جلد کی خشکی ۔اسباب علاججلد کی خشکی کئی طرح سے نمودار ہوتی ہے ہم نے دیکھا ہے کہ بعض اوقات جلد پر خشکی سے سفید چونے کی طرح نہ آجاتی ہے ذرا خارش کرنے سے لکیریں بننا شروع ہو جاتی ہے۔ ایسا زیادہ تر ٹانگوں اور بازؤں پر ہوتا ہے اس علامت کی ابتدائی صورت ہو اور ابھی تک کوئی تکلیف شروع نہ ہوئی ہو تو عام سرسوں کا تیل ہی روزانہ لگانا شروع کر دیں تو ایک دو دن بعد ہی ختم ہو جاتی ہے نہانے کے بعد تیل کا اکثر استعمال ایسی علامات سے محفوظ رکھتا ہے۔ دراصل آج کل فرنگی ڈاکٹروں نے لوگوں کو روغنی اور چکنائی والی غذاؤں سے اس قدر ڈرا دیا ہے کہ ہر شخص چکنائی کا نام لینے سے ہی ڈرتا ہے اگر ہم طبیب حضرات انہیں روغنی غذائیں کھانے کی ہدایت کریں تو وہ ہمارے سامنے کہ دیتے ہیں کہ ہاں کھائیں گے لیکن گھر جا کر نہیں کھاتے کیونکہ فرنگی پرو پیگنڈہ اس قدر ہے کہ ہر شخص اپنی جگہ خوف زدہ ہے۔ حالانکہ ابھی بیس سال پہلے ہم دیکھتے تھے کہ لوگ اس قدر چکنائی استعمال کرتے تھے کہ ایک حافظ صاحب نے جو روزانہ ایک پیالہ دیسی گھی کا پیالہ بھر کر پانی کی طرح پیا کرتے تھے ان کے پاؤں سے جب جرابیں اتار کر نچوڑتے تو اس میں سے کھی کے قطرے نکل کر زمین پر گرتے تھے اب آپ خود غور کریں کہ ایسے شخص میں خشکی کی کوئی علامت ہو سکتی ہے ؟ ان لوگوں کو کبھی دل کی شریانوں کا سکیٹر یا کولیسٹرول کی زیادتی بھی نہیں ہوتی تھی۔ آج کل پہلے تو مہنگائی نے اس قدر غریب کی کمر توڑ دی ہے کہ روغنی چیزں اس کی قوت خرید سے باہر ہوگئی ہیں اور جو امیر آدمی خرید سکتا ہے وہ بلڈ پریشر سے ڈرتا ہوا استعمال نہیں کرتا لہذا امیر اور غریب دونوں طبقے چکنائی سے دور ہو گئے ہیں ایسے حالات میں خشکی نے تو آنا ہی ہے۔ یہی حال شوگر کے مریض کا ہوتا ہے اس کی شوگر پہلے تو ڈاکٹر بند کر دیتا ہے اور اگر کوئی دوسرا معالج اسے کسی شکل میں کھانے کی ہدایت کر بھی دے تو گھر والے کھانے نہیں دیتے لہذا مریض روز بروز کمزور سے کمزور تر ہوتا جاتا ہے کیونکہ ذائقے کے لحاظ سے نمکین کڑوی اور پھیکی غذاؤں میں سے سب سےزیادہ طاقت میٹھی غذاؤں میں ہوتی ہے۔ یادداشتہم نے اپنی کتاب امراض قلب و عضلات میں چکنائی کے متعلق بار بار واضح لکھا ہے کہ کولیسٹرول جسے غلطی سے چکنائی سمجھ لیا ہے یہ چکنائی نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ چکنائی شریانوں میں جمتی ہے اور نہ ہی جم سکتی ہے یہ شریانوں میں جمنے والا مادہ عضلاتی اعصابی یعنی خشک سرد ہوتا ہے جو اپنی خشکی سردی کی بدولت شریانوں میں جسم کر انہیں تنگ کر دیتا ہے یا انہیں سکیڑ کر راستہ تنگ کر دیتا ہے شدت کی صورت میں یہی مادہ دل کے والو بند کر کے دل کے دورے اور مریض کی موت کا سبب بنتا ہے یہ موت کا سبب بننے والا مادہ چکنائی نہیں بلکہ عضلاتی اعصابی خشکی سردی کا مادہ ہوتا ہے جسے کولیسٹرول کہتے ہیں لہذا ذہن نشین کر لیں کہ دل کا مریض جس قدر چکنائی سے ڈرے گا اسی قدرموت کے قریب ہوتا جائے گا۔ خشکی کی ایک دوسری صورت خشکی کی ایک دوسری صورت جو ہم نے دیکھی ہے وہ یہ کہ مریض کو رات کو سوتے وقت ہاتھوں کی انگلیاں خشک ہو نا شروع ہو جاتی ہے مریض کا دل کرتا ہے کہ پانی سےانگلیوںکو تر کرے بعض اوقات پانی قریب نہ ہونے کہ وجہ وہ تھوک لگاتا ہے اور اس طرح وقت پاس کرتا ہے ہم نے ایسے بے شمار مریض دیکھے ہیں اور ان کا کامیاب علاج بھی کیا ہے۔ ایک واقعہ ایک نو جوان لڑکی علاج کے لئے مطب میں آئی اس نے بتایا کہ رات کو پانی کا گلاس چار پائی کے قریب رکھ کر سوتی ہوں اور کئی بار ہاتھوں کو پانی سے گیلا کرتی ہوں اپنے گھر تو گزارا ہو جاتا ہے کسی کے ہاں مہمان جائیں تو بہت مشکل پیش آتی ہے ایسا نہ ہو کہ یہ بگڑ کر کوئی اور مرض بن جائے میں اس لڑکی کا علاج مندرجہ ذیل اسباب کو مد نظر رکھ کر کیا تو صرف دو ہفتے بعد ہاتھ خشک ہونا بند ہو گئے۔ اسباب و علاج ہاتھوں کی خشکی دراصل خون میں پانی کی کمی کی ایک واضح علامت ہے ایسے مریض کا علاج خون میں پانی بڑھا کر آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے تمام اعصابی غدی سے اعصابی عضلاتی غذا ئیں دوائیں مفید ہیں جن میں اعصابیغدی سفوف مغلظ اور اعصابی غدی تریاق بے حد مفید دوائیں ہیں غذا میں الا یچی خورداور زیرہ سفید کی چائے بھی مفید ہے۔ تمام نسخہ جات اسی کتاب میں آچکے ہیں البتہ ہڈی کی یخنی کا نسخہ درج ذیل ہے خون میں پانی بڑھانے کا غذائی علاج یاد رکھیں خون میں پانی کی کمی کے لئے ڈاکٹروں کے پاس فوراََڈرپ لگا دی جاتی ہے جس سے خون میں پانی کی کمی تو پوری ہو جاتی ہے لیکن یہ کمی صرف دو یا تین دن کے لئے ہی پوری ہوتی ہے ڈرپ کے ذریعے خون میں جانے والا پانی دو چار دن میں پیشاب کے راستے خارج ہو جاتا ہے اس کا آسان اور مستقل حل یہ ہے کہ مریض کو ہڈی کی یخنی پلائی جائے جس کا ذکر ہم اکثر ماہنامہ میں کرتے آئے ہیں ہاتھوں کی خشکی کے مریض کو صرف دس دن ہڈی کی یخنی پینے سے مستقل ہاتھوں کی خشکی سے نجات مل جاتی ہے بڑی کی یخنی چونکہ ایک قدرتی غذا ہے لہذا اسے زیادہ دن بھی استعمال کیا جائے تو کوئی نقصان نہیں اسے اس وقت تک استعمال کیا جا سکتا ہے جب تک مریض کو پاخانے نہ لگ جائیں۔بیرونی طور پر ہاتھوں اور پاؤں پر ویزلین یا گلیسرین لگائیں اس سے مقامی طور پر جلدی فائدہ شروع ہو جائے گا۔ ہڈی کی یخنی بنانے کا طریقہ چھوٹے یا بڑے گوشت کی نصف کلو ہڈیاں
ہیپا ٹآئٹس(سوزش جگر) اور قانون مفرد اعضاء
ہیپا ٹآئٹس(سوزش جگر) اور قانون مفرد اعضاء مقدمہ قارئین ایک کہاوت مشہور ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے جب انسان کسی تکلیف دکھ درد یا پیچیدہ مسائل میں گھر جائے تو ان مسائل کےحل کے لئے اپنی تمام تر توانیاں صرف کرنی شروع کر دیتا ہے۔مثلا دماغ بدن انسان کے ذرہ ذرہ سے ہر وقت خبر میں حاصل کرتا رہتا ہے ہر عضو کی ضروریات اور مشکلات کو حاصل کرتا رہتا ہے اب دماغ بدن سے حاصل کی گئی ہوئی معلومات، مطالبات اور مشکلات کے حل کے لئے من و عن دل کے پاس بطور حکم بھیج دیتا ہے۔جب دل کے پاس دماغ سے بطور حکم پیچیدہ مسائل کے حل کے لئے حکم آتا ہے تو دل اسے اچھی طرح سمجھتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ اسے کس طریقے سے حل کیا جائے جو نہی دل فیصلہ کرتا ہے تو فورا اپنے ماتحت عضلات کو حرکت میں لاکر اپنے فیصلہ کو عملی جامہ پہنا دیتا ہے یعنی بدنی ضروریات پوری کر دیتا ہے یا انہیں حل کر دیتا ہے۔ایک اہم حقیقت کا اظہارقارئین اس حقیقت کو ذہن نشین کر لیں کہ جب کوئی انجینئر یاسٹیک موٹر یا انجن بنا لیتا ہے تو وہ موٹر یا انجن اس وقت تک نہیں چلتا جب تک اسے بجلی کا کرنٹ یا پیٹرول وغیرہ نہیں ملتا بالکل یہی صورت دماغ اور دل کی ہے یہ مخصوص غذا کھاتے ہیں اور انہیں ان کی مخصوص غذا جگر تیار کر کے دیتا ہے جو خون کے ذریعے سب کو ملتی رہتی ہے چنانچہ ثابت ہوا کہ دماغ اور دل اپنے افعال اس وقت تک ادا نہیں کر سکتے جب تک انہیں جگر کی طرف سے ان کے مزاج کی غذا نہیں مل جاتی دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ دماغ اور دل کے افعال اس وقت تک فائدہ نہیں اٹھا سکتے جب تک جگر کی طرف سے ان کو غذانہیں مل جاتی۔اسی حقیقتکو استاد محترم حکیم انقلاب المعالج صابر ملتانی نے اپنی کتاب تحقیقات و علاج سوزش و اورام کے مقدمہ میں قرآن حکیم سے تحریر کیاہے لهم قلوب لا يفقهون بها – لهم اعيون لا يبصرون بها لهم اذان لا يسمعون بهاترجمہ ان کے لئے دل ہیں لیکن وہ سمجھتے نہیں، ان کے لئے آنکھیں ہیں لیکن وہ دیکھتے نہیں ان کے لئے کان ہیں مگر وہ سنتے نہیں۔ Link 1
Google Ads Course /گوگل ایڈز کورس/In Hindi 2023| Dunyakailm
Course Prize Only 5000 PKR Language course Hindi/Urdu Course recived drive Only 5000 PKR Course Size 3.80 GB Imortant Note course ko 3days tak apny pass save karlyn 3 Days bad humari koi zumydari nahi. × Dismiss this alert. گوگل ایڈز کورس ایک تعلیمی پروگرام ہے جو کہ آپ کو آن لائن تبلیغاتی کی دنیا میں لے جاتا ہے۔ یہ کورس آپ کو گوگل کی تبلیغاتی پلیٹ فارم ‘گوگل ایڈز’ کے استعمال کے بارے میں سکھاتا ہے۔ اس کورس کے ذریعے، آپ تبلیغاتی کیمپینز کو کیسے مدیریت کیا جاتا ہے، کیسے مواقعات کا انتخاب کیا جاتا ہے، اور کیسے مشتریوں کو حاصل کیا جاتا ہے، سب کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ یہ کورس ایک مکمل راہنمائی فراہم کرتا ہے جو آپ کو کامیاب تبلیغاتی کیمپینز چلانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ آپ کو اس کورس میں گوگل ایڈز کے تمام اہم فیچرز، جیسے کہ کیوورڈ ریسرچ، تبلیغاتی کیمپینز کی ترتیبات، تجزیہ، اور بجٹ کی مدیریت کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ یہ کورس وہ تجربہ فراہم کرتا ہے جو آپ کے کاروبار کو آن لائن دنیا میں زیادہ دیدار بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے، جس سے آپ کے مشتری حاصل کرنے کے امکانات بڑھتے ہیں اور آپ کے کاروبار کا نمایاں ہونا ممکن ہوتا ہے۔ گوگل ایڈز سیکھنے کے فوائد: گوگل ایڈز سیکھنے کے کئی فوائد ہیں جو آپ کے کاروبار اور تجارت کو فروغ دینے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ یہاں کچھ اہم فوائد ہیں جو گوگل ایڈز سیکھنے سے حاصل ہوتے ہیں: گوگل ایڈز سیکھنا آپ کے کاروبار کو آن لائن دنیا میں زیادہ دیدار بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے اور آپ کے مشتری حاصل کرنے کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔ Course Image
نایاب کتب کی آسان فراہمی
نایاب کتب کی آسان فراہمیحکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔ پر مغز نایاب،بہترین منتخب کتب کی فراہمی،ہمیشہ ایک مسئلہ رہی ہے۔کتاب کی قدر قیمت ایک قیمتی اور ذہین انسان ہی جانتا ہے۔گوکہ انٹر نیٹ کی آمد کے بعد پی ڈی ایف(PDF)فارمیٹ میں کتب کا وسیع ذخیرہ دستیاب ہے لیکن وہی پرانی طرز کا فونٹ۔کتابوں کی عبارات کا غیر واضح ہونا۔صفحات کا غائب ہونا بالخصوص اردو کتب میں ان نقائص کے ساتھ ساتھ بہت سے نقائص پائے جاتے ہیں۔غیر معیاری فارمیٹ کو دیکھ کر مطالعہ کو جی نہیں کرتا ذہن جلد اُکتا جاتا ہے۔یوں ایک بہترین کتاب میں بکھرے ہوئے خزائن و جواہرات سے انسان محروم رہ جاتا ہے۔ یہ بھی پڑھئے سعد طبیہ کالج کی طبی خدمات اور حکومت افغانستان کا رابطہ۔سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور کے اہل حل و عقدنے فیصلہ کیا کہ نایاب و ضرورت کی کتب کو دوبارہ سے کمپوز کراکے عام دستیابی کے لئے ویب سائٹ پر اپلوڈ کردیا جائے۔ساتھ میں کتاب کا تعارف،مشکل الفاظ کی وضاحت۔بہترین کلز ٹاٹئل ۔نایاب جڑی بوٹیوں کی تصاویر۔،کتاب میں دی گئی اشیاء کے ڈایا گرامز اور متعلقہ تصاویر دیدی جائیں ۔جہاں ضرورت محسوس کی جائے وہاں(Ai)یعنی آرٹفیشل انٹلیجنس کا استعمال بھی کیا جائے۔اس وقت جن علوم و فنون پر کام ہورہا ہے اور کثیر تعداد میں کتابیں کمپوز ہوچکی ہیں ان کی فہرست ذیل میں دی جارہی ہے۔قانونی سقم سے بچنے کے لئے متعلقہ اداروں اور مصنفین سے بھی رابطہ کیا جارہا ہے تاکہ ان کتب کی اشاعت میں ان کی مرضی شامل رہے۔ & 1٭طب قدیم۔2٭عملیات۔3٭قانون مفرد اعضاء۔4٭علم العقاقیر ۔5٭طلسمات۔6 ٭ تعویذات۔7 ٭ نجوم ۔8٭حاضرات ۔9٭تعویذات۔10٭تشخیصات روحانی۔11 ٭تشخیصات امراض جسمانی۔12٭ طلسمات ۔13٭زائچہ سازی۔14٭ پامسٹری ۔15٭قیافہ سناشی۔16٭ڈیجیٹل سکلز۔17٭سوانح حیات ۔18٭ادویہ سازی۔19٭تاریخ٭ ۔20حدیث۔21٭ تفسیر ۔22٭علوم مخفیہ۔23٭کتب مجدد الطب دوست محمد صابر ملتانی۔24٭ای کامرس۔25۔٭ڈیجیٹل مارکٹنگ۔26فری لانسسنگ۔ دیگر علوم وفنون پر کام جاری ہے۔قارئین کے لئے یہ سہولت بھی مہیا کی گئی ہے اگر کسی کتاب کی ضرورت ہو اور اس کی دستیابی مشکل ہوتو اسے ریکمپوزنگ کرکے مہیا کی جاسکتی ہے۔زیادہ طلب کی وجہ سے کچھ تاخیر کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن طلب کرنے پر دس ایام کے اندر کتاب مہیا کردی جائے گی،بالخصوص انگریزی۔عربی ۔فارسی ۔پرانے رسم الخط میں لکھی گئی اردوکتب وغیرہ میں بہت زیادہ محنت لگتی ہے اور تصحیح و ترتیب کا بھی بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔اس لئے نئی کمپوزنگ میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔لیکن دستیاب کتب فورا بھیج دی جاتی ہیں۔ملاحظہ۔اس پروجیکٹ پر بہت زیادہ اخرجاتا صرف ہورہے ہیں۔اس لئے فیصلہ کیا گیا ہے جو لوگ للہ فی اللہ اس صدقہ جاریہ میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی اور حق الخدمت کے طورپر کچھ نہ کچھ بطور ہدیہ پیش کیا جائے۔اس لئے کتاب کے جنتے صفحات ہونگے وہ کتاب اتنے روپے میں دستیاب ہوگی مثلاََ ایک کتاب کے 100 صفحات ہیں تو اس کے حصول کے لئے 100 روپے ادا کرنے ہونگے۔ضڑورت مند حضرات۔ان بکس میں میسج کریں۔یا پھر۔02328537640..03484225574پر رابطہ کرسکتے ہیں۔لسٹ طلب کی جاسکتی ہے
علامت قیامت اور نزول مسیح
علامت قیامت اور نزول مسیح عرض مؤلفآج سے سینتالیس سال پہلے شعبان ۱۳۴۷ ھ میں جب کہ احقروارالعلوم دیوبند میں درس و تدریس کی خدمت انجام دیتا تھا دارالعلوم کے صدر مدرس حجتہ الاسلام سیدی و استاذی حسرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب قدس اللہ سرہ نے نزول مسیح علیہ السلام کے متعلق احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمع فرماکر ان کو کتابی شکل میں تدوین و تالیف کے لئے احقر کو مامور فرمایا تھا۔ حسب الحکم یہ کتاب تیار ہو کر اُسی وقت بنائم التصریح با تواتر ی نز دل ایسی شائع ہو گئی ، یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ مجموعہ احادیث صرف کسی فرقہ کا رد نہیں بلکہ علامات قیامت کے متعلق احادیث معتبرہ کا اہم مجموعہ ہونے کی حیثیت سے ہر سلمان کے پڑھنے اور یاد رکھنے کی چیز ہے مگر حسب ارشاد استاذ المحترم اس کو عربی زبان میں لکھا گیا تھا تا کہ عراق ومصر و غیرہ میں جہاں قادیانیوں نے نہ دل مسیح علیہ السلام کے مسئلے میں فقہ پھیلایا ہے اس کو پہنچایا جاسکے ۔اردو دان حضرات کے لئے احقر نے اس رسالہ کا خلاصہ نام مسیح موعود کی پہچان الگ لکھ کر شائع کیا ۔ اس اردو رسالے میں حدیث سے ثابت شدہ مضمون اور علامات مسیح موعود کو مختصر عنوان کی صورت میں لکھ دیا گیا اور تفصیل کے لئے اُس حدیث کا حوالہ دے دیا گیا جو رسالہ التصریح میں اس مضمون سے متعلق آئی ہے۔ التصریح میں احادیث پر نمبر ڈال دیئے گئے تھے۔ میسج موعود کی پہچان میں ان نمبروںکا حوالہ لکھ دیا گیا ۔ مگر یہ ظاہر ہے کہ التصریح کے عربی زبان میں ہونے کی وجہ سے اس سے استفاد صرف اہل علم ہی کر سکتے تھے ۔ ضرورت تھی کہ التصریح کا اردو ترجمہ ضروری تشریح کےساتھ کر دیا جائے ۔ مگر زمانے کے مشاغل دذو اہل نے اس کی فرصت نہ دی یہاں تک کہ یہ دونوں شائع شدہ رسالے بھی نایاب ہو گئے پھر ملک شام حلب کے ایک بڑے ماہر عالم شیخ عبد الفتاح ابو غدہ جو علامہ زاہد کوثری مصری کے خاص شاگر را در علوم قرآن حدیث میں حق تعالیٰ نے ان کو خاص مہارت عطا فرمان ہے ان سے ابتدائی ملاقات تو میں موتمر عالم اسلامی کے اجلاس منعقدہ دمشق میں احقر کی حاضری کے وقت ہوئی تھی ، وہ غالبات میں کراچی تشریف لائے اور رسالہ التصریح پر خاص حواشی اور تحقیق کے ساتھ دوبارہ اشاعت کا عزم ظاہر فرمایا ایک نسخہ کتاب کا جو میرے پاس تھا موصوف کو دے دیا موصوف نے اپنی مہارت اور کمال علمی سے ماشاء اللہ کتاب کا حسن چند در چند کر دیا اور بیروت سے ۱۳۱۹ھ میں بڑیآب وتاب کے ساتھ شائع ہوئی ۔ اس کتاب کی تجدید نے پھر اس ارادے کی تجدید کر دی کہ اس کا اردو ترجمہ کر کے رسالہ مسیح موعود کے ساتھ شائع کیا جائے اس لئے برخوردار عزیز مولوی محمد رفیع سلمہ مدرس دارالعلوم کراچی کو یہ کام سپرد کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم میل اور عمر و عافیت میں ترقیات ظاہرہ وباطنہ عطا فرمادے کہ انھوں نے بڑے سلیقہ سے رسالہ التصریح کی تمام احادیث کا نہایت سلیسی صحیح ترجمہ اور اس کے ساتھ حواشی میں خاص خاص تشریحات بھی لکھ دیں ۔اور ایک کام اور کیا جو اپنی جگہ ایک مستقل خدمت ہے کہ علامات قیامت جو رسالہ التصریح میں منتشر طور سے آئی ہیں ان کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ ایک فہرست کی صورت میں جمع کر دیا جس سے یہ کتاب علامات قیامت کے اہم مباحث کا مرتب مجموعہ ہو گیا ۔ اور اس رسالہ کے شروع میں علامات قیامت سے متعلق چند اہم مباحث نہایت محنت و تحقیق کے ساتھ درج کر دیں جن میں علامات قیامت کے مابین ظاہری تعارض کے شبہات کا ازالہ اور علامات قیامت کی تین قسموں پر تقسیم علامات بعیدہ متوسطہ اور قریبہ کی تفصیلات کے ضمن میں فتنہ تاتار اور نار حجاز پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا ہے جزاہ اللہ تعالیٰ غیر الجزاء و فقہ لما يجب و یرضاہ ۔ اب زیر نظر کتاب میں تنقل بالوں کا مجموعہ ہوگئی ۔ ایک میسیح موعود کی پہچان ۔ دوسرا التصریح کی احادیث کا ترجمہ اور شرح تیسرا علامات قیامت ترتیب و تحقیق کے ساتھ حق تعالیٰ مقبول و مفید بنا دے وہو المستعان وعلیہ التکلان بندہ محمد شفیع عفا اللہ عنہ
مرض کے لحاظ سے دوا کی مقدار کتنی ہونی چاہئے؟
عمومی طورپر سمجھا جاتا ہے کہ دوا کی مقدار بڑھانے سے مرض کو جلد قابو کیا جاسکتا ہے،حالانکہ یہ جاہلانہ سوچ ہے دوا کا علاج میں بنیادی کردار ہوتا ہے۔لیکن کتنی دوا درکار ہے یہ بھی بہت بڑا سوال ہے۔اگر تشخٰص تھیک ہو اور تجویز دوا میں مہارت ہو غذا کا انتخاب بھی بہتر ہو توعلاج میں مشکل پیش نہیں آتی۔اس ویڈیو میں یہی نکتہ بیان کیا گیا ہے
حکیم انقلاب ؒکے شاگردوں کی تصنیفی خدمات۔
حکیم انقلاب ؒکے شاگردوں کی تصنیفی خدمات۔از۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو (1)عطائے صابریہ کتاب ایک ایسی شخصیت کی محنت کا نتیجہ ہے جس نے اپنی زندگی میں بہت سے اتار چڑھائو دیکھئے۔اور اس ہستی کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کی سعادت حاصل کی جس کے نتیجہ فکر کو دنیا قانون مفرد اعضاء کے نام سے شناخت کرتی ہے۔۔بھیڑ کے ساتھ نعرہ بازی کرنا اور سیلاب میں تنکے کی طرح بہتے ہوئے چلے جانا روش دنیا ہے ۔قانون مفرد اعضاء ایک ایسا بند ہے جسے شخص واحد نے باندھا اور اس کے معانوت اس کے شاگردوں نے کی ۔آج جب باغ لہلہا رہا ہے تو خوشہ چین اپنی اپنی جھولیاں گل چینی کے لئے پھیلائے ہوئے ہیں۔۔اس شک نہیں کہ اس فن کو بے شمار لوگوں نے خون جگر دیکر سینچا۔لیکن اکثر ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اس سے فائدہ زیادہ اٹھایا اور اسے فائدہ کم پہنچایا ۔۔یہ ایک ایسا لگا بندھا راستہ ہے۔اور اتنی حقیقت پر مبنی راہ ہے یہاں سے اجنبی بھی گزرے توبھی اپنا دامن جواہرات سے بھر لیتا ہے۔اس سے بڑا انقلاب کیا ہوگا کہ جو فن صرف اسی قدر رہ گیا ہو کہ کوئی اچھا سا نسخہ حاصل کرلیا جائے تاکہروزی روٹٰ کا بندوبست ہوسکے۔لیکن حجرت مجدد الطب دوست محمد صابر ملتانی نے تو مجربات کا ایسا دریا بہا دیا جسے ہر گھر میں تیار کیا جاسکے اور صعب و عسیر امراض کا علاج کیا جاسکے۔علم التشخیص طب کا وہ شعبہ ہے جس میں خال خال لوگوں کا ہی گزر ہوتا ہے۔انہوں نے اس دروازے کو ایسا کشادہ کیا آج ہر طرف استاد الاطباء دیکھائی دیتے ہیں/کتاب ہذا ایک مختصر و جامع کتابچہ ہے۔جسے طالب علم حفظ کرنا چاہے تو ازبر کرسکتا ہے۔بغؤر مطالعہ کرنے سے طبیب یوں سمجھتا ہے اب دنیا کی کسی کتاب کی ضرورت نہیں ہے۔کوئی قیمتی جزو نہیں سہل الحصول اجزاء پر مشتمل نسخہ جات ہیں۔پھر نسخہ جات کی درجہ بندی اس انداز میں کی گئی ہے کہ ہر کوئی مرضی کے مطابق اجزاء کا انتخاب کرسکتا ہے۔انہوں نے جو انداز تفہیم اختیار کیا ہے ایک معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان بھی اسے بخوبی سمجھ سکتا ہے۔حجرت مجدد الطب علیہ الرحمۃ نے جو انداز اپنی کتب میں اختیار کیا وہ دنیائے طب میں کسی مصنف نے نہیں کیا۔اس میں شک نہیں کہ مسلم اطباء کا گرانقدر ذخیرہ ان کی نظر سے گزرا۔انہوں شیخ الرئیس کو بغور مطالعہ کیا۔ان کے حوالہ جات سے اپنی کتب کو مزین کیا۔ لیکن نقل در نقل یا کتاب کا پیٹ بھرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنی تجدد پسند طبیعت کو مطئن کرنے اور تحقیقات کا نیاد باب کھولنے کے لئے کیا۔اگر کسی کے پاس وقت ہوتو حضرت مجدد کی لکھی ہوئی کتب اور جن کتب پر انہوں نے داروگیر کی ہے کا مطالعہ کریں تو ان کی بلند نگاہی اور تجدد انہ عنصر کا اندازہ ہوجائے گا۔کسی میںا اپنی ہمت ہے کہ جو ۔قرشی۔۔۔۔۔۔وغیرہ لوگوں کو کٹہیرے میں کھڑا کرسکے۔یا مخزن حکمت وغیرہ کتب کا محاکمہ کرسکے۔یہ کتب اس وقت کے اساطین طب اور نمائینداگان طب نے لکھی تھیں ۔ان کی معاشرتی حیثیت اتنی زیادہ تھی کہ اس وقت سوائے سرخم تسلیم کے لوگوں کے ذہنوں میں کوئی خیال ہی نہ ابھرتا تھا۔اگر صابر صاحب کا دعویٰ بودا ہوتا تو اسی وقت یہ لوگ ان کی درگت بنا دیتے۔کیونکہ ان لوگوں کے پاس لابی تھی۔ادارے تھے۔حکومتی رسوخ تھا۔انہیں نمائیندہ سمجھا جاتا تھا۔ان کی بات کو اس لئے بی اہمیت دی جاتی تھی کہ ان کے زیر سایہ چلنے والے اداروں میں کثیر تعداد میں طلباء علم طب حاصل کررہے تھے۔اساتذۃ کے کام پر حرف تنکیر کاسوچنا ہمارے معاشرہ سے عنقاء ہوچکا ہے۔نئی سوچ کو ختم کرنے کے لئے ادب و تمیز نامی ایک دبیز پردہ تیار کیا ہوا ہے،کہ جس نے بھی بڑوں کے بارہ میں کوئی روش مروجہ کے خلاف بات کی وہ کتنا بھی قابل کیوں نہ گستاخ ہے۔اپنے علم سے مستفید نہیں ہوسکتا۔یہ بانچھ پر کےوہ جراثیم ہیں جنہوں نے امت کو بانجھ کردیا ہے۔اور شخصیت پرستی نے زوال کو من گھڑت روایات کی مدد سے مزین کردیا ہے۔حضرت مجد الطب علیہ الرحمۃ کا منشاء۔انہوں نے اپنی زندگی میں جس قدر جانفشانی سے کام لیا۔اور جس گہرائی سے علم الطب کا مطالعہ کیا وہ خال خال ہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔شخص واحد کتنا بھی جینئیس کیوں نہ ہو ۔اس کا دائرہ کار محدود رہتا ہے۔جب ایک پہلو کو پرکھتا ہے تو بے شمار پہلو نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔لیکن اس اوجھل پن کا مطلب یہ نہیں نکالا جاسکتا کہ دیگر پہلو غیر اہم ہیں۔حجرت مجدد الطب نے چومکھی لڑائی لڑی۔بھیڑ بکریوں کی چال والے معاشرہ میں ایک نظرہ و قانون کو متعارف کرانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔پھر لوگوں کو پیدائشی طور پر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے ہر عمارت کہن کی حفاظت کرنی ہے۔جوکوئی عمارت نو بنانے کی کوشش کرتا ہے اس کے وہ خدا واسطے کے دشمن ہوجاتے ہیں۔اس دشمنی میں اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ واپسی کی سب راہیں مسدود کردیتے ہیں۔ایسے لوگوں سے بھی نبرد آزما ہونا پڑا۔اس کے علاوہ مفاد پرست ٹولے سے بھی میدان عمل میں پرسرے پیکار ہونا پڑا۔اپنے نظر یہ کے لئے مواد اور تصنیفات بھی لکھنا پڑیں۔وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بہت سا وقت اس فکر میں بھی گزرا۔کہیں تجربات و فکر و نظریات کی نمو ہورہی تھی تو کہیں ان نظریات کے عملی ثبوت کے لئے مطب میں آزمائش جاری تھی۔وہ اپنے فارماکوپیا کو اپنی وجود کی لبارٹری میں پرکھتے۔اس کے اثرات پر غور و فکر کرتے۔پھر اپنے مطب میں انہیں پیش فرماتے۔اسی کاوش نے کم خرچ بالا نشین سہل الحصول فارماکوپیا دیا جسے کوئی بھی طبیب کسی بھی وقت کسی مریض پر استعمال کرسکتا ہے۔اگر مجدد الطب کی تشخیص کو اپنا کر اپن کے فارماکوپیا سے استفادہ کیا جائے توکوئی وجہ نہیں کہ مطلوبہ نتائج دیکھنے کو نہ ملیں۔ حضرت مجدد الطب اپنی کتاب تحقیقات علاج جنسی امراض صفحہ 197میں لکھتے ہیں”ہم نے اپنی بیس سالہ تحقیق میں ثابت کیا ہے”یعنی ایک عمل کو جو انسان بیس سال تک کرتا رہے اس کے جنون کا اندازہ کون کرسکتا ہے؟حضرت مجدد الطب کی خواہش۔صابر ملتانی کے بارہ میں ان کے شاگرد حکیم
12 RULES FOR LIFE
12 RULES FOR LIFE ForewordRules? More rules? Really? Isn’t life complicated enough, restricting enough,without abstract rules that don’t take our unique, individual situations intoaccount? And given that our brains are plastic, and all develop differently basedon our life experiences, why even expect that a few rules might be helpful to usall?People don’t clamour for rules, even in the Bible … as when Moses comesdown the mountain, after a long absence, bearing the tablets inscribed with tencommandments, and finds the Children of Israel in revelry. They’d beenPharaoh’s slaves and subject to his tyrannical regulations for four hundred years,and after that Moses subjected them to the harsh desert wilderness for anotherforty years, to purify them of their slavishness. Now, free at last, they areunbridled, and have lost all control as they dance wildly around an idol, a goldencalf, displaying all manner of corporeal corruption.“I’ve got some good news … and I’ve got some bad news,” the lawgiver yellsto them. “Which do you want first?”“The good news!” the hedonists reply.“I got Him from fifteen commandments down to ten!”“Hallelujah!” cries the unruly crowd. “And the bad?”“Adultery is still in.”So rules there will be—but, please, not too many. We are ambivalent aboutrules, even when we know they are good for us. If we are spirited souls, if wehave character, rules seem restrictive, an affront to our sense of agency and ourpride in working out our own lives. Why should we be judged according toanother’s rule?And judged we are. After all, God didn’t give Moses “The Ten Suggestions,”he gave Commandments; and if I’m a free agent, my first reaction to a commandmight just be that nobody, not even God, tells me what to do, even if it’s goodfor me. But the story of the golden calf also reminds us that without rules wequickly become slaves to our passions—and there’s nothing freeing about that.And the story suggests something more: unchaperoned, and left to our ownuntutored judgment, we are quick to aim low and worship qualities that arebeneath us—in this case, an artificial animal that brings out our own animalinstincts in a completely unregulated way. The old Hebrew story makes it clearhow the ancients felt about our prospects for civilized behaviour in the absenceof rules that seek to elevate our gaze and raise our standards.One neat thing about the Bible story is that it doesn’t simply list its rules, aslawyers or legislators or administrators might; it embeds them in a dramatic talethat illustrates why we need them, thereby making them easier to understand.Similarly, in this book Professor Peterson doesn’t just propose his twelve rules,he tells stories, too, bringing to bear his knowledge of many fields as heillustrates and explains why the best rules do not ultimately restrict us butinstead facilitate our goals and make for fuller, freer lives.The first time I met Jordan Peterson was on September 12, 2004, at the home oftwo mutual friends, TV producer Wodek Szemberg and medical internist EsteraBekier. It was Wodek’s birthday party. Wodek and Estera are Polish émigrés whogrew up within the Soviet empire, where it was understood that many topicswere off limits, and that casually questioning certain social arrangements andphilosophical ideas (not to mention the regime itself) could mean big trouble.But now, host and hostess luxuriated in easygoing, honest talk, by havingelegant parties devoted to the pleasure of saying what you really thought andhearing others do the same, in an uninhibited give-and-take. Here, the rule was“Speak your mind.” If the conversation turned to politics, people of differentpolitical persuasions spoke to each other—indeed, looked forward to it—in amanner that is increasingly rare. Sometimes Wodek’s own opinions, or truths,exploded out of him, as did his laugh. Then he’d hug whoever had made himlaugh or provoked him to speak his mind with greater intensity than even hemight have intended. This was the best part of the parties, and this frankness,and his warm embraces, made it worth provoking him. Meanwhile, Estera’svoice lilted across the room on a very precise path towards its intended listener.Truth explosions didn’t make the atmosphere any less easygoing for thecompany—they made for more truth explosions!—liberating us, and morelaughs, and making the whole evening more pleasant, because with de-repressing Eastern Europeans like the Szemberg-Bekiers, you always knew withwhat and with whom you were dealing, and that frankness was enlivening.Honoré de Balzac, the novelist, once described the balls and parties in his nativeFrance, observing that what appeared to be a single party was always really two.In the first hours, the gathering was suffused with bored people posing andposturing, and attendees who came to meet perhaps one special person whowould confirm them in their beauty and status. Then, only in the very late hours,
طب کے کچھ بنیادی اصول
طب کے کچھ بنیادی اصولحکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو فن طب بھی کچھ بنیادی اصول رکھتا ہے اس کے بنیادی اصول انسان کی بناوٹ میں کام آنے والے مادے اور ان سے وجود پانے والے اعضاء ہیں ۔ جن کے افعال سے یہ اپنی زندگی گزارتا ہے ۔ ہر ابتدائی ذرہ یا خلیہ مادہ کی شکل اختیار کرتا ہے ۔ اور مادے میں بے شمار ذرات اپنی مقناطیسی کشش سے اجتماعی صورت میں نشوز بن کر اعضاوں کی صورت اختیار کرتے ہیں اور اعضاء اجتماعی طور پر مل کر جسم بنتے ہیں۔ علماء قدیم اپنی تحقیق سے یہ اصول وضع کر کے اس کی بنیاد پر علاج معالجہ کے اصول وضع کرتے رہے ارتقائی طور پر ہر دور میں اس فن کے علماء علاج معالجہ کے اصولوں میں ترمیم و تخفیف کرتے رہے لیکن علم الابد ان کے اصول آج بھی وہی ہیں جو پہلے دن تھے انسان نے قدم بہ قدم جب ترقی کی تو اس نے گردی عصبیت نسلی عصبیت اور کالے گورے کی عصبیت کو اپنے اوپر واردکیا۔ یہ کل تعقیبات نہ صرف انسان کے بھائی چارے میں رخنہ انداز ہوے بلکہ ادنی اور اعلی کی صورت میں علوم کو بھی اونی اور اعلی کی تقسیم میں منظم کرتے رہے جو لوگ اپنے آپ کو اعلی تصور کرتے تھے انہوں نے سابقہ علوم کی بساط الٹ کر اس کے بنیادی اصولوں میں رخنہ اندازی کی اور صرف الفاظ کی الٹ پھیر ہے ابتدا کو انتھا اور انتہا کو ابتدا بنا کر اپنےعلوم کی بنیاد رکھی۔ فن طب بھی انہی مصیبتوں میں مبتلا رہ کر اپنی افادیت سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ علما یورپ اپنے آپ کو اعلی نسل کہلاتے تھے لہذا اپنے نظرے کی ساکھ کو قائم رکھنے کیلئے ان علوم پر بھی اپنے نظریات کا ملمع چڑھا کر ان علوم کو اعلی بنانے کی کوشش کرتے رہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے علوم کو خوبصورت سے خوبصورت الفاظوں کا جامع تو پہنا سکے ۔ لیکن افادیت سے آج تک وہ خود بھی مطمئن نہیں ہیں۔ ان کی تحقیق کہیں تو جراثیم کے تحت بیماری کا باعث بنی کہیں فزیکل اعضاوں کے افعال بیماری کا باعث اور کہیں خون کے اجزا یا ایلیمٹس کی کمی بیشی اور کہیں وٹامن کا اختلاف بیماری کا باعث قرار پائے ۔ ایسی صورت میں کوئی اہل فن ان متضاد وجوہات کو سامنے رکھ کر کیا علاج کر سکتا ہے انسان کی بنیادی شے خلیوں کی اجتماعی شکل مادہ ہے ۔ جب اس مادہ کا ہی انکار کردیا جائے تو اب ہوا میں مطلق ہو کر کیا تحقیق اور تدبیر کی جاسکتی ہے ۔ مادہ تغیر پاتا ہے تو متعفن ہو کر(صفحہ9)بیکٹیریا کو وجود دیتا ہے ۔ اگر مادہ اپنے اثرات اور کیفیات پر بالکل ٹھیک ٹھاک رہے تو بیکٹیریا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اس حقیقت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پہلے مادہ بگڑتا ہے تو پھر اس مادے کے بگاڑ یا تعفن سے بیماریاں لاحق ہوتی ہیں ۔ اسی طرح اعضاء کے افعال میں بگاڑ بھی مادہ کے تغیر سے ظہور پزیر ہوتے ہیں ۔ خون بلغم (اٹلی) سودا (ا ۔ سٹڈ) صفرا ( سالٹ) کا مرکب ہے ۔ ان تین کیمیائی مادوں کے کم و بیش ہونے سے خون کے اجزا ءا پلیمنٹس میں بھی کمی بیشی آجاتی ہے ۔ ایسی حالت میں جب کوئی طبیب بلغم سودا صفرا کا انکاری ہو تو خون کے اجزاوں کی کمی بیشی کا کیا تدارک کرے گا۔ یہی حال وٹامن کا ہے جسم میں جب الکلائن (بلغم زیادہ ہو تو وہ غذا ئیں جو تغیر پا کر الکلی (بلغم ) بن جاتی ہوں تو اس کے وٹامن مریض کو نفع دیں گے کہ نقصان؟ اسی طرح اگر جسم میں ایسڈ کی فراوانی ہو تو ترش غذاوں کے دامن مریض کیلئے کسی صورت میں بھی فائدہ مند نہیں ہو سکتے اور اگر جسم میں سالٹ یا روغنیات کی فراوانی ہو تو روغتی اجزاء یا غذا ئیں کسی صورت میں بھی مریض کے لئے فائدہ مند ثابت نہیںہو سکتیں۔ایلو پیتھی مریض کو متحد در یا مسکن ادویات سے اور غیر ضروری اپریشن سے مطمئن کر کے اس سے زیادہ سے زیادہ پیسے وصول تو کر سکتی ہے مگر اس کو کسی قسم کا نفع نہیں دے سکتی ۔ آج بھی ان کے محققین کی یہ حالت ہے کہ ان کی نگاہ میں آج سے ایک سال پہلے جو دوا انتہائی کار آمد تھی آج وہ دودا انتہائی نقصان دہ ہے ۔ دوا اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے اثرات جسم میں چھوڑ کر جزو بدن بن جائے جیسے مختلف بیجوں کے تیل جو شفائی اثرات کے علاوہ جسم کی پرورش میں بھی کام آتے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں پیرا فین گریں یا اسی قسم کے اور کیمیکل جسم میں نہ تو شفائی اثرات رکھتے ہیں. اور نہ ہی جسم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں نباتات اورنباتی خوراکپانی دواؤں کے اثرات کو اپنے اندر لے کر جسم کا حصہ بن جاتا ہے ۔ لیکن الکحل یا ار کٹیفائڈ جسے محلات دواوں کے مکمل اجزاء کو نہ تو اپنے اندر تحلیل کر سکتی ہیں اور نہ ہی جسم کا حصہ بنتی ہیں بلکہ اپنے کی اثرات سے جسم میں بگاڑ کا باعث بنتی ہیں یعنی سائیڈا یفکٹ پیدا کرتی ہیں ان الٹی سیدھی تحقیقات کو کہاں تک شمار کیا جائے ۔ اس کام کے لئے ایک مدت چاہئے۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ کام اب ایلو پیتھی علما خود ہی کر رہے ہیں ۔ مجربات پر لاکھوں کتابیں اس سے پہلے لکھی جاچکی ہیں جن کا پڑھنا اور ان سے گوہر نایاب چھنا بے حد مشکل کام ہے ان مشکلات کو سامنے رکھ کر ہمارے بزرگ مجدد طب حضرت صابرملتانی نے سیدھے سیدھے اصول وضع کئے ہیں ۔ جو فطرت کے عین مطابق ہیں۔ ان کو قانون مفرد اعضاء کے نام سے تشکیل دیا ہے ۔ فطرت کے اصول اٹل ہیں۔ ان کی رہنمائی میں جو اصول بھی وضع کئے جائیں وہ ائل ہوتے ہیں ۔
جوان بچیون کا سینے کا ابھار کم کیوں رہ جاتا ہے؟
پرولیکٹن کیا ہے؟جوان بچیون کا سینے کا ابھار کم کیوں رہ جاتا ہے؟ آپ اور آپ کے ہارمونزپرولیکٹن کے متبادل نامپی آر ایل۔ لیوٹروپک ہارمون۔ ایل ٹی ایچ، لیکٹوٹرپن.پرولیکٹن کیا ہے؟پرولیکٹن ایک ہارمون ہے جو اصل میں پیدائش کے بعد بچوں کو دودھ پلانے کے جواب میں ممالیہ جانوروں میں دودھ کی پیداوار (دودھ پلانے) کو فروغ دینے کے لئے اس کے کام کے نام پر رکھا گیا ہے. یہ حمل کے دوران چھاتی کی نشوونما میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے بعد سے اس کے جسم میں تین سو سے زیادہ افعال دکھائے گئے ہیں۔ ان کو متعدد شعبوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: تولیدی، میٹابولک، سیال کا ریگولیشن (اوسموریگولیشن)، مدافعتی نظام کا ریگولیشن (امیونوریگولیشن) اور طرز عمل کے افعال.پرولیکٹنوما مختلف سائز میں آتے ہیں ، لیکن اکثریت قطر میں 10 ملی میٹر (3/8 انچ) سے کم ہے۔ ان کو مائکروپرولیکٹونوما کہا جاتا ہے۔ 10 ملی میٹر سے زیادہ سائز کے نایاب ، بڑے ٹیومر کو میکروپرولیکٹونوما کہا جاتا ہے۔ پرولیکٹنوما مردوں اور عورتوں میں ہوسکتا ہے. پرولیکٹنوما کے ذریعہ پیدا ہونے والی علامات مریض کی جنس اور ٹیومر کے سائز پر منحصر ہیں .انسانوں میں ،پرولیکٹن پیٹوٹری گلینڈ کے اگلے حصے میں پیدا ہوتا ہے جسے انٹیریئر پیٹوٹری گلینڈ کہا جاتا ہے ، اور جسم میں کہیں اور جگہوں پر۔ پیٹوٹری گلینڈ میں لیکٹوٹروفی خلیات پرولیکٹن پیدا کرتے ہیں ، جہاں اسے ذخیرہ کیا جاتا ہے اور پھر خون کے بہاؤ میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ انسانی پرولیکٹن بچہ دانی، مدافعتی خلیات، دماغ، چھاتی، پروسٹیٹ، جلد اور ایڈیپوز ٹشوز میں بھی پیدا ہوتا ہے. پرولیکٹن کی سطح کو بڑھانے کی وجہ کیا ہے؟ پرولیکٹن میں اضافے کی عام وجوہات میں شامل ہیں:حملنپل کی حوصلہ افزائی اور دودھ پیناکشیدگیکچھ ادویات جیسے:اینٹی بیماری ادویات جیسے میٹوکلوپرامائڈ ، اسٹیمیٹل ، ڈومپیریڈون ، اومیپرازول جیسی تیزاب کو کم کرنے والی ادویات بھی آپ کے پرولیکٹن کی سطح کو بڑھا سکتی ہیں۔ذہنی صحت کی بیماری کے علاج کے لئے استعمال ہونے والے کچھ اینٹی ڈپریسنٹس اور سکون آور پرولیکٹن کو بڑھا سکتے ہیں: مثالوں میں ایمیٹریپلائن اور فلوکسیٹین (پروزیک) اور رسپیریڈون شامل ہیں۔کچھ ہومیوپیتھک اور جڑی بوٹیوں کی دوائیں۔ایک غیر فعال تھائیرائیڈ گلینڈ، جس کی تشخیص ایک سادہ خون کے ٹیسٹ کے ذریعہ کی جاسکتی ہے اور جس کے لئے تھائیرائیڈ ہارمون کی گولیوں کے ساتھ علاج کی ضرورت ہوتی ہے.ایک نرم حالت جسے میکروپرولاکٹینیمیا کہا جاتا ہے ، جو خون کے کچھ پروٹین کے ساتھ پرولیکٹن کے نتیجے میں سیرم پرولیکٹن کی پیمائش کی ایک نوادراتی بلندی ہے۔ اس کی کوئی کلینیکل اہمیت نہیں ہے لیکن اسے پرولیکٹن پیدا کرنے والے پیٹوٹری ٹیومر سے الگ کیا جانا چاہئے۔ پرولیکٹن کو کس طرح کنٹرول کیا جاتا ہے؟ پیٹوٹری گلینڈ سے پرولیکٹن کی پیداوار کے اہم ریگولیٹرز میں سے ایک نیورو ٹرانسمیٹر (دماغ میں اعصابی خلیات کے درمیان ایک کیمیائی میسنجر) ہے جسے ڈوپامین کہا جاتا ہے، جو ہائپوتھالامس کے ذریعہ پیدا ہوتا ہے، جو دماغ کا وہ حصہ ہے جو براہ راست پیٹوٹری گلینڈ کے اوپر ہے ۔ڈوپامائن پرولیکٹن کی پیداوار کو روکتا ہے ، لہذا جتنا زیادہ ڈوپامین ہوتا ہے ، اتنا ہی کم پرولیکٹن خارج ہوتا ہے۔ پرولیکٹن خود ڈوپامین کے اخراج کو بڑھاتا ہے ، لہذا یہ منفی فیڈ بیک لوپ پیدا کرتا ہے۔ ایسٹروجن پرولیکٹن کا ایک اور اہم ریگولیٹر ہے اور اسے پیٹوٹری گلینڈ سے پرولیکٹن کی پیداوار اور رہائی میں اضافہ کرنے کے لئے دکھایا گیا ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین کے تولیدی چکر کے مراحل کے دوران خون کی گردش میں پرولیکٹن میں معمولی اضافہ ہوتا ہے جہاں ایسٹروجن کی سطح سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ حمل کے دوران اور بعد میں بھی ہوتا ہے ، جو سمجھ میں آتا ہے ، کیونکہ ماں کے دودھ کی پیداوار کے لئے پرولیکٹن کی گردش کی اعلی سطح کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈوپامائن اور ایسٹروجن کے علاوہ ، دیگر ہارمونز کی ایک پوری رینج جسم میں جاری ہونے والے پرولیکٹن کی مقدار میں اضافہ اور کمی دونوں کرسکتی ہے ، جس کی کچھ مثالیں تھائیروٹروپن جاری کرنے والے ہارمون ، آکسیٹوسن اور اینٹی ڈیورٹک ہارمون ہیں۔ اگر میرے پاس بہت زیادہ پرولیکٹن ہے تو کیا ہوگا؟خون میں بہت زیادہ پرولیکٹن گردش کرنے کی حالت کو ہائپرپرولیکٹینیمیا کہا جاتا ہے۔ہائپرپرولاکٹینیمیا کی سب سے عام وجوہات میں شامل ہیں،حمل،دوائیں جو جسم میں ڈوپامین کی کارروائی کو کم کرتی ہیں، پرولیکٹنوما والے مریضوں کی اکثریت کا علاج ان ادویات کا استعمال کرتے ہوئے کامیابی سے کیا جاسکتا ہے جو ڈوپامین کے عمل کی نقل کرتی ہیں۔ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دوائیں کیبرگولین اور بروموکریپٹین ہیں۔پرولیکٹنوما کے بارے میں مزید معلومات نیچے دیئے گئے ویب لنکس پر پایا جا سکتا ہے:https://www.pituitary.org.uk/information/pituitary-conditions/prolactinoma/ https://patient.info/hormones/prolactinomaاگر میرے پاس بہت کم پرولیکٹن ہے تو کیا ہوگا؟خون میں بہت کم پرولیکٹن گردش کرنے کی حالت شاذ و نادر ہی ہوتی ہے اور ان لوگوں میں ہوسکتی ہے جن کے پیٹوٹری گلینڈ ٹھیک سے کام نہیں کر رہے ہیں مثلا پیٹوٹری گلینڈ پر سرجری کے بعد۔ پیٹوٹری گلینڈ کے ذریعہ پیدا کردہ پرولیکٹن کی مقدار میں کمی بچے کو جنم دینے کے بعد ناکافی دودھ پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ کم پرولیکٹن کی سطح والے زیادہ تر افراد کو کوئی مخصوص طبی مسائل نہیں ہوتے ہیں ، حالانکہ ابتدائی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے کچھ انفیکشنوں کے لئے مدافعتی ردعمل کو کم کردیا ہے۔