People of India(ہندوستان کے لوگ) مصنف جناب چوہدری ظفر صاحب مرحوم لکھتے ہیں پیش لفظ ان اوراق پر جو کالے کالے داغ ہیں ۔ میرے دماغ کی سوچ کے صفحہ دل کے وہ دھندلے نقوش ہیں جو میرے ملک کی چلتی پھرتی ہے بس زندہ لاشوں پربرطانو وی سامراج کی بدولت دیکھنے میں آئے ۔ جیل کی تنگ و تار خلوت نے مجبور کیا۔ تو ٹوٹی ہوئی قلم کی زباں سے خون جگر کو بطور روشنائی استعمال کر کے لکھنا شروع کیا۔ آپ اسے میری تصنیف نہیں بلکہ تالیف سمجھئے ۔ زبان کو لچھے دار الفاظ سے آراستہ نہ کر سکا ۔ نہ ہی موقعہ تھا کہ عوام یعنی جنتا کی زندگی سے متعلقہ ہاتوں کو وسعت دے کر لکھتا ۔ اور نہ ہی حالات نے اجازت دی ۔ یہ مختصرواقعات متعدد کتابوں سے اخذ کر کے پیش ناظرین کر رہا ہوں ۔ رہائی کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ اب جنگ کی بدولت تمام پرانے نقشے یکسر بدل چکے ہیں۔ اس لئے اس زمانہ اسیری کے صحیح نقشے کو شائع کرتے کے لئے تمام کاروبار کو ادھورا چھوڑنا پڑتا تھا ۔ مگر اس آڑے میں محترم پروفیسر جید یوسیٹھی صاحب کا سپاس گزار ہوں جنہوں نے تازہ تازہ انکشاف کے ذریعہ کتاب کے مرتب کرنے میں اعانت کی مخلص۔۔۔ظفرچوہدری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندوستان کے لوگ مصنف: ظفر چوہدری۔ پبلشر: جنتا پبلشرز لمیٹڈ لاہور یہ کتاب غالباً 1942-43 میں شائع ہوئی تھی جس میں مصنف نے درد دل بیان کیا یے۔۔وہ ٹوڈی جو برطانوی راج کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں یہ کتاب انہیں آئینہ دکھانےکے لئے کافی ہے۔ اسے اول تا آخر بار بار پڑھا ہے میں نے اور ہر بار پڑھ کر سامراج سے نفرت میں اضافہ ہوا۔ اسے ہر طالب علم اور ہر باشعور شخص شخص کو پڑھنا چاہیے ،،،، ڈائون لوڈ کے لئے اس لنک پر کلک کریں
Mewati language, an important seat
Mewati language, an important seat میواتی زبان، ایک اہم بیٹھک Mewati language, an important seat لغة المواتي مقعد مهم حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی۔1۔سعد طبیہ کالج۔2۔سعد ورچوئل سکلز میواتی ماں بولی کا حوالہ سو کال جناب سکندر سہراب میو۔مشتاق احمد میو امبرالیا۔شکر اللہ میو۔۔فاروق جان میو۔ڈاکٹر فاروق میو۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو نے ایک بیٹھک کری۔جامیں میواتی جبان کا بارہ میں بات چیت ہوئی۔مختلف مشاورت اور ادارہ کرا گیا کہ میواتی جبان کے مارے جو کچھ بن پڑے کرنو چاہئے۔ سکندر سہراب میو صاحب نے ایک نظم لکھی اور مشتاق احمد میو امبرالی نے پڑھی اورسعد ورچوئل سکلز (ادارہ)میں اڈیٹنگ کری گئی۔ آج 22 فروری کے دن :میواتی ماں بولی”کا حوالہ سو نیٹ پے اپلوڈ کردی جائے گی۔۔ سکندر سہراب نے کہو”۔۔۔۔ ایک جمانو ہو جب دلی پے میون کو جھنڈو لہراوے ہو تاریخ بتاری ہے کہ دلی اڑنگ پال تومر میو نے بسائی ہی، میرا خیال میں نہ ای دلی ہے اور نہ ای دہلی ہے بلکہ ای نام ہو دَہِیلی۔جاسو فارسی اور میں دہلیز کہوا ں ہاں یعنی آج کی دلی ہندستان کی دہیلی ہی جاکو مطلب “دار الخلافہ” ہو مطلب ای سہر ہندستان کو دروجو ہو۔ای کئی بَر اُجڑی اور کئی بَر بسی۔ یاکو آخری میو راجہ اڑنگ پال تومر میو ہو۔ یاکو بیٹو کوئی نہ ہو۔پرتھوی راج (اجمیر کو راج کمار)اڑنگ پال کو نواسو ہو۔ نوں تو مہاراجہ اڑنگ پال تومر میو کے کئی چھوری ہی۔ لیکن اَپر واہے اجمر کو پرتھوی بھائیو۔ آخری عمر میں راج گدی پرتھوی راج کے حوالے کرگو۔ دلی کی گدی پے بیٹھے ای پرتھوی تور ای بدل گیا۔ واجمانہ میں دلی میں ای میو ہا۔ اور تومرن کو راج ہو یامارے ان کی تعداد گھنی ہی۔ تومر پال نےیاپے اعتراض کرو ہو تو مہاراجہ اڑنگ پال نے پرتھوی راج سو کہی ۔ “بیٹا میری پال ناراج ہے۔کہ تومر کی گدی تومر پے رہنی چاہئے۔ تو یاہے ہیٹی دیدے۔پرتھوی نے پنس کے کہی۔”نانا راج پاٹ لیکے کون ہلٹو دیوے ہے”۔ یابات پے تومر دلی چھوڑ کے باہر پہاڑن پے جابسا۔ ای تو ایک زرا سی بات ہہی نہیں تو سچی بات ای ہے کہ مہابھارت میون کے بہچ ہوئی مطلب ای کہ کورو پانڈو دونوں دھڑا میو ہا۔ آپس میں ٹکرانیا دونوں میو ہا۔ اور تاریخ اٹھا کے دیکھو ہندستان پے میون نے ہجاروں سال حکومت کری ہے رگو پتی راجہ، رام مہارا ج رام چندر جی کی نسل (سورج بنسی کی)سات پال ہاں ۔ بات لمبی ہوجائے کائی وقت پھر یاموضع پے لکھو جائے گو میوانی جبان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1۔۔۔۔۔۔ میں بولی برج بھیانہ کی میں پالی راج گھرانہ کی میں رانی ایک جمانہ کی موئے عادت نائے سہانا کی میں بولی برج بھیانہ کی ۔۔۔۔۔۔۔2۔۔۔۔۔۔ میں راتن میں دیوالی ہوں میں ساون کی ہریالی ہوں میں راج محل کی پالی ہوں میں سو بھا، راج گھرانہ کیا میں بولی برج بھیانہ کی ۔۔۔۔۔3۔۔۔۔۔۔۔ میں پیاری بارے پالن کی میں لاڈو باون گوتن کی میں بولی محل مینارن کی موئے عادت راج گھرانہ کی میں بولی برج بھیانہ کی ۔۔۔۔۔4۔۔۔۔۔۔ میں الور ،جود، بھرت پور میں، میں ہوں میوات کا گھر گھر میں، میر و ڈنکوبا جو جگ بھر میں موئے کھا گی نجر جمانہ کی میں بولی برج بھیانہ کی ۔۔۔۔5۔۔۔ میں بولی رام کنہیا کی میں بولی بیر سپیا کی میں بکرماجیت کی بولی ہوں میں بولی کا کورانا کی میں بولی برج بھیانہ کی ۔۔۔۔۔6۔۔۔۔۔۔ اب اپنا مو ہے چھوڑ گیا کیں جانےوے منہ موڑ گیا کیں میرا مان ہے تو ڑگیا ۔ موئے پڑ گی جان بچانا کی میں بولی برج بھیانہ کی ۔۔۔۔7۔۔۔۔۔۔ میں بولی اونچی جاتی کی اونچو جھنڈو لہراتی کی میں یاد ہو آتی پاتی کی یہ ناہاں بات بتانا کی میں بولی برج بھیانہ کی …..8………. جب چرچا رہی بناتی کی۔ گونج ہی آتی پاتی کی اورچھب میلالے جاتی کی میں رانی گیا جمانہ کی میں بولی برج بھیانہ کی
Use of Bahi in Prophetic Medicine for Heart Patients
Use of Bahi in Prophetic Medicine for Heart Patients دل کے مریضوں کے لئے طب نبویﷺ میںبہی کا استعمال استخدام الباهي في الطب النبويﷺ لمرضى القلب حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو مقوی دل نسخہ۔۔سفرجل سفرجل(بہی) شکل میں کچھ حد تک سیب اور ناشپاتی کی طرح ہوتا ہے، جب پک جاتا ہے تو سنہری پیلے رنگ کا ہوتا ہے ، اور اس کا وزن 250-750 گرام کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ بہت سے اہم غذائی اجزاء اور طاقتور اینٹی آکسیڈنٹس کا ذریعہ ہے بہی (سفر جل) کو ہندی میں بیل، فارسی میں شُبل، سنسکرت میں وسعت کی دیوی، انگریزی میں Quince کہتے ہیں یہ ایک سیب کی شکل کا پھل ہے جو جنگلوں میں خودرو بھی ہے اور کاشت بھی کیا جاتا ہے۔ ہندی دیو مالا کے مطابق یہ پھل زرخیزی، وسعت رزق اور فارغ البالی کی علامت ہے۔ اسے بھگوان سوکاپرتو قرار دے کر ہندو اس کی پوجا کرتے ہیں اور مندروں میں پوجا کے دوران اس کی موجودگی باعث برکت خیال کی جاتی ہے۔ quince کے فوائد طب کی دنیا میں، کوئنس کو اس میں موجود ٹیننز کے مواد کی بدولت ایک کسیلی دوا سمجھا جاتا ہے ، جس کے جسم کے لیے بہت سے فوائد ہوتے ہیں۔ اسے اینٹی آکسیڈنٹس، فائبر اور مخصوص غذائیت کی بدولت ایک طاقتور سوزش اور بیماری کو دور کرنے والا بھی سمجھا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہی (سفرجل) خصوصیات و افادیتاحادیث کی روشنی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اپنی حاملہ عورتوں کو سفرجل کھلایا کرو کیونکہ یہ دل کی بیماریوں کو ٹھیک کرتا ہے اور لڑکے کو حسین بناتا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سفر جل کھاؤ کیونکہ یہ دل کے دورے کو ٹھیک کرکے سینہ سے بوجھ اتار دیتا ہے، یہ دل کو طاقت دیتا ہے، سانس کو خوشبودار بناتا ہے احادیث کی روشنی میں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ اس وقت اپنے اصحاب کی مجلس میں تھے ان کے ہاتھ میں سفرجل تھا جس سے وہ کھیل رہے تھے جب میں بیٹھ گیا تو انہوں نے اسے میری طرف کرکے کہا۔ اے اباذر! یہ دل کو طاقت دیتا ہے، سانس کو خوشبودار بناتا ہے اور سینہ سے بوجھ کو اتار دیتا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ”سفر جل کھاؤ کیونکہ یہ دل کے دورے کو ٹھیک کرکے سینہ سے بوجھ اتار دیتا ہے (القالی، فی امالیہ، حوالہ کنزالعمال) سفرجل کھانے سے دل پر سے بوجھ اتر جاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اپنی حاملہ عورتوں کو سفرجل کھلایا کرو کیونکہ یہ دل کی بیماریوں کو ٹھیک کرتا ہے اور لڑکے کو حسین بناتا ہے۔ محدثین کے مشاہدات احادیث میں فوائد کے سلسلہ میں دو اہم ارشادات نظر آتے ہیں۔ ”تجم الفواد“ اور ”البطخائ“ اس کی تشریح میں محدث ابو عبیدہ کہتے ہیں کہ جیسے آسمان پر ابر آتے ہیں اور پردہ سا پڑ جاتا ہے اسی طرح بطخاءدل کی وہ کیفیت ہے جس میں دل کے پردے دندھلے ہوجاتے ہیں اور ان پر پانی پر جاتا ہے یہ (Pericarditis) کی مکمل کیفیت ہے۔ عام طور پر فواد کے معنی دل کا دورہ ہے۔ جو کے دلیا کے فوائد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایات میں فواد کا لفظ اکثر جگہ استعمال ہوا جس کا عمومی مفہوم دل پر بوجھ یا دورہ ہی سمجھا جاتا ہے جب یہ لفظ ”تجم الفواد“ کی صورت میں سفر جل کے بارے میں مذکور ہوا تو حافظ ابن القیم رحمتہ اللہ علیہ اس کی تشریح میں کہتے ہیں کہ یہ دل سے سدوں کو نکالتا ہے، اس کی نالیوں سے رکاوٹ کو دور کرتا ہے اور انہیں وسیع کرتا ہے اس سے دل کی وہ کیفیات بھی مراد ہیں جب وہاں پر پانی اکٹھا ہوکر اس کی کارگزاری کو متاثر کرے۔ غلط تاثر دور کیجئے زیادہ بہی کھانے سے جذام کا خطرہ ہوتا ہے یہ بات قطعاً غلط ہے کیونکہ جذام ایک متعدی بیماری ہے جوکہ جراثیم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے بہی کھانے سے کبھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ اطباءکرام کے مشاہدات ۔ . .1میٹھا سفر جل ٹھنڈک پہنچاتا ہے جبکہ کھٹا قابض ہوتا ہے۔ .2معدہ کیلئے مقوی اور مصلح ہوتا ہے۔ .3پیاس کو کم کرتا ہے۔ .4قے کو روکتا ہے ۔ .5پیشاب آور ہے۔ .6پیٹ کے السر میں مفید ہے۔ .7ہرنیا کا بہترین علاج ہے۔ .8خون پیدا کرتا ہے۔ .9دل اور جگر کو تقویت دیتا ہے۔ .10بھوک کو بڑھاتا ہے۔ .11اس کے کھانے سے جگر کے سدے کھل جاتے ہیں۔ .12جن عورتوں کو مٹی کھانے کی عادت ہو اگر وہ بہی کھائیں تو مٹی کھانے کی عادت جاتی رہے گی۔ .13زیادہ کھانے سے ہچکی آتی ہے۔ .14رعشہ، قولنج اور پیچش پیدا ہوتا ہے۔ .15کھانسی کی شدت کو کم کرتا ہے۔ .16اس سے منہ کے چھالے اور گلے کے چھالے مندمل ہوجاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وساطت سے پہنچا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اسے نہار منہ کھایا کرو اس کا مربہ دل کے مریضوں، پرانی کھانسی، دمہ، پرانی پیچش میں بہت زیادہ مفید ہے۔ سفر جل کے مزید فوائد۔۔۔۔ کوئنس ایک غیر معمولی پھل ہے جس کا سیب اور ناشپاتی سے گہرا تعلق ہے۔ اس کا سائنسی نام Cydonia Oblonga ہے، اور یہ اس کی نسل Cydonia کا واحد رکن ہے۔ ہم کوئنس کو سیب اور ناشپاتی کے قریبی رشتہ دار کے طور پر کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک خوشبودار پھل ہے جس کا تعلق Rosaceae خاندان سے ہے۔ کوئنس شاید ہی کبھی کچا کھایا ہو لیکن کھانا پکانے میں استعمال کیا جاتا ہے جہاں صرف ایک چھوٹا سا پچر ایک خوشگوار پھل کی خوشبو کا استعمال کرتے ہوئے پوری ترکیب فراہم کرسکتا ہے۔ یہ حیرت انگیز پھلوں میں سے ایک ہے لیکن ہر کوئی اسے نہیں جانتا۔ یہ عام طور پر درمیانے درجے کے نیم اشنکٹبندیی پرنپاتی درخت ہوتے ہیں، جو تقریباً 10 یا 15 فٹ تک بڑھتے ہیں۔ لمبا گلابی
سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم من القرآنThe biography of the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) from the Qur’an
The biography of the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) from the Qur’an سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم من القرآن ڈائون لوڈ لنک پی ڈی ایف ای بک کے بارے میں مختصر معلومات سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم من القرآن :کتاب کا نام : سید محمد رضوان /انتظام اللہ شہابی جامعین اردو :زبان (ُPdf)پی ڈی ایف :فارمیٹ 1.98 MB :سائز 96 :صفحات >> Please Like Our Facebook Page for More Beautiful Books and Novels <<
اردو کےکچھ اشعار جو ضرب المثل ہوئے۔
اردو کےکچھ اشعار جو ضرب المثل ہوئے۔ اردو کےکچھ اشعار جو ضرب المثل ہوئے۔ Some Urdu poems that became proverbs. بعض القصائد الأردية التي أصبحت أمثال. وہ اشعار جن کا ایک مصرعہ ضرب المثل کی حد تک مشہور ہوا جبکہ دوسرا وقت کی دھول میں کہیں کھو گیا قياسي *وہ اشعار جن کا ایک مصرعہ ضرب المثل کی حد تک مشہور ہوا جبکہ دوسرا وقت کی دھول میں کہیں کھو گیا* ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام *بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا* (مصطفیٰ خان شیفتہ) گلہ کیسا حسینوں سے بھلا نازک ادائی کا *خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے* (سرور عالم راز سرور) داورِ حشر میرا نامہ اعمال نہ دیکھ *اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں* (ایم ڈی تاثیر) *میں کِس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں* ***تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے*** (مصطفیٰ زیدی) ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن *دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے* (مرزا غالب) قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو *خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو* (میانداد خان سیاح) غم و غصہ، رنج و اندوہ و حرماں *ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے* (حیدر علی آتش) مریضِ عشق پہ رحمت خدا کی *مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی* (نا معلوم) آخر گِل اپنی صرفِ میکدہ ہوئی *پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا* (مرزا جواں بخت جہاں دار) بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر *ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں* (مولانا الطاف حسین حالی) نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی *بہت دیر کی مہرباں آتے آتے* (داغ دہلوی) نہ گورِ سکندر نہ ہے قبرِ دارا *مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے* (حیدر علی آتش) غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سنا تم نے *کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا* (چراغ حسن حسرت) جذبِ عشق سلامت ہے تو ان شاء ﷲ *کچے دھاگے سے چلیں آئیں گے سرکار بندھے* (انشاللہ خان انشاء) قریب ہے یارو روزِ محشر، چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر *جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستین کا* (امیر مینائی) پھول تو دو دن بہارِ جاں فزاں دکھلا گئے *حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے* (شیخ ابراھیم زوق) کی میرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ *ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا* (مرزا غالب) خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھ ہیں *صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں* (داغ دہلوی) چل ساتھ کہ حسرت دلِ مرحوم سے نکلے *عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے* (فدوی لاہوری) مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا *اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا* (میر طاہر علی رضوی) لائے اس بت کو التجا کر کے *کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے* (پنڈت دیال شنکر نسیم لکھنوی) انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے *شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات* (علامہ اقبال) جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو *جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی* (علامہ اقبال) اب اداس پھرتے ہو، سردیوں کی شاموں میں *اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں* (شعیب بن عزیز) جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں *بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے* (پروین شاکر) برباد گلستاں کرنے کو، بس ایک ہی الو کافی تھا *ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا* (شوق بہرائچی) ادائے خاص سے غالبؔ ہوا نکتہ سرا *صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیئے* (مرزا غالب)
10.rules of happiness
خوش رہنے کے دس اصول 10.rules of happiness 10 قواعد للسعادة حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو خوش رہنے کے دس اصول 10.rules of happiness 10 قواعد للسعادة حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو (1)کم الفاظ کا استعمال۔ انسانی اپنی زندگی اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لئے الفاظ کا چنائو کرتا ہے الفاظ انسان کی زندگی کے آئنہ دار ہوتے ہیں۔الفاظ کا چنائو ہر آن و ہر لمحہ جاری رہتا ہے۔مخاطب کے حسب مراتب زبان کھولی جاتی ہے،جو لوگ جامع الفاظ کا استعمال کرتے ہیں،ان کی شخصیت نکھرتی ہے اور عزت و احترام دلوں میں پیدا ہوتا ہے۔اخلاق اور برتائو کا اندازہ الفاظ سے کیا جاتا ہے ،اس لئے بہتر ہے سخت سے سخت موقف کے لئے نرم سے نرم الفاظ کا چنائو کریں۔یہ عقل مند ہونے کے لئے کافی ہے۔کم عقل اور سطحی الذہن انسان اپنے کمزور موقف کے لئے بھی مخاطب کو تکلیف پہنچانے کی نیت سے سخت الفاظ کا چنائو کرتا ہے۔ (2)زیادہ عمل ۔انسانی آبادی کا بیشتر حصہ صرف سوچتا ہے یا دوسروں کے کاموں پر تبصرہ کرتاہے،عمل نہیں کرتا ۔نکمے اور بے کار لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ صرف باتیں کرتے ہیں۔فارغ بیٹھے ہوئے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات ضائع کرتے رہتے ہیں۔کامیابی کے لئے زبان سے زیادہ ہاتھ پائوں چلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔جب انسان ہاتھ کا کردار زبان سے ادا کرتا ہے تو عملی زندگی میں اس کا کچھ حصہ باقی نہیں رہ جاتا۔ کام بذات خود کوئی بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا کام کام ہوتا ہے۔البتہ محنت و مشقت اورضرورت کے اعتبار سے کچھ کاموں کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے اس لئے ا نہیں اہمیت دی جاتی ہے۔ورنہ کوئی بھی کام اپنی نوعیت کے اعتبار سے کم اہمیت نہیں رکھتا۔زندگی خوش حال دیکھنا چاہتے ہین او ر اطمنان سے جنیا چاہتے ہیں تو زبان کے بجائے کام کو اہمیت دیں۔ (3)کم لالچ۔ انسانی زندگی میںبنیادی کردار دفع مضرت اور اخذ منافع کا ہوتا ہے۔ضرورت کی چیز کی طرف انسان لپکتا ہے اور جس چیز سے نقصان کا خطرہ ہو اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔یہی سوچ پوری زندگی پر محیط ہوتی ہے۔۔جو کام نفع کے حصول اور نقصان کے بچائو کے اصل پر نہ ہو اسے فضول کہا جاتا ہے۔ہمیشہ وہ کام کرو جس سے خود کو فائدہ ہو یہ فائدہ دنیا وی اعتبار سے ہو یا آخرت کے اعتبار سے۔اس مین خدمت خلق معاشرتی طورپر جاندار کردار۔اور فلاح انسانیت کے لئے کوشش کرنا۔مطلوب خدا وندی ہے (4)زیادہ دینا۔ انسانی طعیت میں لالچ بھرا ہوا ہے لالچ صرف لینے کی صورت ہوتی ہے۔دینے کی طرف کم ہی مائل ہوتی ہے۔جب کہفطری اصولوں میں سے اہم اصول یہ ہے کہ تم کسی کو عطاء کروگے توتمہین زیادہ دیا جائے گا۔گو دیکھنے میں یہ با ت اُلٹی دکھائی دیتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے زیادہ دو گے تو زیادہ پائوگے۔بتانے کی نہیں یہ کرنے کی بات ہے (5)کم فکرکرنا۔ ۔بہت سارے غم ہمارے ذہنوں میں جنم لیتے ہیں اور پریشان کرتے ہیں۔بیماروں کے ذہنوں میں تو وساوس آتے رہتے ہین لیکن تندرست کہلانے والے بھی بیمارون کی طرح سوچتے اور پریشان رہتے ہیں۔خواہ خواہ کی فکر مندی انسانی زندگی سے راحت و آرام چھین لیتی ہے اس لئے خوش حال رہنا تو اتنا ہی سوچو جتنی ضرورت ہے۔زیادہ سوچ کر خود پریشان مت کرو کیونکہ تم کائنات کے پئے کو گھومنے سے نہیں روک سکتے۔بہتر تدبیر ہی انسان کو آسودہ رکھ سکتی ہے/ (6)زیادہ نیند ۔ ملنا تو اتنا ہی ہے جتنا کروگے التبہ زندگی کی پلاننگ انسان کو بہت سے غیر ضروری بوجھوں سے نجات دینے کا سبب بنتی ہے اسلئے جنتی ضرورت ہو اتنا وقت نیندکے لئے ضرور وقف کریں۔نیند انسان کو راحت بخشتی ہے تھکے توٹے جسم کو دوبارہ سے چست و توانا کرتی ہے۔اس لئئے سونے اور جاگنے کا تعین کام اور تھکاوٹ کے اعتبار سےکریں۔ (7)کم ڈرائیونگ۔ جب انسان نفسیاتی طورپر ناآسودہ ہوتا ہے اپنی نفسیاتی بھوک مٹانے کے لئے مال و دولت یامیسر اسباب کا جاو بے جا استعمال کرتاہے۔اسے امارت یا ہمعصروں میں تفوق سمجھتا ہے۔ جیسے گاڑی کا زیادہ استعمال نفسیاتی تسکین کا سبب بن سکتا ہے صحت کے لئے بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ (8)زیادہ چلنا۔ اللہ تعالی نے زندگی گزارنے کے لئے جسم میں مختلف اعضاء بنائے ہیں انہیں کام کرنے کی طاقت دی ہے مشاہدہ ہے جس قوت سے کام لینا چھوڑ دیا جائے آہستہ آہستہ ہو قوت سلب کرلی جاتی ہے1۔جولوگ پائوں سے کام لینے کے بجائے گاڑی سے لیتے ہیں ان کے پیروں کی طاقت سلب کرلی جاتی ۔اسلئے جو طاقت انسان کو دی گئی ہے اس کا استعمال کریں سواری کے بجائے پیدل چلیں تاکہ طاقت بحال رہے تندرستی برقرار رہے۔ (9)کم غصہ ۔ غصہ کسی حد تو مفید ہوتا ہے لیکن بےکار کا غصہ بات بے بات بھڑک اٹھنا۔ماتحت و کمزور پر ہر وقت تیوری چڑھائے رکھنا۔مرض کی حیثیت سے پہنچانا جاتا ہے۔اگر غصہ کی یہ زیادتی برقرار رہتی ہے تو دوسروں کو نقصان دے یا نہ دے لیکن غصہ کرنے والا مضر اثرات سے محفوظ نہین رہ سکتا ہے۔یہ کیسے ممکن ہے جہاں آگ چلے وہاں سینک نہ پہنچے اور دور بیٹھنے والا متاثر ہوجائے۔آگ تو جہاں جلتی ہے پہلے وہاں جلاتی ہے اس لئے آگ کو جلنے نہ دو تاکہ تم خود بھی جلنے سے محفوظ رہ سکو۔ (10)زیادہ ہنسی۔ مسکرانا یا مناسب موقع پر ہنسنا کمزوری نہیں بلکہ اعلی صفت ہوتی ہے۔مسکراہٹ کا سب سے بڑا فائدہ مسکرانے والے کو ہوتا ہے۔مسکرانے سے ذہنی دبائو اور اندرونی کثافت کے اخراج کا دوازہ ثابت ہوتا ہے۔مسکرانے سے نفسیاتی طورپر اطمنان ملتا ہے۔انسانی نفسیات مین اطمنانی کیفت طاری ہوتی ہے۔ اس لئے دوسروں کے لئے نہیں تو کم از کم اپنے لئے ہی مسکرادیا کرو/
میو قوم آگے بڑھ سکے ہے ۔۔۔لیکن؟؟ قسط نمبر 3۔
میو قوم آگے بڑھ سکے ہے ۔۔۔لیکن؟؟ قسط نمبر 3۔ میو قوم آگے بڑھ سکے ہے ۔۔۔لیکن؟؟ قسط نمبر 3۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو ؛؛؛؛ ای بات کہ میون میں تعصب بہت زیادہ پائیو جاوے ہے میں نے کال لکھو ہو کہ میو قوم میں کچھ ایسی خوبی پائی جاواہاں جنن نے لوگ برائی/کمزوری/عیب بناکے پیش کراہاں۔ جب کہ ہمارو کہنو ای ہے کہ۔یہ عیب نہ ہاں، بلکہ خوبی ہاں۔ بھینگا اے ساری کائنات ای ٹیڑھی دکھائی دیوے ہے۔ ایک نکتہ تو پہلے بتا دئیو ہے۔ دوسرو نکتہ ای ہے :”ان میں تعصب بہت زیادہ پائیو جاوے ہے” نوں کہہ سکو کہ میون میں ایک دوسرا کے مارے گہرا جذبات پایا جاواہاں۔ ایک دوسرا کو احساس موجود ہے۔ آپس میں تو چاہے کتنا ای لڑتا پھراں۔ لیکن اگر کوئی دوسرو ان سو لڑے تو یہ سب اکھٹا ہوجاواہاں۔ اپنی لڑائی چھوڑ کے سب مل کے دوسران سولڑاہاں۔ جب برادری کو نام آجاوے ہے تو سب کچھ پیچھے رہ جاوے ہے بھائی آپس میںنونک جھونک تو زندگی کو احساس ہے ۔ میو ایک دوسرا کو احساس کراہاں۔ برادری ہونا کے ناطےعصبیت پائی جاوے ہے۔ عصبیت اُو صفت ہے جو قوم ایک جوڑ کے راکھن میں مرکزی کردار ادا کرے ہے۔ جب کائی قوم کی عصبیت ختم ہوجاوے ہے تو قوم بکھر جاوے ہے۔ عرب پٹھان میو۔ ترک۔جاٹ وغیرہ قوم تعصب کی وجہ سو زندہ ہاں کہاوت ہے ۔برادری تو کاگن کو بھی پیاری رہوے ہے۔ قوم کے مارےسخت جذبات و احساسات کو ہونو خالص پن کی نشانی ہے۔ جا قوم میں سو عصبیت ختم ہوجائے۔ہولے ہولے مٹ جاوے ہے یا پھر دوسری قومن میں جذب ہوجاوے ہے میو قوم زندہ رہن کے مارے عصبیت سو کام لیوے ہے عصبیت ان کا خون میں شامل ہے۔ عصبیت ڈھیلا سو ڈھیلا میو میں بھی کدی نہ کدی عصبیت جاگ جاوے ہے آج کال پاکستان میں مردم شماری کو کام جاری ہے تاریخ میں پہلی بار میون کو موقع ملو ہے۔ اپنی برادری اور قوم کی شناخت اور پہچان دوسران کو بھی کراواں۔ اپنا نام کے ساتھ میو لکھوواں۔ بتاواں کی میو قوم تعداد کی بہت زیادہ ہے حقوق اور یاکے مارے جائز مرعات ہونی چاہاں۔ قومن کے مارے جو کوٹہ مقرر ہے میون کو بھی ملنو چاہے۔ میون چاہے وے معاشرہ میں اپنی الگ سو شناخت بناواں۔ میو ہونا پے فخر کراں۔۔ایک دوسرا کا بازو بناں۔ قوم مین سب برابر رہوا ہاں ۔اگر امیری غریبی موجود ہے تو ای قدرت کی تقسیم ہے۔۔ہم کمزورن نے ساتھ لیکے چل سکاہاں۔ جو ؛وگ میو بنا پھراہاں ۔لیکن میو کہلوانو اور للکھنومناسب نہ سمجھا ہاں۔ میں نوں کہوں گو یا تو میو نہ ہاں۔ یا پھر غلطی سو کائی دوسرا کو حصہ میون مہیں سرکو ہے میں اللہ کو شکر ہے میو ہوں۔۔اللہ کی یا تقسیم پے گوڈے گوڈے راضی ہوں میں خالق کائنات سو گھنو سیانو نہ ہوں میو کا گھرمیں پیدا ہونو میو بولی بولنو۔ میو کہلوانو میرے مارے فخر کی بات ہے میون میں ایسی کونسی خامی ہے۔جو میو کہلوان سو شرمائوں؟ جولوگ میو کہلوان سو شرماواہاں ۔ اُنن نے صرف دوسرا ن کی بات سنی ہاں اپنا مہیں تو اُنن نے دیکھو ای نہ ہے۔
10.principles of staying healthy
10.principles of staying healthy تندرست رہنےکے( 10) اصو ل (10) مبادئ البقاء بصحة جيدة حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو (1)جوس کا استعمال۔ صحت مند تازہ پھلوں کے جوس کا استعمال انسانی جسم سے تکلیف دہ فضلات کو خارج کرتے ہین اور نمکیات کی کمی پوراکرکے طبیعت میں بہتری لاتے ہیں۔ لیکن نشہ آور مشروبات انسانی گردوں کے ساتھ ساتھ انسانی جسم کے نظامات کو تباہ کرتے ہیں۔ (2) لسی کا استعمال ۔ یا دیسی شکر سے بنا ہوا شربت نظام ہضم اور نظام اخراج کو بہتر بنانے میں بہترین نتائج کا حامل ہے، جو لوگ گرمی کی زیادتی کا شکار ہو۔یا جن کے غدود بڑھ جائیں ۔انہیں چاٹی کی لسی دیسی شکر کے ساتھ استعمال کرنی چاہئے۔چاٹی کی لسی انسانی جسم کی بڑھی ہوئی حرارت کو اعتدال پر لانے کے لئے سستی اور گھریلو ترتیب ہے۔ایسی خواتین جن کا روز بروز جسم بڑھ رہا ہو۔چلنے میں سانس کی دشواری پپیش آتی ہے ۔دل گھبراتا ہو انہیں اس دیسی ٹوٹکے سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔وہ لوگ جنہیں ہر ماہ یا ہر سال ڈریپ لگوانے اور پانی پورا کرنے کے لئے بوتل لگوانی پڑتی ہو۔انہیں لسی کا مناسب استعمال بہترین فوائد دے سکتاہے۔جن لوگوں کو گردوں میں پتھری یا پتہ کی سوزش کا کی شکایت ہو انہیں چاٹی کی لسی ضرور پینی چاہئے۔ (3) چائے۔۔۔ چائے کا زیادہ استعمال انسانی نظام ہضم پر منفی اثرات مرتب کرنے کا سبب ہے۔چاہے پینے والے کے جسم مین پانی کی کمی ہوجاتی ہے کیونکہ چاہئے انسانی جسم میں پانی کی طلب ختم کرنے کا سبب بنتی ہے۔لیکن چائے کا ہم نے ایک مناسب طبی استعمال کیا ہے۔اگر کسی کا پیشاب بند ہوجائے یا گردوں میں تکلیف ہوجائے۔اخراج پیشاب میں دشواری ہورہی ہوتو۔چائے ٹھنڈی کرکے اس مین کچھ پانی ڈال کر پیلانے سے پیشاب کھل کر آنے لگتا ہے۔ (3) گوشت۔ ۔گوشت انسانی جسم کے نئے خلیات کی تشکیل میں معاون ہوتا ہے لیکن اس کا زیادہ استعمال نظام اخراج کے لئے مصٰبت کا بب بنتا ہے بالخصوص کڑھائی۔تیز مرچ مصالحوں والی ہنڈیا،سپائسی کھانے گردن کو رُلا دیتے ہیں۔اگر زیادہ دنوں تک یہ عمل رکھا گیا تو گردوں میں سوزش کا سبب بنتاہے۔ اس لئے گوشت مناسب انداز میں ضرورت کے مطابق کھائیں۔ مزاج کے مطابق ھوشت کا انتخاب کرسکتے ہیں۔جنہیں اعصابی مزاج کا گوشت پسند ہے وہ خرگوش کا گوشت۔جنہین سوداوی مزاج کی ضرورت ہو بھینس کا گوشت جنہیں غدی مزاج درکار ہو گائے جا گوشت جنہیں معتدل مزاج کی طلب ہو وہ بکرےکا گوشت کھا سکتے ہیں (4) سبزیاں سبزیاں زیادہ استعمال کریں۔ انسانی جسم سبزیوں سے خوش رہتا ہے۔ریشہ دار سبزیاں جہاں غذائی ضروریات اور نمکیات کی کمی کو پورا کرتی ہیں وہیںپر نظام ہضم کو منظم رکھتی ہیں،اور نظام اخراج کو بہتر بناتی ہیں۔سبزیوں میں مزاج کے مطابق انتخاب کیا سکتا ہے،مثلاَ گرم مزاج والے گاجر ۔مولی شلجم۔توری۔ بھنڈی ،اروی کھائیں۔بلغمی تکالیف والے کریلے۔مٹر۔بینگن۔آلو۔اچار کھا سکتے ہیں۔سوداوی امراض والے۔جنہیں قبض بواسیر خشکی زیادہ ہو۔انہیں موسمی سبزیاں۔سبزیوں کے جوس ریشہ دار بقولات استعمال کرنا مفید رہتا ہے۔ (5)نمک ۔نمک کا مناسب استعمال انسانی صحت کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ہمارے خون مین اور جسمانی نظام میں نمک اہم عنصر کے طور پر شامل ہے۔خون کے قوام کو معتدل رکھنے اور غدی نظام کے تسلسل کے لئے نمک اہمیت رکھتا ہے۔جن لوگوں کا بلڈ پریشر لو رہتا ہو انہیں نارمل سے کچھ زیادہ مقدار بھی نقصان نہیں دیتی۔البتہ گردوں کے امراض اور ہائی بلڈ پریشر میں نمک کا زیادہ استعمال نقصان کا سبب بنتا ہے (6) سرکہ۔ سرکہ کا استعمال جسم میں بلغم کی بڑھی ہوئی مقدار کو معتدل رکھنے میں مفید کردار کا حامل ہے۔جب بھول ختم ہوجائے،خون میں بلغمی رطوبات کی مقدار زیادہ ہوجائئے۔ماس میں نرمی پیدا ہوجائے۔ہر وقت جسم ناتواں رہنے لگے تو سرکہ کا مناسب استعمال نطام ہضم کو بہتر بنا تا ہے۔بھوک کھل جاتی ہے۔ ایک بات یاد رکھئے اعتدال سے بڑھی ہوئی کوئی بھی چیز نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔جب لوگوں کے جگر میں سکڑائو ۔یا ان کا جگر سکڑ رہا ہو وہ سرکہ کا ہر گز استعمال نہ کریں۔زیادہ مقدار میں سرکہ کا ستعمال جگر میں سکرائو کا سبب بن سکتا ہے (7) چینی۔ چینی،اس صدی کی خطرناک ترین اشیاء میں سے انسانی صحت کو برباد کرنے میں اہم کر دار کی حامل اشیاء میں سے ایک چینی بھی ہے یہ وہ میٹھا زہر جس کے ہم عادی ہوچکے ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے چینی کی جگہ گُڑ یا شکر کا استعمال کیا جائے۔اگر یہ مسیر نہ ہوں تو چینی کا کم سے کم ناگزیر حالت میں استعمال کیا جائے۔ (8) پھل۔ پھل موسمی ہوتو بہت بڑی نعمت ہیں۔لیکن اب ہر موسم میں کوئی بھی پھل مل سکتا ہے۔اس لئے سٹور کئے ہوئے ذخیرہ شدہ پھل قدرتی موسم کے بعد تک دستیاب رہتے ہیں۔لیکن پھل موسمی بہتر ہوتا ۔ہمارے جسم بھی اس کائنات کا حصہ ہے۔جب ہم موسم میں پھلوں کا استعمال کرتے ہین تو ہمارے جسم میں بہت سے بدلائو آتے ہیں ۔صفائی ہوتی ہے۔تکلیف دہ مواد خارج ہوتا ہے۔نمکیات پورے ہوتے ہیں۔موسمی پھل کا مناسب استعمال صحت کی طوالت کا سبب بنتے ہیں / (9)کم کھانا۔ ۔کم کھانے سے مراد یہ نہیں کہ انسان اپنی غذائی ضرورت بھی پورا نہ کرسکے۔کم کھانے سے مراد یہ ہے کہ ایک آدمی اگر پیٹ بھر کر دو روٹیاں کھاتا اور اس سے پیٹ بھرجاتا ہے۔اگر یہی ایک یا ڈیڑھ روٹی کھائے گا تو معدہ ،آنتوں کے لئے اسے ہضم کرنے اور تحلیل کرنے میں آسانی رہے گی۔جسم کے اعتبار سے ہر کسی کی خوراک الگ الگ ہوتی ہے۔کمزور انسان کے لئے اس کے جسم کے مطابق اور طاقتور جسمانی مشقت کرنے والے کے لئے اس کے اعتبار سے کم زیادہ کا تعین کیا جاتا ہے۔کلیہ یہ ہے جتنی طلب ہو اس سے کم مقدار میں کھائے۔ (10)زیادہ چبانا ۔اگر انسان اس راز کو پالے کہ زیادہ جبانے میں کیا فائدے پویدہ ہیں تو شوگر۔قبض۔بواسیر۔ہد ہضمی سر کا درد،پیٹ کا اپھار موٹاپا جیسے وبال جان علامات سے چھٹکارا مل جائے۔قدرت نے بتیس دانت دئے ہیں ۔عمومی طورپر اگر ایک دانت کے حساب سے ایک بار منہ چلایا جائے تو ایک نوالہ(لقمہ)کو 32 بار چبانا ہوگا۔جو لقمہ 32بار چبالے گا اس کی ادویات چھوٹ جائیں
میوقوم آگے بڑھ سکے ہے لیکن
میوقوم آگے بڑھ سکے ہے لیکن میو آگے بڑھ سکے ہے لیکن؟قسط نمبر 2 حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو میں نے کال کا کالم میں لکھو ہے کہ۔۔۔۔ ۔:میوسب سو بڑی خامی ای بتائی جاوے ہے کہ میو ایک دوسرا کی ٹانگ کھینچا ہاں۔کائی آگے بڑھن والا اے برداشت نہ کراہاں،،، میون میں ایک خوبی پائی جاوے کہ یہ کائی تابعداری میں جانو پسند نہ کراہاں بہت سا لوگن کے مارے ایک بہت بڑی خامی اور ترقی کا راستہ میں بڑی رکاوٹ ہے لیکن میری ناقص عقل کے مطابق میو قوم کی ای بہت بری خوبی ہے۔ کیونکہ جھُکنو اور ہر کائی کے آگے ہتھیار پھینک دینو میو کی شان نہ ہے۔ میو تو میدان عمل میں وا لڑاکو گھوڑا کی طرح ہے۔ جو دشمن کے قابو نہ آوے ہے۔ اور مخالفن کی صفن نے چیر دیوے ہے۔ جولوگ میون کی ناماننا کی صفت اے برائی یا اَنک سمجھاہاں۔ وے انسانی نفسیات اور عمرانیات کو علم نہ راکھاہاں۔ ایسا لیڈرن نے چاہئے کہ وے تاریخ کو مطالعہ کراں۔ جاسومیون نے ای خوبی کھل کے سامنے آجائے۔ جو لوگ سوچاہاں کہ چار جلسہ کرکے۔گنڈ گول کرکے میون کا لیڈر کی پھیت اپنا سینہ پے سجا لینگا؟۔ ایسی بات نہ ہے،، لیڈر جلسہ جلوسن سو تونا بنا ہاں۔ لیڈرن کا کام بڑا رہوا ہاں۔۔ یہ قوم کے مارے بھلا کام کراہاں۔ میو قوم کی مثال وا طاقتور گھوڑا کی سی ہے جاکی تربیت کی ضرورت ہے۔یائے سدائو یا کو کام کرن کی تربیت دئیو۔ ۔جیسے جنگی گھوڑا سدایا جاواہاں جب تک کائی کو ٹریننگ نہ دی جائے۔ واسو مطالبہ کرنو فضلو ہے یامارے قوم کی طاقت سو فائدہ اٹھا نو ہے تو یاکو تربیت دینی پڑے گی یاکام کے مارے بہت محنت کی ضرورت ہے۔ قربانی دینی پرے گی۔۔ ایسا منصوبہ بنانا پڑن گا جن سو میون نے یقین ہوجائے کہ یہ ہماری بہتری کے مارے دن رات خدمت میں لگا ہویا ہاں، قوم بات بھی سُنے گی،کہو بھی مانے گی۔ میو قوم اپنا محسنن نے کدی نہ بھولے ہے اگر سمجھا دیا جاوااں تو وعدہ کا پابند ہاں ۔ ہمدرد ہاں ۔۔ایک دوسرا سو محبت راکھاہاں۔ جن لوگن نے میون کی سرکشی پے شکایت ہے وے قوم کی طاقت اے قوم کے مارے استعمال کرن کے بجائے اپنا مفاداتن نے حاصل کرن کے مارے ہاتھ پائوں مارا ہاں۔ قوم سو تو جب گلہ بنے ہے جب کچھ قوم کو دئیو ہوئے۔ جو لوگ کوشش کراہاں قوم انکی قدر کرے ہے۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو ۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Body parts of the Qur’an and medicine
Body parts of the Qur’an and medicine اعضائےجسمانی قران اور طب کی نگامیں أجزاء الجسم من القرآن والطب حکیم المیوت قاری محمد یونس شاہد میو فوأد کیا ہے؟ یہ انسان کیا ہے؟ دیگر بے شمار جانوروں کی طرح اعضاء و جوارح اور ہڈیوں اور گوشت پوست کا مجموعہ ہے۔ اللہ سُبحانہٗ و تعالیٰ نے جس طرح اس کائنات کی مخلوقات میں سے کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ مخلوق بھی بے مقصد پیدا نہیں کی اسی طرح جسدِ انسانی کا کوئی معمولی سے معمولی حصہ بھی بے کار اور فالتو نہیں بنایاہے۔ اعضائے انسانی میں سے تقریباً ہراہم عضو کا ذکر ہمیں قُرآن حکیم میں ملتا ہے۔ 1۔ پیشانی، پہلو اور پیٹھ کا ذکر بھی کئی مقامات پر آیا ہے۔ سورہ توبہ کی 35 ویں آیت میں سونے چاندی کے ڈھیر جمع کرتے جانے اوراس جمع کیے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز کرنے والوں کے بارے میں بتایا گیا ہے: یَوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وَ جُنُوْبُھُمْ وَ ظُھُوْرُھُمْ ’ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنّم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں ، پہلووں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔‘ 2۔ ہماری زبانوں اور ہاتھ پائوں کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: یَوْمَ تَشْھَدُ عَلَیْھِمْ اَلْسِنَتُھُمْ وَ اَیْدِیْھِمْ وَ اَرْجُلَھُمْ بَمَا یَعْمَلُوْنَ (نور:24) ’اُن کی اپنی زبانیں ، اور ان کے اپنے ہاتھ پائوں اُن کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے۔‘ 3۔ چہروں ، پیشانی کے بالوں اورقدموں کا تذکرہ دیکھیں کس انداز میں آیا ہے: یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْمٰھُمْ فَیُوئْ خَذُ بِالنَّوَاصِیْ وَ الْاَقْدَامِ’ مجرم وہاں اپنے چہروں سے پہچان لیے جائیں گے اور انہیں پیشانی کے بال اور پائوں پکڑ پکڑ کر گھسیٹا جائے گا۔‘ 4۔۔ پیٹھ کے لیے ظَہْر اور سینے کے لیے صَدْر کے الفاظ کے علاوہ پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے لیے الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ کے الگ الفاظ بھی ہمیں سورہ الطّارق میں ملتے ہیں۔ 5۔ سر کے لیے واحد کے صیغے میں رَاْس سات مرتبہ اور جمع کے صیغے میں رُئُ وْس گیارہ مقامات پر ہم دیکھتے ہیں۔ 6۔آنکھوں اور کانوں کے لیے اَعْیُنٌ اور اَذَانٌ بھی مذکور ہوئے ہیں۔ 7۔ سینے کے لیے صَدْر اور صُدُوْرکے الفاظ پینتالیس چھیالیس جگہوں پرآئے ہیں۔ 8۔ دل کے لیے واحد اور جمع دونوں صورتوں میں قَلْب اور قُلُوْب کے الفاظ تو کوئی 132بار ہمیں نظر آتے ہیں۔ 9۔ پیٹ کے لیے واحد اور جمع کے صیغے میں بَطْن اور بُطُوْن کے الفاظ متعدد بار آئے ہیں۔ 10۔ سورہ اٰلِ عمران کی چھٹی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ تخلیق کے ذکر میں رحمِ مادر کا ذکر یوں کیا ہے: ھُوَ الَّذِیْ یُصَوِّ رُ کُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَیْفَ یَشَآئُ ’وہی تو ہے جو تمہاری مائوں کے پیٹ (رحم) میں تمہاری صُورتیں جیسی چاہتا ہے ، بناتا ہے۔‘ 11۔ سورہ البقرہ کی 19ویں آیت میں اَصَابِعَھُمْ (ان کی انگلیاں )سورہ الحآقّۃ میں ذِرَاعاً کی صورت میں بازووں کا ذکر ہے۔سورہ الکہف میں اصحابِ کہف کے کتے کے ذکر میں بھی یہ لفظ بطورِ تثنیہ استعمال ہوا ہے۔ 12۔ سورہ المائدۃ کی چھٹی آیت میں وضو کے حکم میں چہرے، ہاتھوں ، کہنیوں ،سروں اور ٹخنوں کا ذکرہے ۔ 13۔ اسی سورہ کی 45 ویں آیت میں قصاص کی ذیل میں آنکھ اور کان کے علاوہ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ اور وَالسِّنَّ بِالسِّنَّ ِّ یعنی ناک کے بدلے ناک اور دانت کے بدلے دانت جیسے ظاہری اعضا کوہم مذکور دیکھتے ہیں ۔ 14۔ سورہ البلد میں دو آنکھوں اور زبان کے ساتھ شَفَتَیْنِ یعنی دو ہونٹوں کے بارے میں بھی پڑھتے ہیں ۔ 15۔ گردن کے لیے رَقَبَۃٍ اور عُنُق دونوں لفظ قرآن پاک میں موجود ہیں ۔ ان بہت سے اعضاء و جوارح کا تذکرہ کتابِ مبین میں دیکھ کر مدت سے یہ سوال ذہن میں پیدا ہو رہا تھا کہ آخر انسانی کھوپڑی کے اندر کا وہ عضوِ رئیس اس فہرست سے کیوں خارج رکھا گیا جسے ہم دماغ ،مغز یا بھیجا کہتے ہیں ؟ سورہ الانبیاء کی اٹھارھویں آیت میں دماغ کے مادے سے لفظ یَدْمَغُہٗ آیا ہے لیکن مترجمین و مفسرین نے اس سے سر پر لگنے والی ایسی چوٹ مراد لی ہے جس کا اثر دماغ تک پہنچے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دماغ بجائے خود کیا چیز ہے؟ جدید سائنس نے اس کے بارے میں بہت سے حیران کن حقائق کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیے ہیں ۔ ایک سو بلین یا ایک کھرب عصبی رگوں کا یہ حیرت خیز مجموعہ جو سارے جسم کے عصبی نظام کا مرکز ہے۔ عصبی نظام کے تمام اعلیٰ مراکز اسی کے اندر پائے جاتے ہیں ۔ر وزانہ خیالات کی 70 ہزار لہریں اس سے اٹھتی اور اس کے خلیوں سے گزرتی ہیں ۔ عجائباتِ قدرت کے اس مجموعے کے بارے میں ان تحقیقات کو پڑھ اور سن کر اور زیادہ حیرت ہوتی ہے کہ قدرت کے اس عظیم شاہ کار کو قرآ ن مجید میں کیوں بیان نہیں کیا گیا۔ سطورِ بالا میں سورتوں اور آیات کے نمبر کے حوالوں کے ساتھ انسانی وجود کی مشین کے باہر اور اندر کے پرزوں کے نام گنوائے گئے ہیں ۔ ایک عظیم پرزہ ایسا ہے جس کا واحد کے صیغے میں پانچ بار اور جمع کے صیغے میں گیارہ مرتبہ ذکر اللہ کی پاک کتاب میں آیا ہے ۔ اس پرزے کا ذکرکئی مقامات پرواحد اور جمع کے صیغے میں دو اور پرزوں کے ساتھ آیا ہے۔ اس کی غیر معمولی اہمیت و خاصیت کی وجہ سے خالِق نے اس کے ساتھ شکر گزاری کا تقاضا کیا ہے۔کہیں اس نعمت سے نوازنے کی بات کر کے فرمایا:’شاید کہ تم (اتنی بڑی نعمت پر) شکر ادا کرو‘ اور کہیں یہ فرمایا کہ تم اس متاعِ گرانمایہ کو پانے کے باوجود کم ہی شکر ادا کرتے ہو۔ اس بے مثال پرزے یا نعمت کا قرآنی نام بطورِ واحد فواْداور جمع کے صیغے میں افئِدۃ ہے۔یہاں صرف شکر کے لفظ کے ساتھ آنے والی آیات درج کی جا رہی ہیں ۔ وَ اللّٰہُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْ م بُطُوْنِ اُمَّھَاتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا وَّ جَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْئِدَ ۃَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (النّحل:78) ’اللہ نے تم کو تمہاری مائوں کے پیٹوں سے نکالااِس