چراغ رو طب پیش لفظ عزت مآب پروفیسر اخلاق الرحمن قدوائی صاحب سابق گورنر صوبه بهار و بنگال | مرد درویش، دانائے راز حکیم عبد الحمید بانی چانسلر جامعہ ہمدرد کی رحلت ملک و ملت کے لئے عظیم سانحہ ہے انہوں نے ملک وملت کے تعلق سے دنیائے تعلیم و ثقافت اور جہان طلب میں جو کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں اسے رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ برادران وطن بغیر کسی پس و پیش کے اس سے استفادہ کرتے رہیں گے۔ ہمیں خوشی ہے کہ جامعہ ہمدرد کے ایک استاد ڈاکٹر غلام بینی انجم صدر شعبہ علوم اسلامیہ نے خلد آشیانی قبلہ حکیم صاحب کی زندگی، طبی خدمات اور تعلیمی و ثقافتی : سرگرمیوں پر مشتمل چراغ رہ طب کے نام سے ایک منظوم سوانحی خاکہ مرتب کیا ہے اور یہ شاید اس لئے کہ منظوم کلام نثر کی بہ نسبت قاری پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ حالانکہ کسی طویل تاریخ کو شاعری کے پیمانوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نظم کے قالب میں ڈھالنا کس قدر مشکل ہے اس کا صحیح انداز وہی لگا سکتے ہیں جو اس خار زار وادی کے رہ گزر ہیں۔ ڈاکٹر انجم نے ہمدرد، جامعہ ہو رو اور حکیم صاحب کے دیگر کارناموں کے تعلق سے اپنے احساسات و جذبات کا ذکر جس انداز سے شعری لب ولہجہ میں کیا ہے وہ قابل ستائش ہے ہم انہیں مبارکباد دیتے ہیں اور بارگاہ رب العزت میں دعا کرتے ہیں کہ وہ حکیم صاحب کے کارناموں کو ہم سب کے لئے مشعل راہ بنائے اور ملت کی فلاح و بہبود کے تعلق سے انہوں نے تن ، من ، دھن کی جو قربانیاں دی ہیں اسے قبول فرما کر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (آمین) اصلات او می خوانی نئی دہلی ۲۶ اگست ۱۹۹۹ء (اخلاق الرحمن قدوائی) کتاب کے حصول کے لئے یہاں کلک کریں
ھم بیمار کیوں ھوتے ہیں
ھم بیمار کیوں ھوتے ہیں کتاب کے حصول کے لئے یہاں کلک کریں پیش لفظ از – مصنف عصر حاضر نے جہاں انسان کی عادات گفتگو، مزاج اور معاشرت کو بدل ڈالا ہے وہیں انسان کے کھانے پینے کے اوقات اور لوازمات پر گہرا اثر چھوڑا ہے اس میں جہاں زندگی کے اور شعبوں میں انسان اپنی صحت کی بربادی کا سامان کر رہا ہے وہاں کھانا پینا بھی فیشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ صحت اللہ تعالی کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے اس کو برقرار رکھنے کے لئے بعض اقدامات بھی کرنے پڑتے ہیں چنانچہ صحت کے اسلامی اصولوں کی بچوں سے لے کر بوڑھوں تک تعلیم دینا ضروری ہے۔ ہر چھوٹے سے لے کر بڑے کو یہ جاننا چاہیے کہ ہم نے اپنے جسم کی حفاظت کیسے کرنی ہے۔ اس کتاب میں بالخصوص جدید دور کے کثیر الوقوع امراض کے بارے میں قارئین کو کافی معلومات اور حفظ ما تقدم کے تحت زندگی گزارنے کے طریقے اور ہدایات پڑھنے کو ملیں گی جن کی بناء پرحتی الوسع کوشش کی گئی ہے کہ طبی اصطلاحات سے گریز کرتے ہوئے زبان سادہ اور سلیس ہوتا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ استفادہ حاصل کر سکیں۔ حکیم محمد اسلم شاہین عطاری
طب نبوی ،نیند کے لئے 10بہترین مشورے:
طب نبوی ،نیند کے لئے 10بہترین مشورے: حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میونیند بہت بڑی نعمت ہے۔یند اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اس سے دماغ کو سکون ملتا ہے اورانسان سونے کی بدولت تازہ دم ہوجاتا ہے۔ نیند صحت کو برقرار رکھنے کیلئے اشد ضروری ہے۔ جو لوگ نیند پوری نہیں کرپاتے وہ مختلف بیماریوں اور مشکلات سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ نیند کے حوالے سے قرآن کریم میں جو کچھ آیا ہے، وہ جدید معلومات کے تناظر میں قرآنی معجزہ ہے۔ نیند سے متعلق قرآن کریم میں مختلف آیات آئی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ الروم کی آیت نمبر 23میں ارشاد فرماتا ہے: “اور اللہ کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے، یقینااس میں ان لوگوں کیلئے بہت سی نشانیا ں ہیں جو غور سے سنتے ہیں۔” علامہ ابن کثیر ؒ اس کا مطلب یہ بتاتے ہیں کہ: “رات اور دن کے وقت سونا اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔جسے صحت مندانہ طریقے سے نیند آئے اس کے لئے رب کا شکر ادا کرنا لازم ہےسوتے ہوئے جسم میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں؟اب وہ دیکھیں۔ سوتے ہوئے نبض کی رفتار دھیمی ہوجاتی ہے۔ خون کا دباؤ20تا 25ملی میٹر کے تناسب سے کم ہوجاتا ہے۔ تنفس کی رفتار ہلکی ہوجاتی ہے البتہ تنفس زیادہ گہرا اور زیادہ لمبا ہوجاتا ہے۔ خون میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔ رات کے وقت نیند کے دوران جسم 33فیصد اور دن کے وقت 67فیصد آکسیجن جذب کرتا ہے۔ جسم رات کے وقت سونے کے دوران 42فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دن میں سوتے وقت58فیصد خارج کرتا ہے۔درجہ حرارت میں معمولی کمی واقع ہوتی ہے۔نیند کے دورا ن عضلات ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ نیند کے دوران ہضم کا نظام آرام کرتا ہے۔ معدے اور آنتو ںکی حرکت ہلکی ہوجاتی ہے۔ ہاضم مواد کی تشکیل کم ہوجاتی ہے۔ جگر اوربنکریاس کا عمل مدھم ہوجاتا ہے۔ بعض غدوں کا عمل ہلکا پڑ جاتا ہے۔ یہ بھی پڑھئے بے پناہ تھکن کے باوجود نیند کیوں نہیں آتی، حل کیا ہے؟نیند کا سبب کیا ہے؟اسکی بابت 3 نظریات سامنے آئے ہیں: ایک نظریہ تو یہ ہے کہ انسان کے دماغ میں ایک صنوبری غدہ ہوتا ہے، یہ اعصابی نقل و حمل کا وظیفہ انجام دیتا ہے۔یہ غدہ خون میں فضلہ ڈالتا رہتا ہے۔ یہ آنکھوں کی پتلی کے اطراف پڑنے والی روشنی کے اثرات سے اعصابی گرد ش کی اطلااعات حاصل کرتا ہے۔ اس غدے میں ملاٹونین نامی مادہ تشکیل پاتا ہے جو 1958ء میں دریافت ہوا۔ یہ دماغ پر نیند طاری کرتا ہے۔ دوسرا نظریہ نیند کے کیمیکل سسٹم کا ہے۔ اسکا حاصل یہ ہے کہ بیداری کے دوران انسانی جسم کے عضلات اور اعصاب محنت کرتے ہیں۔ کیمیکل آپریشن اور توانائی خرچ ہونے سے فضلات اورزہریلے مواد بنتے ہیں۔ یہ رفتہ رفتہ خون میں بڑھتے جاتے ہیں۔ یہ اعصابی نظام یا دماغ کے پاس جمع ہوتے رہتے ہیں۔ بالآخر دماغ پر اونگھ اور سستی طاری کردیتے ہیں۔ رفتہ رفتہ اسکا سلسلہ بڑھتا جاتا ہے اور نیند آجاتی ہے۔ تیسرا نظریہ پرانا ہے ۔اسکا قصہ یہ ہے کہ گزشتہ صدی میں اعصاب کے جراح دماغ کا آپریشن انسان کو بے ہوش کئے بغیر کیا کرتے تھے۔ انہوں نے آپریشن کرتے ہوئے دیکھا کہ آپریشن کے دوران مریض بیدار ہے اور وہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی دوران وہ کیا دیکھتے ہیں کہ مریض پر اچانک اس وقت نیند طاری ہوجاتی ہے جب انکے آلات جراحت دماغ کے اندر موجود بعض عمیق حصوں کے خلیوں کے کسی مرکز کو چھو لیتے ہیں۔ اس مشاہدے سے جراحوں نے فرض کرلیا کہ دماغ میں ’’نیند والے مراکز‘‘ پائے جاتے ہیں۔ نیند سے محرومی کے نقصانات: انگلینڈ کے وسطی علاقے میں لوپرو گ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے ماتحت نیند پر ریسرچ کرنے والے ایک سینٹر کے ماہرین نے نیندسے محرومی کے نقصانات کا جائزہ لیکر بتایا کہ نیند نہ ہونے کی صورت میں مندرجہ ذیل نقصانات ریکارڈ پرآئے ہیں: اول تو انسانی نشاط میں اضمحلال آجاتا ہے۔ بے خوابی ، بے چینی اور تناؤ کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اعصابی ہیجان کا حملہ ہوتا ہے اور ذہن ماؤف ہوجاتا ہے۔ مرگی اور پاگل پن کے دورے پڑنے کا امکان بھی رہتا ہے۔ نظر کمزورہوجاتی ہے۔ نگاہ میں گڑبڑ پیدا ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات چیزیں دہری نظر آنے لگتی ہیں۔ سوتے ہوئے جسم میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں؟اب وہ دیکھیں۔ سوتے ہوئے نبض کی رفتار دھیمی ہوجاتی ہے۔ خون کا دباؤ20تا 25ملی میٹر کے تناسب سے کم ہوجاتا ہے۔ تنفس کی رفتار ہلکی ہوجاتی ہے البتہ تنفس زیادہ گہرا اور زیادہ لمبا ہوجاتا ہے۔ خون میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔ رات کے وقت نیند کے دوران جسم 33فیصد اور دن کے وقت 67فیصد آکسیجن جذب کرتا ہے۔ جسم رات کے وقت سونے کے دوران 42فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دن میں سوتے وقت58فیصد خارج کرتا ہے۔درجہ حرارت میں معمولی کمی واقع ہوتی ہے۔نیند کے دورا ن عضلات ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ نیند کے دوران ہضم کا نظام آرام کرتا ہے۔ معدے اور آنتو ںکی حرکت ہلکی ہوجاتی ہے۔ ہاضم مواد کی تشکیل کم ہوجاتی ہے۔ جگر اوربنکریاس کا عمل مدھم ہوجاتا ہے۔ بعض غدوں کا عمل ہلکا پڑ جاتا ہے۔نیند کا سبب کیا ہے؟اسکی بابت 3 نظریات سامنے آئے ہیں: ایک نظریہ تو یہ ہے کہ انسان کے دماغ میں ایک صنوبری غدہ ہوتا ہے، یہ اعصابی نقل و حمل کا وظیفہ انجام دیتا ہے۔یہ غدہ خون میں فضلہ ڈالتا رہتا ہے۔ یہ آنکھوں کی پتلی کے اطراف پڑنے والی روشنی کے اثرات سے اعصابی گرد ش کی اطلااعات حاصل کرتا ہے۔ اس غدے میں ملاٹونین نامی مادہ تشکیل پاتا ہے جو 1958ء میں دریافت ہوا۔ یہ دماغ پر نیند طاری کرتا ہے۔ دوسرا نظریہ نیند کے کیمیکل سسٹم کا ہے۔ اسکا حاصل یہ ہے کہ بیداری کے دوران انسانی جسم کے عضلات اور اعصاب محنت کرتے ہیں۔ کیمیکل آپریشن اور توانائی خرچ ہونے سے فضلات اورزہریلے مواد بنتے ہیں۔ یہ رفتہ رفتہ خون میں بڑھتے جاتے ہیں۔ یہ اعصابی نظام یا دماغ کے پاس جمع ہوتے رہتے ہیں۔ بالآخر دماغ پر اونگھ اور سستی طاری کردیتے ہیں۔ رفتہ رفتہ اسکا
طبیب اعظم اور امراض جسم
طبیب اعظم اور امراض جسم دیباچہسب سے پہلے تمام تم کی حمد وثناء اس ذات بابرکات پر ہوں جس کا نام ہی شافی ہے جو تمام کائنات کا پالنے والا ہے جو موت وحیات کا مالک ہے اور درودوسلام ہمارے رہبر کامل محسن اعظم ، طبیب اعظم روحانی و جسمانی سید المرسلین خاتم النبین حضرتمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل وصحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین پر ہو ۔ میرے پاس اس وقت جناب حکیم عبد الرزاق سعید صاحب کی کتاب هذا طبیب اعظم اور امراض جسم کا مسودہ موجود ہے جسے حکیم عبد الرزاق اور حکیم محد تسلیم رضا میرے پاس لائے اور مجھے مطالعہ کرنے کا کہا جب کتاب کے مسودہ کا مکمل مطالعہ کیا تو اس کو انتہائی مفید اور معلومات کا ایک خزانہ پایا مصنف موصوف نے کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔پہلے حصہ میں مصنف نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات ، آپ کی تعلیمات اور آپ کے ارشادات فرمائے ہوئے علاج بالدعا اور علاج بالدو پر مشتمل ہے کیوں کہ آپ کی ذات پاک نے ہمیں صحت کے اصولوں اور نفاست و طہارت کی اعلیٰ منازل پر فائز ہونے کی راہنمائی فرمائی۔ غرض یہ کہ زندگی کے ہر شعبہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات وصفات نے ہماری رہبری فرمائی ہے ہمیں جسمانی و روحانی بیماریوں سے محفوظ رہنے کے اصول بتائے ۔کتاب کے دوسرے حصہ میں مصنف نے کتاب میں دور حاضر کے خطر ناک اور پیچیدہ امراض کا علاج ارشادت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں نظریہ مفرد اعضاء کے تحت درج کیا ہے اس کے ساتھ ساتھ ان بیماریوں کے اسباب اور علامات کا بھی ذکر کیا ہے ۔ تا کہ یہ کتاب حکماء حضرات کے ساتھ ساتھ عام قاری کے لیے بھی اتنی ہی مفید ہو اس کے ساتھ ساتھ ایسی غذاؤں کاانتخاب بھی کیا ہے جو دوران علاج مرض سے جلد نجات میں مد دو معاون ثابت ہوتی ہیں۔ انسان روح و جسم کا مجموعہ ہے زندگی روحانی و مادی اقتدار سے عبارت ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے مصنف نے بہت سے امراض سے بچاؤ کے دم بھی تحریر کیے ہیں تاکہ دُکھی انسامعیت ان سے بھی فیضیاب ہو سکے ۔ غرض کہ یہ کتاب معلومات کا ایک خزینہ بھی ہے ۔ میری دُعا ہے کہ اللہ تعالی مصنف کتاب هذا حکیم عبد الزراق سعید صاحب کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبولیت کا شرف بخشے عوام الناس کو اس سے مستفید ہونے کی توفیق فرمائے نیز مصنف کی صحت کے ساتھ ساتھ عمر دار ز فرمائے ۔ آمین ثم آمین ۔ ‘ خادم من طبحکیم محمد احسان رندھاوا معنون میں استاد الحکماء ، دور رواں کے طبی سائنس دان ، موجد و محقق حکیم احمد دین شاہد روئی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے نئے طریقہ علاج کو تلاش کیا اور متعارف کروایا۔ جسے آج ہم طب جدید و نظریہ مفرد اعضاء کہتے ہیں ۔ آپ نے 1910 میں تحقیق وریسرچ کا کام شروع کیا جس وقت ہر ذی شعور معالج پریشان تھا۔ پڑانے اور پیچیدہ امراض میں طب قدیم ( یونانی ) اور ایلو پیتھک سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا تھا۔ ان طریقہ علاج سے مایوس ہو کر آپ نے افعال الاعضاء دل ، دماغ اور جگر پر ریسرچ شروع کی آپ کی اس تحقیق میں ہر اُس طبیب نے حصہ لیا جو اس وقت کے طریقہ علاج سے خاطر خواہ مطمئن نہیں تھے۔ جس کے نتیجے میں آپ نے ایک نئی تھیوری پیش کی جس کو نظریہ مفرد اعضاء اور طب پاکستان کہا جاتا ہے۔ اس تھیوری کو سامنے رکھتے ہوئے دور حاضر کے ایچ ڈاکٹر حکیم خورشید احمد نے کئی مایوس مریضوں کا کامیاب علاج کیا اور میری بھر پور رہنمائی فرمائی۔ اللہ تعالیٰ آپ کی صحت ، مال و اولاد میں برکت فرمائے اسی لیے میں یہ کتاب حکیم احمد دین شاہد روئی اور ایچ ڈاکٹر حکیم خورشید احمد کے نام پر نہایت محبت و اختصار کیساتھ معنون کرتا ہوں۔ حکیم محمد الیاس دنیا پوری نے اس کتاب کو تحریر کرنے کی رغبت دلائی اور شفقت کیساتھ رہنمائی بھی فرمائی جس پر میں حکیم محمد الیاس دنیا پوری ، حکیم محمد احسان اور حکیم تسلیم رضا کا نہایت عقیدت کے ساتھ شکر گزار ہوں اللہ تعالیٰ ان سب کو صحت و تندرستی اور ہر طرح سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین ۔ داعی تجدید طب حکیم عبد الرزاق سعید آن لائن پڑھیں چڈاون لوڈ کریں
روح انسانی اور طبی نظریات
روح انسانی اور طبی نظریاتحکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو نفس انسانی اور نفسیاتیعنی جذبات جبکو انگریزی فیزو سائیکلوجی کہتے ہیں یا در کھیں یہ مسئلہ نظریہ مفرداعضا سے ہی حل ہو سکتا ہے اسکو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی آج تک یورپ و امریکہ اور روس و چین کی حکو متیںٹکر ماررہی ہیں لیکن سب بے سود ثابت ہوئی ہیں پس جب تک سمپل آرگن تھیوری کو نہ سمجھا جائے گا وہ ہر گز نفسیات میں کامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے مضمون تو لمبا ہے میں یہاں ارشادات ہی لکھوں گا لیکن یہ مدلل اور مفید ہونگے بشرط زندگی کسی اور موقع پر وضاحت سے تحریر کروں گا لیکن سمجھدار اور عقلمندوں کے لئے یہی کافی ہیںروح انسانیرویے کوئی ایسی چیز نہیں جس کو ہم آنکھوں سےدیکھ اور ہاتھوں سے چھو سکیں یا اسکو کسی دوسری حس سے معلوم کر سکیں بلکہ جس طرح سورج اور چاند کوان کی روشنی سے پہچاناجاتا ہے۔ یا دھوئیں کو دیکھ کہ جان لیا جاتا ہے کہ وہاں آگ روشن ہے یا پرندوں کو اڑتے دیکھ کر اندازہ لگالیا جاتا ہے کہ اس جگہ پانی ضرور ہو گا اس طرح روح کا عمل بھی آثار کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ جاننے کا تعلق اگر دماغ سے ہے تو سمجھنے کا تعلق دل سے ہے اور فائدہ اٹھانے کا تعلق جگرکے ساتھ ہے اور یہ سارے اسرار در موز اس اس و ادراک اور قیاس میں پنہاں ہیں۔ احساس ہم کو حواس خمسہ ظاہری یعنی دیکھنا ، سننا، چکھنا ، سونگھنا اورچھونایہ علم احساسات ہیں جن کو یہ پانچ کرم اندریاں ( قوتیں) سرانجام دیتی ہیں ۔ یہ بھی ٌپڑھئے 221 گرام: انسانی روح کا وزن معلوم کرنے کی خاطر کیا جانے …ان کو قوت مدر کہ ظاہری بھی کہتے ہیں انکا کام یہ ہے کہ یہ باہر کی معلومات دماغ کی اندرونی قوتوں تک پہنچاتاہے۔ اور اکیہ حواس خمسہ باطنی سے حاصل ہوتا ہے انکو گیان اندرماںاور مدرکہ باطنی بھی کہتے ہیں یہ بھی پانچ ہیں ۔1:حس مشترک اسکا مقام دماغ کاپہلا(اگلا) حصہ ہے جو احساس کو برقرار رکھتی ہے۔۲ : قوت خیال یہ تمام احساسات کا خزانہ ہے جسمیں احساسات محفوظ رہتے ہیں۳:قوت متفکرہ اسکا مقام دماغ کا درمیانی حصہ ہے یا دپرا کی دونوں قوتوں کے احساسات کا اظہار کرتی ہے ۔4: قوت واہمہ یہ کی چیز کے معنے بتاتی ہے اسکامقا م موخر دماغ کا مقدم حصہ ہے۔۔ ۵: قوت حافظہ یہ وہم کے ادر کات کو محفوظ رکھتی اور بوقت ضرورت اور اک کرتی ہے ان تمام قوتوں سے اور اک کا علم پختہ ہو جاتا ہے۔قیاساسکے معنے ہیں گمان کر نا یعنی کسی قسم کی اٹکل اور اندازہ لگانا اس علم سے فکر پیدا ہوتا ہے اور عقل اس سے جلا پاتی ہے علم قیاس سے ہی دنیا دی حکومتوں کے قانون بنتے ہیں اور عدالتوں کے فیصلے بھی اسی پر ہوتے ہیں علم طب میں امراض کی تشخیص اور تجویز دوا اسی کے مطابق مقرر کئے بجاتے ہیں یہ فلسفہ کی جان ہے گویا احساس و ادراک اگر منبع ہیں تو قیاس مخزن حکمت ہے یہ بھی پڑھئے جب انسان عالم ارواح سے عالمِ وجود میں آیااب سنئے انسانی روح کے متعلق جب انسانی روح اور اک ونطق(بولنا) سے کام لیتی ہے تو اسکو نفس ناطقہ کہتے ہیں اور جب امراض جسم کی اصلاح کرتی ہو تو اسکو قوت مد برہ یا روح طبعی کہتے ہیں اور جب اپنے کمال اور ارتقا کی طرف ہو جاتی ہے یعنی روح کی سے ناطہ جوڑ لیتی ہے تو یہ مذہبی روح یا روح امر ربی ہو جاتی ہے اور اس سے انسان اشرف المخلوقات ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اسطرح اسکو و جدان والہام ہو جاتا ہےاور یہ علم ادراک سے حاصل ہوتا ہے ۔ اب آپ سمجھ گئے ہونگے کہ انسانی روح ایک ہی ہے لیکن قوتوں کےذریعہ تین حصوں میں بٹ جاتی ہے ۔روح انسانی تین قوتوں کا مرکب ہے جس سے یہ جسم پر کنٹرول کرتی ہے۔1: نفسیاتی قوت جس کا مرکز یا ہیڈ کوارٹر اعصاب و دماغ ہے۔۲: حیوانی قوت جس کا مرکز عضلات و دل ہے یعنی یہ قلب کو کنڑول کرتی ہےطبعی قوت جس کا مرکز غدد و جگر ہے یعنی غدد و جگر کنٹرول کرتی ہے ۔ قوت نفسیاتی روح و جسم کے تعلق کو قائم کھتی ہے اس کو من کہتے ہیں مطلب یہ کہ پانچ کرم اندریوں اور پانچ گیان اندریوں اور گیارویں من کے انسان پر کنٹرول کرتی ہے ۔ اعصاب دماغ روغن ساکن ہیں یہ اپنی جگہ نہیں بدلتے صرف اپنے تاثرات سے حکم صادر فرماتے ہیں۔ یہاں یہ بھی یاد کرلیں کہ انسان بھی تین ہی قسم کے ہوتے ہیں۔1: ستوگنی یعنی نیک وچاروں والے جو ہمیشہ پر مارتھ کا کام کرتے ہیں یعنی قدرتی یا فطری قانون پر چل کرپرماتما تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انکو مہاتما اور اولیاءکہتے ہیں اور دنیا ان کی پوجا کرتی ہے ان کے وچاروں کی لہریں سفید رنگ کی ہوتی ہیں۔ یہی نور کہلاتا ہے اور اسی نور سے سب رنگ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی روح یا آتما کو پرماتما میں جوڑ کر اسمیں تین ہو جاتے ہیں اور یہ من یعنی نفس کہلاتا ہے2: دو سری قسم کے انسان میں رجوگنی یہ پرمارتھہ یعنی پر ماتما کے راستہ پر بھی چلتے ہیں اور سوار تھ کے راہ پر بھی یہ لوگ ہر آدمی کے دکھ درد میں مدد کرتے ہیں ۔ انکے خیالات کی لہروں کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔ اور یہی انسانی خون کا رنگ ہے اور اسی سے آدمی خوشی و مسرت حاصل کرتا ہے۔ ایسے لوگ دنیا میں بار بار پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں تا آنکہ ایک طرف یعنی پر مارتھ نا سوارتھہ کاپلپڑ بھاری نہ ہو جائے پھر یہ یا ترک میں پرورش کرتے ہیں ۔۳: تیسری قسم کے لوگ نموگی ایسے لوگ صرف اپنا سوار تھ پورا کرتے ہیں یعنی صرف اپنی مطلب براری کا دھیان ہوتا ہے چاہے دوسرے کو جان سے ہی ہاتھ دھونے پڑیں۔ یہ دنیا میں بے ایمان ،چور ، اچھکے ڈاکو کہلاتے ہیں اور سب ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ عموما
وقت کا سفر
وقت کا سفر ابتدائيہسٹیون ہاکنگ کی کتاب BRIEF HISTORY OF TIME ( مدتوں تک بیسٹ سیلر ( BEST SELLER) شمار ہوتی رہی ہے، دنیا کی اکثر زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ کتاب کوئی آسان کتاب نہیں ہے، اس کی وجہ محض یہ نہیں کہ اس کے موضوعات مشکل ہیں، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ ے کہ یہ کتاب ان عوامل کو بیان کرتی ہے جو روز مرہ کی زندگی میں ہمارے تجربے میں نہیں آتے اور نہ ہی اس کے بیشتر موضوعات کو تجربہ گاہ کی سطح پر ثابت ہی کیا جاسکتا ہے مگر اس کے باوجود یہ موضوعات ایسے ہیں جو صدیوں تک انسان کو اپنی طرف متوجہ کیے ہوئے ہیں اور ان کے بارے میں بعض ایسی معلومات حال ہی میں حاصل ہوئی ہیں، جو شاید فیصلہ کن ہیں، یہ کتاب بیسویں صدی کے اواخر میں لکھی گئی ہے، لہذا اس میں فراہم کردہ مواد ابھی بہت نیا ہے، ابھی۔ اسے وقت کے امتحان سے بھی۔ گزرنا ہے اور لوگوں کو اس سے آشنائی بھی۔ حاصل کرنی ہے، ہماری طالب علمی کے زمانے میں کہا جاتا تھا کہ آئن سٹائن کے نظریات کو سمجھنے والے لوگ ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں ، اس سے کچھ پہلے ایڈنگٹن (EDDINGTON) کو یہ خیال تھا کہ آئن سٹائن کو سمجھنے والا وہ شاید واحد فرد ہے، مگر اب یہ حال ہے کہ آئن سٹائن کے نظریات کو سائنس کا عام طالب علم بخوبی۔۔۔ ہے، کار ساگان (CAR) SAGAN) کا خیال ہے کہ آئن سٹائن کو سمجھنے کے لیے جس قدر ریاضی جاننے کی ضرورت ہے وہ میٹرک کا عام طالب علم جانتا ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ آئن سٹائن نے جن موضوعات کو چھیڑا ہے وہ ایسے ہیں جو روز مرہ زندگی میں کم کم ہی سامنے آتے ہیں، لہذا اسے سمجھنا مدتوں تک مشکل شمار ہوتا رہا ہے۔سٹیون ہاکنگ کی یہ کتاب بھی۔ اسی زمرے میں آتی ہے، اسے سمجھنا مشکل نہیں ہے، بشرطیکہ آپ روز مرہ کے تجربات سے ماوراء جانے کے خواہش مند ہوں، اب بلا مبالغہ لاکھوں لوگوں نے اس کتاب کو پڑھا ہے یا پڑھنے کی کوشش کی ہے، اس کتاب کے سلسلے میں جو سروے ہوئے ہیں یہ بتاتے ہیں کہ تجسس کے جذبے کی وجہ سے یہ کتاب خریدی تو بہت گئی ہے مگر پڑھی محدود تعداد . میں گئی ہے، کچھ حصوں کے بارے میں خاص طور سے نشاندہی کی گئی ہے کہ وہ مشکل ہیں لیکن ان کو زیادہ آسان بنایا نہیں جاسکتا، ہمارے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات خاصی پیچیدہ ہے اور لاکھوں برس اس میں گزارنے کے باوجود ابھی۔ ہم نے شاید اسے سمجھنا شروع ہی کیا ہے.یہ کتاب آپ سے یہ مطالبہ نہیں کرتی کہ آپ اسے اپنے اعتقاد کا حصہ ہے حصہ بنالیں، مگر یہ ضرور چاہتی ہے کہ آپمیں اور بھی بہت کچھ اپنے بنائے ہوئے ذہنی گھروندے سے نکلیں اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ دنیا میں موجود ہے، یہ تو ہم سبھی لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ سپیس (SPACE) کی تین جہتیں یا ابعاد ( ہیں اور وقت اس کی چوتھی جہت یا بعد ہے، ہم صدیوں سے وقت کو مطلق تصور کرتے چلے آتے ہیں ل ہیں لہذا ہمارے لیے چند لمحوں کے لیے بھی یہ آسان نہیں ہے کہ ہم وقت کو سپیس کا ایک(DIMENSIONSشاخسانہ سمجھ لیںمطاالعہ میں وسعتمیرے ایک محترم دوست جو شاعر بھی ہیں اور مصور بھی۔ ہیں اور آج کل سائنسی موضوعات کا مطالعہ بھی کر رہے ہیں، ان معتقدات کو غلط ثابت کرنے کے لیے بار بار وہی دلائل دہراتے ہیں جو برسوں سے ہمارے فلسفے کا حصہ ہیں، جو لوگ سپیس ٹائم کو چار ابعادی بھی خیال کرتے ہیں ان کے لیے بھی مشکل ہے کہ وہ اپنی عادات سے ماورا جاکر کسی ایسے تصور تک رسائی حاصل کریں جس کا تجربہ ہم سطح زمین پر نہ کر سکتے ہوں میں ایک مثال پیش کروں گا۔اگر کبھی سورج اچانک بجھ جائے تو آٹھ منٹ تک ہمیں معلوم ہی نہ ہو گا کہ سورج بجھ چکا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آٹھ منٹ تک وہ روشنی زمین پر آتی رہے گی جو سورج سے چلی ہوئی ہے، پھر دوسرے سیارے اور ستارے بھی ہیں، چاند کی روشنی چند سیکنڈ میں ہم تک آجاتی ہے لیکن بعض کہکشائیں اس قدر دور ہیں کہ ان کی روشنی اربوں سالوں میں ہم تک پہنچتی ہے، اب اگر یہ کہکشائیں معدوم ہوچکی ہوں تو ہم اربوں برس تک یہ معلوم نہ کر سکیں گے کہ وہ موجود نہیں ہیں، دوسرا بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ روشنی کی بھی کمیت (MASS) ہوتی ہے، وہ جب کسی بڑے ستارے کے پاس سے گزرتی ہے تو وہ اسے اپنی طرف کھینچتا ہے لہذا وہ ذرا سا خم کھا جاتی ہے، ایسی روشنی جب ہم تک پہنچتی ہے تو اسے دیکھ کر سیارے یا ستارے کے جس مقام کا تعین کیا جاتا ہے وہ درست نہیں ہوسکتا.جب ہم آسمان کو دیکھتے ہیں تو وہ ستارے، سیارے اور کہکشائیں اصل میں وہاں موجود نہیں ہوتیں جہاں وہ ہمیں نظر آتی ہیں، لہذا جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ ماضی کی کوئی صورتحال ہے، جو اب بدل چکی ہے اور یہ تبدیلی تمام اجرام فلکی کے لیے ایک جیسی بھی نہیں ہے، لہذا ہمیں جو کچھ نظر آتا ہے cاس کا تعلق اس شے سے نہیں ہے جسے ہم حقیقت کہتے ہیں، مگر آسمان کا اپنی موجودہ شکل میں نظر آنا ایک ایسی حقیقت ہے جسے تسلیم کئے بغیر انسان چند قدم نہیں چل سکتا، اس کی شاعری اور اس کے فنون لطیفہ شاید کبھی بھی۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے تیار نہ ہوں جو ان کا ذاتی اور اجتماعی تجربہ ہےلہذا ہم ایک وقت میں کئی سطحوں پر زندگی گزارتے ہیں جس طرح جدید طبیعات کے باوجود ابھی نیوٹن کی طبیعات متروک نہیں ہوئی کیونکہ اس سے کچھ نہ کچھ عملی فائدہ ہم ابھی تک اٹھا رہے ہیں، مگر جب جہان کبیر (MACROCOSM) یا جہان صغیر (MICROCOSM) کی بات ہوتی ہے تو نیوٹن کی طبیعات کسی بھی طرح منطبق نہیں کی جاسکتی، اکیسویں صدی میں
سٹیفن ہاکنگ کی کتب
سٹیفن ہاکنگ کی کتب سٹیفن ہاکنگ کی مختصر تاریخ ۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک کائنات کے بارے میں انسان کا نظریہ کچھ اور تھا لیکن غیر معمولی ذہانت کے حامل چند افراد نے انسان کو ترقی کی اس معراج پر لاکھڑا کیا جہاں پہنچ کر آج نسل انسان خود بھی حیران ہے۔ جیسے جیسے انسان کائنات کے متعلق جانتا گیا وہیں کائنات بھی دن بدن مزید الجھتی چلی گئی ۔ یہ سچ ہے کہ کائنات کے پہیلی ہونے میں وقت کا بھی بہت کردار ہے۔ اگر انسان وقت کی قید سے آزاد ہوکر کائنات کو explore کرنے نکلے تو شاید اس کی پرسراریت وہ نہ رہے جیسی نظر آتی ہے۔پچھلی صدی میں کچھ ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جنہوں نے وقت کی قید میں رہتے ہوئے کائنات کے متعلق وہ راز افشا کیے جن کو پڑھ کر آج بھی انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ بلاشبہ آئن سٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ کا نام بہترین سائنسدانوں میں سرفہرست آتا ہے اسی خاطر ہمیں یہ کہتے ہوئے خوشی ہوتی تھی کہ ہم اسٹیفن ہاکنگ کے عہد میں جی رہے ہیں۔۔ یا جی رہے تھے۔ اسٹیفن ہاکنگ کا تعلق انتہائی غریب گھرانے سے تھا، یہاں تک کہ ایک ایسا وقت آیا جب اس کے سکول کی فیس تک والدین ادا نہیں کرپارہے تھے، جس کی وجہ سے ہاکنگ دیگر بچوں کی نسبت بہت اچھا طالبعلم نہیں بن پایا، چونکہ ہاکنگ کے والد میڈیکل کے شعبے سے وابستہ تھے اور ہاکنگ ریاضی دان بننا چاہتا تھا، 70 سال پہلے ریاضی دان بننے والوں کو نوکریاں نہیں ملتی تھیں لہٰذا ہاکنگ جب بڑے ہوئے تو ان کے والد نے ان پر علم طب پڑھنے کے لئے زور ڈالا مگر انہوں نے کیمیا اور فزکس کی جانب اپنا رحجان برقرار رکھا۔ اِن کو سکول میں دیگر طالبعلم “آئن سٹائن” کہہ کر چھیڑتے تھے مگر اس وقت کسے معلوم تھا کہ یہ واقعی ایک دن آئن سٹائن ثانی ثابت ہوگا! یہی وجہ ہے کہ اسٹیفن ہاکنگ وقت میں سفر کرنے کے حامی نہیں تھے ، کیونکہ ان کے مطابق اگر واقعی وقت میں سفر کرنا ممکن ہوتا تو لازمی طور پر انہیں ایک عدد ایسا شخص اپنی زندگی میں ضرور ملتا جو مستقبل سے آیا ہوتا اور ان کے ساتھ سیلفی لینے کا خواہش مند ہوتا۔بہرحال 1959ء تک اسٹیفن نے اپنے کالج کی پڑھائی مکمل کی اور 1962ء میں نیچرل سائنسز میں B.A (Hons) کی ڈگری مکمل کی۔ یاد رہے کہ گریجویشن کرنے تک اسٹیفن کے متعلق یہی مشہور رہا کہ یہ نالائق اور سست طالب علم ہے۔ اسی اثناء میں جب ہاکنگ زندگی کی 21ویں دہلیز پر قدم رکھ رہےتھے تو کالج میں دورانِ تقریر اچانک گر پڑے ۔ ان کے والد اس حالت سے پریشان ہوئے اور انہیں ڈاکٹر کے پاس معائنے کے لئے لے گئےوہاں یہ معلوم ہوا کہ ہاکنگ ایک لاعلاج بیماری موٹر نیورون کا شکار ہوچکے ہیں اور اگلے 2 سالوں میں ان کی موت واقع ہوجائے گی، یہ ایسی بیماری ہے جس میں مریض کے تمام اعضاء ایک ایک کرکے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور بالآخر مریض مر جاتا ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہاکنگ پر بیماری کا سایہ گہرا ہوتا گیا، اب وہ لنگڑا کر چلنا بھی شروع ہوگیا بولنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس تمام صورتِ حال نے ہاکنگ کو شدید دھچکا پہنچایا اور انہوں نے ہار مان کر دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرکے موت کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن اسی دوران ان کے استاد اور ماڈرن کاسمولوجی کے بانی ڈینس ویلیم نے ہمت دلائی اور علمی میدان میں انہیں واپس لائے سو یہی بیماری ان کی کامیابی کا سبب بنی ان کی کوشش تھی کہ مرنے سے پہلے آئن سٹائن کے نظریہ اضافت کے متعلق مسائل حل کروں اور اسے مزید explore کروں۔ انہوں نے 1964ء کے وسط میں علمی میدان میں واپس آکر اپنے پسندیدہ سائنسدان فریڈہائل کے سائنسی نظریات میں سے غلطیاں نکالیں ، یہ پہلا وقت تھا جب انہیں بھرپور پذیرائی ملی۔ یاد رہے یہ وہ دور تھا جب بیگ بینگ اور بلیک ہولز کے متعلق بہت سے مفروضے گردش میں تھے، کاسمک بیک گراؤنڈ ریڈیشن دریافت ہورہی تھیں،اور فزکس میں نئے نئے ذرات دریافت ہونے کا سلسلہ چل نکلا تھا۔ اس دوران اسٹیفن ہاکنگ نے بلیک ہول اور بیگ بینگ کے متعلق تحقیق کرنے کا سوچا اور مقالہ (thesis) لکھا جو 1966ء میں منظور کرلیا گیا جس کے بعد پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ نے 24 سال کی عمر میں پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کی۔یاد رہے مذکورہ مقالے کو 2017ء میں عام عوام کے لئے جب انٹرنیٹ پر اپلوڈ کیا گیا تو تقریباً ایک دن میں 1 لاکھ لوگوں نے اسے ڈاؤنلوڈ کرنے کی کوشش کی اور ویب سائٹ پر اتنا لوڈ پڑ گیا کہ سرور ڈاؤن ہوگیا تھا ،یہ واقعہ عالمی خبروں کی زینت بنا۔ بہرحال تقریباً 4 سال آئن سٹائن کے نظریہ اضافت پر تحقیق کے بعد اسٹیفن ہاکنگ نے ثابت کیا کہ اگر نظریہ اضافت کے قوانین کائنات پر لاگو ہوتے ہیں تو یقینی طور پر کائنات کا آغاز ایک نقطے (singularity) سے ہوا، چونکہ بلیک ہول میں بھی singularity موجود ہوتی ہے سو اس کے بعد ہاکنگ کی تحقیق کا رخ بلیک ہول کی جانب ہوگیا اور بلیک ہول کے متعلق کافی چشم کشا انکشافات کیے جنہیں دنیا بھر میں تسلیم کیا گیا اور سراہا گیا۔ 1973ء میں ہاکنگ کی پہلی کتاب “The Large scale structure of Space Time” شائع ہوئی۔ اس کتاب کے بعد ہاکنگ نے کوانٹم فزکس کے میدان میں تحقیق کا آغاز کیا ،اس دوران تحقیق کرتے ہوئے ہاکنگ کو معلوم ہوا کہ فزکس کے اصولوں کے تحت بلیک ہول میں جانے والی اشیاء سے شعاعوں کا اخراج ہونا چاہیے سو ہاکنگ نے دعویٰ کیا کہ بلیک ہول سے ہر وقت radiations کا اخراج ہوتا رہتا ہے، ان radiationsکو شروع میں سائنسدانوں نے اہمیت نہ دی مگر بعد ہاکنگ کی دریافت نے فزکس کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا آج بھی ہم ان radiations کو “ہاکنگ ریڈیشنز” کے نام سے جانتے ہیں۔اسکے بعد اسٹیفن ہاکنگ پر انعامات اور میڈلز کی بارش کردی گئی، ٹی وی اور ریڈیو چینلز پر ان کے انٹرویوز نشر ہونا شروع ہوگئے۔80ء
لوگ ناکام کیوں ہوتے ہیں؟
لوگ ناکام کیوں ہوتے ہیں؟//Why do people failکامیابی و ناکامی کے معیار ہر کسی کے اپنے ہوتے ہیں۔لیکن کچھ باتوںکی تشریحات میں غلط بیانی سے کام لیا جاتا ہے،اگر یہ معیار کچھ غلط تاویلات اور مفروضؤں پرمبنی ہوتو مزید سنگینی اختیار کرجاتا ہے ۔کچھ سطحی الذہن لوگوں نے قران کریم کی ایک آیت کو بیان کرنے میں اس قدر بودا پن اختیار کیاہے کہ ذہن مین وسعت کے بجائے تنگی محسوس ہونے لگتی ہے۔زمانہ کے ساتھ ساتھ کچھ نظریات و تصورات بدل جاتے ہیں لیکن قران کریمکے معانی و مطالب وسعت بیان میں اتنی گہرائی رکھتے ہیں کہ تحقیقات کا دائرہ بہت کم دکھائی دینے لگتا ہے۔یہی بات ویڈیو میں سمجھا نے کی کوشش کی گئی ہے
صحت تندرستی اور زندگی کا راز
صحت تندرستی اور زندگی کا رازحکیم المیوات قاری محمدیونس شاہدمیومنتظم اعلی سعد طبیہکالج برائے فروغ طب نبوی۔۔۔۔سعد ورچوئل سکلزپاکستانغذا کی ضرورت پر ایک مدلل دلیل۔ جانتے ہونا کہ چراغ ہمیشہ تیل اور بتی سے جلتا ہے اور تیل بتی خرچ ہوتا رہتا ہے۔ اسطرح گرمی اور روشنی دیتا ہے۔ اگر چراغ کی بتی اور تیل دونوں ختم ہو جائیں تو چراغ بجھ جاتا ہے نہ اس میں روشنی رہتی ہے اور نہ حرارت یعنی مر جاتا ہے ۔ عین اس طرح انسان اور حیوان کے بدن کی حرارت اور رطوبت یعی حرارت عزیزی اور رطوبت عزیزی کے ختم (فنا) ہو جانے سے انسانی زندگی کا چراغ بھی گل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ہر حرارت عزیزی اور رطوبت عزیزی ہی زندگی کا دوسرا نام ہےجو قدرت نطفہ کے ساتھ ہی پیدا کردیتی ہے اور موت تک ساتھ رہتی ہے یعنی اس کا ختم ہو جانا ہی موت ہے بس چراغ کی زندگی اور انسانی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے ان کا بدل اور معاوضہ ملنانہایت ضروری ہے یعنی چراغ کو اگر بتی اور تیل ملتارہے تواسکی زندگی قائم رہے گی ۔ اور انسان و حیوان کو صحیح اور شدھ غذا ملتی رہے گی تو اس سے خون پیدا ہوتا رہے گا اور حرارت عزیزی اور رطوبت عزیزی کو مدد ملتی رہے گی اورانسانی زندگی قائم رہے گی ورنہ ہر گز زندگی قائم نہیں رہے گی پس ثابت ہوگیا کہ زندگی کے لئے غذا ایک ضروری اور لابدی چیز ہے تیجہ یہ نکلا کہ حرارت عزیز ہی اور رطوبت عزیز کی ہی ختم ہو کر انسانی زندگی کوفنا کرتی ہے اسلئے اگر انسان حرارت عزیزی اور رطوبت عززی کی حفاظت کرتا ہے تو نہ صرف طبی عمر کو پہنچتا ہے بلکہ امراض سے بھی محفوظ رہتا ہے اور اسکے قوی اور طاقیتں قائم رہتی ہیں یعنی صحت و تندرستی کا راز صرف مناسب غذا میں ہے یہ بھیپڑھئے غذا سے کیا فائد سے حاصل ہوتے ہیں ؟.اعضائے غذائیہقدرت ہر نطفہ کے ساتھ ہم سہلا کر دیتی ہے اور یہ ایک خاص مسئلہ یا آنکڑہ ہے جسکے سمجھ لینےسے طب کے اہم مسلے حل ہو جاتے ہیں اور معالج علاج میں دسترس حاصل کر لینا ہےاس لئے یاد کر لیناضروری ہے اور لازمی امر ہے ۔انسان کے تین اہم نظام ہیں ۔1:نظام عصبی، ۲ : نظام عضلاتی۔3: نظام غدی۔۔۔ اور باقی سب کچھ ان کے تحت ہیں ۔اعضاغذا منہ سے لے کر مقصد تک پھیلے ہوئے ہیں جن میں منہ ،گلا، دانت، مری، معدہ و امعا، جگر اور طحال اور لبلبہ شریک ہیں۔ یاد رکھیں کہ یہ سب کوئی ایک مفردعضور نہیں ہیں اور نہ ہی ایک ہی قسم کے خلیات (ٹشوز)سے بنے ہوئے ہیں ۔ بلکہ یہ سب کے سب مرکب اعضا ہیں ان میں اعصاب بھی ہیں اورغدد بھی ہیں اورعضلات بھی ہیں معنی ہر مفردعضور کا ان سے تعلق ہے۔ جیسے اعضائے رئیسہ یا مفرد اعضاءدل ، جگر اور دماغ آپس میں پردوں کے ذریعہ ایک دوسرے سے جڑ کر انسانی مشین کو چلاتے ہیں اب ان اعضائے رئیسہ کا جال سارے جسم میں پھیلا ہوا ہے توان اعضا میں سے صرف کسی ایک مفرد عضو میں خرابی ہو سکتی ہے سب میں بیک وقت ہرگز نہیں ہو سکتی یعنی خرابی یا تو اعصاب میں ہوگی یا غدد میں یا پھر عضلات میں کیونکہ قدرت نے انسانی مشین اسی طرح سے بنائی ہے کہ ایک مفرد عضو کے بیمار ہو جانے سے پاقی دومفردمحفوظ ہیں تاکہ زندگی قائم رہے ۔ اب جس مفرد عضو میں خلل پیدا ہوتا ہے اسکا عضورئیس یعنی مرکز بھی مبتلائے مرض ہو جاتا ہے اس مرکز کے خلل کی وجہ سے حجم کے تمام حصوں میں جہاں جہاں اسکے اعضاء ہونگے وہاں اس پر لازمی اثر پڑتا ہے لیکن جہاں مرض پیدا ہوتی ہے اس مقام پر شدید اثر ہو کر مرض کو ظاہر کر دیتا ہے اسلئے علاج کے لئے ہیں مرکز کو ہی کو چننا پڑے گا کیونکہ جب مرکز کو راحت و آرام مل جائے گا تو اسکے تمام کے تمام مقامات خود ،بخودخود کاری شفا حاصل کر لیں گئے۔مثلا اعضائے غذایہ میں خلل آنے سے حجم میں رطوبت اور بلغم بڑھ گئی ہے جس سے نزلہ زکام ہو گیا ہے۔ اب نزلہ اور کامقام ناک ہے یعنی ناک مبتلائے مرض ہو گیا ہے اور اسکا مرکز دماغ ہے ۔ اسطرح جہاں جہاں بھی اعصاب پھیلے ہوئے ہونگے ان سب میں کم و بیش نزلہ ز کام(ر طوبت وبلغم) کی شکایت ضرورہوگی یعنی تھوک سے لے کر پیشاب تک رطوبت ہی رطوبت دکھائی دے گی لیکن شدید تکلیف یا سوزش و درم یا مرض ناک کے مقام پڑی ہوگی چونکہ اعصاب کا مرکز دماغ ہے اسلئے دماغ کو ہی مبتلائے مرض سمجھا جائے گا اور جب اسکا علاج کیا جائے گا تو مرض فورارفع ہونی شروع ہو جائے گی علاج میں خشکی پیدا کی جائے گی کیونکہ رطوبت کو خشکی ہی کاٹ سکتی ہےپس اعصابی دماغی امراض میں عضلات میں تحریک شدید کر کے خشکی پیدا کردی جائے گی جس سے رطوبتی وبلغمی امراض رفع ہو جائیں گی یہ ہے فطری علاج شفا لیکن اگر معالج تھوک سے اب تک جو علامتیں پیدا ہو چکی ہیں اور انہوں نے اود ہم مچا رکھا ہےکو دبانے یا روکنے کی کوشش کرے گا تو آرام نہیں ہو گا۔ کیونکہ اول تو علامتیں دبیں گی ہی نہیں اگر کچھ اب دب بھی جائیں تو مریض کو سخت تکلیف اٹھانی پڑے گی لیکن مرض اندرہی اندر پیچیدہ ، مرمن اور خطرناک بنتی جائے گی اور مریض موت کی آغوش میں چلا جائے گا۔مثال :کسی انسان کی بھوک بند ہو جاتی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ کی مفرد عضو میں رطوبت و بلغم کی زیادتی ہوگئی ہے جس سے مفرد عضومذ کور اپنے فعل میں سست ہو گیا ہے یعنی وہاں رطوبت مجمع ہوگئی ہے جس سے مفر و عضو میں تسکین و سکون پیدا ہو گیا ہے جسکے نتیجہ میں جسم و خون میں حرارت اور طاقت کم ہوگئی ہےکیونکہ یہ قدرتی ہے کہ رطوبت و بلغم سے جسم سے جس کی گرمی اور خارج ہو جاتی ہے۔ اس رطوبت وبلغم کو ختم کرنے کے دو طریقے ہیں ۔1۔غذا سے ادل بدل یاروک
الاوجاع۔حصہ اول
الحکیم اشاعت خاص1945 الاوجاع۔حصہ اولجس میں پہلے سر سے لے کر ے تک تمام دردوں کی تعریف ان کے اسباب اور اقسام مختصر لیکن جامع طریق پربیان کئے گئے ہیں اور ان کے متعلق سارے اپنے خاندانی معمولات کے علاوہ بیشمار یونانی و ڈاکٹری منتخب مجرب نسخہ جات درج ہیں۔ اس کے بعد اطبائے ہندکے افکار ومعمولات کے زیر عنوان ہندستان کے مشاہیر اطبا کے افکار و معلومات کے زیر عنوان معلومات و مجربات کو مرتب کیا گیا ہے ” بہر حال اوجاع دردوں کے متعلق یہ اشاعت یونانی و ڈاکٹری طریق علاج کا ایک ایسا جامع خلاصہ ہے۔ کہ اس کی نظیر کسی دوسری کتاب میں یکجا نظرنہ آئے گیهمرتبہحکیم غلام محی الدین چغتائی کتاب یہاں سے حاصل کریں