کیا معدہ کی گیس دل کے دورے کا سبب بن سکتی ہے؟ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میواس وقت دنیا بھر ہارٹ اٹیک ایک وباء کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ہر دوسرا انسان دل کی تکلیف میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کو بہترین سہولیات دی جاتی ہیں ہزاروں کی جان بچائی جاتی ہے۔بہت سی تدبیرات بروئے کار لائی جاتی ہیں ۔لیکن معالجین نے تحقیق کا جو رخ اختیار کرلیا ہے۔اس سے انحراف مناسب نہین سمجھتے۔ضروری تو نہیں کہ جو پہلوں نے متعین کردیا وہ حرف آخر بن گیا ۔علمی دنیا میں دن رات نت نئے تجربات کئے جارہے ہیں۔لیکن امراض قلب جس تیزی سے پھیلے رہے ہیں قابل غور ہے۔آکر کوئی کوئی تو ایسا پہلو ہے جو نظروں سے اوجھل ہے۔امراض قلب میں جن اسباب کو مرض کا سبب بتایا جاتا ہے وہ سارے اسباب دور کر دینے کے بعد (یعنی ہر طرح کا علاج کرنے کے بعد) بھی آخر ہارٹ اٹیک ہو جاتا ہے جس مطلب یہ ہے کہ اصل سبب مرض کوئی اور ہے علاج کسی اور کا کیا جاتا ہے۔دیسی طب کیا کہتی ہے آئے دیکھتے ہیں۔ کیا دل کے مریض ھارٹ اٹیک سے ہی مرتے رھیں گے جہاں تک ہارٹ اٹیک سے موت واقع ہونے کا تعلق ہے اس میں نوے فیصد ریاح کی بندش سے موت واقع ہوتی ہے لیکن ساری زندگی شریانیں اور دل کے تنگ والو کھولنے کی دوائیں کھا کھا کر مریض آخر مر جاتے ہیں نہ تو ان کےبند والو کھلتے ہیں اور نہ ہی شریانیں کا سکیڑ کھلتا ہے لہذا دل کے مریضوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ اپنی دواؤں اور علاج میں ریاح پیدا نہ کرنے والی اور ریاح خارج کرنے والی دوائیں اور غذا ئیں ضرور استعمال کریں تا کہ علاج کے ما وجودہارٹ اٹیک سے نا سکیں اور بلاوجہ ہارٹ سے اپنی زندگی برباد ہونے سے بچا ئیں اعصاب پر گیس کا دبائو اعصاب پر اگر ریاح کا دباؤ ہو یا عضلات پر ہو دونوں صورتوں میں فوری علاج ریاج خارج کرنے والی دوائیں ہیں اور مستقل علاج ریاح کی پیدائش بند کرنے والی دوائیں ہیں مریض کو فوری مرض سے نکالنے کے لئے ریاح خارج کرنے والی دوا گیر دیں اور جب ایمر جنسی ختم ہو جائے تو ریاح کیایمرجنسی تونش بند کرنے والی دوا میں دیں۔اگر اس بحث میں پڑجائیں گے کہ میڈیکل کی اتنی زیادہ ترقی اور جدید منشنری کی موجودگی میں یہ اسباب قلب موجود ہیں توسائنس تو فیل ہوگئی ؟ایسی بات نہیں ہے۔جس رخ پر محققین نے کام ہی نہیں کیا اس بارہ میں انہیں۔مورد الزام کیوں ٹہرائیں؟۔البتہ جب وسائل کا بے دریغ استعمال کرکے جمع پونجی گنواکےٹکا سا جواب مل جائے ۔پھر انہیں کہا جائے کہ آپ گھریلو اشیاء سے علاج کریں تو بصد شکر مان جاتے ہیں ۔ غذائی درستگی۔ دل کے مریض عمومی طورپر پرہیزی کھانا کھاتے ہین ۔معالجین بہت ساری دستیاب نعمتوں سے دست برداری کا کہہ دیتے ہیں ۔اور مریض بلاچون و چرا قبول بھی کرلیتے ہیں۔جو غذائی پرہیز عارضہ قلب لاحق ہوجانے کے بعد اختیار کیا جاتا ہے اگر پہلے اس بارہ میں کسی ماہر غذائیات سے مشورہ کرکے غذائی چارٹ بنوالیا جاتا تو یہ تنگی نہ دیکھنی پڑتی،اور پرہیزی اشیاء بھی کدی مدی کھالینے سے کچھ نہ ہوتا۔لیکن عارضہ قلب لاحق ہونے کے بعد یہ اختیار بھی ختم ہوچکا ہے۔
انسانی جسم میں ریاح کا کردار
انسانی جسم میں ریاح کا کردار انسانی جسم قدرت کا عظیم شاہکار ہے۔ان کا تناسب برقرار رہے تو ہر چیز بہتر انداز میں کام کرتی ہے معمولی بے اعتدالی پیدا ہوجائے تو جسم انسانی کے لئے وبال کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔جب غذا کھائی جائے یا غذائی ضرورت پوری کی جائے تو اس کا معتدل ہونا ضروری ہوتا ہے۔غذا کے ہضم کا مرحلہ معدہ سے پہلے منہ میں نوالہ چبانے سے شروع ہوجاتا ہے۔ منہ کے اندر قدرتی طورپر جو اجزاء کھانے کو جزو بدن بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہین وہ چبانے کے دوران لعاب دہن شامل ہوجانے سے شروع ہوجاتے ہیں۔ غذا معدہ میں جانے سے پہلے اگر اتنی چبالی جائے کہ وہ استحالہ کی شکل اختیار کرلے تو انسانی صحت کے لئے یہ سنگ میل ثابت ہوتی ہے۔ یہ بھی مطالعہ کریں تحریک امراض اور علاج از حکیم قاری محمد یونس مفرد اعضاء غذا چبانے کی حد کیا ہے؟ بہت سے اقوال و فرامین موجود ہین جو اساطین طب کے کتب طب میں موجود ہیں۔ہر ایک نہ تو ان کا ان کا مطالعہ کرسکتا ہے نہ اس کی پہنچ ہے۔ان کا خلاصۃ یہ سمجھئے کہ لقمہ اس وقت تک چبایا جائے کہ ہر دانت کے نیچے سے ایک بار گزر جائے ۔ہمارے بتیس دانت ہوتے ہیں۔جس لقمہ کو 32 بار چبا لیا جائے اسے جزو بدن ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں ہوتی۔۔اس وقت لوگ دانتوں کا کام بھی معدہ سے لے رہے ہیں۔معدہ کو اتنی مشقت سے دورچار کردیتے ہیں کہ وہ چیخ اٹھتا ہے۔ثقیل غذا ۔مرغن کھانے۔اقوسام و انواع کے پکوان یک دم معدہ میں اتار دیتے ہیں۔جب تک طبیعت انہیں ٹھکانے لگانے کی تدابیر کرتی ہے ۔دوسرا کھانا ٹھونس لیتے ہیں۔ پھر معدہ کی رہی سہی کسر معدہ کے ٹانک اور ادویات پھکیوں سے پوری کردی جاتی ہے۔اس وقت معدہ سے کام نہیں لیا جاتا اسے مجبور کردیا جاتا ہے ۔ داوائوں اور ہاضمولوں کی تباہ کاریاں۔ جب معدہ بھرجاتا ہے تو اسے مزید بھرنے کی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔جب کہ معدہ کو سستانے اور آرام کی ضرورت تھی وہاں معدہ کو مجبور کرنے کے لئے ہاضمولے۔پھکیاں۔سیرپ اور ٹانک کھائے جاتے ہیں۔ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ یہ مصنوعی سہارے بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔اگلا قدم پرہیزوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس وقت ان لوگوں کا برا حال ہوتا ہے جب معالج ان کی ساری نعمتوں پر پابندی لگاکر پرہیز کی مچھیکی ان کے منہ پر ڈال دی جاتی ہے۔اس کے بعد ان کے ہاتھ میں کھانے پینے کی اشیاء کے بجائے دوائوں کا شاپر ہوتا ہے۔جب لوگ انواع و اقسام کا کھانہ کھارہے ہوتےے ہیں تو وہ اپنی محرومیوں سےے چہرے کو چھپائے لوگوں کو یہبتاتے ہوئے خفت ہلکی کرتے ہیں کہ معالجین نے اس کا کھانے پینے پر پابندی لگائی ہوئی۔سوائے پرہیزی کھانے کے ہر قسم کی غذا سے منع کردیا ہے۔اگر بدپرہیزی کرونگا تو طبیعت خراب ہوجائے گا۔ معدہ صحت یا امراض کا گھر ہے جب معدہ خراب ہوجائے تو گیسیں بننا شروع ہوجاتی ہیں ۔یہی غیر طبعی گیسز انسانی جسم میں پھیلتی ہیں تو جہاں جہاں ان کا دبائوبڑھتا ہے تو وہیں پر دردیں شروع ہوجاتی ہیں۔یہ ہوائی دبائو جوڑوں میں ہو تو جوڑ درد۔پیٹ میں ہوجائے تو پیٹ درد۔تبخیر معدہ معدہ ہوتو ذۃنی سکون برباد۔بخارات اٹھنے لگ جائیں تو مریض کو دوررہ پڑنے لگتا ہے۔گیس سے بھرے پیٹ کے ساتھ نیند کرلی جائے تو ڈرائونے خواب دکھائی دینے لگتے ہیں ۔ رحم میں جمع ہوجائے تو بائو گولہ۔۔گردوں میں جمع ہوجائے تو گردہ کی تکلیف۔حتی کہ اس وقت ہارٹ اٹیک کے کیسز بکثرت دکھائی دیتے ہیں اس کثیر الوقوع مرض پر بے شمار وسائل برباد کئے جاتے ہیں۔اگر کوشش کرلی جائے کہ ٹھیک تشخیص کی صورت پیدا ہوسکے تو اس تکلیف دہ علاج سے مریض کی جان خلاصی ہوجائے۔ ریاح اور جدید میڈیکل رویہ اس بارہ میں جدید میڈیکل تشخیص میں ریاح کے امراح کا کوئی تصور نہیں ہے ۔تکلیف کے وقت مریضوں کو ٹیسٹ لکھ کر دئے جاتے ہیں۔لیکن جب ٹیسٹوں میں کچھ نہین آتا تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ٹیسٹ کلیئر ہیں،علاج کس مرض کا کریں؟۔یعنی میڈیکل میں ریاح سے ہونے والی تکلیف کو تکلیف تسلیم نہیں کرتی۔مریض درد و تکلیف سے مررہاہوتا ہے۔معالج کہتا ہے ٹیسٹ کلئیر ہیں کیسا علاج؟ یہ ایک دو مریضوں کا مسئلہ نہیں ہزاروں لوگوں کا مسئلہ ہے۔جب تک ریاحی امراض کو ٹھیک انداز مین تشخیص نہیں کیا جاتا اس وقت تک دردوں اور تکالیف کا تدارک نہیں ہوسکتا۔سائنسی انسانی کاوش کا بہترین رخ ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جسم انسانی کے بارہ مین وہ مکمل تحقیق کرچی ہے۔بہت سے شعبے ایسے ہین جن پر تحقیق باقی ہے۔سائنس کا وہی رخ آگے بڑھتا ہے جو تحقیق کرنے والوں کے ذہن میں ہوتا ہے اسی رخ پر کام کیا جاتا ہے۔ ابھی تک تحقیق کرنے والوں نے اس طرف دھیان نہیں دیا تو کہاں سے اس کا علاج کریں گے؟البتہ دیسی طب میں ہزاروں سال پہلے سے ریاح کی تکالیف کو تسلیم کیا جارہا ہے۔احادیث مبارکہ میں بھی اس کی توجیح موجود ہے۔ ایک صحابی مسجد میں اوندھے منہ لیٹے ہوئے تھے ۔انہیں نماز کا کہا گیا۔ ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک بار دوپہر کو چلے ، میں بھی چلا ، تو میں نے نماز پڑھی پھر بیٹھ گیا ، اتنے میں نبی اکرم ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے فرمایا : ” « اشكمت درد » کیا پیٹ میں درد ہے “ ؟ میں نے کہا : ہاں ، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : ” اٹھو اور نماز پڑھو ، اس لیے کہ نماز میں شفاء ہے “(حدیث) ریاح اور انسانی جسم میں پیدا ہونے والی تکالیف کے بارہ میں دیسی طب کے پاس جدجد میڈیکل معلومات سے زیادہ معلومات ہیں۔ کتب طب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ نسخہ جات کی مد میں معدہ پیٹ وغیرہ کے نسخوں کی تعداد دیگر امراض کے نسخوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کتاب کا نمونہ مفرد اعضا کے اساتذۃ کی کتب سے اخذکیا گیا ہے ان کے حوالہ جات بھی ساتھ میں دےدئے گئے ہیں۔ ریاح رکنے سے موت بھی ہو سکتی ہے ہم اکثر سنتے ہیں کہ فلاں
ادویاتی کیمیا ایک تعارف
د پیاچہادویاتی کیمیا ایک اہم مضمون ہے، اس کا تعلق ادویات کے کیمیاوی فارمولا، ادویات کے طبعی اور کیمیاوی خواص سے ہے۔ انگریزی زبان میں اس مضمون پر کافی کتا بیں دستیاب ہیں، لیکن ہماری قومی زبان میں نہیں ہیں ، لہذا میں نے قومی زبان میں ادویاتی کیمیا لکھنے کی کوشش کی ہے، کوشش یہ کی ہے کہ زبان عام فہم ہو اور طالب علم کو نٹس مضمون سمجھنے میں آسانی ہو۔ اسکتاب سے فارمیسی کے طلباء استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ بھی مطالعہ کیجئے طب ایم بی بی ایس کے طلباء بھی اسکے مطالعہ سے مستفیض ہو سکتے ہیں ۔ کتاب میں دوا کی مقدار لکھنے میں احتیاط کی گئی لیکن معالجین سے استدعا ہے کہ وہ دوا استعمال کرانے سے پہلے منسلکہ طبی لٹریچر جو دوا کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کا مطالعہ کر لیا کریں۔ اس کتاب کی تدوین میں جن لوگوں نے معاونت کی ان میں پروفیسر ڈاکٹر ایس آئی احمد، پروفیسر ڈاکٹر کشور سلطانہ، ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر فریدہ اسلام ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سعید اح شیخ، ڈاکٹر سید محمد مسعود علی، ڈاکٹر سیدہ جمیر مسعود اور ڈاکٹر سیدہ تاجور سلطانہ شامل ہیں ۔ جناب پروفیسر ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب نے میری حوصلہ افزائی کی ، راغب شکیب صاحب کی کاوشوں سے کتاب تحمیلہ کے مراحل تک پہنچی۔پروفیسر ڈاکٹر سید محمد شمیمبی ایس سی ۔ ایم بی بی ایس ۔ ایم سی پی ایس ۔ ایم فل ۔ پی ایچ ڈی! ڈائون وڈ لنک link Tags: ادویاتی کیمیا(www.tibb4all.com)
انٹی بائیوٹک کی تباہ کاریوں کا حل
ایک ہی خوراک میں فائدہ کرنے والی دوائیں آج کل فوری اثر دوائیں(ایک ہی خوراک میں فائدہ کرنے والی دوائیں) کی ڈیمانڈ بہت تیزی سے بڑھتی جارہی ہے اگر معالج ان دواؤں سے بچنا بھی چاہے تو مریض بچنے نہیں دیتے مریض خود معالج کو مجبور کرتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایسی نشہ آور اورزہریلی اور مسکن تیز ترین دوائیں دو جس سے فوری فائدہ ہو جائے۔ ایسے حالات میں کوئی ایک معالج ہی اپنے ایمان پر کاربند رہ سکتا ہے۔ جنسی طاقت اور درد رو کنے والی تقریبا تمام دواؤں میں نشہ آور اورمسکن چیزیں استعمال ہوتی ہیں جن کے استعمال کے کچھ عرصہ بعد کمر درد اور دیگر تکالیف ہو جاتی ہیں پھر جب ان تکالیف کے علاج کے لئے دوائیں کھائی جاتی ہیں تو اور نئی علامات پیدا ہو جاتی ہیں مریض ان دواؤں کے استعمال کے بعد ایسی دواؤں کا مسلسل استعمال شروع کرتا ہے کہ پھر مرتے دم تک ان سے چھٹکارا نہیں پاسکتا۔ استاد محترم صابرملتانی اور ہمارے بزرگوں نے نسخہ جات یا فارما کو پیا پیش کیا وہ بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہمارا فارما کو پیا یا ہمارے مجربات نشہ سے پاک ہیں لیکن افسوس کہ اب ہمارے ہی نظریے کے کچھ لوگوں نے بھی ایسی فوری اثردوائیں استعمال کرانا اور سپلائی شروع کر دی ہیں جن کے کھاتے ہی درد غائب اور دیگرفوائد حاصل ہو جاتے ہیں۔ انگریزی اور دیسی دواؤں کی پہچان ہمارے پاس کچھ ایسے مریض لوگ بھی آتے ہیں جو ان نشہ آور اور تیز ترین دواؤں سے تنگ آچکے ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ حکیم صاحب یہ جو دوائیں آپ ہمیں دے رہے ہیں ان دواؤس میں کوئی انگریزی دوا تو شامل نہیں یا ان میں کوئی نشہ آور دوا تو نہیں تو ان کے جواب میں میں انہیں دیہی اور انگریزی یا نشہ اور دوا کی پہچان کا طریقہ بتا یا کرتا ہوں کہ اگر کسی بھی دوا کے استعمال کے فورابعد قائدہ شروع ہو جائے یعنی دوا کھاتے ہی اثرات ظاہر ہونے لگیں اور چند منٹوں میں موجودہ علامات غائب ہونے لگیں تو سمجھو کہ یہ دیسی دوا نہیں ہے۔ اور اگر کسی بھی دوا کے استعمال کے بعد فوری قائدہ نہ ہو بلکہ آہستہ آہستہ قائدہ ہونے لگے تو یہ خالص دیسی دوائیں ہیں اور یہاں یہ بات بھی یادر کھیں کہ جس دوا کے اثرات جس قدر جلدی ہونگے اسی قدر اس کے اثرات جلدی ختم ہو جائیں گےبلکہ ایسی دواؤں کا تو یہ حال ہو جاتا ہے کہ جب تک دوا کھاتے رہتے ہیں مریض ٹھیک رہتا ہے اور جو نہی دوائیں بند کرتے ہیں یا کسی وجہ سے ایک خوارک بھی کسی وقت کی کھانے کو نہ مل سکے تو مرض پہلے سے زیادہ شدت سے رونما ہو جایا کرتی ہے۔ ایسی دوائیں استعمال کرنے والے بہت سے ایسے معالج دیکھنے میں آئے ہیں کہ وہ ایک علاقے میں چند روز مطب کرتے ہیں دو تین ماہ بعد جب وہاں کےلوگوں کو علم ہونے لگتا ہے کہ یہ تو ساری سٹیرائیڈ ہی دے رہا ہے تو وہاں سے کہیں اور جا کر مطلب بنا لیتے ہیں ایسے لوگوں نے ہی طب کو بد نام کیا ہوا ہے ایسے لوگوں کا طب اورعلاج معالجے سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا بلکہ مقصد صرف پیسہ کمانا ہوتا ہے ایسے معائین کے بارے میں ہی استاد محترم فرمایا کرتے تھے کہ یہ طبیب نہیں ہیں بلکہ دوافروش ہیں ان کا کام اپنی دوا ئیں فروخت کرنا ہے نہ کہ علاج مہیا کرنا۔ ایسی دواؤں کے سائیڈ ایفیکٹس پر اور بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن ہم اپنے دوستوں کو صرف اتنا بتانا چاہتے ہیں ایسے اداروں کی دواؤں سے بھی بچیں جو ایک ہی خوراکیسے فائدہ کرتی ہیں کیونکہ یہ فائدہ مستقل نہیں بلکہ عارضی ہوتا ہے اورنئی امراض کی بنیاد بن جاتی ہیں۔
موٹاپا اور قانون مفرد اعضاء
موتاپا اورقانون مفرد اعضاءپیش لفظرطوبت غریزی اور حرارت غریزیقارئین آپ کو معلوم ہے کہ حکماء متقدمین رطوبت غریزی کو رطوبت اصلیہ بھی کہتے ہیں جو بوقت نطفہ قائم ہوتی ہے رطوبت غریزی یا رطوبت اصلیہ اس رطوبت کا نام ہے جو چوتھے ہضم کے بعد جسم میں بنتی اور جذب ہوتی ہے اور اعضاء ینے یا اعضاء کی غذا بنے کے لئے تیار ہو جاتی ہے چونکہ یہ اعضائے جسم کی غذابنتی ہے اس لئے تسلیم کیا جاتا ہے کہ جسم کی خوب صورتی اور جوانی کا دارو مدار اسی رطوبت کے اعتدال پر ہے یعنی اس کی کمی بیشی سے بڑھاپے کے اثرات پیدا ہو جاتے ہیں۔ بلغم سے مرادخون کی وہ رطوبت جو خون کے قوام کو اعتدال پر رکھتی ہے بلغم کہلاتی ہے اسے علم وفن طب میں رطوبت غریزی کہتے ہیں یعنی رطوبت غریزی حقیقت میں بلغم ہے جو بدن کی نشونما کرتی ہے اور بدن کی نمو میں خرچ ہوتی ہے جبتک وافر مقدار میں ہو تو قد کے بڑھانے میں خرچ ہوتی رہتی ہے۔ایک سوال رطوبت غریزی کس عمر تک وافر مقدار میں بنتی رہتی ہے؟جوابقارئین یا درکھیں کہ رطوبت غریزی پیدائش سے ۲۵ سال کی عمرتک وافر مقدار میں بنتی رہتی ہے اسی وجہ سے بچہ کا قد پیدائش سے ۲۵ سال تک بڑھتا رہتا ہے ۲۵ سال کے بعد رطوبت غریزی کی پیدائش بدن کی ضرورت کے مطابق تو ہوتی رہتی ہے مگر وافر مقدار میں بنا رک جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ پیدائش سے لیکر ۲۵ سال تک قد بڑھتا رہتا ہے اس کے بعد قد بڑھنارک جاتا ہے۔ موٹاپا اورقانون مفرد اعضاء رطوبت غریزی اور اس کا اعصاب و دماغ سے تعلق قارئین یہ حقیقت ذہن نشین کرلیں کہ رطوبت غریزی اعصاب و دماغ کی غذا ہے یا دماغ و اعصاب کی تیزی سے پیدا ہوتی ہے۔رطوبت غریزی کی خصوصیات رطوبت غریزی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ خون کے قوام کو پتلا اور اعتدال پر رکھتی ہے۔ اگر اس کی پیدائش ضرورت سے زیادہ ہونے لگے تو خون کا قوام بھی ضرورت سے زیادہ پتلا ہو جاتا ہے جس سے قلب و عضلات میں ستی و تسکین پیدا ہو جاتی ہے۔بدن کے کسی حرکتی اعضاء کو حرکت کرنے سے معذور کر دیتی ہے جس سے دوران خون ست پڑ جاتا ہے بدن کو آکسیجن ضرورت سے بھی کم ملتی ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوم کشی ہو جاتی ہے اسی حالت کو اعصابی دمہ کہتے ہیں۔رطوبت غریزی کی کمی کی علامات اگر یہ رطوبت کم ہو جائے تو اسے سادہ لفظوں میں خون میں پانی کا کم ہونا کہتے ہیں ڈاکٹر حضرات ایسے موقع پر فوراً گلوگوز کی ڈرپ لگاتے ہیں جس سے عارضی طور پر خون میں پانی وافر ہو کر اس کا قوام پتلا ہو جاتا ہے جس کے ساتھ ہی دوران خون میں روانی ہو کر مریض کو سکون محسوس ہوتا ہے لیکن یہ خون میں پانی کی مقدار میں اضافہ عارضی ہوتا ہے ایک دو دن میں ہی ختم ہو جاتا ہے یا پیشاب کے راستے نکل جاتا ہے اس کے مستقل حل کے لئے اعصابی غدی غذا ئیں دوائیں استعمال کرائی جاتی ہیں جو کیمیائی طور پر خون میں رطوبات بڑھاتیبقیہ اس کتاب کے مطالعہ سے معلومات لیجئے کتاب یہاں سے ڈائون لوڈ کریں
عضلاتی نبض کی پہچان
عضلاتی نبض کی پہچان ہوا والی نبض کے دو اطوار(1)ہوا والی نبض کا پہلا طور۔اگر ہوا کا تعلق پانی سے ہےتو اس نبض کا احسا س شہادت والی انگلی کے ساتھ والی انگلی تک ہوگااور مقام کے لحاظ سے دو انگلیوں تک محسوس کی جاسکتی ہے ،اہل طب اسے سودائے خام اور مفرد اعضاء والے اسےعضلاتی اعصابی(خشک سرد)نبض کہتے ہیں،اب دل کا تعلق دماغ کے ساتھ جڑ گیا ہے،شرائط نبض میں مقام کو سمجھیں۔ یہ بھی پڑھئے Tahreek Amraz aur Elaj – تحریک امراض اور علاج ازحکیم قاری محمد یونس (2)ہوا والی نبض کا دوسرا طورہوا کا تعلق پانی سے ہٹ کر جگر(حرارت) سے جڑ گیا ہےاسکی شناخت یہ ہوگی کہ شہادت والی انگلی کے ساتھ والی دو انگلیوں تک محسوس ہوگی،اہل طب اسے سودائے پختہ(خشک گرم)مفرد اعضاء والے عضلاتی غدی کہتے ہیں اسے شرائط قرع(چوٹ) کے تحت سمجھیں۔ہر نبض کی حالت سمجھ کر دوا کا تعین کرنا۔اگر نبض میں قوی پن ہوتو دوا ء محرک سے لیکر شدید تک دیں۔۔اگر نبض میں تیزی ہوتو دوا ملین سے مسہل تک تجویز کریں۔اگر مرض میں ضعف ہو تو دوا اکسیر سے مقوی تک دیں۔جوان مرد کی نبض دائیں کی دیکھیں۔جوان عورت کی نبض صرف بائیں ہاتھ دیکھیں۔اب تحریک تسکین تحلیل جو بھی صورت ہو اس کے مطابق علاج و معالجہ کریں۔ایک دیسی معالج کسی خاتون کی نبض دیکھ رہا ہےساتھ میں اس کےخاوند بیٹھا ہواہےکتاب سامنے کھلی ہوئی جس میں نبض کی مختلف تصاویر بنی ہوئی ہیں2عضلاتی نبض کی پہچان
ریاح کے امراض جديد تحقيقات
ریاح کے امراض جديد تحقيقات پیش لفظہم اللہ الرحمن الرحیماعصاب اور دیگر حیاتی اعضاء پر ریاح کا دباؤدماغ و اعصاب پر ہوا گیس اور تغیر کا دباؤ والے وہ مریض ہیں جنہیں ہم مالیخولیا ۔ کے مریض کہتے ہیں لیکن اب مالیخولیا سے بھی ایک نمبر آگے مریض پریشان نظر آتے ہیں ایسے مریض حقیقت میں اپنے آپ کو دماغ کی خرابی کا مریض سمجھتے ہیں اور ڈاکٹر حضرات بھی ٹیسٹ کروا کر اسے اعصاب کے متاثر ہو نے کا مریض قرار دیتے ہیں اور دماغ کے علاج کے لئے دوائیں استعمال کراتے ہیں جس سے مریض کو نیند زیادہ آنے لگتی ہے اور وہ ہر وقت سویا رہتا ہے۔قانون مفرد اعضاء کے مطابق جب اس علات پر بالاعضاء غور کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اصل سبب مرض اعصاب میں نہیں ہے بلکہ اعصاب تو اس کے بالکل تندرست ہیں ان میں کسی قسم کی کوئی مرض یا خرابی نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ تو ریاح اور گیس تبخیر کا ہے جس کا دباؤ اعصاب پر پڑتا ہیں مریض کو انتہائی ٹینشن اور پریشانی کے ساتھ ساتھ دل کی دھڑکن تیز اور دل گھبراتا ہوا محسوس ہوتا ہے اس بات کو اس طرح سمجھ لیں کہ کسی جوان شخص کے سر پر اس کی طاقت سے زیادہ ریاح کے امراض جدید تحقیقات وزن رکھ دیا جائے اور اسے کہا جائے کہ اسے ایک کلو میٹر اٹھا کر لے جاؤ وہ شخص تھوڑی دور جا کر گر جائے تو دیکھنے والا اسے بہار مجھے تو ایسا ہر گز نہیں ہے وہ شخص تیار نہیں ہے بلکہ بہاری تو اس کے سر پر زیادہ وزن کی ہے جسے برداشت نہ کرتے ہوئے وہ گر گیا ہے جو نہی وہ وزن اٹھا کر پھینک دیا جائے تو وہ شخص دوبارہ تندرست ہو جائے گا۔بالکل اسی طرح دماغ و اعصاب پر ریاح کا رہا وجب پڑتا ہے تو مریض مریض بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے ایک بات کو بار بار کرتا ہے کیونکہ اس میں قوت فیصلہ ختم ہو جاتی ہے اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا مریض سمجھنے لگتا ہے جا وجہ اچھی بات پر ضد کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی ہر بات کو مانا جائے اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کیا جائے ایسا مریض دوا لیتے وقت اپنے معالج کوبہت پریشان کرتا ہے۔ یا دادشت یہاں یہ بات یادرکھیں کہ اعصاب پر جو ریاح کا دباؤ پڑتا ہے وہ معدہ کے اعصاب کے ذریعے دماغ پر پہنچتا ہے یعنی جو ریاح معدہ میں پیدا ہوتے ہیں اگر وہ خارج نہ ہوں تو ان کا دبا ؤ معدہ کے اعصاب کے ذریعے دماغ تک پہنچتا ہے اور مریض میں اس کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہے۔یادداشتریاح کے امراض جديد تحقيقاتیہاں ایک اور بات ذہن نشین کر لیں کہ ریاح کا دباؤ اعصاب پر صرف اس صورت میں پڑتا ہے جب ریاح رکھتے ہیں اگر ریاح بنتے رہیں اور خارج ہوتے رہیں تو کسی بھی صورت میں دماغ اعصاب یا قلب پر ان کا دباؤ نہیں پڑتا لیکن جو ں ہی رک جاتے ہیں تو ان کا دبا ؤ دماغ وعصاب پر پڑتا ہے لہذا ریاح امراض کے متعلق یا درکھیں کہ ریاح جس قدر بھی پیدا ہوں اور اگر ریاح رکنے نہ پائیں تو کبھی بھی علامات ظاہر نہیں ہو تمہیں ریاح جو نہی رکتے ہیں توعلامات ظاہر ہونے لگتی ہیں ہارٹ اٹیک بالکل یہی صورت ہارٹ اٹیک کے مریضوں میں دیکھی گئی ہے جن اسباب کو مرض کا سبب بتایا جاتا ہے وہ سارے اسباب دور کر دینے کے بعد (یعنی ہر طرح کا علاج کرنے کے بعد ) بھی آخر ہارٹ اٹیک ہو جاتا ہے جس مطلب یہ ہے کہ اصل سبب مرض کوئی اور ہے اور علاج کسی اور کا کیا جاتا ہےجہاں تک ہارٹ اٹیک سے موت واقع ہونے کا تعلق ہے اس میں نوے فیصد ریاح کی بندش سے موت واقع ہوتی ہے لیکن ساری زندگی شریانیں اور دل کے تنگ والو کھولنے کی دوائیں کھا کھا کر مریض آخر مر جاتے ہیں نہ تو ان کے بند والو کھلتے ہیں اور نہ ہی شریانیں کا سکیٹر کھلتا ہے لہذا دل کے مریضوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ اپنی دواؤں اور علاج میں ریاح پیدا نہ کرنے والی اور ریاح خارج کرنے والی دوائیں اور غذائیں ضرور استعمال کریں تا کہ علاج کے باوجودریاح کے امراض جدید تحقیقاتہارٹ اٹیک سے نا سمجھیں اور بلاوجہ ہارٹ سے اپنی زندگی برباد ہونے سے بچا میں مزید تفصیل کے لئے میری کتاب (کیا دل کے مریض ھارٹ اٹیک سے ہی مرتے رھیں گے) میں ریا ح میں یہ بھی پڑھئے امراض اطفال۔حکیم یاسین دنیا پوری لہذا اعصاب پر اگر ریاح کا دباؤ ہو یا عضلات پر ہو دونوں صورتوں میں فوری علاج ریاج خارج کرنے والی دوائیں ہیں اور مستقل علاج ریاح کی پیدائش بند کرنے والی دوائیں ہیں مریض کو فوری مرض سے نکالنے کے لئے ریاح خارج کرنے والی دوا گیر دیں اور جب ایمر جنسی ختم ہو جائے تو ریاح کی اور ایمرجنسی ختم تو پیانش بند کرنے والی دوا میں دیں اس کتاب میں ریاح کے حیاتی اعضاء کے علاوہ دیگر ان کے خادم، اعضاء پر ہونے والے اثرات کوئی بیان کیا گیا ہے امید ہے کہ ریاح کے علاج کے ساتھ ساتھ دوسرے علاج میں ریاح جورکاوٹ بنتے ہیں ان کا علاج بھی اس کتاب کے بعد بہت آسان ہو جائے گاخادم من حکیم محمد عارف دنیا پوردسمبر 2019 کتاب ڈائون لوڈ کے لئے یہاں کلک کریں
مسلمانوں کا ہزار سالہ عروج
Muslmānoṉ kā hazār sālah ̒urūj شکریہمیں اپنے دوست منفرد کالم نویس اور پاپولر اینکر پرسن جناب جاوید چودھری کا بے حد شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اس کتاب کا آغاز اپنے ایک شاندار کالم سے کرنے کی اجازت دی۔اپنے دوست جناب ڈاکٹر سید صابر حسین ماہر نفسیات (گجرات) کا بھی ممنون ہوں کہانھوں نے کتاب کا بغور مطالعہ فرمایا اور اپنے مفید مشوروں سے نوازا۔ میں منصورہ ڈگری کالج لاہور کے پرنسپل جناب عبدالسلام کا شکر گزار ہوںکہ انھوں نے کتاب کا تنقیدی جائزہ لیا اور کتاب کی بہتری کے لیے مفید مشورے دیے۔ منصورہ کالج کے اساتذہ پروفیسر چودھری مقبول احمد، پروفیسر محمد ندیم عادل،پروفیسر عبدالحفیظ ناصر اور پروفیسر محمد اقبال کا بھی ممنون ہوں کہ انھوں نے اپنے شعبے سے متعلق کتاب کے مخصوص حصوں کامطالعہ فرمایا اور حسب ضرورت مواد کی تصحیح فرمائی۔جناب پروفیسر محمد رفیق سابق پرنسپل منصورہ کالج کا خاص طور پر شکر گزار ہوںکہ انھوں نے سیاسی عروج کے حوالے سے بہت ہی اہم معلومات فراہم کیں۔پروفیسرمحمد بشیر احمد (چشتیاں) خصوصی شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے جغرافیہ کےموضوع پر اہم معلومات فراہم کیں۔فیصل آباد کے نفیس دوست جناب محمد نفیس کا بے حد ممنون ہوں کہ انھوں نے اس کتابکے لیے نہایت اہم معلومات فراہم کیں جو اس کتاب کا حصہ نہیں۔جناب محسن فارانی خصوصی شکریے کے مستحق ہیں۔ انھوں نے ”سیاسی عروج کیمسلمانوں کا ہزار سالہ عروجغلطیوں کی نشان دہی فرمائی ۔برادرم محمد اقبال خالد کا ممنون ہوں ۔ انھوں نے باریک بینی سے کتاب کی پروف ریڈنگ کی اور غلطیوں کی تصحیح فرمائی۔میں اپنے دوست جناب پروفیسر اختر عباس کا بے حد شکر گزار ہوں ۔ کتاب کا نام آپ کے مشورے سے طے ہوا۔نوجوان دوست سید قاسم علی شاہ کا شکر گزار ہوں ۔ آپ اس کتاب کی ریسرچ کے دوران میں مسلسل میری حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ یہ کتاب ہمارے ایک پراجیکٹ Ali Success Education System کا حصہ ہے۔ شاہ جی اس پرا جیکٹ کو عملی صورتدینے کے لیے بے چین ہیں۔ اس کتاب کو لکھتے ہوئے میں نے بہت سی کتب اور اہل علم سے استفادہ کیا ان میں سے ہر کتاب سیکڑوں کتب کے مطالعہ اور ریسرچ کے بعد لکھی گئی۔ ان کتب میں ڈاکٹر غلام قادر لون کی شاندار کتاب ” مسلمانوں کے سائنسی کارنامے خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ عظیم الشان کتاب ہر درد دل رکھنے والے مسلمان کو پڑھنی چاہیے۔ یہ کتاب جماعت اسلامی نے شائع کی ہے۔ اس کی اشاعت کے لیے جماعت اسلامی شکر یہ اور تحسین کی مستحق ہے۔ ڈائون لوڈ کے لئے یہاں کلک کریں
اعصابی نبض کی پہچان
اعصابی نبض کی پہچاننبض دیکھنے کا آسان طریقہ۔نبض ایک معمہ اور مہارت کی دلیل سمجھی جاتی ہے جو نباض ہوتے ہیں انکا معاشرہ میں خاص مقام ہوتا ہےاس جدید دور میں بھی نبض کی اپنی اہمیت ہے صدیوں پہلی سے نبض دیکھنے کی تکنیک آج بھی اپنی افادیت کی وجہ سے دنیا بھر میں اہمیت رکھتی ہےمعالجین کو نبض کی شناخت کرنا او ر نبض کی بنیاد پر غذا و دوا کا تعین کرنا معالج کی قدر و قیمت کی چار چاند لگا دیتا ہے قدماء نے نبض کے بہت سی اقسام ذکر کی ہیں لیکن صابر ملتانی مرحوم نے انہیں چھ اقسام میں مقید کردیا ہےان میں سو دو کا ذکر ہم نے اس ویڈیو میں کیا ہےکلائی پر چاروں انگلیاں برابر رکھیں اور دو چیزوں کا احساس کریں(1)ہوا(2)پانی۔ہوا یا پانی کو محسوس کرنا مشکل کام نہیں ہے۔ یہ بھی پڑھیں اگر نبض میں ہوا کی زیادتی ہے تو نبض میں قوی پن اور سختی ہوگی،اسی طرح اگر نبض میں پا نی کی زیادتی ہے تو نرمی اور سستی ہوگی،اگر ان دونوں باتوں کا احساس نہ ہو تو باقی حرارت ہی بچتی ہے ان تینوں کے علاوہ کوئی چوتھی چیز نہیں ہے۔پانی والی نبض کے دو اطوار(1) پانی والی نبض کا پہلا طور۔اگر پانی کا تعلق حرارت کے ساتھ ہے تو شرائط نبض میں حجم کو سمجھئے یہ نبض کلائی میں شہادت والی انگلی کے نیچے دباؤ دینے سے محسوس ہوگیطب کی زبان میں اسے کام بلغم(ترگرم) یعنی قانون مفرد کیے مطابق اعصابی غدی ہو گی یعنی دماغ کا تعلق جگر کے ساتھ جڑا ہوا ہے بالفاظ دیگر پانی میں حرارت موجود ہے(2)پانی دوالی نبض کا دوسرا طورپانی والی نبض کا تعلق حرارت سے ٹوٹ کرخشکی سے جڑ گیا ہے اس نبض کی شناخت یہ ہوگی کہ شہادت والی انگلی کے نیچے بغیر دباؤ دئے یعنی اوپر ہی محسو ہوگی،اہل طب اسے پختہ بلغم یعنی تر سردکا نام دیتے ہیں،قانون مفرد والے اسے اعصابی عضلاتی کہتے ہیں،اس نبض کو شرائط قوام کے تحت سمجھنا چاہئے
G. GURDJIEFF
قابل ذکر مردکے ساتھ ملاقاتیں۔ کچھ اپنے شوق راقم الحروف دو دیہائیوں سے علوم روحانی و جسمانی پر کام کرنے میں مصرف ہے۔طب و عملیات پر کئی کتابیں لکھیں ۔جب یں اپنی کتاب جادو کے بنیادی قوانین اور ان کا توڑ ۔لکھ رہا تھاتو بہت سی کتب کا مطالعہ کیا منج جملہ ان میں سے دو کتابیں۔روھانیت ۔دانش اور حقیقتیں۔از۔صوفی اقبال صاحب ۔دوسری کتاب۔ روحانیت کیا ہے؟۔سلطان محمود ٓشفتہ کی لکھی ہوئی تھیں کا مطالعہ بھی کیا۔ان دونوں حضرات نے(G. I. Gurdjieff )کا حوالہ دیا۔اس وقت سے تجسس رہا کہ یہ کتاب کہیں سے دستیاب ہوتو اس کا مطالعہ کروں۔ گردش ایام بسرعت گزرتے رہے۔ٓج بیس سال بعد مجھے اپنی کتاب۔جادو کے بنیادی قوانین اور ان کا توڑ ۔کو دوبارہ سے دیکھنا پڑا ۔تو بیس سال پرانی کواہش کی چنگاری پھر سے بھڑک اٹھی۔۔بیس سال پہلے جن چیزوں کا سوچا بھی نہ جاسکتا تھا ٓج وہ معولامات زندگی میں شامل ہوچکی ہیں۔ اس وقت انٹر نیٹ۔کمپیوٹر لیپ ٹاپ۔موبائل۔کچھ بھی نہ تھا۔ٓج ہمہ وقت ان تک رسائی ہے۔ میں ان کی کتاب(“Meetings with Remarkable Men” (1963) نیٹ سے ڈائون لوڈ کی۔مطالعہ کیا اور اردو میں ڈھال دیا۔ اس میں کتنا کامیاب ہوا یہ آپ لوگ بتائیں گے۔ سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺْْسعد ورچوئل سکلز کی کتب کا فہرست کتاب کے آخر میں دی جارہی ہے۔من جملہ یہ کتاب بھی اس کا حصہ ہے۔ یہ دونوں ادارے میرے بیٹے سعد کی محنت سے قائم ہوئے ۔ٓج انہیں ہم سے بچھڑے ہوئے ہوئے دوسال ہوچکے ہیں۔اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت دے۔۔۔قارئین میرے ساتھ میرے والدین اور استاذہ کرام اور ادارہ کے منسلکین کو بھی اپنی نیک دعائوں میں یاد رکھیں۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺْْسعدورچوئل سکلز پاکستان www.tib4all.com www.dunyakailm.com مصنف کے بارہ میں G. I. Gurdjieff (1866-1949) ایک صوفیانہ، فلسفی، اور روحانی استاد تھے جو خود آگاہی، انسانی شعور کی فطرت، اور روحانی نشوونما کی جستجو کے بارے میں اپنی تعلیمات کے لیے مشہور تھے۔ اس نے “چوتھا راستہ” کے نام سے ایک نظام تیار کیا جو جسم، جذبات اور عقل کے پہلوؤں کو مربوط کرتا ہے تاکہ افراد کو شعور اور سمجھ کی اعلیٰ حالت حاصل کرنے میں مدد ملے۔ گردجیف نے عام زندگی کی “نیند” سے بیدار ہونے کے لیے خود کو یاد رکھنے اور شعوری کام کی اہمیت پر زور دیا۔ اس کا خیال تھا کہ زیادہ تر لوگ میکانکی حالت میں رہتے ہیں اور اپنی حقیقی صلاحیت سے بڑی حد تک بے خبر ہیں۔ اس کے خیالات کو اکثر تعلیمات، رقص (مقدس حرکات) اور گروہی کام کی ایک منفرد شکل کے ذریعے پہنچایا جاتا تھا۔ ان کا بڑا کام، “قابل ذکر مردوں کے ساتھ ملاقاتیں” ان کی زندگی اور مختلف بااثر شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں کا ذکر کرتا ہے۔ گردجیف کی تعلیمات نے بہت سی روحانی اور نفسیاتی تحریکوں کو متاثر کیا ہے، اور انہیں جدید باطنی فکر میں ایک اہم شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ G. I. Gurdjieff کی قابل ذکر کتابوں کی فہرست یہ ہے: “قابل ذکر مردوں کے ساتھ ملاقاتیں” (1963) – گرجیف کی زندگی اور بااثر افراد کے ساتھ ان کے مقابلوں کے بارے میں ایک نیم سوانحی داستان۔ “Beelzebub’s Tales to his grandson” (1950) – ایک وسیع اور پیچیدہ تشبیہاتی کام جو اس کے فلسفیانہ نظریات اور کائناتی علم کو تلاش کرتا ہے۔ “زندگی تب ہی حقیقی ہے، جب ‘میں ہوں’” (1975) – شعور اور وجود کی نوعیت کے بارے میں گردجیف کے خیالات کا مجموعہ۔ “دی ہیرالڈ آف کمنگ گڈ” (1950) – روحانی موضوعات اور انسانیت کے مستقبل کی عکاسی کرنے والے مضامین۔ “حقیقی دنیا کے نظارے” (1973) – گفت و شنید کا ایک مجموعہ جس میں گردجیف کی تعلیمات اور اصولوں کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ “The Gurdjieff Work: A Handbook for Students” – اس کی تعلیمات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک عملی رہنما۔ “سب کچھ اور ہر چیز” – یہ عنوان اس تریی کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں “بیل زیبب کی کہانیاں اس کے پوتے” اور دیگر تحریریں شامل ہیں، جو اس کے فلسفے کے مختلف پہلوؤں کو تلاش کرتی ہیں۔ یہ کتابیں گروجیف کی تعلیمات کے نچوڑ اور روحانی ترقی کے لیے ان کے منفرد انداز کو بیان کرتی ہیں