قدرتی اینٹی بایوٹک کا تعارفاور اینٹی وائرس hakeem al meewat Qari m younas shahid meo tibb4all dunyakailm Saad Virtual Skills @Tibb4allTv ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مترجم:۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میوقدرتی اینٹی بایوٹکس کے لیے حتمی گائیڈ –گھریلو جڑ ی بوٹیوں سے متعلق علاج جوپیتھوجینز کو مارتے ہیںاور بیکٹیریل انفیکشن اور الرجی کا علاج کرتے ہیں ۔ یہ بھی پڑھیں اینٹی بائیوٹکس کی تعریف، خصوصیات، درجہ بندی، انتظامیہ(ملاحظہ)سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی/سعد ورچوئل سکلزپاکستان کے پروجیکٹ “طب سب کے لئے” کے تحت انگریزی زبان سے ترجمہ شد ہ کتاب ہے۔جدید گرافکس۔انٹلیجنس کی مدد سے پیچیدہ مسائل کی تصویری جھلکیاں۔اجزاء کے نیوٹریشن۔سائنس تجزیات پرمشتمل اجزاء کی فہرست شامل کی گئی ہے۔اس کتاب میں دیسی طب اور جدید یورپ کی معالجاتی نفسیات کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔بہترین مجربات شامل کئے گئے ہیں۔حصول کتاب کے لئے100 روپے میں PDFان پیچ۔ورڈ۔jpgفارمیٹ میں حاصل کرسکتے ہیں)۔
WHAT IS ISLAM
WHATISISLAMAUTHORM u l a n a M a n z o o r N o u m a n i ) ( PrefaceIN THE NAME OF ALLAH (SUBHAANAHU WATA’AALA), THE MOSTBENEVOLENT, THE MOST MERCIFULShould it be possible for the Holy Prophet (Peace be upon him) to he sentdown into the world once again by Allah (Subhaanahu Wata’aala) Almighty whatwould his reaction be on seeing the conduct and behaviour and the generaldesign of life of the community that exists today by the name of Muslim? Andwhat advice and command would he give to such of his followers who stillpossess in their hearts some solicitude for the faith and whose souls have notyet Frozen to and got completely bereft of devotion and allegiance to Islam?Without the least hesitation, I can say that he will feel extreme pain all thespectacle of utter moral and spiritual degeneration in the bulk of Muslimspresent these days, as much as he was by the brutal treatment meted out tohim by the people of Taif or by the savage assaults made by the callousPolytheists at Uhad. And his message to earnest concern for faith will be todedicate themselves whole-heartedly to the task of improving and reforming thelamentable religious state of his Ummah and of breathing into it again the spiritof Faith and Islamic way of life.So, if you find yourself in agreement with me and your heart concurs withwhat I have said above, you must resolve, here and now, and in all sincerity, tomake this endeavour a part of your life. For my part, I am absolutely confidentthat it is the choicest way to earn the pleasure of Allah (Subhaanahu Wata’aala)(Subhaanahu Wata’aalaa) and the blessings of the Prophet (Peace be uponhim) and to make his soul happy.By the grace of Allah (Subhaanahu Wata’aala) (Suhhaanahu Wata’aalaa)efforts of the moral and religious revival of Muslims are being made on a fairlylarge scale in India and Pakistan in Several other countries, also in the form ofMovement called Talbligh. Wherever you may be living you can take part inthese efforts, according to your means and circumstances, along with otherearnest sons of Islam of your place and also do what you can individually in thisrespect.This small book, which is now in your hands, is a part of this endeavour. Ithas been written specially to meet the needs of Muslim men and women whodo not know much about Islam or who cannot avail themselves of moreadvanced books on it. They can read it themselves or have it read out to themby others and also communicate its contents to their brethren by reading thebook publicly in mosques and at other Muslim congregations, and, do their bittowards their own religious correction and reform as well as that of others.Though the book consists only of about two hundred pages the sum andsubstance of the Faith has been covered fully in it. Within its twenty lessons all link
طب نبوی: تجزیہ اور تفہیم
طب نبوی: تجزیہ اور تفہیم بعثت نبوی کے وقت طب کی صورت حالانسانوں نے ہر دور میں صحت و مرض اور علاج معالجہ کے معاملات میں دل چیپسی لی ہے۔ اس کی وجہ سے طبی معلومات کو جمع کر کے ان کی تحقیق کی طرف ان کی توجہ منعطف ہوئی ہے۔ اس تحقیق کے نتیجے میں تمام تہذیبوں اور ملکوں میں علاج معالجہ کے مختلف طریقوں کا چلن رہا ہے۔ اس سلسلے میں مصر، میسو پوٹا میا، چین، یونان، روم اور ہندوستان کا متذکرہ بہ طور مثال کیا جا سکتا ہے۔بعثت نبوی سے قبل کے دور میں طب کی تعلیم کے دو (۲) ادارے شہرت رکھتے تھے۔ایک رومی سلطنت میں مصر کے شہر اسکندریہ میں قائم ادارہ، جہاں یونانی اطبا بقراط و جالینوس کے افکار و نظریات کے مطابق طب کی تعلیم دیتے تھے اور دوسرا ایران کے شہر جندی شاپور میں قائم ادارہ، جہاں با قاعدہ وقتی طور پر طب کی تعلیم دی جاتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود چھٹی صدی عیسوی میں افریقہ اور ایشیا کے تمام علاقوں میں ، جہاں رومیوں اور بازنطینیوں کا اقتدار تھا، عوام میں طلب اور علاج معالجہ سے بے رغبتی اور بے زاری پائی جاتی تھی ، دوا لینے کو نا مناسب خیال کیا جاتا تھا، امراض کو بھوت پر بہت اور آسیب کا اثر سمجھا جاتا تھا اور اس سے شفا پانے کے لیے جادو گروں اور پروہتوں کا سہارا لیا جاتا تھا، جنہوں نے جھاڑ پھونک، جادو ٹونا اور تعویذ گنڈے کو پیشہ بنا رکھا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک زیر دست ملیریا کی وبا نے رومی سلطنت کی بڑی آبادی کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور لاکھوں افراد کو جسمانی اور دماغی اعتبار سے مفلوج کر دیا تھا، لیکن صورت حال پر قابو پانے کے لیے کوئی طبیعی طریقہ نہیں اختیار کیا گیا تھا ۔علاج معالجہ کے سلسلے میں یورپ کا حال بھی مشرقی ممالک: فارس ، عراق، شام اور مصر سے مختلف نہ تھا۔ وہاں بھی امراض سے نجات پانے کے لیے جادو ٹونا اور تعویذ گنڈا ہی رائج تھا۔طب نبوی تجزیہ اور تقسیمعہد جاہلی میں عربوں کے ہاں بھی طب کا چلن عام نہیں ہوا تھا۔ اس لیے کہ وہ تمدن سے بہت دور تھے۔ ان کا مزاج بداوت پر مبنی تھا۔ اگر چہ تمام انسانی سماجوں کی طرح وہ بھی امراض سے بچاؤ اور علاج کے طریقے تلاش کرتے تھے، لیکن بد اعتقادی کی وجہ سے امراض کو جتات، شیاطین اور بدروحوں کا اثر سمجھتے تھے ۔ چنانچہ بیمار ہونے پر عموماً کاہنوںسے رجوع کرتے ، جو تعویذ ، سحر اور جھاڑ پھونک کے ذریعے ان کا علاج کیا کرتے تھے۔عربوں کے تجارتی اور سیاسی تعلقات پڑوسی ممالک ایران اور بازنطین وغیرہ سے قائم تھے، جس کی وجہ سے طب کی کسی قد رقمی معلومات ان تک پہنچنے لگی تھیں ۔ چنانچہ تاریخی روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ بعثت نبوی کے زمانے میں طائف میں رہنے والے قبیلے بنو ثقیف میں حارث بن کلدہ نامی ایک طبیب تھا،جس نے ایران جا کر جندی شاپور کے طبی ادارے سے با قاعدہ تعلیم حاصل کی تھی ، پھر اپنے علاقے میں واپس آکر پیشہ ورانہ خدمت انجام دینے لگا تھا، لیکن عوام کا عمومی رجحان علاج معالجہ کرانے اور دوا لینے سے بے زاری کا تھا۔ وہ جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈے کے اسیر تھے۔
Mental and physical fatigue and their treatment
Mental and physical fatigue and their treatment hakeem al meewat Qari m younas shahid meo tibb4all dunyakailm Saad Virtual Skills @Tibb4allTv ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ Man is always in struggle. He continues to use his mental and physical abilities. Whatever organ or force he leaves, that force is taken away from him. But when a task is overdone, he feels tired. Because the best way to restore these forces is rest/sleep.Mental fatigue is more than physical fatigue and it is a precursor of many diseases. Remember that understanding is the heart, thinking is the mind. Those who are physically tired should rest and those who are mentally tired should exercise. This is what this video has tried to explain.
دنیائے طب کی دو کتابوں کا موازہ
دنیائے طب کی دو کتابوں کا موازہحکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو hakeem al meewat Qari m younas shahid meo tibb4all dunyakailm Saad Virtual Skills @Tibb4allTv ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا ئے طب کی دو کتب اپنی نوعیت کی الگ شاناخت رکھتی ہیں۔جب سے اسلامی دنیا میں طب پر زوال آیا ہے طب میں تحقیق و تدقیق کے بجائے نقل در نقل کا رجحان در آیا ہے۔یہ دونوں کتب ان متہد اطباء نے لکھی تھیں جو میدان عمل کے شہ سوار تھے۔ان کی ان کتب نے یورپ و ایشاء میں سرجری کے میدان میں قیادت کی تھی۔یورپ میں کئی سو سال انہیں بطور نصاب شامل رکھا گیا تھا۔ان میں ایک کتاب کا نام(1) التصريف لمن عجز عن التأليف للزهراوي۔۔۔ابو القاسم الزہراویپیدائش 936 عیسویمدینہ الزہراء، اندلس (ماضی قریب میں قرطبہ، ہسپانیہ)ابو القاسم خلف بن عباس الزہراوی (ولادت: 936ء– وفات: 1013ء) اندلس سے تعلق رکھنے والے علم جراحت کے بانی، متعدد آلات جراحی کے موجد اور مشہور مسلم سائنس دان تھے۔ قرطبہ کے شمال مغرب میں امویوں کے بنائے گئے شہر الزہراء کی نسبت سے الزہراوی کہلاتے ہیں، یورپیوں نے ان کا نام بہت ساری اشکال پر لاطینی زبان میں کندہ کیا ہے، وہ طبیب، جراح اور مصنف تھے، وہ عرب کے عظیم تر جراح اور طبیب مانے جاتے ہیں جن کی جراحی کا دورِ جدید بھی معترف ہے، یہ بھی پڑھئے ابوالقاسم زہراوی کے علمِ جراحت اور یورپ پر احسانات ان کا زمانہ اندلس میں چوتھی صدی ہجری (دسویں صدی عیسوی) ہے، ان کی زندگی جلیل القدر کارناموں سے بھرپور ہے جس کے نتیجے میں قیمتی آثار چھوڑے، وہ عبد الرحمن سوم الناصر کے طبیبِ خاص تھے، پھر ان کے بیٹے الحکم دوم المستنصر کے طبیبِ خاص ہوئے، تاریخ میں ان کی زندگی کے حوالے سے بہت کم تفصیلات ملتی ہیں حتی کہ ہمیں ان کا سالِ پیدائش 936ء، ان کی وفات غالباً 404 ھ کو ہوئی۔ ان کی سب سے اچھی تصانیف میں ان کی کتاب “الزہراوی” ہے جبکہ ان کی سب سے بڑی تصنیف “التصریف لمن عجز عن التالیف” ہے جو کئی زبانوں میں ترجمہ ہوکر کئی بار شائع ہو چکی ہے(2)کتاب عمدۃ الجراحتابن القف کی زندگیابو الفراج ابن القف ایوبی بادشاہ الناصر صلاح الدین داؤد کے زمانے میں 630 ہجری – 1233 عیسوی میں پیدا ہوئے، وہ اپنے والد کے ساتھ شام کے شہر سرخد میں چلے گئے، جہاں انہیں دیوان ال میں کام کرنے کے لیے منتقل کر دیا گیا ۔شہزادہ عزالدین ایبک کے دور حکومت میں سرخاد اپنی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا تھا۔ تصنیفی خدماتابو الفراج ابن القف۔ اردن کے قلعہ اجلون میں ڈاکٹر مقرر ہوئے اور وہاں اس نے 1271-1272 میں طب پر کتاب الشافعی لکھی، اس کی شہرت پھیلنے کے بعد وہ دمشق واپس آئے اور اس کے محافظ قلعہ میں خدمات انجام دیں اور وہاں کئی کتابیں لکھیں:جامع الرضا فی سال 1274 میں صحت اور بیماری کا تحفظ۔الکلیات ابن سینا کی کتاب قانون سے 1278 چھ جلدوں میں۔سرجیکل انڈسٹری کے کام میں میئر آف ریفارم کی کتاب ، جسے 1281 میں سرجیکل انڈسٹری میں میئر کے نام سے جانا جاتا ہے۔کتاب اصول اصول شرح الفصل 1283-1284۔تیسرے قانون پر بات چیت ، اشاروں کی کوئی وضاحت نہیں تھی، ایک مسودہ تھا، اور مراکشی تحقیقات مکمل نہیں ہوئیں اور مکمل نہیں ہوئیں۔انتقال۔ابن القف کا انتقال دمشق میں 685ھ میں باون سال کی عمر میں ہوا۔ابن القف کی سرجری پر العمدہ کی کتاب جہاں تک ان کی کتاب العمدہ فی سرجری کا تعلق ہے، یہ عرب میں سرجری میں مہارت رکھنے والی پہلی کتاب سمجھی جاتی ہے، ا
رسول اللہﷺ کے زمانے کے کھانے اور مشروبات
الاطعمۃ والاشربۃ فی عصر الرسولﷺرسول اللہﷺ کے زمانے کے کھانے اور مشروبات۔نظر ثانی ایڈیشن۔ (ملاحظہ)یہ کتاب سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ/سعد ورچوےل سکلز پاکستان کے پروجیکٹ۔(۔۔نایاب کتب کا حصول ۔۔۔تحت ری کمپوزکرکے شائع کی جارہی ہے۔۔کوئی بھی اس کی ماسٹر کاپی200 روپے میں PDF.۔ورڈ،انپیج3۔فارمیٹ میں حاصل کرسکتا ہے)اللہ تعالیٰ جس سے جو کام لینا چاہتا ہے جس قدر لینا چاہتاہے۔اس کے اسباب پیدا فرمادیتا ہے۔اس امت کی خاصیت علم بالقلم ہے۔رسول اللہﷺ کے جوامع الکلم کے صدقہ سے اس امت کو لکھنے پڑھنے کا شعور بخشا گیا ہے۔اہل لوگوں کو تصنیف و تالیف کی توفیق عطاء کی گئی ہے،اس میں ذاتی کاوشیں ایک ذریعہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔اصل تو انتخاب ہے ۔سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ /سعد ورچوئل سکلزکاہنہ نو لاہور۔کے زیر اہتمام طب نبویﷺ کے فروغ و اشاعت کا کام کئی سالوں سے جاری ہے۔آن لائن کلاسز۔ آڈیو۔ ویڈز۔ کالم۔کتب۔کا سلسلہ تسلسل سے جاری ہے۔رسول اللہﷺ کے زمانے کے کھانے اور مشروبات۔نظر ثانی ایڈیشن۔بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔یہ کتاب ایک عربی کتاب کا اردو ترجمہ ہے ۔یہ خدمت حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو نے سر انجام دی ۔موصوف کی اور بہت کئی کتب دنیا بھر میں مشہور ہوچکی ہے ۔اہل علم ۔اطباء و معالجین۔ حکماء ۔ عاملین ذوق و شوق سے ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔اس ایڈیشن میں خورد و نوش کی اشیاء کی غذائی اہمیت اور ان کے چارٹ دئے گئے ہیں۔جس کی وجہ سے کتاب کی افادیت میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔امید ہے اہل علم۔رسول اللہﷺ کے زمانے کے کھانے اور مشروبات۔نظر ثانی ایڈیشن۔ کا مطالعہ فرمائیں گے اور بشری تقاضے کی وجہ سے بھول چوک سے آگاہ فرمائیں گے۔تاکہ ان مقامات کی تصحیح کی جاسکے۔انتظامیہ:سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کا ہنہ نو لاہور پاکستان وٹس ایپ نمبرۤ+0923484225574 جاز کیش:+923238563840
کتاب ۔طب۔ پرہیز
کتاب ۔طب۔ پرہیزحکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو hakeem al meewat Qari m younas shahid meo tibb4all dunyakailm Saad Virtual Skills @Tibb4allTv ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسانی زندگی میں جو شعور کتاب دیتی ہے وہ کوئی دوسرا ذریعہ نہیں دے سکتا ۔گوکہ اس کی شکلیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔کھانے پینے کے بارہ میں غذا پرہیز۔دوا زہر اور دیگر معاملات ہر وقت ذہن نشین نہیں رہتے۔انہیں کتاب ہی محفوظ رکھ سکتی ہے۔جولوگ کتاب پڑھنا اور اسے سمجھنے کا ہنر جانتے ہیں وہ غذا و خوراک میں توازن رکھ کر توانا و تندرست رہتے ہیں
ابن القف مصنف کتاب العمد وفي الجراحت ۔طبی کارنامے
ابن القف مصنف کتاب العمد وفي الجراحت ۔طبی کارنامے حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو ملکی حالاتاردن کا شہر کرک ابھی صلاح الدین ایوبی کے زمانے میں صلیبیوں کی گرفت سے آزاد ہوا تھا، اس شہر کا سنہری دور شروع ہوا، اس کا قلعہ بند ہوا، اور حجاج کرام کے مکہ جانے والے راستے میں اس کی اہم حیثیت ہے۔ بحال کیا گیا تھا.۔ابن القف کے حالات زندگی ۔ابن القف کی تخلیقات ۔ابن القف کی سرجری پر العمدہ کی کتاب ابن القف کے مضامینابن القف کی زندگیابو الفراج ابن القف ایوبی بادشاہ الناصر صلاح الدین داؤد کے زمانے میں 630 ہجری – 1233 عیسوی میں پیدا ہوئے، وہ اپنے والد کے ساتھ شام کے شہر سرخد میں چلے گئے، جہاں انہیں دیوان ال میں کام کرنے کے لیے منتقل کر دیا گیا ۔شہزادہ عزالدین ایبک کے دور حکومت میں سرخاد اپنی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا تھا۔ان کے والد ابن ابی عصیبہ کے دوست تھے، جن کے بارے میں وہ کہتے ہیں: “ان کے والد موفق الدین، میرے ایک دوست تھے جو ان کی محبت کا اثبات کرتے رہے، اپنے دنوں اور مدت تک اس کی حفاظت کرتے رہے۔ اور اس کی صحبت کی دلہنیں مطلوب تھیں۔عربی کے علم میں ممتاز ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ادبی فنون میں بھی بہترین ہیں، اس نے اس کی تمام ماخذات اور شاخوں کو تحریر میں شامل کیا ہے، اور وہ اس کی دور اور شاندار نوعیت کے ہدف تک پہنچ گیا ہے، اور وہ اس کے پاس وہ خوش نصیبی ہے جو نظر کی خوشی ہے، اور تمام ممالک اور خطوں میں کوئی مصنف اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ابن ابی عصیبہ سدرخد میں ابو الفراج ابن القف نے طب کی تعلیم کا آغاز ابن ابی عصیبہ کے ہاتھ سے کیا، ان کے والد نے انہیں طب سکھانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے مجھ سے اس بارے میں پوچھا، انہوں نے مجھے اس وقت تک رکھا جب تک کہ انہوں نے پہلی کتابیں حفظ نہ کر لیں۔ طبی صنعت میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے تھے، جیسے کہ ہپوکریٹس کے مقالات حنین اور الفاسلو، اور اس کا علم کا تعارف۔ وہ ان کے معانی کی وضاحت کرنا جانتا تھا، ان کے اصولوں کو سمجھتا تھا، اور اس کے بعد علی نے اس کے بارے میں لکھا۔ابوبکر محمد ابن زکریا الرازی کی کتابوں سے علاج، وہ بیماریوں کی اقسام اور جسم میں ہونے والی سنگین بیماریوں کے بارے میں کیا جانتے تھے، انہوں نے علاج کے علاج اور علاج کی تکالیف کے بارے میں تحقیق کی۔ ابواب، اور اس کے اسرار و رموز کو سمجھا، چنانچہ وہ ابن ابی عصیبہ کے ایک نیک شاگرد ہیں، جن کی وفات سنہ 668 ہجری میں ہوئی، اس کے بعد اس نے اپنی کتاب(“عيون الأنباء في طبقات الأطباء”) “ڈاکٹرز کی کلاسوں میں خبروں کی آنکھیں” سے دنیا کو روشن کیا۔ “اس کے بعد ان کے والد امیر کے دربار میں کام کرنے کے لیے 1252ء میں دمشق چلے گئے اور ابو الفراج کے علم کے افق میں وسعت پیدا ہوئی ۔‘‘اس وقت دمشق میں دو میڈیکل اسکول تھے، جن میں لیس اسپتالوں کے علاوہ سب سے اہم اسکول تھے۔ جو کہ عظیم الشان النوری بیمارستان تھا، جسے نورالدین محمود بن عماد الدین زینگی نے تقریباً ایک صدی قبل دمشق میں داخل ہونے کے بعد تعمیر کیا تھا، اس بیمارستان کو بہت سے مورخین اور سیاحوں جیسے ابن جبیر اور ابن بطوطہ نے سراہا تھا، جو اسے اسلام کی شان اور اس کے اداروں کی زینت سمجھتے تھے۔صالحیہ دمشق کے ایک خوبصورت مضافاتی علاقے میں بمرستان القیمری تھا جس نے اپنے دروازے شہزادہ سیف الدین یوسف بن ابی الفورس القیمری کی سخاوت کی بدولت کھولے جن کی وفات 654ھ/1256ء میں ہوئی، مورخین نے بھی اس کی تعریف کی۔تعلیم و تربیتدمشق کی جامع مسجد کے قریب بمرستان باب البرید، اس ترقی یافتہ ماحول اور اس کے پاس موجود سائنس کے اداروں میں۔ نوجوان ابن القف نے اپنی تعلیم اور طبی تربیت مکمل کی تاکہ اس پیشے پر عمل کیا جا سکے جس کے لیے اس نے خود کو وقف کر رکھا تھا۔”دمشق میں ابن القف نے اپنے زمانے کے بہترین پروفیسروں سے طبی علم حاصل کیا۔“ انہوں نے شیخ شمس الدین عبد الحمید الخسروشاہی اور علی عزالدین الخسروشاہی سے حکمت کے علوم اور فلسفیانہ حصے پڑھے۔حسن الغنوی الدھریر، اس نے طب کے شعبے میں حکیم نجم الدین ابن المنفخ اور علی موفق الدین یعقوب السمیری سے بھی پڑھا۔ الدین الاردی، اور اس نے اس کتاب کو اس فہم کے ساتھ سمجھا جس نے اس کے بند بیانات کو کھولا اور اس کی شکلوں کا مسئلہ حل کردیا۔ابن القف کی تخلیقات اس دور میں تاتاریوں نے حملہ کیا، اور بغداد کی تباہی کے بعد، ہلاکو نے لیونٹ میں اپنی پیش قدمی جاری رکھی، اور لیونٹ کے حالات بہتر تھے، اس لیے سب نے تاتاریوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا،تصنیفی خدماتابو الفراج ابن القف۔ اردن کے قلعہ اجلون میں ڈاکٹر مقرر ہوئے اور وہاں اس نے 1271-1272 میں طب پر کتاب الشافعی لکھی، اس کی شہرت پھیلنے کے بعد وہ دمشق واپس آئے اور اس کے محافظ قلعہ میں خدمات انجام دیں اور وہاں کئی کتابیں لکھیں:جامع الرضا فی سال 1274 میں صحت اور بیماری کا تحفظ۔الکلیات ابن سینا کی کتاب قانون سے 1278 چھ جلدوں میں۔سرجیکل انڈسٹری کے کام میں میئر آف ریفارم کی کتاب ، جسے 1281 میں سرجیکل انڈسٹری میں میئر کے نام سے جانا جاتا ہے۔کتاب اصول اصول شرح الفصل 1283-1284۔تیسرے قانون پر بات چیت ، اشاروں کی کوئی وضاحت نہیں تھی، ایک مسودہ تھا، اور مراکشی تحقیقات مکمل نہیں ہوئیں اور مکمل نہیں ہوئیں۔انتقال۔ابن القف کا انتقال دمشق میں 685ھ میں باون سال کی عمر میں ہوا۔ابن القف کی سرجری پر العمدہ کی کتاب جہاں تک ان کی کتاب العمدہ فی سرجری کا تعلق ہے، یہ عرب میں سرجری میں مہارت رکھنے والی پہلی کتاب سمجھی جاتی ہے، اگر عالمی نہیں، تو طبی لٹریچر۔ ہمارے زمانے کے جراحوں نے مجھ سے اس صنعت کے معاملے میں اس فن کے ماہرین کی عدم دلچسپی کی شکایت کی اور یہ کہ ان میں سے ایک کو صرف چند مرہموں کی ترکیب اور ان
History of Western Herbal Medicine
History of Western Herbal Medicine ForewordThe history of herbal medicine is, up until the eighteenth century, largely the historyof medicine itself. Even though herbs would be mixed with animal parts and minerals,most materia medica came from the plant kingdom, and herbs were for everyday use.The use of metals and minerals in medicine was made widely popular by Paracelsus(1493–1541), who burned the books of Avicenna (c. 980–1037 ce), Galen (c. 130–c.200 ce) and Hippocrates (c. 460–c. 357 bce) in the early sixteenth century. Manymetals were toxic, but these were more likely to be used by physicians, and it was oftensaid jokingly that well-off patients – who were able to afford a doctor – were morelikely to die than poor people who could not. In many cases, the treatment was moredangerous than the disease and, since treatments included arsenic, lead, and mercurysalts, this is not surprising. Some were so harsh that it led Samuel Hahnemann (1755–1843) to create homeopathy in 1790, but herbal medicine remained widespread inboth lay and professional practice and was probably much safer. Many consider thisstill to be the case.Although there are very many ‘herbals’, there are few scholarly books dealingspecifically with the history of herbal medicine and many books on the history ofmedicine soon divert their efforts into the branch of study which leads to modernmedicine, that is, the isolation of naturally occurring highly potent chemicals and thedevelopment of synthetic drugs. Aspirin, based on the active principle of meadow-sweet (Filipendula ulmaria) and willow bark (Salix spp.), was first synthesized in 1897,and Erlich’s manufacture of the first totally synthetic chemotherapeutic drug, arsphen-amine (Salvarsan), occurred in 1907. After this time, most texts neglect advancesmade in the study of herbal medicine, which rather implies that herbal medicine hasremained static, despite the evidence that it is evolving and has even experienced arenaissance in the late twentieth and early twenty-first centuries.New forms of traditional herbal medicine from China, India and other parts ofAsia have been introduced into the West, and herbs from foreign lands have alwaysformed part of the pharmacopoeia and become integrated into each country’smedicine system, both conventional and otherwise. Clinical studies have been carriedout on some herbal medicines and found them to be effective, and herbal medicine isas relevant today as it ever has been, occupying a special place in the treatment, andparticularly the prevention, of certain types of disease. Nutritional therapies, always apart of medical herbalism, are also now very popular with consumers, and form partof the modern array of supplements available to patients to select for themselves. TheEuropean Union is now supporting and funding scientific studies into the efficacy andmechanisms of action of long-standing herbal drugs, and since many of our currentdrugs were originally derived from plant medicines used in a traditional manner, wecan hope – or even assume – that more may follow, which makes the study of theForeword xvhistory of herbal medicine highly relevant today, and this book shows how herbalmedicine has been viewed and studied over the years.The history of herbal medicine has been described many times, but rarely in acritical or scholarly way, and even more rarely using new and revised primary sourceswhich are discussed by social, medical and other historians, medical scientists, herbalpractitioners, language experts, anthropologists, ethnobotanists and even an archaeo-ethnopharmacologist. Their scholarly contribution and analysis of the sources hasproduced a fascinating and reliable account of this long-neglected subject, which isunique in my experience. As the editors explain, herbal history is fragmented, andthey provide a way forward for the unification and regeneration of this branch ofsocial and medical history which has been enthusiastically welcomed. The story startswith early Greek medicine and progresses to medieval herbals, with an emphasison early-modern midwifery manuals, since midwives were likely experts on herbsand ‘women’s troubles’ and their treatment. New archival sources are also described,including trade and probate accounts. Some of the most important herbal sourcesare described, including texts relating to Dioscorides (c. 40–90 ce), William Turner(c. 1508–68) and John Parkinson (c. 1567–1650), as well as other significant figuresand their works. Finally, to the future: how ethnobotany can inform the study of thehistory of herbal medicine, which may then inform the future too.Anne Stobart and Susan Francia have brought contributors together who possess awide spectrum of expertise, and in many cases were previously unknown to each other.They are certainly to be congratulated, but may find they have started something…Elizabeth M. Williamson, BSc(Pharm), PhD, MRPharmS, FLS, Professor of Pharmacy,University of Reading, UK link
کیمیاگر
(ملاحظہ) یہ کتاب سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ/سعد ورچوےل سکلز پاکستان کے پروجیکٹ۔(۔۔نایاب کتب کا حصول ۔۔۔تحت ری کمپوزکرکے شائع کی جارہی ہے۔۔کوئی بھی اس کی ماسٹر کاپی200 روپے میں PDF.۔ورڈ،انپیج3۔فارمیٹ میں حاصل کرسکتا ہے) کیمیاگر۔۔غیبی مددوجہ تالیف۔۔۔یہ ایک حُسن اتفاق ہے کہ مجھے بچپن ہی سے فن صنعت کے ماہرین یا کم از کم شائقین کی مجالس میں حاضری کا اتفاق رہا . اور سفید و زرو اور شمس و قمر کے اعمال اور قصائص سے میرے کان آشنا رہے ۔ میرے ابتدائی نظم کے اُستاد قاضی عطا محی الدین صاحب مرحوم ہمیشہ اپنے صحرائی ہی سے بنوایا کرتے تھے ۔ اور فرمایا کرتے کہ بیٹا گھبرانا نہیں ۔ ان سب تکلیفوں کا ایک دم ہی صلہ مل جائیگا کسی سے ذکر نہ کرنا، یہ سونا بنیگا سونا !ور نہ جوڑا تو کہیں گیا ہی نہیں۔ اسی طرح اکثر ورسوں میں حافظ خان محمد صاحب کیمبلپوری کے آئے دن اذکار گوش گزار ہوتے رہتے کہ حافظ صاحب کو قمر اور شمسدونوں تک رسائی ہے ۔ اور یہ دولت انہیں بغیر حیل و حجت جبکہ وہ ملتان کی ایک غیر آباد مسجد کے محراب میں تھکے ماند ہے اور بھو کے لیٹے ہوئے تھے تو باہر دالان میں دو مختلف سیاح آئے اکٹھے ہوئے اور اُن دونوں کا جب باہمی تبادلہ خیالات ہوا تو حافظ صاحب سب سنتے رہے ۔ اور اُن دونوں کو یہ علم نہیں کہ کوئی غیر بھی ہماری باتیں سُن رہا ہے ۔ ان سیاحوں میں ایک صاحب چاندی بنانے کے ماہر تھے ۔ اور دوسرے سونا بنانے کے ماہر تھے۔ ہر دو کو کمی پوری کرنے کا اشتیاق تھا۔ کیمیاگر۔۔اب خدا کی شان انہوں نے ایک دوسرے کو بتلانا شروع کیا ۔ اور یہ دونوں کامل نسخے حافظ جی کو بھی حفظ ہو گئے چنانچہ وہ مال تیار کر کے فروخت کرتے اور طلبا اور مدرسین و دیگر محتاجوں کو قرض دیتے رہتے۔ جس جگہ دیکھتے کہ مقر وضان زیادہ ہو گئے ہیں وہاں سے چل دیتے خود ہمیشہ روزہ سے رہتے ۔ خیر اسی طرح مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ نئی شواہد و حقائق کا مطالعہ ہوتا رہا اسی اثنا میں قیام دہلی کا اتفاق ہوا ۔ محترم سید ظہور احمد صاحب وحشی کے پڑوس کا شرف حاصل ہوا وہ بھی اس فن کے بیحد ولدادہ تھے کبھی تانبہ لاظل کرتے کبھی ہڑتال اور گندھک کو قائم کرتے ۔سید صاحب کی شخصیتسید صاحب ادبی دنیا میں ممتاز حیثیت کے مالک تھے ۔ علم وفضل میں بھی کمال حاصل تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ علماء شعراء ادباء ہر طبقہ میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ۔ دھلی میں بفضلہ عاشقان کیمیا کی بہتات ہے۔ اس لئے اس طبقہ کے اکثر ما ہرین بھی ان کی محفل کے زینت رہتے ۔ نیز اسی زمانہ میں استاذی حکیم عبد الرحمن صبا کے متعلق بھی دہلی میں عام چر چا تھا ۔ کہ فن کیمیا میں صرف وہی ایسے شخص ہیں جو مہارت تامہ رکھتے ہیں۔ بحمد اللہ کہ مجھے حکیم صاحب کی شاگردی کا فخر حاصل تھا. اور مجھے حقیر پر ان کی خاص نظر عنایت تھی۔ اور اپنے فرزند سے زیادہ شفقت رکھتے تھے غرض کہ بہ فنی صحبتیں قدم قدم پر میری رہنمائی کرتی رہیں ۔قیمتی بیاض کی اشاعتاسی طرح قیام بمبئی کے زمانہ میں اجمل میگزین میں کیمیا گر کی بیاض کے عنوان کے تحت میں میری طرف سے اکثر فنی نوادرات شائع ہوتے رہے ۔چنانچہ ان تاثرات کے پیش نظر بہت سے ماہرین فن نے اپنی ساری زندگی کے حاصل کر وہ تجربات بے کم و کاست میرے حوالے کر دئے انہی ایام میں حکیم مولوی کریم الدین صاحب حیدر آبادی نے اکسیر شنگرف کا وہ نسخہ عنایت فرمایا جو نہ صرف اکسیر کا یا کے خواص کا مالک تھا بلکہ اکسر ما یہ میں ہی حملان شمسی کے لئے اکسیر تھا ۔ اور حکیم صاحب کا ذریعہ معاش بھی یہی نسخہ تھا ۔ مگر حسب عادت میں نے وہ نسخہ بھی اجمل میگزین میں حکیم صاحب کے عطیہ کے نام سے شائع کر دیا جس پر وہ سخت ناراض ہوئے اور مجھے نا قدر شناسی کے لقب سے خطاب فرمایا ۔ میری غرض ان واقعات سے صرف یہ ہے ۔ کہ آپ حضرات کو اپنی مختصر روئیداد سے کچھ نہ کچھ واقف کرتے ہوئے یہ واضح کر دوں کہ میں اس معاملہ میں نہایت خوش نصیب واقع ہوا ہوں کہ ماہرین فن کی خدمت کا ہمیشہ شرف حاصل رہا ۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ ان حقیر آنکھوں نے بارہا وہ مناظر بھی دیکھے جن کے لئے ہمارے لاکھوں بھائیوں کی نظریں مشتاق رہتی ہیں۔ہماری آنکھوں نے بھی تماشے عجب عجب انتخاب دیکھےزمیں پر شمس و قمر بھی دیکھے ۔ گداز عقرب ! عقاب دیکھےبہ ایںہمہ میری یہ بد قسمتی سمجھئے یا بد ذوقی – کہ میں نے اس فن شریف کو اپنی حقیر مزدوری پر کبھی ترجیح نہیں دی۔ البتہ معالجات کی اکسیرات کے لئے میں سب سے بڑا مہوس ہوں ۔ یہاں جس کے ہاں بھی میں نےکوئی کامیاب نسخہ سنا ۔ اور جس طرح سے بھی وہ حاصل ہوسکا اُسے حاصل کر کے چھوڑا ، نسخہ جس قدر مشکل زحمت طلب یا زیادہ سے زیادہ خرچ والا ہو. اس کی تکمیل میں کبھی کو تا ہی نہیں کی جاتی ۔ غرض کہ اسی جدوجہد میں عمر کٹتی جا رہی ہے. چنانچہ گذشتہ سال اجمیر شریف میں دو ہفتہ قیام کا اتفاق ہوا۔ ایک دن صبح سویرے صندلی مسجد میں نمار سے فارغ ہوا تو دیکھا کہ شمالی طرف ایک صاحب تشریف فرما ہیں۔ اور لوگ ان کے ہاتھ چوم رہے ہیں میرے د یکھتے دیکھتے ان کے ارد گر و طالبین کا حلقہ بندھ گیا۔ میں نے مولانا سید امیر حبیب آستانہ نشین سے دریافت کیا کہ مولانا ان پیر صاحب کی کیا تعریف ہے ؟تو انہوں نے مسکرا کر فرمایا کہ آپ کے پیر بھائی اور پرانے دوست مولوی شیر محمد صاحب ہیں جو آجکل را جپوتا نہ میں بڑے عامل اور مستجاب الدعوات مشہور ہیں ۔ مجھے یہ سُن کہ بڑی مسرت ہوئی آخران سے نیاز حاصل ہوئے وہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کھانا میرے ساتھ کھانا ۔ کھانے سے فارغ