سخن ہائے گفتنی یوں تو انسانی زندگی میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو انسان اور انسانیت کے لئے فائدہ پہنچاتی ہیں اور زندگی کے ساتھ ساتھ مرنے کے بعد میں نام کو زندہ رکھتی ہیں۔لیکن جو لوگ دکھی انسایت کے لئے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو دوسروں کے وقف کرتے ہیں۔اپنی راحت کے لمحات دوسروں کی خدمت کے لئے بخشتے ہیں وہ بلاتفریق مذہب و ملک ہر ایک کے لئے سکھ کا راستہ ہموار کرتے ہیں اور دلوں میں اپنی عظمت کا دیا جلاتے ہیں۔ رواں صدی میں برصغیر پاک و ہند میں ایک درویش صفت انسان نے اپنی زندگی طب کو خش و خاشاک سے پاک کرنے اور اسے اصلی حالت پے لانے کے لئے اپنی زندگی کو تیاگ دیا۔روایتی طب کے علمبرداروں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ اور تحریر و تقریر اور تجربات کے میدان میں مناظرانہ روایہ اپنایا ۔اپنے دعویٰ کے ثبوت کی طرف توجہ دلانے کے لئے انعامات اور چیلنجز کا بھی سہارا لیا۔انہیں لوگ حضرت مجدد الطب دوست محمد صابر ملتانی کے نام سے پہچانتی ہے۔انہوں سعی لازوال کو سہارا دینے کے لئے قلم کا سہارا لیا بیسیوں کتب یادگار چھوڑیں ۔ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حکیم صاحب پاکیزگئ ینیت ۔تجربات و مشاہدات کی روشنی میں یوں مخاطبت کرتے ہیں پڑھنے والا محسوس کرتا ہے کہ موصوف ان سے ہی مخاطب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نےان کا اخلاص صادق کے نتیجہ میں انہیں مخلص شاگرد عطاٗ فرمائے جنہوں نے طبی میدان میں اپنے مخلص استاد کی ہوبہو پیروی کی اور ایک ٹمٹاتے ہوئے دئے کو چراغ عالم میں تبدیل کردیا۔۔ان کے شاگرد اپنی انجمن کے مہتاب تھے۔ جس کی بھی کتاب کو اٹھا کرد یکھیں گے تو ایک جہان دیگر دکھائی دیتا ہے۔۔ حکیم الہی بخش عباسی ملتانی صاحب بھی انہی خوش قسمت لوگوں میں شامل ہیں۔جنہیںحضرت مجدد الطب کے اہل بصیرت تلامذہ میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ان کی تحریر میں اپنے مذہب سے وابسطگی۔للہیت۔دکھی انسانیت کے لئے تڑپ۔اور مشاہدات و تجربات کا الگ سے جہان دکھائی دے گا۔ انہوں نے کئی پر مغز طبی کتب تحریر فرمائی ہیں۔یکے بعد دیگرے سب ہی ڈیجیٹل فارمیٹ میں پیش کردی جائیں گی۔ تاکہ جدید ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹلیجنس کی مدد سے ان تحریرات کو سمجھنے میں مدد مل سکے جنہیں عام انسان تحریر کی مدد سے مشکل سے سمجھتا ہے۔بالخصوص نئے آنے والے طلباٗ اور میدان عمل میں اترنے والے معالجین سمجھ سکیں اور بہتر انداز میں فنی مہارت پیدا کرسکیں۔ سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺْسعد ورچوئل سکلز پاکستان نے اپنے محدود وسائل میں رہتے ہیں طب کے میدان میں لکھی گئی شاہکار کتب کو ڈیجیٹل فارمیٹ میں پیش کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔امید ہے اہل ذوق ہمت افزائی فرمائیں گے۔ اس وقت جدید اور قدیم کتب میں طب۔عملیات۔نجوم۔پامسٹری۔زائچہ سازی۔علوم مخفیہ۔ کے علاوہ عربی ۔فارسی۔انگریزی علوم و فنون پر مشتمل کتب کے تراجم بھی ہورہے ہیں۔۔اس وقت ادارہ ہذا کے ماہرین نے تقریبا دو صد کتب تیار کردی ہیں ۔طلب کرنے پر فہرست مل سکتی ہے۔ یہ آئیڈیا میرے مرحوم بیٹے سعد یونسؒ کا تھا۔وہ وقت سے بہت آگے سوچتا تھا ہر کام میں سرعت پسند تھا ممکن ہے اس لئے وہ دار فانی سے دار البقاٗ کی طرف بیس اکیس سال میں عمر ہی کوچ کرگیا(یکم جنوری۲۰۰۱تا۲۶سمتبر۲۰۲۲) التماس ہے پڑھنے والے حضرات میرے والدین اور میرے بیٹے کو اپنی دعائوں میں ضرور یادرکھیں۔
رمضان ایک رحمت جسے زحمت بنادیا گیا
رمضان ایک رحمت جسے زحمت بنادیا گیاحکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میوبحمد اللہ رمضان المبارک۱۴۴۴ھ کا چاند نظر آگیا ہے۔خوش نصیب لوگ ہیں جنہیں یہ مبارک ساعتیں نصیب ہوئی ہیں۔روزہ کا تصور انسانی زندگی میں بدسلائو کی نشان دہی کرتا ہے کہ جو چیزیں زندگی کے دیگر ایام میں مباح تھیں ان سے ہاتھ کھینچ لیا جاتا ہے ۔انسان اپنے لمحات کو محتاط انداز میں صرف کرتا ہے۔ہر مسلمان کو شکر کرنا چاہئے کہ ایک فرض الیہہ کے ساتھ ساتھ زندگی کا ایسا نظام الاوقات میسر آیا جس میں فوائد ہی فوائد اور نفع ہی نفع ہے۔ قران کریم نے روزہ اور رمضان کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے فرمایاہے کہ لعلکم تتقون۔کہ تم پرہیز گار بن جائو۔۔اس کی عملی شکل رسول اللہ ﷺ کی سیرت مطہرہ میں ملتی ہے۔ام المومین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔آمد رمضان پر رسول اللہ ﷺکے معمولات ۔عبادات سخاوت۔اور ایثار و انفاق میں نمایاں فرق دیکھا جاتا تھا۔ اس سے پہلے لوگ کیسے تھے ہمیں کتب بینی سے ان کے معمولات شب و روز معلوم ہوتے ہیںلیکن اس وقت جو مسلمانوں کو دیکھتے ہیں تو ان کی طبیعت پر رمضان کا اثر برعکس ہوتاہے۔سخاوت کی جگہ کنجوسی۔امانت و دیانت کے بجائے بے ایمانی۔منافع خوری ملاوٹ۔دو نمبری۔روزہ داروں کو اشیائے ضروریہ میں ہوش ربا اضافہ۔ رمضان المبارک کے خواص و صفات قریب سے بھی نہیں گزرے۔نہ ہی مسلمان اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔نیکی کے پیمانے جو اللہ اور اس کے رسول نے مقرر فرمائے ہیں ہمیں انہیں اپنانا تو درکنار۔سوچنا تک گوارا نہیں کرتے۔۔ہر سحر و افطار میں گلی گلی محلہ محلہ ایسے نظائر دیکھنے کو ملیں گے کہ۔ایک تاجر ملاوٹ والا سامان مہنگے داموں روزہ رکھ کر چھوٹی قسمیں کھاکر فروخت کرے گا۔اور جماعت کے وقت یا افطاری کے لئے تیز قدموں کے ساتھ مسجد کی طرف لپکے گا کہ تکبیر اولی کے ساتھ نماز مل جائے۔بڑی ڈھٹائی کے ساتھ۔دونمبر طریقے سے مومنانہ شکل کے ساتھ دھوکہ دہی سے کام لیا جاتا ہے ۔آخر رمضان میں طویل دسترخوان سجادیا جاتا ہے کہ افطاری کرائی جارہی ہے۔کرانے والے کو بھی معلوم ہے یہ دو نمبر کا پیسہ ہے۔افطاری کرنے والوں کو بھی معلوم ہےیہ لقمہ مشتبہ ہے۔لیکن مجال ہے جو کسی کی زبان سے حرف نکیر نکلے۔۔۔کچھ تو ذخیرہ اندوزی میں اتنا کمالیتے ہیں رمضان یا بعد از رمضان عمرہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔مجھے دنیا کا علم نہیں لیکن مملکت خداداد پاکستان میں رمضان دو نمبری کے دھندہ کا موسم بہار ہوتا ہے۔مسجدیں بھری ہوئی ہیں ۔قران تراویح میں مکمل ہورہا ہے ۔مساجد سجائی جارہی ہیں۔صفیں مکمل ہیں۔لیکن کردار و افعال میں کوئی تبدیلی نہیں۔۔بے ایمانی میں فرق محسوس ہوا نہ ایمان داری کی جھلک دکھائی دی۔عجیب تقوی ہے جس نے مسلمانوں کو مزید سنگ دلی سے دوچار کیا ہے۔ اگر رمضان اور اس کی نیکی کے تصورات وہ ہیں جو اس وقت قائم ہیں تو بھوکے مرنے پیاسے رہنے کی ضرورت نہیں ۔۔جیساکہ حدیث میں آیا ہے کچھ لوگوں کو بھوک و پیاس کے علاوہ نہیں ملتا۔اور اگر رمضان اور روزہ کا مفہوم و مقصود وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے مقرر فرمائے ہیں تو یہ پاکستانی مسلمانوں کے قریب سے بھی نہیں گزرے۔۔البتہ ایک فریضہ ہے جسے بھوک و پیاس کے نام پر پورا کیا جاتاہے اس کے علاوہ کوئی بتادے کہ مسلمانوں کو فلاں فلاں فوعائد حاصل ہوئے ہیں۔پاکستان میں دونمبری کا سیزن ہے۔حیف ہے کہ اس بات کو برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔جو روزہ ہماری موجودہ زندگی میں بدلائو نہ لاسکا عجیب بات ہے ہم جنت کے فیصلہ اس کے بل بوتے پر کرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ کوئی ایک صفات جو روزہ دار کی بتائی گئی ہے پیدا نہیں ہوتی کوئی ایک برائی جو عام زندگی میں جسے برائی سمجھا جاتا ہو ترک نہیں کی جاسکتی تو کیسا رمضان اور کیسا غیر رمضان۔۔؟؟؟علمائے کرام کی جہاں نماز باجماع۔فضائل و مسائل بیان کرنا۔روزہ کا صرف وہی رخ بیان کرنا جو سچے روزہ دار کے لئے ہے۔کے علاوہ حلال و حرام ۔جائز و ناجائز۔لین دین ۔تجارت معاشرت۔رحم دلی ایچار۔محبت ۔بھائی چارہ۔نیکی کا سینہ میں موجزن ہونے کے آچار بھی بیان کریں، جب تہدیدات سے ٓنکھ بچاکر فضائل اور فوائد ہی بیان ہونگے۔ایک روزہ کی فضیلت کا انبار لگادیا جائے گا۔تو کون کرداری صائم بننے کی کوشش کرے گا؟؟؟
مجربات مبارکہ
مجربات مبارکہطبی تجربات میںاپنی زندگیاں تیاگنے والے لوگوں کے تجربات کا مرقع۔سینکڑوں بے خطاء تجربات۔نئے آنے والے اور حاذقین کے لئے مشعل راہزبدۃ الحکماءحکیم محمد عبدالرحیم جمیل ؒان کے فرزند ارجمند حکیم ضیاٗ الرحمن۔اور پوتے۔ حکیم محمد منیر اختر ( گولڈ میڈلسٹ)۔۔ تین نسلوں کی خدمات طبی دنیا کے ماتھے کا جھومر ہیں۔یہ شاہکار بھی اسی خاندان کے صدقہ جاریہ ہے۔۔مجربات مبارکہسب تعریفیں اس ذات لامکاں کے لئے ہیں جن ست خلق کی نفع رسانی کے لئے انبیاٗ کو بھیجا ٓخر میں ختم الرسل ﷺ ارسال فرماکر۔انہیں وفادار احباب سے نوازا۔ایسے بندے پیدا کئے جو خلق خدا کی نفع رسانی کے لئے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات وقف کئے۔اطباٗ کرام کے دلوں کے خلق خدا کی نفع رسانی اور ان کی صحت کو برقرار رکھنے اور بیماری کی صورت میں علاج و معالجہ کی تدابیر پر سیر حاصل بحث کرکے پوشیدہ نکات کو واضح کیا،۔یہ کتاب :۔سعد طبیہ کالج بتائے فروغ طب نبویﷺ کے ذیلی ادارہ سعد ورچوئل سکلز کے ماہرین کی زیر نگرانی ریکمپوز کی گئی ہے ۔۔۔یہ ڈیجیٹل اڈیشن۔افادہ عامہ کے لئے تیار کیا گیا ہے۔۔ ۔طالب دعا۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میوانتظامیہ۔سعد سعد طبیہ کالج برائے طب نبوی ﷺ کاہنہ نولاہور
اعضاء کی صحت کے لیے ڈیٹوکسنگ
اعضاء کی صحت کے لیے ڈیٹوکسنگ(فضلات کا اخراج)کیوں ضروری ہے؟ تعارف اعضاء کی صحت کے لیے detoxing ((فضلات کا اخراج))کے حتمی گائیڈ میں خوش آمدید۔ آج کی تیز رفتار دنیا میں، ہمارے جسموں پر ماحول، پروسیسرڈ فوڈز، اور تناؤ کے زہریلے مادوں سے مسلسل بمباری کی جاتی ہے۔ Detoxing (فضلات کا اخراج)ان زہریلے مادوں کو ختم کرنے، ہمارے جسم کو جوان کرنے، اور مجموعی طور پر تندرستی کو فروغ دینے میں ہمارے اعضاء کی مدد کرنے کا ایک قدرتی طریقہ ہے۔ اس جامع مضمون میں، ہم اعضاء کی صحت کے لیے ڈیٹوکسنگ کی اہمیت کو دریافت کریں گے اور آپ کو اپنے طرز زندگی میں ڈیٹوکس کے طریقوں کو شامل کرنے کے لیے عملی تجاویز فراہم کریں گے۔ اعضاء کی صحت کے لیے ڈیٹوکسنگ(فضلات کا اخراج) کو سمجھنا اعضاء کی صحت کے لیے Detoxing صرف جسم کو صاف کرنے کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ ہمارے اعضاء کے قدرتی سم ربائی کے عمل کو سپورٹ کرنے کے بارے میں ہے، بشمول جگر، گردے اور بڑی آنت۔ اپنے جسم سے زہریلے مادوں کو ختم کرکے، ہم ہاضمے کو بہتر بنا سکتے ہیں، توانائی کی سطح کو بڑھا سکتے ہیں، ذہنی وضاحت کو بڑھا سکتے ہیں، اور یہاں تک کہ وزن کم کرنے میں بھی مدد کر سکتے ہیں۔ اعضاء کی بہترین کارکردگی کو برقرار رکھنے اور جگر کی بیماری، گردے کی پتھری، اور ہاضمے کی خرابی جیسی دائمی بیماریوں سے بچنے کے لیے Detoxing ضروری ہے۔ جب ہمارے اعضاء زہریلے مادوں سے بھر جاتے ہیں، تو وہ سست اور ناکارہ ہو سکتے ہیں، جس سے صحت کے بہت سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ لہذا، مجموعی صحت اور جیورنبل کو برقرار رکھنے کے لیے باقاعدہ ڈیٹوکس کے طریقوں کو شامل کرنا بہت ضروری ہے۔ ڈیٹاکسنگ (فضلات کا اخراج)کے فائدے اعضاء کی صحت کے لیے Detoxing جسم اور دماغ دونوں کے لیے بے شمار فوائد پیش کرتا ہے۔ کچھ اہم فوائد میں شامل ہیں: ڈیٹاکس کے طریقوں کو اپنے معمولات میں شامل کرنا اعضاء کی صحت کے لیے ڈیٹوکسنگ پیچیدہ یا مہنگا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے جسم کے قدرتی سم ربائی کے عمل کو سپورٹ کرنے کے بہت سے آسان اور موثر طریقے ہیں: اعضاء کی صحت کے لیے Detoxing: میرا ذاتی سفر کسی ایسے شخص کے طور پر جس نے ماضی میں ہاضمے کے مسائل اور کم توانائی کی سطح کے ساتھ جدوجہد کی ہے، میں اعضاء کی صحت کے لیے ڈیٹاکسنگ کی اہمیت کو خود سمجھتا ہوں۔ اپنے طرز زندگی میں باقاعدگی سے ڈیٹوکس کے طریقوں کو شامل کرنے سے میری صحت اور جیورنبل میں تبدیلی آئی ہے، جس سے میں پہلے سے زیادہ متحرک، توجہ مرکوز اور متحرک محسوس کر سکتا ہوں۔ سوالات (اکثر پوچھے گئے سوالات) نتیجہ آخر میں، اعضاء کی صحت کے لیے detoxing آپ کے جسم کے قدرتی detoxification کے عمل کو سپورٹ کرنے، مجموعی بہبود کو فروغ دینے، اور ایک نئی زندگی کو کھولنے کا ایک طاقتور طریقہ ہے۔ اپنے روزمرہ کے معمولات میں سادہ ڈیٹوکس طریقوں کو شامل کرکے اور اپنے جسم کی ضروریات کو سن کر، آپ اندر سے بہترین صحت اور جیورنبل حاصل کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیں، detoxing صرف ایک بار کا واقعہ نہیں ہے بلکہ بہتر صحت اور جیورنبل کی طرف زندگی بھر کا سفر ہے۔ لہذا، آج ہی پہلا قدم اٹھائیں اور ایک صحت مند، خوش آپ کے لیے اپنے ڈیٹوکس سفر کا آغاز کریں!
غذائیت اور کینسر کے درمیان کنکشن
غذائیت اور کینسر کے درمیان کنکشن کینسر کیا ہے؟ کینسر، بنیادی اصطلاحات میں، سیل کی بے قابو نشوونما ہے۔ میں زیادہ تر خلیات آپ کا جسم تقسیم کرتا ہے اور خود کو بھرتا ہے، مختلف قسم کے ایسا کرنے کے ساتھ مختلف نرخوں پر۔ مثال کے طور پر، جلد کے خلیات اور وہ جو آپ کے ہاضمے میں ہیں۔ نالی اکثر تقسیم ہوتی ہے، جبکہ جگر اور دماغی خلیات شاذ و نادر ہی تقسیم ہوتے ہیں۔ دل کے خلیات بالکل بھی تقسیم نہ کریں، یہی وجہ ہے کہ ہارٹ اٹیک کے دیرپا اثرات ہوتے ہیں۔ بند شریانوں کو اکثر بائی پاس سرجری کی صورت میں مداخلت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب بھی آپ کے خلیے تقسیم ہوتے ہیں، انہیں اپنے ڈی این اے کی نقل تیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خلیے کے مرکز (نیوکلئس) میں موجود جینیاتی مواد جو اسے کیسے کنٹرول کرتا ہے۔کام کرے گا. جب اس ڈی این اے کو نقل کرنے میں کوئی غلطی ہو جاتی ہے جسے a کہا جاتا ہے۔ اتپریورتن – یہ عام طور پر آپ کے جسم کی بہت سی مرمتوں میں سے ایک سے طے ہوتا ہے۔ افعال. لیکن ایک خاص تعداد کو تقسیم کرنے کے بعد، خلیات ختم ہونے لگتے ہیں ان کی غلطیوں کو روکنے اور ان کی مرمت کرنے کی صلاحیت، اس لیے وہ پروگرام کیے جاتے ہیں۔ خود کو تباہ کرنا ایک بار جب وہ خود کو تباہ کر لیتے ہیں، تو ان کی جگہ لے لی جاتی ہے۔ نوزائیدہ خلیات. کینسر میں، خلیات خود کو تباہ کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں، لہذا وہ صرف تقسیم اور تقسیم کرتے رہتے ہیں، اکثر زیادہ غلطیاں کرتے ہیں۔ راستے میں، جو ٹیومر کی ترقی کی خصوصیت رکھتا ہے۔ وہ چیزیں جو کینسر کا سبب بنتی ہیں انہیں کارسنوجن کہتے ہیں۔ کچھ کارسنجن ایسبیسٹوس یا زہریلے کیمیکل جیسے چیزوں میں پائے جاتے ہیں۔ سگریٹ کا دھواں یا کیڑے مار ادویات۔ سورج کی روشنی میں الٹرا وایلیٹ شعاعیں ہوتی ہیں جو کر سکتی ہیں۔ جلد کے خلیوں کو ڈی این اے کو نقصان پہنچاتا ہے، جس کے نتیجے میں کبھی کبھار بیسل سیل ہوتا ہے۔ کارسنوما یا مہلک میلانوما۔ دوسرے کارسنوجن وائرس ہیں، جیسے ہیپاٹائٹس بی جو جگر کا کینسر، یا HPV، انسان کا سبب بن سکتا ہے۔ پیپیلوما وائرس، جو سروائیکل کینسر کے کچھ معاملات سے منسلک ہے۔ بہت زیادہ درجہ حرارت پر گوشت پکانے کا نتیجہ بن سکتا ہے۔ کینسر پیدا کرنے والے مادے جو گوشت میں موجود پروٹین سے تیار ہوتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے ایک ایسی غذا جس میں بہت زیادہ تلا ہوا یا گرل کیا ہوا گوشت کیوں ہوتا ہے۔ کینسر کی متعدد اقسام سے وابستہ ہے، خاص طور پر بڑی آنت اور لبلبہ کا سرطان. آخر میں، کچھ چیزیں جو کینسر کا سبب بنتی ہیں، حصہ ہیں ہمارے اپنے جینیاتی میک اپ کے؛ دوسرے الفاظ میں، کچھ لوگ پیدا ہوتے ہیں تغیرات جو کینسر یا دیگر بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ کچھ مثالیں یہ ہیں۔ بی آر سی اے 1 اور بی آر سی اے 2 جینیاتی تغیرات، جن سے منسلک کیا گیا ہے۔ چھاتی، ڈمبگرنتی، لبلبہ، اور بعض میں کینسر کی دیگر اقسام وہ افراد جو انہیں لے جاتے ہیں۔ 2006 میں امریکہ میں پہلی بار کینسر کی وجہ سے اموات ہوئیں 85 سال اور اس سے کم عمر افراد کی دل کی وجہ سے ہونے والی اموات کی تعداد زیادہ ہے۔ بیماری. ہر دو میں سے ایک امریکی مرد اور ہر ایک میں سے ایک تین امریکی خواتین ان میں کینسر پیدا ہونے کی توقع کر سکتی ہیں۔ زندگی بھر. پروسٹیٹ اور چھاتی کا کینسر نئے کیسوں میں سب سے آگے ہے۔ سال، لیکن پھیپھڑوں اور بڑی آنت کے کینسر وہ دو ہیں جو سب سے بڑا سبب بنتے ہیں۔ اس ملک میں اموات کی تعداد مجموعی طور پر، سال 2007 میں، وہاں تھے کینسر کے 1,440,000 سے زیادہ نئے کیسز کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ کینسر سے 560,000 اموات۔ ان اموات میں سے، تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے۔ کم از کم ایک تہائی خوراک یا زیادہ وزن کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ میں دوسرے الفاظ میں، ہر سال کم از کم 186,600 اموات، کسی نہ کسی طریقے سے، ہو سکتی ہیں۔ ہم کیا کھاتے یا پیتے ہیں اس کے بارے میں ہمارے انتخاب سے متعلق ہوں
روزہ کے جگر پرصحت مندانہ اثرات۔
روزہ کے جگر پرصحت مندانہ اثرات۔از۔۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو جگر پر روزہ کے اثرات روزہ صدیوں سے مختلف ثقافتوں اور مذاہب کی طرف سے منایا جانے والا ایک رواج(عمل) رہا ہے، نہ صرف اس کی روحانی اہمیت بلکہ اس کے ممکنہ صحت کے فوائد کے لیے بھی۔ حالیہ برسوں میں، سائنسی تحقیق نے جگر سمیت مختلف اعضاء پر روزے کے اثرات پر روشنی ڈالی ہے۔جس سے پہلے لوگوں کی رائے اور مذاہب کے احکامات کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ روزہ کا تعارف روزہ مذہبی اصولوں کی بنیاد پر ایک مخصوص مدت کے لیے کھانے پینے سے رضاکارانہ پرہیز ہے۔ یہ وقفے وقفے سے ہوسکتا ہے، جہاں افراد کھانے اور روزے کے دورانیے کے درمیان چکر لگاتے ہیں،مکمل ایک دن طلوع فجر تاآمد شب یا طویل عرصے تک، جہاں روزہ کئی دنوں تک رہتا ہے۔ جگر کو سمجھنا جگر ایک اہم عضو ہے جو متعدد میٹابولک افعال کے لیے ذمہ دار ہے، بشمول سم ربائی، غذائی اجزاء کا میٹابولزم، اور پت کی پیداوار۔ یہ مجموعی صحت اور تندرستی کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔جگر بنیادی طورپر جسم کے غذائی نظام کا ذمہ دار ہے یہ جسم میں بدل مایتحلل کی بنیاد پر طلب غذا و فضلات کے اخراج کا ذمہ دار ہوتا ہے۔جسے دیسی معالجین بہتر انداز میں سمجھاتے ہیں۔ روزے کے جگر کے افعال پر اثرات مختصر دورانیے کے روزے قلیل مدتی روزہ، عام طور پر پورا دن یا 24 گھنٹے۔ لیکن قرآن پاک میں، اس کا دورانیہ صبح سے شام تک ہے، جگر میں میٹابولک موافقت کو متحرک کرتا ہے۔ اس مدت کے دوران، گلائکوجن کے ذخیرے ختم ہو جاتے ہیں، اور جسم توانائی کے لیے ذخیرہ شدہ چربی کو کیٹوسس نامی عمل کے ذریعے استعمال کرنے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ یہ انسولین کی حساسیت میں بہتری اور فیٹی جگر کی بیماری کا خطرہ کم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ طویل روزے رکھنا طویل روزے کے ادوار، کئی دن یا اس سے زیادہ دیر تک، ان میٹابولک موافقت کو مزید بڑھاتے ہیں۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ طویل روزہ رکھنے سے آٹوفجی کو فروغ مل سکتا ہے، سیلولر صفائی کا ایک عمل جو خراب شدہ آرگنیلز اور پروٹین کو ہٹاتا ہے، اس طرح جگر کے خلیات کو جوان بناتا ہے اور مجموعی کام کو بہتر بناتا ہے۔اسلام نے روزے کا جو انداز مقرر کیا ہے وہ اتنا اعتدال پسند ہے کہ ہر کوئی اس پر عمل کر سکتا ہے۔کیونکہ یہ جسم میں بتدریج تبدیلیاں لاتا ہے جن کے دیر پا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ روزے کے دوران جگر کا سم ربائی روزہ کھانے سے زہریلے مادوں کی آمد کو کم کرکے اور عضو کو موجودہ زہریلے مادوں کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی اجازت دے کر جگر کے سم ربائی کے عمل کی حمایت کرتا ہے۔ اس سے وقت کے ساتھ ساتھ جگر کی صحت اور کام کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔جسم میں بننے والے فضلات کو جسم سے باہر نکالانا جگر کے افعال میں شمار ہوتا ہے۔ جگر کی چربی پر روزے کے اثرات جگر میں چربی کا بہت زیادہ جمع ہونا، جسے نان الکوحل فیٹی لیور ڈیزیز (NAFLD) کہا جاتا ہے، موٹاپے اور میٹابولک سنڈروم سے وابستہ ایک عام حالت ہے۔ روزہ رکھنے سے جگر میں چربی کی کمی اور توانائی کے استعمال کو فروغ دینے کے ذریعے چربی کے جمع ہونے کو کم کرنے کے لیے دکھایا گیا ہے۔کام لاتا ہے۔ یوں جمع شدہ چربی کام میںلائی جاتی ہے جگر کی صحت میں آٹوفجی کا کردار روزہ کی حوصلہ افزائی آٹوفجی جگر کی صحت کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ خراب اور غیر فعال اجزاء کو صاف کرکے، آٹوفیجی زہریلے مواد کو جمع ہونے سے روکنے میں مدد کرتی ہے اور جگر کی بیماریوں جیسے سروسس اور جگر کے کینسر کے خطرے کو کم کرتی ہے۔بہتر آٹوفیجی:روزہ آٹوفجی کو متحرک کرتا ہے، ایک سیلولر ہاؤس کیپنگ عمل جو خراب شدہ پروٹین اور آرگنیلز کو ہٹاتا ہے، جگر کی مجموعی صحت کو فروغ دیتا ہے اور ممکنہ طور پر جگر کی بیماری کے خطرے کو کم کرتا ہے۔ روزہ اور جگر کی سوزش دائمی سوزش جگر کی بہت سی بیماریوں کی ایک پہچان ہے، بشمول ہیپاٹائٹس اور جگر کی فبروسس۔ روزہ جگر میں سوزش کو کم کرنے کے لیے مدافعتی ردعمل کو تبدیل کرنے اور سوزش کے راستوں کو دبانے کے لیے پایا گیا ہے، ممکنہ طور پر جگر کی بیماریوں کے بڑھنے کو کم کرتا ہے۔ جگر کی بیماریوں کے ممکنہ علاج کے طور پر روزہ رکھنا ابھرتے ہوئے شواہد بتاتے ہیں کہ روزے کے پروٹوکول، جیسے وقفے وقفے سے روزہ رکھنا یا وقفے وقفے سے طویل روزہ رکھنا، جگر کی مختلف بیماریوں کے لیے ایک اضافی علاج کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ یہ روزہ رکھنے والے نظام جگر کے افعال کو بہتر بنانے، جگر کی چربی کو کم کرنے، اور NAFLD اور جگر کے فبروسس جیسے حالات والے مریضوں میں علامات کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ جگر کی صحت کے لیے غذائی اجزاء کی مقدار کے ساتھ روزے کو متوازن رکھنا اگرچہ روزہ جگر کی صحت کے لیے اہم فوائد پیش کر سکتا ہے، لیکن مجموعی صحت کو سہارا دینے کے لیے کھانے کے دوران مناسب غذائی اجزاء کی مقدار کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ وٹامنز، معدنیات اور اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور غذائیت سے بھرپور غذا کے ساتھ روزہ کو متوازن رکھنا جگر کے بہترین افعال کو برقرار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ روزے سے متعلق احتیاطی تدابیر روزہ رکھنے کا طریقہ شروع کرنے سے پہلے، افراد کو صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور سے مشورہ کرنا چاہیے، خاص طور پر اگر ان کے پہلے سے موجود طبی حالات ہوں یا وہ دوائیں لے رہے ہوں۔ حاملہ یا دودھ پلانے والی خواتین، بچوں اور کھانے کی خرابی میں مبتلا افراد کو احتیاط کے ساتھ روزہ رکھنا چاہیے یا اس سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔ نتیجہ آخر میں، روزہ جگر کی صحت پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے، جس میں میٹابولک فنکشن میں بہتری اور سم ربائی سے لے کر جگر میں سوزش اور چربی کے جمع ہونے
سوشل میڈیا۔یوٹیوب، فیس بک پر مارکیٹنگ کا فن،
سوشل میڈیا۔یوٹیوب، فیس بک پر مارکیٹنگ کا فن،ٹویٹر، اور کامیابی کے لیے انسٹاگرامکیلون کینیڈی کے ذریعہ تعارفکچھ کاروباری افراد سوشل میڈیا مارکیٹنگ کو اگلی بڑی چیز، ایک طاقتور کے طور پر دیکھتے ہیں۔لیکن عارضی رجحان جس سے فائدہ اٹھانا پڑتا ہے جب یہ اسپاٹ لائٹ میں ہوتا ہے۔دوسروں کے لیے، یہ محض ایک بزبان لفظ ہے جس کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہے، اوراس کے ساتھ سیکھنے کا ایک پیچیدہ وکر ہے۔تیز رفتاری کی وجہ سے جس میں سوشل میڈیا نے اپنی ساکھ تیار کی ہے، کچھکاروباری مالکان اس کو مارکیٹنگ کی ایک گزرتی ہوئی دلچسپی سمجھتے ہیں، اس لیے ایسا ہے۔غیر منافع بخش سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، اعداد و شمار مختلف نتائج کی وضاحت کر رہے ہیں۔Hubspot نے رپورٹ کیا کہ 2014 میں 92% مارکیٹرز نے سوشل میڈیا مارکیٹنگ کا دعوی کیا۔ان کے کاروبار کے لیے ضروری تھا، جس میں 80% سوشل میڈیا مارکیٹنگ کی نشاندہی کرتے ہیں۔کوششوں سے ان کی ویب سائٹوں پر ٹریفک میں اضافہ ہوا ہے۔ مارکیٹرز کے 97٪، کے مطابقسوشل میڈیا ایگزامینر، سوشل میڈیا مارکیٹنگ میں حصہ لیں، لیکن 85 فیصدشرکاء کو یقین نہیں ہے کہ سوشل میڈیا مارکیٹنگ کے کون سے ٹولز بہترین ہیں۔ استعمال کریں، نیز ان کی سوشل میڈیا پر مارکیٹنگ کیسے ہونی چاہیے، اس کے ساتھ شروع کریں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ سوشل میڈیا مارکیٹنگ میں ایک بہت بڑی صلاحیت ہے۔فروخت میں اضافہ، لیکن تاجروں کے درمیان سمجھ کی کمی ہے ان نتائج کو کیسے حاصل کیا جائے۔ اس سے پہلے کہ ہم یہ دیکھیں کہ آپ اپنے آپ کو کس طرح داخل کر سکتے ہیں۔سوشل میڈیا مارکیٹنگ کا میدان کامیابی کے ساتھ، آئیے دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا کیسےمارکیٹنگ آپ کو اور آپ کے کاروبار کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ کتاب یہاں سے حاصل کریں
پورے جسم کی تندرستی کے لئے روزہ رکھنے کے 20 فوائد
پورے جسم کی تندرستی کے لئے روزہ رکھنے کے 20 فوائدصحت کی معلومات جس پر آپ اعتماد کر سکتے ہیںہم صحت مند زندگی گزارنے کے لئے بہترین، سائنسی طور پر درست مشورہ کے لئے آپ کا ذریعہ ہونے پر فخر کرتے ہیں.روزے کو اس کے بہت سے صحت کے فوائد کی وجہ سے تسلیم کیا گیا ہے جو ہپوکریٹس سے شروع ہوتا ہے۔ یہ فوائد بہتر وزن کے انتظام، بہتر دل کی صحت، صحت مند خون کی ساخت، اور بہتر سیل ری سائیکلنگ سے لے کر بہت سے دوسروں تک پھیلے ہوئے ہیں. اگرچہ اگرچہ عمومی طورپرلوگوںمیں روزے کے بارے میں زیادہ تحقیقات نہیں کی گئی ہیں ، لیکن ماہرین صحت کی بڑھتی ہوئی تعداد کا خیال ہے کہ جانوروں کے مطالعے سے روزے کے نتائج انسانی صحت اور مستقبل کی تحقیقی کوششوں کے لئے بہت امید رکھتے ہیں۔ہر ایک مذہب و دین اور علاقائی سطح پربہت سے مختلف قسم کے روزے ہیں جن میں سے آپ انتخاب کرسکتے ہیں لیکن بحیثیت مسلمان اور دیگر الہامی مذاہب کے پابند لوگ اپنےاپنے نتائج اور مشکلات میں مختلف ہیں۔ یہاں شامل زیادہ تر تحقیق کیلوری کی پابندی اور وقفے وقفے سے روزہ رکھنے کے مطالعے سے آتی ہے۔ ایک نتیجہ ثابت قدم ہے، روزہ آپ کے جسم کو ڈیٹاکس کرنے اور بہتر مجموعی صحت کے لئے آپ کے نظام کو دوبارہ ترتیب دینے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے.روزے کے 20 فوائد
روزے سے دماغی افعال اور اعصابی تحفظ
از۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو 1۔میٹابولک سوئچ اور سیلولر سٹریس رسپانس:2۔دماغ سے ماخوذ نیوروٹروفک فیکٹر (BDNF): BDNF3۔بہتر نیورونل پلاسٹکٹی:4۔آکسیڈیٹیو تناؤ اور سوزش میں کمی:5۔بہتر مائٹوکونڈریل فنکشن:6۔Neurodegenerative بیماریوں کے ممکنہ فوائد:7۔علمی افزائش اور بہتر موڈ:8۔ذاتی نقطہ نظر اور حفاظت کے تحفظات:9۔متوازن خوراک اور طرز زندگی کی اہمیت:10۔جاری تحقیق اور مستقبل کی سمتیں: روزہ اسلام کے 5 ارکان میں سے ایک ہے جسے عربی میں صوم کہتے ہیں۔ مسلمان اسلامی سال کے مقدس مہینے رمضان المبارک میں روزے رکھتے ہیں۔ روزے میں مسلمان صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور اپنی بیوی سے ہمبستری کرنے سے باز رہتے ہیں۔ روزہ رکھنے کے لیے صبح صادق سے قبل کھانا کھایا جاتا ہے جسے سحری کہتے ہیں جس کے بعد نماز فجر ادا کی جاتی ہے جبکہ غروب آفتاب کے وقت اذان مغرب کے ساتھ کچھ کھا پی کر روزہ کھول لیا جاتا ہے جسے افطار کرنا کہتے ہیں۔ لفظ صوم کا مادہ ص، و اور م ہے۔ لغت میں صوم کہتے ہیں کسی چیز سے رک جانا دماغی افعال اور نیورو پروٹیکشن پر روزے کے دلچسپ اثرات: 10 اہم نکات 1۔میٹابولک سوئچ اور سیلولر سٹریس رسپانس:جب روزے کے دوران کھانے کی مقدار بند ہو جاتی ہے، تو جسم اپنے ایندھن کا بنیادی ذریعہ گلوکوز سے ذخیرہ شدہ چربی میں منتقل کر دیتا ہے۔ یہ میٹابولک سوئچ سیلولر تناؤ کے ردعمل کو متحرک کرتا ہے، جو آٹوفیجی (سیلولر صفائی کا عمل) جیسے حفاظتی طریقہ کار کو متحرک کرتا ہے اور تناؤ سے بچنے والے پروٹین کی پیداوار کو فروغ دیتا ہے جسے ہیٹ شاک پروٹین کہا جاتا ہے۔ یہ میکانزم سیلولر صحت اور دماغ میں لچک کو برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ 2۔دماغ سے ماخوذ نیوروٹروفک فیکٹر (BDNF): BDNFایک اہم پروٹین ہے جو دماغی خلیوں کی نشوونما، بقا اور کام میں شامل ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ روزہ رکھنے سے دماغ میں BDNF کی سطح میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہ ہپپوکیمپس میں علمی افعال، سیکھنے، یادداشت کو بہتر بنانے اور ممکنہ طور پر نیوروجنسیس (نئے دماغی خلیوں کی پیدائش) کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے، جو کہ یادداشت اور سیکھنے کے لیے ایک اہم خطہ ہے۔ 3۔بہتر نیورونل پلاسٹکٹی:نیورونل پلاسٹکٹی سے مراد دماغ کی زندگی بھر اپنانے اور تبدیل کرنے کی صلاحیت ہے۔ روزہ دماغی خلیات (Synapses) کے درمیان رابطوں کی تعداد میں اضافہ کرکے نیورونل پلاسٹکٹی کو بڑھانے کے لیے دکھایا گیا ہے۔ یہ بہتر پلاسٹکٹی بہتر علمی لچک، سیکھنے اور یادداشت کی تشکیل میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ 4۔آکسیڈیٹیو تناؤ اور سوزش میں کمی:دائمی سوزش اور آکسیڈیٹیو تناؤ، آزاد ریڈیکلز اور اینٹی آکسیڈینٹ کے درمیان عدم توازن کی وجہ سے، الزائمر اور پارکنسنز جیسی نیوروڈیجینریٹو بیماریوں کے کلیدی محرک ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ روزہ دماغ میں آکسیڈیٹیو تناؤ اور سوزش دونوں کو کم کر سکتا ہے، ممکنہ طور پر نیورو پروٹیکٹو فوائد پیش کرتا ہے اور نیوروڈیجنریٹیو حالات کے خطرے کو کم کرتا ہے۔ 5۔بہتر مائٹوکونڈریل فنکشن:مائٹوکونڈریا خلیات کے پاور ہاؤسز ہیں، مختلف سیلولر افعال کے لیے توانائی پیدا کرتے ہیں۔ جانوروں کے ماڈلز کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ روزہ دماغ میں مائٹوکونڈریل فنکشن کو بڑھا سکتا ہے، جس سے توانائی کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے اور سیلولر صحت میں بہتری آتی ہے۔ یہ بہتر علمی فعل میں حصہ ڈال سکتا ہے اور ممکنہ طور پر عمر سے متعلق علمی زوال میں تاخیر کر سکتا ہے۔ 6۔Neurodegenerative بیماریوں کے ممکنہ فوائد: اگرچہ انسانوں میں حتمی شواہد ابھی تک محدود ہیں، لیکن طبی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ روزہ رکھنے سے اعصابی امراض میں علاج کے فوائد مل سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ روزہ علامات کو بہتر بنا سکتا ہے اور الزائمر اور پارکنسن کی بیماری کے بڑھنے کو سست کر سکتا ہے۔ تاہم، ان نتائج کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے اور ان حالات میں مبتلا افراد کے لیے روزہ رکھنے کے لیے مناسب پروٹوکول قائم کیے گئے ہیں۔ 7۔علمی افزائش اور بہتر موڈ: کئی مطالعات نے علمی افعال پر روزہ رکھنے کے مثبت اثرات کی اطلاع دی ہے، بشمول بہتر یادداشت، توجہ، اور معلومات کی پروسیسنگ کی رفتار۔ مزید برآں، کچھ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ روزہ ڈپریشن اور اضطراب کی علامات کو کم کر سکتا ہے، ممکنہ طور پر نیورو ٹرانسمیٹر کی سطح میں تبدیلی اور BDNF کی پیداوار میں اضافے کی وجہ سے۔ 8۔ذاتی نقطہ نظر اور حفاظت کے تحفظات: اگرچہ دماغ کے لیے روزہ رکھنے کے ممکنہ فوائد امید افزا ہیں، لیکن ذاتی نوعیت کا نقطہ نظر بہت ضروری ہے۔ عمر، صحت کی حالت، اور انفرادی ضروریات جیسے عوامل کو روزے کا کوئی طریقہ شروع کرنے سے پہلے غور کرنا چاہیے۔ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور سے پہلے سے مشورہ کرنا ضروری ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جن کی بنیادی طبی حالتیں ہیں یا دوائیں لے رہے ہیں۔ 9۔متوازن خوراک اور طرز زندگی کی اہمیت: اس بات پر زور دینا بہت ضروری ہے کہ روزے کو متوازن غذا اور صحت مند طرز زندگی کے متبادل کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ پھلوں، سبزیوں، سارا اناج اور دبلی پتلی پروٹین سے بھرپور غذائیت سے بھرپور غذا دماغی صحت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ باقاعدہ ورزش اور مناسب نیند بھی علمی افعال کو فروغ دینے اور دماغ کی حفاظت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ 10۔جاری تحقیق اور مستقبل کی سمتیں: روزے، دماغی افعال، اور نیورو پروٹیکشن کے درمیان تعلق کو تلاش کرنے والی تحقیق جاری اور ارتقا پذیر ہے۔ روزہ رکھنے کے بہترین پروٹوکول کا تعین کرنے، بنیادی میکانزم کو اچھی طرح سے سمجھنے اور مختلف آبادیوں کے لیے حفاظت اور افادیت قائم کرنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ نتیجہ:دماغی افعال اور نیورو پروٹیکشن کے لیے روزے کے ممکنہ فوائد تحقیق کا ایک دلکش علاقہ ہے۔ اگرچہ ابتدائی مطالعات سے امید افزا ثبوت موجود ہیں، انسانی تحقیق نسبتاً محدود ہے۔ حفاظت اور انفرادی ضروریات کے لیے موزوں ہونے کو یقینی بنانے کے لیے احتیاط کے ساتھ اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور کی رہنمائی میں روزہ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ متوازن غذا کو برقرار
کیا انسانی جسم میں ادویات ذخیرہ رہتی ہیں
کیا انسانی جسم میں ادویات ذخیرہ رہتی ہیں hakeem al meewat۔ Qari m younas shahid meo tibb4all dunyakailm Saad Virtual Skills @Tibb4allTv ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔از ۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو اس بات میں شک نہیں کہ استعمال کی جانے والی ادویات جسم میں اپنے اثرات چھوڑتی ہیں۔اگر غذائیں یا دوائیں ایسی ہوں کہ وہ جسم سے متاثر ہوکر خود تحلیل ہوجائیں تو ایسی غذائیں اور دواءٰن تغذیہ کا کام کرتی ہیں اور اگر دوائیں ایسی ہوں کہ جسم کو متاثر کردیں تو ایسی دوائیں جسم سے خارج تو ہوجاتی ہیں لیکن ان کے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں۔کچھ ادویات اتنی متاثر کن ہوتی ہیں۔جسمانی نظام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔اور جسم میں کام کرنے والے نظاموں کو بھی متاثر کردیتی ہیں۔۔پھر ان ادویات کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ایک عضلات کو متاثر ہوکرتی ہیں ۔دوسری جگر کو اور تیسری اعصاب کو۔جو ادویات ان تینوں نظاموں میں سے کسی ایک کو ایک حد سے زیادہ متاثر کردیں۔ان کے اثرات دیر پا ہوتے ہیں۔اور غیر طبعی صورت پیدا کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔یعنی زیادہ گہرے اثرات والی ادویات سائیڈ ایفکٹ رکھتی ہیں۔لیکن اگر جسم کو ان کی ضرورت ہوتو ایسا کچھ نہیں ہوتا۔سائیڈ ایفیکٹ اسی صورت میں ہوتا ہے جب ایک دوا کو بلاضرورت زیادہ مقدار میں زیادہ دیر تک استعمال کرایا جائے۔اگر تیز ادویات کو مناسب انداز میں استعمال کیا جائے۔معالج کو معلوم ہوکہ جسم پر اس دوا کے اثرات کتنے ہونگے اور کتنی دیر تک جسم کو متاثر کریں گے تو وہ تھویز دوا میں احتیاط سے کام لے گا۔اور تعین کرے گاکہ کس مریض کو کتنی مقدار میں دوا کی ضرورت ہے؟دوسری باے یہ کہاس دوا کے بدلہ دوسری کونسی دوا تجویز کی جاسکتی ہے۔اگر نعم البدل کا انتظام ہوتو بہتر انتخاب کیا جاسکتا ہے۔معالجین عمومی طورپر خود تحقیق کرنے کے بجائے دوسروں کی تحقیقات اور باتوں پر زیادہ یقین رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ادویات کے بکثرت سائیڈ ایفکٹ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔اگر کوئی غذا یا دوا تجویز کرنی ہوتو دیکھنا چاہئے کہ کتنی مدت کے لئے درکار ہیں۔اگر زیادہ مدتت کے لئے تجویز زیر غور ہے تو اس کی مقدار کم رکھیں ۔اور اگر وقتی طورپر کام لینا ہوتو زیادہ مقدار بھی کنٹرول کی جاسکتی ہے۔آہستگی سے اثر کرنے والی دوا کے اثرات دیر پا ہوتے ہیں۔