میو،میوات اور کالو پہاڑ Meo, Mewat and Kalu mountains اِت دلی اُت آگرو، اُت الور بیراٹھ کالو پہاڑ سہائونو جاکے بیچ بسے میوات میو،میوات اور کالو پہاڑ Meo, Mewat and Kalu mountains حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو ارئوالی پربت میوات کوعظیم ترین تاریخی پہاڑ ہے جاسو میو کالو پہاڑ کہواہاں۔ یا پہاڑ نے تاریخ کا بہت بڑا بڑا حادثات دیکھا ہاں یاکا دامن میں بڑی بڑی جنگ لڑی گئی ا ور بڑا بڑان کا گمنڈی سر نیچا ہویا۔کالو پہاڑ دیس بھگتی،وفاداری مہمان نوازی،بہادری،قول و قرار کی پختگی کو استعارہ ہے کالا پہاڑ کے ساتھ ساتھ میوات کی آبادی ہے۔ ای پہاڑ دِلی سو شروع ہوکے پورا میوات سو گزرے ہے کالا پہاڑ کی لازوال چٹانن پے میو سوُرمان کی داستان لکھی پڑی ہاں۔جا کی گواہی ہندستان کی مستند تاریخ دیواہاں یاپہاڑمیں کہیں بلبن آ کے ٹکرائیو تو کہیں علائوالدین کو جلال بُجھو۔کالا پہاڑ نے بسر الدین اور خضر خاں کاارادہ بھی کمزور کراہاں لودھی بھی ہین ٹکراتا رہا ہاں۔ جب بھی کوئی میوات پے چڑھ کے آئیو تو اُنن نے ناہر خان میواتی اور حسن خان میواتی جیسی چٹانن سو ٹکرانو پڑو بابر نے ٹِل لگالیا کہ میوات اے مٹادئے۔ لیکن واکا بس کی بات نہ ہی کالو پہاڑ میواتی تاریخ کو خزانہ ہے۔ یاکاپتھر ن سو میو مانوس ہاں یاسوُ پیار کراہاں۔یامیں اُن کا پرکھن نے ہڈی دفن ہاں۔ کالو پہاڑ قدرتی طورپے میوات اےتین حصان میں تقسیم کرے ہے (1)پہاڑ اُوپرــ(2)اریس(3)بھیانہ۔ یا پہاڑ کا مغربی (پچھمی )حصہ سو پہاڑ اُوپر کہوا ہاں۔ جامیں تجارہ،کشن گڑھ ۔تپوکڑہ۔ ہواڑی۔ اورتائوڑو آدھی چھیتر آواہاں کالا پہاڑ کا نچلا حصہ سو ۔آریس۔ کہوا ہاں جامیں فیروز پور جھرکہ،نگینہ،مالی کھیڑہ۔کوٹلہ، نوح۔آدھی چھیتر تیسرو پورب (مشرقی)والو حصہ جو پَلگوا سو لیکے پوڈل تک پھیلو پڑو ہے یا علاقہ سو برج بھیانہ کہوا ہاں یا میںپلگنوا۔بچھور۔سنگھار۔پنہانہ،کوٹ آدھی چھیڑ آواہاں 1947ءبوڈل،حسن پور بھی میوات میں شامل ہا جاسو برج میوات کہوے ہا۔ کالا پہاڑ میں قدر رتی وسائل کو بہت بڑو خزانہ ہے بے شمار قسم کا درخت جھنڈ جھاڑ۔قیمتی جڑی بوٹی۔ قیمتی پتھر اور مقامی آبادی کے مارے زندگی گزارن کابہت وسائل ہاں۔یاکی قدرتی تقسیم ایسی ہے، جاسو معاشی و معاشرتی جنگی،مذہبی،تمدنی ضروریات وابسطہ ہاں۔ فوجی لحاظ سوُ کالا پہاڑ کو بہت اہمیت دی جاوے ہی۔ آج بھی کالا پہاڑ پے کئی فوجی چھائونی۔قلعہ۔اور دیگر عمارات کا کھنڈرات پایا جاواہاں۔ قلعہ کوٹلہ۔قلعہ اندور۔قلعہ الور،قلعہ آزان گڑھ،۔گر دھمینہ۔ کالا پہاڑ کی دین ہاں۔ میوون کی پہلی راج دھانی۔کوٹلہ اور آخری راج دھانی الور کالا پہاڑ کے اُوپر ہی قائم ہوئی ہی۔کالا پہاڑ میں آج تک میون کابہادرن کی چنگھاڑ گونجاہاں۔ کالا پہاڑ سیاسی سماجی وتمدنی اہمیت کے ساتھ ساتھ مذہبی اعتقادات کو بھی گڑھ ہو۔ میوات کا مزارات دنیا بھی میںمشہور ہاں۔ ان مزارات سو میوات کی عقیدت جُڑی پڑی ہے مسجد ،مندر، مزارات کی مشہوری بہت گھنی ہے۔ شاہ معین الدین چشتی۔شاہ چوکھا۔میراں سید۔شیخ موسی۔ کوٹلہ کی مرکزی مسجد اور شیوجی کو مندر بہت مشہور ہاں۔ کالا پہاڑ کا درہ کدی فوجی چھائونی کے کام آوے ہا۔ لیکن آج کل اِن دروان میں میون کی بسارت پائی جاوے ہے مشہور گائوں جیسے کوٹلہ۔راسینا۔سرہاٹہ ادی ان ہی دران میں ہاں میوات کا تاریخی مقامات۔نوح فیروز پور جھرکہ۔سونا۔الور آدی یائی پہاڑ کی بغل میں بسا ہویا ہاں۔ قدرتی طورپے کالا پہاڑ میں قدرتی چشمہ۔جھیل۔ اور جھرنا پایا جاواہاں سوہنا کو گرم چشمہ۔ تجارہ کو سونا مکھی کو گرم چشمہ۔فیروز پور جھرکہ کی جِھر کالا پہاڑ کی نشانی ہاں۔
Quran Ki Sciency Tafseer ،قرآن کی سائنسی تفسیر
Quran Ki Sciency Tafseer ،قرآن کی سائنسی تفسیر Link
Al Shareya.Randan 29023,الشریعہ رمضان
Al Shareya.Randan 29023,الشریعہ رمضان ڈائون لوڈ لنک
،قرانی اورمسنون دعائیں۔
،قرانی اورمسنون دعائیں۔ ڈائون لوڈ
تاریخ افغانستان
تاریخ افغانستان ڈائون لوڈ لنک
میون کابالکن کی تعلیم کو پرُانو طریقہ
میون کابالکن کی تعلیم کو پرُانو طریقہ میون کابالکن کی تعلیم کو پرُانو طریقہ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو میون کا بالن کی منجھائی کرنو۔بڑان کو حق سمجھوجاوے ہو میو قوم میں عبادت کو شوق تو بچپن سو ای پیدا ہوجاوے ہے کیونکہ میون کا بالکن کی دیکھ بھال میں ماں باپ کے ساتھ دادا۔دادی۔نانا۔نانین کو بھی بہت بڑو کردار رہوے ہو باپ تو باہر کاکامن نے بھگتاوے ہو، یامارے اولاد کا مہیں دھیان دینو بہت مشکل رہوے ہو۔یامارے باپ یا بوجھ سو اَلکھت رہوے ہو۔البتہ کدمی مدی ماں دَھمکاوے ہی کہ تو کہو نہ مان رو ہا ۔تیرا باپ اے آ لین دے۔ تیری مرمت کروائونگی۔باپ بالن کی مرمت خوش دلی سو اور اپنو فرض سمجھ کے کرے ہو۔لپڑ تھپڑ تو معمولی بات رہوے ہی چاچا، تائو، بھی کدی مدی ہاتھ سینک لیوے ہا۔بالکن کے مارے انصاف کا سارا دروازہ بند رہوے ہا۔ کیونکہ بالن کے لپڑ تھپڑ مارنو، بڑان کو حق مانو جاوے ہو مار کھانو۔جھڑک کھانو، بچنان پے لازم رہوے ہو۔ میو ن کا بالک اکثر چلبلا رہواں،اوگن گارا۔اور شرارتی ہا مار کھاکے بھی،اُن کو موڑ کدی بھی خراب نہ ہوے ہو۔ بڑا، بوڑھان کو کہنو ہو۔ماں باپ کی مار اولاد کے مارے ایسے رہوے ہے جیسے فصل کے مارے بارش۔ میون کا بالکن کی جفاکشی کو اندازہ یاسو لگا سکو ہو جب میونی بالکن کو لوری(سونا سو پہلے کو لاڈ پیار)دیوے ہی تو کہوے ہی۔ بات کہوں بتکا کی۔تیرا سر میں ماروں کُتکا کی۔ کُتکا پڑو بجار میں۔گنڈہ روواں جوار میں۔ اندزہ کرو۔جا کی لوری میں کٹکا پڑتا ہوواں وائے بڑو ہوکے لڑن سوُ کون روک سکے ہے؟ جب ہمارا گھر والان نے مدرسہ میںداخلہ دیوائیو تو استاد صاحب کو مخلصانہ انداز میں مشورہ دئیو استاد جی ۔ماس تیرو ۔ہڈی ہماری۔بے فکر ہوکے یائے پڑھا۔۔اللہ کو شکر ہو کہ استاد نے ماں باپ کا مہیں دئیو گئیو حق اچھا انداز میں استعمال کرو ہو اچھی طرح کاٹے ہو۔لودھڑی سو ُکڑی اے اُوسیل دیوے ہو۔جب مار مار کے من نہ بھرے ہو تو کھجور کی سوٹی ،یا تونت کی چھمک سو خبر لیوے ہو آج کل کی اولاد ہمارا دُکھ اے نہ سمجھ سکے ہے۔ اگر کوئی سکول یا مدرسہ سو بُھگ جاوے ہو تو گھر والان کے کوئی فکر نہ ہی۔ای خدمت بھی استادجی کے ذمہ رہوے ہی۔ کیونکہ کلاس میں کچھ خدائی خدمت گزار ایسا رہوے ہا پڑھنو تو اُنن نے کہا رہوے ہو۔لیکن غیر حاضر بالکن نے ڈھونڈ کے لانو اور استاد جی کےسامنے پیش کرن کو ہنر خوب جانے ہا جادن سکول کا ہرکاران کے ہاتھ لگ جاوے ہا ۔تو ماس کا حقوق تو پہلے ای اُستاد کو مل چکا ہووے ہا۔پھر کہا۔ہاتھن کی ٹھلین نے پھوڑ دیوے ہو۔کئی دن تو استنجا سو بھی ڈر لگے ہو۔ کئی تو بالک تو ایسا اَوگن گارا رہوے ہا۔جو استاد جی کی چاپلوسی میں ماہر ہا۔لیکن کلاس کے ساتھ ان کو سلوک اچھو نہ ہو آج بھی دل کرے ہے، اُنن نے معاف نہ کروں۔ لیکن گئیو وقت ہلٹو تھوڑو آوے ہے۔ اللہ انن نے بھی خوش راکھے جو پڑھے ہا۔ اور انن نے بھی جو زبردستی پڑھاوے ہا۔ اور جو مظلوم تھاڑ سو پڑھایا گیا ہا۔ میواتی تعلیم کو سلسلہ جاری ہے۔ باقی فرصت میں لکھونگو۔
میو کی ہاتھ سو بنی سیمی (سویاں)
میو کی ہاتھ سو بنی سیمی (سویاں) حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔ ہم نے یا چھوٹی سی زندگی میں کتنا بدلائو دیکھا ہاں بچپن کی یاد ۔بیتا لمحات۔مائی ،دادین سو، سُنی بات ایسے لگے ہے، کال کی بات ہووا ں۔ میو گرمین میں فرصت کا لمحات میں گھرن میں سیمی بناوے ہا،جن کے پئے،چرخری ہی ،وے تو واسو سیمی بنا لیوے ہا،جنکے پئے چرخری نہ ہی وے ہاتھ سو بَٹ لیوے ہا۔کچھ بیربانی۔ گھڑا موڈھو مار کے ،واپے سیمی بٹے ہی، سیمی بنان کو خاص طریقہ ہو۔یاکے مارے چَھری چھوری بڑی بوڑھین کا تجربہ سوُ فائدہ اُٹھاوے ہی۔ جادن گھر میں سیمی کری جاوے ہی، وادن مرد مانس بھی ہاتھ بٹاوے ہا۔بالک چھوٹا بھی خوشی خوش کام کرے ہا۔ سیمی بنان کے مارےسب سو پہلے۔باریک لتا میں چون چھانو جاوے ہو۔پھر وائے خاص سلیقہ سوُ گوندھے ہا گھاٹ کا سیرو پے چرخری باندھی جاوے ہے۔ جان والا چرخری اے گھوماوے ہا۔ ایک بیڑا بنا کے چرخری میںدیوی ہی۔ دوسرو۔سیمین نے توڑ کے کھلی تھاں میں بندھی رسی یا تار کے سکھاوے ہو۔ بالک چھوٹان نے بہت چائو رہوے ہو لیکن بڑا اُنن نے مار کے بھگا دیوے ہا۔ میری زندگی کو یادگار واقعہ ہے۔ ایک بار میری والدہ مرحومہ نےسیمی بنائی۔ میرو بڑو بھائی۔چرخری گھومارو ہو۔مائی پیڑہ بناکے مشین میں لگاری ہی۔ موجود دو بڑا بھائی سیمین نے دھوپ میں سکھارا ہا۔ میں بچپن سو کچھ ضدی طبیت کو مالک ہو۔ جلدی روس جاوے ہو۔ اگر کوئی مار چھیڑے ہو تو ہسانس توڑ جاوے ہو۔ یامارے موسوکوئی کچھ نہ کہوے ہو۔ مائی کہوے ہی۔کچھ بھی کرلئیو ۔اَپر یاسوکچھ مت کہئیو۔ ای ہسانس توڑ دئیگو۔موئے بھی کائی حد ت کاپنی اہمیت کو اندازہ ہو۔ موقع محل کی مناسبت سو فائدہ بھی اُٹھالیوے ہو خدا کو کرنو ایسو ہوئیو۔ مائی بیڑا بنان کے مارے۔پانی لین چلی گئی۔ بڑو بھائی سیمی سکھان چلوگئیو۔ سبن سو بڑو بھائی ہتھی پے ہو۔ موقع دیکھ کے میں چرخری کا مہیں دیکھ کے غور کرن لگو۔ دیکھو کہ چرخری کی گراری میں تھوڑو سو چون لگو۔ گھوم رو ہو میں نے سو چو۔ یائے آنگلی سو آگے پیچھے کردئیوں۔ مشین میں آنگلی دیدی۔دیکھتے ای دیکھتے چوں کو فوارو نکلو شہادت والی آنگلی۔ کو نہوں اُکھڑ کے الگ ہوگئیو۔ آج بھی میری شہادت کی آنگلی کو نہوں۔ایک گھاں سو چاند کی صورت میں بنو پڑو ہے۔ میں نماز میں جب اشہد ان اللہ پے آنگلی کھڑی کروہوں تو اکثر سیمین والو واقعہ یاد آجاوے ہے۔ سیمی کرنو ایک ہنر اور تجربہ ہو۔ خالص دیسی چون سو میدہ نکالو جاوے ہو پھر یائے بھونن کے مارے تندور گرم کرکے خاص انداز سو سیمی بھونی جاوے ہی یہ سیمی مہمانن کے مارے یا کدی خاص اوقات میں پکان کے مارے محفوظ دَھری جاوے ہی۔ انن نے دیسی گھی اور شکر سو کھاوے ہا۔ عجیب لذت ہی۔آج پیسہ ہے، وسائل ہاں۔آشائش ہے لیکن وا۔ لذت سو محروم ہوگا ہاں جو ہاتھ سو بنی سیمی نے گھی شکر سو کھان میں ملے ہی۔ میون نے حکیمی فائدان کو شاید پتو نہ ہو۔ لیکن وے اپنی خوراک کا خالص پن کی وجہ سو تنو مند و صحت مند زندگی گزارے ہا۔ دیسی میدہ سو بنی سیمین کی غذائی اہمیت ای ہی 3.5 آونس (100 گرام) پورے اناج کے گندم کے آٹے کے غذائی حقائق یہ ہاں :کیلوری: 340پانی: 11%پروٹین: 13.2 گرامکاربوہائیڈریٹ: 72 گرامچینی: 0.4 گرامفائبر: 10.7 گرامچربی: 2.5 گرام.
میون کا ہولا(آگ پےتازہ بھناچنا)
میون کا ہولا(آگ پےتازہ بھناچنا) میون کا ہولا(آگ پےتازہ بھناچنا) طاقت کو خزانہ۔دوائیں کو حکیم۔صحت کو راز۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی/علوم مخفیہ کاہنہ نو لاہورپاکستان۔ کدی مدی عام سی بات بھی اہمیت اختیار کر جاواہاں سوچو بھی نہ ہوکہ ہولا بھی سوغات بن جانگا۔ میرو خیال ہے کہ کوئی میو ایسو نہ ہوئے گو جانے یا موسم میں ہولا نہ کھایا ہوواں۔ میون میں جب چنا کی فصل تیار ہونا کے قریب ہووے ہی اورچنان میں دانہ تو پڑجاوے ہو لیکن مکمل تیار نہ ہووے ہو ایسی حالت میں چنا سو ۔ٹاٹ۔ کہو جاوے ہو۔ ٹاٹ توڑ کے گھاس پھونس اکھٹو کرکے ٹات یعنی چنا کو بوٹا اے جڑ سمیت اُخھاڑ کے آگ پے لا دھرے ہا۔جڑ مہیں سو پکڑ کے بھونے ہا۔عمومی طور پے کچھ ٹاٹ بھن کے آگ میں گر پڑے ہا۔۔کچھ پودا میں لگا رہ جاوے ہا۔بھلستا بھلستا ٹاٹن نے گرم گرم حالت مین چھیل کے کھاوے ہا۔ کتنو سواد آوے ہوبیان کرن کے مارے الفاظ نہ ہاں ۔ایسی بات بتان کی نہ ہرواہاں۔یہ تو محسوسات ہاں۔ جانے بھی ہولا کھایا ہاں،وہی بتا سکے ہے۔ کہ ان کی لذت کہاہی۔ان کا کھان کو مزہ کہا ہو؟ کھان والا کا ہاتھ بھی کالا منہ بھی کالو دور سو پہچانو جاوے ہو کہ ہولا کھاکے آروہے۔ ہولا،قدرت کو انمول تحفہ ہا۔عمومی طور پے ہولا کرن کو سبب ہلکی پھلکی بھوک رہوے ہی۔ کھیتن میں روٹی کہا دھری ہی؟۔اپنی بھوک مٹان کے مارے ،کدی ہولا کرے ہا تو کدی کنک کی بال بھونے ہا۔ کدی باجرہ کی بال ای ایک ہنر ہو ،ہر کائی کا بس کی بات نہ ہی کہ ہولا کرے یا کنک کی بال بھونے۔یا باجرہ کی بال کا دانان نے سونتے۔ جنن نے ہنر ہووہی ایسو کر سکے ہا، میون میں جب تک ہولا ہووے ہا وا وقت تک میون کو اوجھ نہ نکلے ہو۔ نہ یہ دوائیں کا عادی ہا، شوگر ہی ، نہ طاقت کی دوا کو تصور ہو۔ چاروں گھاں کو صحت ای صحت ہی، یاکو اندازہ جب ہویو ہے۔جب ای دولت ہاتھ سو چھن لی گئی۔ ہولان کا حکیمی فائدہ کہا ہاںکوئی ہم حکیمن سو پوچھے۔ ہم بتانگا کہ قدرت نےمیوون کے مارے کیسا کیسا تندرستی کاموقع دیا ہا۔ جب سو یہ نعمت چھنی ہاں۔ ہمارا گھرن میں دوائین نےجگہ بنا لی ہے۔ بُھنی بال۔پولا۔باجرہ کی بھنی ہوئی بال طاقت کا وے خزانہ ہا،جو قدرت نے میو قوم کو دیا ہا۔ جب سو میوون نے ماڈرن بنن کو بھوت سوار ہویو ہے ہمارا گھراور جیبن میں دوائیں کا بنڈل آگیا ہاں جو چیز ہم نے پرانی کہہ کے چھوڑ دی ہی۔ وے غذاو خوراک بھی ہی۔اور دوا بھی ہی جب اصل نعمت کی ناقدری کرنگا تو سزاکے طورپے دوائی کا نام پے زہرن نے اپنا حلق میں اتارن پے مجبور ہونگا۔ شاید ہے میو ہالان نے دوبارہ سو کھان لگ پڑاں تو شوگر۔ہارٹ بلاکج۔خون صاف کرن وا لی دوا۔ اور نگاہ اور بلڈ پریشر والی دوائین کی ضرورت نہ پڑے گی دیکھ لئیو۔ہولا اچھا ہاں یا زہرن سو بنی دوا اچھی ہے؟ بہتر ہے ہولان کا کچھ حکیمی فائدہ بھی بتادئیوں ایک چھٹانک چنامیں دو سو چھ غذائی حرارے (کیلوریز) قوت رہوےہے۔ چنا میں حیاتین ای ہے۔ جا حیاتین کی کمی سو مردوں میں خاص طاقت کم ہوجاوے ہے اولاد نہ ہونا تک نوبت جا پہنچےہے۔ بیر بانین میں بھی اندرونی اعضاءکمزور ہوجاواہاں اور حمل گرن کو اندیشہ ہووے ہے۔ طب یونانی اور طب جدید دونونں یاپےمتفق ہاں کہ چنا مقوی غذا ہے۔ ایک ماہر غذایات نے تو چنا کا غذائی اجزاء انڈے کی زردی کے برابر قرار دیا ہاں۔ چنا انڈہ کی جگہ استعمال کرو جاسکے ہے۔ قدرت نے چنا میں دوسرا غذائی اجزاء دھرا ہاں یا میں 17 فیصد لحمی اجزاء(پروٹین)‘ چکنائی‘ نشاستہ دار اجزاء چونا اور فاسفورس ہے۔ فولاد کی وافر مقدار چنا میں ہے‘ حیاتین ،الف‘ ب‘ ای، اور ایگزلک ایسڈ اور مکمل غذا ہے۔ چنا بدن کی خاص قوت اے بڑھاوے ہے۔ چناکا پانی یا شوربا‘ پیشاب آور اور قبض کشا ہے۔ چنا خون صاف کرے ہے اور یاکا کھان سو چہرہ کو رنگ نکھرے ہے۔ بدن گندہ اور فاسد مادان سوپاک کرے ہے۔ پھیپھڑان مارے مفید غذا ہے۔ گردان کا سدہ کھولے ہے یاکا کھانا سو بدن( فربہ) موٹوہوجاوے ہے ۔ آواز صاف کرے ہے۔ اب بس کرو ں تم کہو گا حکیم تو دوکان کھول کے بیٹھ گو
A priceless gift for green tea lovers
A priceless gift for green tea lovers ہرے چنے روزہ داروں کے لئے انمول تحفہ A priceless gift for green tea lovers ۔خون میں شوگر لیول کم کرنا،وزن کرنے میں معاون۔ڈپریشن کا خاتمہ کرتا ہے۔ پروٹین سے بھرپور۔۔۔قوت مدافعت میں اضافہ۔۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺکاہنہ نول اہور ایک مٹھی ہرے چنے روزانہ کھائیں اور سردی کے موسم میں بڑھتے وزن کو گھٹائيں موسم کے اعتبار سے ہری سبزیوں کو خصوصیت حاصل ہے کہ ہر موسم میں رنگ رنگ کی سبزیاں بازار میں نظر آتی ہیں اور ان کو دیکھ کر سبزی نہ کھانے والے لوگ بھی ان کو کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں- وہ ہرے پتوں والے ساگ ہوں یا رنگیں گاجریں ، سرخ چقندر ہوں یا گول گول شلجم یہ سب اپنی بہار دکھا رہے ہوتے ہیں اور ان ہی میں ایک اور سبزی جو کہ اسی موسم میں نظر آتی ہے وہ ہرے چنے ہیں جو کہ پھلی کے اندر ہوتے ہیں اور ان کو مٹر کی طرح نکال کر استعمال کیا جاتا ہے- ان کو چھولیا یا ہرے چنے بھی کہا جاتا ہے اس کو لوگ سبزی کے طور پر بھی پکاتے ہیں اس کے علاوہ اس کو گوشت میں بھی پکا کر کھایا جا سکتا ہے- ویسے تو اس کو کچا بھی کھا سکتے ہیں مگر اس کو کچھ لوگ ابال کر مصالحہ دال کر بھی کھاتے ہیں۔ دیہاتی لوگ اس کے مختلف استعمالات سے آگاہ ہوتے ہیں۔انواع و اقسام کے کھانے تیار کئے جاتے ہیں۔ سردی کے موسم میں بار بار لگنے والی بھوک کو مٹانے کے لیے یہ ایک بہترین اسنیکس ثابت ہو سکتا ہے جو بہت سارے فوائد کا بھی حامل ہوتا ہے- غذائی قیمت۔ ایک کپ (7 اونس یا 202 گرام) ابلی ہوئی مونگ کی دال میں (3):کیلوریز: 212چربی: 0.8 گرامپروٹین: 14.2 گرامکاربوہائیڈریٹ: 38.7 گرامفائبر: 15.4 گرامفولیٹ (B9): حوالہ ڈیلی انٹیک (RDI) کا 80%مینگنیج: RDI کا 30%میگنیشیم: RDI کا 24%وٹامن B1: RDI کا 22%فاسفورس: RDI کا 20%آئرن: RDI کا 16%کاپر: RDI کا 16%پوٹاشیم: RDI کا 15%زنک: RDI کا 11%وٹامن B2، B3، B5، B6 اور سیلینیمیہ پھلیاں پودوں پر مبنی پروٹین کے بہترین ذرائع میں سے ایک ہیں۔ وہ ضروری امینو ایسڈز سے مالا مال ہیں، جیسے فینی لالینین، لیوسین، آئیسولیوسین، ویلائن، لائسین، ارجنائن اور مزید (4)۔ جدید تحقیق۔ مغرب کی جدید تحقیقات نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق اناج میں سب سے زیادہ مقوی غذا چنا ہے ایک چھٹانک چنے میں دو سو چھ غذائی حرارے (کیلوریز) قوت ہوتی ہے۔ چنا میں حیاتین ای ہے۔ اس حیاتین کی کمی سے مردوں میں خاص طاقت کم ہوجاتی ہے اولاد نہ ہونے تک نوبت جا پہنچتی ہے۔ عورتوں میں بھی اندرونی اعضاءکمزور ہوجاتے ہیں اور حمل گرنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ طب یونانی اور طب جدید دونوں اس امر پر متفق ہیں کہ چنا مقوی غذا ہے۔ ایک ماہر غذایات نے تو چنے کے غذائی اجزاءکو انڈے کی زردی کے برابر قرار دیا ہے۔ چنے کو انڈے کی جگہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ قدرت نے چنے کو دیگر غذائی اجزاءسے سرفراز کیا ہے اس میں 17 فیصد لحمی اجزاء(پروٹین)‘ چکنائی‘ نشاستہ دار اجزاءچونا اور فاسفورس ہے۔ فولاد کی وافر مقدار چنا میں ہے‘ حیاتین الف‘ ب‘ ای اور ایگزلک ایسڈ اور مکمل غذا ہے۔ چنا بدن کی خاص قوت کو بڑھاتا ہے۔ چنے کا پانی یا شوربا‘ پیشاب آور اور قبض کشا ہے۔ چنا خون کو صاف کرتا ہے اور اس کے کھانے سے چہرے کا رنگ نکھرتا ہے بدن کو گندے اور فاسد مادوں سے پاک کرتا ہے۔ پھیپھڑوں کیلئے مفید غذا ہے۔ گردے کے سدے کھولتا ہے اس کے کھانے سے بدن فربہ ہوجاتا ہے۔ آواز کو صاف کرتا ہے۔ غرض کہ چنا گوناگوں اوصاف کا حامل ہے۔ ہرے چنے کے فوائد Benefits of green gram یہ چنے ان افراد کے لیے بہت مفید ہوتے ہیں جو ڈائٹنگ کر رہے ہوتے ہیں اور بار بار لگنے والی بھوک سے پریشان بھی ہوتے ہیں- ان چنوں کا استعمال ایک جانب تو ان کے وزن کو بڑھنے سے روکتا ہے اور دوسری جانب پیٹ بھرنے کا بھی بہترین ذریعہ ہوتے ہیں- اس کے علاوہ کئی طبی فوائد کے حامل ہوتے ہیں- 1: پروٹین سے بھرپور ہرے رنگ کی سبزی ہونے کے سبب ان میں پروٹین کا خزانہ پوشیدہ ہوتا ہے اور ان کا استعمال جسم کے میٹابولزم کے نظام کو تیز کرتا ہے اور پروٹین سے بھرپور ہونے کے سبب ان کو کھانے سے جلد بھوک نہیں لگتی ہے- اس لیے یہ وزن کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں کیوں کہ ان کو کھانے کے بعد بھوک کم لگتی ہے اور یہ دیر سے ہضم ہونے والی غذا ہے- 2: قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے ہرے چنے وٹامن اے اور سی سے بھر پور ہوتے ہیں جو کہ جسم میں بطور اینٹی آکسیڈنٹ عمل کرتے ہیں اور زہریلے مادوں کو جسم سے باہر خارج کرنے میں اہم کردار ادا کر کے سردی کے موسم میں انسان کی قوت مدافعت کو بڑھا کر بیماریوں سے لڑنے کی طاقت فراہم کرتا ہے- 3: ڈپریشن کا خاتمہ کرتا ہے سردی کے موسم میں انسان کا جسم موسم کے سبب سستی کا شکار ہو جاتا ہے ہرے چنوں میں وٹامن بی 9 یا فولیٹ موجود ہوتا ہے جو کہ انسان کے جسم میں داخل ہو کر اس کے موڈ کو بہتر کرتا ہے- ڈپریشن سے نکالتا ہے اور اس کے علاوہ سردی کے موسم میں ہونے والی سستی کا خاتمہ کر کے جسم کو چاک و چوبند کرتا ہے- 4: وزن کو کم کرنے میں مددگار اس کا گلائسیمک انڈکس بھی کم ہے۔ اس لیے یہ وزن کم کرنے کے لیے بہترین غذا ہے۔ اس کے علاوہ ہرے چنوں کا استعمال پٹھوں اور ہڈیوں کی نشو نما کے لیے بھی بے حد مفید ہے۔ دیگر ہری سبزیوں کی طرح ہرے چنے میں بھی فائبر کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے جو کہ جسم میں جمع شدہ چکنائی کو پگھلانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور اس کے علاوہ یہ ہاضمے کے نظام کو بھی بہتر بناتا ہے اور خون میں سے نقصان دہ کولیسٹرول کو کم
میو کو روزہ راکھ کے لائونی کرنو
میو کو روزہ راکھ کے لائونی کرنو میو کو روزہ راکھ کے لائونی کرنو۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو روزہ چاند کا حساب سو راکھا جاواہاں ہر سال دس دن کو فرق پڑے ہے یعنی ہر سال کا فرق سو روزہ آواہاں چھتیس سال بعد آج کا دن کو جو روزہ ہے وہی روزہ آئے گو۔یعنی دس دس دن کا فرق سو چھتیس سال میں ایک سال کو فرق پڑ جائے گو میری زندگی میں ایک دو روزہ بھرپور گرمین میں آیا ہاں ایک آدھ روزہ بھرپور سردین میں آیا ہاں بچپن میں فل گرمین کا روزہ دیکھا ہاں۔ دھوپ اور لو اتنی گھنی رہوے ہی کہ پٹپڑا سک جاوے ہو گرمین کا روزہ راکھ کے ہم نے لوگ کنکن کی لائونی کرتا دیکھا ہاں وا وقت زمیندارن کو اتنی سہولت میسر نہ ہی۔ بیلن سو ھل چلے ہا۔ہاتھ سو پٹھا کوٹا جاوے ہا۔ زمیندار بیلن سو ھل چلاکے بجائی کرے ہا اور ہاتھ سو فصل کی کٹائی کرے ہا۔ای مشقت بھری زندگی ہی لیکن سکون ہو۔روکھی سوکھی کھاکے اللہ کو شکر ادا کرے ہا علم بھلئیں کم ہو لیکن عمل کا لحاط سو کردار مضبوط ہو لوگ کم پڑھا لکھا ہا۔لیکن خدا سو گھنا ڈرے ہا۔ میون میں نماز روزہ کی پابندی اتنی زیادہ ہی کہ گرمین میں روزہ راکھ کے لائونی کرے ہا، روزہ چھوڑنو معیوب سمجھو جاوے ہو۔ لیکن وا وقت کی خوراک خالص اور کھری ہی۔ سب چیز اپنا گھر کی رہوے ہی۔چولہا کی گرم گرم روٹی نونی گھی سو چپڑی جاوے ہی۔ دہی وافر مقدار میں رہوے ہی۔ پھریرا چاولن مین دہی گیر کے کھاوے ہا کچھ لوگ مہیری کا عادی ہا۔ان کے مارے سحری میں مہہیری نوجود رہوے ہی۔ ای ٹھوس قسم کی خوراک میواتی معاشرہ کی مضبوطی کو سبب ہی یا قوم کی قوت مدافعت بہت زیادہ ہی۔ بھوک پیاس برداشت کرنو معمولی بات ہی۔ یامارے گرمی کا روزہ راکھنو اور لائونی کرنو کوئی اچنبا کی بات نہ ہی