رفیق مطب تعارفمسیح الملک عالی جناب حکیم ناصر الدین احمد خانUNANI PHYSICIAN TO THE PRESIDENT OF INDIA!جناب مکرم حکیم مولوی مشرف مظاہری صاحب سہارنپوری مدیر ماہنامہ اجمیل( میرٹھ) دنیائے طبابت کے معرورت رکن اور طب کے اچھے ماہر ہیں حکیم صاحب موصوف اپنی بلند نظر کی بنا پر فخر قوم و مسیح الملک حکیم اجمل خانصاب اعلی اللہ مقامہ کے فنی مشن کے فروغ و ترقی کے لئے مستعدی کے ساتھ ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ آپکا دل ، دماغ ۔فن طب فنی درسگاہوں اور اہل فن کی فلاح و بہبود کے لئے ہمہ وقت تیار اور مصروف عمل رہتا ہے ۔ اس کی بین دلیل آپکی حالیہ تالیف رفیق مطلب ہے جس خوبی و شرح کی ساتھ آپنے امراض اعضائے انسانی کو قلمبند فرماتے ہوئے تشخیصی نکات و علامات مرض رقم فرمائے ہیں وہ اپنی نوعیت کے اعتبار قابل مؤلف کو خراج تحسین ادا کر نے کے مستوجب اور طبی لٹریچر میں مفید اضانہ کہے جانے کے لائق ہیں۔ایک ہی عضو کے مختلف امراض میں تشخیص مرض کے لئے غیر معمولی سہولیتیں اور آسانیاں پیدا کی ا مید کے متعلق نہایت قابلیت کیساتھ اپنی وسیع معلومات فنی کی بنا پر کسی صاحب نے قلم اٹھایا ہے – انداز تشخیص علامات نیز نکات کا بیان پنی جگہ ایک نمایاں خصوصیت کا حامل ہے۔ مجموعی اعتبار سے کتابرفیق مطب ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہوئے قابلقد تالیف ہے ! مجھے امید ہے کہ ارباب فن اس کی دل سے قدر فرماتے ہوئے اس کو فنی درسگاہوں کے نصاب تعلیم میں داخل اور دیسی شفاخانوں کے لئے اس کو منظور کرانے کی سعی و سفارش فرمائیں گے۔ اور قدر دان فن حضرات اس کے مطالعہ سے استفادہ حاصل کریں گے۔ میں صمیم قلب سے تکیم صاحب کو اس گرانقدر تالیف پر مبارکباد دیتا ہوں ۔فقط:ناصر الدین سفینہ کتاب یہاں سے ڈائون لوڈ فرمائیں
میو قوم میں عزت کو معیار
میو قوم میں عزت کو معیارحکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو میو قوم جسمانی اور تخلیقی لحاظ سے بہت سی قومن سو بہتر ہے۔البتہ قومی سطح پے یکجائی اور یک فکری کی ضرورت ہے۔بہت سا ایسا کام موجود ہاں جنن نے میو اپنی ناک سمجھ کے کراہاں،پورا جوش و جذبہ سو بڑھ چڑھ کے حصہ لیواہاں۔مثلاََ خرچ کرن کو جذبہ ہے،میو قوم میں بہت پائیو جاوے ہے۔جب ناک کو مسئلہ بن جاوے ہہے تو میو آپا سو باہر ہوجاواہاں۔ای بے مثال جذبہ خاص اوقات میں سر ابھارے ہے جیسے بیاہ بدو میں لوگ اپنی حیثیت سو گھنو خرچ کراہاں یائے بھی پڑھ لئیو میو قوم اور انقلاب 1857ء یا خرچہ میں اتنو مبالغہ کراہاں کہ قرض کا بوجھ تلے دب جاواہاں۔۔جہیز ہوگئیو۔یابارات میں پیسہ لٹانو ۔ناچ گانا پے بے تحاشہ خرچ کرنو۔بھات بھرنو۔وغیرہ۔یہ بات میون کا مزاج میں بیٹھ چکی ہاں۔یادور میں معاشرتی طورپے خرچ کو انداز بدلو ہے۔اب میو بیاہ بدون میں گاڑی مانگنا ہاں۔اَت گَت برات لیکے اواہاں۔نوسا کے اوپر روپیہ پیسہ پھینکا ہاں۔۔یہ سب کام فضولیات میں شامل ہاں،لوگ انن نے اپنی عزت یا انک سمجھا ہاں۔جہاں دیکھا ہاں کہ کوئی بات حسب توقع پوری نہ ہوئی۔اپنی کَن گھٹی تصور کراہاں۔ یائے بھی پڑھ لئیو میری فریاد میو قوم کی پنچایت میں –سچی بات پوچھو تو میون نے ابھی تک لفظ عزت کا مفہوم کو ای پتو نہ ہے۔عزت کہوا کائیں سو ہاں؟بات بات پے اپنی بے عزتی سمجھاہاں ۔ سب سو پہلے عزت یا بے عزتی کو معمہ حل کرنو پرے گو۔کیونکہ یاکی کوئی جامع تعریف موجود نہ ہے کہ کائیں سو عزت کہواہاں کائی سو بے عزتی؟کوئی معیار ایسو ہونو چاہے جاسو عزت اے تکلیف نہ اڑھانی پڑے.۔کوئی نہ کوئی معیار ایسو ہوئے جا کسوٹیپے عزت یا ناک پرکھی جاسکے۔پیچھلا ہفتہ۔شکراللہ میو ۔مشتاق امبرالیا۔عمران بلا ۔ ای بھی پڑھن لائق ہے میوقوم ابھی کچھ نہ بگڑو ہے ایک بارات میں گیا۔ میون نے نوسہ کے مارے بھگی منگائی۔ناچن والا گھوڑا منگایا۔ بیند باجا منگایا۔چھرلی پٹاخہ۔چلایا جتنو ہوسکو اُدھم مچائیو۔پیسہ کو خوب ضیاع کرو۔جب خوب تھک گیا ۔اور جیب بھی ہلکی ہوگئی تو نوسہ کو نکاح پڑھائیو گئیو۔پھر سارا میون نے نکاح میں برکت کی دعا کری ۔جب نکاح خواح نے کہو کہ یا اللہ دلہا اور دلہن کو بوکت دے اور ان کا بیچ میں محبت محمد ﷺو عائشہ رضی اللہ عنھا نصیب کر ساران نے زور سو آؐین کہی، یا سب کچھ اے دیکھ کے میرو مونڈھ بھڑکن لگ پڑو۔کہ انن نے سب سو پہلے۔برات کو جو وقت ہو واسو لیٹ ہویا۔پھر نماز عصر و مگر ڈھول ناچ میں نکال دی ۔فضؤل خرچی کری۔یعنی قدم بقدم اسوہ رسول ﷺکی خلاف ورزی کری گاجا باجا سو کری۔اب دعا کرراہاں کہ نکاح میں برکت ہوئے؟جب نکاح خواں کو پیسہ دینا کی باری آئی تو دین فروشی اور مولبین کا گھر کا مسئلہ جیسی بات ہون لگ پڑی ۔جب مسجد مدرسہ کی باری آئی تو ہزار دو ہزار سو گھنا دینا سو میون کا پران نکلتا دکھائی دیا۔جب اللہ سو نکاح میں برکت مانگ راہاں ۔محبت عظیم مانگ راہاں۔سنت کے مطابق چھوہاران نے پھینک راہاں۔تو عزت اور ذؒت کو معیار اپنو اپنو ہوئیو۔ایک عزت و ذلت کو معیار اللہ واکا رسول نے مقرر کرو ہے۔ایک ہم نے اپنے مارے۔تم خؤد ای دیکھ لئیو کہ میو قوم کا لچھن کہا ہوچکاہاں؟۔اگر یہی پیسہ دین یامیو قوم۔اپنو ملک اور مستحقین پے خرچ کرو جاتو۔اور خرچ کرنا کو ٹحیک انداز اختیار کرو جاتو میو قوم کہاں سو کہاں پہنچی ہوتی۔جہاں عزت ،ترقی۔اور خدا اور رسول کی خوشنودی ملے ہے وا جگہ میو خرچ کرنا سو کَنی کتراواہاں۔جہاں وسائل ۔پیسہ۔وقت کو ضیاع ہوئے وائے عزت سمجھاہاں۔۔خود ای سوچ لئیو۔کہا یہی عادات آگے بڑھن کے مارے ضروری ہاں ۔یا پھر سوچ اور عزت کو معیار بدلن کی ضرورت ہے/
کیا کھانے کے ساتھ پانی پینا چاہئے۔
Should you drink water with foodکیا کھانے کے ساتھ پانی پینا چاہئے۔ قران کریم میں ہے۔کلو واشربو۔یعنی پہلے کھائو پھر پئیو۔ قران کریم نے ایک اصول بتادیا کہ کھانے کے بعد پینا چاہئے ۔ کیا ہر کسی کو کھانے کے بعد پانی پینا چاہئے؟ایسا ہرگز نہیں ہے عضلاتی یا غدی مریضوں کو پانی کا استعمال کرنا چاہئے۔لیکن اعصابی مزاج کے لوگوں پانی سے پرہیز کرنا چاہئے ۔اس بارہ میں بہترین ہدایات دی گئی ہیں۔اس ویڈیو کو دیکھ کر عام انسان بھی اندازہ کرسکے گا کہ کس مزاج سے تعلق رکھتا ہے
Availability of resources and the secret to the development of the Meo nation.
Availability of resources and the secret to the development of the Meo nation. دستیا ب وسائل اور میو قوم کی ترقی کو راز۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میوکہامیو قوم کو اکٹھو ہونوجرم ہے؟قانون فطرت ہے طاقت کچھ متفرق اجزاء مل کر ایک طاقت ور چیز بن جاوے۔کوئی بھی طاقت ور چیز بنیادی طورپے کچھ چیزن کو اکٹھ یا مجموعہ رہوے ہے۔کوئی بھی قوم وا وقت تک طاقتور نہ بن سکے ہے جب تک واکی بھکری ہوئی طاقت یکجا نہ ہوجائے۔تُکنا بھی جب اکٹھا نہ ہوجاواں پند نہ کہلاواہاں۔ہر ایک کی الگ الگ طاقت اور الگ الگ صلاحیت ہے اکیلو انسان کتنو بھی برو بن جائے۔اکیلو ای رہوے ہے جب دو مل جاواں تو دو نہ بلکہ گیارہ بن جاواہاں۔جا قوم میں اکٹھ اور یکجائی پیدا ہوجاوے ہے وائے کوئی نہ ہرا سکے ہے۔میو قوم میں بہت گھنا لوگ باصلاحیت ہاں۔لیکن ان کی صلاحیتن کا اظہار کے مارے کوئی میدا ن عمل نہ ہے۔یا مارے یہ باصلاحیت لوگ بے کار ہوجاواہاں۔عقلمندی یا بات کو نام نہ ہے کہ صلاحیتن نے ضائع کراں بلکہ بہتری یا میں ہے کہ ان سو فائدہ اٹھایا جاواہاں۔کوئی بھی چیز واوقت تک قیمتی محسوس ہووے ہے۔جب تک کام کی رہوے۔جب بےکار ہوجاوے ہے تو اپنی اہمیت کھودیوے ہے۔ یائے بھی پڑحو میوقوم آگے بڑھ سکے ہے لیکن میو قوم کی ترقی یا میں ہے کہ نئی نسل کی صلاحیتن سو کام لیواں نہ کہ ان باصلاحیت لوگن نے ضائع کراں۔اگر میوقوم کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کرن میں کامیاب ہوجائے تو ترقی پائون کی ٹھوکر بن جائے۔دنیا کی ساری قومن اپنی ترقی کے مارے خام مال کی تلاش میں رہوا ہاں۔افرادی طاقت بہت بڑو ہتھیار رہوے ہے۔میو قوم کے پئے خام مال نوجوانن کی سورت میں کثیر تعداد میں موجود ہے۔اگر یائے کار آمد بنانا کے مارے کچھ ہل جُل کرنی بھی پڑے تو کونسی بڑی بات ہے۔؟۔میون میں ایک بُری عادت ای بھی ہے خرچ کرن سو ان کی جان جاوے ہے۔جو خرچ کراہاں اُنن نے روکن والا بہت بھاری مقدار میں موجود ہاں۔لیکن کاروبار کرن کے مارے کچھ نہ کچھ تو خرچ کرنو ای پڑے ہے۔میو قوم کی ترقی نہ سہی کم از کم تم یائے کاروبار ای سمجھ لئیو۔ سرمایہ کاری ہے ۔میون میں نئی نسل کا بالک ایسا بصلاحیت موجود ہاں جو کچھ کرنو چاہواہاں۔لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سو مجبور ہاں۔ اگر ایسا لوگن کی کفالت کری جائے مناسب انداز میں ان کو دوچار مہینہ تک تربیت دی جائے۔ہنر سکھائیو جائے،اور ان کا اخرجات برداشت کرلیا جاواں تو دو چار مہینہان میں یہی لوگ پیداواری صلاحیت کا مالک بن جانگا۔۔جن شعبہ جات میں ان کی تربیت کری جاوے ان کے مارے عملی شکل میں ورکشاپ بھی مہیا کری جاواہاں۔۔ان سو کام لئیو جاوے۔یاکام کو جو معاوضہ بنے وائی سو ان کی تعلیم و تربیت کو بندوبست کرو جاوے اور ان کو وظائف دیا جاواہاں۔۔یہ بات ناممکن نہ ہاں ۔جو ادارہ کام کرراہاں ان سو رول ماڈل لئیوجاسکے ہے۔جو پرائویٹ ادارہ کام کرراہاں ۔یا جا انداز سو ایک فیکٹری یا کمپنی چلائی جاوے ہے یائی طریقہ سو تم میو قوم کے مارے رول ماڈل بنا سکوہو۔۔ایک بار کی کھیچل ہے ۔واسو پیچھے ای کام خود کار طریقہ سو چلن لگا جائے گو۔رہی بات بلی کا گلا میں گھنٹی کون باندھے؟یا رقم پیسہ کا معاملہ میں کس پے اعتبار کرو جائے؟سیدھی سی بات ہے۔قوانین اور قواعد و ضوابط ایسا بنا دئیو کہ۔شخصیات کے بجائے قوانین کو زیادہ اہمیت دی جائے۔احتساب کو اعلی نظام کھڑو کرو جائے۔جو لوگ خرچہ کراں ان کو تسلی دی جائے کہ تہارو سرمیہ خاص مدت کے بعد واپس کردئیو جائے گو۔جیسے ذاتی کاروبارن نے لوگ چلاواہاں۔ایسے ای کوئی ادارہ ایسو قائم ہوجائے۔جو خام مال اے کار آمد بنائے۔اور بہترین افرادی قوت مہیا کرے۔ہنر مند پیدا کراجاواہاں۔ای کام مُفتا میں نہ ہوئے جو لوگ خدمات سرانجام دیواں ان کو مناسب معاوضہ بھی حق الخدمت کے طورپر ادا کرو جاوے۔جاسو بہتر انداز میں امور سر انجام دیا جاسکاں۔ میو قوم میں بہت سا ہنر مند زندگی بھر کا تجربات راکھاہاں۔باصلاحیت ہاں ۔اگر ان کی خدمات حاصل کری جاواہاں تو منزل قریب آسکے ہے۔ایک ایسو نظام کھڑو کرو جاسکے ہے کہ باومعاوضہ افراد میون کا کاروبارن کا بارہ مین ایسو نظام قائم کراں ۔جا کے پئے جو سکلز ہوواں ان سو دوسرعان کو فائدہ پہنچاواں۔دوسران سو خود فائدہ اٹھا واں۔ای سارو سلسلہ معاوضہ لیکے کرو جاوے۔
سورہ الکہف کس طرح طرح حفاظت کا ذریعہ بنتی ہے؟
سورہ الکہف کس طرح طرح حفاظت کا ذریعہ بنتی ہے؟سورہ الکہف کی تلاوت امت کا معمول رہی ہے۔احادیث مبارکہ میں اس کی خاص فضیلت آئی ہے کہ جمعہ مبارک کے دن اس کی تلاوت نوربشختی ہے۔اور فتنہ دجال سے حفاظت کا سبب ہے۔اس وقت جو آثار و علام،ات فتنوں کی صورت میں نمودار ہورہی ہیں وہ کسی طرح ایمان و جسم کو سلامت نہیں رہنے دیتیں۔جو دجالہ صفات بیان کی گئی ہیں ان کا ظہور جدید ٹیکنالوجی کی صورت میں ہر انسان تک پہنچ شبِ جمعہ (جمعہ کی رات) اور جمعہ کے دن دونوں میں سورۂ کہف پڑھنے کے فضائل احادیث میں وارد ہوئے ہیں، بعض روایات میں صرف جمعہ کی رات کا ذکر ہے اور بعض میں صرف جمعہ کے دن کا ذکر ہے، شارحینِ حدیث نے لکھا ہے کہ ان تمام روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جن روایات میں صرف رات کا ذکر ہے ان سے مراد رات اپنے دن سمیت ہے اور جن روایات میں صرف دن کا ذکر ہے ان سے مراد دن اپنی گزشتہ رات سمیت ہے۔ ’’سنن دارمی‘‘ کی روایت میں ہے: “عن أبي سعيد الخدري قال: من قرأ سورة الكهف ليلة الجمعة أضاء له من النور فيما بينه وبين البيت العتيق“. ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ جس شخص نے سورہٴ کہف جمعہ کی رات میں پڑھی اس کے لیے اس کی جگہ سے مکہ تک ایک نور روشن ہوگا۔ (2/546دارالکتاب العربی) فيض القدير (6/ 198):“مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ فِي يَوْمِ الجُمُعَةِ أَضَاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ مَا بَيْنَ الجُمُعَتَيْنِ”. (ك هق) عن أبي سعيد”. (من قرأ سورة الكهف في يوم الجمعة أضاء له من النور ما بين الجمعتين) فيندب قراءتها يوم الجمعة وكذا ليلتها كما نص عليه الشافعي رضي الله عنه، قال الطيبي: وقوله: “أضاء له”، يجوز كونه لازمًا، وقوله: “ما بين الجمعتين” ظرف؛ فيكون إشراق ضوء النهار فيما بين الجمعتين بمنزلة إشراق النور نفسه مبالغةً، ويجوز كونه متعديًا، والظرف مفعول به، وعليهما فسر: {فلما أضاءت ما حوله} … (ك) في التفسير من حديث نعيم بن هشام عن هشيم عن أبي هاشم عن أبي مجلز عن قيس بن عبادة عن أبي سعيد (هق عن أبي سعيد) الخدري قال الحاكم: صحيح، فردّه الذهبي، فقال: قلت: نعيم ذو مناكير، وقال ابن حجر في تخريج الأذكار: حديث حسن، قال: وهو أقوى ما ورد في سورة الكهف”. رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکہف پڑھی اس کے لیے دوجمعوں کے درمیان نورروشن ہوجاتا ہے۔ فيض القدير (6/ 199):“(من قرأ سورة الكهف يوم الجمعة أضاء له من النور ما بينه وبين البيت العتيق) قال الحافظ ابن حجر في أماليه: كذا وقع في روايات يوم الجمعة وفي روايات ليلة الجمعة ويجمع بأن المراد اليوم بليلته والليلة بيومها”. یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے سورہٴ کہف جمعہ کے دن پڑھی اس کے لیے اس کی جگہ سے مکہ تک ایک نور روشن ہوگا۔ ’’فتاوی شامی‘‘ میں ہے: “مطلب ما اختص به يوم الجمعة (قوله: قراءة الكهف) أي يومها وليلتها، والأفضل في أولهما مبادرةً للخير وحذراً من الإهمال”. (2/164دارالفکر چکاہے۔
بیاض کبیر مکمل (Bayaz-E-Kabeer.pdf)
بیاض کبیر مکمل (Bayaz-E-Kabeer.pdf) بیاض کبیرطبع پنجمبیاض کبیر حصہ اول بینی دہلی کا مطب پر طبع پنجم میں اول سے آخر تک ز صرف نظر ثانی کی گئی ہے، بلکہ اسے گویا از سر نو لکھا گیا ہے ، اور اس میں اتنا بڑا اضافہ کیا گیا ہے کہ اسکے حجم میں تقریبا دو سو صفحات بڑھ گئے ہیں . بہت سے اہم امراض کے اصول علاج اور ضروری تدابیر د ہدایات لکھے گئے، اور بہت سے متروک امراض کے معالجات بڑھائے گئے۔ الغرض یہ کہنا اس وقت قطعا مبالغہ سے خالی ہے کہ طبع پنجم اس کتاب کی در اصل از سرنحہ تجدید ہے ؟اس کتاب کی اصلاح ، تکمیل اور نظرثانی کا کام ایسی مشغولیت کے زمانہ میں ہوا ہے ، جبکہ میں جامعہ طبیہ کے آغاز کار کی وجہ سے تعلیم و انتظام کے مہمات میں سخت مصروف و مشرک تھا ۔ ایسی حالت میں بعض کوتاہیوں اور فرو گزاشتوں کا رہ جانا ضروری ہے :اس کام میں میرے عزیز دوست حکیم محمد یحیی صاحب بہاری(فاضل الطب والجراحہ ) نے میری بہت بڑی مدد کی، اور انکی آن مساعی سے اس بارہ میں زبر دست اعانت حاصل ہوئی جو انھوں نے شرح اسباب کے لئے اضافات کے طور پر لکھتے ہیں، اسلئے اس موقع پر میں انکا نام فراموش کرنا حق سپاس گزاری کے منافی تصور کرتا ہوں خدا و متعالی انکی عمرہ علم میں برکت دے ، اور ولی مقاصد میں کامیاب کرکے انکے مستقبل کو شاندار بنائے *محمد کبیر الدین کتاب یہاں سے حاصل کریں 1پہلی جلد 2دوسری جلد 3تیسری ج لد
بچہ دانی کے ٹشوز کا بڑھنا۔اسباب و علاج
Adenomyosisبچہ دانی کے ٹشوز کا بڑھنا۔اسباب و علاج حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔(حکمت کی کتب میں شاید ہی کسی معالج نے اس بارہ میں گفتگو کی ہو۔) خؤاتین کے مسائل میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔بالخصوص رحم کی برھوتری اور 35 ۔40 سال کے بعد استحاضہ کا مسلہ۔رحم کے کناروں کے غیر طبعی طورپر بڑھنا۔جس قسم کی غذائیں کھائی جارہی ہیں۔اورشہوانی جذبات کا انتشار اور کیمیکلی کھانوں کی وجہ سے صحت میں بے ڈھنگاپن آتا جارہا ہے۔عورتوں کو ہارمونز کے مسائل میں اضافہ۔غیر طبعی طورپر خون کا چھوٹنا عام ہونے لگا ہے۔رحم کے کنارے غیر طبعی طورپر موٹے ہونے لگتے ہیں۔یہ حالت 20٪ سے 35٪ خواتین کو متاثر کرتی ہے .حکمت کی کتب میں شاید ہی کسی معالج نے اس بارہ میں گفتگو کی ہو۔ہمارے ہاں خواتین کے بارہایڈینومیوسس اس وقت ہوتا ہے جب آپ کی بچہ دانی کی تہہ سے ٹشو آپ کے رحم کی دیوار میں بڑھتا ہے۔ اس کی وجہ سے آپ کی بچہ دانی کا سائز دوگنا یا تین گنا ہوسکتا ہے۔ علامات میں بھاری حیض، درد اور تکلیف دہ جنسی تعلقات شامل ہیں. یہ عام طور پر ادویات یا سرجری کے ساتھ علاج کیا جاتا ہے.اینڈومیٹریئل ٹشو آپ کی بچہ دانی کی میومیٹریم یا پٹھوں کی دیوار میں بڑھ رہا ہے.ایڈینومائوسس اس وقت ہوتا ہے جب آپ کی بچہ دانی کو لائن کرنے والا ٹشو آپ کی بچہ دانی کی پٹھوں کی دیواروں میں بڑھتا ہے۔ ایڈینومائوسس کیا ہے؟ایڈینومیوسس (جسے “ایڈ-این-او-مائی-او ایچ-سس” کہا جاتا ہے) اس وقت ہوتا ہے جب آپ کی بچہ دانی (اینڈومیٹریم) کی سطح سے ملتے جلتے ٹشو آپ کی بچہ دانی (مایومٹریم) کی پٹھوں کی دیوار میں بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے آپ کی بچہ دانی موٹی اور بڑھ جاتی ہے – کبھی کبھی ، اس کے معمول کے سائز کو دوگنا یا تین گنا تک۔ ایڈینومائوسس تکلیف دہ حیض، بھاری یا طویل عرصے تک حیض سے خون بہنے کے ساتھ جمنے اور پیٹ / پیٹ میں درد کا سبب بن سکتا ہے . ایڈینومیوسس کتنا عام ہے؟بہت سی خواتین اور پیدائش کے وقت خواتین (اے ایف اے بی) تفویض کردہ افراد کو معلوم نہیں ہے کہ انہیں ایڈینومائوسس ہے کیونکہ یہ حالت ہمیشہ علامات کا سبب نہیں بنتی ہے۔ ایڈینومائوسس کا صحیح پھیلاؤ نامعلوم ہے۔ تاہم ، محققین جانتے ہیں کہ یہ ان لوگوں میں زیادہ عام ہے جو:ان کی بچہ دانی پر ایک طریقہ کار تھا.40 سال سے زیادہ عمر کے ہیں.شدید تکلیف دہ سائیکلوں کے ساتھ تقریبا 2٪ سے 5٪ نوعمروں کو ایڈینومائوسس ہوتا ہے. ایڈینومیوسس بمقابلہ اینڈومیٹریوسس بمقابلہ رحم کے فائبرائڈز ایڈینومیوسس، اینڈومیٹریوسس اور رحم کے فائبرائڈ سبھی خواتین کی تولیدی نالی کی خرابیاں ہیں۔ وہ بہت مماثل علامات کا سبب بنتے ہیں ، لہذا ان کو الجھنا آسان ہے۔ تاہم ، وہ مختلف حالات ہیں جن کے لئے مختلف علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایڈینومائوسس اس وقت ہوتا ہے جب بچہ دانی کی دیوار میں پھیلنے والے (پھیلے ہوئے) اینڈومیٹریئل ٹشو بڑھتے ہیں۔اینڈومیٹریوسس اس وقت ہوتا ہے جب بچہ دانی کے باہر اینڈومیٹریئل ٹشو بڑھتا ہے۔ یہ فالوپیئن ٹیوبوں ، بیضہ دانیوں ، وجائنا یا آنتوں پر بڑھ سکتا ہے۔رحم کے فائبرائڈز نرم ٹیومر (خلیوں کے ٹھوس حجم جو کینسر نہیں ہیں) کی وجہ سے ہوتے ہیں جو بچہ دانی کے مختلف حصوں پر بڑھتے ہیں.دیسی طب میں اسباب و وجوہ ۔عمومی طورپر جدید آلات کی مدد سے دریافت ہونے والی علامات و امراض کا ذکر دیسی طب پر لکھی گئی کتب میں موجود نہیں ہوتا ۔البتہ ایسے معالجین جو جدید قسم کی تکالیف و علامات پر نظر رکھتے ہیں کسی حد تک ان سے واقف ہیں ۔لیکن عوموی طورپر نبیادی طبی قوانین سے ناواقفیت کی وجہ سے وہ اس بارہ میں گفتگو کرنے سے کتراتے ہیں۔البتہ قانون مفرد اعضآء کے بانی نے اپنی کتب میں ان چیزوں کو بیان کیا ہے ۔گوکہ نام تو نہیں ملتے لیکن وہ کلیات ملتے ہیں۔جن کی روشنی میں ان چیزوں کا تدارک کیا جاسکتا ہے۔۔جب اس بارہ میں غور کیا جاتا ہے کہ جسم کا کوئی عضو اپنے حجم میں کم یا زیادہ ہوتا ہے تو اسے کس طریقے سے معتدل کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی پڑھئے تحقیقات تشریح اعضائے انسان(دوم)پورے انسانی جسم پر جو قوانین نافذ العمل ہیں ان کا ایک ہی طریقہ کار یہے مقام و جگہ بدل سکتے ہیں لیکن اسباب و جوہ ایک سے ہونگے۔مثلا اگر ظاہری جسم پر کہیں کوئی ابھار پیدا ہوتا ہے۔اس کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں یا تو متعلقہ مواد حد سے زیادہ جمع ہوگیا ہے۔یا پھر عضوپھول گیا ہے۔دونوں صورتوں میں دیکھنا چاہئے کہ عضو پھولا ہے یا پھئیلا ہے۔پھولا ہے تو اعصابیت ہے۔پھیلا ہے تو غدی اثرات ہیں۔یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔یعنی جہاں گرمی ہوگی وہاں ٹھندک نہیں ہوگی۔جہاں تھنڈک و تری ہوگی وہاں گرمی نہیں ہوگی۔ایڈینومائوسس یعنی رحم کے کناروں کا غیر طبعی بڑھنا۔جب ان کے اسباب و عوامل پر غور کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ ہارمونل پرابلم ہے۔ایسٹروجن کی کمی سے یہ مسعلہ پیدا ہوتا ہے۔اور یہ غدی کمزوری ہے اگر دوبارہ سےایسٹروجن کی کمی پوری کردی جائے تو رحم کے کناروں کی بڑھوتری کو روکا جاسکتا ہے۔
میو قوم کو بھولو پن(مجرمانہ غفلت)اورمستقبل سو بے خبری۔
میو قوم کو بھولو پن(مجرمانہ غفلت)اورمستقبل سو بے خبری۔(یا وقت میو قوم میں کوئی ایسو نہ ہے جاکی منصوبہ بندی آن والی نسلن کے مارے بہتر اور منافع بخش بن سکے)میو قوم سدا سو بھلی اور کھری شمار ہووے ہی۔ای قوم جاپے اعتماد کرے ہی واپے پیچھے آنکھ بند کرکے چل پڑےہی۔شاید یہی وجہ ہے کہ موقوم کی تاریخ ایسا واقعات سو بھری پڑی ہے کہ انن نے دوسران کی لڑی اور جب لڑائی کا فائدہ ملن لگا تو یہ اپنی گٹھری اٹھا کے چلتا بنا۔۔محمد بن قاسم سو لیکے محمود غزنوی۔لودھی۔بلبن۔مغل۔وغیرہ سے مونڈھ بھڑائی دیکھ لئیو۔ساری لڑائی یا تو انک پن کی وجہ سو لڑی یا پھر دوسرا کی حمایت میں۔میو قوم کو ان لڑائی بھڑائین کو کوئی فائدہ نہ مل سکو۔البتہ میو نسلن کے مارے بہادری کی کہانی سنان کے مارے مواد مل گئی۔کیونکہ میو قوم بھولی سادہ اورجنن نے اپنا بڑا سمجھ لیوے ہے ان کے پیچھے چلے ہے۔لیڈر اور رہنمان کا لحاظ سو ای قوم کم نصیب رہی ہے۔آج بھی ایسو ای ہے۔لیدر قوم بناواہاں ۔قوم سو فائدہ نہ اٹھاواہاں۔لیکن آج قوم کا نام سو ہر کائی نے اپنو ڈھول بجانو شروع کردئیو ہے۔جہاں دیکھو رہنما۔جہاں دیکھو لیڈر کو بوڈ لگو پڑو ہے۔ایسو لگے ہے۔میو قوم میں سارا لیڈر ہاں ،کارکن کوئی بھی نہ ہے۔اگر کوئی لیڈر ہوتو کم از کم قوم کا دکھ درد ضرور محسوس کرتو۔ یہ بھی پڑھئے تقسیم ہندمیں میو قوم کی قربانیمیون نے بہت سالوگ پڑھا لکھا بھی ہاں لیکن لیڈر کی سفا ت سو محروم ہاں۔جو کوشش کراہاں ۔بونا قسم کا لوگ انن نے گران کے مارے سارا حربہ استعمال کراہاں۔واکی برائی۔ذاتی زندگی کا بارہ میں بتلاواہاں۔۔۔اگر کوئی آگے بڑھ بھی جائے تو۔واکی سوچ ایک کھڑا کی مچھی سو گھنی نہ ہے۔کچھ دن محنت کرے ہے۔پھر وائے بیچے ہے۔۔۔۔ یہ بھی پڑھئے 26bamʻah Mīyo qaum aur Mevāt | میو ڈائریکٹری آف پاکستان اگر ہم اجتماعی کامن پے نظر دوڑاواں تو ایک بھوک مری کی سی حالت دکھائی دیوے ہے۔میو قوم ایسے لگے ہے جیسے بھیرن کو ریوڑ ہوئے۔جو صرف لاٹھی کی خود اے سمجھے ہے۔اگر کائی اے میری بات بری لگے تو۔موکو سمجھائو۔کہا قوم کی بچی بغیر شادی کے بیٹھی ہاں۔جن کے مارے چند کرنو ضروری ہے؟یا بات سو دوسران کو کہا پیغام دینو چاہو کہ میو قوم اپنی بہن بیٹین نے چندہ کرکے وداع کرے ہے۔کہا کوئی ایسو کام نہ کرو جاسکے ہے کہ یا سرمایہ اے ایسا کام میں لگا ئو کہ جو ضرورت مند ہاں وے روزگار حاصل کرلیواں۔ایسو امکان بھی ہے۔اور قابل عمل بھی۔لیکن ایسو سوچنو شاید لیڈرن کا منافع میں نہ ہے۔ اتنی بڑی قوم اور افرادی قوت ہونا کے باوجود میو قوم کے پئے کوئی مستقبل کو لائحہ عمل نہ ہے۔موئے ای بھی پتو ہے کہ بہت سا میو انفردای طورپے قوم کو درد بھی راکھاہاں۔لیکن ان کو احساس کرنو پوری قوم کے مارے کافی نہ ہے۔میو قوم کو اللہ نے ہر نعمت دی ہے۔سکول و کالجز ہاں ۔انڈسٹری۔کاروبار۔کھیتی باڑی۔ہنر مندی۔میڈیا ۔سوشل میڈیا۔ کوئی ایسی طاقت نہ ہے جاسو دنیا کی دوسری قوم فائدہ اٹھاری ہوواں۔او سہولت میو قوم کے پئے نہ ہوئے۔لیکن بدقسمتی کہ دوسری قوم جن وسائل سے فائدہ اٹھاری ہاں میو قوم انہی وسائلن نے خلوس دل سو برباد کرن پے تلی پڑی ہے۔اگر کوئی نے انفرادی طورپے کچھ حاصل کرلیئو تو بہت ساری توانائی یا بات پے صرف کردی جاواہاں کہ ای میو قوم کی جیت ہے۔کہا میو اتنی موٹی عقل کا ہاں کہ وے قوم اور افاد کی کامیابی میں فرق نہ کرسکاہاں؟۔
سیاست کے فرعون
سیاست کے فرعونپیش لفظپاکستان کا ہر چھوٹا بڑا لیڈر، سیاسی کارکن اور باشعور شہری جمہوریت کا کلمہ پڑھتا ہے لیکن جمہوریت ہے کہ اس ملک میں جڑی نہیں پکڑ چکتی۔ ستم ظریفی یہ کہ وہ ملک جو ایک جمہوری عمل کے نتیجے میں بنا وہاں عملا کسی چیز کا فقدان ہے تو وہ جمہوریت ہے۔ یہاں تک کہ جب یہاں ایک جمہوری حکومت بر سراقتدار ہوتی ہے تو اس وقت بھی جمہوری رویئے نہیں اپنائے جاتے اور جمہوری قدروں اور اصولوں کی خوب خوب مٹی پلید کی جاتی ہے۔ اور پھر مارشل لاء لگ جاتا ہے۔ ہم جہاں سے ہیں، وہیں واپس آکھڑے ہوتےہیں۔ ہمارا سارا سفر کھوٹا ہو جاتا ہے۔چلتےایسا کیوں ہے؟کیا ہم ایک قوم کے طور پر جمہوریت کے اہل ہی نہیں؟کیا سارا قصور فوج کا ہے جو ملک میں بار بار مارشل لاء لگا دیتی ہے؟ پاکستان کی سلامتی، بجتی اور ترقی کے لئے ان چیھتے ہوئے سوالوں کا صحیح صحیح جواب اس قدر ضروری ہے کہ اس پر سنجیدگی کے ساتھ اور پوری گہرائی میں اتر کر غور کرناچاہیے۔ یہ بھی پڑھیں پاکستان میں 1958ء – آزاد دائرۃ المعارفایک مدت کے غور و فکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب تک ہمارے ملک سے جاگیر داری اور ہماری سیاست سے جاگیر داروں کو نکال باہر نہیں کیا جاتا، پاکستان میں جمہوریت جڑ پکڑی نہیں سکتی۔ یہ نتیجہ فکر اس اہم ترین اور انتہائی حقیقت پسندانہ نظریے پر مینی ہے کہ ہر معاشرتی اور معاشی ( سوشوا اکنامک) نظام اپنے لئے ایک مخصوص سیاسی نظام کو جنم دیتا ہے۔ اگر معاشرتی اور معاشی نظام کچھ اور ہو اور سیاسی نظام اس سے لگا نہ کھاتا ہو تو ان میں سے ایک نظام دوسرے نظام کو کھا جائے گا۔چنانچہ ہمارے یہاں جاگیرداری نظام جمہوری نظام کو بار بار کھاتا چلا جا رہا ہے۔ یہ دونوں نظام ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اگر جمہوری نظام مستحکم بنیادوں پر قائم ہوتا تو وہ جاگیرداری نظام کو کھا جاتا۔ لیکن ہمارے ہاں جاگیرداری نظام اتنا مضبوط ہے کہ وہ جمہوری نظام کی جڑ لگنے ہی نہیں دیتا۔ کچی بات تو یہ ہے کہ جاگیرداری نظام اس معدے کی طرح ہے جو جمہوریت کو ہضم کر ہی نہیں سکتا۔ یہ بھی پڑھئے پاکستان میں پہلا مارشل لا: ‘عجلت میں کیا گیا اسکندر مرزا ..چنانچہ ہم جب بھی اس پر اوپر سے جمہوریت ٹھونستے ہیں تو وہ اسے ہر بار اگل دیتا ہے۔اس بظاہر سادہ کی حقیقت کے اندر معنی کا ایک جہان پوشیدہ ہے۔ ہماری معاشرت اور معیشت پر صدیوں سے جاگیرداری نظام مسلط ہے۔ یہ نظام جہاں جہاں موجود ہوا، وہاں سیاسی سطح پر بادشاہت یا آمریت ہی قائم ہوئی۔ جمہوریت تو پیدا ہی اس وقت ہوئی جب جاگیرداری نظام ٹوٹا۔ یاد رہے کہ یونان کی قدیم شہری جمہوریت ” میں ہر شخص یا شہری کو ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا کہنے کو تو قبائلی نظام میں بھی ایک طرح کی جمہوریت پائی جاتی ہے لیکن آج ہم جس نظام کو جمہوریت کا نام دیتے ہیں یا جس جمہوری نظام کے خواہش مند ہیں، وہ ہر بالغ شخص کو رائے دہی کا آزادانہ اور منصفانہ حق دے کر ہی قائم ہو سکتا ہے۔ Pakistan Marshall Law | Dr Mubarak Aliان معنوں میں جمہوریت اس وقت آئی اور انہی ملکوں میں آئی جہاں صنعتوں نے فروغ پایا، زرعی معاشرہ صنعتی معاشرہ میں بدلا اور یوں جمہور کا زمین سے بندھا ہوا ووٹ آزاد ہو گیا۔ اس آزادی نے جاگیر دارانہ معاشرت اور معیشت کا خاتمہ کر کے جمہوریت کو استحکام بخشا۔ بے شک آج پاکستان میں مارشل لاء منذ نہیں اور جمہوریت کے عنوان سے یہاں سیاستدانوں کی حکومت قائم ہے لیکن کیفیت یہ ہے کہ پانچ فیصد جاگیر دار اسمبلیوں کی پچانوے فیصد نشستوں پر قابض ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کا معاشرتی اور معاشی نظام آج بھی جاگیرداری کے حوالے سے چل رہا ہے۔ ملک کا ہر قانون جمہور کے بجائے جاگیرداروں کے فائدے کے لئے بنتا ہے۔ مہنگائی، بے روز گاری اور بیماری کی مار جمہور کھاتے ہیں۔ ٹیکس دیتا ہے تو درمیانے طبقے کا نوکری پیشہ شخص یا دکاندار اور صنعتکار لیکن فائدے اٹھاتا ہے اور ہر طرح کے ٹیکس سے بری ہے تو بڑا زمیندار یا جاگیر دار ۔ یہی بڑے زمیندار اور جاگیر دار فوج کے معاون رہے ہیں۔ انہی کے کندھوں پر سوار ہو کر فوج مارشل لاء باقی کتاب میں پڑھئے۔ حصول کتاب کے لئے یہاں کلک کریں
وقت ہاتھ سو کھسکو جاوے ہے
وقت ہاتھ سو کھسکو جاوے ہےTime should get out of handحکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میومنتظم ادعلی:سعد طبیہ کالج /سعد ورچوئل سکلز پاکستان زندگی کی معیاد مقرر ہے جتنی کائی کا للار میں لکھ دی گئی ہے واسو فالتو ایک پل بھی نہ مل سکے ہے۔ماں کا پیٹ میں پیدا ہونا سو پہلے کچھ بات پیدا کرن والا کا مہیں سو لکھ دی جاواہاں ۔رزق کتنو ملے گو۔زندگی کا سانس کتنا ہونگا۔کتنو جئے گو۔وغیرہ۔میو قوم میں وقت کو ضیاع بہت گھنو ہے میرو خیال تو ایسو ہے کہ وقت جیسی قیمتی چیز کی ناقدری جتنی میو قوم میں کری جاوے ہے شاید ہی دنیا میں کوئی اتنو لاپروا اور مجہول قوم ہوئے گی۔موئے خوب پتو ہے کہ محفل ۔بیاہ بدو اور پرے پنچاتن میں موئے جانو پسند نہ ہے،لیکن میڈیا اور آئی تی کی دنیا سو میرو تعلق ہے ۔پڑھن لکھن کو کام ہے۔یہی میری دنیا ہے۔جب میں اپنی دنیا میں جھانک کے دیکھو ہوں تو حدک رہ جائو ہوں کہ میری قوم خڈا کی نعمتن نے کتنا خلوص سو بردابر کرری ہے۔ یائے بھی پڑھ لئیو میو قوم کے مارےآگے بڑھن کا اور بھی طریقہ ہاں! –ایک چھوٹی سی مثال لے لئیو۔ میون کاواٹس ایپ گروپن کی بھر مار ہے۔ان میں میو سارا دن رات گپوڑاہاں۔خؤامخواہ کی باتن نے کراہاں۔قوم و ملت اور برادری کے مارے ان کے پئے کوئی پیغام ہے نہ کوئی مشن۔بس ایک دوسرا کی ٹانگ کھنچائی ہے۔جن گروپ ایڈمنن نے اَن بَن ہوجائے دوسرے دن ایک نئیو گروپ کھڑو ہوجائے گو۔لیکن گروپ در گروپ میں میو قوم کے مارے کوئی پیغام ہے نہ قوم و ملت کے مارے کوئی بھلائی۔ بس وقت ہے جائے دھڑلا سو برباد کری جاراہاں۔کام کا لوگن کی بات سُنی اَن سنی ایک کردی جاوے ہے۔بے ڈھنگا بے سُرا لوگ ٹینٹن پے بیٹھا ہاں۔کچھ لوگ نو دُلتیا ہاں وے سمجھا یہاں کہ ہم تو کوئی آسمانی مخلوق ہاں؟میو قوم وقت ضائع کرن میں پورا اخلاص سو لگی پڑی ہے۔کائی کے پئے کوئی راہ ہے نہ کوئی میو نسل کے مارے کام۔میو قوم اپنا وسائلن نے دلجمعی سو برباد کرری ہے۔بیاہ بدون میں ایک دوسرا سو بڑھ کے نوٹ پھینکا جاواہاں۔بے شمار دولت لٹائی جاوے ہے۔لیکن جب انہیں لوگن سو نکاح کے مارے مولوی صاحب کو ہدیہ مانگو جاوے ہے تو ان کی روح قبض ہوجاوے ہے،مسجد مدرسہ فلاحی امور۔اور میو قوم کی بہتری کے مارے بات کری جائے تو ان کا گھر کو چون مُک جاوے ہے۔ساری دنیا کا دکھان کی زبان سو نکلن لگ پڑا ہاں۔ایک مثال لگا لئیو کہ کچھ عرصہ پہلے ایک میو سپوت تمغہ لے کے آئیو۔ساری قوم نے واکو مان سمان کرو۔واکو حق بھی ہو۔وا وقت ہم نے رول مچائی کہ جتنا وسائل جلسہ جلوسن پے خرچ کراجارا ہاں۔انن نے کچھ معتبر لوگن کے سُرد کردئیو ۔وے پلاننگ سو خرچہ کراہاں اور ایسا ادارہ قائم کردیواں کہ ایک یاسر سلطان نہ بلکہ بہت سا یاسر سلطان میو قوم میں پیدا ہوجاواںلیکن بازار میں آندھا کی ٹیر کون سُنے ہے۔بہت سارا شعبہ ہاں۔جہاں میو قوم کا نوجوانن کی ضرورت ہے کہ ان کی بات مانی جائے ان کو ہنر دئیو جائے۔ان کو جدید سکلز دی جاواں۔ان کو ہنر اور کاروبار دئیو جاوے۔میو قوم کا دھنیڑٰن نے چاہے کہ کم وسائل میون نے غلام اور کمتر سمجھن کے بجائے۔انن نے آگے لاواں۔اجتماعی شادی یا اجتماعی رسوائی کے بجائے،اجتماعی ہنر مند پیدا کراں۔کم از اکم نئی نسل تو اپنا اپون پے کھڑی ہوجائے۔میو پھنے خان لوگن سو کہہ رو ہوں۔زندگی گزر جائے گی ،یا بڑھاپا سو آگے کچھ نہ ملے گو۔اگر تم نام چاہو،نیکی کا طالب ہو۔تو زندگی کا آخر میں کوئی بھلو کام میو جوانن کے مارے کرجائو۔جاسو تم نے کوئی دعا میں یاد راکھ سکے۔میو قوم کے مال دارن سو بھی بِنتی ہے کہ صدا تو وے بھی نہ جئینگا۔مرنو تو سبن نے ہے۔تو یار کچھ کام ایسا بھی کردئیو کم از کم تہارو نام لین والو تو کوئی ہوئے؟۔رہی بات اولاد کی تو ہم نے خوب پتو ہے جیسا سپوت تم جن را ہو۔یہ تو جائیداد کے مارے ایک دوسرا پے بندوق تانن سو بھی باز نہ آنگا۔کہا ایسی اولاد دعا کے مارے ہاتھ اٹھائے گی۔جو بوڑھاپا میں باپ کو روٹی پانی دینا لتا کپڑا دھونا سو بھی کُنتاوے ہے؟جاکی کوٹھی میں بوڑھا باپ کے مارے ایک کونہ میں چھوٹو سو میلو کچیلو ۔کمرہ دے کے دور پھینک دئیو جاوے ہے۔کہا یہ لوگ تم نے دعا میں یاد راکھنگا۔؟ ۔موئے تو نہ لگے ہے۔۔۔لیکن میو مانا کَس کی ہاں۔انن نے خداسمجھائےئ تو سمجھائے۔نہیں تو ان کا دمیاغ بند ہاں۔ایسا بند کہ قسم کھاراکھی ہے کہ کوئی ڈھنگ کی بات دماغ میں گُھسن نہ دینگا۔۔۔میری باتن سو بہت سا میون نے غصہ بھی آئے گو۔آنو بھی چاہئے۔ممکن ہے یا غصہ کی حالت میں وے کوئی ایسو بھلائی کو کام کردیواں،جاسو میو قوم کی نئی نسل کچھ فائدہ اٹھالیوے۔۔۔کہا سنو معاف