ مضمون۔ گوشت کو موازنہ غذائی اجزاء فراہم کرنے والے کھانے پھلیاں اور دال توفو اور ٹیمپہ گری دار میوے اور بیج سارا اناج فورٹیفائیڈ فوڈز انتخاب کی ضرورت کو سمجھنا پودوں پر مبنی غذا کی طرف تبدیلی حال ہی میں، دنیا بھر میں پودوں پر مبنی خوراک سے پرہیز کی طرف تبدیلی شاندار رہی ہے۔ افراد متعدد عوامل کی وجہ سے اپنے گوشت کے استعمال کو کم کرنے کا فیصلہ کر رہے ہیں، جن میں فلاح و بہبود کے خدشات، ماحولیاتی ذہن سازی، اور مخلوق کی حکومت کی مدد کے تصورات شامل ہیں۔ سپلیمنٹس کا پتہ گوشت میں گوشت بنیادی سپلیمنٹس جیسے پروٹین، آئرن، زنک، اور بی غذائی اجزاء کے بھرپور سرچشمے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ سپلیمنٹس آکسیجن کی نقل و حمل سے لے کر محفوظ فریم ورک سپورٹ تک جسمانی عمل کو برقرار رکھنے میں اہم حصے کو سنبھالتے ہیں۔ پلانٹ پر مبنی دیگر اختیارات کی تحقیقات کرنا پھلیاں اور دال: پروٹین کی قوتوں کا اندزاہ کیا جائے۔ پھلیاں اور دال پودوں پر مبنی پروٹین کے شاندار چشمے ہیں۔ وہ بہت سے امینو ایسڈ پیش کرتے ہیں جو پٹھوں کی نشوونما اور بڑے پیمانے پر جسمانی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ مختلف سبزیوں کو اپنے کھانے کے معمولات میں شامل کرنے سے پروٹین کی سطح گوشت کے برابر ہو سکتی ہے۔ توفو اور ٹیمپہ: لچکدار اور پائیدار Tofu اور tempeh سویا پر مبنی اشیاء ہیں جو پروٹین، آئرن اور کیلشیم سے بھرپور ہیں۔ انہیں مختلف پکوانوں میں گوشت کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے اور خاص طور پر ذائقوں کو برقرار رکھنے کی ان کی صلاحیت کے لیے ترجیح دی جاتی ہے، جس سے وہ کھانا پکانے میں موافقت پذیر ہوتے ہیں۔ گری دار میوے کے مزے: گری دار میوے اور بیج گری دار میوے اور بیج پروٹین، صوتی چربی، اور بنیادی سپلیمنٹس سے بھرے ہوتے ہیں۔ بادام، پیکن، چیا کے بیج، اور کدو کے بیج، دوسروں کے درمیان، ایک اہم ضمیمہ پروفائل پیش کرتے ہیں۔ ان کو مخلوط سبز، دہی کی پلیٹوں پر چھڑکایا جا سکتا ہے، یا توانائی بخش ناشتے کے طور پر کھایا جا سکتا ہے۔ مکمل اناج: ایک صحت مند فیصلہ مکمل اناج جیسے کوئنو، مٹی کے رنگ کے چاول، اور جئی پیچیدہ نشاستہ کو معاون توانائی فراہم کرتے ہیں اور ساتھ ہی پروٹین اور فائبر کے اہم اقدامات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ اناج اچھے، ضمیمہ سے بھرپور ڈنر کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ بریسڈ فوڈ ذرائع: سپلیمنٹ ہول کو بند کرنا بہت سے پودوں پر مبنی کھانے کے ذرائع، بشمول غیر ڈیری دودھ اور ناشتے کے اناج، وٹامن B12، کیلشیم اور آئرن جیسے بنیادی سپلیمنٹس کے ساتھ برقرار رہتے ہیں۔ یہ مستقل انتخاب بغیر گوشت کے کھانے کے معمول میں ممکنہ اضافی سوراخوں کو عبور کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ایک منصفانہ پلانٹ پر مبنی خوراک ضمیمہ کے ذرائع کو مستحکم کرنا اس بات کی ضمانت دینے کے لیے کہ آپ کو سپلیمنٹس کا ایک متوازن کلسٹر مل رہا ہے، یہ آپ کے کھانے کے طریقہ کار میں پودوں پر مبنی خوراک کے ذرائع کی درجہ بندی کو ضم کرنے کے لیے بنیادی ہے۔ پھلیاں اور چاول جیسے مرکب، سبزیوں کے ساتھ ٹوفو ساٹس، اور نامیاتی مصنوعات کے ساتھ گری دار میوے ایک مختلف ضمیمہ پروفائل دے سکتے ہیں۔ ضمیمہ داخلہ کا مشاہدہ جب کہ پودوں پر مبنی اختیارات گوشت کے لیے تقابلی سپلیمنٹس پیش کرتے ہیں، یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے سپلیمنٹ کی کھپت کی نگرانی کریں، خاص طور پر وٹامن بی 12 جیسے سپلیمنٹس، جو کہ مخلوق کی اشیاء میں ماورائی طور پر درج ہیں۔ ایک اندراج شدہ غذائی ماہرین کے ساتھ انٹرویو کھانے کی ایک مہذب طرز عمل کو برقرار رکھنے میں اہم تجربات دے سکتا ہے۔ ختم پلانٹ کے ساتھ مل کر کھانے کا طریقہ اختیار کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بنیادی سپلیمنٹس کے حوالے سے سمجھوتہ کیا جائے۔ پودوں پر مبنی کھانے کی اقسام جیسے پھلیاں، دال، توفو، ٹیمپہ، گری دار میوے، بیج، اور سارا اناج پروٹین، آئرن، زنک اور بی غذائی اجزاء پیش کرتے ہیں جیسا کہ گوشت میں پایا جاتا ہے۔ ان دیگر اختیارات کی چھان بین کرکے اور ایڈجسٹ ڈنر بنا کر، آپ کھانے کے معمول میں حصہ لے سکتے ہیں جو آپ کے جسم کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ کی خوبیوں اور کرہ ارض کی خوشحالی سے ہم آہنگ ہے۔ اکثر پوچھے گئے سوالات (جتنا ممکن ہو کچھ چیزوں پر وضاحت طلب کی گئی) کیا پودوں پر مبنی کھانے کے ذرائع واقعی کافی پروٹین دے سکتے ہیں؟ بالکل! پودوں پر مبنی ذرائع جیسے پھلیاں، توفو، اور گری دار میوے پروٹین سے بھرپور ہوتے ہیں اور آپ کی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔ میں کس طرح اس بات کی ضمانت دے سکتا ہوں کہ مجھے پودوں پر مبنی خوراک کے ذرائع سے کافی آئرن مل رہا ہے؟ آئرن سے بھرپور کھانے کے ذرائع جیسے دال، پالک، اور مضبوط اناج کو اپنے کھانے کے معمولات میں شامل کریں اور ان کو L-ascorbic ایسڈ سے بھرپور غذا کے ذرائع سے ملائیں تاکہ آئرن کو برقرار رکھا جاسکے۔ کیا پودوں پر مبنی غذا پر سپلیمنٹس لینا ضروری
دشمن سے حفاظت کا تیر بہدف عمل
دشمن سے حفاظت کا تیر بہدف عمل دشمن سے حفاظت کا تیر بہدف عمل حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو عملیاتی دنیا میں بے شمار وظائف و عملیات کئے اور مختلف چلہ وظائف کے تجربات ہوئے۔ جو طاقت میں نے قران و حدیث کے اعمال میں دیکھی وہ کسی دوسرے عمل میں دکھائی نہ دی۔اگر کسی کو ڈھنگ آجائے کہ ان اعمال سے کام کیسے لینا ہے تو ہر قسم کے اناپ شناب اعمال اور ناکامیوں سے اپنے دامن کو بچا لیتا ہے۔ہمیں عملیات کی بے اثری دکھ ہوتا ۔ہر جگہ اسی کا رونا روتے ہیں۔قران واھادیث سے منتخب کردہ اعمال میں کسی اجازت یا کسی کی محتاجی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ہر مسلمان ان سے کام لے سکتا ہے۔لیکن اس میدان کے ماہرین جانتے ہیں یہ انکے تجربات ہوتے ہیں ،کام تو ہوجاتا ہے اگر ہنر مندی سے کیا جائے جلد ہوجاتا ہے اور تسلی بخش نتائج دیکھنےکو ملتے ہیں۔یہ عمل میں نے بہت بار آزمایا اور بہترین نتائج پائے۔ آئے حدیث کی طرف چلتے ہیں ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کو کسی قوم سے خوف ہوتا تو یہ دعا پڑھتے: «اللَّهُمَّ إنَّا نَجْعَلُكَ في نُحُورِهِمْ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ». ترجمہ: اے اللہ! ہم تجھ کو ان کے سامنےکرتے ہیں اور تیرے ذریعے ان کی شرارتوں (برائیوں) سے پناہ مانگتے ہیں شرح الحديث : آپ ﷺ نے فرمایا: “اللهم إنا نجعلك في نحورهم”۔ یعنی ہم تجھے ان کے سامنے کرتے ہیں تاکہ تو انہیں ہم سے دور کرے اور ہمیں ان سے بچائے۔ یہاں “نَحر” (سینہ) کا ذکر بطور خاص کیا گیا کیونکہ یہ دفع کرنے میں اور جس کو دفع کیا جا رہا ہے اس پر قابو پانے میں سب سے تیز اور سب سے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے، اور دشمن لڑائی کےلیے اٹھ کھڑے ہونے کے وقت اپنے سینے ہی سے سامنا کرتا ہے۔ یا پھر اس میں دشمنوں کو ذبح کرنے یا انہیں قتل کرنے کی نیک شگونی ہے۔ “ونعوذ بك من شرورهم”۔ (اور ہم تیرے ذریعے ان کی شرارتوں سے پناہ مانگتے ہیں) چنانچہ اس صورتِ حال میں اللہ تعالیٰ تمہارے لیے ان کے شر سے کافی ہوجائے گا۔ مطلب یہ کہ ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ تو انہیں ہم سے روک دے، ان کے شر کو ہم سے ہٹا دے اور ان کے سلسلے میں ہمیں کافی ہو جا اور ہمارے اور ان کے مابین حائل ہوجا۔ یہ دو آسان لفظ ہیں جنہیں اگر کوئی شخص ایمانداری اور خلوص دل سے پڑھے گا تو اللہ تعالی اس کا دفاع کرے گا۔ اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کام لینے کا آسان طریقہ۔۔۔۔۔ جب کوئی ضرورت پیش آئے دشمن سے حفاظت درکار ہو۔مخالفین سے چھٹکارا چاہتے ہوں۔یا کوئی کام آ پڑے تو۔اس دعا کو صرف اکتالیس بار پڑھنا ہے۔۔۔آنکھیں بند ہوں۔دمن کا تصور ہو۔۔آپ جو چاہتے ہیں۔خدا کی ذات پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے اس کا تصور کریں۔۔۔ذہن میں ایسا منظر پیدا کریں کہ گویا حقیقی دنیا آپ کے سامنے موجود ہے۔۔یعنی اگر دمن آپ کے قابو مین آجائے تو آپ اس کے ساتھ کیا کریں گے؟یا کسی سے کس طرح کام لیں گے ۔۔یہ سوچ کر مکمل انہماک و توجہ سے اکتالیس بار تلاوت کریں۔۔تعداد کی طرف توجہ کریں۔اکتالیس ہی ہونا چاہئے۔۔اس کے بعد دمن کو سامنے سمجھ کر پھونک مار دیں۔۔۔آپ کا کام ہوجائے گا۔جتنی توجہ میں انہماک ہوگا اتنی جلدی کام ہوگا۔۔کئی بار بار تو ایک دو بار کی پڑھائی کام کر جاتی ہے۔۔۔۔