عملیات میں حاضرات کی حقیقت اور اہمیت۔کلاس ستمبر2024،سبق4۔عملیات میں بے شمار لوگوں کی دلچسپی موجود ہے۔حاضرات کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں ۔مشرق و مغرب میں اس کے مختلف تصورات پائے جاتے ہیں۔ہمارا موضوع مقامی سطح پر کئے جانے والے عملیات ہیں۔لوگ ان کے توسط سے لوگ چوری معلوم کرنے ۔بھاگے ہوئے گمشدہ افراد کی معلومات حاصل کرنا۔بیماری کے بارہ میں معلومات کرنا۔وغیرہ۔یہ عملیات کتابوں بکثرت ملتے ہیں۔ان عملیات کو لوگوں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔اور انہیں آزمانے لگے۔آج بھی بے شمار لوگ ان کے حصؤل میں تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔سعد طبیہ کالج کی طرف سے جاری عملیاتی کلاسز میں بھی اس بارہ طلباء سولاات کرتے ہیں۔ اس ویڈیو میں ان حاضراتی اعمال کی حقیقت اور اہمیت بیان کی گئی ہے۔
مقدمہ بہاولپور:ایمان افروز تاریخ
مقدمہ بہاولپور:ایمان افروز تاریخناقل حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو 7 ستمبر 1974 ء کو غیر مسلم قرار دیا تھا ، لیکن اسلامی فلاحی ریاست بہاولپور نے تو 7 فروری 1935ء میں ہی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا تھا …… پڑھئے مقدمہ بہاولپور کی مختصر روداد ـ ریاست بہاولپور کی عدالت نے 1935ء میں ہی مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا تھا ـتحصیل احمد پور شرقیہ ریاست بہاولپور میں ایک شخص مسمی عبدالرزاق مرزائی ہو کر مرتد ہوگیا اس کی منکوحہ غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش نے سن بلوغ کو پہنچ کر 24جولائی 1926ء کو فسخ نکاح کا دعویٰ احمد پور شرقیہ کی مقامی عدالت میں دائر کردیا جو 1931ء تک ابتدائی مراحل طے کر کے پھر 1932ء میں ڈسٹرکٹ جج بہاول پور کی عدالت میں بغرض شرعی تحقیق واپس ہوا۔ آخر کار 7 فروری 1935ء کو فیصلہ بحق مدعیہ صادر ہوا۔ بہاولپور کی ریاست اور اس کے نواب بہاولپور ایک اسلامی ریاست تھی، اس کے والی نواب جناب صادق محمد خاں خامس عباسی مرحوم ایک سچے مسلمان اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ بہاولپور کے معروف بزرگ کے عقیدت مند تھے۔ خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ کے تمام خلفاء کو اس مقدمہ میں گہری دلچسپی تھی۔ اس وقت جامعہ عباسیہ بہاولپور کے شیخ الجامعہ مولانا غلا م محمد گھوٹوی مرحوم تھے جو حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کے ارادت مند تھے۔ لیکن اس مقدمہ کی پیروی اور امت محمدیہ کی طرف سے نمائندگی کے لئے سب کی نگاہ انتخاب دیو بند کے فرزند شیخ الاسلام حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ پر پڑی، مولانا غلام محمد صاحب کی دعوت پر اپنے تمام تر پروگرام منسوخ کر کے مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ بہاولپور تشریف لائے تو فرمایا کہ جب یہاں سے بلاوا آیا تو میں ڈابھیل کے لے بارکاب تھا مگر میں یہ سوچ کر یہاں چلا آیا کہ ہمارا نامہ اعمال تو سیاہ ہے ہی شاید یہی بات مغفرت کا سبب بن جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جانبدار بن کر بہاولپور آیا تھا، اگر ہم ختم نبوت کی حفاظت کا کام نہ کریں تو گلی کا کتا بھی ہم سے اچھا ہے۔ ان کے تشریف لانے سے پورے ہندوستان کی توجہ اس مقدمہ کی طرف مبذول ہوگئی، بہاولپور میں علم کی موسم بہار شروع ہوگئی۔ اس سے مرزائیت کو بڑی پریشانی لاحق ہوئی۔ انہوں نے بھی ان حضرات علماء کی آ ہنی گرفت اور احتسابی شکنجے سے بچنے کیلئے ہزاروں جتن کئے۔ مولانا غلام محمد گھوٹوی، مولانا محمد حسین کولوتارڑوی، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری، مولانا نجم الدین، مولانا ابو الوفاشاہ جہان پوری اور مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم و شکراللہ سعیہم کے ایمان افروز اور کفر شکن بیانات ہوئے۔ مرزائیت بوکھلا اٹھی۔ ان دنوں مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ پر اللہ رب العزت کے جلال اور حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وبارک وسلم کے جمال کا خاص پر تو تھا۔ وہ جلال و جمال کا حسین امتزاج تھے، جمال میں آکر قرآن و سنت کے دلائل دیتے تو عدالت کے درودیوارجھوم اٹھتے اور جلال میں آکر مرزائیت کو للکارتے تو کفر کے ا یوانوں میں زلزلہ طاری ہوجاتا، مولانا ابوالوفا شاہ جہان پوری نے اس مقدمہ میں مختار مدعیہ کے طور پر کام کیا۔ایک دن عدالت میں مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے جلال الدین شمس مرزائی کو للکار کر فرمایا کہ اگر چاہو تو میں عدالت میں یہیں کھڑے ہو کر دکھاسکتا ہوں کہ مرزا قادیانی جہنم میں جل رہا ہے مرزائی کانپ اٹھے۔ مسلمانوں کے چہروں پر بشاشت چھاگئی اور اہل دل نے گواہی دی کہ عدالت میں انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نہیں بلکہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا وکیل اور نمائندہ بول رہا ہے۔ انگریزوں کا دبائو علمائے کرام کے بیانات مکمل ہوئے، نواب صاحب مرحوم پر گورنمنٹ برطانیہ کا دباؤ بڑھا۔ اس سلسلہ میں مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھری مرحوم نے راقم الحروف سے بیان کیا کہ خضرحیات ٹوانہ کے والد نواب سر عمر حیات ٹوانہ لندن گئے ہوئے تھے۔ نواب آف بہاولپور مرحوم بھی گرمیاں اکثر لندن گزارا کرتے تھے۔ نواب مرحوم سر عمر حیات ٹوانہ لندن میں ملے اور مشورہ طلب کیا کہ انگریز گورنمنٹ کا مجھ پر دباؤ ہے کہ ریاست بہاولپور سے اس مقدمہ کو ختم کرادیں تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے عمر حیات ٹوانہ کا ایمان افروز مکالمہ ۔ سر عمر حیات ٹوانہ نے کہا کہ ہم انگریز کے وفادار ضرور ہیں مگر اپنا دین، ایمان اور عشق رسالت مآب کا توان سے سودا نہیں کیا، آپ ڈٹ جائیں اور ان سے کہیں کہ عدالت جو چاہے فیصلہ کرے میں حق و انصاف کے سلسلہ میں اس پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہتا۔ چنانچہ مولانا محمد علی جالندھری نے یہ واقعہ بیان کر کے ارشاد فرمایا کہ ان دونوں کی نجات کے لئے اتنی بات کافی ہے۔جناب محمد اکبر جج مرحوم کو ترغیب و تحریص کے دام تزویر میں پھنسانے کی مرزائیوں نے کوشش کی لیکن ان کی تمام تدابیر غلط ثابت ہوئیں، مولانا سید محمد انور شاہ کشمیر ی رحمۃ اللہ علیہ اس فیصلہ کے لیے اتنے بے تاب تھے کہ بیانات کی تکمیل کے بعد جب بہاولپور سے جانے لگے تو مولانا محمد صادق مرحوم سے فرمایا کہ اگر زندہ رہا تو فیصلہ خود سن لوں گا اور اگر فوت ہوجاؤں تو میری قبر پر آکر یہ فیصلہ سنا دیا جائے۔ چنانچہ مولانا محمد صادق نے آپ کی وصیت کو پورا کیا۔ آپ نے آخری ایام علالت میں دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ و طلبہ اور دیگر بہت سے علماء کے مجمع میں تقریر فرمائی تھی، جس میں نہایت درد مندی و دل سوزی سے فرمایا تھا۔ وہ تمام حضرات جن کو مجھ سے بلا واسطہ یا بالواسطہ تلمذ کا تعلق ہے اور جن پر میرا حق ہے کہ میں ان کو خصوصی وصیت اور تاکید کرتا ہوں کہ وہ عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت و
فیصلہ مقدمہ مرزائیہ بہاول پور24 جولائی 1926ء تا 07 فروری 1935ء
فیصلہ مقدمہ مرزائیہ بہاول پور24 جولائی 1926ء تا 07 فروری 1935ءصادر فرمودہ:۔جسٹس محمد اکبر خان ؒتدوین و تخریج:۔صادق علی زاہداسلامی تصور حیات میں توحید کے بعد سب سے بڑی اہمیت عقیدہ ختم نبوت کو حاصل ہے جس سے معلوم تا ہے کہ یہی وہ اصل بنیاد ہے جس کی وجہ سے اسلام دوسرے الہامی مذاہب سے ممتاز و منفردہے۔ پھر یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ رب کریم نے کسی گزشتہ دین کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ اس کی تکمیل ہو چکی ہے اور اس کی حفاظت کا میں ذمہ دار ہو ں اور نہ ہی سابقہ آسمانی کتب وصحائف کے متعلق یہ فرمایاکہ یہ خدا کا آخر ی پیغام ہے اور نہ ہی یہ فرمایااس کو پیش کرنے والا آخری نبی ہے کہ جس کا ہر قول و فعل قیامت تک لوگوں کے لیے نجات کا ذریعہ ہو مگر پیغمبر اول و آخر حضرت محمد مصطفےٰ ﷺکا پیغام آخری پیغام ہے اور آپ ﷺ کے بعد کسی اورنبی و رسول کے نہ آنے کا پیغام دیتاہے۔رب کریم نے جس طرح دین محمدی کے متعلق (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا) (المائدہ :٣) ارشاد فرمایا اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے متعلق بھی فرمایا کہ ‘مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَا(الاحزاب :٤٠) ۔حضور اکرم ﷺ نے بھی اس مضمون کو مختلف الفاظ سے بیان فرمایا جس کی تفصیل کتب احادیث میں موجود ہے۔اسلامی تاریخ میں بہت سے گمراہ فرقے اور فتنے پیدا ہوئے مگر ختم نبوت ،تحفظ ناموس رسالت اور جہاد من الکفار جیسے بنیادی مسائل پراُمت ہمیشہ متفق رہی۔یہاں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اُمت محمدیہ میں سب سے پہلے جس مسئلہ پر اجماع ہوا وہ یہ تھاکہ آنحضرت ﷺ خا تم انبیاء کے بعد مدعی نبوت واجب القتل اور اس پر یقین کرنے والے مرتد اور دائر ہ اسلام سے خارج ہیں۔انیسویں صدی کے آخر میں جب سلطنت برطانیہ کا ستارہ اقبال پورے آب وتاب کے ساتھ چمک رہاتھا تو انگریز نے جہاں دین اسلام کے خلاف اور بے شمار سازشیں کیں وہاں برصغیر پا ک وہند میں اپنے ناپاک منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ایک نبی پیدا کرکے مندرجہ بالا متفق علیہ مسائل کو متنازعہ بنانے کی کوششیں بھی کیں۔اور اُس نے یہ کام مسلمانان ہند میں سے ہی ایک ایسے ایمان فروش سے کرایا جس نے سلطنت برطانیہ کی غلامی میں ایک زندیق کا کردار اداکیا۔مرزا غلام احمد قادیانی کے جھوٹے اعلانِ نبوت کے ساتھ ہی اسلامی ممالک خصوصاً ہندوستان میں اس کا شدید رد عمل ہو ا پورے عالم اسلام کے علماء کرام اورقاضیان قضاء نے مرزا قادیان اور اس کے ہم خیالوں کے خلاف ارتداد اور تکفیر کے فیصلے اور فتاوی جاری کئے۔اور اپنے تمام تر فروعی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن اس فتنہ کا سد باب کیا جس کی مثال اسلامی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔تاریخ میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بعد ایک اسلامی ریاست کے طور پر مرزا قادیانی کے کافر ہونے کا سب سے پہلے ریاست بہاولپور کی عدالت نے فیصلہ جاری کیا۔یہ فیصلہ مسماۃ عائشہ بی بی کا ایک قادیانی شخص کے ساتھ نکاح کی صورت میں صادر ہوا۔عائشہ بی بی کے والد نے ایک شخص کے ساتھ اس کا نکاح کردیا لیکن بعد ازاں معلوم ہواکہ یہ شخص قادیانی ہے تو عائشہ کے والد نے اسے کے ساتھ اپنی بیٹی کورخصت کرنے سے انکار دیا۔ قادیانی شخص نے اپنی منکوحہ کو حاصل کرنے کے لیے عدالت میں مقدمہ دائرکردیا ۔اس عدالتی معرکے کے ہیرو حضرت شیخ الجامعہ مولانا غلام محمد محدث کھوٹوی ؒ تھے۔آپ نے ابتدائی مراحل سے لے کر فیصلہ صادر ہونے تک بڑی جاں فشانی اور پامردی سے اس مقدمے کی پیروی کی اور مدعیہ علیہ کے دست و بازو بن کر راستہ کی ہر مشکل کو آسانی سے تبدیل کردیا۔آپ نے پاک و ہند کے جید علماء کرام کو مقدمہ کی پیروی میں شریک ہونے کی دعوت دی اور دور و نزدیک سے آنے والے علمائے کرام کے قیام وطعام اور زاد راہ کا ان کے شایان شان اہتمام فرمایا۔آپ کے نزدیک یہ کفرواسلام کا معرکہ تھا جس میں اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے کامیابی و کامرانی بھی ملی۔زیر نظر کتاب”فیصلہ مقدمہ مرزائیہ بہاول پور“برادرم صادق علی زاہد صاحب کی حالیہ تالیف ہے ۔جو اس تاریخی مقدمہ کے فیصلے کی تخریج اور اس مقدمہ کی کاروائی میں شامل رہنے والے بزرگان اُمت کے کوائف کی جدیدانداز و اسلوب میں سامنے لانے کی ایک بہت عمدہ اور کامیاب کوشش ہے۔چھ فصول کی حامل اس دستاویز کی پہلی فصل میں مقدمہ بہاول پور کی نو سالہ عدالتی کاروائی اور اس دوران پیش آنے والے اہم امور پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بات پیش نظر رکھی گئی کہ کاروائی کا خلاصہ قائرین کے ذہن میں موجود رہے اور آئندہ فصول کے مواد کی تفہیم میں آسانی رہے۔اس فصل میں 24 جولائی 1926ء کو ابتدائی عدالت احمد پور شرقیہ میں مقدمہ کی ابتدا سے لے کر ڈسٹرکٹ کورٹ بہاول پور میں مقدمہ کی منتقلی ، ڈسٹرکٹ کورٹ سے مقدمہ کے اخراج ،چیف کورٹ بہاول پور میں اپیل ،اپیل کی نامنظوری اور اپیل ثانی در اجلاس خاص بغرض حصول استثناء اپیل ثانی کی اجلاس خاص میں منظوری اور مقدمہ ڈسٹرکٹ میں دوبارہ سماعت اور 7 فروری 1935ء کو تاریخی فیصلہ کے صدور تک اہم واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔فصل دوم میں اس عدالتی و معاشرتی سطح پر اس تاریخ ساز فیصلے کے اثرات جبکہ تیسری فصل میں مشاہیر اسلام کی طرف سے اس فیصلے کی دادوتحسین کی جھلک کو پیش نظر کیا گیا ہے۔فصل چہارم میں اس فیصلہ کے اشاعتی مراحل کی روداد پیش کی گئی ہے۔اور صاحب کتاب نے اپنی تحقیق کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ گذشتہ ستاسی سالوں میں اس مقدمہ کی کل آٹھ قابل ذکر اشاعتیں منظر عام پر آئی ہیں۔جن میں سے چار اشاعتیں تفصیلی ہیں جن میں مقدمہ کے ساتھ ساتھ گواہان مدعیہ کے بیانات اور مختار مدعیہ کی تفصلی بحث شامل ہے جبکہ بقیہ اشاعتوں میں صرف فیصلہ مقدمہ کی اشاعت پر
عملیاتی قوتیں کیسے حاصل کی جائیں
عملیاتی قوتیں کیسے حاصل کی جائیں عملیاتی قوتیں کیسے حاصل کی جائیںکلاس برائے ستمبر2024۔سبق3یک عامل کی خواہش بہترین طاقت کا حصول اور اس کا مناسب استعمال ہوتا ہے۔ہر فن و ہنر کچھ قوانین پر اسطوار ہوتا ہے۔طاقت کا حصؤل ہر ایک چاہتا ہے۔عملیاتی دنیا میں طاقت کا حصؤل بغیر قوت ارادی اور بغیر مضبوط توجہ کے حاصک ممک نہیں ہےانسان اللہ کا نائب ہے اور اس اندر خالق کائنات کا پرتو موجود ہے۔ارادہ انسانی طاقت کا انمول اظہار ہے۔ اس لئے پختہ ادارہ عملیات میں کامیابی کے لئے رہڑھ کی ہڈی کی مانند ہےکائنات میں بے شمار طاقت قدرتی امور کی انجام دہی کے لئے پیدا کی گئی ہیںان طاقتوں سے اپنی مرضی کے مطابق کام لینے کے لئے جن اصلوں کی ضرورت ہوتی وہ اس ویڈیو میں بیان کی گئی ہیں،۔
عملیاتی بنیادیں۔کلاس برائے ستمبر2024۔سبق2
عملیاتی بنیادیں۔کلاس برائے ستمبر2024۔سبق2عملیات میں طاقت کا حصول اور اس کا بہتر استعمال استعمال عامل معمول دونوں کے لئے بہترین نتائج کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔سب سے پہلے یہ سوچنا چاہئے کہ عملیات میں کونسی طاقت کام کرتی ہے۔؟اس کا حصول کیسے ممکن ہے؟ یہ بھی پڑھئے آسان عملیات و تعویذات – 17 جلدیں : اعجاز احمد خاں سنگھانویاس سے کام کیسے لیا جاسکتا ہے؟کن لوگوں کو چلوں کی ضرورت پیش آتی ہےکونسے لوگ بغیر چلے وظائف کے عملیات کا کام کرسکتے ہیں۔ عملیات سے لوگوں کے مافوق الفطرت تصورات کیوں وابطسہ ہوتے ہیں؟۔یہ بھی مطالعہ کیجئے ہدایات برائے عاملین،روحانیات کیا چلے وظائف انسانی طاقت میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں؟اس قبیل سے بت شمار سوالات اور ان کے جوابات کے لئے بے شمار لوگ پریشان ہیں۔جب عاملین سے اس بارہ میں سوالات کئے جائیں تو ان کا منتہائے علم۔چند وظائف۔تسبیحات۔اور کچھ خفیہ طریقے ہوتے ہیں۔اس ویڈیو میں عملیاتی بنیاد پر قائم ہونے والی طاقت کے حصؤل کے بارہ میں بتایا گیا ہے کہ ایک عام انسان عامل کیسے بن سکتا ہے؟عامل بننے کے بعد عمل سے کما حقہ کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟عملیات سے متعلق جو توہمات پائے جاتے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے؟سعد طبیہ کالج برائے فروغ نب نبوی کی طرف سے ستمبر 2024 کے لئے عملیات اور طب کی کلاسز جاری ہیںآن لائن داخلے بھی ہورہے ہیں
مبتدی عاملین کے لئئے کامیابی کے اصول
مبتدی عاملین کے لئئے کامیابی کے اصولعملیات ایک فن و ہنر ہیں۔ دیگر فنون کی طرح عملیات کے بھی قوانین اور اصول موجود ہیں۔کہنے کوتو کوئی بھی عامل بن سکتا ہے لیکن کیا ہر ایک عاملیات میں کامیاب بھی ہوسکتا ہے؟۔ہمارے ہاں ہر دوسرا انسان عاملیات میں دلچسپی رکھتا ہے۔چلے وظائف کرتا ہے لیکن کامیاب بھی ہوتا ہے یہ ضروری نہیں۔اس ویڈیو میں ہم نے بنیادی باتیں بتائی ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر کم وقت میں زیادہ نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔ میرے عملیاتی مجربات۔۔۔کابھی مطالعہ کیجئے
مبتدی اطباء کے لئے ضروری اصول۔
مبتدی اطباء کے لئے ضروری اصول۔جب تک انسان کسی بات کا پختہ ارادہ نہیں کرتا کسی بھی کام مین مہارت پیدا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔یہ بعد کی باتیں ہیں کہ وہ فن و ہنر کتنا اہم ہے یا کتنا غیر اہم ہے لیکن سیکھنے کے لئےمکمل توجہ کی ضرورت ہوتی ہےطب ایک ایسا ہنر ہے جس کی ہر ایک کو ضرورت ہے۔طب کا سادہ سا اصول ہے جسم انسانی میں اگر کوئی چیز کم ہوگئی ہے تو اسے پورا کردیں ۔اور زیادہ ہوگئی ہے تو اس کا اخراج کردیں ۔ اور کہیں رکاوٹ پیدا ہوگئی ہے تو اسے دور کردیں ۔کوئی مرض لاعلاج نہیں رہے گا۔لیکن علاج سے پہلے یہ جاننا انتہائی اہم ہے کہ مریض کو تکلیف کس بات کی ہے۔۔طب میں مہارت کے لئے ضروری ہے کہ اس فن کو اساتذہ کی نگرانی میں سیکھا جائے۔اصطلاحات اور بنیادی باتوں کو سمجھا جائے ۔عملی زندگی میں انہیں آزمایا جائے۔بتدریج قدم بڑھایا جائے۔آہستہ آہستہ مہارت مین اضافہ ہوجائے گا۔اور میدان طب میں قدم مضبوط ہوتے جائیں گےجو لوگ مطالعہ کو تر کرکے چند نسخوں تک محدود ہوجاتے ہیں گویا انہوں ان کی ترقی کا گلہ اپنے ہاتھوں سے گھونٹ دیا ہے۔
امام صادق رحمہ اللہ اور ہندی طبیب کا مکالمہ
امام صادق رحمہ اللہ اور ہندی طبیب کا مکالمہابو عبداللہ (علیہ السلام) نے ایک دن منصور کی محفل میں شرکت کی تو دیکھا ہندوستان کا ایک آدمی طبی کتابوں ں کے مطالعہ میں مصروف ہے، تو اس نے ابو عبداللہ (علیہ السلام) کو کتاب پڑھ کےسنائی، جب ہندوستانی نے سناکر فارغ ہوا تو اس نے امام سے کہا: اے ابو عبداللہ، کیا آپ مجھ سے کچھ چاہتے ہیں؟اس نے کہا: نہیں، میرے پاس جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے جو تمہارے پاس ہے۔ اس نے کہا: یہ کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں گرم کو سردی سے، ٹھنڈ کو گرم سے، گیلا کو خشک، خشک کو گیلا اور سارا معاملہ اللہ تعالیٰ کو لوٹا دیتا ہوں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو استعمال کرتا ہوں، میں جانتا ہوں کہ معدہ بیماری کا گھر ہے، اور وہ غذا دوا ہے، میں جسم کو ویسے ہی لوٹا دیتا ہوں جیسا پہلے کرتا تھا۔ہندوستانی نے کہا کیا دوا یہ ہے؟حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم نے مجھے طب کی ان کتابوں سے بدنام کیا ہے جو میں نے لی تھیں؟اس نے کہا: ہاں۔اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم، میں نے صرف اللہ تعالیٰ سے لیا ہے۔ مجھے بتائیں، کیا میں دوا جانتا ہوں یا آپ؟ہندوستانی نے کہا، “نہیں، میں زیادہ ماہر ہوں۔حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا: کیا میں تم سے کچھ پوچھوں؟اس نے کہا: ضرور سوال کرو.اس نے کہا، ”مجھے بتاؤ، ہندی، تمہارے سر میں معاملات کیوں تھے؟” (۱) اس نے کہا: میں نہیں جانتا۔اس نے کہا: اوپر سے اس پر بال کیوں لگائے؟ اس نے کہا، “میں نہیں جانتا۔اس نے کہا: پیشانی بالوں سے خالی کیوں ہے؟اس نے کہا، “میں نہیں جانتا۔اس نے کہا: اس کے پاس منصوبہ بندی اور قیدی کیوں تھے؟ (۲) اس نے کہا: میں نہیں جانتا۔اس نے کہا: آنکھوں کے اوپر بھنویں کیوں تھیں؟اس نے کہا، “میں نہیں جانتا۔اس نے کہا: تم نے آنکھوں کو ٹانسلز کی طرح کیوں بنایا؟اس نے کہا، “میں نہیں جانتا۔اس نے کہا: وہ ان کے درمیان ناک کیوں رکھے؟اس نے کہا، “میں نہیں جانتا۔اس نے کہا: نیچے ناک کیوں چھڑک رہی تھی؟اس نے کہا، “میں نہیں جانتا۔اس نے کہا: تم نے ہونٹ اور مونچھیں منہ پر کیوں رکھ دیں؟اس نے کہا، “میں نہیں جانتا۔اس نے کہا: دانت تیز کیوں ہوئے، دانت کی چوڑائی کیوں بڑھ گئی اور دانت لمبا ہو گیا؟اس نے کہا، “میں نہیں جانتا۔اس نے کہا: تم نے مردوں کے لیے داڑھی کیوں بنائی؟اس نے کہا، “میں نہیں جانتا۔اس نے کہا: کفن بالوں سے خالی کیوں ہے؟اس نے کہا، “میں نہیں جانتا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ناخن اور بال زندگی سے محروم کیوں ہیں؟اس نے کہا، “میں نہیں جانتا۔اس نے کہا: “دل ایک پائن کی محبت کی طرح کیوں تھا؟”اس نے کہا، “میں نہیں جانتا۔فرمایا: (1) پھیپھڑوں کے دو ٹکڑے کیوں تھے اور اس نے اس کی جگہ حرکت کی؟اس نے کہا، “میں نہیں جانتا۔اس نے کہا: جگر کیوں بند ہو گیا؟اس نے کہا، “میں نہیں جانتا۔اس نے کہا: کالج کاؤپیوں کی محبت کی طرح کیوں تھا؟اس نے کہا، “میں نہیں جانتا۔اس نے کہا: گھٹنے کو پیچھے کیوں موڑنا چاہئے؟اس نے کہا، “میں نہیں جانتا۔اس نے کہا: تم نے پاؤں کیوں چھوٹا کیا؟اس نے کہا، “میں نہیں جانتا۔حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا: لیکن میں جانتا ہوں!اس نے کہا: جواب دو۔حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا: سر میں معاملات تھے، کیونکہ اگر کھوکھلا الگ نہ ہو تو اس کا سر درد تیز ہو جاتا ہے، اور اگر وہ موسموں کے ساتھ ایسا کرے تو سر درد دور ہو جائے گا۔اور اس نے اس کے اوپر بال بنائے، تاکہ چربی کو دماغ تک پہنچایا جا سکے، اور اس کے اعضاء سے اس سے بھاپ کو دور کیا جا سکے، اور اس میں آنے والی گرمی اور سردی کو دور کیا جا سکے۔پیشانی بالوں سے خالی ہے کیونکہ یہ آنکھوں کے لئے روشنی کا منہ ہے۔ اور اس نے اس میں منصوبہ بندی اور قیدی بنائے تاکہ سر سے آنے والے پسینے کو آنکھ سے اتنا ہی پھنسایا جائے جتنا کہ یہ انسان کو خود سے مارتا ہے، جیسے زمین میں دریا پانی کو پھنساتے ہیں۔اور آنکھوں کے اوپر بھنوریں بنائیں تاکہ انہیں کافی روشنی فراہم کی جا سکےاے ہندی، کیا تم نہیں دیکھتے کہ جو شخص روشنی سے مغلوب ہوتا ہے، اس نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر ان کا اتنا ہی جواب دیا ہے جتنا ان کے پاس تھا؟اس نے ان کے درمیان ناک بنائی تاکہ روشنی ہر آنکھ میں برابر دو حصوں میں تقسیم ہوجائے۔آنکھ ایک امیگڈلا کی طرح تھی جس میں دوا کے ساتھ جھکاؤ اور بیماری اس سے نکلتی تھی، چاہے وہ مربع ہو یا گول، جھکاؤ نہیں ہوتا تھا۔اور اس نے اس کے نچلے حصے میں ناک کا سوراخ کر دیا تاکہ دماغ سے اترنے والی دوائیں اس سے نیچے آجائیں اور بدبو برآمدے تک پہنچ جائے اور اگر یہ اوپر ہوتا تو اس سے کوئی بیماری نہ ہوتی اور بدبو بھی نہ آتی۔اس نے مونچھوں اور ہونٹوں کو منہ کے اوپر رکھ دیا تاکہ دماغ سے جو کچھ نیچے آتا ہے اسے منہ سے پکڑا جا سکے تاکہ انسان اپنا کھانا پینا کھو نہ دے اور اسے خود سے مار نہ لے۔داڑھی مردوں کے لیے بنائی گئی تھی تاکہ یہ منظر عام پر آجائے اور مرد اس کے بارے میں عورت سے جانتا ہو۔اور دانت کو تیز کرو، کیونکہ وہ کاٹ رہا ہے، اور دانت کو چوڑا کریں، کیونکہ اس کے ساتھ پیسنے اور چبانے میں واقع ہے، اور دانت لمبے تھے، (1) دانتوں اور دانتوں کو سلنڈر کی طرح مضبوط کریں۔ہتھیلیاں بالوں سے عاری ہوتی ہیں کیونکہ ان کے ساتھ چھونا ہوتا ہے اس لیے اگر ان کے بال ہوں تو انسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ کس چیز سے ملنا اور چھونا ہے۔اور بال اور ناخن زندگی سے محروم ہیں، کیونکہ ان کی لمبائی گندی اور بدصورت ہے، اور انہیں کاٹنا اچھا ہے، تو اگران میں زندگی تھی، کیونکہ انسان نے انہیں کاٹنے کا درد کیا تھا۔اور دل پائن کی محبت کی طرح تھا، کیونکہ وہ ٹوٹ گیا تھا، لہذا اس نے اپنا سر صاف کر دیا (1)،
آن لائن طب نبوی ﷺآگاہی کلاسز
سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کی طرف سے آن لائن طب نبوی ﷺآگاہی کلاسزخصوصیات۔قران و حدیث پر مبنی آیات و احادیث سے طبی استنباط۔۔تشخیصات متعددہ۔(نبض۔قارورہ۔چہرہ۔زبان سے تشخیص)پانچ سو سے زائد جڑی بوٹیوں سے آگاہی۔ یہ بھی پڑھئے کتب کی فہرست۔ سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ غذا و خوراک پر جامع آگاہی ،نسخہ نویسی۔۔شناخت الادویہ۔واٹس ایپ سےگروپ میں سوالات کی سہولت۔ یہ بھی پڑھئے سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی ﷺخدمات و اہداف زوم پر کلاسز۔ویڈیوز ،کتب،لیکچرز کی فراہمی۔۔وسیع طبی لائبریری تک رسائی۔قدیم و جدید نصابی کتب پر جامع تبصرے۔رات آٹھ بجےدورانیہ ایک ماہ۔ مکمل فیس۔۔۔۔
بچھڑنے والے یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔
بچھڑنے والے یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔ از حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔ صبح صبح گائوں جارہاہوں۔آج پھر مجھے ایک جنازہ میں شریک ہونا ہے۔۔زندگی کا پیہہ یوں ہی گھومتا رہتا ہے۔انسان جینے کے جتن کرتے کرتے زندگی میں کئی بار موت سے آنکھ مچولی کرتا ہے۔زندگی کا سفر نہ تو بتاکر شروع ہوتا ہے نہ اس کے کتم ہونے کی نشان دہی کی جاسکتی ہے۔البتہ کچھ علامات مقرر کرلی گئی ہیں کہ فلاں وقت موت آسکتی ہے جیسے شدید خطرات۔امراض ،حادثات۔نزدگی اور موت لازم و ملزوم ہیں۔ایک کے بنا دوسری کا تصور ممکن نہیں ہوتا۔کوئی کتنی زندگی لیکر آتا ہے کسی کو معلوم نہیں لیکن جتنی بھی لیکر آئے بہر حال محدود ہوتی ہے۔ایک آدمی نے بیس سال زندگی پائی وہ بھی جس دن سے دنیا میںآیا اپنی زندگی کا آغآز کردیا۔وہ خوش رہے یا رہے ۔صحت مند رہے یا بیمار جب اس کے بیس سال مکمل ہوئے اسے جانا ہی ہے۔یہی حال سو سال والے کا بھی ہے۔ انسان جینے کے لئے موت سے لڑتا ہے ۔لیکن موت تو اس حد حیات کا نام ہے اس تک پہنچا اس کی زندگی کا سب سے بڑا مشن ہوتا ہے۔صحت و تندرستی اور مالی فراوانی اور وسائل کی دستیابی انسان کے اندر بہت سے اضافی سوچیں پیدا کردیتے ہیں۔یہ چیزں جینے والے کے اطوار و عادات مقرر کرتی ہیں۔کچھ لوگ نیکی بھلائی اور خدا ترسی اپنا کر خلق خدا کے لئے نفع رسانی کا کام کرتے ہیں،اور کچھ لوگ انہیں باتوں سے خلق خدا کے لئے زندگی کردیتے ہیں۔مرنا سب نے ہے۔لیکن کچھ لوگوں کو مرنے کے بعد بھی لوگ یاد رکھتے ہیں۔اور کچھ کو بوجھ سمجھا جاتا ہے ادھر مرا ادھر شکر ادا کیا ۔خلق خدا سکھ کا سانس لیتی ہے۔میری ڈائری کے کئی اوراق۔اور میرے فوان کی ڈائریکٹری کے کئیی نمبر جنہیں میں بہت احتیاط سے رکھا کرتا تھا آج میرے لئے بےکار ہوچکے ہیں۔انہیں دیکھتا ہوں تو زندگی کی کئی یادیں گھیر لیتی ہیں ۔مٹا سکتا نہیں۔کیونکہ ان سے بہترین گزرے ہوئے لمحات وابسطہ ہیں ۔جن کے لوٹنمے کی سر دست کوئی صورت و امکان نہیں سوائے ان نمبروں اور اوراق کے۔کئی شہر اور کئی دیہات جن میں کئی کئی پھیرے رہا کرتے تھے،اب ان کی شکلیں او ر خدو خال بدل چکے ہیں۔کوئی ایسی چیز جسے لوگوں نے بےکار سمجھ کر ترک کردیا ہے۔جب دیکھنے کو ملتی ہے تو ماضی کا دریچہ کھل جاتا ہے۔بچوں کی شکل بڑھاپے میں ڈھل چکی ہیں ۔جن بچوں کے کانوں میںآزانیں دی تھیں آج ان کےجنازے پڑھانے پڑتے ہیں۔جن لوگوں سے جینے کی تمنا وابسطہ تھی انہیں اپنے ہاتھوں سے دفناتے ہیں۔زندگی اور موت کا گہرا کھیل ہر کسی کو کھیلنا پڑتا ہے۔کچھ کلمات جیسے تو مرجائے۔تیرا کچھ نہ رہے۔ زندگی میں سننا کوئی بھی گوارا نہیں کرتا۔لیکن ۔وقت آنے پر کفن دفن کرتے وقت اطمنان محسوس ہوتا کہ خدا کا شکر ہے اپنے ہاتھوں سے آخری رسومات ادا لرلیں۔۔۔جنازہ میں شریک ہوگیا۔جب بھی گائوں جاتا ہوں والدین ،بھائیوں اور اہل خاندان۔اپنے بیٹے سعد یونس کی قبر پر ضرور جاتا ہوں۔فاتحہ کہتا ہوں۔مجھت قبروں کے سناٹے میں بہت اپنایت نصیب ہوتی ہے۔پہروں والدیں اور بیٹے کی قبروں پر سر جھکائے مراقب رہتا ہوں۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ مجھ سے سرگوشی کررہے ہیں۔زندگی کے الجھے ہوئے مسائل بھی ان کے سامنے کھول کر رکھتا ہوں۔وہاں سے مناسب جوابات اور مسائل کے حل کا اشارہ ملتا ہے۔جب کبھی زندگی سے اکتاتاہوں سب چھوڑ چھاڑ کر والدین محترمین کی قبروں پر جاکر سر جھکالیتا ہوں ۔ ٹیکنیکی مسائل کے لئے بیٹے سے مشورہ کرتا ہوں ۔یہ لوگ مجھ سے باتیں کرتے ہیں۔ میرے مسائل پر رائے سے نوازتے ہیں۔یا کم از اس الجھی ہوئی دنیا میں مجھے راستے صاف دکھائی دیتے لگتے ہیں۔اتنا انس ہوگیا ہے کہ اپنی قبر کی جگہ کی نشان دہی کرتا ہوں کہ اگر ممکن ہوسکے تو میرے والد محترم محروم کے بازو میں ایک قبر کی جگہ ہے،میرے لئے مختص کردی جائے۔پانچ سات قبیرں چھوڑ کر اسی لائن میں میرے بیٹے سعد کی قبر ہے۔سرہانے کی طرف آٹھ دس فٹ کے فاصلے پر والدہ محترمہ آرام فرمارہی ہیں ۔ایک قبر کے فاصلے پر چھوٹا بھائی عباس موجود ہے۔چاروں طرف گھر کنبہ خاندان موجود ہے۔یوں لگتا ہے جو چہل پہل گائوں کی گلیوں اور گھروں کے آنگنوں میں تھی اب وہ یہاں منتقل ہوچکی ہےمیری دادی مرحومہ اکثر مجھے پاس بٹھا کر کہا کرتی تھیں ۔جب میں مرجائوں تو میرے لئے دعا کرنا ۔دادی مرحومہ کی بات کانوں میں گونجنے لگتی ہے۔یوں ایک نئی دنیا میں کھوجاتا ہوں۔کئی دنوں تک ذہن سے یہ باتں نہیں اترتیں۔بہت سے کام جنہیں عمومی لوگ بے خطر کرتے ہیں یہ تخیلاتی ملاقاتیں مجھے ان سے باز رکھتی ہیں۔سچی بات تو یہ ہے صحٹ و زندگی پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔لیکن اب تو ہلجل اور جکللدی سی لگی ہوئی ہے ۔کہیں ایسا نہ میرے والد محترم کے پاس والی جگہ کسی اور کے حصۓ مین آجائے۔اور مجھے کہیں اور دنا دیا جائے۔۔۔