نیچے دیے گئے ٹیبل سے نومولود کے احکام و مسائل اور اسلامی نام از فاروق رفیع اردو کی کتاب ڈاؤن لوڈ کریں۔ پی ڈی ایف ای بک کے بارے میں مختصر معلومات نومولود کے احکام و مسائل اور اسلامی نام :کتاب کا نام فاروق رفیع :لکھاری / مصنف اردو :زبان (ُPdf)پی ڈی ایف :فارمیٹ 7.37 MB :سائز 452 :صفحات >> Please Like Our Facebook Page for More Beautiful Books and Novels << محمد الیاس عطار قادری کی دوسری کتابیں آپ کے ظاہر و باطنی مسائل کا حل اردو اِبراھیم عَلَیْہِ السَّلام کا قربانی کرنے کا واقعہ
مسجد کی صفائی کی فضیلت از محمد الیاس عطار قادری
نیچے دیے گئے ٹیبل سے مسجد کی صفائی کی فضیلت از محمد الیاس عطار قادری کی کتاب ڈاؤن لوڈ کریں۔ پی ڈی ایف ای بک کے بارے میں مختصر معلومات مسجد کی صفائی کی فضیلت :کتاب کا نام محمد الیاس عطار قادری :لکھاری / مصنف اردو :زبان (ُPdf)پی ڈی ایف :فارمیٹ 9.08 MB :سائز 29 :صفحات >> Please Like Our Facebook Page for More Beautiful Books and Novels << محمد الیاس عطار قادری کی دوسری کتابیں آپ کے ظاہر و باطنی مسائل کا حل اردو مسجدیں خوشبو دار رکھیئے
مسجد کے فضائل و احکام از مولانا مفتی محمد ارشاد صاحب رحمۃ اللہ علیہ
نیچے دیے گئے ٹیبل سے مسجد کے فضائل و احکام از مولانا مفتی محمد ارشاد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اردو کی کتاب ڈاؤن لوڈ کریں۔ پی ڈی ایف ای بک کے بارے میں مختصر معلومات مسجد کے فضائل و احکام :کتاب کا نام مولانا مفتی محمد ارشاد صاحب رحمۃ اللہ علیہ :لکھاری / مصنف اردو :زبان (ُPdf)پی ڈی ایف :فارمیٹ 7.93 MB :سائز 169 :صفحات >> Please Like Our Facebook Page for More Beautiful Books and Novels <<
مسجدیں خوشبو دار رکھیئے از محمد الیاس عطار قادری
نیچے دیے گئے ٹیبل سےمسجدیں خوشبو دار رکھیئے اردو کی کتاب ڈاؤن لوڈ کریں۔ پی ڈی ایف ای بک کے بارے میں مختصر معلومات مسجدیں خوشبو دار رکھیئے :کتاب کا نام محمد الیاس عطار قادری :لکھاری / مصنف اردو :زبان (ُPdf)پی ڈی ایف :فارمیٹ 1.02 MB :سائز 26 :صفحات >> Please Like Our Facebook Page for More Beautiful Books and Novels << محمد الیاس عطار قادری کی دوسری کتابیں آپ کے ظاہر و باطنی مسائل کا حل اردو اِبراھیم عَلَیْہِ السَّلام کا قربانی کرنے کا واقعہ
طب پانچویں ہجری سے گیارہویں صدی ہجری تک
طب پانچویں ہجری سے گیارہویں صدی ہجری تک حکیم قاری محمد یونس شاہد میو پانچویں صدی ہجری/گیارھویں صدی عیسوی کا ایک ممتاز مسلمان طبیب ابو ریحان البیرونی ہے۔جس کا انتقال 1048ء میں ہوا ۔اس کی شہرت تو ایک ماہر فلکیات، ریاضی دان، ماہر طبعیات، جغرافیہ دان اور مورخ کے طور پر ہے، لیکن وہ ایک طبیب اور ماہر خواص الادویہ بھی تھا ۔طب پر اس کی مشہور کتاب کا نام “صید لیہ ” یعنی دوا سازی pharmacy ہے۔اس کتاب کا انگریزی اور اردو ترجمہ فضل الدین قریشی نے پنجاب یونیورسٹی، لاہور کی سرپرستی میں کیا۔ چھٹی صدی ہجری /بارھویں صدی عیسوی میں ہم ایک ماہر طبیب کے طور پر ایران کے امام فخر الدین رازی(م 1209ء) کو دیکھتے ہیں ۔وہ جامع العلوم تھے۔تفسیر،کلام،حکمت اور فلسفہ،منطقی علوم وادب،تاریخ ،ہندسہ،اور طلسمات پر کتابیں لکھیں ۔طب پر ان کی سات کتابیں ہیں، ابن سینا کے بعض فلسفیانہ پر کڑی تنقید کی ہے لیکن اس کی القانون کے بہت سے مشکل مقامات کی شرح بھی لکھی ۔امام رازی پر ایک پوسٹ پہلے کر چکی ہوں ۔ میری ٹائم لائن پر موجود ہے ۔ مصر کی طرح اسپین میں مسلمان اطبا اپنی مہارت کے جھنڈے گاڑ چکے تھے ۔اسپین میں اسلامی طب خاندان ابن زہر(لاطینی میں Avenzoar) کی خدمات کو فراموش نہیں کر سکتا، دو نسلوں میں اس خاندان میں کئ ماہر طبیب پیدا ہوئے ۔اسی خاندان کا ایک مشہور طبیب ابو مروان عبد الملک(م1161) ہے،اشبیلیہ میں فوت ہوا، کئ طبی کتب کا مولف تاہم اس کی کتاب “التیسیر فی المداواتہ والتدبیر” سب سے زیادہ مشہور ہوئ ۔وہ علم الامراض میں اسپین کا بہت بڑا نام ہے ۔ اسپین کے طبیبوں میں ابن طفیل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑا فلاسفر تھا ۔۔۔قرون وسطی کے زیادہ تر طبیب اعلی پائے کے فلسفی بھی تھے ۔۔۔مجھے نہیں معلوم فلسفہ ان کے طبی تجربات میں کہاں تک ان کی مدد کرتا ہو گا، مگر ایسا تھا ۔ فلسفہ میں ابن طفیل کا جانشین ابن رشد تھا۔ ابن رشد کی شہرت بہ حیثیت فلسفی کے ہے، لیکن وہ ماہر طبیب بھی تھا، طب اس نے اپنے دوست ابن زہر سے سیکھا تھا ۔ابن رشد 1126ء میں قرطبہ میں پیدا ہوا، طب میں اس کی 16کتابوں کا پتا چلتا ہے ،جس میں سب سے زیادہ مشہور “الکلیات فی الطب ” ہے۔جس کا ترجمہ لاطینی زبان میں ایک یہودی عالم نے Colliget کے نام سے کیا ۔ ابن رشد کا ہمعصر عبداللطیف تھا،جس نے علم طب کے حصول کے لئے بغداد اور مصر کا سفر کیا ۔اس نے قدیم قاہرہ کے ایک قدیم قبرستان سے انسانی ہڈیاں حاصل کر کے اپنی تحقیق پیش کی ۔جالینوس نے زیریں جبڑے lower jaw اور مقعد کی ہڈیوں کے بارے میں جو لکھا تھا، عبداللطیف نے اس کی تصحیح کی۔ انسانی ہڈیوں کا حصول قدیم قاہرہ میں کس طرح ممکن ہوا، یہ ہم نے حالیہ دورہ مصر میں خود مشاہدہ کیا ہے ۔وہاں مردوں کو دفن کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر خاندان کا ایک یا دو کمروں پر مشتمل ایک خاندانی قبرستان ہوتا ہے ۔خاندان کا کوئی شخص انتقال کرتا ہے تو اسے کفن پہنا کر اس کمرے میں رکھ دیتے ہیں ۔۔۔جیسے جیسے لوگ مرتے جاتے ہیں، ایک کے بعد ایک مردے کو لٹاتے جاتے ہیں ۔جو مردے گل کر محض ہڈیاں رہ جاتے ہیں ان ہڈیوں کو ایک طرف سمیٹ کر مزید جگہ بنا لیتے ہیں ۔ لہذا کسی بھی افتادہ مدفن سے انسانی ہڈیاں حاصل کرنا کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔ ساتویں صدی ہجری/تیرھویں صدی عیسوی سیاسی طور پر پر اشوب تھی۔منگولوں کے حملوں کی وجہ سے بہت سے مدرسے، اور شفاخانے تباہ ہو گئے، علمی مراکز کی سرگرمیوں پر بھی شدید اثر پڑا اس کے باوجود ابن قفطی۔۔۔ابن ابی اصیبعہ ۔۔۔ابن خلکان۔۔۔وغیرہ اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ابن ابی اصیبعہ 1203ء میں دمشق میں پیدا ہوا، وہ ابن بیطار کا شاگرد تھا، طب کی تعلیم اس نے مصر کے شفا خانہ ناصری سے حاصل کی، اس کی زندگی کا بیشتر حصہ مصر ہی میں گزرا ۔اس نے اپنی کتاب “طبقات الاطباء” میں 600سے زائد اطباء کے احوال اور تصانیف کے بارے میں لکھا ہے ۔اس کا ماخذ ایک تو وہ کتابیں ہیں جو اب معدوم ہو چکی ہیں اور دوسری وہ سینکڑوں طبی کتب جن سے مصنف پوری طرح باخبر تھا۔اس کا انتقال 1270ء میں ہوا ساتویں صدی ہجری/تیرھویں صدی عیسوی میں طب کے حوالےسے ایک اور ممتاز نام ابن النفیس کا ہے۔وہ 607ھج/ 1210ء کے لگ بھگ دمشق میں پیدا ہوا، وہیں بیمارستان نوری میں طب کی تعلیم حاصل کی، اس ہسپتال کی بنیاد نور الدین زنگی نے رکھی تھی ۔ابن النفیس محض طبیب ہی نہیں بلکہ فقہ شافعی کا مستند عالم،اصول فقہ، منطق اور صرف و نحو کا بھی ماہر تھا ۔وہ اپنی طبی صلاحیتوں کو نکھارنے لے لئے قاہرہ چلا گیا جو عملی اور نظری طب کے اعلی مرکز کے طور پر خود کو صدیوں سے منوا چکا تھا ۔مصر میں ابن النفیس کو “رئیس الاطباء “کا خطاب دیا گیا،وہ وہاں بیمارستان ناصری سے وابسطہ ہوا اور علاج معالجے کے ساتھ ساتھ طب کی تعلیم بھی دیتا رہا۔اس کی سب سے بڑی طبی تصنیف ” الشامل فی الطب” ہے،جو مکمل نہیں ہو سکی اور اس کا ایک ضخیم مخطوطہ دمشق میں محفوظ ہے ۔ امراض چشم کے حوالےسے بھی ابن النفیس کی ایک قابل ذکر تصنیف ویٹیکن میں محفوظ ہے ۔ابن النفیس کی عظمت پچھلی صدی میں ظاہر ہوئی، ایک نوجوان عرب طبیب امین اسعد خیر اللہ نے اپنی تحقیق میں یہ انکشاف کیا کہ ابن النفیس نے اپنی شرح “تشریح ابن سینا” میں ابن سینا اور جالینوس سے اختلاف کرتے ہوئے پھیپھڑوں میں دوران خون Pulmonary circulation کا جو نظریہ دیا وہ اس کے مغربی دریافت کنندگان Michael servetus( م 1556)اور Realdo Colombo (م 1559) سے اندازا تین سو سال قبل تقریبا صحیح طور پر ابن النفیس بیان کر چکا تھا ۔مغربی دنیا کو اس نظریے کا علم اس لئے نہیں ہو سکا کہ ابن النفیس کی اس شرح کے تراجم نہ ہو سکے۔لاطینی میں صرف ایک ترجمہ ہوا تھا جو بہت ناقص تھا ۔ اس صدی کا ایک اور اہم نام
ابوبکرمحمد بن زکریا رازی کا میدان طب میں کردار
ابوبکرمحمد بن زکریا رازی کا میدان طب میں کردار ابوبکرمحمد بن زکریا رازی کا میدان طب میں کردار قاری محمد یونس شاہد میو اسلامی طب مسلسل ارتقاء کے منازل طے کرتی رہی، انہوں نے یونانی اطبا کے تنائج پر ناقدانہ نظر ڈالی اور کئ نظریات کو باطل قرار دے کر متبادل نظریات قائم کئے جو بار بار کے تجربات سے درست ثابت ہوئے ۔یوں مسلمانوں نے یونانی نظام طب کو بعینہ قبول کرنے کے بجائے سخت ناقدانہ اور مجتھدانہ روش اختیار کرتے ہوئے طب عربی/طب اسلامی کا نظام وضع کر لیا ۔ اس میں رازی کا نام ہمیشہ احترام سے لیا جائے گا ۔رازی کو مغرب میں Rhazes کہا جاتا ہے ۔ابو بکر محمد بن زکریا رازی 251ھج میں رے(ایران) میں پیدا ہوا ۔بغداد میں حنین ابن اسحاق کے ایک شاگرد سے طب کا علم حاصل کیا۔ علی ربن الطبری سے بھی علم حاصل کرنے کی روایت ملتی ہے ۔اس نے یہ علم ادھیڑ عمری میں حاصل کیا تھا ،کچھ عرصہ رے کے ہسپتال کا افسر اعلی رہا پھر بغداد کے ہسپتال میں افسر اطبا(Seniour Doctor ) مقرر کیا گیا، اس طرح رازی کو تجربات کا بہت موقع ملا، رازی غیر معمولی کیسسز کو باقاعدہ نوٹ کر لیا کرتا تھا اور کیس کے ہر مرحلے کی اسٹڈی کرتا تھا، بعض اوقات وہ ایسے مشکل امراض کی تشخیص کر لیتا تھا جس میں دیگر اطبا ناکام رہتے تھے ۔ رازی نفسیاتی علاج پر بھی یقین رکھتا تھا ۔ایک سامانی امیر منصور بن نوح جب پیروں کو مفلوج کر دینے والی بیماری کا شکار ہوا تو رازی کو علاج کے لئے بلایا گیا، رازی نے اس کا علاج نفسیاتی جھٹکے psychological shock دے کر کیا جس سے امیر منصور تندرست ہو کر اپنے پیروں پر چلنے کے قابل ہو گیا ۔ رازی بہت بڑا ماہر تشریح الاعضاء Anatomist بھی تھا ۔اس پر اس کی “کتاب المنصوری” کا حوالہ دیا جا سکتا ہے ۔اس کتاب میں وہ دل کی ساخت ،وریدوں veins اور شریانوں arteries کے بارے میں حیرت انگیز معلومات فراہم کرتا ہے ۔ رازی نے مختلف علوم پر 200 کتابیں لکھیں جن میں خاص طب پر 130 ضخیم اور 28 مختصر کتابیں(جنہیں رسائل طب بھی کہا جا سکتا ہے )شامل ہیں ۔رازی کی سب سے ضخیم طبی کتاب “الحاوی” ہے، اس سے زیادہ مفصل کتاب آج تک کسی طبیب نے نہیں لکھی نہ مشرق میں نہ مغرب میں ۔الحاوی کی تالیف پر رازی نے پندرہ برس صرف کئے، مسلمانوں نے اس علمی ورثے کی بڑی حفاظت کی اور اسے ضائع نہیں ہونے دیا ۔حیدرآباد دکن سے الحاوی 22 جلدوں میں شائع ہو چکی ہے ۔ یہ کتاب عرب میڈیسن میں لینڈ مارک ہے ۔اس کتاب میں طب کے ہر مسئلے پر تمام یونانی اور عرب اطباء کی آرا نقل کرنے کے بعد رازی نے اپنی طبی رائے بیان کی ہے اور دلائل کے طور پر اپنے طبی تجربات بیان کئے ہیں ۔الحاوی کے بعض حصے یورپ میں علم طب کے درسی نصاب میں صدیوں شامل رہے۔ سسلی کے ایک یہودی طبیب فرج ابن سالم نے الحاوی کا لاطینی میں ترجمہ کیا(678ھج/1278ء)۔ یورپ میں زر کثیر خرچ کر کے اس کتاب کو 1486 میں شائع کیا گیا ۔۔۔جس کے پھر 50 سال کے اندر پانچ ایڈیشن شائع کئے گئے رازی کی دوسری کتاب جس نے مشرق و مغرب میں یکساں شہرت حاصل کی “کتاب المنصوری “یا “طب المنصوری “ہے۔اسے لاطینی میں Liber Almansoris کہتے ہیں ۔ اس میں علم تشریح الاعضاء سے بحث کی گئی ہے ۔ رازی کی کثیر التعداد تالیفات میں سے “الجدری والحصبہ ” وہ مشہور کتاب ہے جس کا یورپ میں بڑا خیر مقدم کیا گیا ۔یہ کتاب چیچک اور خسرہ سے متعلق ہے ۔رازی نے خون کے خمیر میں چیچک کا سبب دریافت کیا اور البرٹ بک سے صدیوں پہلےکئ بیماریوں کے سلسلےمیں جراثیم کی پیدائش کا خدشہ ظاہر کیا ہے ۔آغاز ہی میں اس کتاب کا ترجمہ لاطینی زبان میں ہو گیا پھر انگریزی ترجمے کے بھی متعدد ایڈیشن شائع کئے گئے ۔ “الطب الروحانی ” یا “طب النفوس “رازی کی وہ کتاب ہے جو روح کی طب پر ہے، اس کتاب میں اس نے بتایاہے کے انسان کے نفسیاتی اور اخلاقی عوارض کا علاج کیسے کیا جا سکتا ہے ۔ رازی کی دیگر طبی تصانیف میں الجامع۔۔۔۔المدخل۔۔۔۔المرشد ۔۔۔الطب الملوکی ۔۔۔۔الکافی اور الفاخر وغیرہ شامل ہیں ۔رازی ہی نے سب سے پہلے الکحل کو دافع عفونت antiseptic کے طور پر استعمال کیا ۔اسی نے سب سے پہلے پارے کو بطور سہل purgative استعمال کیا، جس کو قرون وسطی کے مغرب میں “سفید رازی “album rhasis کے نام سے موسوم کرتے تھے ۔ رازی کے فلسفیانہ عقائد انکار نبوت پر مبنی تھے،اس حوالےسے اس پر تنقید تو ہوئی لیکن طب کے میدان میں اس ہی کے قول کو قول فیصل مانا جاتا تھا ۔آج بھی پیرس یونیورسٹی کی دیواروں پر دو مسلمان طبیبوں کی تصاویر کو امتیازی طور پر آویزاں کیا جاتا ہے، ایک رازی دوسرے بو
ورم معدہ
ورم معدہ حکیم قاری محمد یونس شاہد میو گا ہے معدہ میں ورم عارض ہوتا ہے جس طرح کہ دیگر اعضاء میں اورام لاحق ہوتے ہیں اسفل معدہ میںجو اورام عارض ہوتے ہیں وہ اپنی ابتدائی صورت میں امراض کے لحاظ سے خفیف ہوتے ہیں۔ ورید اکحل میں فصد کرنا ملین حقنوں سے اسہال لاتا، عمدہ غذاؤں سے تلطیف اور ابتدا میں بہت زیادہ رادع دواؤں کا استعمال کرنا اس کا صحیح علاج ہے۔ نیز ان میںمحلات شامل کرنا بھی بہتر ہے لیکن مرض کو اگر کچھ دن گزر گئے ہوں تو اس کےبرعکس طریقے پر علاج کرنا چاہیے۔ یعنی دوائیں ایسی ہوں جو اپنی پوری قوت کے ساتھ تحلیل کرنے والی ہوں نیز وہ اس قدر رادع ہوں جتنا کہ مرض کا تقاضہ ہو ۔پھرمدت مرض جب دراز ہو جائے تو رادع اشیاء کم قوت کی استعمال کی جائیں۔ اور قوی محللات استعمال کیے جائیں۔ رادع ادویہ میں ناشپاتی اور سفرجل ہیں۔ یہ دونوں معدہ کو غذا کے طور پردوا کی بہ نسبت زیادہ مرغوب ہیں۔ اس میں قوت تحلیل اور ردع گلقند کے مثل ہوتی ہے اور اگر اس کے ساتھ بابونہ کا اضافہ کر دیا جائے تو اس کی قوت تحلیل گلقندسے بڑھ جاتی ہے ۔ بابونہ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ اعضاء باطنہ کو بہت زیادہ راحت و آرام پہنچاتا ہے۔ میرے خیال میں پہلے ہی مرحلے میں رادع اورمحلل دوائیں استعمال کرنی چاہئیں۔ اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے کہ مریض کو کوئی تکلیف نہ پہنچےاپنا علاج جاری رکھنا چاہیے۔ یہ اس صورت میں ہے جب ورم اسفل معدہ میں ہو۔ معدہ کے اوپری حصے یا ف معدہ کے قرب میں اگر یہ دم ہو تو اس وقت برے اعراض ظاہر ہوتے ہی جب تک کہ دوم باقی رہتا ہے مثلا خفقان، اگر معاملہ سنگین ہوجائے توفتی اور سقوط قوت بھی لاحق ہوتی ہے۔ اور گیا ورم کے ساتھ ہمیشہ ناری رہتا ہے۔ اور یہ بخار عضو کی برتری و خساست نیز غلط کے اعتبارسے شدید اورفيت ہوتا ہے۔ اگر مع علاج نہ کیا جائے اور اس میں موارٹواتے اور ورم معدہ کےافل میں ہوتت من طول وبالت ہے۔۔۔۔۔۔۔ قوت حیوانی و نفسانیہ کمزور نہیں ہوئی البتہ قوت طبعیہ ضرورمختل ہو جاتی ہے جس سے غذا اچھی طرح ہم نہیں ہو پاتی اور اگر ہضم اول ضعیف ہو جائے توہضم ثانی مزید ضعیف ہو جاتا ہے نیزورم کے اندر مواد پڑ جاتی ہے ۔ جس سے غذا میں تخمیری کیفیت لاحق ہونا شروع ہو جاتی ہے جس کی اصلاح بدقت ہی ہو پاتی ہے۔ معدہ کے جز اعلی میں اگر ورم موجود ہو اور مریض کا ضعف اس حد تک بڑھ گیا ہوکر اپنے مقام سے اس کی نقل و حرکت انتہائی دشوار ہورہی ہو تو اس وقت غشی طاری ہو جاتی ہے کیونکہ معدہ کے جزم اسفل میں ہضم کی قوت طبعا قوی ہوتی ہے۔ بسا اوقات معدہ کے جزء اعلی میں ورم لاحق ہونے کے بعد یہ بھی عارض ہوجاتا ہے ، میرا خیال ہے کہ جب شفایابی میں تاخیر ہوئی ہے تو مدت مرض خفیف ہو جاتی ہے ۔ کیونکہ مریض ضعف قوت کے باعث تکلیف والم محسوس کرتا رہتا ہے۔ اور بڑے اعراض پے در پے اس پر عارض ہوتے رہتے ہیں ۔ لیکن معدہ کے جزء اسفل میں ورم ہوتا ہے تو اس کی مدت بہت طویل ہوتی ہے۔ پھر یا تومریض صحت یاب ہوجاتا ہے یا اس کامرض طول پکڑلیتا ہے ۔ اور بالاخر لاغری معدہ کے سبب مریض فوت ہوجاتا ہے۔ ورم معدہ جب زخم میں تبدیل ہو جائے تومریض کو نہار منہ جالی اورقاطع مدہ ادویہ جیسے ایرسا و مقوی ادویہ جیسے مصطگی استعمال کرائی جائیں، معدہ کے لئے مصطگی خاص طور سے عظیم النفع ہے ۔ جس طرح کے عودسوس در دکی تسکین کے لئے مخصوص ہے۔ دواؤں میں عام طور سے اعراض معدہ کے اعتبار سے مٹھاس ضرور شامل ہوناچاہئے لیکن اگر بہت زیادہ شہد بھی ملا دیا جائے تو نقصان سے خالی نہیں اورمعدہ میں کچھ نہ کچھ خلل واقع ہو گا۔ خواہ ا س کا اثر تم کو نہ ظاہر ہو، لیکن معدہ میں سوزش ہوتی ہے جس کو دو ظاہرنہیں ہونے دیتی۔ ایسے موقع پرہلکی قاطع ادویہ پر ہرگز انحصارنہ کریں۔ بلکہ معتدل قاطع اور عمدہ جالی ادویہ استعمال کرائیں ۔ چنانچہ دواؤں کے ساتھ قوی مفتح ادویہ میں مثلا قنطوریون اور قاطع ادویہ میں ایسی جوسخت کٹھی ہوں ۔ شلا رب انگور خام ضرور شامل کریں، عام طور سے تقویت معدہ کے لئے رب انگور خام اسی خصوصیت کا حامل ہوتا ہے، اسی طرح معجون عسالج الکرم دونوں مذکورہ دوائیں اپنی خصوصیت اور نقصانات کے لحاظ سے قاطع ادویہ میں بہرحال بہترین ادویہ ہیں۔لہذا جب مریض کو لذع کا احساس ہوتا ہے تو دواؤں کی ترشی کی وجہ سے کھنکھارنے لگتا ہے۔ اوریہ کیفیت شروع ہی میں(یعنی دوا کے معدہ میں پہنچتے ہی ) ہوتی ہے کبھی کبھی ورم چھوٹا ہوتا ہے۔ اور اس صورت میں علاج کامیاب ہوتا ہے۔ اورمکمل شفایاب ہو جاتی ہے لیکن جب ورم بڑا ہوتا ہے تو شفایابی محال ہوتی ہے۔
اورام دماغ کابیان(دماغ کے اورام)
اورام دماغ کابیان(دماغ کے اورام) اورام دماغ کابیان(دماغ کے اورام) حکیم قاری محمد یونس شاہد میو کتاب التیسیر فی المداوۃ التدبیر ابو مروان عبد الملک ابن زہر۔ (1092تا1162ء۔۔484۔557ھ) میں لکھا ہے بعض اوقات جو ہر دماغ یعنی نفس دماغ کے اجزا میں کسی خلط کے انصباب سے ورم لاحق ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جن اجزائے دماغ میں ورم ممکن ہے وہ متورم ہوجاتے ہیں۔ اس کا علاج بہت مشکل ہے مریض ہلاک ہوجاتا ہے۔ اس مرض میں خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاج میں فصد بھی شامل ہے۔ مریض کو لطیف غذا دی جائے ۔میرا خیال ہے کہ مریض مہلک عوارضات کی وجہ پہلے ہی مر جائے گا۔ اور غذا کی نوبت نہ آئے گی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مریض کی حرکت ارادی مشکل ہوجاتی ہے۔ اور جسم کا زیادہ ترحصہ بیکار ہو جاتا ہے اور استرخاء پیدا ہو جاتا ہے اور سینہ کی حرکات معدوم ہوجانے کے سبب سے مرض کے پہلے حملے میں مریض کا دم گھٹ جاتاہے اور موت واقع ہو جاتی ہے۔نیز میرا خیال ہے کہ مرض کےٹہر جانے کے بعد علاج کرنا نا ممکن ہے ۔ اس بنا پر اس مرض کے اسباب و اعراض کی بحث کو طول دینا مناسب نہیں سمجھتا۔بعض اوقات ورم کسی ایک خلط یا زائد اخلاط سے شبکیہ میں جو شبکیہ العجيبہ کے نام سے مشہور ہے اور ام الدباغ کے نیچے واقع ہے ،میں پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کا پہچاننا مشکل ہوتا ہے ۔ اس کے عوارض اس طرح ہوتے ہیں جس طرح سایہ جسم کے ساتھ مانا جاتا ہے ۔ اس کے عوارض میں آنکھوں کی سفیدی میں شدید سرخی کالاحق ہو نیزدونوں پپوٹوں کا سخت ہو جانا اور ان کی حرکتوں میں دقت اور بوجھ کا محسوس ہونا اور شدید بخارکالاحق ہونا شامل ہیںاگر مادہ مرض بلغمیت کی طرف مائل ہو تو یہ علامات نہ پائی جائیں گی، کیونکہ اس مقام پر اس مادہ کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ مرض مذکور کا علاج اولاََ فصد قیفال کے ذریعہ کر نا چا ہیے، اور اخراج دم بغیرکسی خوف و خطر کے کر دیناچا ہئے پھر دونوں ہاتھوں کی عروق نابضہ ظاہرہ میں سے کسی ایک میں فصد کر کے استفراغ دم کرنا مناسب ہے۔ خون کے استفراغ کی کم سے کم مقدار ۳۵ ملی لٹر اور زیادہ سے زیادہ مقدار پچاس ملی لٹر ہونی چاہیے۔ اس عمل کا اعادہ بھی کیا جائے ۔ لطیف غذائیں دی جائیں جس میں تمرہندی کا خیساندہ ایک ایک گھنٹے بعد دینا مناسب ہے ۔ اگر اس عمل سےتلین ہو جائے تو یہ علاج بہت عمدہ اور بہتر ہے ۔ اس کے علاوہ ضروری ہے کہ آس ، صندل گلاب اوربھگو تے ہوئے انجبار کو سنگھایا جائے۔ جب اعراض مرض دفع ہو جائیں یا ہلکے پڑجائیں نیز موت کے خطرات ٹل جائیں تو عصارہ قثاء(ککڑی ) اور مغز خیارین استعمال کرائیں۔ اعراض رفع ہونے کے بعد غذامیں آش جو دیں۔ اور جو کو ایک خاص ترکیب سے پکا کر استعمال کرائیں ۔جس کا طریقہ مشہور ہے ۔ اس کے بعد روٹی پانی سے دھو کر کھلائی جائے ۔ مریض کی شفایا بی کا پورا یقین ہوجائے تو تنور کی خمیری روٹیاں یا توے پرپکی ہوئی روٹیاں مغز کھیرایاس کے پانی یا امرود کے ہمراہ کھلائیں۔ اگر مریض کو پسند ہو تو کھانے سے پہلے کالے انگور کھلائے جائیں یہاں تک صحت کلی حاصل ہوجائے۔
جادو و سحر کے توڑکے لئےعمل
جادو و سحر کے توڑکے لئےعمل جادو و سحر کے توڑکے لئےعمل حکیم قاری محمد یونس شاہد میو ، یہ عمل بہت موثر ہے،نمک کی ڈلی اور نیم کے پتے لیکر ،ان پر سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۰۱،اور سورہ المومنون کی آخری ۴آیات ۔۔۔۔۔۔۔افحسبتم انما خلقناکم عبثا وانکم الینا لاترجعون۔۔فتعلی اللہ الملک الحق،لاالہ الھو رب العرش العظیم۔۔ومن یدع مع اللہ الھا اخڑ لا برھان لہ بہ فانما حسابہ عند ربہ انہ لایفلح الکافرون۔۔وقل رب اغفر وارحم وانت خیر الراحمین[المومنون115تا118پارہ 18]۔طاق بار دم کر کے دیدیں،کہ چلتے ہوئے پانی سے،پانی لاکر اس میں یہ دونوںچیزیں ابال لیں،جب نمک حل ہوجائے تو نیم کے پتے نکال کر کسی جگہ دفن کردیں،اس پانی کے تیں حصے کردیں،یومیہ ایک حصہ تازہ پانی میں ملاکر غسل کریں،اور گھر میںچھڑکائو کریں،جس پر سحر و جنات کے اثرات ہوں یا جس جگہ خون پانی کے چھینٹے آتے ہوں،یا کہیں تعویذات کا شبہ ہو یا مریض کے کاندھوںپر وزن رہتاہو، یاوجودمیں درد رہتا ہو ان تمام علامات میں بے موثر وبے خطا عمل ہے، بندہ کے معمولات میں پندرہ سال سے شامل ہے،اس سے مختصر،آسان بہت کم عمل دستیاب ہوںگے۔حکیم ترمذی نوادر میں لکھتے ہیں نبیﷺ نے فرمایا اگر تم اللہ کو ایسے پہچانو جیسے آس کا حق ہے تو تمہاری دعا سے پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جائے حضرت ابن مسعود مصائب میں اور مشکل اوقات میں افھسبتم انما خلقناکم پڑھا کرتے تھے تو انہیں اس سے چھٹکارا مل جاتا تھا بس نبیﷺ نے فرمایا اگر اسے پورے یقین کے ساتھ پڑھاجائے توپہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے یہ بادشاہ سے خوف کے وقت پڑھیں تو اس کی ہیبت ختم ہوجاتی ہے ابن عباس کہتے ہیں بخدا اس کے پڑھنے کی وجہ سے لوگوں کی ہیبت دل سے نکل جاتی ہے[نوادر الاسول ۲/۱۰۴]بیضاوی نے روایت کیا ہے کہ اسے اپنے مرنے والوں کے پاس پڑھا کرو [فتسیر بیضاوی۴/۱۷۱تفسیر القرطبی۱۲/۱۵۷ تفسیر البغوی۳/۳۲۰]الاتقان نے بیہقی اور ابن سنی ابو عبید کے واسطہ سے ابن مسعود روایت کیا ہے [الاتقان۲/۴۳۸]ایک روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے صحابہ کرام کو ایک غزوہ میں بھیجا اور ہدایت فرمائی کہ صبح و شام ان آیا ت کا ورد رکھنا ہم نے ایسا ہی کیا تو ہمیں [فتح کے ساتھ]غنیمت بھی نصیب ہوئی[الدر المنثور۶/۱۲۲]ابن مسعود کہتے ہیں جب بھی کسی ابتلاء میں گھرا اور ہم نے ان ایات کی تلاوت کی ہمیں ضرور اس سے نجات ملی[تفسیر ثعلبی۳/۱۰۷] {
ازواج النبیﷺکےحجرات کے بارہ میں تحقیق
ازواج النبیﷺکےحجرات کے بارہ میں تحقیق حکیم قاری محمد یونس شاہد میو عامر کہتے ہیں لم یوص رسول اللہ ﷺالابمساکین ازواجہ وارض ترکھا صدقۃ[ابن سعد ۸/۱۶۷] عطاء خراسانی کہتے ہیںمیں عمران بن ابی انس کی مجلس میں تھا وہ اس وقت قبر اور ممبر کے پاس تھے ہم نے دیکھا کہ حجرات کھجور کی ٹہنیوں سے بنے ہوئے ہیں اور انکے دروازون پر بالوں کا بنا ہوا پردہ لٹک رہا ہے اسی دوران ولید بن عبدالملک کا حکم آیا کہ حجرات کو مسجد نبویﷺمیں شامل کردیا جائے میں نے اس دن سے زیادہ رونے والے کسی دن نہ دیکھے عطاء کہتے ہیں میں نے سعید ابن المسین کو کہتے سنا قسم بخدا مجھے یہ پسند ہے کہ ان حجرات کو ان کی حالت پر رہنے دیا جائے [ابن سعد ۸/۱۶۷] کیونکہ انہیں تیار کرکے نبیﷺ نے جس طرح حق مہر ادا کردیا ایسے ہی انہیں گھر وں کے حقوق بھی تفویض کردئے گئے تھے کیا دیکھتے نہیں کہ روایات میں یوں آتا ہے نبیﷺ فلاں زورجہ کے گھر تشریف لے گئے اور حجرہ عائشہ میں آج بھی اسودہ ہیں ازواج مطہرات اپنے اپنے گھر و ں میں رہا کرتی تھیں اس لئے انکے حجرات میں کسی نے آج تلک کوئی تصرف نہ کیا اگر یہ انکی ملکیت نہ ہوتے تو وراثت میں باغ فدک کی طرح ان میں بھی بحث و مباحثہ ہوتے یہ جگہیں نبیﷺ نے خرید کر انہیں حق ملکیت بخش دیا تھا اگر ایسا نہ ہوتا تو مانورث ترکنا صدقۃ کی مد میں یہ بھی آتے نبیﷺ کو جو ہدایا و تحائف آیا کرتے تھے انہیں تقسیم فرمایادیاکرتے تھے رہی بعد از وفات نان و نفقہ کی ذ مہ داری تو وہ امت پر عائد ہوتی ہے [الکنز المدفون سیوطی] اس سے بڑا ملکیت کا کیا ثبوت ہوگا کہ ازواج مطہرات نے اپنے حق ملکیت کو استعمال کیا اور اپنے حجرات کو جب جی چاہا فروخت کیا مثلاََ حضرت سودہ بنت زمعہ نے اپنے گھر کے بارہ میں حضرت عائشہ کے لئے وصیت فرمائی انہوں نے اس گھر کو حضرت امیر معاویہ کے ہاتھ فروخت کیا اسی طرح حضرت صفیہ کے وارثین کے انکے مکان کو حضرت امیر معاویہ کے ہاتھوںدولاکھ اسی ہزار میں فروخت کیا ابن سعد کہتے بعض اہل شام کا کہنا ہے حضرت امیر معاویہ نے اس مکان کو خرید کر حضر ت عائشہ کو اس کا حق تفویض کردیا کہ جو چاہیں اس میں تصرف فرمایئں [الطبقات الکبری ابن سعد ۸/۱۶۴] ابن تیمیہ لکھتے ہیں:لما وسع المسجد فی خلافۃ الولید بن عبد الملک وکان نائبہ علی المدینۃ عمر بن عبد العزیز امرہ ان یشتری الحجر ویزیدھا فی المسجد[کتب ورسائل فی العقیدہ۱/۲۳۷] کہ خلافت ولید بن عبد الملک میں جب مسجد نبوی کی توسیع کا خیال آیا تو خلیفہ نے مدینہ میں اپنے نائب عمر بن عبد العزیز کو لکھا کہ حجرات کو خرید کر مسجد کی توسیع کردی جائے ، اگرھجرات انکی ملکیت نہ تھے تو انہوں نے فروخت کیسے کردئے ؟ ذاد المعاد کی روایت کے مطابق ہر روز بعد نماز عصر ہر ایک بیوی کے پاس انکے گھروں میں تشریف لے جایا کرتے تھے ان کی ضرو ریا ت کا پوچھتے پھر جس بیوی کی باری ہوتی اس کے ہاں رات قیام فرماتے نبیﷺ کی وراثرت صدقہ تھی لیکن حجرات میں کسی قسم کا دعوی دیکھنے میں نہیں آیا ایک اور نکتہ ذہن میں آیاتا ہے سورہ احزاب کے مطابق جب نے اپنے نان و نفقہ میں اضافہ کا مطالبہ تو انہیں کہا گیا کہ اگر اس سے زیادہ کی ضرورت ہے تو آئو تمہیں کچھ لے دے کر فارغ کردیں یعنی جو ملتا تھا اس سے زیادہ کا مطالبہ کیا جارہا تھا لیکن یہ مقصد تو ازواج مطہرات کی زندگیوں کا نہ تھا،بلکہ انہیں تو ایک خاص مقصد کے لئے بیت نبوی ﷺ کی جمع کیا گیا تھا روایات میں آتا ہے کہ نبیﷺ ہر سال ہر بیوی کو ایک خاص مقدار میں کھجور اور جو دیا کرتے تھے ہر ایک بیوی کا ایک خاص حصہ مقرر تھا ہجر ت سے پہلے تو مال خدیجہ کام آتا رہا بعد از ہجرت تحائف و غنائم کا سلسلہ شروع ہوگیا پھر ازواج مطہرات میں کئی ایک امراء و روء سا کی بیٹیاں تھیں انکی مالی حالت کافی مضبوط تھی لیکن فیضان نبوت ﷺ کے سامنے دنیا کی ہر حقیقت ماند پڑ گئی تھی اور دنیا کی بے حقیقتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو بھی آیا فوراََ تقسیم کردیا حتی کہ شام کی افطاری کے لئے بھی کچھ نہ بچتا تھا ہر ایک زوجہ کے حالات میں سخاوت کے عنوان سے اس کی بہت دلیلیں اسی کتاب میں موجود ہیں۔ایک چار پائی کا ذکر کتاب ترکۃ النبیﷺ میں موجود ہے جس پر آنحضرت آرام فرمایا کرتے تھے جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لائے ابوایوب سے فرمایا ۔اے ابوایوب! یہ چار پائی کتنی بہتر ہے جب یہ بات اسعد کے پاس پہنچی تو تو انہوں نے ایک چار پائی بھیجی جو بان سے بُنی ہوئی تھی یہ چار پائی آپﷺ کو ہبہ کردی آپ وفات تک اس چار پائی پر آرام فرماتے رہے۔ اسی چار پائی پر آپﷺ کا جنازہ لوگوں نے پڑھا تھا ۔پھر لوگوں نے بطور تبریک اسے اپنے مردوں کیلئے مانگنا شروع کردی ابوبکر و عمر نے ایسا ہی کیا ۔کیونکہ اس امر سے برکت مطلوب تھی [ترکۃ النبیﷺ ۱/۱۰۵از حماد بن اسحق بغدادی مجموعہ الفتاویٰ ابن تیمیہ ص۳۹۵ج۴]میں اس بارہ میں بحث کی گئی ہے کہ انبیاء کی بیویاں غیر انبیاء کی بیویوں سے افضل ہیں اگر کوئی اس کے خلاف کہے تو وہ قران و سنت اور اجماع امت کا مخالف ہے یہ دلائل اس کی بات کو رد کرتے ہیںکیونکہ جنت میں ہر بیوی اپنے خاوند کے ساتھ ہوگی لامحالہ طور پر انبیاء کی ازواج جنت میں انبیاء کے ساتھ ہونگی اور جنت میں انبیاء کے مقام کو کوئی بھی نہیں پہنچ سکتا بیشک الاسلام نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ عائشہ کی فضیلت عورتوں میں ایسی ہے جیسے کھانوں میںثرید[ابن حجر نیفتح الباری المناقب میں اس پر بحث کی ہے رقم بخاری۳۴۹۱]