تشخیص کامل ہی یقینی علاج ہے A perfect diagnosis is the only sure cure https
سرعت انزال۔اسباب وعلاج
سرعت انزال۔اسباب وعلاج سرعت انزال جسے انگریزی میں Premature ejaculation کہاجاتاہے ایک ایسی غیرطبعی کیفیت ہے جس میں جماع یعنی ہمبستری کے دوران اندام نہانی میں دخول کرنے سے قبل یا دخول کرتے ہی مرد کا انزال ہوجاتاہے ا ور جماع نامکمل ہوجاتاہے ایسی قبل از وقت انزال کی حالت کو سرعت انزال کہا جاتا ہے جو کہ مردانہ کمزوری کی ایک اہم علامت ہے۔
گرہن اور اعمال حروف صوامت۔
گرہن اور اعمال حروف صوامت۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اس سال کاآخری سورج گرہن کا آغاز 14 اکتوبر رات 8 بجے ہوگا اور اختتام 15 اکتوبر رات ایک بج کر 55 منٹ پر ہوگا، یہ بھی پاکستان میں دیکھائی نہیں دے گا ٓآغاز:۔۔رات:8بجکر4منٹ۔۔ عروج:۔۔رات۔10بجکر59منٹ۔۔ اختتام:۔۔1بج کر 55منٹ پر اس سال کا آخری کاچاند گرہن۔ کا آغاز 28 اکتوبر رات 11 بج کر 2 منٹ پر ہوگا،چاند کو مکمل گرہن رات 1بج کر 14 منٹ پر لگے گا جبکہ اختتام 29 اکتوبر رات 3بج کر 26 منٹ پر ہوگا۔ علمی دنیا میں عملیات کا ایک خاص میدان عمل ہے۔اس طبقہ کے لوگوں کا کہنا ہے دن رات میں کچھ خاص اوقات ایسے آتے ہیں جب یہ لوگ اپنے اعمال اور چلہ جات کو پورا کرتے ہیں مختلف اعمال کے ورد کی مختلف تعداد مققر کرتے ہیں۔تعداد کیسے مقرر کرتے ہیں یہ مستقل علم کی ایک شاخ ہے جو اس پر عبور رکھتے ہیں وہ اعمال کے لحاظ یا ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے مقرر کرتے ہیں۔ گرہنوں کے اوقات میں تمام اقوام کے عاملین جادو گر۔تنترک۔جوگی اور مرتاض لوگ سب ہی اپنے اعمال کو سِدھ کرتےہیں۔ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اہل کتاب کہلاتے ہیں۔اور وہ بھی ہیں جو کسی کتاب و شریعت کو نہیں مانتے۔کیونکہ عملیات کسی دین یا شریعت کا حصہ نہیں ہوتے،یہ عالمین کے تجربات ہوتے ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتے آئے ہیں ۔اس مصروفیت کے دور میں لگے ہوئے ہیں۔ عاملین بالخصوص مسلمان عالمین اپنے اعمال کو اس طرح پیش کرتے ہیں گویا ان کے اعمال گویا قران و احادیث کی منشا کے مطابق ہیں۔اگر کوئی عملیات کے نام پر کچھ اناپ شناپ بھی کرتا ہے تو اسے شریعت کا ملمع کرکے لوگوں کے اعتقاد و لگائو سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔یاد رکھئے عملیات کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اعمال گرہن کے اثرات۔ اس میں شک نہیں کہ گرہن کے اوقات میں کائناتی طور پر تغیرات آتے ہیں۔حتی کہ مواصلاتی نظام اور الیکٹرک سٹی۔فری کوئینسیز میں خلل واقع ہونا مشاہداتی بات ہے۔اگر ان اوقات میں اعمال قابضہ کے بارہ اعمال کئے جائیں تو موثر ہوتے ہیں۔ یہ کائناتی اثرات سب کے لئے ہوتے ہیں اس میں شریعت کا تڑکہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسے دیگر تجربات میں ہمیں شریعت کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ایسے ہیں عملیات میں نہیں ہونی چاہئے۔اگر عملیاتی اثرات کسی مذہب یا شریعت سے وابسطہ ہوتے تو دوسری شرائع اور عقائد سے منسلک لوگ ان اثرات سے محروم رہتے۔سیدھی سی بات ہے۔عملیات شریعت کا حصہ نہیں۔البتہ ایک فن و ہنر ہیں جو بھی ان قواعد و ضوابط کی پابندی کرے گا۔وہ ثمرات سے جھولی بھر لے گا۔ اسلام کے نام پر ہر وہ عمل کیا جاتا ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔کہیں بخورات کئے جاتے ہیں تو کہیں ۔انسانی یا جانوروں کی باقیات جلائی جاتی ہیں۔کہیں حاضرات و عملیات کے نام پر توہمات کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ہم لوگ اپنے عقائد و نظریات پر اتنے پختہ ہوتے ہیں ان کے خلاف کچھ بھی سننا گوارا نہیں کرتے۔یہی کچھ عملیات میں بھی ہے۔اگر ہم نے ایک فن و ہنر سے کام لینا ہے تو شریعت کو ملوث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ گرہن اور اعمال حروف صوامت۔ عاملین کے لئے خوش خبری ہے کہ سعد طبیہ کالج لوگوں عاملین کے لےے حروف صوامت کی زکوٰۃ اور عملیات کی اجازت کا بندوبست کرتا ہے ،جو اجازت و شرائط کے لئے رابطہ کرنا چاہیں وہ ضرور ادارہ سے رابطہ کریں۔
فلسطین و اسرائیل جنگ اور مصنوعات کا بائیکاٹ-
فلسطین و اسرائیل جنگ اور مصنوعات کا بائیکاٹ- فلسطین و اسرائیل جنگ اور مصنوعات کا بائیکاٹ- Palestine-Israel war and boycott of products- الحرب الفلسطينية الإسرائيلية ومقاطعة المنتجات حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو جہاں تک اردو بولنے والوں کا تعلق ہے بالخصوص مزہبی طبقہ خاص حالات میں ایک گھسا پٹا نعرہ بلند کرتے ہیں کہ۔فلاں فلاں مصنوعات قادیانیوں/یہودیوں اور فرانس و اسرائیل کی ہیں ان کا بائیکاٹ کرو۔انہیں پتہ چلے کہ اگر ہم نہ خریدیں گے تو انہیں تجارتی طورپر کتنا نقصان ہوگا۔اس کے بعد دھڑا دھڑا پوسٹیں بننا اور شئیر ہونا شروع ہوجاتی ہیں ۔کچھ پوسٹوں کے ساتھ تو ایمان کو بھی مشروط کردیا جاتا ہے کہ جو ایمان دار ہوگا وہ ضرور شئیر کرے گا۔جو قرآن /رسول/یا پھر خدا پر یقین رکھنے والا اسے نظر انداز نہیں کرسکتا؟ یہ ہیجان انگیز تحریریں صبح و شام نظر سے گزرتی ہیں۔۔۔اس میں شک نہیں کہ جو جس زبان کو سمجھے اس کے سامنے وہی بولو۔ اصل خرابی کہاں ہے ؟ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا۔روزی کو اگر دس حصوں میں تقسیم کیا جائے تو نو حصے تجارت میں رکھے گئے ہیں۔()۔کیا یہ لوگ یا پھر سارے مسلمان اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ ۔مسلمانوں کو نبیﷺ کی یہ باتیں کیوں سمجھ نہیں آئی اور انہوں نے تجارت کیوں چھوڑی؟۔کیا جو قرانی آیات یا احادیث مبارکہ میں تجارت کے بارہ میں فضائل و مسائل آئے ہیں کیا وہ منسوخ ہوچکے ہیں؟؟؟۔۔اگر نہیں تو کیا غیر مسلم ان آیات قرانیہ و احادیث نبویہق پر عمل کریں گے؟؟؟ تجارت کے جہاں فضائل بیان ہوئے وہیں پر احکامات بھی آئے ۔جن چیزوں سے بچنے کی تلقین کی گئی مسلمان انہیں نظر انداز کرچکے۔غیروں نے ان اصولوں کو اپنا لیا؟اس لحاظ سے مسلمان قابل تعزیر ہیں؟؟؟ قادیانی مصنوعات کا بائیکاٹ۔ میں اپنی زندگی کے پچاس سال گزار چکاہوں۔عقل و شعور کی زندگی بھی کم از کم 35 سال کی تو ہوگی۔ہم مذہبی لوگ ہیں مذہب ہماری دکھتی رگ ہے۔جب کبھی کسی کو ضرورت پڑی اس رگ کو سہلایا اور جوش دلاکر اپنا کام نکلوالیا۔مذہبی جماعتئیں یہ کام بڑی مہارت سے سرانجام دیتی ہیں۔پچھلے چندسالوں میں انہیں جذبات میں پاکستان بھر میں ہنگامہ رہا ہے۔جب بھی ضرورت پڑتی ہے اس خام مال سے مذہبی لوگ اپنا الو سیدھا کرلیتے ہیں۔ قادیانی ہم نے نہیں دیکھے۔لیکن ان کی مصنوعات میری دہلیز تک پہنچی ہوئی ہیں۔ہمیں اس بنیاد پر ان سے نفرت دلائی جاتی ہے کہ ختم نبوت کے منکر ہیں۔ یہ بات سن کر جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔لیکن جب سے سوچنا شروع کیا دنیا داری کا پتہ چلا معلوم ہوا کہ منکرین ختم نبوت ایمان دار اور اپنی مصنوعات و کاروبار سے مخلص ہیں ۔وہ جو بیچتے ہیں وہ ہوتا ہے۔دوسری طرف محافظان ختم نبوت کا المیہ ہے کہ ان کی مصنوعات معیاری ہوگی ہیں نہ ہی اس معیار کی۔اور قیمت میں بھی بڑھی ہوئی ہوتی ہیں۔ مذہبی جذبات رکھنے والے تو مان لیں گے کہ ہم کفار کی مصنوعات کا بائیاٹ کردیں۔لیکن عام دنیا دار انسان جو مقامی دکان پر جاتا ہے۔پیسے دیتا ہے ۔سامان خرید لیتا ہے۔اگر اسے بتایا جائے کہ فلاں مصنوعات کفار کی ہیں انہیں نہ خریدو۔وہ کہتا ہے مجھے اس معیار کی اسی قیمت میں کسی مسلمان کی بنی ہوئی چیز دیدیں۔۔یہ جملہ شرم سے آنکھیں نیچے کرنے کا بہت بڑا سبب ہوگا۔ ۔آج کل اسرائیلی مصنوعات بائیکاٹ مہم چلی ہوئی ہے ۔۔۔سب سے پہلے تو یہ سوچنا ہوگا کہ یہ مصنوعات ہم تک پہنچیں کیسے؟۔۔انہیں سزا ملنی چاہئے جو یہ مصونات لیکر ائے۔ اس مہم میں شامل مجادہدین سے ایک سوال ہے۔اگر واقعی ختم نبوت اور امت مسلمہ کا دکھ ستا رہا ہے تو ان کے مقابلہ کی مصنوعات لیکر آئو۔مسلمانوں کو بتائو کہ یہ مسلم مصنوعات ہیں۔کفار کو فائدہ نہ پہنچائو مسلم تھار کے دست بازو بنوں۔۔۔لیکن یہ کام مسلمانوں پر بہت بھاری ہوگا کیونکہ ان جیسی مصنوعات کے لئے ایمان داری اور تجارتی پیمانہ کی ضرورت ہوگی ۔یہ سامان ہمارے پاس ہے نہیں؟؟؟ اس وقت مساجد بھری ہوئی ہیں۔۔مدارس کام کررہے ہیں۔مسلمان لاتعداد موجود ہیں لیکن دین اسلام دکھائی نہیں دیتا۔۔مسجد کی چار دیواری سے باہر بے یقینی کی صورت حال پیش آتی ہے۔ عجیب بات ہے دوسروں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہم پر اعتماد کریں لیکن خود کسی پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ایک ہی صف میں کھڑے نمازی برابر روالے سے مطمئن نہیں۔ سب سے بڑی خرابی یہ ہے۔ کہ اس بگاڑ کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔مانتے ہی نہیں کہ ہم میں کہیں خامی موجود ہے۔اگر کوئی کسی کو متنبہ کردبھی دے تو تاویلات کی لمبی چوڑی پٹاری ہر وقت کھلنے کے لئے تیار ہے۔شیاد یہی وجہ ہے مسلمان ممالک کی مصنوعات کو قابل بھروسہ نہیں سمجھا جاتا ۔زوال کی کیفیت یہ ہے اپنے ملک اور اپنی قوم کی مصنوعات خریدنا پسند نہیں کرتے۔ایک شیزان ہی کو لے لیں۔آج تک کوئی عاشق رسول مسلمان اس کے مقابل نہ آسکا۔ بائکاٹ ضرور کریں لیکن خریدار کو اس کا نعم البدل بھی فراہم کریں ۔لوگ کہتے ہیں ہمیں کچھ فرق نہیں پڑتا کہ مصنوعات کسی مسلمان کی ہے یا کافر کی ہمیں پیسہ پیسہ ادا کرنے کے مطابق معیاری چیز چاہئے۔مجھے اس بات پر حیرانگی ہوئی کہ کچھ مدارس کے ماہانہ چندہ شیزان بیکری سے آتا ہے۔۔۔اس سے آگے کیا کہا جاسکتا ہے۔ پہلے کچھ بنائو پھر بات کرو ۔ہم تو سبزیوں میں بھی زہرانجیکٹ کرنے سے باز نہیں آتے۔جو بھی دو نمبری ہے اس کے بھید بھائو جانتے ہیں۔ہمیں تو منہ بو؛لے ایماداروں کے گھر کی اشیاء بھی خالص نہیں ملتیں۔مرچوں میں لکڑی کا برادہ۔چائے پتی میں چنے کا چھلکا۔شہد کی جگہ پر گڑھ یا چینی کا گاڑھا شیرہ۔دودھ کے نام پر کیمیکل گجو ل کر دیا جارہا ہے کیا یہ سب باتیں یہود و نصارا کررہے ہیں؟یا پھر ہندو اکر ہمارے خلاف سازش کرراہا ہے۔۔۔مسجد و محراب سے لیکر ۔قاضی کی عدالت تک۔ایک چوکیدار سے لیکر اقتدار اعلی کی کرسی پر براجمان شخص تک ایک دوسرے کو تھوک لگانے کے چکر میں ہے۔۔ایسے میں کیا ہم کفار کی بنی مصنوعات کا بائیکاٹ کرسکتے ہیں؟۔ سب کا بائیکاٹ کرو۔ چلو پیپسی۔کوک۔شیزان۔سب کفار کی مسنوعات ہیں بائیکاٹ ہونا چاہئے۔اگر گستاخی معاف ہوتو کیا پوچھ سکتا ہوں۔آئی فون پرو۔ایپل۔سامسنگ۔مٹرولا۔ڈیل۔مائیروسوفٹ کی اپلیکیشنیں۔گوگل۔ابیڈو۔اوپیرا۔ایڈج،ہوسٹنگر۔نیم
زکاوت حس اسباب و علاج
زکاوت حس اسباب و علاج زکاوت حس اسباب و علاج ذکاوت حس کیا ہے اور کسے کہتے ہیں؟ ذکاوت حس کہتے ہیں احساسات کی تیزی کو، طب کی اصطلاح میں یہ لفظ جنسی تحریک کی غیر طبعی تیزی کے لیے بولا جاتا ہے ۔ جو صفراء کی زیادتی سے پیدا ہوتی ہے اور بعض اوقات کثرتِ جماع اور جلق لگانے سے پٹھوں کی حس تیز ہو جاتی ہے اور یہ مرض ترقی کرتا چلا جاتا ہے مریض کو ذرا سا خیال آنے سے تحریک پیدا ہو کر انتشار ہو جاتا ہے اور ہلکی سی گدگدی یا رگڑ سے ہی ڈسچارج ہو جاتا ہے اور اگر عورت کے جسم سے ٹچ ہو جائے تو فوراً انزال ہو جاتا ہے اور مباشرت تک (یعنی دخول تک) پہنچنے سے پہلے ہی جنسی طور پر دم توڑ دیتا ہے (یعنی مرد ڈسچارج ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے مباشرت ہو نہیں پاتی) اسے لذت کی شدت کا نام دیا گیا ہے ۔ ذکاوت حس کا مرض کثرتِ مشت زنی اور اغلام بازی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے ۔
غلام احمد پرویز کی پچاس کے قریب کتابیں
غلام احمد پرویز کی پچاس کے قریب کتابیں علامہ غلام احمد پرویز مرحوم تحریر: حکیم قاری محمد یونس شاہد میو اپنی الگ سے رائے رکھتے ہیں ،وہ مغربی علوم اور عصر قدیم و عصر حاضر کے فلاسفہ اور مورخین اور مفسرین کا اپنے اندا ز میں مطالعہ کرکے الگ سے انداز فکر رکھتے ہیں، گوکہ ان کا طرز فکر بہت سے علماء کو پسند نہیں ، وہ قائداعظم محمد علی جناح علیہ الرحمہ کے ساتھیوں اور مداحوں میں سے ہیں، تحریک پاکستان میں انہوں نے حصہ لیا، انہوں نے علمی طورپر بہت کام کیا۔ انہوںنے طلوع اسلام کے پلیٹ فارم سے اپنے فکری محاذ کا آغاز کیا۔ دروس القران کا طولانی سلسلہ چلا۔افکار و نظریات ہر کسی کے جداگانہ ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں جن نظریات کو سینے لگائے ہوئے بیٹھے ہیں ،دوسرے بھی انہی خیالات کے حامی ہوں۔ جمود اور فکری پستی کے زمانہ میں اگر کوئی زمانہ کی روش سے ہٹ کر بات کرے گا تو لائق سرزنش قرار پائے گا۔ یہی کچھ موصوف کے ساتھ ہوا۔رہی بات ان کے افکار و نظریات کی۔یا ان کی کتب میں مندرج تحریرات کی تو ایسا کون ہے جس کی کتب صرف وحی الٰلیہ کی علمبردار ہوں؟۔ لغز شات و تفردات سے کونسی کتاب ان سے محفوظ ہے؟۔ لیکن عمومی طورپر ہمیں عقائد و نظریات کے لئے بھی دوسروں کی نگاہ اور بےگانے عینک کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ خود اتنا علم رکھتے ہیں نہ اس قدر مطالعہ ہوتا ہے۔ یاد رکھئے کسی علم کی والے کی کتاب سے مستفید ہونے کے لئے بھی بڑے علم کی ضرورت ہوتی ہے۔۔ پرویز صاحب ایک صاحب طرز اہل قلم ہیں۔اپنا جدا گانہ فکر رکھتے ہیں۔ اسلام کے نام پر کی جانے والی خرافات اورلغو باتوں کے سخت ناقد ہیں۔ وہ رسومات اور بدعات اور شخصیت پرستی کے خلاف ہیں ۔ یہی بات اہل مسالک کے بڑوں کی طبع نازک پر تازیانہ بن کر پڑتی ہے۔ کسی پر اپنے افکار تونپے نہیں جاسکتے۔البتہ علمی انداز میں پیش کئے جاسکتے ہیں۔ سو انہوں نے اپنے افکار اپنی کتب کتب کی مدد سے اپنے ورثہ میں چھوڑے ہیں لائبریری مصنف نام کتاب علامہ غلام احمد پرویز اسباب زوال امت علامہ غلام احمد پرویز بہارِ نو علامہ غلام احمد پرویز برق طور علامہ غلام احمد پرویز فردوس گم گشتہ علامہ غلام احمد پرویز ابلیس و آدم علامہ غلام احمد پرویز انسان نے کیا سوچا علامہ غلام احمد پرویز اقبال اور قرآن (جلد-1) علامہ غلام احمد پرویز اقبال اور قرآن (جلد-2) علامہ غلام احمد پرویز اسلام کیا ہے ؟ علامہ غلام احمد پرویز اسلامی معاشرت علامہ غلام احمد پرویز جہان فردا علامہ غلام احمد پرویز علامہ غلام احمد پرویز جہاد ختم نبوت اور تحریک احمدیت علامہ غلام احمد پرویز خدا اور سرمایہ دار علامہ غلام احمد پرویز کتاب التقدیر علامہ غلام احمد پرویز لغات القرآن علامہ غلام احمد پرویز مجلس اقبال (جلد-1) علامہ غلام احمد پرویز مجلس اقبال (جلد-2) علامہ غلام احمد پرویز من و یزداں علامہ غلام احمد پرویز منزل بہ منزل علامہ غلام احمد پرویز مذاہب عالم کی آسمانی کتابیں علامہ غلام احمد پرویز معراج انسانیت علامہ غلام احمد پرویز قتل مرتد علامہ غلام احمد پرویز قائد کے تصور کا پاکستان علامہ غلام احمد پرویز قرآنی فیصلے ۔ 1 علامہ غلام احمد پرویز قرآنی فیصلے – 2 علامہ غلام احمد پرویز قرآنی قوانین علامہ غلام احمد پرویز سلیم کے نام خطوط – 1 علامہ غلام احمد پرویز سلیم کے نام خطوط – 2 علامہ غلام احمد پرویز سلیم کے نام خطوط – 3 علامہ غلام احمد پرویز سلسبیل علامہ غلام احمد پرویز شاہکار رسالت علامہ غلام احمد پرویز شعلہ مستور علامہ غلام احمد پرویز طاہرہ کے نام خطوط علامہ غلام احمد پرویز تبویب القرآن علامہ غلام احمد پرویز تصوف کی حقیقت علامہ غلام احمد پرویز تحریک پاکستان کے گمشدہ حقائق راشد شاذ دین بنام فقہ راشد شاذ دین بنام تصوف راشد شاذ ایک نئے عہدظلمت کی دستک راشد شاذ اک نئی ابتدا کا اہتمام راشد شاذ حقیقی اسلام کی بازیافت راشد شاذ ہم کیوں اسیادت سے معزول ہوئے راشد شاذ اسلام میں تفسیروتعبیر کا صحیح مقام حافظ عنایت اللہ اثری وزیرآبادی عیونُ زمزم فی میلاد عیسی ابن مریم رحمت اللہ طارق منسوخ القرآن ابوالحارث محمد عصمت ابو سلیم اہل سنت کی کتب میں شیعہ راویان القرآن العظیم والتحریف بالروایات والقرا ٔات
آئینہ تاریخ طب
آئینہ تاریخ طب پیش لفظ مختلف طبی، تاریخی اور ادبی موضوعات پر میرے تقریبا ڈیڑھ سو مقالات رسائل و مجلات میں شائع ہو چکے ہیں۔ اکثر احباب کا مجموعہ کی صورت میں ان مقالات کی اشاعت کے لیے اصرار رہا۔ طبی تقدمے“ کے نام سے جب دوسرے مصنفین کی کتابوں پر لکھے میرے ۳۵ مقدے کتابی شکل میں شائع ہوئے تو اس اصرار میں مزید اضافہ ہوا۔ مطبوعہ مضامین کا جو گذشتہ چالیس برس پر پھیلے ہوئے ہیں، جب میں نے انتخاب کرنا چاہا تو طب، تاریخ، تذکرہ اور مطالعہ بھوپال پر اتنی تعداد میں مضامین سامنے آئے، جنہیں الگ الگ عنوانات کے تحت چار پانچ جلدوں میں مرتب کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ کا یہ پہلا انتخاب ہے جو تاریخ طب سے متعلق ہے۔ تاریخ طب کے اس آئینہ میں نہ صرف یونان اور عرب میں طلب کی رفتار ترقی خاص کر عہد عباسی سے قبل کی صورت حال کا عکس دیکھا جا سکتا ہے، بلکہ ہندوستان میں عہد سلطنت میں طب کے جائزہ کے ساتھ طب کے منظوم سرمایہ ، طب یونانی اور طب چینی کے روابط ، ہندو ایران اور ہندو ازبکستان کے طبی رشتوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ہندو پر نکال کے طبی رشتہ پر بھی میرا ایک مقالہ ہے جو ڈ سلوا خاندان کی طبعی و علمی خدمات پر محیط ہے۔ اسے پیش نظر جلد میں نہ شامل کرتے ہوئے بھوپال کی طبی تاریخ پر مشتمل مضامین کی دوسری جلد کے لیے محفوظ کیا گیا ہے۔ عربی عہد کے دور ترجمہ سے متعلق قسطا بن لوتا کا ایک مضمون اس اشاعت میں شریک ہے۔ اس عہد کے ترجمان دو اور مضمون تقدمہ بیت الحکمت کی طبی خدمات ” اور ” تقدمہ ذخیر ہ ثابت بن قرہ” ہیں، جنہیں اس سلسلہ کی کڑی کے طور پر طبی تقدے ” میں پڑھا جا سکتا ہے۔ اس مجموعہ میں ہندوستانی عہد کے بعض دوسرے گوشوں پر بھی مضامین شامل ہیں مثلاً “طب یونانی ہندوستان میں، ٹونک کا طبی ذخیرہ، طب یونانی ۱۹۰۱ ۱۹۴۷ء تک، بیسویں صدی میں اردو کی طبی کتابیں، تحریک آزادی میں خاندان عزیزی کا حصہ یا شفاء الملک طبی تحریکات کے آئینہ میں”۔ ان موضوعات پر یہ بنیادی تحریریں ہیں، ان پر اس سے پہلے مشق سخن نہیں کی گئی تھی۔ امید ہے یہ حقیر کاوش اہل علم کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گی اور اس سے طبی تاریخ کا مطالعہ فروغ پائے گا۔ Download Link
معالج و مریض کے درمیان ہم آہنگی کیوں ضروری ہے؟
معالج و مریض کے درمیان ہم آہنگی کیوں ضروری ہے؟ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو معالجاتی زندگی میں معالج و مریضوں کے درمیان بہت سے مشکل مراحل آتے ہیں ایک بہتر معالج وہ ہوتا ہے جو یہ سمجھ سکتا ہوں کہ مریض کی /ضروت کیا ہے اور اسے کس طرح حل کیا جاسکتا ہے۔ علاج و معالجہ کی دنیا میں نسخہ جات و مجربات کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور معالج کی حذاقت اس کی بیاض یا اس کے ڈائری میں لکھے ہوئے نسخہ جات سے لگایا جاتا ہے۔اس کے پیچھے کونسی نفسیات کام کرتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ زیادہ نسخہ جات جمع کرنا اور مجربات کے پیچھے بھاگنا دراصل معالج کے لئے یک گونہ احساس کمتری کا سبب ہوسکتا ہے۔کیونکہ حاذق لوگ نسخہ جات کے پیچھے نہیں بھاگتے بلکہ نوقت ضروت وخود نسخہ جات ترتیب دیتے ہیں۔جہاں جس کی قسم بھی ضرورت ہو دستیاب اشیاء سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔معالج کے لئے نسخہ سے زیادہ مریض اور اس کی ضرورت کا ادراک ہونا چاہئے کہ اپنی حزاقت اور تجربہ کی بنیاد پر دیکھے کہ مریض کی ضرورت کیا ہے؟۔ اور میرے پاس کونسی ایسی چیز غذا و خوراک۔جڑی بوٹی یا ادویہ مرکبہ موجود ہیں کہ مریض کی ضرورت پوری کرسکوں۔کچھ لوگ بے اصولی سے کام لیتے ہیں۔اور کوئی بھی نسخہ پوچھے تو فورا دس پانچ چیزیں لکھ کر تھمادیتے ہیں کہ یہ نسخہ بنا لینا، نسخہ بنانے اور اسے طبی اصولوں کے مطابق تیار کرنے میں ایک مہارت درکار ہوتی ہے۔اگر ہر کوئی نسخہ تیار کرنے اور اسے بوقت ضرورت استعمال کرنے کا ہنر جان جائے تو طبیبوں حکمیوں کے پاس کون جاتا ہے۔سب لوگ خود ہی علاج نہ کرلیں؟۔ اس روش نے معاشرہ میںبے یقینی کو عام کردیا ہے،بالخصوص پاکستان اور ہندستانی معاشرہ میں ہر دوسرا انسان معالجاتی تجربات کا ایک پنڈورا بکس اٹھائے پھرتا ہے۔ اگر معالج سمجھے کہ مریض علمیت بکھیر رہا ہے اور کسی طرح معالج سے مطمئین نہیں ہورہا تو علاج کے بجائے اس سے معذرت کرنا بہتر ہوتاہے۔
عرب و ہند کے طبی تعلقات
عرب ہند کے طبی تعلقات عرب و ہند کے درمیان تاریخ کے قدیم دور سے گوناگوں تعلقات در وابط تھے، اور دونوں ملکوں کے باشندے ایک دوسرے کے عادات و اطوار اور تقالید و روایات سے واقفت اور متاثر تھے۔ ان میں دوسرے تعلقات کی طرح طبی تعلقات بھی اتنے ہی قدیم تھے۔ اس مضمون میں ان طبی تعلقات ہی پر کچھ روشنی ڈالنا مقصود ہے۔ طب و حکمت اور دوسرے علوم میں ہندستان کی قدیم شہرت ہندستان قدیم زمانے سے معدن علم و حکمت مانا جاتا ہے۔ یہاں کے علوم و فنون مثلاً طلب و حکمت نخجوم و هیئت حساب و هندسه موسیقی ، سحر عزائم خائیل ، طلسمات، نیر نجات، وغیرہ دنیا کی تمام قوموں میں مشہور تھے۔ مسلم مصنفین نے اپنی کتابوں میں یہاں کے ان علوم وفنون کے بارے میں بڑے قیمتی خیالات و آراء درج کیے ہیں ۔ قاضی صاعد بن احمد اندلسی نے طبقات الالم میں ہندستان کے مختلف علوم وفنون کے ناز کرے کے بعد یہاں کے علم وطب کے بارے میں لکھا ہے کہ ابن ہند فن طب میں دنیا کی تمام قوموں سے زیاد علم رکھتے ہیں، دواؤں کے قومی، مولدات کے طبائع ، اور موجدات کی خاصیات میں ان کو سب سےزیادہ بصیرت حاصل ہے ۔ ابو حامد غیر نامی نے تحفۃ الاحباب میں لکھا ہے کہ اہل بند طب نجوم ہندسہ اور ایسے ایسے عجیب غریب فنون و صنائع میں سب سے زیادہ علم رکھتے ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا ان پر قدرت نہیں رکھتا پر ہندستان کے پہاڑوں اور جزیروں میں عود، کا فور عطور بخور کے درخت پیدا ہوتے ہیں۔ نیز فلفل لدار عرب بند کے حتی تعلقات سنبل، دارمی را ایلوا الا یاب ها را تلف انواع اقسام کی باری باریاں اور دوا میں پیدا ہوتی ہیں۔ جاحظ نے رسالہ نخر السودان علی البیضان میں لکھا ہے کہ اہلِ ہند فن طب میں سب سے آگے مانے گئے ہیں۔ ان کے یہاں طبی اسرار در موزا اور چٹکلے ہیں۔ عام بیماریوں کے لیے آسان علاج ہے۔ اسی طرح تیات دارجاع کے علاج میں نیز ان کے یہاں زود اثر منتر ہیں، نیز سحرا اور علاج بالتدفین میں وہ ماہر مانے جاتے ہیں ۔ ابن خرداز بہ نے کتاب المسالک والمالک میں خاص طور سے یہاں کے سحر منتر ، فرائم ، تخائیل طلسمات کے بارے میں لکھا ہے کہ اہل ہند کا گمان ہے کہ وہ رقیہ اور منتر کے ذریعے سے جو چاہیں، حاصل کر سکتے ہیں، حتی کہ اس سے زہر پلاتے اور نکالتے ہیں ؛ اوہام وعزائم کے ذریعہ سے حل و عقد کرتے ہیں، نفع و نقصان پہنچاتے ہیں، اور ایسے ایسے خیالاتی کرتب ظاہر کرتے ہیں جن کو عقلمند آدمی دیکھ کر حیرت میں پڑ جاتا ہے ۔ وہ بارش کے روک دینے کا بھی دعا کرتے ہیں۔ ان تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کے اظہار و حکماء علاج بالا دو یہ والعقاقیر کے ساتھ علاج السحر الفرائم میں بھی عالمی شہرت رکھتے تھے، اور علاج کے ان دونوں طریقوں کا عام رواج تھا۔ ہم انھیں کو مادی علاج اور روحانی علاج سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں ۔ قدیم عربی طب و اطباء : زمانہ قدیم سے ہندستان کے کئی طبقے عرب میں موجود تھے۔ ان میں زیر یعنی جاٹ سا بچہ بی پروا اساورہ، امامرہ اور عید کی مستقل سکونت مشرقی سواحلی علاقوں میں تھی ، اور مین ہجر لطیف یا بحرین، اومان میں ان کی اچھی خاصی تجمعیت تھی ۔ یہ لوگ اپنی دوسری موروثی روایات و اختیارات کی طرح علاج و معالجہ میں ہندی طب اور طریقہ علاج سے بھی کام لیتے تھے اور مقامی عرب باشن ہے بھی اس سے فائدہ اٹھاتے تھے ۔ ویسے عربوں میں بھی ان کے قبائلی اور روایتی علاج کا رواج تھا، جو فنی اور علمی نہیں بلکہ تجرباتی اور موروئی تھا۔ ان کے یہاں کچھ ایسے اطباء و حکماء بھی تھے جو موروثی طلب اور طریقہ علاج کے ساتھ سنی اور علمی طب بھی جانتے تھے، اور اس بارے میں انھیں شہرت و مقبولیت حاصل تھی ۔ چنانچہ عہد اسلام سے قریب کے زمانے میں حارث بن کلدہ کتاب یہاں سے حاصل کریں
فلاسفہ-قدیم-از-نیاز-فتح-پوری//Philosopher-Ancient-Az-Niyaz-Fath-Puri
فلاسفہ-قدیم-از-نیاز-فتح-پوری نیاز فتح پوری صاھب لکھتے ہیں بسم الله الرحمن الرحيم مصر کے ایک مشہور عالم جنانجنا ز نے بیت اجتماعی کے نقائص و محاسن اور ضرورت انقلاب پر نہایت دلچسپ تبصرہ کیا ہے اور یکار و فلاسفہ قدیم کے خیالات کو ایک اسلوب بدیع کے ساتھ پیش کر کے نوع انسان کی ترقی کے حقیقی ذرائع پر روشنی ڈالی ہے ایک رات مشہور ماہرین طبیعیات اور علما ئے اجتماعیات سے رومانی ملاقات کی گئی، اور سات گھنٹہ تک یہ خلوت قائم رہی ، سب سے پہلے سرا اولیور لاج نے اہل جلسہ کے سامنے تقریر کی۔ عالم رئویا کی عدیم النظیر ملاقات حضرت !! نیاز فتح پوری کی کتابیں | ریختہ اوریہ ایک ایسا جلسہ ہے جس کو بشریت کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی ، کیونکہ یہ نقطہ ہے جہاں سے تاریخ عمر نیات کی رفتار کا رخ بدلتا ہے، اور انسانی آزادی کی طرف پہلا قدم اُٹھتا ہے ۔ مورخین و ارباب سیاست نہایت احترام سے اس جلسہ کا ذکر کیا کرینگے، کیو ن آج آنکھوتم اکابر عالم سے ملاقات کردینے والے ہو یہ اکابر وہ علما ہر فلاسفہ ہیں ، جو اپنے اپنے رمانہ میں غیر معمولی احترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے اور آج ہم انھیں کی مدد سے انسانیت کی بنائے مقدس کا سنگ نیاور کہتے ہیں آپ کو معلوم ہے کہ طلب حقیقت میں فلاسفہ کہیں خلوص و صداقت سے کام لیتے ہیں ۔ حق کی محبت اور انسانیت پر خلقت کرنا ان کا خاص نصب العین مسلم آپ کو معلوم ہے کہ میں نے انسانیت کی خدمت میں پچاس سانی صرف خاص نصب العین ہے آپ کو معلوم ہے کہ میں نے انسانیت کی خدمت میں پچاس سال صرف کئے ہیں اور میرے تمام اکتشافات جو اس طویل مدت میں حاصل ہوئے ہیں آج اس جلسہ کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش ہونے والےہیں ۔ آج کی رات تم کنفو شیویس، زردشت افلاطون ، ابن سینا، اعطینوس دیکارت ، یکن ہیں ، اور دیگر کمار سے مکالمہ کرو گے مم اور موجودہ مصائب انسانی دور کرنے کے لیے ان کی رائے معلوم کر سکو گے آج ! آج ! فرانس کی فضا پر صحیح انسانیت طلوع ہونے والی ہے ، اور اس رات کی تاریکی میں ایسا نور لکھنے والا ہے جس کے بعد کبھی رات نہ آئے گی ، اب تم کو چاہئے کہ نہایت سکون و احترام کے ساتھ دنیا کی وان عظیم ہستیوں کا خیر مقدم کرین ! ا52.3لیویر نے یہ کمگر ایک برقی بین و با یاجس سے بجلی کی روشنی گل ہو کر عکس روز مرد و شما میں انتہائی درخشانی کے ساتھ چلنے لگیں اور ان حکماء کی رو میں موجو د ہوگئیں جن کا نام الیور لاج نے اپنی تقریریں لیا تھا، انھیں کے ساتھ ٹالسٹائی، اوکا یا مارکوزین، ابن رشد، اکو نیاس امونیوس مفاس المنوس یولن رویا مبلیوس سکند باشن ، کنٹ، دید رو گیلو، اسپنسر وغیرہ کا حلقہ کئے ہوئے تھے، اس مجمع میں ہے نہ کسی نے سلام کیا اور نہ کسی کوسلام کیا گیا بل صف تبادل نظر سے کام لیا گیا، ارس جماعت کا تریبان، اولیور لاج تھا جب حسب ذیل تقریر کی :۔ کیا اور تکلمین کا اتفاق ہے کہ تمام انسانی اعمال کا تعلق تعیین اور صور سے ہے تبلیسین سے مراد عورت وحکومتے ، اور مصحور سے مذہب . پہلے قطب میں نسائیات کے تمام مسائل دمسئلہ ازدواج خاندان نسل اور تربیت وغیرہ) وائل ہیں دوسرے قطب سے حکمراں طبقہ کا تعلق ہے جس میں ہر قسم کی حکومتیں اور ہر نوع کا نظام حکومت شامل ہے دین یا نہ سب ان دونوں کو آپس میں ملاتا ہے اور قدیم زمانہ سے ان دونوں کا فیصلہ ارباب ذہب ہی کے ہاتھ میں رہا ہے، خورد بادشاہ مذہبی احکام کی رو سے تعین کیا جاتا تھا، نہ ہیب ہی اس کو معزول کرتا تھا دین ہی کے نام سے لڑائیاں ہوتی ہیں ، اور دین ہی کے نام سے صلح کی جاتی ہے، نکاح کی حقیقت اسی طرح نکاح ہمیشہ سے ایک مذہبی چیز خیال کیا جاتا ہے اور مسائل نکاح، ولادت، میراث وغیرہ سب امور دینیہ میں داخل ہیں ۔ لیکن اب اجتماع بشری دین سے آزاد ہوتا جاتا ہے پھر اس کا سبب نہیں ہے کہ دین سے اسکو تختی سے اور اس کے احکام سے اسکو نظر ہے، یک یہ نتیجہ نے محض تقسم عمل کا جوار نگار اجتماعی سے پیدا ہوتا ہے اب تک دنیا کی بعض قومیں اجتماعیات میں خالص نہ ہب کی پابند ہیں لیکن عام طور پراجتماعیات میں دینی مداخلت کم ہوتی جاتی ہے ، اور اب سواد اعظم ، دیناوں اجتماعیات کو ایک دوسرے سے علیحدہ سمجھنے لگا ہے، جو کچھ میں نے کہا ہے اس سے وہ تمام حکما ء واقف ہیں جو اسوقت اجتماع انسانی کے عظیم الشان مسائل میں ہماری رہنمائی کرنے والے ہیں۔ اور ہے پہلے ہم مشہور چینی فیلسوف کا خطبہ سنتے ہیں ،