Signs of closeness and temptation of the Dajjal قرب قامت کی نشانیاں اوردجالی فتنہ علامات القرب وفتنة الدجال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو قران وحادیث میں مذکورہ واقعات اور پیش گوئیاں مناسب وقت پر ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔قران کریم نے جو واقعات بیان کئے یا جن کی تشریح احادیث نقدسہ میں موجود ہے قیافہ آرائی یا تک بندیوں پر مشتمل نہیں ہیں بلکہ یہ وہ حقائق ہیں جو پورے وثوق اور ذمہ داری سے ہم ت ک پہنچا ئے گئئے ہیں۔۔اٹل سے کام لینے والوں کو قران اچھی نطڑ سے نہیں دیکھتا ۔قُتِلَ ٱلْخَرَّٰصُونَ (الذاريات – 10)یعنی اٹکل پچو لگانے والے برباد ہوجائیں ۔۔۔ ایک وقت تھا جب لوگوں کو معراج جسمانی جیسے معجزات میں تردد دکھائی دیتا تھا۔قرب قیامت ایسے فتنے ظاہر ہونگے اور ان میں ایسا تسلسل ہوگا جیسے تسبیح کا دھاگہ ٹوٹنے پر دانے بکھرتے تھے جدجد ٹیکنالوجی کی بنیاد پر نت نئے ہوش ربا سوفٹ وئیر اور ایجادات نے انسانی عقل کو خیرہ کردیا ہے۔ احادیث میں آتا ہے دجال مرے ہوئے والدین کو زندہ کرکے دکھادے گا جو اپنی اولاد سے بات کریں گے کہ بیٹا یہ (دجال) ہی تمہارا اصل خدا ہے تم اسے خدا تسلیم کرلو۔ اب نظر آرہا ہے کہ یہ سب Meta ٹیکنالوجی کے زریعے ہی ممکن ہوگا۔ شاید Meta کا کوئی ایڈوانسڈ ورزن ہوگا جس میں ChatGPT کی طرح کا خودکار روبوٹ آپکو آپ کے ہر سوال کا جواب دے گا۔ یعنی مرے ہوئے لوگ اب آپکے سامنے آکر آپ سے باتیں کرسکیں گے اور وہ بھی بلکل ایسے جیسے زندہ دوست ایک ساتھ بیٹھ کر گپ شپ لگاتے ہیں۔ کیا مستقبل میں میٹا ورس آپ کے کام کرنے کی نئی جگہ ہو گی؟ اس ٹیکنالوجی کے زریعے انسان ایسی تخلیقی دنیا میں داخل ہوجائیں گے جیسے کارٹون کی دنیا ہوتی ہے جس میں تمام زندہ و مردہ لواحقین مل جل کر اپنی پسند کی جگہ پر گپ شپ لگاسکیں گے۔ سارا سیٹ اپ تو کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی سرانجام دے گی لیکن انسانوں کو ایسا محسوس ہوگا جیسے سب کچھ حقیقت میں ہی آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔ اب واپس حدیث کی طرف آتے ہیں ۔۔۔ غور سے سمجھیں مفھوم حدیث : ” دجال ایک قصبے سے گزرے گا، وہاں موجود لوگوں کو کہے گا میں تمہارا خدا ہوں مجھے خدا تسلیم کرو، وہ کانے دجال کو ماننے سے انکار کریں گے اور اس سے خدائی کی دلیل مانگیں گے۔ دجال (جس کو پہلے سے علم ہوگا کہ دلیل مانگنے والے شخص کے والدین مرچکے ہیں) کو کہے گا اگر میں تمہارے والدین کو زندہ کردوں تو کیا تم مجھے خدا تسلیم کرلوگے؟ وہ کہے گا ہاں کیوں نہیں۔ دجال اسکے والدین کو جادوئی طریقے سے (یا یوں کہیں کہ Meta ٹیکنالوجی کے زریعے) زندہ کرکے اسکے سامنے پیش کرے گا اور وہ والدین اپنے بیٹے کو کہیں گے کہ بیٹا یہ دجال ہی تمہارا اصل خدا ہے لہذہ تم اسکی بات مانو اور اسے خدا تسلیم کرلو۔ میٹاورس کیا ہے؟ اللہ اکبر ۔ ۔ ۔ ۔ ذرا سنجیدگی کے ساتھ تصور کریں کہ اگر ایسا ہمارے ساتھ ہو تو ہمارے پاس کیا دلیل رہ جائے گی سوائے اسلے کہ فورا دجال کو خدا تسلیم کرلیں کیونکہ ہمارے مرے ہوئے والدین یا دوست کسی روبوٹ یا کارٹون کی شکل میں نہیں بلکہ سو فیصد انسانی شکل میں آئیں گے اور اسکے خدا ہونے کا اقرار بھی کریں گے ! اس وقت انسان کے پاس تمام دلائل ختم ہوجائیں گے، انسان لاجواب ہوجائے گا کیونکہ دجال کے پاس اسکے علاوہ ہارپ (HAARP) ٹیکنالوجی بھی ہوگی، وہ لعین جہاں چاہے گا بارش برسا سکے گا اور جس شہر والوں پر چاہے گا زلزلے بھیجے گا۔ انسان اسکے سامنے مکمل لاجواب ہوجائے گا اس سے بحث و تکرار میں کبھی جیت نہیں سکے گا کیونکہ وہ سوائے چند ایک کے تمام خدائی کام اپنے شعبدے بازی سے کرکے دکھائے گا بشمول مردوں کو زندہ کرنے کے۔۔۔ ۔۔ بیشک وہ شعبدہ بازی سے ہی ہو، جادو ہو یا پھر جدید ٹیکنالوجی کا دھوکہ ہو لیکن ایک بات تو طع ہے کہ عام انسان اسکی شعبدہ بازی نہیں سمجھ سکیں گے، اکثریت دھوکہ کھا جائے گی، اپنا ایمان گنوا دے گی۔۔۔ اپنے سامنے جیتے جاگتے مرحومین کو زندہ دیکھ کر کون حیران نہیں ہوجائے گا ۔۔۔۔ لوگ تو یہی سمجھیں گے کہ مردوں کو زندہ تو صرف اللہ ہی کرسکتا ہے یوں دجال انکا ایمان چھین لے گا، اکثریت اسے خدا مان کر ک- اف- ر ہوجائے گی۔ حدیث میں آتا ہے اس وقت صبح کا مومن شام کو ک- اف- ر ہوجائے گا اور شام کو مومن صبح کو ک- اف- ر ہوجائے گا۔ اللہ اکبر آج کی Hologram اور Fb کی Meta ٹیکنالوجی ہمیں اسی طرف لیکر جارہی ہے۔ علماء کو اس بارے آگاہ دینی چاہیے۔ اس ٹیکنالوجی کے زریعے صرف دجال نہیں بلکہ آپ خود بھی بہت جلد آپ اپنے مرے ہوئے والدین اور عزیز و اقارب کو سامنے بٹھاکر ان سے گفتگو کرسکیں گے۔ اب یہ باتیں محض خیالی نہیں رہیں حقیقت بن چکی ہیں۔ بیشک فتنہ دجال روئے زمین کا سب سے بڑا فتنہ ہوگا۔ تحریر : یاسررسول
Why can’t we see the giantsجنات کو ہم کیوں نہیں دیکھ سکتے؟۔
Why can’t we see the giants جنات کو ہم کیوں نہیں دیکھ سکتے؟۔ لماذا لا نستطيع رؤية العمالقة(الجن)؟ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو یوں تو انسان کبھی علمی کم مائیگی کا اعتراف نہیں کرتا لیکن قدم قدم پر اسے اپنی اس خام خیالی احساس ہوتا رہتا ہے۔قران کریم سمیت کتب سماوی و الہامی میں جنات کا ذکر موجود ہے اور انسانی زندگی میں اس کے کم و بیش اثرات کردار دکھائی دیتے ہیں۔معلوم ایام اور دستیاب تاریخ انسانی میں جناتی اور اَن دیکھی مخلوقات کے کردار سے اٹا پڑا ہے۔ قران کریم نے سورہ جن کے نام سے ایک مکمل سورت موجود ہے اوردیگر مقامات پر بھی تذکرہ موجود ہے جنات انسان کے مقابل کی چیز ہے،کائنات میں جن و انس کی کشکمش موجود ہے ،عمومی طورپر جنات کو تخریب کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔اس مادی دنیا میں آنکھوں دیکھے حال پر سر خم کیا جاتا ہے۔آئے اس بارہ میں تجزیہ کرتے ہیں۔ جنات کا سائنسی تجزیہ اتخاب ڈاکٹر رخسانہ جبین ایک سائنسدان کے قلم سے۔۔۔۔ بہت دلچسپ۔۔۔ضرور پڑھیں جنات اللہ کی مخلوق ہیں یہ ہمارا یقین ہے ، وہ آگ سے پیدا کیے گئے ، ان میں شیاطین و نیک صفت دونوں موجود ہیں اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے یہ تھریڈ اس بارے میں نہیں ہے ۔ یہ تھریڈ جنات کی سائینٹیفیک تشریح کے بارے میں ہے ۔ کیا وہ ہمارے درمیان ہی موجود ہیں ؟ اور زیادہ اہم سوال یہ کہ ہم انہیں دیکھ کیوں نہیں سکتے ؟ لفظ جن کا ماخذ ہے ‘‘نظر نہ آنے والی چیز’’ اور اسی سے جنت یا جنین جیسے الفاظ بھی وجود میں آئے ۔ جنات آخر نظر کیوں نہیں آتے ؟ اس کی دو وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں ۔ پہلی وجہ یہ کہ انسان کا ویژن بہت محدود ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائینات میں جو (electromagnetic spectrum) بنایا ہے اس کے تحت روشنی 19 اقسام کی ہے ۔ جس میں سے ہم صرف ایک قسم کی روشنی دیکھ سکتے ہیں جو سات رنگوں پر مشتمل ہے ۔ میں آپ کو چند مشہور اقسام کی روشنیوں کے بارے میں مختصراً بتاتا ہوں ۔ اگر آپ gamma-vision میں دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو آپ کو دنیا میں موجود ریڈی ایشن نظر آنا شروع ہو جائے گا ۔ اگر آپ مشہور روشنی x-ray vision میں دیکھنے کے قابل ہوں تو آپ کے لیے موٹی سے موٹی دیواروں کے اندر دیکھنے کی اہلیت پیدا ہو جائے گی ۔ اگر آپ infrared-vision میں دیکھنا شروع کر دیں تو آپ کو مختلف اجسام سے نکلنے والی حرارت نظر آئے گی ۔ روشنی کی ایک اور قسم کو دیکھنے کی صلاحیت ultraviolet-vision کی ہو گی جو آپ کو اینرجی دیکھنے کے قابل بنا دے گا ۔ اس کے علاوہ microwave-vision اور radio wave-vision جیسی کل ملا کر 19 قسم کی روشنیوں میں دیکھنے کی صلاحیت سوپر پاور محسوس ہونے لگتی ہے ۔ کائینات میں پائی جانی والی تمام چیزوں کو اگر ایک میٹر کے اندر سمو دیا جائے تو انسانی آنکھ صرف 300 نینو میٹر کے اندر موجود چیزوں کو دیکھ پائے گی ۔ جس کا آسان الفاظ میں مطلب ہے کہ ہم کل کائینات کا صرف % 0.0000003 فیصد حصہ ہی دیکھ سکتے ہیں ۔ انسانی آنکھ کو دکھائی دینے والی روشنی visible light کہلاتی ہے اور یہ الٹرا وائیلٹ اور انفراریڈ کے درمیان پایا جانے والا بہت چھوٹا سا حصہ ہے ۔ ہماری ہی دنیا میں ایسی مخلوقات موجود ہیں جن کا visual-spectrum ہم سے مختلف ہے ۔ سانپ وہ جانور ہے جو انفراریڈ میں دیکھ سکتا ہے ایسے ہی شہد کی مکھی الٹراوائیلٹ میں دیکھ سکتی ہے ۔ دنیا میں سب سے زیادہ رنگ مینٹس شرمپ کی آنکھ دیکھ سکتی ہے ، الو کو رات کے گھپ اندھیرے میں بھی ویسے رنگ نظر آتے ہیں جیسے انسان کو دن میں ۔ امیرکن کُک نامی پرندہ ایک ہی وقت میں 180 ڈگری کا منظر دیکھ سکتا ہے ۔ جبکہ گھریلو بکری 320 ڈگری تک کا ویو دیکھ سکتی ہے ۔ درختوں میں پایا جانے والا گرگٹ ایک ہی وقت میں دو مختلف سمتوں میں دیکھ سکتا ہے جبکہ افریقہ میں پایا جانے والا prongs نامی ہرن ایک صاف رات میں سیارے saturn کے دائیرے تک دیکھ سکتا ہے ۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انسان کی دیکھنے کی حِس کس قدر محدود ہے اور وہ اکثر ان چیزوں کو نہیں دیکھ پاتا جو جانور دیکھتے ہیں ۔ ترمذی شریف کی حدیث نمبر 3459 کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم مرغ کی آواز سنو تو اس سے اللہ کا فضل مانگو کیوں کہ وہ اسی وقت بولتا ہے جب فرشتے کو دیکھتا ہے……… اور جب گدھے کی رینکنے کی آواز سنو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو کیوں کہ اس وقت وہ شیطان کو دیکھ رہا ہوتا ہے ۔ جب میں نے مرغ کی آنکھ کی ساخت پر تحقیق کی تو مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ مرغ کی آنکھ انسانی آنکھ سے دو باتوں میں بہت بہتر ہے ۔ پہلی بات کہ جہاں انسانی آنکھ میں دو قسم کے light-receptors ہوتے ہیں وہاں مرغ کی آنکھ میں پانچ قسم کے لائیٹ ریسیپٹرز ہیں ۔ اور دوسری چیز fovea جوانتہائی تیزی سے گزر جانے والی کسی چیز کو پہچاننے میں آنکھ کی مدد کرتا ہے جس کی وجہ سے مرغ ان چیزوں کو دیکھ سکتا ہے جو روشنی دیں اور انتہائی تیزی سے حرکت کریں اور اگر آپ گدھے کی آنکھ پر تحقیق کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اگرچہ رنگوں کو پہچاننے میں گدھے کی آنکھ ہم سے بہتر نہیں ہے لیکن گدھے کی آنکھ میں rods کی ریشو کہیں زیادہ ہے اور اسی وجہ سے گدھا اندھیرے میں درختوں اور سائے کو پہچان لیتا ہے یعنی آسان الفاظ میں گدھے کی آنکھ میں اندھیرے میں اندھیرے کو پہچاننے کی صلاحیت ہم سے کہیں زیادہ ہے ۔ البتہ انسان کی سننے کی حِس اس کی دیکھنے کی حس سے بہتر ہے اگرچہ دوسرے جانوروں کے مقابلے میں پھر بھی کم ہے مثال کے طور پہ نیولے نما جانور بجو کے سننے کی صلاحیت سب
History Of Bluetooth نِیلے دانت کی عجیب کہانی
History Of Bluetooth نِیلے دانت کی عجیب کہانی History Of Bluetooth نِیلے دانت کی عجیب کہانی تاريخ البلوتوث ہزار برس پرانے ایک بادشاہ کا نام”بلیوٹُوتھ“ تھا۔ اس کا ایک دانت واقعی نیلے رنگ کا تھا تو پھر سوال یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی’بلیوٹوتھ’کے بانیوں نے اس قدیم بادشاہ کے نام پر شارٹ رینج وائرلیس ٹیکنالوجی کا نام’بلیوٹوتھ’کیوں رکھا؟ آج پوری دنیا بلیوٹوتھ کی اصطلاح سے واقف ہے۔ بلکہ ہمارے لیے یہ عام سی بات ہے کہ ہمارے موبائل فونز، لیپ ٹاپس، ہینڈ سیٹس، کار ٹیپس، بڑے سپیکرز، انٹرنیٹ ڈیواسز، ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز اور مزید بیسیوں ڈیوائسز میں بلیوٹوتھ سسٹم موجود ہے۔ چونکہ یہ اصطلاح بہت عوامی ہو چکی ہے اس لیے لوگ غور نہیں کرتے کہ مشہور اصطلاحات کے پیچھے کیا کہانی ہے چلیں.. بادشاہ بلیوٹوتھ کے متعلق جاننے سے پہلے ایک اور انکشاف ہو جائے۔ نہایت دلکش چہرا اور نام رکھنے والی امریکی اداکارہ اور سپرماڈل ہیڈی لامار کو جانتے ہیں؟ اپنے وقت پر دنیا میں سب سے خوبصورت عورت کا اعزاز حاصل کرنے والی۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ ہیڈی بنیادی طور پر کمیونیکیشنز ایکسپرٹ بھی تھی۔ وائی-فائی اور جی-پی-ایس کے علاوہ بلیوٹوتھ سسٹم بھی اُسی کی ایجاد ہے۔ جی ہاں، دنیا کی مشہور ترین تینوں ٹیکنالوجیاں یعنی خوبصورت چہرے اتنے بھی بے وقوف نہیں ہوتے جتنا آپ سمجھتے ہیں مگر شروع میں شارٹ رینج وائرلیس سسٹم کا نام بلیوٹوتھ نہیں تھا۔ کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ 1996ء میں تین بین الاقوامی ٹیکنالوجی کمپنیوںامریکا کی انٹیل، سویڈن کی ایریکسن اور فن لینڈ کی نوکیا کے سربراہوں کو جب پتا چلا کہ ایک خوبصورت لڑکی شارٹ رینج سسٹم ایجاد کر چکی ہے تو اِن کمپنیوں کے سربراہان نے فوری طور اس سسٹم کو اپنانے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ تمام تاروں اور دیگر لوازمات کے بغیر فائل ٹرانسفر اور مختلف ڈیوائسز کا استعمال ممکن تھا۔ یہاں تک کہ ہیڈ فونز میں سے بھی وائرز ختم ہو سکتی تھیں۔ چناچہ اِن کمپنیوں نے آپس میں کولیبوریشن کا فیصلہ کر لیا۔ ایک میٹِنگ کے دوران انٹیل کے ایک افسرجِم کارڈاخ نے رائے دی کہ جب تک ہم اس ٹیکنالوجی کا کوئی مناسب نام نہیں رکھتے، وقتی طور پر اِس کا نام ‘بلیوٹوتھ’ رکھ دیتے ہیں۔ کارڈاخ کا کہنا تھا کہ ہزار برس قبل (1000 بعد مسیح میں) ڈنمارک/ناروے کے وائیکنگ بادشاہ ‘ہیرالڈ’ نے شمالی یورپ کے سکینڈینیویئن ممالک کو آپس میں جوڑ دیا تھا، اُسی طرح ہماری امریکی/سکینڈی کمپنیاں ایک سسٹم کے ذریعے منسلک ہو رہی ہیں۔ اس بادشاہ کا نِک نیم ‘بلیوٹوتھ’ تھا کیونکہ اس کا ایک دانت اتنا خراب تھا کہ باقاعدہ نیلا نظر آتا تھا۔ پورے یورپ کے دوسرے بادشاہ اور اعلیٰ حکام اسے ‘بلیوٹوتھ’ ہی بولتے تھے۔ تو کیوں نہ ہم اپنے نظام کا نام ‘بلیوٹوتھ’ ہی رکھ دیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ نام ٹیکنیکل نہیں۔ اس سلسلے میں ہم ‘ریڈیو وائر’ اور ‘پین (پرسنل ایریا نیٹ ورک)’ ناموں پر مشاورت کریں گے۔ مگر ہوا کچھ یوں کہ کوئی بھی ٹیکنیکل نام رکھنے سے پہلے ہی ‘بلیوٹوتھ’ نام دنیا میں مشہور ہو گیا۔ چناچہ 1997ء میں انہوں نے اسی کو مستقل کر دیا۔ ویسے، اطلاعاً عرض ہے کہ بادشاہ ہیرالڈ بلیوٹوتھ اقوام کو آپس میں جوڑنے کا اتنا رسیا تھا کہ ناروے کے بادشاہ کو اپنی بہن تحفتاً بھیج دی۔ چناچہ بلیوٹوتھ سسٹم کا نام ‘پین’ بھی رکھا جاتا، تب بھی ٹھیک تھا۔ آپ جو بلیوٹوتھ کی علامت دیکھتے ہیں یہ قدیم سکینڈی زبان میں ‘ایچ’ اور ‘بی’ کو اکٹھا لکھا ہوا ہے۔ یعنی ہیرالڈ بلیوٹوتھ۔ مونا سکندر
Commentary on more than 8 books in Urdu۔اردو میں 8سے زائدکتب تفاسیر
اردو میں 8سے زائدکتب تفاسیر Commentary on more than 9 books in Urdu تعليق على أكثر من 9 كتب باللغة الأردية حاضر خدمت ہے مختلف تفاسیر کا ڈاونلوڈ لنک۔ جس میں درج ذیل تفاسیر موجود ہیں۔ کچھ تفاسیر بریلوی مکتب فکر کی بھی ہیں تفسیر ابن عباس (شیخ سعید احمد عاطف) تفسیرابن کثیر ( محمد اکرم شاہ الازہری) تفسیر بغوی ( مولانا اشرف علی تھانوی) تفسیر درمنثور (محمد اکرم شاہ الازہری) تفسیر قرطبی ( محمد اکرم شاہ الازہری) تفسیر کمالین شرح جلامدارکسیر مدارک تفسیر مظہری ( مولانا سید عبد الدائم الجلالی) تفسیر عثمانی
Ahkam ul Quran Urdu احکام القرآن (امام جصاصؒ)
Ahkam ul Quran Urdu احکام القرآن (امام جصاصؒ) احکام القرآن (امام جصاصؒ) قرآن مجید بے شمار علوم وفنون کا خزینہ ہے۔اس کے متعدد مضامین میں سے ایک اہم ترین مضمون اس کے احکام ہیں۔جو پورے قرآن مجید میں جابجا موجود ہیں ۔ احکام القرآن پر مبنی آیات کی تعداد پانچ سو یا اس کے لگ بھگ ہے۔لیکن مفسرین کرام نے جہاں پورے قرآن کی تفاسیر لکھی ہیں ،وہیں احکام پر مبنی آیات کو جمع کر کے الگ سے احکام القرآن پر مشتمل تفسیری مجموعے بھی مرتب کئے ہیں۔ احکام القرآن پر مشتمل کتب میں قرآن مجید کی صرف انہی آیات کی تفسیر کی جاتی ہے جو اپنے اندر کوئی شرعی حکم لئے ہوئے ہیں۔ان کے علاوہ قصص ،اخبار وغیرہ پر مبنی آیات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب “ احکام القرآن “بھی اسی طرز بھی لکھی گئی ایک منفرد کتاب ہے، جو چوتھی صدی ہجری کے معروف حنفی عالم علامہ ابو بکر احمد بن علی الرازی الجصاص الحنفی کی تصنیف ہے۔ جس میں انہوں نے پورے قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے احکام پر مبنی آیات کی خصوصی تفسیر قلم بند کی ہے۔اصل کتاب عربی میں ہے۔ اردو ترجمہ کرنے کی سعادت محترم مولانا عبد القیوم صاحب نے حاصل کی ہے۔اردو ترجمے پر مبنی کتاب کی چھ ضخیم جلدیں ہیں، جو اس وقت آپ کے سامنے موجود ہیں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف اور مترجم کی کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے درجات حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین Ahkam ul Quran Urdu By Imam Abu Bakr Jassas احکام القرآن اردو Read Online Vol 01 Vol 02 Vol 03 Vol 04 Vol 05 Vol 06 Download Link 1 Vol 01(20MB) Vol 02(15MB) Vol 03(17MB) Vol 04(17MB) Vol 05(18MB) Vol 06(15MB) Download Link 2 Vol 01(20MB) Vol 02(15MB) Vol 03(17MB) Vol 04(17MB) Vol 05(18MB) Vol 06(15MB)
(Thistle) liver and stomach healer.
اونٹ کٹارا ۔جگر اور پیٹ کا معالج (Thistle) liver and stomach healer. اشوک الجمل – معالج للكبد والمعدة اونٹ کٹارا (Thistle) لاطینی میں۔ Echinops ,,Echinatus خاندان۔ Compositae دیگرنام۔ عربی میں اشوک الجمل ،فارسی میں شتر ،گجراتی میں ان کنٹو،سندھی میں کانڈیری وڈی ہندی میں اٹ کٹ نکا کہتے ہیں پہچان۔ ہندوستان کی قدیم بوٹی ہے جس کا ذکرجرک اور سثرت میں بھی آیا ہے۔بعض اطباء اس کو برہم ڈنڈی کی قسم مانتے ہیں۔اوربعض ستیاناسی کی لیکن اونٹ کٹارہ ان دونوں سے بالکل مختلف ہے۔جیسا کہ ماہیت سے ظاہر ہے کہ ایسا دھوکا اس لئے ہوتا ہے کہ ستیاناسی کے پودے کی طرح اس میں بھی ہرجگہ کانٹے ہوتے ہیں۔جوکہ اوپر کو اٹھے ہوتے ہیں۔ رنگ۔ پھول زردوسفید کانٹے دار۔ ذائقہ۔ تلخ۔ مقام پیدائش۔ پاکستان اور ہندوستان کی ریتلی زمین سے بکثرت پیدا ہوتی ہے۔ مزاج۔ گرم خشک درجہ دوم۔ افعال۔ مقوی معدہ،محلل اورام باردہ ،مدربول ،مقوی باہ،دافع بخار ،نقرس میں مفید ہے۔ انسانی جسم میں جگر اعضائے رئیسہ میں سے ایک ہے انسانی جسم میں جگر کی جو اہمیت وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ہمارا حذائی نظام۔اور ہارمونز کا سلسلہ جگر سے وابسطہ ہے۔پائوں تلے روندی جانے والی جڑی بوٹیاں امراض جگر میں تریاقی صفات رکھتی ہیں۔عمومی طورپر اونٹ کٹارا کو سوائے ایک خاردار بڑی بوٹی سمجھنے اور اسے کاٹ کر پھینک دینے کے علاوہ کوئی مصرف نہیں سمجھتے۔آئے اونٹ کٹارا کا سلسلہ میں کچھ فوائدلکھتے ہیں۔ جگر ہمارے جسم کا ایک انتہائی اہم حصہ ہے۔ جدید تحقیق کی رو سے جگر کے امراض وائرس کی وجہ سے ہوتے ہیں اور ان کو ہیپاٹائٹس کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے اور ان کی اقسام میں ہیپاٹائٹس G,E,D,C,B,A شامل ہیں۔ زیادہ تر ہیپاٹائٹس C، B,A پائے جاتے ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہیپاٹائٹس A ترقی یافتہ ممالک کا مرض ہے۔ہیپاٹائٹس B جنسی تعلقات سے پھیلتا ہے اور یہ مرض تیزی سے پھیل رہاہے۔ اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس C کا مشاہدہ کیا گیا ہے اور یہ بھی جگر کو ناقابل، تلافی نقصان پہنچاتا ہے Milk Thistleجگر کے لئے آب حیا ت یرقان، لیور سروہسز، فیٹی لیور، ھیپاٹائٹس میں کراچی میں اسٹیڈیم روڈ پر مشہور ٹائم میڈیکوز پر اکثر ادویات اور دوسری کچھ گروسری وغیرہ لینے جاتا رہا ہوں۔ یہاں میں نے اکثر لوگوں کو ملک تھسل( Milk Thistle) کے امپورٹڈ کیپسول خریدتے دیکھا کرتا تھا جو کہ امریکہ سے امپورٹڈ ہوتے تھے اور پلاسٹک کی بڑی عمدہ باٹل میں بہترین پیکنگ میں ہوتے ہیں۔ یہ کافی مہنگے ہوتے ہیں۔ ہزار ملی گرام کے 50 کیپسولز کی باٹل دو سے ڈھائ ہزار روپے۔ سو کیپسولز کی باٹل پانچ سے چھ ہزار روپے اور دو سو کیپسولز کی باٹل دس سے بارہ ہزار روپے ۔ آپ اب بھی بڑے فارمیسی اسٹورز پر اس کے امپورٹڈ کیپسولز کی قیمت چیک کرسکتے ہیں۔ خریدنے والوں سے پوچھنے پر یہی معلوم ہوتا تھا کہ یہ ھربل دوا ہے جو جگر کے سروسز ( liver cirrhosis) ہیپاٹائٹس اور جگر کے دوسرے شدید سنجیدہ نوعیت کے امراض کے لئے بہت مفید ہے۔ لیور سروہسز میں جگر سکڑ کر سخت ہوجاتا ہے اور سمجھئے کہ یہ مرض کی آخری اسٹیج ہوتی ہے۔ اکثر بہت زیادہ عادی شرابیوں کو یہ مرض ہوجاتا ہے۔ ہم شروع میں یہی سمجھتے رہے کہ یہ کوئ بہت نایاب اور قیمتی چیز ہے جس کے کیپسولز امریکہ سے آتے ہیں۔ بعد میں جب اس پر تحقیق کی تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور پاکستان کی ھربل فارمیسیز اور دیسی ادویات بنانے والوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہا۔پتہ چلا کہ پاکستان میں یہ بوٹی منوں اور ٹنوں کے حساب سے ہوتی ہے۔ یہ کانٹوں دار جھاڑی ہے جس کا پھل اونٹ بہت رغبت سے کھاتا ہے اس لئے اس کو اونٹ کٹارا کہا جاتا ہے۔ یہ ایک کانٹوں دار جھاڑی نما پودا ہے جو خشک اور ریگستانی علاقوں میں بکثرت پیدا ہوتا ہے۔ اس پر بہت خوبصورت جامنی رنگ کے پھول لگتے ہیں. اس کے زرد اور سفید پھول بھی ہوتے ہیں۔ یہ جڑی بوٹی سندھ سے لے کر پنجاب اور خیبرپختونخوا تک روڈ سائیڈ پر اور گندم کی فصل کے درمیان اور سائیڈوں پر بے حساب پائی جاتی ہے۔زیادہ تر لوگ اس کوبیکار جڑی بوٹی سمجھ کر اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ اونٹ کٹارا تقریباً 2000 سال سے جگر اور پتہ کی مختلف بیماریوں میں استعمال ہو رہا ہے۔اونٹ کٹارا کا موثر جز سیلی می رین ( Silymarin ) اس کے بیجوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔اونٹ کٹارا کی دوائیں یورپ اور امریکہ میں جگر کی مختلف بیماریوں کے علاج کیلئے بہت پاپولرہیں۔ ملک تھسل کے خلاصے کے کیپسول امریکہ اور یورپ سے بڑی مقدار میں درامد ہوتے ہیں جو اچھے بڑے ڈرگ اسٹورز اور ڈپارٹمنٹل اسٹورز پر دستیاب ہیں۔ ملک تھسل کی وجہ تسمیہاس کا انگریزی نام پتوں کی ایک خصوصیت سے اخذ کیا گیا ہے جن پر سفید رنگ کے چھینٹے سے پڑے ہوتے ہیں۔ ۔ تاریخی طور پر، ان دودھیا چھینٹوں کو مدر مریم کا دودھ کہا جاتا تھا، اور یہ سینٹ میری تھیسٹل کے نام سے بھی مشہور تھا۔معروف طبیب جناب محمود بھٹہ صاحب لکھتے ہیں کہ” میری نظروں میں اس دور میں تین دواؤں کی بڑی اھمیت ھے بلکہ دوائیں تو کچھ اور بھی ھیں لیکن تین اھم نباتات ہیں جن میں ایک اونٹ کٹارا ہے بلکہ اونٹ کٹارا اس وقت پوری دنیا میں ہر شہر میں باآسانی دستیاب ھوتا ھے ہربل اور نیچرل دوائیں جہاں بھی دستیاب ھیں وہاں اونٹ کٹارا لازماً دستیاب ھے اب کیوں دستیاب ھے اس کی وجہ بھی بتائے دیتا ہوں۔ کچھ اسلامی ممالک کو چھوڑ کر پوری دنیا میں شراب پینے پہ تو پابندی نہیں ہے اب یہ الگ بات ھے کہ وہاں بھی کثیر تعداد میں لوگ موجود ہیں جو اس امرت کو نجس یا بدن کے لئے اپنی صحت کے لئے مضر سمجھتےہیں۔ ۔ اب جو لوگ اسے زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں یا جن کا روانہ کا دھندا ہی اسے پینا ہے تو ان کے جسم میں ایک علامت پیدا ہوتی ھے جسے ہم اپنی زبان میں بادی کہہ سکتے ہیں جبکہ یورپین اسے( اوک) کا نام دیتے ہیں۔ یہ جگر کا فعل خراب ہونے سے ہوا کرتی ھے یعنی ان کا جگر نہایت
The description of olive in the Holy Quran and its medical benefits
The description of olive in the Holy Quran and its medical benefits قرآن پاک میں زیتون کا بیان ۔اور طبی فوائد وصف زيت الزيتون في القرآن الكريم وفوائده الطبية حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو زیتون کا پھل اور پتوں کا استعمال۔ ماہیت۔ یہ بیر کی شکل کا پھل جس کا سائز بڑے بیر کی طرح کا اور گٹھلی ویسی ہوتی ہے۔اس کا ذائقہ کسیلا ہوتاہے۔ زیتون کا پھل اور پتوں کا رس نچوڑ کر اسے اتنی دیر لگائیں کہ وہ شہد کی مانند گاڑھا ہوجائے ۔ اس کے کلیاں کریں تومنہ کے اندر زخم ٹھیک ہوجاتے ہیں ۔مسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں ۔اس میں سرکہ یا سپرٹ ملا کر سر پر لیپ کرنے سے گنج اور داء الثعلب میں مفیدہے۔اس لیپ میں شہد ملاکر زخموں پرلگانے سے ان کی سرخ اور تعفن دورکرتاہے اگر زخم پر چھلکا آیا ہوتو اسکے لگانے سے وہ اتر جاتاہے۔اس کے مسلسل لیپ سے پھنسیوں اور چیچک کے داغ دورہو جاتے ہیں اس کی گٹھلی کو پیس کو اور چربی میں حل کرکے لگانے سے ناخنوں کامرض ٹھیک ہوجاتاہے۔ زیتون کے پتوں کو گھوٹ کر لگانے سے پسینہ کی شدت میں کمی آجاتی ہے۔ان پتوں کا ضماد جمرہ داد قوبا پتی اورنملہ کو نافع ہے ۔خراب اور گندے زخموں پر لگانے سے ان کی بدبو دور کرکے جلدٹھیک کر دیتاہے۔جنگلی زیتون کے پتوں کا پانی کان میں ڈالنے سے کان بہنے بند ہوجاتے ہیں ۔اگر اس میں شہد ملا کر گرم گرم ٹپکائیں تو کان کی پھنسی میل کی زیادتی اور اس سے پیدا ہونے والے بہرہ پن میں مفید ہے۔پتوں کو سرکہ میں جوش دے کر کلیاں کرنے سے دانتوں کا دردجاتارہتا ہے۔زیتون کی لکڑی کو آگ لگاکر جلائیں تو اس سے نکلنے والا تیل پھیپھوندی سے پیدا ہونے والی تمام زیتون کا اچار بھوک بڑھاتاہے ۔زیادہ مقدارمیں قبض کشا ہے۔بہر حال ہوتاہے۔بہت لذیذ ہے اور مجھے ذاتی طور پر بہت پسند ہے۔ روغن زیتون یا زیتون کےتیل کا استعمال۔بیرونی استعمال۔ روغن زیتون کو درد اعضاء فالج اوجاع مفاصل عرق النساء اور دوسرے امراض میں تحلیل و تسکین کی غر ض سے مالش کرتے ہیں بدن کی خشکی کو دور کرنے اور جلدکے خشک امراض مثلاًچمبل اورخشک گنج میں لگاتے ہیں ۔روغن زیتون باقاعدگی سے سرپر لگانے سے نہ تو بال گرتے ہیں اور نہ ہی جلد سفید ہوتے ہیں ۔تیل اس کی مالش سے داد اور بھوسی زائل ہوجاتے ہیں ۔کان میں پانی پڑا ہوتو زیتون کا تیل ڈالنے سے یہ پانی نکل جاٹاہے۔آگ سے جلے ہوئے اعضاء کی سوزش کو تسکین دینے کیلئے مرہم بناکر استعمال کرتے ہیں اسے مرہم میں شامل کرنے سے زخم جلد بھر جاتے ہیں ۔ ناسور کومندمل کرنے کوئی دوائی زیتون سے بہتر نہیں ۔ضعیف خصوصاًلاغرو ضعیف بچوں میں اس کو بدن پر ملتے ہیں ان کے جسم سے ضعیف و لاغری دور کرتاہے۔بعض اطباء کے نزدیک اس کی سلائی باقاعدہ آنکھ میں لگانے سے آنکھ کی سرخی کٹ جاتی ہے اورموتیا بندکر کم کرنے میں مفیدہے بعض طبیب اس کی مالش کو مرگی کیلئے مفید قرار دیتاہے عضو مخصوص پر مالش سختی موٹاپا پیدا کرتی ہے اور محرک باہ ہے۔ اندرونی استعمال۔ پانی میں روغن زیتون ملاکر پینے سے پرانی قبض جاتی رہتی ہے۔روغن زیتون معدہ اور آنتوں کے اکثر امراض میں پینا مفید ہے۔پیچش میں فائدہ مند ہے۔پیٹ کے کیڑے ماردیتاہے۔گردہ کی پتھری توڑ کر نکلتاہے۔استسقاء میں مفید اور پیشاب آور ہے۔ منہ کے زخموں کو جلد مندمل کرتاہے گلے کو صاف کرتاہے قبض قروح مقعد شقاق مقعد بواسیر خونی و بادی اور حصات المرار کیلئے مفید ہے اندرونی اعضاء اور سوزش کو تسکین دیتاہے۔پتہ کی سوزش کے مریضوں کو بنیادی طور پر چکنائی سے پرہیز کرایاجاتاہے۔مگر روغن زیتون ان کیلئے مفید ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس مقصد کیلئے تین سو ملی لیٹر روغن زیتون پالاکرنالیوں سے سدے نکالنے کاکام لیا بعض اوقات اسی عمل کے دوران پتہ کی پتھریاں بھی نکل گئیں ۔ جب ورم آمعاء سدے کی وجہ سے قولنج ہو تو گلیسرین اور روغن زیتون پچکاری کرنا مفید ہے قوت باہ کو تقویت دینے کے لئے مفیدومجرب ہے۔ روغن زیتون زہروں کا تریاق۔ تیزابی زہروں کے علاج میں عام طور پر قلوی ادویہ دی جاتی ہیں جبکہ قلوی زہروں کا اثر زائل کرنے کیلئے تیزابی دوائیں استعمال ہوتی ہے۔اس لئے زہروں کے فوری علاج میں اگر زہر سے واقفیت نہ بھی تو اکثر اوقات دودھ استعمال کیاجاتاہے۔مگر روغن زیتوں وہ منفرد دوائی ہے جوہر قسم کی زہروں کے اثر کو زائل کرنے کے ساتھ ساتھ معدہ اور آنتوں کے مضر اثرات کو ختم کرتاہے۔ سنکھیا کے زہر خودرنی میں اندرونی علامات سے قطع نظرخرابی کا اصل ذریعہ معدہ اور آنتوں میں سوزش ہے کیونکہ سنکھیاکھانے کے فوراًبعد آنتوں میں خراش کی وجہ سے اسہال شروع ہوجاتے ہیں تھوڑی دیر کے بعد دستوں کے ساتھ خون آنے لگتاہے۔اس کے بعد آنتوں میں زخم اور سوراخ ہوجاتے ہیں اندرونی اثرات کے علاوہ اتنا کچھ ہی موت کاباعث ہوسکتاہے۔ان حالات میں مریض کو زیتون کا تیل بار بار پلایا جائے تو وہ آنتوں کے زخموں کو مندمل کردیتاہے۔سوزش کو ختم کردیتاہے۔اسکے ساتھ اگر لعاب بہی دانہ بھی شامل کرلیاجائے تو فوائد میں اضافہ ہوتاہے۔ا سکے یہ لاجواب اثرات ہر زہر کا تریاق ہے ۔جو تیز جلانے والی اور آنتوں یا گردوں میں زخم پیدا کرتی ہو جیسے کینتھراڈین وغیرہ۔ قرآن پاک میں زیتون کا بیان ۔ ترجمہ ’’قسم ہے انجیر کی اور قسم ہے زیتون اور قسم ہے طور سیناکی اور قسم ہے اس امن والے شہر کی (النین) ترجمہ ’’یہ وہی اللہ ہے جو آسمان سے پانی برساتا ہے اس پانی کو انسان پیتے ہیں اور اسی پانی سے درخت اگتے ہیں ۔جن پر تم اپنے جانور چراتے ہو اسی پانی سے وہ تمہارے کھیتوں کو اگاتاہے اور زیتون اور کھجور اور انگور اور دوسرے پھل اگتے ہیں (النحل) ارشادت حضورﷺ(زیتون کے بارے میں ) حضرت السید الانصاریؒ روایات فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔’’زیتون کے تیل کو کھاؤ اور اس کی جسم پر مالش کروکہ یہ ایک مبارک درخت سے ہے ‘‘ ’’حضرت علقمہ بن عامرؒ روایات فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے لئے زیتون کا تیل موجود ہے اسے
Medical Benefits of Used Tobacco،حقے کا استعمال شدہ تمباکو(گُل) کے طبی فوائد۔
Medical Benefits of Used Tobacco Medical Benefits of Used Tobacco حقے کا استعمال شدہ تمباکو(گُل) کے طبی فوائد۔ الفوائد الطبية للتبغ المستعمل حررہ عبد فقیر۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ لاہور حقے کا مستعملہ تمباکو کے فوائد۔ دیہاتی لوگ حقے کو کھاتےپیتےگھرانے کی علامت تصور کرتے ہیں۔پنجاب کی سر زمین میں حقے کا نام عظمت اور مہمان نوازی کی علامت سمجھا جاتاتھا۔جب کسی مہمان سے میزبان کے بارہ میں پوچھا جاتا،تو حقے پانی کے ذریعہ اچھائی یا برائی کی جاتی مثلاََ کسی نے مہمان کی تواضع میں غفلت برتی تو کہہ دیا جاتا اس نے حقے پانی کا بھی نہ پوچھا۔اسی طرح اگر کسی کی کاطرح تواضع اچھے انداز میں کی جاتی تو کہتا جناب جاتے ہی اس نے حقے پانی کی کمی نہ آنے دی۔ یہ تو ہوا پنجاب کا کلچر ہمارا موضوع ہے حقے اور اس میں جلنے والے تمباکوکی طبی اہمیت؟ پنجاب یا ہمارے میوات میں لوگ حقے کا استعمال کرتے ہیں۔شوقین لوگ صبح و شام حقہ تازہ کرتے ہیں۔یعنی اس میں استعمال ہونے والے پانی کو بدلا جاتا ہے۔اس کی نے صاف کی جاتی ہے۔اس کی چلم(ٹوپی)کو صاف کیا جاتا ہے۔عمومی طورپر حقےکے نچلے حصے میں استعمال ہونے والا پانی ضائع کردیا جاتا ہے۔ لیکن دیہاتی لوگ معالج کی تجویز پر کچھ امراض کےلئے اس پانی سے دوا کھاتے ہیں یعنی بدرقہ بناتے ہیں۔پہلے تو اس کے خواص معلوم نہ تھے لیکن میدان طب میں آنے کے بعد معلوم ہوا کہ اعصابی امراض میں اگر مناسب انداز میںاستعمال کیا جائے تو تریاقی صفات کا ھامل ثابت ہوتا ہے۔اس کے پانی میں کسی قدر نشہ پایا جاتا ہے۔اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب میرے چھوٹے بھائی محمد عباس مرحوم کو میں نے ایک دوا حقے کے پانی کے ساتھ تجویز کی،اس نے پانی زیادہ مقدار میں استعمال کیا تو اگلے دن اس نے بتایا کہ کل حقے کے پانی پینے کے بعد سارے دن نشہ کی حالت میں ہرا۔میں نے اس کا تجربہ کئی دوسرے مریضوں پر کیا تو اس کی بات سچی نکلی۔ بلغی کھانسی۔رطوبتی امراض میں حقے کی استعمال شدہ باقیات بہت موثر ہوتی ہیں۔مرگی کے مریض جوکہ عمومی طورپر اعصابیت کا شکار ہوتے ہیں انہیں مناسب مقدار میں حقے کا پانی پلانے سے فائدہ ہوتا ہے۔اسی طرح جن لوگوں کو کھانے کے فورا بعد گیس کی شکایت ہوجاتی ہے،اگر ایک دو گھونٹ پلادیں تو گیس بننا بند ہوجاتی ہے۔ اسی طرح بہنے والے زخموں کو ا س پانی سے دھویا جائے تو ریشہ بہنا بند ہوجاتا ہے۔ حقے کے استعمال شدہ پانی کے وسیع استعمال لاتےہیں مگر صفحات محدود ہیں ،یہ بحث کسی اور وقت کے لئے اٹھائے رکھتے ہیں۔ کچھ فوائد حقے کے استعمال شدہ گڑ اور تمباکو کے بتاتے ہیں۔ایسی کھانسی میں جس میںبلغم اور ریشہ کی کثرت ہو ۔حقے کے گل۔یعنی حقے میں استعمال شدہ گڑ اور تمباکو کو باریک پیس کر نیم گرم پانی سے کھلادیں بلغمی علامات/کھانسی وغیرہ کو فائدہ ہوگا۔۔ کالی کھانسی میں کمال فایدہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اگر شوگر کا زخم رسنا بند نہ ہوتوحقے کے پانی سے دھوکر حقے کا گل کا سفوف اور چھڑک دیں،زخم مندمل ہوجائے گا۔ گل کا سفوف بناکر رکھیں جن لوگوں کے دانتوں مین ٹھندک گرم لگنے کی تکالیف ہیں انہیں بطور منجن استعمال کرائیں،تو دانتوں کی ھساسیت سے نجات مل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جہاں کسی عضلاتی دوا کی ضرورت ہو لیکن اس وقت موجود نہ ہو اسے کام میں لایا جاسکتاہے؛ سگریٹ نوشی کے نقصانات تمباکو خشک گرم تاثیر رکھتاہے یعنی عضلاتی غدی تاثیر کاحامل هے جہاں اطباء حضرات اسے مختلف امراض میں استعمال کراتےہیں تو یہ صرف ضرورت کےوقت اہمیت اختیار کرجاتاہے کیونکہ منشی اشیاء کب اور کہاںاستعمال کرانی چاہئے یہ ایک طبیب هی جانتاہے مگر جو افراد اسے اپنا شعار و شوق بنالیتےہیں وہ کینسر جیسےموذی امراض میں مبتلاہوجاتےہیں تمباکو بذات خود عضلاتی غدی شدید هے اور کینسر والےکی تحریک بھی عضلاتی غدی هی هوتی هے . ستم بالائےستم تو یہ ه کہ اس زہر کو بذریعہ دھواں اندر دھکیلنا انتہائ مضر اور پھپھروں کی تباہی کا پیش خیمہ هے آئیں ذرا تمباکو نوشی اور چائےکی تباہکاریوں پر ایک تحقیقی نظر ڈالتےهیں .
Dehaqani treatment is my experience
Dehaqani treatment is my experience دہقانی علاج میرے مجربات علاج دحقاني هو تجربتي دہقانی علاج میرے مجربات Dehaqani treatment is my experience علاج دحقاني هو تجربتي حررہ عبد فقیر۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ لاہور زندگی میں بہت سی روز مرہ استعمال ہونےوالی اشیاء ہیں جنہیں ایک ماہر و باخبر طبیب ادویاتی مقاصد کے لئے کام میں لاسکتا ہے۔مگر طبیب کا خواص الاشیاء کا جاننا اورادویہ کے طبی رخ کا سمجھنا از بس ضروری ہے،طبیب جب خواص الادویہ پر عبور حاصل کرلے گا تو مریضوں کے لئے غذا اور دواء تجویز کرنے میں دشواری سے بچے گا۔ دہقانی نسخوں کی کامیابی کاراز۔ دیہاتی لوگ اپنی ضروریات اور امراض کے نسخہ جات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں ۔گائوں میں ایک آدھا بزرگ مرد/عورت ایسا ضرور پایا جاتا ہے جو سینہ بسینہ کچھ نسخے وراثت میں اپنے بڑوں سے پاتا ہے،یہی دہقانی نسخہ جات ان کی وجہ شہرت ہوتے ہیں ۔ہمارے بچپن کےچند واقعات حاضرخدمت ہیں۔ موتی جھیرا کی تشخیص ہمارے گائوں میں دادا ابراہیم نامی شخص ہواکرتے تھے ،دور و نزدیک سے ان کے پاس لوگ بخار والے بچوں کو دکھانے لاتے تھے۔وہ سینہ سے قمیص اٹھاکر دیکھتے اور بتادیا کرتے تھے کہ اسے نمونیہ یا موتی جھرہ ہے کہ نہیں؟۔اگر کسی کابخار نہ ٹوتا اس سے مشورہ لیتا وہ اپنے تجربہ سے بتاتے کہ کچھ دانے باقی ہیں جب موتی جھرہ کے وہ دانے بھی نکل آئیں گے تو بخار ٹوٹ جائے گا۔ ڈاڑھ درد کے معالج دوسرے شخص بابا ممن ہوا کرتے تھے کھیتی باڑی کرتے تھے ،ان کے پاس لوگ داڑھ دانت کے درد میں مبتلا جاتے تھے۔وہ کماد(گنے) کے کھیت سے کوئی جڑی بوٹی اکھاڑ کر لاتے اور ہتھیلی پر مسل کر اس کا پانی جس طرف ڈاڑھ میں تکلیف ہوتی ،اس طرف کان میں ڈال دیا کرتے تھے۔فورا درد بند ہوجاتا۔ایسا بھی مشاہدہ کیا گیا کہ داڑھ کا کیڑا تک تھوک کے ساتھ نکل آیا کرتاتھا۔ ہمارے استاد جی بچوں کے معالجی کے ماہر ہمارے امام مسجد اور سب سے پہلے استاد جناب حاجی عبد الشکور مرحوم گولیاں بنایا کرتے تھے جو بچوں کے سانس میں تنگی میں دیا کرتے تھے۔ایک دن دیکھا کہ انہوں نے ہم بچوں سے درخت ارنڈ کی کونپلیں منگوائیں،ہم نے لاکر دیں،انہوں نےشوخ نیلے رنگ کی ایک ڈلی نکالی(یہ نیلے تھوتھے کی ڈلی تھی جسے ہم نے زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا) اور پتھر کی سل پر رکھ کر دونوں کو کچلا جیسے دیہاتوں میں سل باٹ پر مرچیں پیسا کرتے ہیں،جب اچھی طرح دونوں اجزاء مل گئے تو اس ملغوبہ کی گھریلو مکھی کے برابر بڑی احتیاط سے گولیاں بنالیں۔سوکھانے کے بعد انہیں شیشی میں محفوظ کرلیا۔ گائوں کی عورتیں پسلی چلنے والے بچوں کو دم کرانے لیکر آتیں ،حاجی صاحب مرحوم دم بھی کرتے اور ان گولیوں سے دو چار گولیاں بھی کاغذ کی پوڑیہ میں لپیٹ کر تھمادیتے کہ ان گولیوں کو ماں کے دودھ یا حقے کے استعمال شدہ پانی سے گھس کر بچے کو پلادیں۔اس سے بچے کو لیسدار قسم کا پاخانہ یا قے آتی بچہ اسی وقت کھیلنے لگ جاتا،گویا کہ یہ دو اجزائی نسخہ جمے ہوئے لیسدار بلغم کو نکالنے کا بہترین عمل تھا ۔ بچوں کے سوکڑے کا معالج راقم الحروف نے ایک دیہائی سے زائد عرصہ مسجد میں امامت و خطابت،درس و تدریس کے فرائض سر انجام دئے۔اس وقت حکمت سے اپنی سوجھ بوجھ نہ تھی البتہ چند نسخے بناکر رکھ لیا کرتا تھا،ان سے جیب خرچ کا اتنظام ہوجایا کرتا تھا۔ میرے پاس سوکڑے کے مریض بچے لائے جاتے تھے،لوگوں کا یقین ہوتا تھا کہ انہیں نظر لگی ہے یا سایہ ہے۔دم کرانے سےآرام آجائے گا،میں دم بھی کرتا اور انہیں دوا بھی بناکر دیتا۔ میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ گھریلو مکھی سوکڑے کا بہترین علاج ہے۔اندھے کو کیا چاہئے دو آنکھیں،لوگ بچوں کی بیماری سے پریشان، علاج کے طالب ہوتے،میں انہیں مکھی کے پر اور ٹانگیں الگ کرکے گڑ میں لپیٹ کر گولی بناکر دیدیا کرتا تھا کہ ماں کے دودھ کے ساتھ صبح و شام یا پھر روزانہ ایک گولی گھس کربچے کو پلادیا کریں۔ جب قے ہونے لگ جائے تو بس کردیں ۔جب تک بچہ مکھیاں ہضم کرتا رہے۔سمجھو سوکڑے کے چنگل میں گرفتار رہے جیسے ہی بچہ قے کرتا سوکڑے سے باہر آجاتا ،کیونکہ تندرست بچہ مکھی ہضم نہیں کرسکتا۔ اگر کہیں مکھی کا فقدان ہوتا تو چینی یا شکر دیتا کہ یہ دم والی شکر کو بھینس کی چگالی سے پیدا ہونے والی جھاگ سے دیدیا کریں۔ بنیادی طورپر بھینس کی چگالی کے چند قطرے سوکڑے کے بچے کو پلانے سے سوکڑا سے شفاء کا سبب بنتا ہے۔ اس کے علاوہ بلغمی دمہ کے لئے حقے کی ٹوپی میں رکھا ہوا تمباکو اور گڑ کی جلی ہوئی راکھ پیس کر نیم گرم پانی سے ایک تا دو ماشہ دینے سے بلغم ختم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح بلغمی کھانسی کے لئے کچھ ادویات حقے کے پانی کے ساتھ کھلانے کی تجویز دی جاتی تھی۔۔یہ طویل مضمون کے اس پر پھر کبھی لکھا جائے گا۔
Digital marketingڈیجیٹل مارکیٹنگ
Digital marketing ڈیجیٹل مارکیٹنگ التسويق الرقمي ڈیجیٹل مارکیٹنگ کیا ہے؟ آج کے جدید دور میں ٹیکنالوجی نے انسان کا کام بہت آسان کر دیا ہے اب کاروبار کرنا اور پیسہ کمانا بہت آسان ہے لیکن اسکے لئے آپ کے پاس ڈیجیٹل ہنر ہونا بہت ضروری ہے جسے استعمال کرتے ہوئے آپ گھر بیٹھ کر کاروبار کر سکتے ہیں اور اپنے لئے ایک اچھی آمدنی بنا سکتے ہیں How to make money from internetانٹرنیٹ سے پیسہ کیسے کمائیں ۔ اس موضوع کو پڑھنے کے بعد ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے حوالہ سے آپ کے علم میں کافی حد تک اضافہ ہو گا ڈیجیٹل مارکیٹنگ تیزی سے پھلتی پھولتی جارہی ہے ، آئے دن نت نئی اسٹڈیز اور رپورٹس بھی اس رحجان کی بھرپور غمازی کرتی ہیں۔ دنیا کے سر فہرست مصنفین اوربلاگرز جدید ترین مارکینگ معین پر سرعت سے تکنیکس پر لکھ رہے ہیں اور بعض تو زبر دست مانگ رکھنے والی ان تکنیکس کو سمجھنے