کنزالمجربات کنزالمجربات مکمل۔پیش لفظغالباً وسط ۱۹۷۳ء کی بات ہے ادارہ مطبوعات سلیمانی ابھی جہانیاں میں ہی تھا۔ کتب کی ترسیل بذریعہ ڈاک ہوتی تھی۔ میں اس دن کے پیکٹ بھجوا چکا تھا کہ ڈا کیا ایک ٹیلی گرام لے کر آیا۔ ان دنوں ٹیلی گرام کسی انتہائی اہم معاملہ پر ہی بھیجا جاتا تھا۔ لہذا ڈا کیا بھی بلا تاخیر لے کر پہنچا اور ارد گرد بیٹھنے والے بھی پریشان ہوئے کہ کیا معاملہ ہے۔ میں نے جلدی سے لفافہ چاک کیا۔ ٹیلی گرام پڑھی تو لکھا تھا ”بلا تاخیر کنز الحجر بات روانہ کر دیں۔ تاکید کی جاتی ہے۔ ایڈریس اندرون سندھ کے کسی دور دراز گوٹھ کا تھا۔ والد گرامی حکیم محمد عبداللہ صاحب‘ ساتھ ہی دواخانہ میں تھے۔ ٹیلی گرام کا سن کر تشریف لے آئے اور فرمانے لگے ” کوئی بہت ہی ضرورت مند لگتا ہے فی الفور کتاب وی پی کر دو ڈاک اگر چہ جا چکی تھی میں نے کتاب کا پیکٹ باندھا اور خود ہی ڈاک خانہ جا کر پوسٹ کروا دیا۔ مجھے اس بات پر حیرانی تھی کہ ہم دس پیسے کے ایک کارڈ آنے پر بھی فوری تعمیل کر دیتے تھے ٹیلی گرام بھیجنے کی تک کیا تھی ۔ تین چار دن بعد ان صاحب کا ایک تفصیلی خط ملا تو عقدہ کھلا۔ ان کے خط کا خلاصہ یہ ہے۔میں سالہا سال سے تپ دق میں مبتلا تھا۔ بے شمار علاج کئے۔ حکیموں اور ڈاکٹروں کو دکھایا۔ مختلف ہسپتالوں میں داخل رہا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ یہ سوچ کر اپنے گوٹھ میں آگیا کہ مرنا تو ہے ہی۔ اپنے گھر میں ہی آ کر کیوں نہ مروں ۔ موت کی گھڑیاں گن رہا تھا کہ ایک سنیاسی ہمارے گاؤں میں کہیں سے آ وارد ہوا۔ ہمارے گھر والے اسے لے آئے ۔ اس نے تین چار ماہ میرا علاج کیا اور مجھے نئی زندگی مل گئی۔ صحت یاب ہونے کے بعد اس کی جتنی مالی خدمت ہو سکتی تھی۔ ہم نے کی اور اس سے درخواست کی کہ سائیں بابا! آپ جوگی آدمی ہیں کبھی کہیں ہوتے ہیں اور کبھی کہیں۔ اللہ کے لیے یہ نسخہ بتا دیں تا کہ اگر آئندہ بھی تکلیف ہو تو ہم اس کا علاج کر لیں۔ لیکن اس سنیاسی نے کسی قیمت پر بھی نسخہ بتانے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد میں سنیاسی کا چیلا بن گیا۔ اس کی چلم بھرتا، اس کا حقہ تازہ کرتا۔ سفر میں حضر میں اس کی خدمت کرتا۔ اس کے پاس ایک صندوق تھا جسے وہ ہر وقت تالا لگا کر رکھتا۔ کبھی کبھار کھولتا، اس میں سے کوئی نسخہ لکھتا اور مجھے شہر بھیج کر دوا ئیں منگوا لیتا۔ اسی طرح تین ساڑھے تین سال گزر گئے۔ایک دفعہ کوئی آدمی ڈھونڈتا ڈھانڈ تا اس کے پاس پہنچا اور کہا کہ تمہاری بیوی فوت ہو گئی ہے اور تمہارے بچے بے حد پریشان ہیں۔ میں نہ معلوم کہاں کہاں سے دھکے کھا کر تمہارے پاس پہنچا ہوں۔ سنیاسی کو اس فوری صدمے کی بنا پر اس کے ساتھ جانا پڑا اور وہ اپنا ساز و سامان میرے حوالے کر کے روانہ ہو گیا اس کے جانے کے بعد میں نے صندوق کا تالا کھولا اور اس میں سے وہ نایاب کتاب نکالی۔کتاب اگر چہ بوسیدہ تھی لیکن مجھے کتاب کا نام کنزالمجربات، مصنف حکیم محمد عبد اللہ اور پتہ دار الکتب سلیمانی روڑی ضلع حصار معلوم ہو گیا۔ میں نے یہ سب کچھ نوٹ کر لیا۔ سنیاسی کے واپس آنے پر میں اس سے اجازت لے کر اپنے گاؤں آیا۔ پھر کتاب پر دیئے گئے ایڈریس پر خط پہ خط لکھنے شروع کر دیئے۔۱۹۷۱ ء کی جنگ ختم ہوئے کچھ عرصہ گزرا تھا یا تو میری ڈاک ہی ہندوستان نہیں جاتی تھی۔ یا وہاں سے جواب نہیں ملتا تھا۔ میں نے کئی مہینے اس پریشانی میں گزار دیئے پھر کتاب کی تلاش میں نکلا۔ جوئندہ یا بندہ حیدر آباد میں ایک حکیم صاحب کی دکان پر مجھے یہ کتاب نظر آ گئی۔ انہوں نے مجھے آپ کا پتہ دیا اور میں نے فوراً ٹیلی گرام دے دی تا کہ میں اس نادر کتاب کو جلد ازجلد حاصل کرلوں۔شکر ہے کہ آپ نے مجھے فورا کتاب بھجوا دی کتاب لے کر میں اپنے اس گورو کے پاس گیا اور کہا کہ سائیں جی! یہ ہے وہ کتاب جس کے ایک نسخہ کے لیے میں نے مدتوں تمہاری چاکری کی اب پوری کتاب میرے پاس ہے۔ اب مجھے آپ کے پیچھےپیچھے پھرنے کی ضرورت نہیں ہے۔والد گرامی نے جس محنت، لگن، خلوص کے ساتھ یہ کتاب لکھی تھی۔ اللہ نے اس کو شرف قبولیت بخشا۔ روزانہ آنے والی ڈاک میں برسوں گزرنے کے باوجود اس کی تعریف میں اس کی نسخوں کی تصدیق میں چند خطوط ضرور ہوتے ہیں۔۱۹۶۸ء میں اطبائے کرام کی رجسٹریشن ہوئی شفاء الملک حکیم محمد حسن قرشی مرحوم کی سرکردگی میں طبی بورڈ نے پورے مشرقی اور مغربی پاکستان کا دورہ کیا اور اطباء کے انٹرویو لیے۔ دورہ کی تکمیل کے بعد طبی بورڈ کے تمام معزز ارکان جہانیاں تشریف لائے اور انہوں نے حکیم محمد عبد اللہ صاحب کو استاذ الحکماء کا خطاب دیا اور کہا کہ پورے پاکستان میں ہم نے انٹرویو کے وقت طبیبوں سے پوچھا کہ انہوں نے کن کن طبی کتاب کا مطالعہ کیا ہے نوے فیصد کا جواب تھا حکیم محمد عبد اللہ صاحب کی کنز الحجر بات۔ یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے یہ کتاب ہذا کا ۶۴ واں ایڈیشن ہے۔اب اسے دوبارہ نئے انداز سے کمپوز کیا گیا ہے جس سے کتاب کے حجم میں کچھ کمی اور خوبصورتی میں بہت حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کتاب کی تیاری میں قیام پاکستان سے پہلے کے ایڈیشنوں سے بھی مدد لی گئی ہے۔ (1) اوزان میں اگر کہیں غلطیاں رہ گئی تھیں ان کی اصلاح کر دی گئی ہے۔(۲) حصہ اول میں صنعتی حصہ جو چھٹے ایڈیشن کے بعد نکال دیا گیا تھا پھر سے شامل کر دیاگیا ہے۔(۳) حصہ سوم میں کامیاب مطب کے اصول کے تحت چند نسخے روحانی علاج کے درج کئے گئے تھے۔ موجودہ ایڈیشن میں اس کو الگ باب کی شکل دے کر عملیات
میوقوم الیکشن 2024میں نیا جوش و جذبہ کے ساتھ
میوقوم الیکشن 2024میں نیا جوش و جذبہ کے ساتھحکیم المیوات :قاری محمد یونس شاہد میو زندگی کی ریت مُٹھی سوُ نوں ای سَرکتی جاری ہے، کتنا بھی جتن کرو، ای پھسلتی ای رہے گی۔لوگ ایک دوسرا کو 2024 کی آمد کی مبارکباد دے راہا ہاں، اور چاروگھاں کو خؤشی کی رَول پِٹ ری ہے۔کہیں کیک کاٹا جاراہاں تو کہیں چھرلی پٹاخہ پھوڑا جارا ہاں۔میو قوم یا وقت اپنا مستقبل کا فیصلان میں لگی پڑی ہے۔میڈیا کا ذریعہ سو پتوچلو رو ہے،میو اپنی بقا و شناخت کی جنگ میں مصروف ہاں۔جو جہاں جتنو جوگو ہے اپنی سی کوشش میں لگو ہوئیو ہے۔میو قوم کا اُبھار کی یا سو بڑی دلیل کہا ہوئے گی کہ مختلف پارٹین کا مہیں سو ُاور آزاد حیثیت سومیون کی بہت بڑی تعداد میں الیکشن 2024 کا قافلہ میں شامل ہونا کی تیاری پکڑری ہے۔اچھی بات ہے۔آگے بڑھنو چاہے۔قوم کو نام روشن کرنو چاہے۔یاکے علاوہ جو کوئی بھی،جا صورت میں بھی، میوقوم کی خدمت میں لگو پڑو ہے، اُو بہترین انسان ہے۔یا مصروفیت کا وقت میں ۔اَدب شاعری۔فلاحی کام ۔برادری کی ناموری۔ تنظیم سازی۔قوم کی بیداری۔نوجوانن کے مارے ہنر(سکلز) کی فراہمی ۔بہتر تعلیمی انتظام۔کتابن کو لکھنو۔وغیرہ ایسی بات ہاں جو بغیر قومی جذبہ کے ممکن نہ ہاں۔الیکشن 2024 کا حوالہ سوُ میون کو جو ش و جذبہ قابل دید ہے۔ہر کوئی اپنا انداز سے آگے بڑھن میں مصروف ہے۔سیاسی عمل میں ہر کوئی آزاد ہے۔جمہوری حق ہے۔لیکن یا حق اے بے ڈھنگا طریقہ سواستعمال مت کرو۔گھر کو گھی ہوئے تو بٹیوڑا چُپڑن کے مارے نہ رہوے ہے۔۔ یائے بھی پڑھ لئیو میو قوم آگے بڑھ سکے ہے ۔۔۔لیکن؟؟ قسط نمبر 3۔ – Dunya Ka ilm پیسہ بھی ہے جذبہ ہے اثر ورسوخ بھی ہے۔تو میدان بہت بڑو ہے۔قومی۔صوبائی الیکشنز کے علاوہ بھی سیاسی پلیٹ فارمز ۔جیسے بلدیاتی الیکشن ہاں،مل بیٹھ کے میو قوم کا سپوت فیصلہ کرلیواں کہ سیاست میں کون کہا کرسکے ہے۔اور کائی کی کتنی پسلی ہے؟حیثیت کے مطابق ذمہ داری سونپ دی جائے۔مثلا ایک قومی سیٹ کے مارے اگر میدان میں اترے ہے تو واکے نیچے دو صوبائی سیٹن پے آسکاہاں۔ایک دوسرا کے مقابل کھڑا ہونا سو بہتر ہے۔حلقہ بدل لئیوزورن کو بھی پتو چل جائے گو۔حقدار کو حق بھی مل جائے گو۔۔۔اطلاعات ہاں کہ کچھ مضبوط میو امیدوارن کا مقابلہ میں کچھ قومی لیڈر الیکشن لڑاہاں۔ایسی صورت میں میو قوم اے موقع نہ گنوانو چاہے۔اُو سب مل کے وائے ہرا دئیو او چاہے کائی بھی پارٹی سو ہوئے۔اَکٹھ کرلئیو۔اگر تم قومی لیڈر اے ہران میں کامیاب ہوگیا تو عالمی سطح پے میو قوم کو نام اُجاگر ہوئے گو۔۔میو امیدوار جو الیکشن میں حصہ لے راہاں ۔ان کی مدد کرنو اور ان کو سہارو اور ووٹ دینو پوری میو قوم پے فرض ہے۔اگر اب بھی کوئی دوستی اور مجبوری آڑے آئی تو سمجھو تم لوگ میو قوم کے مارے مخلص نہ ہو۔اِی موقع قدرت کا مہیں سو ایک موقع ہے یاسو فائدہ اٹھا لئیو۔اگر تم ایک دو لیڈر ہرانا میں کامیاب رہا تو۔سدا کے مارے ای رونو ختم ہوجائے گو کہ ہم نظر انداز کردیا اور ہم کو کائی پارٹی نے ٹکٹ نہ دیا۔ٹکت دیا نہ جاواہاں لیا جاواہاں۔دوسرا وے میو جو خود بھی سمجھاہاں کہ جیت نہ سکاہاں ۔لیکن مضبوط میو امیدوار کا مقابلہ میںصرف مخالفت کی وجہ سو ُاتر راہاں۔یا پھر ٹھرک کے مارے تو ایسان میں بوڑھا بڑان کا مشورہ سو ثؤاب کی نیت سو دوچار جوت ماردئیو۔کیونکہ انن نے میو قوم اے ہرانا کو ارادہ کرو ہے۔۔یکم جنوری2024 بعد نماز فجر،بروز سوموار۔۔
21 years ago today in 2002Birthday of late Saad Younis
آج سے 21سال پہلے2002.۔ یوم پیدائش۔سعد یونس مرحوم :بانی سعد ورچوئل سکلز پاکستانزندگی کے ایام مٹھی میں بھرے ہوئے خشک ریت کی طرح کھستے جارہے ہیں۔۔زندگی کا یوں یوں بکھرتے جانا کہ احساس تک نہ ہو۔راقم الحروف(حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو)کو اللہ نے سعد نامی بیٹا تین بیٹیوں کے بعد عطاء فرمایا۔حالات دنیاوی لحاط سے اس قدر دگرگوں تھے کہ گھر پر رہنا بھی دشوار ہوگیا تھا۔یوں کسی مہربان(جن کا علاج کیا تھا ۔ایک رشتہ تھے) کے گھر 2021 ٹھیک بارہ بج کر5 منٹ پر اللہ نے مجھے چاند سا بیٹا عطاء کیا۔لوگ اس وقت نئیو ائیر ناٹ کے سلسلہ میں نعرے لگارہتے تھے۔چھرلیاں پٹآخے پھوڑ رہے تھے۔زندگی کی کلفتیں جیسا کہ کبھی تھی ہی نہ ۔بس ایک خؤشی تھی۔اور بس خوشی۔یکم جنوری 2002 میرے لئے بہت لکی ثابت ہوا ۔تین بیتیوں کو بھائی ملا تھا۔اگلے دن سعد کی ولادت کیخبر کنبہ خاندان اور رشتہ داروں میں آنا فانا پہنچ گئی گوکہ اس وقت مونائل فون نہ تھے ۔پی سی ایل کا زمانہ تھا۔۔اگلے دن والد محترم اور میرے بھائیوں سمیت ملنے تشریف لائے۔اس وقت ٹھنڈ بہت زیادہ تھی میزبانوں نے سعد اور اس کی والدہ کے لئے گیس ہیتر کا بندوبست کررکھا تھا۔ایک کمرہ ان کے لئے مختص کیا ہوا تھا۔تمام خدمات بروقت ۔اور ہر قسم کی ضروریات۔ہمہ وقت میسر ہوتی تھیں۔صاحب خانہ ما شا للہ خود بھی صاحب اولاد تھے۔لیکن میرے بچوں کو ایسا محسوس کراتے کہ اولین ترجیح یہی ہیں۔ محلہ سے کئی بچیاں پڑھنے آیا کرتی تھیں۔انہوں نے سعد کو گھنٹؤں لاڈ پیار کرنا ۔کھلاتے رکہنا۔ایک دن انہوں نےضد کی کہ ہم تو بھائی کو نہلائیں گے۔انہوں نے زبردستی سعد کو لیا ہیتر کے سامنے گرم پانی سے نہلا دیا۔آنول کا دھاگہ ابھی کچا تھا ۔وہ بچیاں تھیں نا سمجھ ۔انہوں نے اس دھاگے کو اکھاڑ دیا ۔اور بچے کو کمبل میں لپیت کر ماں کے حؤالے کردیا۔وہ معمولی سا ناف کا زخم ایک ماہ بعد پیٹ کی سوزش (انفیکشن میں تبدیل ہوگیا۔یوں چلڈرن ہسپتال لاہور میں اس کے پیت کا آپریشن کروانا پڑا۔۔۔یہ آپریشن اس کے پیٹ کے پھیلائو کا سبب بنا رہا ۔۔۔بعد میں چار پانچ سال کی عمر میں میرے ساتھ موٹر سائکل پر حآدثہ پیش آیا اور سر کے بل رگڑ لگی ۔سر کے تالو کے اور کھال کے ساتھ ماس بھی زخمی ہوگیا۔کئی ماہ تک زخم سے ریشہ بہتا رہا ۔لیکن ان دونوں حادثات میں اللہ نے اسے نئی زندگی دی۔لیکن پیٹ کی خڑابی خری وقت ان کی موت کا سبب بنی۔۔۔آ پڑھنے لکھنے میں کافی ہوشیار و ذہین تھا۔ میرے بچے الحمد اللہ خواد و نوشت میں دوسرے بچوں سے کہیں آگے ہوتے ہیں ۔چھ بچوں میں سے کوئی بچہ ایسا نہیں جس نے دو یا تین کلاسز چھوڑ کر نویں دسویں کے امتحانات میں کامیابی حاصل نہ کی ہو۔یہی وجہ ہے کہ سعد یونس کم عمری ہی اع؛لی تعلیم حآصؒ کرچکا تھا۔ببی بی اے۔کے آخری سال میں تھاکہ رخصت فرودس بریں ہوا۔میڑک کے بعد مالی حالات نے اسے بے چین کردیا۔یوں اس نے از خود کمپیوٹر ہارڈ وئیر و سوفٹ وئیر میں مہارت حاصل کی۔اور آج سے ٹھیک دو سال پہلے 109 سال کی عمر سعد ورچوئل سکلز کی بنیاد کھی۔یہ ادارہ اس کی اپنی سوچ کا نتیجہ تھا۔البتہ میں نے کبھی اپنے بچوں کی حؤصلہ شکنی نہیں کی۔۔سعد ویب ڈویلپر تھا۔ویب ڈزائنر تھا۔گرافیکس میں مہار اور سوفٹ وئیر انجینیرنگ میں دسترست رکھتا تھا۔اس نے اپنے لئے دو ویب سائٹس بنائی تھیں(1)https://dunyakailm.com/۔۔۔۔(2)۔https://tibb4all.com/۔وہ خود ہی کماتا خود ہی خرچ کرتا تھا۔2021 میں جب سعد ورچوئل سکلز کی بنیاد رکھی تو ایک بہت بڑی دعوت کا اہتمام کیا۔اس میں دوست احباب کے ساتھ عزیز و اقارب۔اور ہمجولی و ہم خیال لوگوں کو مدعو کیا۔کھبی اس کی کمائی کی طرف دھیان نہیں دیا لیکن ایک سال کی ارننگ سے جو خرچہ کیا اس کا تخمینہ دو لاکھ کے قریب تھا۔ وہ دوست احباب اور میو برادری کے کاموں سے خوشی محسوس کرتا ۔جوکام بھی میو برادری کی طرف ملتا ۔سب کام ترک کرکے انہیں ترجیحی بنیادوں پر پورا کیاکرتاتھا۔۔جس دن اس کی طبیعت خراب ہوئی۔اس دن بھی آڈرز کی تکمیل میں مصروف تھا۔اس کی زبان پر تھا میرے پاس وقت کم ہے اور کام زیادہ ہیں۔اپنی والدہ کے پاس آکر بیٹھ جاتا کہ ماں وقت کا کیا پتہ ہے میں نے تہیہ کیا ہے کہ کم از کم دو ساے چار گھنٹے گھر والوں کو دونگا۔کیونکہ ان کا حق بنتا ہے کہ ساتھ وقت بتایا جائے۔وہ اس فکر میں کئی کئی راتیں جاگ کر گزار دیتا کہ میں کوئی ایسا نطام بنادوں کہ غریب لوگوں کے بچوں کو تربیت دے کر کمانے اور گھر چلانے کے قابل بنادوں ۔عزت نفس کسی کی مجروح نہ ہو/۔اس نے کئی کورسز تیار کئے تھے۔کئی کتابیں ڈیجیٹل مارکٹنگ پر لکھی تھیں۔وہ ایک ایسے سوفٹ وئیر پر کام کررہا تھا کہ اس کی مدد سے جدید قسم کی مارکٹنگ اسانی سے سیکھی اور کی جاسکے۔ای کامرس۔فری لانسسنگ۔اور گرافیکس میں اس نے بہت زیادہ کام کیا تھا۔۔ہمارے گھر میں اپنی نوعیت کا پہلا کام تھا۔وہ بار بار کہتا مجھ سے سیکھ لو ورنہ پشتانا پڑے گا ۔تم لوگ مجھے یاد کروگے۔ابھی تمہیں میری قدر معلوم نہیں ہے۔جس دن میں نہ ہوا یاد کروگے۔لیکن گھر والے اس کی باتیں سُنی ان سُنی کردیا کرتے تھے۔اس کی کہی ہوئی باتیں۔اس وقت ای ایک کرکے یاد آتی ہیں ۔حقیقت ہے ہمیں اس کے کائونٹس اور کوڈز تلاش کرنے اور انہیں رننگ میں لانے کے لئے ایک سال کا عرصہ لگا۔اس بے خبری میں اس کی بہت سی رقم ضائع ہوگئی ۔اندازا پچاس لاکھ کی امائونٹ ہمارے ہاتھ سے نکلی۔اللہ کی طرف سے شاید اس میں بہتری تھی۔اس کی کمائی نقدی کی سورت میں تو نہ مل سکی لیکناس کے اٹھائے ہوئے قدموں پر چل کر بہن بھائیوں کو نئی دنیا ملی۔یعنی جہاں سے سعد یونس چھوڑ کر گیا تھا دلشاد یونس نے وہیں سے اپنے سفر کا آغاز کیا ہے۔ آج الحمد اللہ سعد ورچوئل سکلز میں بتی سے بچیاں ڈیجیٹل مارکٹنگ۔ای کامرس۔اور وی﷽ ڈزائننگ اور ڈیٹا نالنسز ہوسٹنگ ڈومینز۔سرچ انجن آپٹومائز سیکھ رہی ہیں ۔ایک دو بچیاں بیوہ اور نادار بھی ہیں سعد یونس کی خؤاہش کے مطابق ان کی تعلیم و تربیت للہ فی اللہ ہے۔سعد
Creatinine test
Creatinine testمیڈیکل میں روزہ مرہ ٹیسٹ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔جب کسی مریض کو پریشان کرنا ہو مرض سمجھ میں نہ آئے۔یا پھر پیسے بٹورنے ہوں۔تو معالج بے دھڑک ٹیسٹ لکھ دیتے ہیں ۔حالانکہ بسا اوقات ضرورت نہیں ہوتی۔ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ٹیست کوئی لایعنی چیز ہے البتہ بے جا ٹیسٹ کرانا مجبوری کو بڑھاوا دینا بری بات ہے۔کریٹینین ٹیسٹ ۔کیوں کیا جاتا ہےکریٹینین ٹیسٹ اس بات کا پیمانہ ہے کہ آپ کے گردے آپ کے خون سے فضلے کو فلٹر کرنے کا اپنا کام کتنی اچھی طرح انجام دے رہے ہیں۔ کریٹینین ایک کیمیائی مرکب ہے جو آپ کے پٹھوں میں توانائی پیدا کرنے کے عمل سے بچا ہے. صحت مند گردے خون سے کریٹینین کو فلٹر کرتے ہیں۔ کریٹینین آپ کے جسم کو پیشاب میں فضلے کی مصنوعات کے طور پر باہر نکلتا ہے۔یہ قدیمی طریقہ تشخٰص ہے کہ پیشاب کی مدد سے امراض کا پتہ چلایا جائے۔آپ کے خون یا پیشاب میں کریٹینین کی پیمائش آپ کے ڈاکٹر کو اس بات کا تعین کرنے میں مدد کرنے کے لئے اشارے فراہم کرتی ہے کہ گردے کتنی اچھی طرح کام کر رہے ہیں.یہ کیوں کیا جاتا ہےآپ کا ڈاکٹر یا صحت کی دیکھ بھال کا دوسرا فراہم کنندہ مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر کریٹینین ٹیسٹ کا حکم دے سکتا ہے:گردے کی بیماری کی علامات یا علامات ہیں تو تشخیص کرنے کے لئےاگر آپ کو ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر یا دیگر حالات ہیں جو گردے کی بیماری کے خطرے میں اضافہ کرتے ہیں تو گردے کی بیماری کی جانچ پڑتال کرنا گردے کی بیماری کے علاج یا ترقی کی نگرانی کرناادویات کے ضمنی اثرات کی نگرانی کرنا جس میں گردے کو نقصان یا گردے کے تبدیل شدہ فنکشن شامل ہوسکتے ہیںٹرانسپلانٹ شدہ گردے کے افعال کی نگرانی کرناآپ کیسے تیاری کرتے ہیںایک معیاری خون کا ٹیسٹ آپ کے خون میں کریٹینین کی سطح کی پیمائش کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے (سیرم کریٹینین). آپ کا ڈاکٹر آپ کو ٹیسٹ سے پہلے رات بھر (روزہ) نہ کھانے کے لئے کہہ سکتا ہے. کریٹینین پیشاب کے ٹیسٹ کے لئے، آپ کو کلینک کے ذریعہ فراہم کردہ کنٹینرز میں 24 گھنٹوں میں پیشاب جمع کرنے کی ضرورت ہوسکتی ہے. کسی بھی ٹیسٹ کے لئے، آپ کو ٹیسٹ سے پہلے ایک خاص مدت کے لئے گوشت کھانے سے بچنے کی ضرورت ہوسکتی ہے. اگر آپ کریٹین سپلیمنٹ لیتے ہیں تو ، آپ کو ممکنہ طور پر استعمال بند کرنے کی ضرورت ہوگی۔ آپ کیا توقع کر سکتے ہیںسیرم کریٹینین ٹیسٹ کے لئے، آپ کی صحت کی دیکھ بھال کرنے والی ٹیم کا ایک رکن آپ کے بازو کی رگ میں سوئی ڈال کر خون کا نمونہ لیتا ہے. پیشاب کے ٹیسٹ کے لئے، آپ کو کلینک میں ایک نمونہ فراہم کرنے یا 24 گھنٹوں میں گھر پر نمونے جمع کرنے اور انہیں کلینک کو واپس کرنے کی ضرورت ہوگی.نتائجخون یا پیشاب میں کریٹینین کے نتائج کی پیمائش اور تشریح کئی طریقوں سے کی جاتی ہے ، بشمول مندرجہ ذیل:سیرم کریٹینین کی سطحکریٹینین عام طور پر آپ کے خون میں داخل ہوتا ہے اور عام طور پر مستقل شرح پر خون کے بہاؤ سے فلٹر کیا جاتا ہے. آپ کے خون میں کریٹینین کی مقدار نسبتا مستحکم ہونا چاہئے. کریٹینین کی بڑھتی ہوئی سطح گردے کے خراب فنکشن کی علامت ہوسکتی ہے۔سیرم کریٹینین کو خون کے ڈیسی لیٹر (ملی گرام / ڈی ایل) میں کریٹینین کے ملی گرام یا ایک لیٹر خون (مائکرومولز / ایل) میں کریٹینین کے مائکرومول کے طور پر رپورٹ کیا جاتا ہے۔ سیرم کریٹینین کے لئے عام حد یہ ہے :بالغ مردوں کے لئے، 0.74 سے 1.35 ملی گرام / ڈی ایل (65.4 سے 119.3 مائکرومولز / ایل)بالغ خواتین کے لئے، 0.59 سے 1.04 ملی گرام / ڈی ایل (52.2 سے 91.9 مائکرومولز / ایل)گلومرولر فلٹریشن کی شرح (جی ایف آر)سیرم کریٹینین کی پیمائش کو یہ اندازہ لگانے کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے کہ گردے کتنی تیزی سے خون کو فلٹر کرتے ہیں (گلومرولر فلٹریشن کی شرح).۔ ایک شخص سے دوسرے شخص میں سیرم کریٹینین میں تغیر کی وجہ سے ، جی ایف آر گردے کے فنکشن پر زیادہ درست مطالعہ فراہم کرسکتا ہے۔جی ایف آر کا حساب لگانے کا فارمولا سیرم کریٹینین کی گنتی اور دیگر عوامل جیسے عمر اور جنس کو مدنظر رکھتا ہے۔ 60 سے کم جی ایف آر اسکور گردے کی بیماری کی نشاندہی کرتا ہے۔ 60 سے کم اسکور کی حد علاج اور بیماری کی ترقی کی نگرانی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے.Creatinine کلیئرنس کریٹینین کلیئرنس اس بات کا پیمانہ ہے کہ گردے پیشاب میں اخراج کے لئے خون کے بہاؤ سے کریٹینین کو کتنی اچھی طرح فلٹر کرتے ہیں۔کریٹینین کلیئرنس کا تعین عام طور پر 24 گھنٹے کے پیشاب کے نمونے میں کریٹینین کی پیمائش اور اسی مدت کے دوران لئے گئے سیرم نمونے سے کیا جاتا ہے۔ تاہم، پیشاب کے نمونوں کے لئے مختصر وقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے. پیشاب کے نمونے کا درست وقت اور جمع کرنا اہم ہے۔ کریٹینین کلیئرنس کو جسم کی سطح کے علاقے (ایم ایل / منٹ / بی ایس اے) میں فی منٹ کریٹینین کی ملی لیٹر کے طور پر رپورٹ کیا جاتا ہے۔ 19 سے 75 سال کی عمر کے مردوں کے لئے عام حد 77 سے 160 ملی لیٹر / منٹ / بی ایس اے ہے۔خواتین میں کریٹینین کلیئرنس کے لئے عمر کے لحاظ سے عام حد درج ذیل ہے:18 سے 29 سال: 78 سے 161 ملی لیٹر / منٹ / بی ایس اے30 سے 39 سال: 72 سے 154 ملی لیٹر / منٹ / بی ایس اے40 سے 49 سال: 67 سے 146 ملی لیٹر / منٹ / بی ایس اے50 سے 59 سال: 62 سے 139 ملی لیٹر / منٹ / بی ایس اے60 سے 72 سال: 56- سے 131 ملی لیٹر / منٹ / بی ایس اےعمر رسیدہ افراد کے لئے معیاری اقدامات کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔ آپ کی عمر کے گروپ کے لئے عام حد سے کم نتائج گردے کی خراب کارکردگی یا ایسے حالات کی علامت ہوسکتی ہے جو آپ کے گردوں میں خون کے
Food rules. medicine/احکام غذا ۔ دوا۔
Food rules. medicine احکام غذا ۔ دوا۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میومنتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی/سعد ورچوئل سکلز پاکستان غذا کے متعلق سب سے اہم بات یہ ہے کہ بغیر شدید بھوک کے مریض کو غذا با لکل نہ دیں ۔ اور جب بھوک سے غذا کے لئے اصرار کرے تو اول اُسے لطیف اغذیہ مثلاً دودھ کا پانی پھلوں کا رس۔ چائے کا پانی (فتوہ) رفیق شوریہ انڈے کی سفیدی یا انڈے کی زردی کا شوربہ و غیر استعمال کرائیں اور جب ان کے بار بار کھانے سے بھی بھوک رفع نہ ہو تو انہی لطیف اغذیہ میں گھی کا اضافہ کر دیں، مثلاً دودھ گھی یا گھی والی چائے شوربے میں گھی وغیرہ اور اگر اس کے بعد بھی مریض بھوک کی شکایت کرنے تو دَ لیا۔ چاول، خشکہ ڈبل روٹی چپاتی وغیرہ دیں۔ مگر جس تر کاری کے ساتھ ان کو استعمال کرائیں ان میں گھی بہت زیادہ ہونا چاہیئے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ذہن نشین رکھیں کہ ہر غذا کا وقفہ کم از کم چھ گھنے ضرور ہونا چاہئے ۔یا در کھیںکہ غذا کو ہضم کرنے کے لئے حرارت کی ضرورت ہے۔ یہ بھی پڑھیں Ghazai Chart by hakeem qari younas غذائی چارٹ از حکیم قاری یونس غذائی چارٹ…. اورجسم میں حرارت کی کمی کے وقت جو غذا مریض یا تندرست آدمی کھاتا ہے وہ ہضم نہ ہونے کی صورت میں اندر متعفن ہو کر باعث فساد ہوتی ہے۔ اس لئے اگر جسیم میں حرارت کی کمی ہو۔ تو سرد اغذ یہ بند کر دینی چاہئیں، کیونکہ غیر ضرورت ٹھنڈی اغذیہ مثلاً شربت لسی و غیر جسم کو سرد کر دیتی ہیں۔یا در کہیں حرارت ایک ایسی چیز ہے جس پر زندگی کی نشو ونما کا دارو مدار ہے اس لئے طبیب کو مریض کی حرارت کو خاصطور پر مد نظر رکھنا چاہئیے ۔اسی طرح بغیر ضرورت مسہلات اور مدرات کا استعمال بھی منع ہے کیونکہ ان سے جسم کی حرارت کم ہوتی ہے ۔غذا استعمال کراتے وقت درج ذیل احکام کو خاص طور پر مد نظر رکھیں ۔(1) جب مرض رفع ہو رہا ہو ۔ اس وقت غدا پر مکمل کنٹرول ہونا چاہیئے ورنہ اگر ایسے وقت بغیر ضرورت غذا کھائی گئی تو طبعیت غذا کی طرف متوجہ ہو جائے گی جس سے حصول شفا میں رکاوٹ ہوگییا دوبارہ مرض شدت اختیار کر جائے گا۔ خاص طور پر باری کےبخاروں میں باری کے اوقات پر اس دن غذا بند رکھنی چاہیئے ۔ جب تک باری کا وقت گزر نہ جائے ۔(۲) جب مریض کو بھوک زیادہ تنگ کرے اور وہ بار بار اس کی شکایت کرے تو اس کو اس قسم کی غذا دینی چاہیئے۔ جس میں مقدار کی زیادتی، مگر تغذیہ میں کمی ہو۔ مثلاً سبزیوں کا استعمال بغیر دودھ کی چائے ۔ چاول وغیرہ ۔ اور اگر اس کے بعد بھی بھوک کی زیادتی رہے ۔ تو ان میں گھی کی مقدار بڑھا دینی چاہیے ۔ ایسی کوشش کی جائےکہ اس کی غذا میں نشاستہ دار اغذیہ نہ ہوں یا بہت کم ہوں۔ کرایا جائے۔ لیکن اگر کمز وری شدید ہو ۔ تو مقوی اغذیہ قلیل مقدار میں استعمالکرائی جائیں .(2) گردوں کے امراض میں محلول اغذیہ مثلاً دودھ چائے پھلوں کا رس میں اغذیہ دو وہ چائےاستعمال کر ائیں۔11)) آنتوں کے امراض خصوصاً جب پیچش ہو تو اغذیہ خصوصاً چبا کر کھانے والی اغذیہ بند کر دینی چاہیئے ۔ اس وقت صرف دودھ کا پانی۔ انڈے کی سفید کی استعمال کرائی جائے۔(12) نزلہ زکام کی حالت میں غذا با لکل روک دینی چاہیئے۔ البتہ گر مریض اصرارکرے تو خشک اغذیہ مثلا چنے ۔ مکئی باجرہ – انڈے ۔ پکوڑے۔ کریلے بینگن : ٹماٹر وغیرہ کھلائیں۔(۱۳) بخار کی حالت میں غذا با لکل بند کر دینی چاہئیے۔ مریض کے شدید اصرار پر پھلوں کا رس استعمال کرائیں ۔(14) قبض کے مریضوں کو عام طور پر غذا زیادہ مقدار میں استعمال کرائی جائے۔خصوصاً چرپری اور مرچ مصالحے والی غذا یہی وجہ ہے کہ قانون مفرد اعضاء کے معالج دائمی قبض کے مریضوں کا علاج صرف سالن کھلا کر ہی کرتے ہیں ۔احکام دوادوا استعمال کرانے سے پہلے مرض کی صحیح تشخیص کرنا ضروری ہے جب تک تشخیص و تجویز میں شک نہو دوا استعمال نہ کرائیں۔ بلکہ ایسی صورت میں بہتر یہ ہے یاد رہے کہ بھوک کی زیادتی اکثر معدے کی سوزش یا خشکی کا نتیجہ ہوتی ہے۔(۳) بعض اوقات مریض کی بھوک بالکل بند ہو جاتی ہے ۔ اور وہ نقاہت محسوس کرتاہے ایسی حالت میں تھوڑی مقدار میں مقوی اور زود ہضم اغذیہ استعمال کرائی جائیں ، جیسے شور بہ یا انڈے کی زردی وغیرہ ان سے طاقت بھی بحال رہے گی ۔ اور ہاضمہ پر زیادہ بو جھ بھی نہیں پڑے گا۔ بھوک کی کمی بعض وقت معدے میں خمیر اوربلغم کی زیادتی سے ہوتی ہے اور کبھی ضعف جگر سے ۔(4) جب بدن میں ضعف کے ساتھ رطوبات کی زیادتی ہوتو غذ اکی مقدار اور کیفیت دونوں کے اعتبار سے کم کرادی جائے ۔(۵) جب جسم میں غذا کو ہضم کرنے کی استعداد زیادہ ہو جائے اور طبعیت صحت کی طرف راغب ہو تو غذا میں مقدار اور کیفیت دونوں کو بڑھا دنیا چاہئے(6) جب آنتوں اور جگر میں خرابی ہو تو ایسی غذا استعمال کروائی جائے جو معدے میں ہی ہضم ہو جائے جیسے نشاستہ دار اور لحمی اغذیہ ۔(7) جب معدے میں سوزش ہو تو ایسی غذائیں استعمال کرائی جائیں جن سے معدے کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔ یعنی انہیں ہضم کرنے کے لئے معدہ کو زیادہ محنت نہ کرنی پڑے ۔(۸) جب قبض شدید ہو یا سدوں کا احتمال ہو تو اس وقت غذا کے ساتھ روغنی اشیاء کا اضافہ کر دنیا چاہئیے. جیسے بھی دودھ۔ بادام روغن وغیرہ .(۹) جب تک جسم کے اندر زہریلے مواد ہوں تو اس وقت غذا خصوصاً مقوی اغذیہ کا استعمال بند رکھنا چاہئیے ۔ جب فضلات کا اخراج ہو جائے اور اعضا میں غذا کے طلب کی استعداد پیدا ہو جائے ۔ تو اس وقت مقوی غذا کو شروعکہ صرف غذا روک دیں اور تسلی ہونے پر دوا استعمال کر ائیں ۔مرض کی تشخیص اور دوا کی تجویز میں ضروری
An ancient method of treating tuberculosis
فصد طب کا قدیم طریقہ علاجAn ancient method of treating tuberculosisحکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو ایک ایسی صورت کا نام ہے جس میں رگوں سے بوقت ضرورت خون کوخارج کیا جاتا ہے۔ عام اطبا ءکا خیال یہ ہے کہ فصد سے گندے اخلاط یا گندہ خون خارج کیا جاتا ہے۔یہ بالکل غلط ہے حقیقت یہ ہے کہ فصد سے مراد صرف یہ ہے کہ کسی مقام یا عضو کی طرف خون کے دباؤ کو کم کرتا ہے ۔ مثلاا عصابی امراض میں خون کا دوران عضلات کی طرف کر نے کے لئے دائیں طرف رگوں کا قصد کیاجاتا ہے. جیسے رگ صافن کی فصد بند حیض جاری کرنے کے لئے کی جاتی ہے ۔اسی طرح جگر گردوں سے خون کا دباؤ کم کرنے کے لئے بائیں اسلیم کی فصد کی جاتی ہے جس سے جگر اور تلی کے دردوں کو فوراً آرام آجاتا ہے یا داشت (۲)بعض اوقات خون میں ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے مریض بے چین ہو جاتا ہے اور اکثر پاگل ہو جاتے ہیں۔ وہ نہ سوتے ہیں۔ نہ آرام کرتے ہیں۔ بلکہ دوسروں کو مارتے ہیں یا دوڑنے اور بھاگنے کی کوشش ہوتے ہیں۔ ایسے وقت میں فصد کر کے اگر کافی مقدار میں خون نکال دیا جائے جس سے مریض کمز ور اور نا تواں ہو جائے اور اس میں یہ طاقت نہ رہے کہ وہ بھاگے یا دوڑے یا کسی کے ساتھ لڑنے کا حوصلہ کرے ۔ اس کے بعد اس کا تحریک کے مطابق علاج کیا جائے تو فوری آرام آجاتا ہے ۔ نوٹ :-اکثر پاگل اعصابی تحریک یا غدی تحریک سے ہوتے ہیں ۔ ان کی تشخیص پیشاب دیکھ کر یا نبض دیکھ کر بخوبی ہو جاتی ہے ۔ اعصابی تحریک سے پاگل ہو جس کا پیشاب سفید ہو گا اورنبض دبی ہوئی ہوگی۔ ایسے مریض کے دائیں بازو یا دائیں ٹانگ کی کسی رگ کی فصد کر دیں ۔اور اگر پاگل غدی تحریک سے ہو تو اس کے بائیں بازو یا بائیں ٹانگ کی کسی رگ کی فصد کرنے سے فوراً سکون ہو جایا کرتا ہےیا داشتقصد ہمیشہ پرانی اور خطرناک امراض میں کریں معمولی اورنئی مرض میں فصد نہیں کرنی چاہیئے۔ کیونکہ یہ عارضی اور وقتیہوتی ہیں ۔ احکام فصد (1) فصد سے قبل تھوڑی سی ملکی غذا کھانی چاہیئے ۔فصد بعد مقوی ادویہ کا خمیرہ جوارش اور دیگر مفرح مرکبات کا استعمال کریں غشی کی صورت میں مقویات قلب جیسے خمیرہ عنبر ی جواہر والا – یادوالمسک معتدل جواہر والی کا استعمال کیا جائے ۔(۲)، قصد کے بعد کافی دیر تک آرام کرنا چاہیے .(۳) کافی دیر تک بغیر اشد ضرورت کے غذا نہیں دینی چاہیئے ۔(4) حاملہ عورت کو قصد نہیں کرنا چاہیے ۔ اس سے جنین کے مرجانے یا ساقط ہو جانے کا خطرہ ہے ۔کلیات قانون مفرد اعضاء 250(۵) ایام حیض میں قصد نہ کیا جائے، اس سے خون حیض بند ہو جایا کرتا ہے ۔(6)لاغراندم اورقلیل اندام اشخاص کو قصد تجویز نہیں کرنا چاہیئے۔ اسی طرح لحیم و شمیم جن کے بدن ڈھیلے ڈھالے ہوں ان کو بھی بلا اشد ضرورت کے فصد منع ہے ۔(6) شدت گرما و سرما میں بلا اشد ضرورت قصد سے احتراز کیا جائے ۔(۸) رنج و غم اور خوف میں بھی فصد منع ہے(9) تپ دق کے مریضوں کوفصد نہ کریں .(10)چودہ سال سے کم اور ساٹھ سال سے اوپر والوں کو بغیر اشد ضرورت کے قصد منع ہے(11) قصد کو آخری علاج نہیں سمجھ لینا چاہیے، اس کے بعد مریض کا باقاعدہ علاج کرناچاہئیے فصد سے تو صرف مرض کا امالہ ہوتا ہے ۔ امراض اورفصد کرنے کے مقامات اور رگیں(1) عام طور پر کہنی کی رگ کافصد کیا جاتا ہے۔ لیکن رگ قفال سے سر کے مرض اور فصد رگ با سلیق سے جسم کے زیریں حصے میں مرض کو جلد نفع ہوتا ہے ۔ اور رگ اکہل ۔(ہفت اندام) کی قصد میں دونوں رگوں کے فصد کے فوائد جمع ہیں ۔(۲) دہنی اسلیم کی فصد جگر کے دردوں اور بائیں کی فصد تلی کے دروں کو دور کرتی ہے(3)رگ عرق النسا کی فصد مرض عرق نسا اور نقرس میں بھی فائدہ مند ہے ۔(4) رگ صافن کی فصدحیض جاری کر نے میں کار آمد ہے۔ اور ساتھ ہی اس سے وہ فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں جوفصد رگ عرق النسا سے حاصل ہوتے ہیں ۔
کہاالیکشن 2024 میںمیو قوم بدلن کے مارے تیار ہے؟
کہاالیکشن 2024 میںمیو قوم بدلن کے مارے تیار ہے؟ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میومیوقوم بحیثیت قوم کم ہی دوسران کو لحاظ کرے ہے۔اپنان نے تو کائی حالت میں بھی برداشت کرن کے مارے تیار نہ ہے۔خدا کی قدرت کہ میو اپنی کھنس اے جب نکالاہاں جب اَگلو مجبوری کی حالت میں ہوئے۔زندگی میں اگر کائی کو اہمیت مل جائے تو وائے برداشت کرنو بہت مشکل رہوے ہے۔لیکن عزت و ذلت تو اللہ کا ہاتھ میں رہوا ہاں۔میو قوم کی ایک خامی ای بھی ہے کہ جب کہیں دال نہ گلے ہے تو مذہب یا دین کو سہارو لیوا ہاں۔خود چاہے دین کے پئے بھی نہ پھٹکتا ہوواں ۔لیکن اپنا مخالف کی ساری نیکین نےبرائین ثابت کرن میں کسر نہ چھوڑا ہاں؟۔۔جب کائی کی مخالفت کراہاں تو ایسی دور کی کوڑی ملاواہاںکہ ایسو محسوس ہووے ہے کہ واکے پئے ایک بھی نیکی نہ ہے۔جو بھی نیک کام ہاں سب کا سب برائی کرن والان نے کراہاں۔الیکشن 2024 سر پے کھڑو ہے۔ یائے بھی پڑھ سکوں ہومیوقوم آگے بڑھ سکے ہے لیکن میو قوم کے پئے الیکشن لڑن کی کوئی تدبیر موجود نہ ہے۔ایک بھیڑ چال ہے۔۔الیکشن والا دفتر میں کاغذ جمع کرواکے نوں سمجھاہاں کہ بس الیکشن تو ہماری جھولی میں پڑو ہے۔۔کئی میو تو ایسا بھی ہاں ۔ان کو کام اپنی قوم کی مخالفت ہے جیتنو تو ان کا سوپنان بھی نہ آوے ہے۔۔جولوگ کچھ کرسکاہاں۔ان کی ٹانگ کھینچ نو پیدائشی حق سمجھاہاں۔میو قوم کا سپوت میدان عمل میں اِترا ہویا ہاں۔کچھ تو یائے اسلام بناکے پیش کررہاہاں۔ یائے بھی پڑھو میوقوم کے مارے ایسا کام کرو جن کا بہترنتیجہ نکلاںکہیں مسلک و مذہب کہیں دوسرا مسائلن کا حل ان کی جھولی میں پڑا دکھائی دے راہاں۔۔لیکن حقائق ایسا ہاں کہ انن نے اپنی جیت کو خود بھی یقین نہ ہے۔کہا میو سدا اوت ای رہینگا ؟یا پھر کوئی چج کوکام بھی کرنگا۔ہوڑ متی ہم نے کہاں لے جاکے چھوڑے گی؟۔کچھ میو اپنی برادری کا مقابلہ میں الیکشن تو نہ لڑرا ہاں لیکن مخالف کا کیمپن میں گُھسا پڑا ہاں ۔چاپلوسی کی اعلی روایات قائم کرراہاں۔میں نے خوب سوچو ہےپھر نتیجہ پے پہنچوہوں کہ میو ابھی تک سُدھرن کو نام بھی نہ لے راہاں۔ ۔ جب کوئی بھی بات نہ ملے ہے تو کہواہاں ۔اجی یاکو ووٹ دیکے کہا کراں۔جب پچھلی بار ای جیتو ہو تو کائی کی بات بھی نہ سنے ہو؟مانوں کہ وانے ایسو ای کرو ہو۔کہا تم بتانا کی زحمت کروگا کہ جائے تم میو قوم کیخدمت قرار دے راہو۔قوم کو بتائو کہ اگر ای کام ہوجاتو قوم کو ای فائدہ ملتو۔تم اپنی ذاتیاتن نے میو ققوم کے نام تھونپو ہو۔امید ہے کوئی میو کتنو بھی گئیو گزرو ہوئے۔اگر واکو تسلی کرادی جائے کہ یا کام کو میو قوم کو فائدہ ملے گو تو اُو کدی بھی ناں نہ کرسے۔یہ پروپیگنڈہ کرن والا ذاتی مفادات کا حصول میں جب ناکام ہوجاواہاں تو وائے میو قوم سو منسوب کردیواہاں۔۔میو قوم کا نام پے ذاتی مفادات اور مقاصدن نے پورا کرتا پھراہاں۔۔۔مانو کہ میو قوم کا سیاست دانن نے قوم کے مارے کوئی کام نہ کرو ہے۔۔تم ای بتا دئیو کہ تم نے کونسی دودھ شہد کی نہر بہائی ہاں؟۔کس کس کا گھرن میں ناج پہنچائیو ہے؟۔کس کس کو نوکری یا کاروبار میں کوشش کری ہے۔َ۔سچی بات تو ای ہے سیاست دانن سو زیادہ قابل مواخذہ یہ لوگ ہاں ۔جو میو قوم کا نام پے اپنی دُوکانداری کرراہاں۔چلو کام نہ سہی کم از کم اتنو ای بتادئیو کہ تہارو میو قوم کی ترقی اور خوشحالی۔تعلیم و تربیت۔وغیرہمیں کوئی قابل رشک کردار ہوئے۔یا ایسا لوگن کو سہولت دی ہوئے۔۔یا کوئی ایسو منصوبہ زیر غؤر ہوئے کہ نئی نسل اگر واپے چلے تو بہتر زندگی مل سکے ہے؟ کہاالیکشن 2024 میںمیو قوم بدلن کے مارے تیار ہے؟حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میومیوقوم بحیثیت قوم کم ہی دوسران کو لحاظ کرے ہے۔اپنان نے تو کائی حالت میں بھی برداشت کرن کے مارے تیار نہ ہے۔خدا کی قدرت کہ میو اپنی کھنس اے جب نکالاہاں جب اَگلو مجبوری کی حالت میں ہوئے۔زندگی میں اگر کائی کو اہمیت مل جائے تو وائے برداشت کرنو بہت مشکل رہوے ہے۔لیکن عزت و ذلت تو اللہ کا ہاتھ میں رہوا ہاں۔میو قوم کی ایک خامی ای بھی ہے کہ جب کہیں دال نہ گلے ہے تو مذہب یا دین کو سہارو لیوا ہاں۔خود چاہے دین کے پئے بھی نہ پھٹکتا ہوواں ۔لیکن اپنا مخالف کی ساری نیکین نےبرائین ثابت کرن میں کسر نہ چھوڑا ہاں؟۔۔جب کائی کی مخالفت کراہاں تو ایسی دور کی کوڑی ملاواہاںکہ ایسو محسوس ہووے ہے کہ واکے پئے ایک بھی نیکی نہ ہے۔جو بھی نیک کام ہاں سب کا سب برائی کرن والان نے کراہاں۔الیکشن 2024 سر پے کھڑو ہے۔میو قوم کے پئے الیکشن لڑن کی کوئی تدبیر موجود نہ ہے۔ایک بھیڑ چال ہے۔۔الیکشن والا دفتر میں کاغذ جمع کرواکے نوں سمجھاہاں کہ بس الیکشن تو ہماری جھولی میں پڑو ہے۔۔کئی میو تو ایسا بھی ہاں ۔ان کو کام اپنی قوم کی مخالفت ہے جیتنو تو ان کا سوپنان بھی نہ آوے ہے۔۔جولوگ کچھ کرسکاہاں۔ان کی ٹانگ کھینچ نو پیدائشی حق سمجھاہاں۔میو قوم کا سپوت میدان عمل میں اِترا ہویا ہاں۔کچھ تو یائے اسلام بناکے پیش کررہاہاں۔کہیں مسلک و مذہب کہیں دوسرا مسائلن کا حل ان کی جھولی میں پڑا دکھائی دے راہاں۔۔لیکن حقائق ایسا ہاں کہ انن نے اپنی جیت کو خود بھی یقین نہ ہے۔کہا میو سدا اوت ای رہینگا ؟یا پھر کوئی چج کوکام بھی کرنگا۔ہوڑ متی ہم نے کہاں لے جاکے چھوڑے گی؟۔کچھ میو اپنی برادری کا مقابلہ میں الیکشن تو نہ لڑرا ہاں لیکن مخالف کا کیمپن میں گُھسا پڑا ہاں ۔چاپلوسی کی اعلی روایات قائم کرراہاں۔میں نے خوب سوچو ہےپھر نتیجہ پے پہنچوہوں کہ میو ابھی تک سُدھرن کو نام بھی نہ لے راہاں۔۔جب کوئی بھی بات نہ ملے ہے تو کہواہاں ۔اجی یاکو ووٹ دیکے کہا کراں۔جب پچھلی بار ای جیتو ہو تو کائی کی بات بھی نہ سنے ہو؟مانوں کہ وانے ایسو ای کرو ہو۔کہا تم بتانا کی زحمت کروگا کہ جائے تم میو قوم کیخدمت قرار دے راہو۔قوم کو بتائو کہ اگر ای کام ہوجاتو قوم کو ای فائدہ ملتو۔تم اپنی ذاتیاتن نے میو ققوم کے نام تھونپو ہو۔امید ہے
سنیاسی کَکھ تنکا بھر دواکی حقیقت کیا ہے
سنیاسی کَکھ تنکا بھر دواکی حقیقت کیا ہے سنیاسیوں کے بارہ میں مشہور تھا کہ وہ کسی گئے گزرے مریض کو ایک ککھ یعنی تنکا بھر دوا دیتے تھے ۔وہ مریض ایک دو خوراکوں میں قابل رشک صحت پالیتا تھا۔یہ ککھ عمومی طورپر قوت باہ کے حوالے سے شہرت رکھتے تھے اس ککھ کی حقیقت کیا ہے؟۔کیا آج بھی ککھ بنایا جاسکتا ہے یا پھر ایک واہمہ ہے جو صدیوں سے دیگر واہموں کی طرح نسل در نسل نقل ہوتا چلا آرہا ہے؟ اس ویڈیو میں اس کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ممکن ہے اس سے متعلقہ کسی سوال کا جواب موجود ہو جو برسوں سے آپ کے ذہن میں کُلبلا رہا ہو؟
پنجاب فارمیسی کونسل کے تحت منعقدہ فارمیسی اسسٹنٹ امتحانات2024
پنجاب فارمیسی کونسل کے تحت منعقدہ فارمیسی اسسٹنٹ امتحانات2024فارما ورلڈ(PHARMA WORLD) کی پیش کش حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو انسانی صحت اور اس سے متعلقہ شعبہ جات میںخدمات سرانجام دینے افراد کی تعلیم و تربیت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔جولوگ فارمیسی اسسٹنٹ کیٹگری Bکے امتحانات کی تیاری کررہےہیں ان کا تعلق مقامی طورپر لاہور یا پنجاب بھر کے دور دراز علاقوں سےہے امتحانات کی تیاری کا مشکل مرحلہ اور موسم کی شدت۔وسائل کی کمی۔رہائش و ٹیچنگ۔پریکٹیکلز بہتر گائیڈنس۔وغیرہ ایسے مسائل ہیں جن سے عمومی طورپر امتحان میں شریک ہونے والے طلباء فکر مند ہیں۔ لاہور میں کئی ادارے دور دراز سے آںے والے طلباء کے لئے سروسز فراہم کرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کررہے ہیں ۔منجملہ ان میں سےفارما ورلڈ(PHARMA WORLD)بھی ہے۔یہ ادارہ ڈاکٹر محمد اسحق میو کی زیر نگرانی دو دیہائیوں سے مصروف عمل ہے۔طویہل مشاورت اور دور دراز کے نئے و پرانے طلباء کے پر زور اصرار پر طلباء کی آسانی کے لئے کچھ بیجز اور سہولت کاری کے لئے پروگرام ترتیب دئے گئے ہیں۔جن کی کچھ جھلک کچھ یوں ہے۔لاہور اور گردو نواح کے طلباء کے لئے۔5،6۔7۔جنوری2024 صبح و شام کلاسز،دیگر اضلاع کے طلباءکے لئےپہلا بیج:8تا10جنوری۔دہرائی 11 جنوری صبھ و شام کلاسز۔دوسرا بیج:9جنوری تا11 جنوری2024۔دُہرائی 12 جنوری صبح و شام کلاسزتیسرا بیج:/10 جنوری ۔تا۔ 12 جنوری2024 صبح و شام کلاسز ودہرائیچوتھا بیج:11/جنوری تا13/جنوری2024پانچواں بیج:12/جنوری تا14 جنوری2024۔امتحانات کے یہ لمحات طلباء کے لئے بہت قیمتی ہیں۔+۔طلباء کے لئے بہتر سہولت۔رہائش۔پریکٹکلز۔تمام مضامین کی دُہرائی۔حاضر پاش استاذہ و سٹاف۔اساتذہ کرام کے بارہ میں اتنا بتادینا ضروری ہے ہر ایک اپنی اپنی فیلڈ میں سالوں کا تجربہ رکھنے مشاق و ماہر جنہیں اپنے سبجیکٹ پر مکمل گرفت حاصل ہے،امتحانات کی تیاری میں ہر مضمون پر توجہ اور رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔فارما ورلڈ(PHARMA WORLD)کی اپنی وسیع و عریض عمارت میں اعلی درجہ کی لبارٹریز۔کمپیوٹر لیب۔رہنمائی کے لئے پروجیکٹر اور کانفرنس حال موجود ہیں۔مطالعہ کے لئے لائبریری۔پرسکون ماحول کی سہولت فراہم کرنے والا ادارہ ہے،۔حکومت پنجاب کی طرف سے جاری کردہ شیڈول کے مطابق لمحہ با لمحہ مطلع رکھنے کے لئے ہماری ویب سائٹ۔سوشل میڈیاز۔سوشل گروپس تشکیل دئے گئے ہیں۔مستعد عملہ ہر قسم کی الجھن دور کرنے کے لئے ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ فارما ورلڈ(PHARMA WORLD)کے بارہ میں منادب معلوم ہوتا کہ یہ ادارہ اپنے بانی کے نام سے زیادہ شہرت رکھتا ہے۔سرکاری سطح پر قانونی پیچدیگیوں کے بارہ میں سب سے پہلے انہوں نے ہی متعلقہ اداروں سے رابطہ کیااور قانونی جنگ لڑی تھی۔تاریخ گواہ ہے اس قانونی چارہ جوئی نے طلباء اور اس پیشہ سے منسلکہ طبقہ کے لئے بہت سے سہولیات فراہم کیں۔دستاویزی ثبوت فارما ورلڈ(PHARMA WORLD)کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔یہ طویل داستان جہدد مسلسل ہے اس پر لکھنے کے لئے مناسب وقت کا انتظار ہے۔فارما ورلڈ(PHARMA WORLD)پنجاب،کشمیر۔شمالی علاقہ جات میں اپنی خدمات کی بنیاد پر معتبر نام ہے۔فارما ورلڈ(PHARMA WORLD)کادرخشاںماضی ہے۔جو اپنے وعدوں کے ایفا میں کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار رہتا ہے۔دور و نزدیک کے طلباءفارما ورلڈ(PHARMA WORLD) کی خدمات سے استفادہ کرسکتے ہیں ۔
ادویات کے اثرات
ادویات کے اثراتحکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میومنتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی//سعد ورچوئل سکلز پاکستان ادویات ہلکی ہوں یا تینر اور سوزش پیدا کرنے والی تین قسم کی ہوتی ہیں کیونکہ تین ہی حیاتی مفرد اعضا ہیں انکے نام اعصابی غدی اور عضلاتی ادویات ہیں ہلکی اور تیز میں فرق یہ ہے کہ ہلکی ادویات آہستہ آہستہ اپنا کام کرتی ہیں جبکہ تیز ادویات اپنا کام بہت جلد سرا انجام دیتی ہیں انکا استعمال اندرونی بھی ہوتا ہے اور بیرونی بھی لیکن بیرونی استعمال صرف مقامی اور وقتی ہوتا ہے اور اندرونی استعمال خون کے ذرہ ذرہ میں سما جاتا ہے پس یہی افضل ہے۔ یہ بھی پڑھیںادویات-کے-اثرات-و-افعال-انسان-کی-زبردست 1۔ اعصابی یا عصبی ادویات استعمال کی جائیں تو اعصاب ودماغ میں تیزی پیدا کر دیتی ہیں جس سے غدد اور شرائیں پھیل جاتی ہیں اورغدد وہاں دوران خون تیز ہو جاتا ہے مگر جلد ہی وہاں پر رد عمل شروع ہو جاتا ہے اور رطوبت وبلغم اور مائیت کا ترح شروع ہو جاتا ہے تاکہ خون جمع ہو کر ورم نہ بن جائے یعنی عصبی ادویات سے اعصاب میں تیزی اور غدد میں تحلیل اور عضلات میں سکون پیدا ہو جاتا ہے اسمیں رطوبت کا اخراج زیادہ ہوتا ہے اور اسکا ذائقہ کھاری ہوتا ہے اسکو بلغمی مزاج کہتے ہیں۔ یاد کر لیں کہ بلغم جس بخار میں ہوگی وہ اعصابی بیمار ہو گا اور جس مرض سے بخار ہوا ہو گا وہ بھی عصبی ہوں گی اسطرح جن زہروں سے ہوا ہو گا وہ بھی اعصاب میں سوزش پیدا کرنے والی ہوں گی اوربلغم کے ساتھ اسی بخار و مرض اور زہر کی علامات پائی جائیں گی علاج یہ ہے کہ اعصاب کی تحریک شدید کو اٹھا کر عضلات میں پہنچا دیں تاکہ عضلات میں تیزی ہو جائے عضلاتی ادویاتعضلاتی ادویات جب استعمال کی جاتی ہیں تو عضلات میں تیزی و سوزش ہو جاتی ہے اسطرح عضلات میں سکیٹر پیدا ہو کر قلب میں دوران خون تیز ہو جاتا ہے اور یہ عضلاتی ادویات اعصابی ادویات سے زیادہ تیز اور دیر پا ہوتی ہیں ان سے رطوبت و بلغم اورمائیت ختم ہو جاتی ہے اور ان کا رد عمل بہت دیر سے ہوتا ہےچونکہ رطوبات ختم او را نکا اخراج بہت کم ہو جاتا ہے اسلئے تیزابیت بڑھ جانے سے حرارت و سرخی اور جلن پیدا ہو جاتی ہے اور کاربن کی وجہ سےبخار اور قبض پیدا ہو جاتی ہے علاج میں دیکھیں کہ عضلات کا تعلق اعصاب (سردی) سے ہے یا جگر دگرمی کے ساتھ ہو گیا ہے اگر مرض عضلاتی اعصابی ہے تو اسکو عضلاتی غدی کر دیں اسطرح عضلات اعصابی مرض دور ہو جائے گی کیونکہ جگر سے ناطہ ہو جانے سے گرمی پیدا ہوتی ہے اور صفرا ترشی دریاح کو ختم کر دیتا ہے لیکن اگر عضلات کا تعلق جگر و غدد سے ہو چکا ہے تو غدی اعصابی دوا دیگر شدید گرمی پیدا کردیں اسطرح عضلی سوزش وورم بالکل ختم ہو جائے گا۔ یہاں یہ یاد کرلیں کہ عضلاتی سوزش ،ورم تب ہی ظہور میں آتے ہیں جب اعصابی سورش کا علاج نہ کیا جائے یا پھر علاج غلط کیا جائے۔غدی ادویاتغدی ادویات غدد وجگر میں تیزی پیدا کر تی ہیں جس سے شریانوں ، میں سیکٹر پیدا ہو کہ اخراج رطوبت بند ہو جاتی ہے یا مشکل سے ہوتی ہے ۔ اسطرح وہاں خون کا اجتماع ہونا شروع ہو جاتا ہے یہ ادویات زیادہ شد ید اور دیر پا ہوتی ہیں انکی تیزی سے تو مریض جلد مرجاتا ہے یا پھر سوزش ورم اور درد وغیرہ فوراً دور ہو جاتے ہیں۔چونکہ اس سے سوزش و درم کا تعلق غدد وجگر سے ہے اسلئے اسمیں صفر کی شدت صفرا ہوتی ہے اور امراض صفراوی و کبدی ہونگے جن اغذیہ وادرویہ اور زہریں یاز ہریلے جانوروں کی زہروں سے پیدا ہوگا وہ سب جگرو غدد میں سوزش و صفرا پیدا کر نے والی ضرور ہو گئیعلاج میں غدد کا ناطہ اعصاب سے کرنا ہو گا ۔ اگر صفرا مکمل طورپر دور نہ ہو تو اعصاب میں تیزی کرنی پڑے گی اسکا مطلب بھی سمجھ لیجیے۔غدد کی دو تحریکیں ہوتی ہیں ایک غدی عضلانی اورد وسری غدی اعصابی، غدی اعصابی جب غگد کی مزاج ہوتی ہے تو نہ تو کوئی درم ہو سکتا ہے اور نہ درد اوربخار کیونکہ یہی خون کی بھی مزاج ہے لیکن جب غدی عضلاتی تحریک ہوتی ہے تو چونکہ اسکا تعلق عضلات سے ہوتا ہے اسلئے م درد اور بخار ہو جاتا ہے اسلئے غدی عضلات سوزش میں غدی اعصابی کر دی جاتی ہے اور اسطرح ورم، درد اور بخار رفع ہو جاتے ہیں یاد رکھیں کہ بخار ہمیشہ عضلات میں تحریک ہونے سے ہی ہوا کرتاہے۔