بیاض حکیم عبدالسلاممحترم وحترمہتوجہ فرمائیےدوستو، بہنوں، بھائیو پیارے مسلمانوں۔ میری ایک عرض ہے اسے ضرور قبول کریں۔ قیامت کےدن ۔ نئے جسم ہوں گےنئی شکلیں ہوں گی نہ اولاد ہوگی اور نہ ہی بڑھا یا آئے گا۔ بس یہی اک افسوس ہوگا کہ دنیا میں جولمحہ ذکر اللہ تعالیٰ سے خالی گزرا کاش ایسا کبھی نہ ہوتا۔ تمام دنیا کے مسلمانوں سے میں درخواست کرتا ہوں ہر وقت خدا تعالیٰ کی یاد کریں ہر وقت پڑھئے ۔ کلمہ طیبہ۔ خواہ آپ کا تعلق کسی بھی عقیدہ سے ہو۔طبیب کامل سید المرسلین رحمتہ اللعالمین صلی الله عليہ وسلم پر لاکھوں درود و سلام ۔آپ صلی الله عليہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کلمہ طیبہ سزا کی معافی ہے جس کے ایک بار پڑھنے سے قلب، روح اور نفس پاک ہو جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ہم سب کو مل صالح کرنے کی توفیق دے۔ (آمین)دعاؤں کا طالب حکیم عبد السلام حصول کتاب کے لئے یہاں کلک کریں
مخزن الادویہ ڈاکٹری میٹریکامیڈیکا باتصویر
مخزن الادویہ ڈاکٹری میٹریکامیڈیکا باتصویرحسب اعلان مفتنذر ایک کی بجائے دو نہایت ضروری اور مفید ضمیمے یعنی (1) ضمیمہ عضلاتی مصلی اور(2) ضمیمہ علاج عضویچونکہ آجکل بیکٹیرالوجی علم الجراثیم اپنے ماہیت و اسباب امراض میں اور سیرم تھیرا پیوٹک علاج مصلی نے علاج الا امراض میں بہت کچھ تغیر پیدا کر دیا ہے۔ پس سیرم تغیر پینوکس بغیر یہ کتاب مکمل نہ ہوتی لہذا میں نے یہ مناسب بلکہ ضروری سمجھا کہ ان مضامین مفید کا کتاب میں اضافہ کر کے اس کو مکمل بنایا جائے چونکہ سیرم تھیراپیوٹکس کے لئے کسی بیکٹیر یا لوجی کا جانا ضروری ہے۔ اور اردو زبان میں اس موضوع پر تا حال کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی اس لئے بیکٹیریا لوجی سیرم تھیراپیوٹکس اور آرگنیو تھیرا یو کس علاج عضاء کے متعلق آخر کتاب میں دو نہائت ہی ضروری اور مفید ضمائم لگادئے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ علم دوست حضرات ان مضامین مفیدہ کو بغور مطالعہ کر کے ان سے ضرور مستفید ہونگےیہ مضامین صفحہ ۷ ۲۲۵ سے شروع ہوتے ہیں۔ مفید ضمیمےپہلے میرا خیال ضمیمہ علاج الامراض کو شائع کر نے کا تھا لیکن یک جلد دوم کی تیار بڑھ گئی اور دوسرے یہ دونوں ضمیمے اُس کی نسبت زیادہ ضروری اور مفید تھے اس لئے ضمیمہ علاج الامراض کی بجائے آخر کتاب میں ان کا اضافہ کر کے بدیہ ناظرین کرتا ہوں۔ منت نذر مکمل کتاب کے خریدار کو دو سو صفحات کے ضمیمہ علاج الامراض کے مفت وینے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اس کتاب کی جلد دوم کی ضخامت میں مع ضمائم مذکور بالا کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اب وہ اُس ضمیمہ علاج الامراض کی بجائے مکمل کتاب کے خریداروں مفت نذر کیا جاتا ہے۔ پس میں اپنا موعودہ بدیہ تقریباً دو چند سفحات یعنی بجائے ۲۲۲ صفحات میں پیش کش کر کے آپ سے صرف اس قدر خو اہش کرتا ہوں کہ آپ اس کتاب کی اشاعت میں سعی فرمائیں جس میں میرا آپ کا اور دیگر برادران فن و اہل ملک سب کا متفقہ فائدہ ہے۔ واسلام10605مولف مخزن المفردات خواص الادویہ : Free Download, Borrow, and ..
۔65جامع کتب احادیث مبارکہ(اردو) ایک جگہ دستیاب
جامع کتب احادیث مبارکہ(اردو) ایک جگہ دستیاب. ⚡️ فہرست کتب احادیث | اردو⚡️ تراجم اہل سنت وجماعت⚡️ دار المصنفین چینل (https://t.me/musannifeen)⚡️ #فہرست_کتب🌷 الادب المفرد للبخاری (https://t.me/musannifeen/656)🌷 الادب المفرد (چشتی) (https://t.me/musannifeen/1038)🌷 الترغیب والترھیب (https://t.me/musannifeen/670)🌷 الترغیب للمنذری (https://t.me/musannifeen/663)🌷 جامع الاحادیث للإمام احمد رضا (https://t.me/musannifeen/618)🌷 ایضا: جامع الاحادیث (شبیر ب) (https://t.me/musannifeen/1007)🌷 جامع الاحادیث (برکات رضا) (https://t.me/musannifeen/996)🌷 جامع ترمذی مع شمائل ترمذی (https://t.me/musannifeen/706)🌷 جامع المسانید الإمام ابو حنیفة (https://t.me/musannifeen/615)🌷 حلیة الاولیاء (ابو نعیم) (https://t.me/musannifeen/1217)🌷 الدرر المنتثرۃ (https://t.me/musannifeen/680)🌷 ریاض الصالحین (https://t.me/musannifeen/1034)🌷 زجاجة المصابیح (https://t.me/musannifeen/1046)🌷 سنن ابن ماجه (https://t.me/musannifeen/556)🌷 سنن ابن ماجه (ش) (https://t.me/musannifeen/726)🌷 سنن ابو داؤد (https://t.me/musannifeen/548)🌷 ایضا: سنن ابو داؤد (میگ) (https://t.me/musannifeen/968)🌷 سنن ابو داؤد (ش) (https://t.me/musannifeen/711)🌷 ایضا: ابو داؤد | فرید بک (https://t.me/musannifeen/978)🌷 سنن الترمذی (https://t.me/musannifeen/544)🌷 سنن دارقطنی (https://t.me/musannifeen/640)🌷 سنن الدارمی (https://t.me/musannifeen/651)🌷 سنن النسائی (https://t.me/musannifeen/552)🌷 سنن نسائی (شاکر) (https://t.me/musannifeen/719)🌷 شرح معانی الآثار (https://t.me/musannifeen/701)🌷 شرح معانی (حامد& کمپنی) (https://t.me/musannifeen/986)🌷 الشریعة للآجری (https://t.me/musannifeen/686)🌷 شمائل بغوی (https://t.me/musannifeen/735)🌷 شمائل ترمذی ہزاروی (https://t.me/musannifeen/737)🌷 شمائل ترمذی (https://t.me/musannifeen/739)🌷 صحیح ابن حبان (https://t.me/musannifeen/566)🌷 صحیح ابن خزیمة (https://t.me/musannifeen/562)🌷 صحیح البخاری (مدنی) (https://t.me/musannifeen/523)🌷 صحيح بخاری (قادری) (https://t.me/musannifeen/697)🌷 ایضا: صحیح البخاری (https://t.me/musannifeen/1102)🌷 صحیح مسلم (https://t.me/musannifeen/540)🌷 ایضا: صحیح مسلم (https://t.me/musannifeen/1108)🌷 صحیح مسلم جہانگیری (https://t.me/musannifeen/536)🌷 صحیفه امام ہمام بن منبه (https://t.me/musannifeen/983)🌷 کتاب الآثار (امام محمد) (https://t.me/musannifeen/741)🌷 کتاب الادب لابن أبی شیبة (https://t.me/musannifeen/658)🌷 کنز العمال (https://t.me/musannifeen/694)🌷 اللؤلو والمرجان (https://t.me/musannifeen/559)🌷 مجمع الزوائد (https://t.me/musannifeen/683)🌷 مختصر صحیح البخاری (https://t.me/musannifeen/1040)🌷 مختصر صحیح مسلم (https://t.me/musannifeen/673)🌷 مختصر شعب الایمان (https://t.me/musannifeen/690)🌷 مستدرک الحاکم چشتی (https://t.me/musannifeen/582)🌷 مستدرک الحاکم رضوی (https://t.me/musannifeen/575)🌷 مسند امام ابو حنیفة (https://t.me/musannifeen/605)🌷 مسند ابو داود الطیالسی (https://t.me/musannifeen/609)🌷 مسند ابو یعلی (https://t.me/musannifeen/631)🌷 مسند اسحاق بن راھویة (https://t.me/musannifeen/603)🌷 مسند الحمیدی (https://t.me/musannifeen/629)🌷 مسند زید (https://t.me/musannifeen/607)🌷 مسند الشافعی (https://t.me/musannifeen/637)🌷 مسند الشهاب للقضاعی (https://t.me/musannifeen/613)🌷 مشکوۃ المصابیح (ش) (https://t.me/musannifeen/731)🌷 مصنف عبد الرزاق (https://t.me/musannifeen/644)🌷 معجم الاوسط (https://t.me/musannifeen/593)🌷 معجم الصغیر للطبرانی (https://t.me/musannifeen/601)🌷 معجم الکبیر للطبرانی (https://t.me/musannifeen/586)🌷 مکارم الاخلاق للطبرانی (https://t.me/musannifeen/757)🌷 موطا امام مالک (https://t.me/musannifeen/677)🌷 موطا امام محمد (https://t.me/musannifeen/661)65 کتب احادیث مبارکہ ایک جگہ دستیابUPDATEDخوب شیر کریں تاکہ اہل ایمان اس ماہ مقدس میں قرآن مجید کے ساتھ ساتھ حدیث بھی پڑھ سکیں.
یہ سب کہاں جاواہاں؟
یہ سب کہاں جاواہاں؟ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو میو قوم ایک دوسرا کی خؤشی غمی میں شریک ہونو اپنی ذا مہ د اری سمجھاہاں۔ایک وقت ہو جب کوئی بیمار ہوجاوے ہو یا مرجاوے ہو تو اوڑ پاس کا سارا گائون میں رول مچ جاوے ہی۔دور و نزدیک لوگ منہ دیکھن اور جنازہ میں شرکت کے مارے آوے ہا۔لواحقیقن کے ساتھ ہمدردی کو اظہار کرے ہا۔بیمار کے مارے دعا ئے صحت کرے ہا۔اگر کوئی مدد کرسکے ہو ضرور کرے ہو۔ اب سوشل میڈیا کو دور ہے اٹھتے بیٹھتے سوشل میڈیا نے ہماری زندگی پے قبضہ جالئیو ہے۔دھیرئیں جاگ کے سب سو پہلو کام موبائل دیکھنو اور رات سون سو پہلے سب سو آخری کام بھی موبائل دیکھنو بن چکو ہے۔ای بات کائی کے ساتھ مخصوص نہ ہے سب یاکام میں لگا پڑاہاں۔کچھ کم تو کچھ زیادہ۔ آنکھ کھلن سو پیچھے میڈیا کا ذریعہ سو کچھ من پسند چیز دیکھن کو ملا ہاں تو کچھ خبر دکھ والی بھی رہواہاں۔بالخصوص موت کی خبر اور واپے تعزیت بھرا پیغام۔ای چل چلائو تو ایسے ای چلتو آئیو ہے اور آن والا وقت میں بھی ایسے ای چلتو رہے گو۔جان والا واپس نہ آساں ۔بچن والا ای جانگا۔ آج کو سوشل میڈیا عیبد الوحید میو وڈالہ والہ کی گھروالی کی وفات کی خبرن سو اٹو پڑو ہے۔ یاکے علاوہ ہمارا گائوں سو گھر کنبہ میں ظفر صاحب (ڈیرہ منگلی)بھی چھوڑ کے چلو گئیو ہے اب تو ایسو لگے ہے کہ موت کہیں اوڑ پاس ای دول ری ہے جنے کد ٹینٹواں نے دبوچ لئے ۔ ویسے میون کو بھی اپنو ای مزاج ہے۔ میو قوم میں رواج چل پڑو ہے جنازہ میں ڈھیر سارا لوگ اکھٹا ہوجاواہاں(اچھی بات ہے) لیکن زندگی میں کدی مل بیٹھن کی توفیق نہ ملے ہے۔جیسے جنازہ میں اکھٹا ہوواہاں۔کاش یہ زندگی میں بھی ایسے ای بھلا ہوجاواں۔تو ان کی زندگی کو رخ بدل جائے۔ان کی طاقت جمع ہوکے انقلاب برپا کردئے۔ ہماری بد قسمتی۔ کہیں ایسو تو نہ ہے کہ ہم مردہ پرست ہوگیا ہوواں؟۔ ہم پہلان کی جو مرچکاہاں ان کی زندگی اور حالاتن نے ڈھنوڈ ڈھونڈ کے لکھ راہاں۔جو زندہ ہاں ان سو ملنو بھی گوارو نہ کراہاں۔لینو دینو تو قسمت کی بات کم از کم ایک دوسرا سو نوں ای پوچھ لئیو کہ ان کا کام۔ان کا ادارہ۔ان کی زندگی کیسی چل ری ہے۔ لیکن شاید ہم صرف ہلہ گلہ کا حق میں ہاں ۔کام کی ضرورت نہ ہے۔جاانداز سو لوگ ایک دوسرا کی مخالفت میں آگے برحا ہاں۔ایسو لگے ہے کہدنیا میں میون کی ٹانگ کھینچن کے علاوہ کوئی اچھو کام ہے ای نہ ہے۔کچھ لوگن کو تو پیت درد نورے ای جب ہے کہ وے ایک دوسر کی چغلی چانٹی اور ٹانگ کھنچائی نہ کرلیواں۔۔۔کیونکہ اللہ نے جو طاقت دی ہے واکو اچھو برو استعمال کرنو تو ہے۔بھلو نہ سہی تو ایک دوسراےا نیچا دکھان میں ای سہی۔
1مردوں کی مسیحائی
مردوں کی مسیحائی عرض نیاز مردوں کی مسیحائینہ شیم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویمچو غلام آفتا بم ہمہ از آفتاب گویماس نعمت عظمیٰ کا شکر کس زبان سے ادا ہو کہ توفیق الہی کی رفاقت نے صدق لانے والوں کے ساتھ تصدیق و تائید کی نسبت بخشیبریں مردہ گر جاں فشانم رو استپندرہ سولہ برس پہلے جامعہ عثمانیہ میں علم کا طالب بن کر داخل ہوا تو اخبار ” سچ “ بھی میرے لئے اس علم کا ایک چشمہ فیض ثابت ہوا جسے قرآن کی زبان میں (صدق) کہتے ہیں اور جس کے قائل حامل کو صدیق ۔ یہ استفادہ اب تک بفضل ایزدی جاری ہے ۔ اس کا جو پہلو جاء بالصدق(سچی بات لے کر آیا ) کا مصداق ہوتا – ہے، بفضلہ دل میں صدق یہ (سچ مانا ) کی کیفیت بڑھاتا ہے۔زاد الله فیوضہدیگر مباحث کے ساتھ ساتھ وقتا فوقتا محترم مو لاناعبدالماجد صاحب کے قلم سے سیرت نبوی پر چند نہایت بلیغ اور ایمان پرور مقالات شائع ہوتے رہے، دل کی دیرینہ تمنا تھی کہ یہ سدا بہار پھول ایک بصیرت افروز گلدستہ کی صورت میں ناظرین کے سامنے آجائیں۔آج محترم مدیر صدق کی اجازت سے مجھے اس کی ترتیب اور ادارہ اشاعت اردو کو اس کی اشاعت کی سعادت حاصل ہوئی ہےللہ الحمدہر آن چیز کہ خاطر میخواست و آخر آمد زین پردہ تقدیر پدیدجناب مولوی سید عبدالرزاق صاحب جناب مولوی سید عبد الوہاب صاحب مالکان “ادارہ و اعظم اسٹیم پریس “ اور چودھری محمد اقبال سلیم صاب گل بندری مہتم ” ادارہ اشاعت اردو اس حسن اقدام پر قابلِ مبارک باد ہیں ۔زندگی کا حقیقی جو ہر رکن سیرت ہے ۔ زندگی کی رفعت اور عظمت کا مدار صرف سیرت پر ہے۔ انسانی فطرت کا بہترین مظہر سیرت ہی ہے ۔ سیرت فطرت انسانی کے لوازم کا ایک اخلاقی نظام ہے ۔ جس کا اعلیٰ نمونہ ایک متوازن مربوط اور مرقع شخصیت پیش کرتی ہے ۔ سوسائٹی اور انسانی اجتماع کا خمیر ایسی ہی سیرت و شخصیت سے عبارت ہوتا ہےجو ہر طینت آدم ز خمیر دگر استتو توقع زگیل کوزہ گران می داریسیرت کی تکمیل بڑی صبر آزما ہوتی ہے ۔ زندگی کی قدر وقیمت کتاب یہاں سے حاصل کریں
طبیب حاذق گجرات کا52واں سالانہ خاص۔قلمی مجربات۔
طبیب حاذق گجرات کا52واں سالانہ خاص۔قلمی مجربات۔ حاذق میں خاص مقصد کے لئے کام کر رہا ہے۔ اس سلسلہ میں مجھ کو شروع ہی سے ہر مرض کے متعلق مجرب نسخہ جات کی تلاش اور اُن کو جمع کر کے شائع کرنے کا شوق رہا ہے۔ عرصہ دراز سے ہزاروں علمی اور چھا پہ شدہ کتب جمع کر چکا ہوں۔ اُن کے ہزاروں نسخے آزما چکا ہوں اور علم الادویہ کے لحاظ سے جڑی بوٹیوں کے خصوصی تغیر بات کر چکا ہوں ۔ اور ہمہ وقت مصروفیت رہتی ہے گذشتہ پچاس سال کے عرصہ میں میں لکھتا ہوں۔ کہ مجھے اس سلسلہ میں نمایاں کامیابی حاصل ہوتی ہے میں اس کا میابی سے مطمین نہیں ہوئی ۔ بلکہ جس منزل کی مجھے خواہش تھی۔ وہ ابھی اور ہے ۔ اگر تائید ایزدی شامل حال رہی تو اس میدان میں مزید کام فرسائی جاری رہے گی ۔ اور خداوند تعالیٰ کی ذات گرامی سے قوی امید ہے کہ مجھے اپنے مقصد میں کامیابی ہوگی ۔ اس زنانہ تلاش نیست و میل تجربہ کی کئی نئی راہیں سامنے آتی ہیں۔ جن کا اظہار اپنے وقت میں ہوتاہوتا رہے گا۔ میرے پاس قلمی اور مطبوع کتب کا ایک نادر ذخیرہ ھے اور اب بھی جب کبھی کسی نئی کتاب کا علم ہوتا ہے ہمیں اس کے محصول کے لئے تگ دو کرتا ہوں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں مجھے زرکثیر صرف کرنے کے ساتھ اکثر اوقات سنت و خوشامد خیر کل بھی کرنی پڑتی ہے۔ یہ نادر قلمی اور مطبوعہ طبی کتب اکثر اوقات بڑے فاصل اطباء کے تجربہ کردہ یا اُن کے مطالعہ میں برسوں رہ چکی ہوتی ہیں۔ ان کو مطالعہ کرنے کے دوران اکثر یہ نادر نے حاشیوں پر یا کتاب کے پہلے دوسرے اوراق پر لکھے ہوئے ہیں۔ یہ نسخہ جات عام طور پر فاضل اطباء اپنی یا داشت کے لئے لکھ لیتے تھے جو مصنف نے یا پڑھنے والے خود آزما کر درست پائے ہوئے تھے۔ اور جس طرح اُن کو اپنی یہ کمی یا مطبوعہ کتاب عزیز ہوتی تھی۔ اسی طرح ان مشغول کو بھی پوشید داور ویز رکھتے تھے ۔ اسی لئے انہوں نے اسے کتاب میں لکھ لیا ہوتا تھا۔ میں نے ان تمام کتابوں کی ورق گردانی کر کے یہ تمام قیمتی سرمایہ ایک جگہ اکٹھا کرنے کی سعی عرصہ دراز سے شروع کر رکھی ہے کتاب حاصل کرنے کے لئے یہاں کلک کریں
دستور العلاج بالمفرد الاعضاء
ستور علاج بسم الله الرحمن الرحيمدستور علاج بالمفرد الاعضاءجس میں علاج کے ایسے ایسے سربستہ راز و رموز کا اظہار کیا گیا ہے، جو طب میں ابھی تک معمہ بنے ہوئے تھے اس طرح علاج کے بہت اہم مسئلے(انگڑے ومشکلات) حل کر دیئے گئے ہیں نبض اورقارورہ شناسی کے علاوہ اسمیں علاج کے اشارات ، علاج بالتدبیر، علاج بالغذاء علاج بالمفرد اعضا اور علاج با مرکبات پر نہایت بیش قیمت لیکن نہایت سہل نسخہ جات لکھے گئے ہیں اور یہ تمام قسم کے نسخہ جات سو فیصدی صحیح اور مجرب ہیں، کیونکہ ہمارے سب نسخہ جات قانون طب کے تحت ترتیب دیئے جاتے ہیں چونکہ اس تھیوری قانون مفرد اعضاء کے بانی حکیم انقلاب المعالج صابر ملتانی ہیں اسلئے اس کتاب کو انہی کے نام نامی سے منسوب کر رہا ہوں نوٹ کرلیں کہ اس کتاب میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے تحقیقات کا نچوڑ ہے۔ لیکن تشخیص مرض اور غور کر کرنا معالج کااپنا کام ہے ۔یکم جون ۲۱۹۸۴مصنف:حکیم ڈاکٹر ایس راج شرما جان مری مزید پڑھئے ہپاٹائٹس(سوزش جگر)کیاہے؟https://dunyakailm.com/%db%81%d9%be%d8%a7%d9%b9%d8%a7%d8%a6%d9%b9%d8%b3%d8%b3%d9%88%d8%b2%d8%b4-%d8%ac%da%af%d8%b1%da%a9%db%8c%d8%a7%db%81%db%92%d8%9f/ کتاب یہاں سے حاصل کریں
انسانی کمزوریاں ا ور نفسیات قران کریم کی روشنی میں
انسانی کمزوریاں ا ور نفسیات قران کریم کی روشنی میں حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو تخلیق انسانی انسانی سوچ کے لئے ہمیشہ سے معمہ و دلچسپی کا سبب رہی ہے۔تخلیق انسانی کے بارہ میں تجسس رہا ہے اور مذاہب و ادیان میں مختصر ومفصل روایات موجود ہیں۔قران کریم عطیہ خدا وندی ہے۔جو فطرت کا دوسرا نام ہے جو قوانین کائنات میں جاری و ساری ہیں۔ان کا لفظی مجموعہ قران کریم ہے۔جو بھی اس پر غؤر کرے گا گویا کہ انسان اپنے آپ کا مطالعہ کرتا ہے۔اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ (الرحمن: 1تا3)’’سب سے بڑے مہربان نے انسان کو قرآن کی تعلیم دی، اسی نے انسان کو پیدا کیا۔‘‘هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْـًٔا مَّذْكُوْرًا اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا (الدھر: 1تا 3)’’انسان پر ایسا دور بھی گزرا ہے جب اس کا ذکر تک نہ تھا؟یقیناً ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ ہم اس کی آزمائش کریں ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ بلاشبہ ہم نے اسے سیدھے راستے کی راہنمائی کی ، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔‘‘تخلیق انسانی کے مختلف مراحل ہیں ایک مرحلہ ایسا بھی ہے جسے اس وقت تک بیان کرنا شاید انسانی علوم و فنو اور ان کی تحقیقات سے بہت آگے کی بات ہے۔قران کریم کے بیان کردہ انسانی تخلیق کے نکات کو ابھی تک سمجھنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔کسی چیز کی حقیقت کا ہونا اور اس سے لاعلمی دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔جس چیز کی حقیقت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے ۔انسان پر ایک ایسا وقت بھی گزرا ہےجو اس وقت تک قابل ذکر نہیں ہے۔ممکن ہے کل کلاں اللہ علوم تحقیقات میں اتنی وسعت پیدا فرمادیں کہ یہ مزکور نہ ہونے والےحالات قابل ذکر ہوجائیں۔تخلیق انسانی کے آٹھ طبعی کمزوریاںقرآن مجید نے تخلیق انسان کے مختلف تذکرہ کرتے ہوئے اس کی آٹھ طبعی کمزوریوں کا ذکر کیا ہے۔ ہر کمزوری کے ذکر سے پہلے یا بعد توحیدِ باری تعالیٰ کا کوئی نہ کوئی پہلو بیان فرمایا ہے تاکہ انسان عقیدۂ توحید اور فکرِ آخرت کے ذریعے اپنی کمزوریوں پر قابو پا سکے کیونکہ انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی توحید کو ماننا، اسے سمجھنا اور اس کے تقاضے پورے کرنا اور آخرت میں اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اس لیے اس کے بغیر انسان اپنی کمزوریوں پر قابو نہیں پا سکتا۔ یہ کمزوریاں درج ذیل الفاظ میں بیان کی گئی ہیں۔ 1 انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے وَ يَتُوْبَ عَلَيْكُمْ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا (النساء:26۔28)’’اور تمہاری توبہ قبول کرے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ،حکمت والا ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ تم پر آسانی کرے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ ‘‘ طبعی کمزوریوں میں ایک انسان کا کمزور ہونا ہے اسلام انسان کی فطرت کے موافق اور آسان بنایا گیا ہے، انسانی طبائع ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتیں۔ دنیاوی ترغیبات، معاشرتی پریشانیاں اور کاروباری مشکلات انسان پرگہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔جن کی وجہ سے آدمی سستی،کم ہمتی اور بے توجہی کاشکار ہو جاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے دین میں کوئی ایسی بات نہیں رکھی جو انسان کی قوتِ عمل سے باہر ہو۔ یہاں انسان کے کمزور ہونے کا ذکر کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا علیم، حکیم ہونا ذکر کیا ہے تاکہ انسان ذاتِ کبریا کو علیم وحکیم جانتے ہوئے اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی کوشش کرے۔ 2 انسان جھگڑالو ہے اَنْ اَنْذِرُوْا اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنَا فَاتَّقُوْنِ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ (النحل: 2تا 4، الکھف: 54)’’یہ کہ لوگوں کو متنبہ کرو کہ بے شک اس کے سوا کوئی معبود نہیں لہٰذا مجھ ہی سے ڈرتے رہو ۔اس نے آسمانوں اور زمین کوپیدا کیا۔ وہ اس سے بہت بلند ہے جنہیں وہ شریک بناتے ہیں ۔اس نے انسان کو ایک قطرے (نطفہ) سے پیدا کیا پھر وہ ناگہاں جھگڑنے والاہوگیا۔‘‘اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو چیزپیدا کی ہے اسے انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا ہے اس لیے انسان کی تخلیق کے بیان سے پہلے زمین وآسمان کی تخلیق کا ذکر فرمایا ہے۔ گویا کہ مکیں سے پہلے مکاں کا بیان ہوا۔ اب انسان کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ اے انسان تجھے اللہ تعالیٰ نے ایک حقیر پانی سے پیدا کیا ہے اور زمین و آسمانوں کی تخلیق کی طرح تیری تخلیق میں بھی کوئی شریک نہیں۔ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے تومرد اور عورت کے ملاپ کے نطفہ سے بچہ پیدا کرتا ہے ،اگر نہ چاہے تو ان کے زندگی بھر کے ملاپ سے کچھ بھی نہیں پیدا ہوتا، نہ انہیں کوئی دوسرا اولاد عطا کر سکتا ہے۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود انسان نہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو اس کا شریک بناتا ہے بلکہ شرک جیسے عظیم گناہ کے من گھڑت دلائل بھی دیتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کھلے الفاظ میں جھگڑا کرنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا ہر انسان کو اپنی تخلیق کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی اوقات سامنے رکھنی چاہیے کہ وہ کیا تھا، کہاں پہنچا اور اب کس ذاتِ کبریا کے ساتھ اوروں کو شریک بنا کر اس کے ساتھ جھگڑا کرتا ہے۔ ( یٰس : ۷۷) 3 انسان جلد باز ہے وَ اِذَا رَاٰكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا اِنْ يَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُزُوًا اَهٰذَا الَّذِيْ يَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْ وَهُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ هُمْ كٰفِرُوْنَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ سَاُورِيْكُمْ اٰيٰتِيْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ (الانبیاء: 36۔37۔بنی اسرائیل: 11)’’منکرین حق جب آپ کو دیکھتے ہیں توآپ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کہتے ہیں کیا یہی وہ شخص ہے جو تمہارے خدائوں کاتذکرہ کرتا ہے؟ ان کا اپنا حال یہ ہے کہ الرّحمان کے ذکر کے منکرہیں۔انسان جلد باز پیدا کیاگیا ہے عنقریب ’’اللہ ‘‘تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا لہٰذا مجھ سے جلدی کامطالبہ نہ کرو۔ ‘‘ انسان کی کمزوریوں میں عُجلت پسندی بھی ہے جو ہر انسان میں کسی نہ کسی حد تک پائی جاتی ہے۔ خوشی ، غمی ، کامیابی ، ناکامی ، تنگدستی اور کشادگی ، اقتدار اور
حق کی تلاش
چار پانچ سال ہوئے میں نے اپنے عزیزوں رفیقوں کے کہنے سے اپنی زندگی کے حالات لکھنے کا ارادہ کیا۔ ابتداء تو میں نے کر دی ، مگر ابھی پہلا ورق الٹنے کیبھی اور یہ نوبت بھی نہیں آئی تھی کہ بمبئی میں بلوے شروع ہو گئے اور یہ کام رک گیا۔ اس کے بعد اور واقعات پیش آئے ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں قید ہو کر یر اورا کی جیل میں پہنچ گیا۔ اسی جیل میں میرے ساتھی جیرام داس بھی قید تھے ۔ انہوں نے فرمائش کی کہ تم سب کام چھوڑ کر آپ بیتی کو ختم کر دو۔ میں نے کہلا بھیجا کہ میں اپنے مطالعے کا پرو گرام بنا چکا ہوں ، اور جب تک اسے پورا نہ کر لوں کسی اور کا خیال بھی دل میں نہیں لا سکتا۔ اگر میں قید کی معیاد یر اور میں گزارتا تو آپ بیتی ضرور ختم ہو جاتی۔ کیونکہ جب میں چھوٹا ہوں تو ایک سال اس کام کے لئے باقی تھا۔ اس سوامی انند جی نے پھر اسرار شروع کیا، اور میں بھی جنوبی افریقہ کی ستیا گری کی تاریخ سے فارغ ہو گیا ہوں ۔ اور اس لیے جی چاہتا ہے کہ نوجوانوں میں چھاپنے کے لئے آپ بیتی لکھنا شروع کر دوں ہوامی جی یہ چاہتے تھے کہ میں اسے الگ لکھوں اور کتاب کی صورت میں چھپواؤں مگر مجھے اتنی فرصت نہیں ہے ۔ میں تو بس اتنا کر سکتا ہوں کی مفت وار ایک باب لکھتا جاؤں۔ آخر تو جیون کے لئے کچھ نہ کچھ لکھنا پڑتا ہے۔ پھر آپ بیتی ہی کیوں نہ لکھ دیا کروں ہوامی جی اس پر راضی ہو گئے ۔ لیجیے میں نے بھی سنت سے کام شروع کر دیا ۔۔ مگر میرے ایک باخدا دوست کو اس بارے میں کچھ شبہ ہے۔ جو انہوں نے میری خاموشی کے دن ! مجھ سے بیان کیے،انہوں نے مجھ سے کہا، یہ آپ کو کیا سوجھی کہ اس جھگڑے میں پڑ گئے ۔ آپ بیتی لکھنا مغربی ملکوں کا دستور ہے۔ میں نے آج تک نہیں سنا کہ مشرق میں سوا ان لوگوں کے جن پر مغرب کا اثر ہو گیا ہے۔ کسی نے آپ بیتی لکھی ہو ، اور آپ لکھیں گے کیا؟ ۔ فرض کیجیے آپ آج جن اصولوں کے قائل ہیں، انہیں کل ترک کر دیجیئے ۔یا اب جو تجویزیں آپ کے سامنے ہیں، وہ آئندہ بدل جائیں تو کیا اس کا اندیشہ نہیں کہ جو لوگ آپ کی تحریر اور تقریر پر عمل کرتے ہیں ، وہ دھوکے میں پڑ جائیں گے ۔ کیا آپ کے خیال میں یہ بہتر نہ ہو گا کہ آپ ابھی اس قسم کی کتا ہیں لکھیں بلکہ کبھی لکھیں۔ان دلیلوں کا مجھ پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوا ۔ لیکن اصل میں میرا مقصد اس قسم کی کتاب لکھنا نہیں ہے۔ جو آپ بیتی کہلاتی ہے۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ میں نے حق کی تلاش میں جو تجربے کیے ہیں ، ان کی کہانی سنادوں، اور یہ بیچ ہے کہ ساری عمر انہی تجربوں میں گزری ہے۔ اس لیے یہ کہانی آپ بیتی بن جائے گی ۔ لیکن اگر کتاب کے ہر صفحہ میں سوا ان تجربوں کے کسی چیز کا ذکر نہ ہوا تو میں ایسی آپ بیتی لکھنے میں کوئی ہرج نہیں سمجھتا۔ اب چاہے یہ میرے نفس کا فریب ہوں مگر مجھے یقین ہے کہ ان تجربوں کا ایک مسلسل بیان پڑھنے والوں کے لئے فائدے سے خالی نہ ہو گا۔ سیاست کے میدان میں جو تجربے میں نے کیسے ہیں، وہ ہندوستان میں بلکہ ایک حد تک مہذب دنیا میں مشہور ہو گئے ہیں ۔ میری نظر میں نہ ان تجربوں کی کوئی وقعت ہے۔ اور نہ مہاتما کے لقب کی، جو ان کی بنا پر لوگوں نے مجھے دے رکھا ہے۔ مجھے اکثر اس لقب سے بہت دکھ پہنچا ہے۔ اور جہاں تک مجھے یاد ہے، کبھی ایک لمحے کے لئے بھی اس نے میرے دل کو نہیں لبھایا ، البتہ ان روحانی تجربوں کومیں خوشی سے بیان کروں گا، جو صرف مجھے ہی کو معلوم ہیں ۔ اور جن کی بدولت مجھے سیاسی میدان میں کان کرنے کے لئے تھوڑی بہت قوت حاصل ہوئی ۔ اگر یہ تجربے واقعی روحانی ہیں تو خودستائی کی ذرا بھی گنجائش نہیں ۔ ان کا کچھ اثر میری ذات پر ہوسکتا ہے۔ تو یہی کی میری عاجزی اور بڑھ جائے ۔ گزرے ہوئے زمانہ پر میں جتنا غور کرتا ہوں ، اتنی ہی مجھ پر اپنی نارسائی کھلتی جاتی ہے۔وہ چیز جس کی مجھے تلاش ہے۔ جس کی آرزو اور سعی میں میں تمہیں سال سے بے چین ہوں ہمعرفت نفس، دید الہی ، حصول موکشا سے ہے ۔ یہی تلاش ، یہی کوشش میرا اوڑھنا بچھونا ہے۔ یہی میری زندگی ہے ۔ میری تحریر وتقریر کامیری ساری سیاسی جد وجہد کا یہی مقصد ہے۔ لیکن چونکہ ہمیشہ سے یقین ہے کہ جو کام ایک شخص کے لئے ممکن ہے ۔ وہ سب کے لئے ممکن ہے۔ اس لیے میں نے جتنے تجربے کیے وہ خلوت کی تاریکی میں نہیں، بلکہ جلوت کی روشنی میں کیے۔؟ ۔ اور میرے خیال میں اس سے ان کی روحانی قدرو قیمت میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔بعض معاملے بندے اور خدا کے درمیان ایسے ہوتے ہیں جن کی کسی اور کو خبر نہیں ہوتی ۔ ظاہر ہے یہ چیزیں بیان میں نہیں آسکتیں ۔ جن تجربوں کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ایسے نہیں ہیں، مگر ہیں یہ بھی روحانی، بلکہ یوں کہیے کہ اخلاقی تجربے، کیونکہ اخلاق ہی مذہب کی جان ہے ۔اس کہانی میں صرف ان مذہبی باتوں کا ذکر ہو گا، جنہیں بچے اور بوڑھے دونوں اچھی طرح سمجھ سکیں۔ اگر میں ان کو جذبات سے الگ ہو کر سچائی اور عجازی سے بیان کر سکا تو ان سے اور بہت سے تجربے کرنے والوں کو روحانی ترقی میں مدد ملے گی۔ میرا ہرگز یہ دعوئی نہیں کہ یہ تجر بے مکمل ہیں۔ میں انہیں اس سے زیادہ قابل حق کی تلاش مصنف: مہاتما گاندھی ناشر: نایاب ڈاٹ نیٹ شہر: لاہور سن: 2006 درجہ بندی (DDC): 954.035092 صفحات: 721 موضوع:
Science Quran ke hazoor main
Science Quran ke hazoor main سائنس قران کے حضور میںطارق اقبال سوہدروی سخن مؤلفجو تتلیوں کے پروں پر بھی پھول کاڑھتا ہےیہ لوگ کہتے ہیں اس کی کوئی نشانی نہیںمارچ 2004ء میں ایک دن ٹیلی ویژن پر محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک کا لیکچر “اقرآن اور ماڈرن سائنس کے درمیان مطابقت یا عدم مطابقت سنا تو ایک عجیب سا سکون محسوس کیا۔ پھر جوں جوں ان کے دوسرے لیکچر ز سنے تو قرآن مجید کی حقانیت کا یہ منفرد پہلو روز روشن کی طرح مجھ پر عیاں ہو گیا۔ ایسے محسوس ہوا جیسے پیاسے کو پانی میسر آجائے، یاس میں ڈوبے ہوئے کوامید کی کرن نظر آجائے اور بے قرار دل کو یکا یک قرار آجائے۔در حقیقت آج کے اس سائنسی اور مشینی دور میں دعوت کے اس انداز کی اشد ضرورت ہے تاکہ دلائل کی زبان سمجھنے والوں کو قائل کیا جاسکے۔ موجودہ دور میں جدید سائنس نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم عام طرز دعوت کے ساتھ جدید طرز دعوت کو بھی اپنائیں اور اسے منظم انداز سے دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اس بات کا اعتراف کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ دعوت کی یہ طرز انتہائی کٹھن اور مشکل ہے اور ہمیں اپنے قدم احتیاط کے ساتھ اٹھانا ہوں گے۔ میرے خیال میں اس کے لیے درج ذیل باتوں پر توجہ مرکوزرہنی چاہیے :1) یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں بلکہ یہ نشانیوں یعنی آیات کی کتاب ہے۔ قرآن مجید کیا ایک ہزار سے زاید آیات کا تعلق سائنس اور سائنسی امور سے ہے ۔ جن میں اللہ تعالی نے اپنی بے مثال قدرت اور اسرار ورموز کے متعلقانکشافات کیے ہیں۔ ان کو بعض جگہ مفصل اور بعض جگہ اشارہ بیان کرنے کے بعد انسان کو دعوت فکر دی ہے۔2) ہمیں سائنس کو بطور کسوٹی قرآن مجید کو سچا ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ قرآن سائنس کی دلیلوں کا محتاج نہیں بلکہ سائنسی نظریات کی حقانیت یا ابطال کو پر سکھنے کے لیے قرآن کریم سے رجوع کرنا نہایت ضروری ہے۔ سائنسی نظریات انسان کی جانب سے کی جانے والی مادی تحقیق پر مبنی ہیں جن کا کسی ممکنہ نقص سے پاک ہونے کا یقین نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ جن میں سائنسی بنیادوں پر پیش کیے جانے والے نظریات کو سائنس نے ہی باطل قرار دے دیا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مسلمان کے لیے کسی چیز کے صحیح یا غلط ہونے اور پر کھنے کے لیے اصل کسوٹی “قرآن مجید ” ہی ہے، سائنس نہیں۔ چنانچہ ہمیں صرف انہی سائنسی دریافتوں کا ذکر کرنا چاہیے جو واقعی دلائل اور ثبوت رکھتی ہیں، جبکہ سائنسی مفروضوں کے ذکر سے اجتناب کیا جائے۔3) اس سوال کا جواب دینا بھی ضروری ہے جو قرآن اور سائنس کے مضمون کو پڑھتے ہوئے کسی کے ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ قرآن مجید میں پہلے سے ہی موجود تھا تو تفاسیر میں ان کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا اور آج سائنس کے بتانے کے بعد یہ کیوں کہا جارہا ہے کہ یہ باتیں تو 14 سو سال پہلے ہی قرآن مجید میں موجود تھیں۔ در حقیقت عربی زبان بڑی جامع اور وسیع زبان ہے۔ ایک لفظ کے کئی کئی معانی ہیں نیز کائنات کے اسرار ورموز سے اس وقت کے مسلمان ناواقف تھے۔ علاوہ ازیں کسی بھی انو کبھی چیز کو سمجھنے یا سمجھانے کے لیے کسی قرینے یا علم کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ قرینہ یا علم جو آج ہمیں سائنس کی صورت میں اللہ تعالی نے عطا کیا ہے۔ سابقہ ادوار کے مفسرین کرام اس سے محروم تھے چنانچہ ہر مفسر نے اپنے دور کے علم اور حالات کے حساب سے قرآنی آیات کی تشریح کی۔ DOWNLOAD (18 MB)