میوات کی وہ پنچایت جس سے تبلیغی جماعت کا آغآ زہوا۔ میوات کی وہ پنچایت جس سے تبلیغی جماعت کا آغآ زہوا۔ حکیم قاری محمد یونس شاہد میو چونکہ مولانا محمد الیاس سے میوات کے لوگوں کو گہرا تعلق تھا، اس لئے مولانا کی صدارت میں 2/ اگست 1934ء کو قصبہ نوح میں ایک پنچایت کی گئی، جس میں میوات کے علاقے ،چودھری، میاں جی، زیلدار، انعام دار، نمبردار ،صوبیدار ، منشی ۔سفید پوش اور دیگر سربرآوردہ لوگ جمع ہوئے۔ جن کی تعداد تقریبا 107 تھی ۔اس پنچایت میں سب سے پہلے اسلام کی اہمیت بیان کی گئی، پھر عہد کیا گیا کہ اسلام کے ارکان کی پورے طور سے پابندی کی جائے، دین کی اشاعت و دعوت کا کام اجتماعی طور سے کیا جائے، اس کام کے لیے پنچایتیں کی جائیں اور مندرجہ ذیل امور کی پابندی کا عہد کیا گیا عہد و پیمان۔۔۔ 1۔کلمہ کا صحیح یاد کرنا ۔ 2۔نماز کی پابندی 3۔تعلیم حاصل کرنا اور اس کی اشاعت 4۔اسلامی شکل و صورت 5۔اسلامی رسوم کا اختیار کرنا اور رسوم میں شرکیہ کامٹانا۔ 6۔عورتوں میں پردہ کی پابندی 7۔اسلامی طریقے سے نکاح کر نا۔ 8۔عورتوں میں اسلامی لباس کا رواج۔ 9۔اسلامی عقیدے سے ناہٹنا اور کسی غیر مذہب کو قبول نہ کرنا۔ 10۔باہمی حقوق کی نگہداشت و حفاظت ۔ 11۔ہر جلسے اور اجتماع میں ذمہ دار حضرات کا شریک ہونا۔ 12۔دینی تعلیم کے بغیر بچوں کو دنیوی تعلیم نہ دینا۔ 13۔دین کی تبلیغ کے لیے محنت اور کوشش کرنا۔ 14۔پاکی کا خیال رکھنا۔ 15۔ایک دوسرے کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا۔ ان امور کے علاوہ اس پنچایت نے یہ طے کیا گیا کہ تبلیغ صرف علما کا کام نہیں ہے، بلکہ سب مسلمانوں کا فریضہ ہے، اور ہم سب اس کو انجام دیں ،یہ ساری طے شدہ باتیں لکھی گئیں۔ پنچائت نامہ مرتب کیا گیا اور اس پر شوریٰ کے دستخط ہوئے(سوانح حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی صفحہ 141) تبلیغی جماعت کا آغاز ہوا دراصل اس پنچایت سے تبلیغی جماعت کا باقاعدہ آغاز ہوا، اور مندرجہ ذیل طریقہ کار وضع کیا گیا۔ 1۔اس دینی تحریک میں دین سیکھنے کا نبوی اور فطری طریقہ کار ضروری قرار دیا گیا ،ملت کے سارے طبقوں میں دینی دعوت کو عام کیا جائے اور سارے طبقوں کو اس کا حامل اور داعی بنانے کی کوشش کی جائے۔ 2۔دین کے لئے عملی جدوجہد کرنا، نقل و حرکت اور سعی و عمل کو فروغ دیا جائے۔ 3۔دین کے لئے تعلیم و تعلم اور خدمات و اشاعت کو مسلمانوں کی زندگی کا جزو قدر دیا گیا۔ 4۔دین کیلئے عارضی ترک وطن کو لازمی قرار دیا گیا یعنی ہر مسلمان دین سیکھنے اور سکھانے کے لیے اپنے مشاغل اور ماحول کو چند دن کے لیے چھوڑ کر دوسری جگہ جائے اور بہتر ماحول میں یکسوئی سے دین سیکھے۔ اس کے لیے چھ مندرجہ ذیل اصول ضروری قرار دیے گئے۔ بنیادی نکات۔ 1۔کلمہ کی تصحیح۔2۔نماز کی تصحیح۔3۔علم اور ذکر کی تحصیل۔4۔اکرام مسلم۔5۔تصحیح نیت۔6۔تفریغ وقت یعنی وقت فارغ کرنا۔ اس طریقہ کار اور اصولوں کے ساتھ حسب ذیل مطالبے رکھے گئے۔ 1۔ہر مہینے کچھ وقت میں اپنے ماحول میں ضروریات دین کلمہ نماز کی تبلیغ کی جائے اور باقاعدہ جماعت بنا کر ایک نظام کے تحت قرب و جوار میں گشت کیا جائے۔، 2،میواتی ہر مہینے میں تین دن کے لیے، پانچ کوس کے حدود کے اندر دیہات میں جائیں اور شہری لوگ شہروں اور قریب کی آبادیوں میں جاکر تبلیغ کریں ۔اس سلسلے میں گشت اور اجتماع کیا جائے اور دوسروں کو نکلنے پر آمادہ کیا جائے ۔ ۔3،کم سے کم چار مہینے یعنی تین چلے دین سیکھنے کی غرض سے اپنے گھر اور وطن سے نکلیں اور ان مراکز میں جائیں جہاں دین اور علم زیادہ ہے اس دعوتی سفر اور نقل و حرکت کے دنوں کا ایک مکمل نظام الاوقات مرتب کیا جائے جس کے تحت جماعتیں کام کریں ۔ ایک وقت میں گشت ایک وقت میں اجتماع ایک وقت میں ضروریات کا پورا کرنا اور یہ تمام کام تربیت اورتنظیم کے ساتھ ہونے چاہیں۔ اس طرح تبلیغی جماعت ایک چلتی پھرتی خانقاۃ، متحرک دینی مدرسہ اور ایک اخلاقی و دینی تربیت گاہ بن جاتی ہے (سوانح حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی صفحہ 143)
1947ءکی ہولناکی میں تبلیغی جماعت کا جاندار کردار
1947ءکی ہولناکی میں تبلیغی جماعت کا جاندار کردار 1947ءکی ہولناکی میں تبلیغی جماعت کا جاندار کردار حکیم المیوات۔ قاری محمد یونس شاہد میو تقسیم ہند( 15 اگست 1947 )کے بعد تبلیغی جماعت نے جس استقلال پامردی اور احتیاط سے اپنے کام کو جاری رکھا وہ قابل تحسین ہے جب ہندو ریاستوں میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور میواتی دہلی میں پناہ گزین ہوئے تو ان پناہ گزینوںمیں جماعت میں خاصا کام کیا، افتخار فریدی مراد آبادی کا بیان ہے (ملاحظہ ہو:سوانح مولانا محمد یوسف صفحہ 270 ) حضرت مولانا محمد یوسف کا یہ حال تھا کہ وہ پناہ گزینوں میں دوڑتے رہتے تھے ان کو اپنے تن بدن کا ہوش تک نہ تھا، پیروں میں چھالے پڑجاتے پیدل سوار جیسے بن پڑتا پہنچتے اور دربدر پھرتے اور ان کو جمع کرکے تقریریں کرتے ان کی ہمت بندھاتے ہیں ایمان وتوکل کا درس دیتےاور اس پوری مدت میں مولانا کو بھوک پیاس کا ذرا بھی ہوش نہیں رہتا”۔۔۔ اس طرح جب دہلی میں فسادات ہوئے تو جماعت نے نہایت بے جگری اور عزم و استقلال سے کام کیا کیونکہ مرکز نظام الدین اولیاء میں پناہ گزینوں کا اجتماع تھا لہٰذا مرکز فسادیوں کی نظر میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا کئی بار انہوں نے حملے کی تیاری کی مگر اللہ تعالی نے ہر مرتبہ مامون و محفوظ رکھا۔بعض اوقات و حالات ایسے پیدا ہوگئے کہ مخلصین تک نے مشورہ دیا کہ مرکز کو چھوڑ کر کسی محفوظ جگہ پر منتقل ہوجانا چاہیے مگر مولانا کے پائے استقلال میں لغزش نہ ہوئی اور انہوں نے کسی صورت میں مرکز چھوڑنا گوارا نہ کیا اگرچہ مشکلات اور پریشانیوں سے بھی دوچار ہونا پڑا ۔تاآنکہ کئی مرتبہ خانہ تلاشی کی بھی نوبت آئی مگر ان کے گھر میںعزم و استقلال کے سوا کوئی ہتھیار اور کوئی اسلحہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے اہم بات مشرقی پنجاب میں کام کا آغاز تھا ،مشرقی پنجاب سے مسلمان اُجڑ چکے تھے، مسجدیں اور خانقاہیں ویران ہوگئی تھیں کچھ مسلمان پہاڑوں میں چلے گئے تھے ان علاقوں میں مسلمانوں کا نام و نشان تک نہ تھا،نامساعد حالات میں تبلیغی جماعتیں سکھوں اور ہندوؤں کےمراکز میں پہنچیں اور موت کے منہ میں جا کر انہوں نے معجزانہ کارنامے انجام دیئے ۔ایک واقعہ ملاحظہ ہو (سوانح مولانا محمد یوسف دفعہ 295) خضر آباد میں پہلا پڑاؤ کیا، سکھوں نے اس عجیب و غریب جماعت کو دیکھا، حیرت میں پڑ گئے، مسلمان صورتیں دیکھ کر غیض و غضب میں آ گئے، دلوں کے زخم تازہ تھے، جس مسجد میں ہماری جماعت نے قیام کیا تھا، اس کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور شور ہنگامہ کرنے لگے کہ حملہ کی صورت پیدا ہو گئی تھی اس تشویشناک صورتحال کو دیکھ کر خدا کے نحیف و نزار بندے اس وقت خدا پر یقین و اعتماد کے پیکر بن گئے اور اپنی شہادت کے انتظار میں کھڑیاںگننے لگے، امیر جماعت نے خدا کا نام لے کر حملہ آوروں کو مخاطب کرکے تقریر کرنا شروع کر دیں، جماعت کے بقیہ لوگ صلوٰۃ الحاجہ پڑھ کر ذکرو دعا میں مشغول ہو گئے، خدا نے اپنے بے سروسامان بندوں کی دعا کو سن لیا، امیر جماعت کی تقریر جو حقیقت میں درد اثر میں ڈوبی ہوئی اور اخلاص وللٰہیت سے معمور تھی، سننے والوں کے دلوں میں گھر کرنے لگی،مقلب القلوب نے دلوں کو پلٹ دیا، جو آنکھیں سرخ اور خونین تھیں دیکھتے دیکھتے آنسوؤں سے تر ہو گئیں۔ بلند آوازیں خاموش ہوگئیں، اٹھتے ہوئے ہاتھ گر گئے، وہ لوگ جو مارو مارو کی صدائیں بلند کررہے تھے اپنی انہی کی زبانوں سے کہنے لگے۔ یہ ملا تو بہت ہی اچھی باتیں کرتے ہیں، واقعی ہمارے اندر حیوانیت آ گئی تھی، امیر جماعت نے آدھے گھنٹے تک بات کی، بات جو ختم ہوئی توایک لحیم و شحیم آدمی کھڑا ہوا، اور اس نے اعلان کیا کہ یہ لوگ دہلی سے آئے ہیں، آپس میں امن و صلح کی دعوت دیتے ہیں، ظلم و عداوت اور انسان کشی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، ہر شخص ان کی بات سنے، اگر کوئی ان کو تکلیف دے گا تو میں سب سے پہلے ان کے ساتھ مرنے کو تیار ہوں:”۔۔۔۔
مولانا محمد الیاسؒ بانی تبلیغی جماعت کے آخری لمحات
مولانا محمد الیاسؒ بانی تبلیغی جماعت کے آخری لمحات مجدد تبلیغ مولانا محمدالیاس کاندھلوی رحمہ اللہ میانہ قد، نحیف و نزار جسم، مگر نہایت چاق و چوبند، رنگ گندمی، ڈاڑھی گھنی، صورت سے تفکر ، چہرہ سے ریاضت و مجاہدہ،پیشانی سے عالمی ہمتی اور بلند نظری نمایاں، زبان میں کچھ لکنت لیکن آواز میں قوت اور جوش، مسلمانوں کی دینی و ایمانی پسماندگی پر پریشان حال، اُن کی دین سے دوری پر بے چین و مضطرب، بسا اوقات اسی فکر میں ماہئ بے آب کی طرح تڑپنا، پھڑکنا، آہیں بھرتے رہنا زندگی کا وظیفہ، راتوں کو اُٹھ کر گھبراہٹ میں بار بار پستر پر کروٹیں بدلنا اور فکر سے ٹہلتے رہنا اور دن میں دین کی محنت کے لیے مارے مارے پھرنا۔ ان شمائل و خصائص اور عادات و صفات کو اپنے ذہن میں تربیت دیں اور خیالات کی دُنیا میں جو شخصیت اُبھرے، اُس پر لکھ دیں: مولانا محمد الیاس کاندھلوی۔۔۔ مولانا محمدالیاس کاندھلوی رحمہ اللہ کی شخصیت، اُن کے صفات و کمالات، ان کی عزم و ہمت، دینی تڑپ و فکر اُمت اور زہد و تقوی کا صحیح معنی میں اندازہ تو اُنہیں لوگوں کو ہوگا جنہوں نے اس آفتاب علم و حکمت کو دیکھا ہوگا یا اُن کے انفاس قدسیہ کا بچشم خود ملاحظہ کیا ہوگا، تا ہم جن حضرات نے ان کی زبان سے جھڑنے والے علم و حکمت کے پھول جمع کرکے بعد والوں تک پہنچائے اور پھر مولانا رحمہ اللہ کے علم و عمل اور اصلاح امت کے جس جذبے نے آج پوری دنیا میں لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو اللہ، رسول، دین و مذہب اور قرآن و سنت سے وابستہ کیا اور جن کا اخلاص و لگن اور کڑھن و فکر دنیا بھر کے انسانوں کو بے چین کیے ہوئے ہے، اس سے اتنا اندازہ تو ضرور ہونا چاہیے کو مولانا کو اللہ تعالی نے دین کی دعوت و تبلیغ کے لیے ’’مجدد‘‘ بنایا تھا۔ مولانا محمد الیاسؒ بانی تبلیغی جماعت کے آخری لمحات از حکیم المیوات۔قاری محمد یونس شاہد میو زندگی کے آخری ایام بڑی نقاہت اور سخت بیماری میں گزارے تھے۔یہ ایسی حالت ہوتی ہے جس میں شریعت مطاہرہ بھی رخصت دیدیتی،اور احکام شریعت کی ادائی گی میں نرمی مل جاتی ہے ۔لیکن یہ عزیت و استقلال کا پہاڑ عزیت پر گامزن تھا۔ نماز وغیرہ کے لئے دو خادم آپ کو بستر سے اٹھاتے اور وہی بستر پر لٹاتے لیکن بعض اوقات آپ خود بیٹھ بھی نہیں سکتے لیکن اس حالت میں بھی سنن و نوافل تو بیٹھ کر پڑھتے مگر فرض نماز جماعت کے ساتھ کھڑے ہوکر ہی ادا فرماتے تھے، حالانکہ نماز ختم کر چکنے کے بعد خود اٹھنے کے قابل نہ ہوتے اور خادم ہی کمر اور بازوؤں میں ہاتھ ڈال کر اٹھاتے اور حجرے میں لے جاکر لٹا دیتے لیکن دعوت الی اللہ اور سعی و تبلیغ و اصلاح کا آپ کو جوجنون نماسودا ہے اس کا جوش و ولولہ اس نازک حالت میں ہمیشہ سے زیادہ دیکھا ،تنہا ہیں اور خاموش لیٹے ہیں تو اسی سوچ و بچار میں ہیں اور اگر کوئی پاس بیٹھا ہے تو دل کے پورے درد اور سینے کی پوری قوت کے ساتھ اس سلسلے میں اس سے مصروف خطاب ہیں ۔۔ اور پھر جب ان کو علالت اور بیماری کا احساس دلاکر اس سے باز رکھا جاتا تو فرماتے ( دیکھئے۔الفرقان)دعوت الی اللہ دین کی عمومی تعلیم و تربیت اور تبلیغ اصلاح کے جن نبوی طریق کے زندہ کرنے اور رواج دینے میں لگا ہوا ہوں، زندگی کے خطرے کی وجہ سے ان کے کاموں کو نہ کرنا میں کسی حال میں اپنے لیے جائز نہیں سمجھتا کیونکہ نماز میں قیام کی فرضیت کا علم و احساس تو امت میں عام طور سے الحمدللہ باقی ہے لیکن دعوت الی اللہ اور تبلیغ اسلام کی کوشش کے بعد فریضہ کو عام طور پر بھلا دیا گیا ہے حالانکہ یہ وہ فریضہ ہے کہ دین کے باقی تمام فرائض اور کیا شعائر کا قیام و بقا اسی پر موقوف ہے،اس لیے اس بارے میں میں اپنے لئے کوئی رخصت نہیں سمجھتا ۔ ہاں اگر ایک معتدبہ تعداد اس فریضہ کی واقعی اہمیت کا احساس کماحقہٗ کرنے لگے تو پھر میرے لیے بھی اس میں رخصت ہو جائے گی لیکن جب تک ایسی ایک جماعت پیدا نہیں ہو جاتی جو اس کا کام کی اہمیت کا پورا احساس اور اندازہ کرکے اس کے تقاضے کے لئے تیار ہو اس وقت تک میرے لیے جائز نہیں کہ خوف جان میں اس کام کو چھوڑ دو یا ملتوی کر دوں۔ مولانا محمد الیاس کا 21رجب 1363ھ/13 جولائی 1944ءبروز جمعرات صبح صادق کے وقت انتقال ہوا، اس داعی الی اللہ کے وصال پر مولانا منظور نعمانی لکھتے ہیں۔(الفرقان بریلی) اللہ کا وہ مخلص بندہ جوبیسویں برس سے اللہ کے راستے کی طرف دل کے پورے درد کے ساتھ دنیا کو بلارہا تھا۔چیخ رہا تھا، اور پکار رہا تھا۔بالخصوص آخری علالت میں گذشتہ چار پانچ مہینے سے تو جبکہ ہڈیوں میں شایدمغز بھی نہیں رہا تھا اس کی یہ دعوت اور چیخ و پکار اور بھی زیادہ بڑھ گئی تھی اور آخری ایام میں تو اس کا سارا وجود درد و دعوت ہی بن کر رہ گیا تھا۔ تاریخ۔11بروزپنجشبہ صبح صادق کے وقت اس دنیا سے رحلت کر کے اپنے اس مالک اورمولا کے پاس پہنچ گیا جس کی رضا کے راستے کی طرف دنیا بھر کو بلاتا تھا۔۔ نعمانی صاحب ایک اور موقع پر لکھتے ہیں۔(الفرقان شعبان) حضرت مولانا کے وصال سے بظاہر تو اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوا کہ کروڑوں مسلمانوں میں سے ایک مسلمان یا ہزاروں عالموںاور بزرگوں میں سے ایک بزرگ عالم اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔یہ سب کچھ اس دنیا میں روز ہی ہوتا رہتا ہے مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ اس دنیا میں اللہ کے بعض بندے ایسے بھی ہوتے ہیں ۔جن کا اکیلا وجود لاکھوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے اور وہ پتھروں کی کان میں لعل اور ہیرے ہوتے ہیں، بے شک حضرت رحمتہ اللہ علیہ بھی انہی رجال عظام میں سے تھے اور ایسوں کی موت و حیات روحانی دنیا میں بڑا تغیراورانقلاب عظیم ہے۔ آہ !جنہوں نے نہیں جانا ان کو کس
دیہات میں دائی کا کردار زچہ بچہ کی تندرستی کا راز Role of midwife in villages The secret of maternal and child health دور القابلة في القرى،سر صحة الأم والطفل
دیہات میں دائی کا کردار زچہ بچہ کی تندرستی کا راز Role of midwife in villages The secret of maternal and child health دور القابلة في القرى،سر صحة الأم والطفل حکیم قاری محمد یونس شاہد میو گاؤں کے رہنے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ دیہاتوں میں جس وقت طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں اس وقت بھی بچے پیدا ہوتے تھے، دیہات آباد تھے، گاؤں آباد تھے ، مائیں بھی تھی، بچے بھی تھے، ایک پورا معاشرہ تھا۔،دیہاتی معاشرے کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔گاؤں میں زچگی کے لئے مقامی دائی کی خدمات لی جاتی تھیں،دایا گری کا پیشہ خاندانوں میں موروثی طور پر چلاتا تھا۔۔چھوٹے دیہاتوں کی دائیاں یہ جانتی تھیں کہ فلاں کے اس وقت بچہ ہوگا،یہ خواتین اپنے ہنر میں اتنی ماہر ہوتی تھیں کہ کسی طبیب حکیم ڈاکٹر ہسپتال کی ضرورت محسوس نہ ہونے دیتے تھیں۔ وہ غذا بھی متعین کرتی تھیں،زچہ اور بچہ کی دیکھ بھال بھی کرتی تھیں،اور چھوٹے موٹے امراض کے بارے میں بھی معلومات رکھتی تھیں، خواتین اور بچوں کے لئے ان کے پاس کچھ ٹوٹکے ہوتے تھے جنہوں نے بے دریغ استعمال کراتے تھے،دائی ایک مجموعہ صفا ہوتی تھیں،وہ جہاں زندگی کے عمل کو آسان بنانے میں جاندار کردار ادا کتی تھیں،وہیںپر عورتوں کے امراض سے متعلقہ کچھ ادویات اور نسخہ جات بھی انہیں وراثت میں ملے ہوتے تھے۔۔یہ یہ ساےئاں بے دھڑک کام میں لایا کرتی تھیں۔ وہ کم وسائل میں زیادہ کام کرتی تھیں،رات ہو کہ دن ہو، بارش ہو آدھی ہو، ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہ رکھتے تھے ،جب کسی کو ضرورت پڑی ،دائی کے پاس گئے، دائی کو ساتھ لے آئے۔ دائی کم از کم دو چار ہفتے ز چہ کی ڈیوٹی بجالا تی تھی ۔زچہ کے استعمال شدہ کپڑے دھونے ،بچے کو نہلانا،آلودہ کپڑے دھونا،اور زچہ کے ہاتھ پاؤں دبانا، اس کا مساج کرنا ،اسکی ٹانگیں دبا نا، اس کے لیے بسااوقات کھانا تک تیار کرنا۔ جس طرح عرب معاشرے میں دائیوں کا خاص کردار تھا، اسی طرح برصغیر پاک و ہند میں یہ رواج اب تک موجود ہے، لیکن شہروں سے یہ رواج ختم ہوچکا ہے۔ زچہ کی جس انداز میں خدمت کی جاتی ،ان کا مساج کیا جاتا، ان کی کمردبانے اور دیگر اعضاء کو دبا کرراحت پہنچانے کی کوشش کی جاتی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ بچہ بھی تندرست رہتا تھا ،اور ماں بھی تندرست رہتی تھی۔ کمال یہ ہے کہ پانچ دس بچوں کے بعد عورت اس قابل ہوتی کہ گھریلو کام کاج، مال مویشی کی دیکھ بھال سب خود ہی کرنے لگ جاتی تھیں۔ وہ مقامی وسائل ہی سے ان تمام ضروریات کو پورا کرتی تھی جو آجکل ہاسپیٹل میں مہنگے داموں میسرہوتے ہیں۔وہ مخصوص ادویات جانتے تھے ،کھانا پکانے کا ہنر جانتی تھیں، انہیں پتہ تھا کہ چہ کے لیے کونسی چیز مناسب ہے ۔کونسی غیر مناسب ہے ۔اور بچے کو کس انداز میں تندرست رکھا جا سکتا ہے۔ دیہاتی عورتوں کے پیٹ نہ بڑھنے کی وجوہات اس وقت دیہات کی عورتوں کے پیٹ نہیں بڑھ کرتے تھے۔زچگی سے فراغت کے بعد مخصوص ایام تک انہیں مخصوص کھانے دیے جاتے ، اور راحت رسانی کے کے اسباب مہیا کیے جاتے ۔جب وہ اپنے ایام پورے کر لیتیں تو وہ اٹھ کھڑی ہوجاتی تھیں۔ نہ بچہ بیمار ،نہ ماں کی طبیعت خراب۔ چاروں طرف تندرستی ہوتی تھی، معاوضے میں ایک عدد جوڑا کپڑوں کا ۔تھوڑا بہت اناج ،اور حسب توفیق تھوڑے بہت پیسے ،اس خدمت کے بعد ایک حرکتیں تھی کہ جب ضرورت پڑے گی میں حاضر ہو جاؤں گی ۔کسی دوسری دائی کو بلانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس وقت جہاں کی عورتوں کے پیٹ نہیں پڑھا کر تے تھے۔سچا بالکل اسی انداز میں فٹ فاٹ ہو جاتی تھیں جیسےوہ زچگی کے عمل سے گزری ہی نہ ہوں۔ گھی دودھ اور دیگر خوردنی اشیاء گھروںمیں موجود ہوتی تھیں۔ پیٹ کی صفائی کے لیے گڑ کا کارڈھا بنا کر دیا جاتا تھا ۔آج ہم سے ان جدید ہسپتالوں میں ہونے والے علاج و اور ٹیسٹوں نے ہم سے دائی چھین لی ہے۔
مکتبہ علامہ خالد محمودؒ
مکتبہ علامہ خالد محمودؒ (فقیہ العصر ،محقق و مدقق،۔غزالئی دوراں۔مصنف نکتہ داں،کثیر التصانیف کی کتب یکجا لنک میں دستیاب ہیں۔اہل علم صاحبان ذوق کے لئے استفادہ کا سنہرا موقع) مکتبہ علامہ خالد محمودؒ حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ کے کتب کا مجموعہ تمام کتب کا مجموعی آرکائیو لنک https://archive.org/details/Maktaba-Allama-Khalid-Mahmood-ra الگ الگ کتب کے لنکس 1. علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ – مختصر سوانح (اردو) https://archive.org/…/Allama-Khalid-Mahmood-ra… 2. آثار التنزیل جلد 1 : https://archive.org/…/Makta…/Aasaar-al-Tanzeel-Vol-1.pdf جلد 2 : https://archive.org/…/Makta…/Aasaar-al-Tanzeel-Vol-2.pdf 3۔ آثار الحدیث جلد 1 : https://archive.org/…/Maktab…/Aasaar-al-Hadith-Vol-1.pdf جلد 2 : https://archive.org/…/Maktab…/Aasaar-al-Hadith-Vol-2.pdf 4۔ آثار التشریع جلد 1 : https://archive.org/…/Makta…/Aasaar-al-Tashree-Vol-1.pdf جلد 2 : https://archive.org/…/Makta…/Aasaar-al-Tashree-Vol-2.pdf 5۔ آثار الاحسان فی سیر السلوک والعرفان جلد 1 : https://archive.org/…/Maktaba…/Aasaar-al-Ihsan-Vol-1.pdf جلد 2 : https://archive.org/…/Maktaba…/Aasaar-al-Ihsan-Vol-2.pdf 6۔ درسِ قرآن آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد سلطنتِ مدینہ میں حکومت کیسے قائم ہوئی – درسِ قرآن کے تسلسل میں اس عظیم الشان موضوع پر خلافت کا بیان https://archive.org/…/Maktaba-Allama…/Dars-i-Quran.pdf 7۔ مختصر دورۂ تفسیرِ قرآن https://archive.org/…/Mukhtasar-Dora-i-Tafseer-i-Quran.pdf 8۔ مختصر لغات القرآن https://archive.org/…/Maktaba…/Lughat-al-Quran.pdf 9۔ صحیح بخاری کی آخری حدیث کا درس https://archive.org/…/Sahih-Bukhari-Ki-Akhiri-Hadith-Ka… 10. دوازدہ احادیث بارہ احادیثِ نبویہ کی قرآن مجید کی روشنی میں تعلیم و تفہیم https://archive.org/…/Maktaba…/Duazdah-Ahadith.pdf 11۔ خطباتِ خالد جلد 1 : https://archive.org/…/Maktab…/Khutbat-i-Khalid-Vol-1.pdf جلد 2 : https://archive.org/…/Maktab…/Khutbat-i-Khalid-Vol-2.pdf 12. عبقات سینکڑوں عنوانوں کے گرد گھومتی ہوئی ایک علمی ، تاریخی اور تحقیقی پیش کش https://archive.org/…/Maktaba-Allama-Khalid…/Abaqat.pdf 13. مطالعۂ بریلویت جلد 1 : https://archive.org/…/Mak…/Mutalia-i-Barelviat-Vol-1.pdf جلد 2 : https://archive.org/…/Mak…/Mutalia-i-Barelviat-Vol-2.pdf جلد 3 : https://archive.org/…/Mak…/Mutalia-i-Barelviat-Vol-3.pdf جلد 4 : https://archive.org/…/Mak…/Mutalia-i-Barelviat-Vol-4.pdf جلد 5 : https://archive.org/…/Mak…/Mutalia-i-Barelviat-Vol-5.pdf جلد 6 : https://archive.org/…/Mak…/Mutalia-i-Barelviat-Vol-6.pdf جلد 7 : https://archive.org/…/Mak…/Mutalia-i-Barelviat-Vol-7.pdf جلد 8 : https://archive.org/…/Mak…/Mutalia-i-Barelviat-Vol-8.pdf 14. مقامِ حیات المسمیٰ بہ مدارک الازکیاء فی حیاۃ الانبیاء علیہم السلام https://archive.org/…/Maktaba-Allama…/Maqam-i-Hayat.pdf 15. معیارِ صحابیت https://archive.org/…/Maktaba…/Miyar-i-Sahabiyyat.pdf 16۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم جلد 1 : https://archive.org/…/Mak…/Khulafa-i-Rashideen-Vol-1.pdf جلد 2 : https://archive.org/…/Mak…/Khulafa-i-Rashideen-Vol-2.pdf 17. شجرۂ مودت صحابہؓ و اہلِ بیتؓ https://archive.org/…/Maktaba…/Shajara-i-Mawaddat.pdf 18. عقیدۃ الامت فی معنی ختم النبوت https://archive.org/…/Aqeedah-al-Ummat-Fi-Maani-Khatam… 19. براہِ راست قادیانیت پر غور کرنے کا آسان راستہ https://archive.org/…/Qadianiat-Par-Ghoar-Karnay-Ka… 20۔ مرزا غلام احمد قادیانی – اپنی عادات ، پیش گوئیوں اور کردار کے آئینہ میں https://archive.org/…/Mirza-Ghulam-Ahmad-Qadiani.pdf 21۔ فتنۂ قادیانیت سے فیصلہ کن مناظرے https://archive.org/…/Fitna-i-Qadianiat-Say-Faisala-Kun… 22. مناظرے اور مباحثے https://archive.org/…/Makta…/Munazaray-Aur-Mubahasay.pdf 23. تقیہ نہ کیجئے مناظرہ اورینٹ ہال ڈربن ساؤتھ افریقہ کی مکمل کاروائی https://archive.org/…/Maktaba…/Taqiyya-Na-Kijiyai.pdf 24. شاہ اسمٰعیل محدث دہلویؒ https://archive.org/…/Shah-Ismail-Muhaddith-Dehlvi-ra.pdf 25. تجلیاتِ آفتاب جلد 1 : https://archive.org/…/Makt…/Tajalliyat-i-Aftab-Vol-1.pdf 26. برأۃ حضرت تھانویؒ https://archive.org/…/Makta…/Baraat-Hazrat-Thanvi-ra.pdf 27. پی ایچ ڈی مقالہ (انگلش) الموسوم بہ A Comparison Of The Attitudes of al-Bukhari And al-Kulayni Along With Their Co-Reigionists Regarding The Basic Doctrines Of Islam https://archive.org/…/Allama-Khalid-Mahmood-Ph.D-Thesis…
حاملہ خواتین کادائیں کروٹ سونا
حاملہ خواتین کادائیں کروٹ سونا يمكن للمرأة الحامل النوم على المنشعب Pregnant women can sleep on the crotch حاملہ خواتین کادائیں کروٹ سونا بچہ کی صحت پر مفیداثرات۔اور نقصان سے بچائو حکیم المیوات،قاری محمد یونس شاہد میو روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرماتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے بستر پر جائے تو اپنے تہبند کے داخلی پلو سے بستر جھاڑ دے ، اسے کیا خبر کہ بستر پر کیا چیز پڑی ہے ، پھر کہے یا رب تیرے نام پر پہلو رکھ رہا ہوں اور تیرے نام پر ہی اٹھاؤں گا ، اگر آج میری جان تو قبض کرے تو اس پر رحم فرمانا ، اور اگر واپس بھیجے تو اس کی اس ہی سے حفاظت فرمانا جس سے اپنے نیک بندوں کی حفاظت فرماتا ہے ، اور ایک روایت میں یوں ہے کہ پھر اپنی داہنی کروٹ پر لیٹ جائے پھر کہے بِأِسْمِکَ “مسلم بخاری” ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ جس طرح کھانے پینے اور چلنے پھرنے کے انسانی صحت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں ٹھیک اسی طرح رات کو سونے کا انداز بھی صحت کے لئے اچھا اور برا ہوسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق پرسکون نیند انسانی صحت اور دماغ کی نشونما کے لئے بہت ضروری ہے لیکن رات کو بستر پر سونے کا انداز بھی انسانی زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے اور خاص طور پر ایسے افراد جو بستر پر دائیں کروٹ سونے کے عادی ہوتے ہیں وہ اپنی اس عادت سے صحت کے لئے 4 فوائد حاصل کرسکتے ہیں۔ حاملہ خواتین کے لئے مفید: ماہرین صحت حاملہ خواتین کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ دائیں کروٹ پر سونے کو معمول بنائیں تاکہ جسم میں خون کے دورانیے کو بہتر بنانے کے ساتھ جسم کے پچھلے حصے پر وزن پڑ سکے جو کہ حاملہ خواتین کے لئے انتہائی مفید ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ حاملہ خواتین دائیں کروٹ سوتے وقت اپنی ٹانگوں کو موڑ لیں اور ان کے درمیان تکیا رکھ لیں جو پرسکون نیند کے لئے مفید ہے۔ خراٹوں سے نجات کا ذریعہ : بائیں کروٹ سونا یا سیدھا سونے سے بعض اوقات نیند کے دوران سانس میں مشکلات پیش آتی ہیں جو خراٹوں کا باعث بنتا ہے اس لئے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ دائیں کروٹ سونا خراٹوں میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ سائنسدانوں نے حاملہ خواتین کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ بچے کی پیدائش سے تین مہینہ قبل سے کروٹ سوئیں تاکہ مردہ بچے کی پیدائش سے بچا جا سکے۔ تحقیقی نتیجہ ایک ہزار خواتین پر کی جانے والی ایک تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ اگر خواتین حمل کی آخری سہ ماہی میں پیٹھ کے بل سوتی ہیں تو بچے کی موت کا خطرہ دگنا ہو جاتا ہے۔ اس تحقیق میں 291 ایسی خواتین کے معاملے کی جانچ کی گئی ہے جن کے ہاں مردہ بچے پیدا ہوئے تھے جبکہ تحقیق میں 735 ان خواتین کے معاملے کی بھی جانچ کی گئی تھی جنھیں زندہ بچے پیدا ہوئے۔ محققین کا کہنا ہے کہ خواتین جس انداز میں سوتی ہیں وہ بہت اہم ہے اور جب وہ بیدار ہوتی ہیں اور یہ دیکھتی ہیں کہ وہ اپنی پیٹھ کے بل سو رہی تھیں تو انھیں اس بات سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ خیال رہے کہ برطانیہ میں ہر سوا دو سو بچے کی ولادت میں ایک مردہ بچہ پیدا ہوتا ہے جبکہ اس تحقیق کے مصنفوں کا کہنا ہے کہ اگر خواتین کروٹ سوئیں تو سال میں کم از کم 130 بچوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ برٹش جرنل آف آبسٹیٹرکس اینڈ گائیناکلوجی (بیجوگ) میں شائع تحقیق اپنے قسم کی اب تک کی سب سے وسیع تحقیق ہے اور یہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں کی جانے والی تحقیق کے نتائج کی تصدیق کرتی ہے۔ اس تحقیق کے سربراہ اور سینٹ میری ہسپتال میں ٹومی سٹل برتھ ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر الیگزینڈر ہیزیل خواتین کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ حمل کی تیسری سہ ماہی میں وہ کبھی بھی سوئیں تو کروٹ ہی سوئیں۔ اوہ کہتے ہیں:میں یہ نہیں چاہتا کہ جب حاملہ خواتین بیدار ہوں اور دیکھیں کہ وہ پیٹھ کے بل سو رہی ہیں تو کہیں وہ ڈر نہ جائیں کہ انھوں نے اپنے بچے کو نقصان تو نہیں پہنچا دیا۔’ ان کے مطابق جس پوزیشن میں آپ سونے جاتے ہیں وہ زیادہ اہم ہے نہ کہ جس پوزیشن میں آپ بیدار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ کروٹ سونے سے برطانیہ میں ہر سال کم از کم 130 بچوں کو بچایا جا سکتا ہے انھوں نے کہا: ‘آپ جس پوزیشن میں بیدار ہوئے ہیں اس کے متعلق آپ کچھ نہیں کرسکتے لیکن جس پوزیشن میں آپ سونے جا رہے ہیں اس کے بارے میں آپ کچھ کر سکتے ہیں۔’ مردہ بچے کی پیدائش کے خطرے کے اضافے کے بارے میں وثوق کے ساتھ تو کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن بہت سے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ جب کوئی حاملہ خاتون پیٹھ کے بل سوتی ہے تو بچہ اور بچہ دانی دونوں کا وزن خون کی نلی پر اثر ڈالتا ہے جس سے بچے میں آکسیجن کی کمی ہو سکتی ہے۔ بہرحال بیجوگ کے ایڈوارڈ مورس نے اس تحقیق کے نتائج کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا: ‘یہ ایک اہم مطالعہ ہے جو مزید شواہد فراہم کرتا ہے کہ حاملہ خواتین کے سونے کی پوزیش بچے کی پیدائش پر اثر انداز ہوتی ہے جسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔’
Salt is an antidote to scorpion venom
Salt is an antidote to scorpion venom نمک بچھو کے زہر کا تریاق الملح هو ترياق لسم العقرب الملح هو ترياق لسم العقرب حکیم المیوات،قاری محمد یونس شاہد میو۔ ۔۔۔ حضرت ابی (رض) حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رات نماز پڑھ رہے تھے اس دوران آپ نے اپنا دست مبارک زمین پر رکھا تو ایک بچھو نے آپ کو ڈنک مارا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو پکڑا اور اس کو مار دیا پس جب آپ پھرے (فارغ ہوئے، ظاہر یہ ہے کہ آپ نے دوران صلوۃ اس کو مارا (از مترجم) تو فرمایا اللہ بچھو پر لعنت کرے کہ بغیر ڈنک مارے نہیں چھوڑتا کسی نمازی کو اور نہ غیر نمازی کو اور نہیں چھوڑتا کسی نبی کو اور نہ غیر نبی کو پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانی اور نمک منگوایا اور ان دونوں کو ایک برتن میں ڈالا پھر اس کو اپنی انگشت پر ڈالتے رہے جہاں اس بچھو نے آپ کو ڈنگ مارا تھا اور اس پر ہاتھ پھیرتے رہے اور معوذتین سے اپنی انگشت کا تعوذ کرتے رہے اور ایک روایت میں ہے اور قل ھو اللہ احمد اور معوذتین پڑھتے رہے ۔ (ابن ابی شیبۃ البیہقی فی شعب الایمان، مستغفری فی الدعوات ابو نعیم فی الطب) کنزالعمال:جلد پنجم:حدیث نمبر 3908 ( ۔۔۔۔۔۔۔۔ بچھو کاٹے کا مجرب نسخہ/ بچھو کے ڈنگ مارنے کی جگہ مشکل سے ہی ملتی ہے،خصوصا رات کے وقت اندھیرے میں بہت مشکل پیش آتی ہے۔دوا جب تک عین دنگ کی جگہ پر نہ لگے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بچھو کے علاج کے لئے نمک زیادہ پانی میں ملاکر استعمال کیا۔اور دھار باندھ کر ڈنگ کی جگہ پر بہایا(کنز العمال) گھر کا حکیم نامی کتاب کے مصنف لکھتے ہیں۔ایک ایسی دوا لکھی لکھی جاتی ہے جو صرف آنکھوں میں ڈالنے سے ایک سیکنڈ میں زہر اتر جاتا ہے،لطف یہ کہ اس پر کچھ خرچ بھی نہیں ہوتا۔بناکر مفت تقسیم کیجئے اور ثواب و شہرت پائے۔ یہ نسخہ ٹھارہ سال ہوئے ایک سادھو نے بتایا تھا داتا دربار داتا دربار کیا گیا کبھی خطا نہیں کیا آج تک تو سینے میں بند تھا مگر اب اس سے بھی درج ذیل کرتا ہوں نمک لاہوری ایک تولہ پانی صاف پانچ تولہ ایک شیشی میں ڈال کر ہلکا کر لیں بس دوائی تیار ہے،جس کو بچھو کاٹے اس کی آنکھوں میں سلائی سے لگائئں،جس قدر زہر چڑھا ہوگا اور اترنا شروع ہو جائے گا اور چند منٹوں میں ڈنک کے مقام پر بھی درد نہ رہے گا (گھر کا دواخانہ صفحہ نمبر 11) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مستدرک ابی شیبہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک بچھو نے آپ کو ڈنک مارا آپ ﷺ نے نماز سے فارغ ہوکر پانی میں نمک گھولا اور اپنی انگلی مبارک اس میں ڈال دی اور قرآن مجید بچھو کے کاٹنے پر درد سے آرام کیلئے شرطیہ گھریلو علاج کے تینوں آخری قل پڑھنے شروع کر دیئے یہاں تک کہ درد ختم ہو گیا۔ جہاں بچھو کاٹے اس سے اوپر فوراً کپڑا یا رسی کس کر باندھ لے گرم پانی میں نمک ملاکر دھوئیں۔ فوراً ارام ہوگا۔ موسم گرما کے شروع ہوتے ہی میں بچھو بھی اپنی سرگرمیاں شروع کر دیتا ہے۔ اور اچھے بھلے ہنستے مسکراتے لوگوں کو دم بھر میں رلا رلا کر تماشہ دیکھتا رہتا ہے۔ واقعی جہاں بچھو ڈنک مارتا ہے وہاں پر آگ لگ جاتی ہے اور ایسا درد ہوتا ہے کہ بیان سے باہر ہے اللہ کی پناہ، اس علاج سے آنا فانا آرام ہوجاتا ہے۔ علاج: کلورل ہائیڈریٹ اور مشک کافور ہم وزن لے کر ایک شیشی میں ڈالیں۔ اور لگادیں۔ شکر یا شہد کا گاڑھا گاڑھا لیپ کر دیں۔ انشاء اللہ فوراً آرام ہوگا بچھو کے ڈنک کانٹے پر مکھی مار کر لیپ دیں۔ فوراً آرام ہوگا ہلدی کو کوٹ کر بجائے تمباکو کے حقہ کے چلم میں رکھ کر پلائیں شرطیہ آرام ہوگا نشادر کو ہم وزن عرق پیاز میں حل کر کے ڈنک پر لگائیں فوراً آرام ہوگا۔ گدھے پر الٹا سوار ہونا اور اس کے کان میں کہنا کہ مجھے بچھو نے کاٹ کھایا ہے۔ درد فوراً ختم ہوگا۔ نمک پانی میں حل کر کے جس طرف کاٹا ہو اس کے مخالف سمت کے کان میں دو بوند ٹپکائیں۔ عجیب چٹکلہ ہے۔ نیلا کپڑا حقہ میں رکھ کر بطور تمباکو کے پلائیں۔ انشاء اللہ فوراً درد ختم ہوگا۔ سانپ جس کو کانٹے یا بچھو کا نٹے یا کو ئی ز ہریلی چیز کا ٹ لے اور اس کی بچنے کی امید نہ ہو اس کا آخری علاج یہ ہے۔ انسان کا پا خا نہ اور نشادر برابر وزن ملا کر صعود کیا جائے۔ یہ ایک چھپا راز ہے سینے کا راز ہے۔ ہر قسم کے زہر کیلئے چار گرام تک کھلائیں۔ ایک شخص کو کئی جگہ سے بچھو نے ڈس لیا فوراً جوشاندہ بیج کڑتمہ سات ماشہ پلایا گیا زپر بالکل دور ہوگئی ڈنک کی جگہ پر بھی مل دیں۔ بہت مفید ہے۔ بچھو کو بھون کر کھلانے سے فائدہ ہوتا ہے ۔ دردختم ہوگا۔ مولیاں جس قدر چاہیں لے لیں۔ اور ان کو کسی کھرل وغیرہ میں کوٹ کر کپڑے سے چھان کر پانی نکال کر بوتلیں بھر رکھیں۔ بس دوا تیار ہے۔ بوقت ضرورت تھوڑی سی اوپر یہ دوائی لگادیں۔ ایک دو دن لگانے سے ٹھنڈک پڑجائے گی۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر مولی کے پانی سے ہاتھوں کو تر کر کے بچھو بلکہ سانپ کوبھی پکڑ لیا جائے تو اس کی کاٹنے کی قوت زائل ہوجاتی ہے یعنی وہ کاٹ ہی نہیں سکتا۔ واللہ اعلم۔ ایک حکیم فرماتے ہیں اگر بچھو پر مولی کا پانی ڈالا جائے تو وہ فوراً مر جاتاہے۔ جو لوگ مولیاں زیادہ کھاتے ہیں ان کو بچھو نہیں کاٹتا ۔ سانپ، بچھو، بھڑ یا اور کوئی بھی زہریلی چیز کاٹ جائے تو جائے درد پر مولی کے باریک شدہ بیج پیس کر پانی آمیز کر کے لیپ کر دیں۔ فوراً زہر دور ہوگا۔ اس کے علاوہ مریض کو تین ماشہ
قانون قدرت Law of nature قانون الطبيعة
قانون قدرت Law of nature قانون الطبيعة قانون قدرت Law of nature قانون الطبيعة از حکیم قاری محمد یونس شاہد میو اس کائنات کا ابدی اصول ہے صرف فائدہ مند چیزں ہی زندہ رہتی ہیںغیر ضروری و غیر مفید فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔اس لئےپیراہن کہن کو اتار کر لباس جدید کو زیب تن کرنا ہی علامت حیات ہے۔ ہم کبوتر کی طرح کتنی ہی آنکھیں بند کریں ۔وقت کی بلی کو کوئی فرق نہیں پڑا وہ ضرورت پڑنے پر جھپٹنے سے گریز نہ کرے گی۔اس لئے وقت کی بلی کے سامنے آنکھیں موندھنے کے بجائے اسے سے بچنے کی تدابیر سوچنا اور زندگی کی نت نئی راہیں تلاشنا ضروری ہیں۔ جادو جنات۔ہمزاد و موکلات۔دم جھاڑے چلے۔وظائف۔انسانی زندگی کے وہ تصورات ہیں جنہوں نے بلا تفریق دین و مذہب۔قوم و ملت ہر ایک کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ان کی تائید و تردید قبل از تاریخ سے جاری و ساری ہے۔تاہنوز یہ سلسلہ پوری توانائی سے قائم ہے ، صدیوں پہلے لوگوں کے ذہنو ںمیں اس بارہ میں جو سوچ تھی وہ کسی ترہیب و ترغیب کے نتیجہ میں کم نہ ہوئی۔اس کے چہرے پر زندگی کی رعنائی روز بروزچمک دھمک پیدا کررہی ہے۔جن چیزوں کو فرسودہ کہتے ہیںاور صدیوں پرانی رویات کو اعلی الاعلان تسلیم کرنے میں تامل کرتے ہیں، نجی زندگی یا ضرورت کے وقت انہیں صحیفہ آسمانی کی حیثیت سے اپناتے ہیں۔مجبوری یا انسانی ضرورتیں انسان کو کچھ بھی کرنے پر آمادہ کردیتی ہیں۔ جادو جنات یا ان دیکھی چیزیں اہمیت رکھتی ہیں۔لاکھوں لوگ اس کے قائل ہیں،کسی نہ کسی انداز میں یہ باتیں اس کی زندگی میں ارتعاش کا سبب بنتی ہیں۔جادو و جنات تسلیم کرنے والے جھونپڑیوں کے باشندے ہی نہیں بلکہ اعلی تعلیم یافتہ بھی ہیں۔ مذہب کے رکھوالے اس کی آبیاری پر خلوص انداز میں کرتے ہیں۔نفسیاتی طورپر یہ لوگ ہر اس چیز کو جواز فراہم کرتے ہیں جو انہیں کسی نہ کسی انداز میں فائدہ پہنچائے۔اس کے لئے شرعی دلیل نہ بھی ملے تو تاویلات کی راہ موجود ہے۔
توہمات کی دنیا۔ A world of superstitions. عالم من الخرافات.
توہمات کی دنیا۔ A world of superstitions. عالم من الخرافات. توہمات کی دنیا۔ A world of superstitions. عالم من الخرافات . حکیم قاری محمد یونس شاہد میو دنیا میں کوئی میدان خالی نہیں ہوتا۔اسے بھرنا ہی ہوتا ہے حقیقی انداز اسے پر کرنا بہت محبت طلب اور دشوار کام ہے جب کہ غیر حقیقی انداز میں اسے کوئی بھی پر کرسکتا ہے ،جب تحقیق و تدقیق کی جگہ بے جا عقیدت اور حقائق کی جگہ مفروضات لے لیں تو وہاں جہالت کے سوا کسی کے لئے کونسی جگہ باقی رہ جاتی ہے؟ کسی نے کیا خوب کہا ہے”جہاں جہالت ہی اصل اعزاز مانا جائے۔وہاں حماقت ہی دانشمندی ہے”جہاں حقائق ہوتے ہیں توہمات وہاں سے کوچ کرجاتے ہیں ۔ آج جو لوگ تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں،بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اگر انہیں کوئی آفت آگھیرے تو ان کی دانائی و حکمت کافور ہوجاتی ہے ،یہ لوگ بھی توہمات کے رو میں بہتے چلے جاتے ہیں،حقیقت ہویا جہالت اسے پروان چڑھایا جاتا ہے،اسے اس طریقے سے سہارا دیا جاتا ہے کہ حقائق مسخ ہوکر رہ جاتے ہیں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب حقیقت اور جھوٹ میں تمیز باقی نہیں رہ جاتی۔ توہمات کی بھرمار زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں توہمات کی آمیزش نہ ہو،بسااوقات توہمات حقائق سے فائق تر ہوجاتے ہیں،انہیں اس انداز میں پرکشش طریقے سے پیش کیا جاتا ہے کہ حقائق اپنی اہمیت کھودیتے ہیں ،یہ بدلائو اس قدر آہستہ ہوتا ہے کہ احساس تک نہیں ہوتا کہ حقائق کی جگہ توہمات نے لے لی ہے۔علاج و معالجہ کے سلسلہ میں جب ایسی صورت حال سامنے ہوکہ بیماری یا تکلیف کی کوئی خاص توجیح نہ کی جاسکتی ہو اس وقت توہمات کو آگے بڑھنے اور حقائق کی جگہ لینے سے کوئی نہیں روک سکتا۔اتفاقاََ اگر توہم نے اپنا کام کردیا اس کی بعد حقیقت کا واپس آنا بہت مشکل ہوتا ہے۔کیونکہ حقائق کو دلائل شواہد کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ توہم کو کسی حجت بازی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ حقائق اور توہمات جہاں حقیقت ہو وہاں توہمات کی گنجائش ہوتی ہے لیکن جہاں توہمات کے فولادی پنجے گڑے ہوں وہاں حقائق کا آنا بہت مشکل ہوتا ہے۔توہمات عقیدت کی صورت میں ہوں یامعاشی و معاشرتی ۔ نجی زندگی میں ہوں یا اجتماعی زندگی میں ۔توہمات آسانی سے گھس تو آتے ہیں لیکن انہیں نکالنا بہت ہی دشوار ہوتا ہے۔جادو و جنات کے بارہ میں معلوم دنیا میں کوئی ایسا خطہ موجود نہیں جہاں توہمات نے انسانی ذہنوں کو نہ جکڑا ہو۔ان توہمات کی زد میں عوام ہی نہیں معالجین بھی آتے ہیں۔کیونکہ ہر آدمی دعویٰ کرتا ہے کہ بحیثیت معالج جو طریقہ شفاء اس کے پاس ہے دوسرے اس سے محروم ہیں۔اسی طرح عقیدت مند بھی خوب مرچ مصالحہ لگا کر بات آگے بڑھاتے ہیں ۔ جو باتیں کسی غیر عقیدت مند کے لئے توہمات ہوتی ہیں وہی باتیں عقیدت مند کے لئے عین حقائق ہوتے ہیں۔ خوف کی فضا تاریخ گواہ ہے کہ ہم ارد گرد کی دنیا سے ہمیشہ خوف ذدہ رہے ہیں،بیماریوں سے خوف ذدہ رہے ہیں اس کے غیر متوقع خطرات ہیں۔ہمیں اس قدر دہشت ذدہ رکھتے ہیں کہ ہم خوشی سے ہر اس شے کوقبول کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں جو ہمیں اس دہشت سے بچائے،یا اسے کم کرنے کا وعدہ کرے۔ اللَّهمّ أرنا الحقّ حقًّا، وارزقنا اتّباعه، وأرنا الباطل باطلاً، وارزقنا اجتنابه۔ذخيرة العقبى في شرح المجتبى (40/ 200)
اسلام اور توہم پرستی
اسلام اور توہم پرستی الإسلام والخرافات Islam and superstition اسلام اور توہم پرستی حکیم قاری محمد یونس شاہد میو سیدالمرسلین نبی الرحمتﷺ نے توہم پرستی اور غیر حقیقی باتوں کی نفی فرمائی ہے۔شگون لینے سے منع فرمایا ہے۔دیگر اقوام کی طرح عربوں میں بھی بہت سے تواہم پائے جاتے تھے ۔ کتب احادیث و تواریخ میں جابجا اس قسم کے واقعات ملتے ہیں کہ وہ لوگ قدم قدم پر شگون لیا کرتے تھے۔ کئی احادیث اس بارہ میں ملتی ہیں کہ بد شگونی کی شرعی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کتب معتبرہ میں موجود ہے کہ ’’بدشگونی ہوتی تو عورت،گھوڑے وغیرہ میں ہو تی(بخاری) اسی طرح کی حدیث یہ بھی ہے ، حضرت سعد بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ ہامہ کچھ نہیں ہے، عدوی کچھ نہیں ہے، شگون لینا کچھ حثییت نہیں رکھتا اور اگر کسی چیز میں بدشگونی ہوتی تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہوتی۔جامع الأحاديث (9/ 465)أخرجه الطيالسى (ص250 ، رقم 1821) ، والبخارى (3/1049 ، رقم 2703) لیکن اسلا م نے نفاست کو پسند فرمایا ،ناموزوں ناموں اور کلام کو بدلاہے۔ اچھے نام رکھنے، اچھی دعائیں دینے اورزبان سے اچھے کلمات ادا کرنے کی تلقین موجود ہے[مسلم ابو دائودالادب] حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا اور نہ بدشگونی کی کوئی حقیقت ہے البتہ فال یعنی اچھی بات اور عمدہ گفتگو مجھے پسند ہے۔ حسد ،کینہ، بغض دلوں میں کدورت سب سے منع کیا گیا ہے۔اسلام ایک سلامتی والاراستہ ہے، خیر خواہی اس کی بنیاد ہے۔تخریبی اعمال سے منع کیا گیا ہے، جو منفی سرگرمیوں میں حصہ لے اس سے برات اختیار فرمائی ہے، ایذاء رسانی ،برُی سوچ،تخریبی اعمال،سحر و جادو،کو ممنوع قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ وہ راستے ہیں جہاں خیر کم توقع کیا جاسکتی ہے ۔ اعلی جوہر ،خدمت انسانیت، احترامی جذبات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے ۔ ہر اس فعل کی قدر افزائی موجود ہے جس میں دین و دنیا میں سے کسی انداز میں بھلائی موجودہے ،معمولی معمولی بھلے کام پر بڑے بڑے اجر کی نوید سنائی ہے، ہر کسی کو اس کی حیثیت کے مطابق درجہ دیاہے ، تمام خام خیالیوں کی نفی کرتے ہوئے صرف عمل اور کوشش کو سراہا گیاہے ۔ واشگاف الفاظ میں اعلان کردیا کہ کسی کو بھی اس کی محنت سے زیادہ مرتبہ نہیں دیا جاسکتا۔جتنا عمل کروگے انتا اجر پالوگے( سورہ النجم)۔دنیا اور آخرت دونوں کو سعی اور عمل سے نتھی کردیاگیاہے ، اسلام کا لب لباب حضرت لاہوریؒ کی زبان سے یوں ادا ہوا’’رب کو عبادت سے۔رسول کو اطاعت سے ،مخلوق کو خدمت سے راضی کرلو‘‘ پورے اسلام پر عمل کرلوگے۔ان الفاظ کی سمندر سے زیادہ گہرائی ہے۔