
دو رکعت نما عید الفطر
کھَدِیاں سیویاں لتھا فکر
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
ہمارے بچپن میں گائوں کی مسجد میں ایک مولوی صاحب تھے۔نام ان کا مولوی مختار تھا۔طویل العمر ہوئے۔یہ مولوی صاحب بڑے متحرک اور فعال تھے۔ بچپن تھا،ہمیں زیادہ ہوش نہیں ،لیکن تعلیم کا سلسلہ بستی میں ان کی وساطت سے چل نکلاتھا۔اِن دنوں گائوں میں بجلی نہ تھی۔سب

لوگ دیئے ،لالٹین یا اسی قبیل کی اشیاء سے اپنے گھروں کو روشن کرتے تھے۔
ان مولوی صاحب نے مسجد میں سب سے پہلے بجلی کا کنکشن لگوایا ،یوں ہماری بستی ایک نئی دنیا میں داخل ہوئی۔ اس وقت سو واٹ کا بلب اتناروشن دکھائی دیتا تھا کہ گویا رات کے وقت سورج نکل آیا ہو۔جیسے جیسے جدید سہولیات میسر آرہی ہیں قدرت کی طرف سے عطیہ کردہ قوتیں اپنا کام چھوڑتی جارہی ہیں۔خالی آنکھ سے رات وقت دیکھا جاسکتا تھا۔دور تک نظر کام کرتی تھی۔اس وقت کے دیہاتی لوگ میری بات کی تصدیق کریں گے۔
اس کے بعد مسجد کے قریب والے گھر میں بجلی کا کنکشن لگا۔پھر جلد بدیر یہ کنکشن اتنے بڑھے کی رگ جاں بن گئے۔آج بجلی کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔یہ مولوی صاحب واپڈا والوں

کے پیچھے سائیکل پر سوار ہوکر بھاگا کرتے تھے۔
اس وقت واپڈا بھی اتنا ترقی یا فتہ نہ تھا۔واپڈا ترلہ پالیسی پر عمل پیرا تھا۔مقامی لوگوں کو بجلی کنکشن دینے کے لئے راغب کیاجاتا تھا۔سہولیات دی جاتی تھیں۔قائل کرنے کے لئے میڈیا جوکہ ریڈیو اور اخبارات تھے۔ٹی وی نہ ہونے کے برابر تھا۔آج بھی وہ اشتیارات کہیں دیکھنے کو ملیں تو اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس نشہ کا عادی کیسے بنایا گیا ہے؟
۔مولوی مختار صاحب بچوں کو مسجد میں قران کری پڑھاتے ۔مسجد کے تمام امور سرانجام دیتے ۔نکاح۔عید شب برات۔ساری مذہبی رسومات پوری یکسوئی کے ساتھ ادا فرماتے۔
رمضان المبارک کی تراویح ۔الم تر سے ہوا کرتی تھیں۔ چارچار رکعتوں کی نیت باندھا کرتے تھے
عید الفطر کے دن وہ نماز عید پڑھاتے اور خطبہ کے آخر میں کہا کرتے تھے۔کہ اب تم لوگ بھول نہ جانا کہ نمازیں پڑھا کرتے تھے۔رمضان گزراہے۔نمازیں معاف نہیں ہوئیں۔کہیں ایسا نہ ہو۔
دو رکعت نماز عید الفطر
کھدیاں سیویاں لتھا فکر۔
کہ نماز عید کے بعد کہیں تمام ذمہ داریوں اور عبادات سے منہ نہ پھیر جانا۔
آج عید کا دوسرا دن ہے ۔مسجد میں نمازیوں کی تعداد دیکھ کر مولوی صاحب کا فرمان یا د آیا ۔کہ لوگوں نے تو واقعی تمام افکار سےجان چھڑالی ہے۔اب نماز اور دیگر عبادات سے بے فکر ہوگئے ہیں۔حالانکہ اوقات رمضان گزرے ہیں نماز اور دیگر حقوق تو اپنی جگہ پر برقرارہیں۔