ہپاٹائٹس(سوزش جگر)کیاہے؟ What is hepatitis?حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میوبسم اللہ الرحمن الرحیممقدمہقارئین ایک کہاوت مشہور ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے جب انسان کسی تکلیف دکھ دردیا پیچیدہ مسائل میں گھر جائے تو ان مسائل کے حل کے لئے اپنی تمام تر توانیاں صرف کرنی شروع کر دیتا ہے۔مثلا و باغ بدن انسان کے ذرہ ذرہ سے ہر وقت خبریں حاصل کرتا رہتا ہے ہر عضو کی ضروریات اور مشکلات کو حاصل کرتا رہتا ہے اب دماغ بدن سے حاصل کی گئی ہوئی معلومات، مطالبات اور مشکلات کے حل کے لئے من و عن دل کے پاس بطور حکم بھیج دیتا ہے۔ جب دل کے پاس دماغ سے بطور حکم پیچیدہ مسائل کے حل کے لئے حکم آتا ہے تو دل اسے اچھی طرح سمجھتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ اسے کس طریقے سے حل کیا جائے جو نہی دل فیصلہ کرتا ہے تو فورا اپنے ماتحت عضلات کو حرکت میں لاکر اپنے فیصلہ کو عملی جامہ پہنا دیتا ہے یعنی بدنی ضروریات پوری کر دیتا ہے یا انہیں حل کر دیتا ہے۔ ایک اہم حقیقت کا اظہار قارئین اس حقیقت کو ذہن نشین کرلیں کہ جب کوئی انجینئر یاجانا کٹس اورمکینک موٹر یا انجن بنا لیتا ہے تو وہ موٹر یا انجن اس وقت تک نہیں چلتا جب تک اسے بجلی کا کرنٹ یا پیٹرول وغیرہ نہیں ملتا بالکل یہی صورت دماغ اور دل کی ہے یہ مخصوص غذا کھاتے ہیں اور انہیں ان کی مخصوص غذا جگر تیار کر کے دیتا ہے جو خون کے ذریعے سب کو ملتی رہتی ہے چنانچہ ثابت ہوا کہ دماغ اور دل اپنے افعال اس وقت تک ادا نہیں کر سکتے جب تک انہیں جگر کی طرف سے ان کے مزاج کی غذا نہیں مل جاتی دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ دماغ اور دل کے افعال اس وقت تک فائدہ نہیں اٹھا سکتے جب تک جگر کی طرف سے ان کو غذانہیں مل جاتی۔ اس حقیقت کو استاد محترم حکیم انقلاب المعالج صابر ملتانی نے اپنی کتاب تحقیقات و علاج سوزش و اورام کے مقدمہ میں قرآن حکیم سے تحریر کیاہے(لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ(الاعراف)ان کے لئے دل ہیں لیکن وہ سمجھتے نہیں ان کے لئے آنکھیں ہیں۔ لیکن وہ دیکھتے نہیں ان کے لئے کان ہیں مگر وہ سنتے نہیں” مندرجہ بالا آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ جس قسم کی بھی مشکلات ہوں یا پیچیدہ مسائل ہوں انہیں دل سمجھتا ہے اور ہر قسم کے فیصلے کرنا ہے اور ضرورت کے مطابق نئی نئی ایجادات دل ہی کرتا ہے اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے ۔ استاد محترم صابر ملتانی کے دل نے بھی ہپٹا ئیٹس کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ یہ غدد جاذبہ کے تیز اور غدد ناقلہ کے کمزور ہونے کے نتیجے میں ہونے والی سوزش جگر ہے۔ زیر نظر مضمون لکھا جارہا ہے وہ سوزش جگر اور ڈاکٹری میں ہپٹا ئیٹس ( Hepatitis) کہلاتی ہے یہ اب پیچیدہ اور خطر ناک صورت اختیار کر چکی ہے اور ڈاکٹروں کی نظر میں تو لا علاج ہے۔ حقیقت میں یہ نہ تو انتہائی پیچیدہ ہے اور نہ ہی لا علاج ہے البتہ تکلیف دہ ضرور ہے اور قانون مفرد اعضاء میں اس کا شافی علاج بھی ممکن ہے۔ ڈاکٹروں نے اس کا باعث پانچ قسم کے وائرس تحقیق کئے ہیں جنہیں وہ مختلف ٹیسٹوں سے تشخیص کرتے ہیں ان کے مطابق علاج تجویز کرتے ہیں جس سے وہ تقریب ناکام ہیں یہی وجہ ہے کہ جو نہی کسی مریض میں ہپٹا ئیٹس (Hepatitis) کا شبہ ہوتا ہے تو اس سے نہ صرف خود خوف زدہ ہو جاتے ہیں بلکہ اس کا دوسرے سے بھی حقہ پانی بند کرا دیتے ہیں ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا تو در کنار بیوی بچوں سے بھی دور رہنے کی ہدایت کرتے ہیں یہ سب کچھ ہپٹا ئیٹس کی صحیح تشخیص نہ ہونے اور علاج(ہپٹا ئیٹس اورقانون مفرد اعضاء11)میںصحیح تشخیص نہ ہونے کی وجہ ناکامی کے نتیجہ میں خوف پیدا ہوا ہے۔ قارئین یہ کائینات کون و فساد سے مرکب ہے جہاں جہاں کوئی چیز پڑی ہوئی ہے اس میں شکست ور سخت ہر وقت جاری ہے اور وقت گذر نے کے ساتھ ساتھ اس میں کیمیائی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ہم روزانہ روٹی پکانے کے لئے آٹا گوندھتے ہیں گرمی کے موسم . میں گوندھا ہوا آنا گھر کی ضرورت سے جگا جاتا ہے بعض اوقات گرمی کی زیادتی سے صبح تک اس آٹا میں خمیر پڑ جاتا ہے اور وہ کھٹا ہو جاتا ہے اگر اسے استعمال نہ کیا جائے اور اسی طرح پڑارہنے دیا جائے تو دوسرے دن اس میں مزید خمیر پڑ کر تعفن ہو جاتا ہے اگر اب بھی اسے وہیں پڑارہنے دیا جائے تو اس میں سرانڈ کیڑے پیدا ہو نا شروع ہو جاتے ہیں ڈاکٹری اصطلاح میں انہیں ہی وائرس یا جراثیم کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی برتن میں گیلے اور مرطوب مادہ کو چند دن گرم ماحول میں پڑارہنے دیا جائے تو اس میں خمیر درد خمیر سے کیڑے اور جراثیم پیدا ہو جاتے ہیں بالکل یہی صورت ہمارے جسم میں پیدا ہو جاتی ہے تو اس میں بھی جراثیم یا وائرس پیداہو جاتے ہیںاس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جسم انسان کے وہ اعضاء اندرونی جو فضلات ( فاضل رطوبات کو خارج کرنے پر معمور ہیں جب بعض مخصوص اسباب کی وجہ سے فاضل رطوبات کو بدن سے خارج نہیں کر پاتے تو وہ رطوبات جہاں رکتی یا جمع ہوتی ہیں تو وہاں ان میں خمیر سے تعفن ہو کر سڑاند پیدا ہو جاتی ہے کچھ دن بعد اس سڑاند سے کیڑے بننے شروع ہو جاتے ہیں ان جراثیم کو ہی ڈاکٹر حضرات باعث مرض جانتے ہیں حالانکہ سب سے پہلے کسی عضو نے فاضل رطوبات کو نکلنے نہ دیا بلکہ جسم میں روک دیا پھر اِن میں خمیر یا تعفن ہوا پھر اس متعفن رطوبات میں کیڑے (جراثیم) پیدا ہوئے جنہوں نے انسان کو مریض بنا دیا۔ متعفن رطوبات یا جراثیم کا علاج استاد محترم حکیم انقلاب المعالج دوست محمد صابر ملتانی نے اپنی کتاب ” فرنگی
میو قوم کو تعلیمی ارتقاء
میو قوم کو تعلیمی ارتقاء حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔منتظم اعلی ۔سعد ورچوئل سکلز پاکستان/سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ۔ پڑھانو پڑھانو ایسو راستہ ہے جاپے چل کے انسان جہاں چاہے جاسکے ہے۔۔جادو کی اُو چھڑی ہے جا کی ساہیتا سو کوئی بھی بند دروازواہ کھولو جاسکے ہے۔ایسی چیل گاڑی ہے جاپے بیٹھ کہیں بھی جائیو جاسکے ہے۔میو قوم صدین تک پڑھنا پڑاھا اور تعلیم و تعلم سو دور رہی۔یا دوری نے یہ میو قوم ترقی اور زمانہ کے ساتھ چلن سے سو بھی الگ کردی۔آج میو قوم کا سپوت تعلیم کا لحاظ سے بہت گھنا پڑھنا پڑھانا میں لگا ہوایا ہاں۔دوسری قومن کی طرح یا قوم نے بھی ای بھید ڈھونڈ لئیو ہے کہ تعلیم کے بنا کوئی ماجنو نہ ہے۔پڑھنگا تو بچنگا۔پڑھنگا تو آگے بڑھنگا۔یا میں شک نہ ہے کہ تعلیم انسان اے آگے بڑھاوے واکا سر پے عزت کو تاچ پہراوے ہے۔۔لیکن کچھ لوگ خاص رہوا ہاں۔جن سو خدا اچھا چھا کامک لیوے ہے۔اُ ننے پڑھن پڑھان پے لگا دیوے ہے۔میون میں ایسا گھنائیں لوگ موجود ہاں جو اللہ کی رحمت سے پڑھا لھا ہاں۔ہم پڑھا لکھا لوگن نے کئی حصان میں بانٹ سکاہاں۔ میو قوم کا تعلیمی ادارے اور ان کا مقصد۔ (1)عام پڑھا لکھا لوگ۔جنن نے پرحو لکھو اور کام دھندا نوکری میں لگ گیا۔اور ساری زندگی بیل کی طرح گزاری۔اور قوم کا مہیں منہ پھیر کے بھی نہ دیکھو۔گو کہ میو ہونا کی حیثیت سو یہ بھی قابل قدر ہاں ۔لیکن انن نے قوم کے مارے کچھ بھی نہ کرو ہے،ایک عام میو طرح ان کو بھی عزت ملے ہے۔کوئی خآص فرق نہ ہے ۔قوم کی اِنن نے فکر ۔نہ قوم اے اِ ن کی فکر اللہ اللہ خیر صلا۔(2)دوسری قسم کا وے لوگ ہاں۔جو پڑھن لکھن سو پیچھے نوکری یا کاروبار میں لگا عہدہ چھوٹو بڑو نہ رہوے ہے۔قوم کے مارے اہمیت یا بات کی رہوے ہے کہ جا شعبہ میں کام کررو ہے ۔کام (نوکری) کے دوران قوم کے مارے کہا کرو؟۔جو کچھ بن پڑو ۔کردئیو۔ضروری تو نہ ہے کہ ہر کام ای پورو ہوئے۔۔۔یہ لوگ مان سمان کا مستحق ہاں۔میو قوم اپنا محسنن نے کدی بھی نہ بھولے ہے۔(3)وے لوگ جنن نے تعلیم و تعلم ۔پڑھنو پڑھانو۔اپنی زندگی کو حصہ بنا لئیو۔ادارہ کھولا۔وہ دینی مکاتب ہوواں یا دنیاوے تعلیم کا سکول و کالج اور فنی ادارہ۔۔اپنی میو قوم کے مارے آسانی پیدا کرنا کی کوشش کری۔میون کو ترجیح دی۔ان کے مارے تعلیمی میدان میں آں والی مشکلات میں آسانی کی کوشش کری۔ایسا لوگ میو قوم کا محسن۔ہاں سر ماتھا پے بٹھایا جانا کا مستحق ہاں ۔ایسا لوگن نے جو قدر نہ کرے گو سمجھو وانے اپنا ہیرا جواہرات کی بھی قدر نہ کری۔کوئی قدر کرے یا نہ کرے۔عزت کرنو اور ان کو مان سمان دینو قوم پے فرض بھی ہے قرض بھی ہے۔(4)یہ ایسا لوگ ہاں۔جنن نے میو قوم کے مارے جدید دنیا کا راستہ کھولن کی کوشش کری اور فنی و ٹیکنیکل ادارہ بنایا۔یا پھر ایسا اداران میں ملازمت اختیار کرے۔اور میو قوم کا بالکن کے مارے ایسا مواقع پیدا کرا کہ وے فنی ٹیکنیکلی تعلیم حآصل کرسکا ں۔کیونکہ آج کال عزت انسان کی نہ ہے واکا ہنر اور اپنی ضرورت کی ہے۔جتنو کوئی زیادہ ہنر مند ہوئے گو،لوگن کی ضرورت بنے گو۔دوسری بات ای ہے کہ ہنر کی سبن نے ضرورت رہوے ہے۔خدمت کا صلہ میں معاوضہ ادا کرے ہے۔کچھ لوگ فیصل آباد۔کراچی، لاہور،قصور وغیرہ شہرن میں موجود ہاں جو اپنی خدمات میو قوم کے مارے مہیا کراہاں۔واٹس ایپ گروپ۔فیس بک۔وغیرہ پے بہت سا اشتہار دیکھن کو ملاہاں۔اور میو قوم کا جوانن کو آفر دیواہاں کہ میو قوم کا ہونہارن نے بھیجو جاسو ہم ان کو فنی تعلیم دے سکاہاں۔(5)وے لوگ ہاں جو اپنا ہنر فن اور تعلیم اور تجربہ اے دوسران کو بتاواہاں ۔ایسا لوگن نے ہاتھ پکڑ کے چلاہاں جو نادار کم وسائل ہاں، غربت کی زندگی گزار راہاں۔ان کے مارے کارو بار ۔ان کی اولاد کےئ مارے تعلیم۔ان کا اخراجات کے مارے وسائل مہیا کراہاں۔ایسا لوگ غریبن کی جھونپڑی میں دِیا جلانا کی کوشش کراہاں۔ایسا لوگ بھی اٹھ کے قوم اے اٹھانا کی کوشش کراہاں۔(6)میڈیکل کی فیلڈ۔یا فیلڈ میں بہت سا میو موجود ہاں۔لاہور میں ورلڈ فاما ۔نانا ذادہ ڈاکتر محمد اسحق میو کو ایک شاندار ادارہ ہے۔میون کے مارے بہت سی رعایت دیواہاں۔اگر کائی میو کا حوالہ سو کوئی میڈیکل کو طالب علم اوے ہے تو خصوصی توجہ اور فیس میں مناسب حد تک کمی بھی کراہاں۔درلڈ فارما۔کو نئیو کیمپس دیکھن والی چیز ہے ۔شاندار لوکیشن۔بہترین سہولیات۔جدید لبارٹری۔ وسیع و عرض کلاس رومز،کانفرنس حال یعنی جدید انداز میں تعلیمی ادارہ کے لئے لوازمات سب موجود ہاں۔داکٹر صاحب کو فون آئیو ہو جانو بنے ہے لیکن لکھن لکھانا کا بکھیڑان سو فرصت نہ مل ری ہے۔یا بارہ میں تفصیل سو پھر کدی لکھونگو۔جاری ہے
مریض کوموسم کے مطابق غذا و دوا مقرر کریں
مریض کوموسم کے مطابق غذا و دوا مقرر کریں/ /Prescribe food and medicine according to the patientانسانی زندگی میں غذا و خوراک کو بنیادی حیثیت حاصل بالخصوص علاج و معالجہ کے دوران اس کی اہمیت اور بھی برھ جاتی ہے۔موسم اور علاقائی ماحول کو غذاو دوا کے گہرا تعلق ہوتا ہے،جو معالج یا عام انسان کائنات کے اس راز کو سمجھ لیتا ہے۔وہ صحت کے میدان میں کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔۔۔یہ کلیہ بیرونی /اندرونی طورپر اہمیت رکھتا ہے جو لوگ اس کلیہ اور راز کو فراموش کردیں۔وہ پریشانی سے دوچار ہوتے ہیں۔ دیکھئے
اردو میں مفت اسلامی کتابیں
اردو میں مفت اسلامی کتابیںاس جگہ سینکڑوں کتب موجود ہیں جو ایک کلک کی مدد سے اس کتاب کو پڑھ بھی سکتے ہیں۔اور ڈائون لوڈ بھی کرسکتے ہیں ۔دستیاب کتا ب بہترین کمپوزنگ میں موجود ہوتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کتاب ہاتھوں میں ہے جس کی فہرست اور عنوان صفحات کچھ بھی ایک کلک میں کھول سکتے پڑھ سکتے ہیں۔کچھ کتب کا فارمیٹ ٹیکست میں بھی موجود ہیں۔حؤالہ دینا اور اقتباس لینا بہت آسان ہے۔بہترین اور نادر کتب جنکا صرف نام سنا ہوگا یہاں اردو زبان میں موجود ہیں۔۔ میاں بیوی ایک دوسرے کا دل کیسے جیتیں؟ عمرو عبد المنعم سلیمفلاح کی راہیں ارشاد الحق اثریشرعی طلاق بديع الدين شاه الراشديقبر پرستی دنیا میں کیسے پھیلی؟ محمد داود غزنوىآؤ قرآن سمجھیں عبد العزیز عبد الرّحیمرياض الاخلاق محمد صادق سیالکوٹیدعوتِ اسلامی کو عام کرنے کیلئے صحیح فضائلِ اعمال عبد الخالق صدیقیسماع وقوالى اور گانا وموسیقی (کتاب وسنت اور سلفِ امت کی نظر میں) أبو عدنان محمد منير قمراسلام اور شیعیت کا تقابلی جائزہ حافظ مهر محمد ميانوالوىشيعہ حضرات سے ایک سو سوالات؟ حافظ مهر محمد ميانوالوىاللمحات إلى ما في أنوار الباري من الظّلمات محمد رئيس احمد ندوىافتراق ِ اُمّت (شِيعه وسُنّى) كے بنيادى اسباب محب الدین الخطیبفهم توحيد بارى تعالى کے چار بنیادی اصول محمد بن سعد بن عبد الرحمن الحنينفضائل صحابہ رضی اللہ عنہم صحیح روایات کی روشنى میں حافظ شیر محمدمقام صحابہ رضی اللہ عنہم ارشاد الحق اثریتاريخ وہابیت حقائق کے آئینے میں محمد بن سعد الشويعر لجواب الكافى لمن سأل عن الدواء الشافي (دوائے شافى) شریعت کے مقررکردہ فطری حقوق رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے الوَداعى کلمات (وصیتیں، نصیحتیں، عبرتیں) عقیدہ اہل سنت وجماعت کا بیان اور اسکی پابندى کی اہمیت اسلام ميں نماز کا مقام ومرتبہ ائمہ حنفیہ کی کوششیں شرک اور اسکی وسائل کے بیان میں تعليمِ نماز زبان کی حفاظت حضرت عيسي علیہ السلام سے بے پناہ محبت نے مُجھے اسلام تک پہنچادیا انمول تحفہ أصول السنة کبیرہ گناہ کیا ہیں؟ ایک دن رسول صلى اللہ علیہ وسلم کے گھر میں غلطیوں کی اصلاح کا نبوی طریقِ کار زكاة كى كتاب ہر بدعت گمراہی ہے فقہ صیام درود شريف کے مسائل فرضیت صیام (احکام ومسائل) اقوام عالم کے ادیان ومذاہب اسلام ہی انسانیت کاحل ہے مختصر مجالسِ رمضان تصحیح العقائد بابطال شواهد الشاهد قرآنى معلومات زائرمدینہ کی خدمت میں (مدینہ کی فضیلت اور اسمیں سکونت اور اسکی زیارت کے آداب) خطاؤں کا آئنہ مختصر طہارت کے مسائل برائے خواتین (مستند فتاوى جات اور کتب احادیث سے ماخوذ) نذرونیاز اور دعا کی قبولیت فضيلتِ اسلام نجات کا راستہ خاتونِ اسلام غیراللہ کی نذورنیاز نصیحتوں کےٍ پچاس پھول رزق کی کنجیاں کتاب وسنت کی روشنی میں نفسياتى وجسمانى صحت كا راستہ (طریقہ) شیطان کی انسان دشمنی، انتباہ اوربچاؤ راہِ ہدایت کیسے ملی؟ روز غضب، زوالِ اسرائیل پر انبیاء کی بشارتیں توراتی صحیفوں کی اپنی شہادت (ايران ، لبنان و خليجي ممالك میں سرگرم تنظیم) حزب اللہ کون ہے؟ اور صلیب ٹوٹ گئی قبروں کی زیارت اور صاحبِ قبرسے فریاد آل واصحاب کی تاریخ کا مطالعہ کیسے کریں؟ صحابہ کرام کا تعارف قرآن اور اہل بیت کے اقوال کی روشنی میں صحبت رسول صلى اللہ علیہ وسلم فضائل امہات المومنین کا تذکرہ عنبریں آل رسول اور اصحاب رسول ایک دوسرے کے ثنا خواں آل رسول اور اصحابِ رسول: ایک دوسرے پر رحم کرنے والے اہل بیت اور صحا بہ کرام کے تعلقات( اسماء اور قرابت داری کی روشنی میں) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ: مختصرسوانح حیات اور آپ پرکئے گئے اعتراضات کے جوابات جنت میں لے جانے والے چالیس عمل طب نبوی أسوہ حسنہ: اختصار زاد المعاد في هدي خير العباد محفل میلاد چند قابل غور نکتے برزخی زندگی اور قبر کے عذاب و آرام کے مسائل اعلام الموقعین عن رب العالمین تلبیس ابلیس توحيد ہم کیسے سمجھیں؟ زندگی سے لطف اٹھائیے! ( اسوہ حسنہ کی روشنی میں زندگی گزارنے کے سنہرے اصول ) مختصر منہاج القاصدین رسوماتِ محرّم الحرام اور سانحہ کربلا مہدی علیہ السلام سے متعلق صحیح عقیدہ فرقہ ناجیہ کا منہج سانحہ کربلا مع کربلا کی کہانی حضرت ابو جعفر محمد باقر کی زبانی منکرین حدیث اور مسئلہ تقدیر دنیاوی مصائب ومشکلات -حقیقت، اسباب، ثمرات مسئلہ تکفیر اہل سنت اور گمراہ فرقوں کے ما بین ایک جائزہ خضاب کی شرعی حیثیت کتاب وسنت کی روشنی میں تاریخ خانہ کعبہ رہنمائے حج اور عمرہ اخلاص کا نور اور اخروی عمل سے دنیا طلبی کی تاریکیاں کتاب وسنت کی روشنی میں کلمئہ طیبہ مفہوم ,فضائل, ارکان وشروط , تقاضے اور منافی امور شیعوں کا اعتقاد هدايت كا نور اور ضلالت کی تاریکیاں کتاب وسنت کی روشنی میں تقوى کا نور اور گناہوں کی تاریکیاں جنت وجہنم کے نظارے (عظیم کامیابی اور کھلا خسارہ) نور وظلمات کتاب وسنت کے آئینہ میں سنت کی روشنی اور بدعت کے اندھیرے کتاب وسنت کے آئینہ میں عبادات ومعا ملات اوراخلاق ميں محمد صلى اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ایمان کا نور اور نفاق کی تاریکیاں کتاب وسنت کی روشنی میں اسلام کا نور اور کفر کی تاریکیاں توحید کا نور اور شرک کی تاریکیاں کتاب وسنت کی روشنی میں افواہوں کی شرعى حیثیت اعتکاف فضائل واحکام ومسائل مع عورت اعتکاف کہاں کرے مسجد یا گھر؟ سود کی تباہ کاریاں کتاب وسنت کی روشنی میں شرح عقیدہ واسطیہ دعا کے آداب وشرائط کتاب وسنت کی روشنی میں مختصر مسائل واحکام حج وعمرہ اور قربانی وعیدین 70 سچے اسلامى واقعات عقیدہ طحاویہ عربی زبان غیر عرب کو آپ کیسے پڑھائیں (اساتذہِ عربی کے لئے رہنما کتاب ) نفسانی خواہشات سے نجات کے ذرائع حج وعمره كا بيان منتخب دعاؤوں کے ساتھ بیوی اور شوہر کے حقوق شادى کی رات كتاب وسنت کی دعائیں مع شرعى دم کے ذریعہ علاج ہم طہارت کیسے حاصل کریں نماز نفل کتاب وسنت کی روشنی میں اهل بيت اور اصحاب رسول كا انتخاب خارجی فرقے کی پہچان آل بيت عليہم السلام کے حقوق شریعت کے آئینے میں اہل سنت کے نزدیک اہل بیت کا مقام ومرتبہ لغات القرآن الكريم المنتقى من منهاج الاعتدال في نقض كلام أهل الرفض والاعتزال [ مختصر منهاج السنة ] معراج رسول صلى اللہ علیہ وسلم پیغمبررحمت صلى اللہ علیہ وسلم آئينہ ایامِ تاریخ اثنا عشری شیعہ کے عقائد متعہ کی حقیقت شیعہ کور
مکتبہ صوفی عبدالحمید سواتیؒ
استادی الکریم شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی قدس سرہ کے کتب کا مجموعہ مکتبہ صوفی عبدالحمید سواتیؒ شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی قدس سرہ کے کتب کا مجموعہ Full text of “Maktaba Sufi Abdul Hameed Sawati ra” تعارف:صوفی عبدالحمید سواتی ماہنامہ نصرۃ العلوم میں تذکرہ مفسر قرآن کے نام سے ایک مضمون قلمبند کیا گیا ہے جسمیں مولانا فیاض خان سواتی صوفی عبدالحمید سواتی کے خاندانی پس منظر کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ شاہراہ ریشم کے کنارے ایک بلند و بالا اور قدرتی دلکش مناظر سے مالا مال سرسبز و شاداب پہاڑکی چوٹی پر ایک چھوٹا سا گاؤں (چیڑاں ڈھکی) کے نام سے یاد کیا جا تا ہے جو کڑ منگ بالا کے اطراف و مضافات میں واقع ہے اور شنکیاری سے بٹل جاتے ہوئے راستہ میں پڑتا ہے اسی پہاڑ کی چوٹی پر موجود چیڑاں ڈھکی گاؤں میں مولوی گل داد خان سواتی اپنے اہل و عیال کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسر کررہے تھے نور احمد خان حضرت صوفی صاحب کے والد گرامی تھے بختاور بیگم حضرت صوفی صاحب کی حقیقی والدہ تھیں۔نور احمد خان کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں ا ور دو بیٹیوں سے نوازا صوفی صاحب کی ولادت 7ء ہزارہ ڈویژن ضلع مانسہرہ کے ایک دیہات نزد کڑمنگ بالا چیڑاں ڈھکی میں ہوئی ۔آپ کا نام عبدالحمید والد محترم کا نام نور احمد خان ا ور دادا کا نام گل احمد خان قوم سواتی (پٹھان) ہے۔ صوفی صاحب نے ابتدائی تعلیم ملک پور مانسہرہ اور بغہ میں شیر اسلام مولانا غلام غوث ہزاروی کے مدرسہ میں حاصل کی اور بٹل کے قریب علاقہ کھکھو میں آپ نے مولوی محمد عیسیٰ صاحب سے قرآن کریم پڑھا۔ بچپن ہی میں والدین کا سایہ سر سے اآٹھ گیا اور آپ نے اپنے برادر بزرگ امام اہلِ سنت شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر صاحب کے ہمراہ حصول علم دین کیلئے مختلف دینی درسگاہوں میں وقت کے معروف اہلِ علم سے اسقفادہ کیا ۔چنانچہ آپ نے میراں شاہ محلہ لاہور میں علم صرف پڑھی۔ اسکے بعد ڈالہ سندھواں ضلع سیالکوٹ میں ا بتدائی کتب صرف بہائی؛ میزان الصرف؛: نحومیر وغیرہ پڑھیں۔ بعدازاں سرگودھا تشریف لے گیے یہاں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی پھر جہانیاں منڈی میں حضرت مولانا حافظ قاری غلام محمد صاحب سے قطبی شرح جامی؛ مقامات وغیرہ پڑھیں۔ 1938ء کے آخر میں استاذ العلماء شیخ الحدیث مولانا عبدالقدیر صاحب مدرسہ انوارالعلوم گوجرانوالہ میں تحصیل علم کرتے رہے۔ 1940ء مطابق 1321ء میں آ پ نے درس نظامی مکمل کرکے سند فراغت حاصل کی۔ دارالعلوم سے فراغت کے بعد دارالمبلغین لکھنؤ میں امام اہل سنت رئیس المناظرین مولانا عبدالشکور فاروقی لکھنوی سے تقابل ادیان کی تعلیم حاصل کی اور فن مناظرہ سیکھا۔ بعدازاں آپ نے نظامیہ طیبہ کا لج حیدرآباد (دکن) میں علم طب چار سالہ کورس کیا اور کالج میں چاروں سال فرسٹ پوزیشن حاصل کی ۔اور فراغت کے بعد کچھ عرصہ تک طب کے ذریعے عوام کی خدمت کی۔آ پ نے ہندو پاک کے متعدد علمائے کرام سے تعلیم حاصل کی۔ جن میں چجند مشہور شخصیات کے نا م مندرجہ لٰیل ہیں۔ ۶۲ ‘”‘۷’۲٢ تود | ٭ەنانصدص10 اقصد ٭ص+ءلل× آمل5 82008۶۰۵٤1۰, 3ص۸٦1۲ہ آ3 مل 6101031 .336-71۰ مم 2017 ءلاخ-ء0 (4) ۷13 (ءصتلہم0) 2520-7121 5[۷٦ 15 ,(اصت۲) 2520-7113 55[(۷۷ صہء. دا ۷٣ع ص زع 9٤0ہ1[:. دہء. ۱ا ۰۲۷ 0زع. ٣۲۷۷۷۷۲۷ مولانا سیدحسین احمد مدنی؛ مولانااعزاز علی صاحبء مولانا عبدالشکور فاروقی لکھنوی؛ مولانا محمد ابراہیم بلیاوی؛ مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی؛ مولانا محمد ادریس کاندھلوی؛ مولانا محمد عبداللہ درخواستی؛ مولانا عبدالقدیر صاحب؛ مولانا مفتی عبدالواحد صاحب؛ گوجرانوالہ آپ کو مولانا اشرف علی تھانوی سے بھی شرف ملاقات حاصل ہے ۔ آپ نے 1952ء میں چھوٹی سی کچی مسجد کی بنیاد رکھی پھر 1960 کے بعد موجودہ بڑی مسجد کی بنیاد بھی رکھی۔ اس مسجد کے ساتھ ہی آپ نے مدرسہ بھی بنایا۔ جہاں طلباء ا ور طالبات کو دینی تعلیم دی جاتی ہے ۔ تاسیس مدرسہ کے بعدہی آپ نے تدریس شروع کی اور درس نظامی میں شامل بیشتر علم و فنون کی تدریس فرماتے رہے بالخصوص حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی مشہور کتاب حجۂ اللہ البالغہ کا تقریباً بتیس مرتبہ دیا۔ حدیث میں آپ نے بخاری شریف مکمل پڑھائی اور تقریباً 50مرتبہ علم شمائل ترمذی؛ 8مرتبہ طحاوی اور موطا امام مالک موطا امام محمد سنن نسائی سنن ابن ماجہ کا تقریباً 7 ء 7 مرتبہ درس دیا۔ آپ نماز فجر کے بعد ہفتہ میں چار دن درس قرآن دیتے رہے جو باوجود علمی ہونے کے نہایت سادہ ہوتا تھا اس میں کسی پر کوئی تعن و تشنیع نہ ہوتی تھی آپ کے اس درس کی بہت شہرت تھی شہر کے اطراف سے لوگ یہ درس سننے کیلئے آتے تھے۔اڑتیس سال تک لگاتار درس کا سلسلہ جاری رہا پھر علالت کی وجہ سے یہ سلسلہ بند ہوگیا آپ ایک بہترین مدرس اور عمدہ خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب تصانیف کثیرہ بھی ہیں۔ انتظامی امور کی مصروفیات کے یاؤجرہ آپکے ال سے:ایسی اد الثان تساایت نی مار پر ائیں جر یلاغیم امت مہ یر کیلتے ایک گزان قدر علمی ذخیرہ ہیں۔ آپ کی چند مشہور تصانیف مندرجہ ذیل ہیں۔ معالم ا لعرفان فی دروس القرآنء (120جلدیں ) دروس الحدیث (مسند احمد) (4جلدیں ) خطبات سواتی (6جلدیں) شرح شمائل ترمذی (2جلدیں) شرح ابن ماجہ (1جلد) شرح ترمذی ابواب البیوع (1[جلد)مباحث کتاب الایمان مع تسہیل و توضع مقدمہ صحیح مسلم ء ترجمہ قرآن کریم (1جلد) مختصر ترین اور جامع اذکار درودشریف ء مقالات سواتی؛ آپ مسلسل 50سال تک جامعہ مسجد نور کی خطابت کے فرائض ادا کرتے رہے اور جمعۃ المبارک کے دن سب سے بڑا اجتماع جامع مسجد نور میں ہی ہوتا تھا۔ خطبہ شروع ہونے سے قبل ہی لوگ ایک کثیر تعداد میں آپ کا خطاب سننے کیلئے انتظار میں بیٹھ جاتے آپ ایک بے باک و حق وگو خطیب تھے ۔ عبدالحمید خان بن نورحمد خان بن گل احمد خان بن گل داد خان مند راوی یوسف زئی سواتی والدین نے آپ کانام عبدالحمید خان رکھا تھا ۔پٹھانوں کی یوسف زئی برادری گوتھ مند راوی سے تعلق رکھتے تھے ۔جنھیں سواتی بھی کہا جاتا ہے ۔ ابو الفیاض آپ کی کنیت اور اختر
وظائف چلہ کے بعد ورد کیوں کیا جاتاہے؟
وظائف چلہ کے بعد ورد کیوں کیا جاتاہے؟عملیات کی دنیا میں چلہ وظائف اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ہمارا موضوع سخن یہ ہے چلہ وظائف کی ادائیگی کے بعد یومیہ جو اوراد کئے جاتے ہیں عملیات میںان کی اہمیت و افادیت کیا ہے؟ عاملین کیوں یومیہ بنیاد پر اپنے عملیات کو کیوں دہراتے رہتے ہیں؟۔ان کے عامل یا عملیات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ایک عامل کی زندگی میں ایک مشق کو باربار کرنا کیوں ضروری قراردیا جاتاہے۔یہاںاس سوال کا جواب دیا گیا ہے۔عقلی و نقلی دلائل سے اس کی اہمیت و افادیت بیان کی گئی ہے۔مزید تفصیل کے لئے دیکھئے
کلیات قانون مفرد اعضاء
کلیات قانون مفرد اعضاء اللہ تعالی نے بےشمارر علوم و فنون انسان کو ودیعت کئے ہیں۔ ساتھ ہیں ہر علم و فن کی کی مبادیات سے بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کسی میں علم وفن کو سمجھنا یا یکھنا چاہیں تو سب سے پہلے اس علم کی ماہیت حقیقت اور مبادیات جانا سجمھنا یا سیکھنا ضروری ہے اور کسی میں علم وفن کی مبادیات سیکھے اور کہے بغیر اس پر عبور حاصل کر نا صرف مشکل ہے بلکہ نا ممکنیہی وجہ ہے کہ ہرعلم ودفن کے حامل اور پیر کارتو ہر گلی کوچہ میں دکانیں کھولے بیٹھے ہیں لیکن ان میں حقیقی ماہر کوئی نہیں کتنا ہی لکھتے ہیں اگر ان سے کوئی ماہر بنیادی سوال کر دے تو ادھر ادھر کی ٹامک ٹولیاں مارنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں اس قسم کی باتوں سے کیا تعلق ہے؟۔ ہم نے روزی کمانی ہے چند ٹوٹکے استادوں سے مل گئے ہیں۔ ان سے رو زانہ اچھے پھلے پیسے اکٹھے کر لیتے ہیں گزارہ میں رہا ہے۔یہ سب علوم و فنون حکمت کی شاخیں ہیں حکمت کے ان بے شمار علوم و فنون میں ایک علم و فن طب بھی ہے جس کی بھی اپنی مباد یات اور اس کے بنیادی قوانین و اصول ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس کے قوانین و اصول دیگر علم وفن سے بہت زیادہ اوردفیق ہیں۔ دوسرے علوم کی نسبت علم و فن طب میں عقلیات کا بہت زیادہ دخل ہے۔ ایک اچھے طبیب کو اکثر کلیات سے جزیات اور جزیات سے کلیات کی طرف آنا پڑتا ہے، کبھی کلی قوانین کے تحت جزوی معلومات سے کلیات اخذ کرتا ہے کبھی جزوی معلومات سے کلیات کو ترتیببا لکل اسی طرح ایک طبیب کو بار بار تصورات قائم کرنے پڑتے ہیں۔ اور فنی معلومات کے تحت دلائل کے ساتھ تصدیقات کی طرف کا پڑتا ہے۔لہذا ہر محقق علم و فن طب اور طبیب کے لئے لازم ہے کہ وہ علوم عقلیات کو بھی اچھی طرح سمجھتا ہوتا کہ ان کلیات و جزیات کے تجریر و ترتیب اور تصورات و تصد یقاتکو عملی جامہ پہنا سکے۔لیکنیہ سب کچھ اس سورت میں ہو سکتا ہے جب وہ علم وفن طب کی مبادیات اور اور اس کی اصطلاحات سے پوری طرح آگاہ ہو۔ طالب علم کو علم و فن کی مبادیات سمجھنے میں بے حد مشکلات پیش آتی ہیں۔ جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مبادیات طب پر آسان فہم اور کس قاعدہ کلیہ کے تحت کوئی کتاب طبی کتب خانوں میں نہیں ملتی ،جوملتی ہیں انہیں ایہ کالجوں میں بھی کسی قاعدہ کلیہ یا کسوٹی کے تحت پڑھایا نہیں جا سکتا میں سے طالب طب کےعلمی حصہ اور عملی حصہ کو اچھی طرح سمچھ نہیں پاتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کلیات طب پڑھاتے وقت طالب علموں کو دو متضاد نظریات ذہن نشین کرانے کی کوشش کی جاتی ہے ان میں اول طب اسلامی کا نظریہ کیفیات مزاج اخلاط کی حقیقت اور ماہیت سمجھانے کے ساتھ ساتھ ان کے بگاڑ سے امراض کی حقیقت ماہیت پڑھائی جاتی ہے جس سے طالب علم کو ذہین اور شعور میں ایک طرف کا ئنات کی ہرشے کی ماہیت حقیقیت ذہن نشین ہو جاتی۔ دوسری طرف ان کے بگاڑ اور خرابی سے امراض کی ماہیت قیمت مصرف ذہن نشین ہو جاتی ہے۔ بلکہ علاج معالجہ بھی بڑے وثوق سے کرنے لگتا ہے۔مزید تفصیل کتاب میں دیکھئے حصؤل کتاب کے لئے یہاں کلک کریں
بد بودار پسینہ آنا،اسباب و علاج
بد بودار پسینہ آنا،اسباب و علاججب اعصابی رطوبات معدہ و خون میں زیادہ ہو جائیں تو کچھ دن بعد ان میں خمیر اور تعفن پیدا ہو جاتا ہے اور جب یہ تعفن شدہ مواد پسینہ کی صورت میں خارج ہوتا ہے تو اس میں بدبو آنی شروع ہو جاتی ہے بعض اوقات تو اتنی بد بو آتی ہے کہ پاس بیٹھنے والا تنگ آجاتا ہے ایسا بد بو دار پسینہ تمام جسم پر نہیں آتا بلکہ بغل کنجران ہاتھ پاؤں کی ہتھلیوں پر آیا کرتا ہے ایسا شخص احساس کمتری کا شکار ہو کر دوستوں میں بیٹھنےکے قابل نہیں رہتا۔ تعفن بننے کا اصولیاد رکھیں کہ تعفن ہمیشہ رطوبات میں ہی ہوا کرتا ہے اور جسم کے اندر یا باہر رطوبات میں تعفن بھی اس وقت ہوتا ہے جب ان رطوبات پر حرارت کا اثر ہو جائے اگر حرارت کا اثر نہ ہو تو پھر رطوبات میں بھی تعفن نہیں ہوا کرتا ایسا قانون مفرد اعضاء میں غدی اعصابی تحریک میں ہوتا ہے کیونکہ اس میں حرارت اور رطوبت دونوں اَکھٹے ہو جاتے ہیں۔علاجغدی اعصابی تحریک کے علاج کے لئے اعصابی غدی سے اعصابی عضلاتی نسخہ جات بے حد مفید ہیں جو نہی رطوبات پر حرارت کا اثر ختم ہوگا ساتھ ہی پسینہ سےبدبو آنی بند ہو جائے گی۔نسخہ جات فارما کو پیا کے نسخہ جات میں سے اعصابی غدی تریاق حب شفاء اور اعصابی عضلاتی میں و جوارش شاہی وغیرہ ضرورت اور موقع کے مطابق دئے جاسکتے ہیں۔ غذا بھی اعصابی غدی سے اعصابی عضلاتی ہی مفید رہے گی۔تمام نسخہ جات اسی کتاب میں آچکے ہیں یہ نسخہ بھی مفید ہےهہو الشافی آب چونا ۵ تولہ صندل سفید نصف تو لۂ گل سرخ نصف تولہ کا فورد و ماشےترکیب تیاری و آب چونا میں تمام ادویہ ملا کر مقام ماؤف پر مالش کریں
کتاب الابدان
کتاب الابدان کتاب الابدان پیش لفظانسانی جسم کی ساخت و اعضات کے باہمی تعلق اور نظام جائے جہان کی تشکیل و ترتیب نیز ان کے ھے ، اس بنا پر علم الابدان کوکے بارے میں همارا قاطه نظريہفی تعلیم میں بنیادی اہمیت کا حامل زمانے میں اہمیت دی گئی ہے۔ اس علوم کی ان در کاخون یعنی علم تشریح اعضا اور علم المال الاعضا کو ایک نصابی مضمون کی حیثیت سے پڑھانا ضروری ه به امریه اب ساری دنیا میں مقبول ہوتا جارہا ہے اور گذشته ۱۰ سال کے عرصے میں متعدد کتابیں ایسی آتی ہیں جن تشریح بدن اور افعال جسم کو اسی مربوط انداز میں زیر بحث لایا گیا ہے ۔زیر نظر کتاب اسی نظریے کے مطابق مدون کی گئی ہے اور اسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ طبی درسگاہوں کے طلبہ کے ساتھ ساتھ مائیل میں نصاب ( پری میڈیکل کورس) کی تکمیل کے دوران بھی اس سے ایک درسی کتاب کے طور پر استفادہ کیاجاسکے ۔ اب کہ جب پاکستان میں قومی زبان اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کا عمل احتیاط سے جاری ہے اور اس فطری اصول کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ اعلا تعلیم کی تحصیل مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنائے بغیر ممکن نہیں ہے ، پلین هے که ” كتاب الابدان هر سطح پر ایک درسی کتاب کی حیثیت قابل قبول هرگیعلم تشریح اور علم افعال اعضا کو طبی علوم میں ابتدائی ادوار میں سے پوری اہمیت دی گئی ہے۔ اس لیے ! دونوں علوم کے ارتقا کا جائزہ بھی ضروری ہے تاکہ قدیم اور جدید دونوں طبی درسگاہوں کے طلبہ اپنے اس ورثے سے بھی کم از کم اجال طور پر واقف پر مارے لائن تدر اسلام نے چھوڑا ہے۔ اس طرح یہ نصابی کتاب حال کے تعلیمی تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اسے ماضی سے مربوط کرنے کا فریضہ بھی انجام دے رہی ہے ۔ اس کتاب الایمان کے میلون په توقع کیے میں که کتب نصابی کے ذیل میں اس انداز کی مالیت کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔سکندر اعظم کے بعد سے کریارا کے عہد تک خاندان بطلیموس حکمران رہا اورتاریخ میں یہ خاندان اطبا اور علمائے تشریح کی قدر شناسی کے لیے خاص شہرت رکھنا هي بطلیموس اول ( ۸۵ وقم) کے زمانے میں دو مشہور طبیب ابروفيلوس EROPHILOS اور اور اس سطراطی (ERASISTATOS) نے لاشوں کی تقلیطع کے فریر سے تشریح کی أهم معلومات پیش کیں ۔ اس زمانے میں یعنی حضرت مسیح سے تقریباً تین سو سال اسکندریہ کی یونی ورسٹی میں ایک بہت بڑا کتب خانہ اور مجالب گھر بھی تھا۔ طب نے اپنے یونانی عہد میں همه جهت ارقی کی اور مورخین کے بیان کے مطابق قدیم الطبائے یونان نے اخشید دماغ ، دماغ اور نظام کی تشریح کی ، انہوں نے ، بناها که شریانوں کی دیواریں وریدوں کی دیواروں سے ہوئی ہوتی ہیں اور اثنا عشری آنت کا نام اس کی پیش کی مناسبت سے رکھا۔ کے صیمان، دماغ، اعصاب اور جسم کے اکثر حصوں کی تشریح سے یونان کے احیا واقف تھے لیکن یہ اتفاق ہے کہ یونان میں علم تشریح کے اس ارتقا کے بعد صدیوں تک طبی علوم کے اس شعبے پر جمود کی کیفیت طاری رہی اور کوئی شخصیت بقراط و ارسطو سکی، تا انکه دوسری صدی عیسوی کے اختتام پر ایک عہد ساز شخصی ہوئی جس نے یونان کی مرکزیت کو اس کے سارے خصائص کے ساتھ حیات عہد جدید کا آغاز کیا به شخصیت جالینوس کی ہے جس کا ذکر منظور مابعد میں قدرے تفصیل سے -r2وه شریان اور وریدوں کےجالینوس سے پہلے بقراط اور ارسطو کے تشریحی کارنامے اس علم کی تاریخ میں سنگ میل کی حالیت رکھتے ہیں ۔ ارسطو (۳۰۰ ق م) نے اعصاب کی جو تعلق کی وہ بھی قابل قدر ہے اور انب کو عروق صوبہ کا مرکز کہنا یقیناً غیر معمولی بصیرت کا ارت ہے ، هضم بعدی کے سلسلے میں غذا کو چہانے کے عمل کی ارسطو نے جس طرح وضاحت کی اس کی اهمیت آج بھی مسلم هے درمیان کوئی فرق نہیں کر سکا۔ بقراط اور ارسطو دونوں قصبة الريه کی اصطلاح میں مغالطے کا شکار ہوئے ۔ بعض مورخین نے یہ لکھا ی خاص وجه يه هے کہ ارسطو اور بقراط کو ن کی تقبض کا موقع نہیں مل سکا تها . علامه على حسين گیلانی نے اس خیال کی تردید ھے۔ وہ لکھتے ہیں ارسطو نے لائی ہوتے ہوئے ایک ایسی کھریزی پائی تھی تھی اور کوئی درز موجود نہیں تھی حال آنکه ایسا شانون در هی هوتا هے (جمع الشرحين حصه اول) سال قبطی اور تشریح اور منافع الاعضا پر ارسطو کی گیارہ کتابوں کا ذکراین ابی اصیحه جن کا ترجمه عربی میں ابن بطریق نے کیا۔ یران میں طب مختلف مراحل سے گزرتی رہی اور اہم مکاتیب فکر کے نمائندے کچھ نہ کچھ اضافات کرتے رہے ۔ لیکن صدیوں کے بعد جب اسکندریہ کی عظمت کا آداب غروب هونے لگا تو طب یونانی کے افق پر افراط کے بعد جالینوس نے اپنی علمی کتاب حاصؒل کرنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں
جلد کی خشکی ۔اسباب علاج
جلد کی خشکی ۔اسباب علاججلد کی خشکی کئی طرح سے نمودار ہوتی ہے ہم نے دیکھا ہے کہ بعض اوقات جلد پر خشکی سے سفید چونے کی طرح نہ آجاتی ہے ذرا خارش کرنے سے لکیریں بننا شروع ہو جاتی ہے۔ ایسا زیادہ تر ٹانگوں اور بازؤں پر ہوتا ہے اس علامت کی ابتدائی صورت ہو اور ابھی تک کوئی تکلیف شروع نہ ہوئی ہو تو عام سرسوں کا تیل ہی روزانہ لگانا شروع کر دیں تو ایک دو دن بعد ہی ختم ہو جاتی ہے نہانے کے بعد تیل کا اکثر استعمال ایسی علامات سے محفوظ رکھتا ہے۔ دراصل آج کل فرنگی ڈاکٹروں نے لوگوں کو روغنی اور چکنائی والی غذاؤں سے اس قدر ڈرا دیا ہے کہ ہر شخص چکنائی کا نام لینے سے ہی ڈرتا ہے اگر ہم طبیب حضرات انہیں روغنی غذائیں کھانے کی ہدایت کریں تو وہ ہمارے سامنے کہ دیتے ہیں کہ ہاں کھائیں گے لیکن گھر جا کر نہیں کھاتے کیونکہ فرنگی پرو پیگنڈہ اس قدر ہے کہ ہر شخص اپنی جگہ خوف زدہ ہے۔ حالانکہ ابھی بیس سال پہلے ہم دیکھتے تھے کہ لوگ اس قدر چکنائی استعمال کرتے تھے کہ ایک حافظ صاحب نے جو روزانہ ایک پیالہ دیسی گھی کا پیالہ بھر کر پانی کی طرح پیا کرتے تھے ان کے پاؤں سے جب جرابیں اتار کر نچوڑتے تو اس میں سے کھی کے قطرے نکل کر زمین پر گرتے تھے اب آپ خود غور کریں کہ ایسے شخص میں خشکی کی کوئی علامت ہو سکتی ہے ؟ ان لوگوں کو کبھی دل کی شریانوں کا سکیٹر یا کولیسٹرول کی زیادتی بھی نہیں ہوتی تھی۔ آج کل پہلے تو مہنگائی نے اس قدر غریب کی کمر توڑ دی ہے کہ روغنی چیزں اس کی قوت خرید سے باہر ہوگئی ہیں اور جو امیر آدمی خرید سکتا ہے وہ بلڈ پریشر سے ڈرتا ہوا استعمال نہیں کرتا لہذا امیر اور غریب دونوں طبقے چکنائی سے دور ہو گئے ہیں ایسے حالات میں خشکی نے تو آنا ہی ہے۔ یہی حال شوگر کے مریض کا ہوتا ہے اس کی شوگر پہلے تو ڈاکٹر بند کر دیتا ہے اور اگر کوئی دوسرا معالج اسے کسی شکل میں کھانے کی ہدایت کر بھی دے تو گھر والے کھانے نہیں دیتے لہذا مریض روز بروز کمزور سے کمزور تر ہوتا جاتا ہے کیونکہ ذائقے کے لحاظ سے نمکین کڑوی اور پھیکی غذاؤں میں سے سب سےزیادہ طاقت میٹھی غذاؤں میں ہوتی ہے۔ یادداشتہم نے اپنی کتاب امراض قلب و عضلات میں چکنائی کے متعلق بار بار واضح لکھا ہے کہ کولیسٹرول جسے غلطی سے چکنائی سمجھ لیا ہے یہ چکنائی نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ چکنائی شریانوں میں جمتی ہے اور نہ ہی جم سکتی ہے یہ شریانوں میں جمنے والا مادہ عضلاتی اعصابی یعنی خشک سرد ہوتا ہے جو اپنی خشکی سردی کی بدولت شریانوں میں جسم کر انہیں تنگ کر دیتا ہے یا انہیں سکیڑ کر راستہ تنگ کر دیتا ہے شدت کی صورت میں یہی مادہ دل کے والو بند کر کے دل کے دورے اور مریض کی موت کا سبب بنتا ہے یہ موت کا سبب بننے والا مادہ چکنائی نہیں بلکہ عضلاتی اعصابی خشکی سردی کا مادہ ہوتا ہے جسے کولیسٹرول کہتے ہیں لہذا ذہن نشین کر لیں کہ دل کا مریض جس قدر چکنائی سے ڈرے گا اسی قدرموت کے قریب ہوتا جائے گا۔ خشکی کی ایک دوسری صورت خشکی کی ایک دوسری صورت جو ہم نے دیکھی ہے وہ یہ کہ مریض کو رات کو سوتے وقت ہاتھوں کی انگلیاں خشک ہو نا شروع ہو جاتی ہے مریض کا دل کرتا ہے کہ پانی سےانگلیوںکو تر کرے بعض اوقات پانی قریب نہ ہونے کہ وجہ وہ تھوک لگاتا ہے اور اس طرح وقت پاس کرتا ہے ہم نے ایسے بے شمار مریض دیکھے ہیں اور ان کا کامیاب علاج بھی کیا ہے۔ ایک واقعہ ایک نو جوان لڑکی علاج کے لئے مطب میں آئی اس نے بتایا کہ رات کو پانی کا گلاس چار پائی کے قریب رکھ کر سوتی ہوں اور کئی بار ہاتھوں کو پانی سے گیلا کرتی ہوں اپنے گھر تو گزارا ہو جاتا ہے کسی کے ہاں مہمان جائیں تو بہت مشکل پیش آتی ہے ایسا نہ ہو کہ یہ بگڑ کر کوئی اور مرض بن جائے میں اس لڑکی کا علاج مندرجہ ذیل اسباب کو مد نظر رکھ کر کیا تو صرف دو ہفتے بعد ہاتھ خشک ہونا بند ہو گئے۔ اسباب و علاج ہاتھوں کی خشکی دراصل خون میں پانی کی کمی کی ایک واضح علامت ہے ایسے مریض کا علاج خون میں پانی بڑھا کر آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے تمام اعصابی غدی سے اعصابی عضلاتی غذا ئیں دوائیں مفید ہیں جن میں اعصابیغدی سفوف مغلظ اور اعصابی غدی تریاق بے حد مفید دوائیں ہیں غذا میں الا یچی خورداور زیرہ سفید کی چائے بھی مفید ہے۔ تمام نسخہ جات اسی کتاب میں آچکے ہیں البتہ ہڈی کی یخنی کا نسخہ درج ذیل ہے خون میں پانی بڑھانے کا غذائی علاج یاد رکھیں خون میں پانی کی کمی کے لئے ڈاکٹروں کے پاس فوراََڈرپ لگا دی جاتی ہے جس سے خون میں پانی کی کمی تو پوری ہو جاتی ہے لیکن یہ کمی صرف دو یا تین دن کے لئے ہی پوری ہوتی ہے ڈرپ کے ذریعے خون میں جانے والا پانی دو چار دن میں پیشاب کے راستے خارج ہو جاتا ہے اس کا آسان اور مستقل حل یہ ہے کہ مریض کو ہڈی کی یخنی پلائی جائے جس کا ذکر ہم اکثر ماہنامہ میں کرتے آئے ہیں ہاتھوں کی خشکی کے مریض کو صرف دس دن ہڈی کی یخنی پینے سے مستقل ہاتھوں کی خشکی سے نجات مل جاتی ہے بڑی کی یخنی چونکہ ایک قدرتی غذا ہے لہذا اسے زیادہ دن بھی استعمال کیا جائے تو کوئی نقصان نہیں اسے اس وقت تک استعمال کیا جا سکتا ہے جب تک مریض کو پاخانے نہ لگ جائیں۔بیرونی طور پر ہاتھوں اور پاؤں پر ویزلین یا گلیسرین لگائیں اس سے مقامی طور پر جلدی فائدہ شروع ہو جائے گا۔ ہڈی کی یخنی بنانے کا طریقہ چھوٹے یا بڑے گوشت کی نصف کلو ہڈیاں