تاریخ طب History of Tibb اسلامی دنیا میں طب کی اہمیت و افادیت۔شرعی نکتی نظر سے اس کی ضرورت۔
میواتی تنظیموں میں ایک اور اضافہ۔
میواتی تنظیموں میں ایک اور اضافہ۔ پاکستان میو قومی تحریک کو نمائندہ لاہور میں۔ حکیم المیوات:قاری محمد یونس شاہد میو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میو قوم جذباتی، تُرت چوٹ فیصلہ کرن والی قوم ہے۔ میون میں بہت سی صفات ہاں اور اچھائی ہاں جیسے سخاوت۔غیرت،مروت،دان پن دین والی قوم لیکن کچھ سلبی و منفی صفات بھی موجود ہاں ۔ سبن نے ایک دوسرا سو ایک شکایت ہے کہ میو ایک دوسراے اے تسلیم نہ کراہاں،ٹانگ کھینچا ہاں سب سو اہم بات ای بھی موجود ہے کہ جب تک غیبت نہ کرلیاں روٹی ہضم نہ ہووے ہے۔ کال کی بات ہے مشتاق احمد میو امبرالیا سو فون پے رابطہ ہوئیو گھنائین دن سو ملن کے مارے جی کررو ہو۔لیکن مصروف ترین زندگی نے اتنی مہلت نہ دی کہ ایک دوسرا سو مل سکاں۔ملاقات کرلیواں مشتاق بھائی نے میں اپنا پراپرٹی کا دفترمیں بلا لئیو ہوں سو ہم نےکائی مریض اے دیکھن کے مارے کماہاں جانو پڑ گئیو۔پتو چلو کہ شکر اللہ میوراستہ پے تیار کھڑو ہو ہم نے عثمان غنی چئیر میں کا ڈیرہ پے لے گیو ہوں پاکستان میواتی قومی تحریک کو مرکزی صدر جناب احسان صاحب کراچی سو پنچاب کا دورہ پے آئیو ہوئیو ہے۔۔ہم چئیرمین عثمان غنی کا ڈیرہ( عقب پنجاب سوسائٹی )پہنچا، ملا جلا۔میری احسان صاحب اور چئیر مین صاحب سو پہلی ملاقات ہی۔گروپ فوٹو بنوایا۔انن نے پاکستان میواتی قومی تحریک کی ٹوپی(کیپ)دی کہ جب تک ساتھ ہو پہری راکھئیو ملاقات کو شیدول مقرر ہو۔کئی میو بھائی ملا۔ کئی گھرن پے موجود نہ ہا جن سو ملاقات ہوئی۔ان چوہدری دین محمد میو۔گرین ٹائون لاہور چوہدری سجاد میو کماہاں کے ڈیرہ پے پہنچا۔۔جناب ارشد صاحب میوکماہاں سو ملا۔پھرنعیم انجم کے پئےسورات ایک بجے واپسی ہوئی۔ ابشام بھائی۔مشتاق میو۔شکراللہ میو۔عثمان غنی میو۔ جناب احسان صاحب کے ساتھ ملاقات میو قوم کا چیدہ چیدہ لوگن سو ملاقات خوش گوار رہی کچھ ایسی بات بھی کھلی جن کو پہلے پتو نہ ہو پاکستان میواتی قومی تحریک کا مرکزی صدر نے اپنا اغراض و مقاصدبیان کرا،اپنا ادارہ اور عزائم بتایا ان کا کرڈ پے گھوڑسوار کا ہاتھ میں پرچم اٹھانو ایک جدت ہے ای تحریک میون میںا پنا وجود اے منوانا میں کتنی کامیاب ہووے ہے وقت بتائے گو۔ہم دعا گو ہاں کہ اللہ ان کا اخلاص میں برکت دئے۔ سچی بات تو ای ہے کہ موئے میون کی ساری تنظیمن میں ایک کمی اور ایک خلا محسوس ہوئیو۔بتان میں حرج بھی نہ ہے ای کہ سبن نے پالیسی ایک جیسی بنائی ہاں،کائی کے پئے بھی جدید تقاضان کا لحاظ سو کوئی پالیسی نہ ہے۔ جدید تقاضان سو سبن نے منہ موڑ راکھو ہے۔ مطبوعہ ڈاکو منٹری ہے نہ کائی کے پئے ٹھیک سمت ہے ۔ نہ کوئی روٹ میپ،نہ کوئی جدت۔نہ کشش۔ جوان میو قوم کا سرمایہ ہاں،اُنن کی کوئی پوچھ نہ ہے۔ حیرت ہے کہ ساری تنظیم و جماعت تحریر مواد اور قلم و کتاب جدید ٹیکنالوجی سے بے خبرہاں،نوجوانن نے نظر انداز کرن کی روش سبن میں قدرے مشترک ہے۔ کوئی کائی کی بات سنن پے آمادہ ہے، نہ کائی کی بات مانن پے ہر کائی نے فیصلہ کرراکھو ہے۔کہ جاراستہ پے ہے وہی سبن سو اچھو ہے۔جب کہ واکے پئے اپنی بات سمجھان کے مارے کوئی دلیل ہے، نہ کوئی لائحہ عمل۔ممکن ہے پاکستان میواتی قوم تحریک دوسران سوہٹ کے، میو قوم کا مسائل و ضروریات ادراک کرسکے اور رایتی گھسٹی پٹی پالیسی کے علاوہ کوئی نئیو لائحہ عمل دین میں کامیاب ہوسکے سارا میو جو قوم کی خدمت کرنو چاہاں،یا میو قوم کا نام پے چوہدر کرنو چاہاں وا وقت تک کامیاب نہ ہوسکاہاں،جب تک بنیادی مسائل اور گروس لیول پے جنم لین والی سوچ کو ادراک نہ کرنگا۔جب ت میو جوان ان کے ساتھ نہ چلے گو اگر میون میں صرف سننا کی ہمت پیدا ہوجائے تو ان کاا خلاص میں کوئی شک نہ ہے میو قوم جب تک جدید ٹیکنالوجی۔پیش آمدہ مسائل۔تعلیم کی ٹھیک سمت۔ کو ادراک نہ کرنگا واوقت تک ان کا ہاتھ میں۔غیبت اور چغلی کے کچھ نہ آئے گو۔ ٹانگ کھنچائی۔غینبت۔ایک دوسرا اے برداشت کرنو واوقت تک نہ آسکے ہے جب تک قوم کائی مفید اور بہترین کام میں نہ لگا جائے/
Zaad ul Maad Urdu By Allama Ibn e Qayyim زاد المعاد اردو
Zaad ul Maad Urdu By Allama Ibn e Qayyim زاد المعاد اردو Qayyim زاد المعاد اردو Read Online Vol 1,2Vol 3,4 Download High Vol 1,2(149MB) Vol 3,4(151MB) Download Small Vol 1,2(19MB) Vol 3,4(15MB)
Tarikh e Ibn e Khaldoon with Muqaddimah Urdu تاریخ ابن خلدون مع مقدمہ اردو
Tarikh e Ibn e Khaldoon with Muqaddimah Urdu تاریخ ابن خلدون مع مقدمہ اردو Read Online Vol 01 Vol 02 Vol 03 Vol 04 Vol 05 Vol 06 Vol 07 Vol 08 Download Link 1 Vol 01(16MB) Vol 02(23MB) Vol 03(32MB) Vol 04(13MB) Vol 05(17MB) Vol 06(09MB) Vol 07(12MB) Vol 08(09MB) Download Link 2 Vol 01(16MB) Vol 02(23MB) Vol 03(32MB) Vol 04(13MB) Vol 05(17MB) Vol 06(09MB) Vol 07(12MB) Vol 08(09MB)
مفتاح الاکاسر جلد2
مفتاح الاکاسر جلد2 کتاب حاصل کرنے کے لئے دائون لوڈ لنک Link1 Link 2
معمولات رسکپور//Mamulat E Raskpur
Mamulat E Raskpur//معمولات رسکپور کتاب یہاں سے حاصل کریں لنک
چھاچھ کا اُولن کا حکیمی فائدہ۔
چھاچھ کااُولن کا حکیمی فائدہ۔ چھاچھ کااُولن کا حکیمی فائدہ۔ حکیم المیوا ت قاری محمد یونس شاہد میو میوات کا علاقہ میں کوئی گھر ایسو رہوے ہو جہاں دودھ نہ بِلتو ہوئے۔چھاچھ نہ رہتی ہوئے میو ڈھور ڈنگر راکھے ہا،ان کو ذریعہ معاش ہو رات کو دودھ کو کٹورا پی کے سونو۔دھینرئیں اٹھ کے رڑکو پی کے سیدوسی کھیتن کو جانو۔چپڑی روٹی۔ چٹنی۔گڑ یا پیاز سو کھانو،ساتھ میں دھیرئیں دوپہر چھاچھ پینی۔روز مرہ کو معمول ہو۔ دودھ اتنو بِلے ہوکہ سارا دن بلونی میں چھاچھ موجود رہوے ہی۔لالچ ہی نہ ملاوٹ ۔جو کچھ ہو سب گھر کو رہوے ہے۔اپنی بھینس گائے پالی وے ہی خود ہی دودھ چو کے لاوے ہا۔سگلے خالص غذا ہی۔ دوپہر میں جب روٹیاری روٹی لیکے جاوے ہی تو روٹین کے ساتھ چھاچھ کو برتن ضرورہرہوے ہو چھاچھ لینو ۔پڑوسین سو مانگنو عیب کی بات نہ ہی لیکن اگر استعمال سو چھاچھ بچ جاوے ہی تو دھوپ میں دھرا رہنا کی وجہ سو وامیں اُولن پیدا ہوجاوے ہو۔کافی مقدار میں وہے ہو۔ نوں لگالئیو،جتنو نونی نکلے ہو ،اتنی ہی مقدار میں اولن نکلے ہو۔میو تو اولن کو خاص استعمال نہ کرے ہا بھینسن کی کھل میںگیرنو یا ویسے پھیکنو مناسب سمجھے ہا اولن معمولی چیز نہ ہی۔آج جب دودھ۔گھی،چھاچھ سب پہنچ سو دور ہوگیا ہاں تو ہم نے اولن کا فائدان کو پتو چلو ہے کہ اولن کا بھی حکیمی فائدہ رہوا ہاں۔ اولن دودھ میں موجود پروٹین کو نام ہو چکنائی اے مکھن کی شکل میں نکال لیوے ہا لیکن اولن کو پتو ای نہ ہو۔جب اولن بن جاوے ہو تو میو سمجھے ہا کہ اب چھاچھ پینا کے لائق نہ ہے لیکن حکیمی لحاظ سو اولن پیدا ہونا سو پیچھے ای تو چھاچھ پین والی بنے ہی۔کھیر۔کھانسی۔بلڈ پریشر لو رطوبتی امراض کو تریاق۔اور شوگر والان کے مارے بہت بڑی نعمت ہی۔میون نے جانے بلا کہ چھاچھ کو اولن بھی کہیں نعمت ہوسکے ہے؟ ہم حکیم لوگ جاکے سوککڑو ہوجائے۔واکو کھٹی چھاچھ اور وامیں پیدا ہون والا اولن اے کھواواہاں دنن میں مریض موٹو تازہ ہوجاوے ہے۔ ہم نے کیرا ۔بلغمی کھانسی،بلغمی دمہ میں اولن کھان کی ہدایت کری تو مریض دنن میں تندرست ہوگیا۔سوکھا سڑا جسم ماٹا تازہ ہوگیا۔ جدید تحقیق جب ہم نے ڈھونڈی تو ای نکلی۔ غذائیت کا اعتبار سو چھاچھ میں ناصرف پروٹین بہت زیادہ ر ہوے ہے بلکہ کیلشیم، وٹامن اے اور بی بھی کافی مقدار میں پایا جاواہاں دوسرا کئی منرلز اور وٹامنز بھی تھوڑا تھوڑا موجود رہواہاں مکھن نکالی ہوئی چھاچھ کا ایک گلاس چھاچھ میں مندرجہ ذیل مقدار میں معدنیات پائی جاواہاں (پروٹین آٹھ گرام، آئرن 0.1 ملی گرام، کیلشیم 294 ملی گرام، فاسفورس 270 ملی گرام، پوٹاشیم پچاس ملی گرام، سوڈیم انیس ملی گرام)۔ ایک گلاس چھاچھ میں وٹامن کا 170 انٹرنیشنل یونٹ ہوواہاں اور وٹامن بی ون ایک ملی گرام۔ تھایامن چوالیس ملی گرام، ریپو فلاون دو ملی گرام، نیاسین دو ملی گرام رہواہاں یہ سب وٹامن بی ہاں یائی طرح ایس کوربک ایسڈ وٹامن سی کے بھی صرف دو ملی گرام ہوتے ہیں۔ چھاچھ ڈائٹنگ کرن والان کےمارے بہترین خوراک ہے کیونکہ ایک گلاس چھاچھ میں 125 حرارے (کیلوریز) رہواہاں اور خالص دودھ کا دہی میں صرف 150 حرارارہواہاں۔ ای کہ چکنائی اور کاربوہائیڈریٹس کی مقدار بھی بہت معمولی ہے۔ ایک گلاس میں کاربوہائیڈریٹس صرف بارہ سوتیرہ گرام رہواہاں اور چکنائی صرف چار سو آٹھ گرام۔ چھاچھ میں سلیکٹک ایسڈ یا لیکٹوز دوسری خمیر شدہ غذان کا مقابلہ میں تین گنا زیادہ رہوا ہاں جو توانائی فراہم کرن کے علاوہ آنتن نے صحت مند بناوے ہے اور ہاضمہ درست کرے ہے بلکہ وزن کم کرن میں بھی معاون ہے۔ کم حراران کی وجہ سو چھاچھ ڈائٹنگ کرن والا اور موٹے افراد کے مارے بہترین غذا ہے۔ اگر اولن مل جائے تو وامیں شکر گیر کے چمچی سو کھالئیو پھر اولن کو کمال دیکھو
تشخیصات متعددہ/حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
تشخیصات متعددہ/حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو بسم اللہ الرحمن الرحیم سخن ہائے گفتنی اللہ تعالیٰ کا انسانوں پر خاص کرم ہے کہ اسے عقل و شعور سے نوازا ،اُسے اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے ساتھ ساتھ پیدا شدہ امراض یا خوراکی بے اعتدالی کو ختم کرنے کا شعور بخشا۔معدہ بیماریوں کی آماجگاہ ہے جہاں پر کی گئی بے اعتدالی انسان کو جلد یا بدیر اپنا اثر ضرور دکھاتی ہے۔علم طب ایک شریف و اعلیٰ فن ہے ،جس میں مہارت رکھنے والے لوگ ہر زمانے میں ہوتے آئے ہیں اور آج بھی پائے جاتے ہیں۔اس فن کے ماہرین نے اپنے تجربات کو قلم و قرطاس کے سہارے آنے والی نسلوں کے لئے بطور وراثت چھوڑا تھا۔لیکن یہ فن ہر آنے والے دن کے ساتھ مزید نکھار کے ساتھ اپنا تعارف کرواتاہے اور نت نئے تجربات اس کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔مشرقی لوگوں میں بخل و امساک کی ایسی بیماری ہے جس نے جہاں بے بہا تجربات کو سینوں میں مقید کردیا وہیں پر علم طب کو بھی نقصان پہنچایا اگر بخل کی دیوار آڑے نہ آتی تو آج علم طب کا انداز ہی کچھ اور ہوتا، رہی سہی کسر طبیب کے روپ میں پھرنے والے جہلا ء نے پوری کردی، جو طب تو نہیں جانتے لیکن طب کی بدنامی کا سہرا اُن کے سر ضرور باندھا جاسکتا ہے ۔طبیب کے لئے کتب طب کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔جو ادارے طبی مواد شائع کرتے ہیں وہ انسانوں پر احسان عظیم کررہے ہیں۔طبی مواد انسانی زندگی کے لئے غذا کی طرح اہمیت کا حامل ہے۔ یہ سطور میرے مطالعہ اور تجربات کا ماحاصل ہیں۔مجھے میدا ن طب و عملیات میں ربع صدی سے بھی زیادہ عرصہ آبلہ پائی کی سعادت حاصل ہے اس دوران میں نے ان فنون سے فوائد بھی حاصل کئے اور انہیں بطور فن بھی اپنایا۔عربی و فارسی اردو میں لکھی جانے والی کثیر تعداد میں کتب کی ورق گردانی کی۔ساتھ ساتھ ماہرین فن کی جوتیاں بھی سیدھی کیں اس کے عوض اللہ تعالیٰ نے مجھے شرح صدر سے نوازا۔ آج مجھے جوع نسخہ کی بیماری نہیں ہے کچھ باتیں بظاہر تکرار محسوس ہونگی لیکن نئے آنے والوں کے لئے یہ طریقہ بہت مفید ہوگا۔ مطالعہ کرنے والے دیکھیں گے کہ کتاب ہذا میں بہت سے ایسے نسخہ جات موجود ہیں جو بارہا نظر کے سامنے سے گزرے ہونگے ، بہت سے نسخہ جات تجربات کی کسوٹی پر پورے اتر چکے ہونگے۔مسئلہ نسخہ نویسی یا مجربات کا نہیں ہے، اصل سبب طبیب کے اندر خود اعتمادی کا فقدان کا ہوتا ہے اگر مجربات کے ساتھ ساتھ طبیب کو خود اعتمادی کی دولت نصیب ہوجائے تو زندگی کا مزہ آجائے۔ مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ مجھے جہاں سے جو کچھ ملا اور جتنا کچھ ملا میں نے اس ورثہ کو اسی نام سے اندراج کیا ہے کیونکہ کسی کے تجربہ کو اپنی طرف منسوب کرنا علمی خیانت ہے ۔اگر کوئی ایسا کرے تو علمی خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔اس تحریر میں کئی نسخہ جات ایسے ہیں جو مجھے عوام کی وساطت سے ملے لیکن تجربات کی کسوٹی نے ان کی سچائی پر مہر ثبت کردی۔اسی طرح کچھ نسخہ جات گھریلو خواتین کی وساطت سے ملے انہیں مناسب موقع محل پر استعمال کرکے میں نے فوائد کثیرہ حاصل کئے۔نسخہ جات ضرور مؤثر ہوتے ہیں لیکن اس کے لئے طبیب کی مہارت درکار ہوتی ہے۔مشاہدات میں یہ بات بھی آئی ہے کہ جہاں بڑے بڑے اور قیمتی نسخہ جات نے کام کرنا چھوڑ دیا وہیں پر عام طور پر گھر میں پائی جانے والی اور دن رات استعمال کی اشیاء نے اپنا کام دکھا دیا۔قیمتی نسخہ جات اس لئے ناکام ہوئے کہ انہیں بے موقع استعمال گیا تھا اور معمولی سمجھی جانے والی اشیاء اس لئے مؤثر ثابت ہوئیں کہ انہیں موقع محل کی مناسبت سے کام میں لایا گیا تھا۔ ایک طبیب کو اتنا علم تو بہر حال ہونا ضروری ہے کہ عمومی طور پر پائی جانے والی اشیا ء کے خواص اور ان کے بروقت استعمال کو یقینی بنایا جاسکے۔ربع صدی کے تجربات کی بنیاد پر پورے شرح صدر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مشکل اور پیچیدہ امراض بھی خوراک کے معمولی رد وبدل سے ٹھیک کئے جاسکتے ہیں۔اگر انسان خوراک میں احتیاط کا دامن تھامے رہے تو اسے دوا کی ضرورت پڑ ہی نہیں سکتی۔خوراک انسانی وجود میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے اگر ہم لوگوں کو غذائی شعور دیدیں تو انہیں دوا سے بچایا جاسکتا ہے۔ معاشرتی طور پر ہر کوئی دوسرے کو دھوکہ دینے کے چکر میں ہوتا ہے طبیب مریض کو اس لئے لمبے چکروں میں ڈال دیتا ہے کہ اس نے اس راہ سے روزی کا بندوبست کرنا ہوتا ہے، جب کہ مریض یہ سمجھتا ہے کہ معالج سے سچ یا جھوٹ کی آڑ میں اپنا علاج بھی کروالوں اور دینا بھی کچھ نہ پڑے۔یہ چوہا بلی کا کھیل ہر گلی محلے میں کھیلا جارہا ہے ۔اگر ہر ایک ایمان داری سے کام لیتا تو کبھی یہ فن رسوا نہ ہوتا۔جولوگ معالج کو اس کی کاوش کا معاوضہ دیتے ہیں معالج بھی انہیں صحیح راہ بتانے کی کوشش کرتا ہے۔طبیب سے جھوٹ بولنا اپنی زندگی کے ساتھ کھیلنے والی بات ہے۔دوسری طرف طبیب کا معیار پر پورا نہ اترنا اور مریض کے ساتھ دوغلی پالیسی اختیار کرنا اس سے بھی زیادہ مہلک روش ہے۔کچھ لوگ عجیب سوچ کے مالک ہوتے ہیں جب انہیں کسی قسم کی ضرورت آ ن پڑتی ہے تو وہ نگاہ دوڑاتے ہیں کہ ایسے واقف کاروں کے پاس جائیں جہاں انہیں خدمت کا معاوضہ ادا نہ کرنا پڑے۔ دوسری طرف معالج ایسے مفت خوروں سے تنگ آچکا ہوتا ہے اس صورت حال میں جو معاملات طے پائیں گے وہ کسی صاحب بصیرت سے پوشیدہ نہیں رہ سکتے۔ معتدل اور درمیانی راہ یہی ہے کہ جس معالج کے پاس اپنے علاج کے لئے جائیں اُسے حق الخدمت ضرور ادا کریں ،اگر وہ انکار بھی کرے تو اُسے تحفہ و تحائف کی صورت میں کچھ نہ کچھ ضرور ادا کریں تاکہ آپ کی طرف توجہ کرسکے۔جس انسان نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ایک پیشہ اختیار کیا ہے تاکہ اس سے روزی
طب و عملیات کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔۔حصہ اول
طب و عملیات کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔۔حصہ اول Why is there a need for surgery.1 مریض معالج سے کیا چاہتا ہے علاج کی دنیا میں مریض و معالج کا باہمی تعاون بہترین نتائج کا حامل ہوتا ہے. معاشرتی طورپر معالج و مریض کے درمیان ہونے والے روابط اور نفیسات کا امتزاز۔
محافظ اروائولی،کا محافظ بنو۔۔
محافظ اروائولی،کا محافظ بنو۔۔ محافظ اروائولی،کا محافظ بنو حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو جناب نواب ناظم صاحب سو ہماری بہت پرانی یاد اللہ ہے۔جب ہم چھوٹا چھوٹا پڑھے ہا تو نواب ناظم جب بھی تحریر و ادب کو نواب ہو ۔آج جب ہم خود لکھاری بناہاں، تو نواب صاحب آج بھی اپنی کرسی پے ایسے ہی براجمان ہے۔نواب صاحب کی زندگی علم و ادب سو بھری پڑی ہے۔انن نے اتنی ساری ادبی و قومی خدمات سرانجام دی ہاں کہ آدمی سوچے تو ھدک رہ جاوے ہے۔ ان کی ساری تصنیفات سو اگر تخلیقات کہو جائے تو مبالغہ نہ ہوئے گو۔ اتنو پڑھ لکھ کے بھی نواب صاحب ہر کائی سو ہنس کے ملے ہے۔شکریہ ادا کرے ہے۔ہر کائی اے ایسو لگے ہے نواب ناظم سبن سو گھنو واسو محبت کرے ہے۔واکا مہیں دھیان دیو ے ہے۔ محاٖط ارائولی۔ناواب ناظم صاحب کی کتاب میو قوم پے احسان ہے۔اگر نواب صاحب میو ن کے مارے کوئی دوسرو کام نہ بھی کرے تو میو پھر بھی یاکا احسان اے نہ دے سکاہاں ۔محافظ ارائولی۔صرف حسن خان میواتی۔یا واکا خاندان کی تاریخ نہ ہے۔بلکہ میوات کی بہادری کی اُو داستان ہے،جو ہر میو کا گھر میں لکھی جاوے ہی۔اور بہادری اور ناموری اے وے لوگ،روز مرہ کو معلوم سمجھے ہا۔۔حسن خان میواتی۔ایک استعارہ ہے ۔ میو قوم سو منسوب کرنو بالکل حقیقت ہے۔۔ حسن خان میواتی کی زندگی کی کہانی دراصل میون کی او تاریخ ہے جائے میو بھولتا جارہا ہاں ۔عدہ نبھانو۔اپنان کے مارے جان قربان کرنو۔غداری سو دور رہنو۔وطن اور قوم کی حفاظت کرنو۔قوم و برادری کی لاج راکھنی۔یہ وے سبق ہان جنن نے میو آج بھول چکا ہاں۔۔جادن سو میون نے یہ سبق بھولا ۔دنیا نے یہ بھلا دیا۔جب قوم بہادری۔وفاداری۔وطن پرستی۔اور عدہ نبھاتی ہوئے تو وائے کائی تعارف کی ضرورت نہ رہوے ہے۔۔آج کو میو الٹی چال چل رو ہے ۔۔حسن خان میواتی نے جو کام اپنی تلوار اور بھالا سومیون نے جگان کے مارے کرو ہو۔۔نواب ناظم صاحب نے وہی کام اپنا قلم سو کرو ہے۔۔اگر غور کرو جائے تو وقت بدلو ہے لیکن کردار ایک سو ہے۔وانے تلوار سو قوم کی حفاظت کری ۔نواب صاحب نے اپنا قلم کا زور سو میون نے جگانا کی کوشش کری ہے۔ محفاظ اورائولی کی تقریب میں میون کا دوسرا پوتن سو بھی ملن کو موقع ملو۔ان میں۔بابائے میوات۔عاصد رمضان میو۔عظیم اللہ ایدووکیٹ۔کرنل محمد علی۔ریاض نور۔اسد اللہ ارشد۔لیاقت لاہوری۔مشتاق احمد امبرالیا۔پروفیسر محمد امین میو۔