عطائے صابر یہ کتاب ایک ایسی شخصیت کی محنت کا نتیجہ ہے جس نے اپنی زندگی میں بہت سے اتار چڑھائو دیکھئے۔اور اس ہستی کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کی سعادت حاصل کی جس کے نتیجہ فکر کو دنیا قانون مفرد اعضاء کے نام سے شناخت کرتی ہے۔۔بھیڑ کے ساتھ نعرہ بازی کرنا اور سیلاب میں تنکے کی طرح بہتے ہوئے چلے جانا روش دنیا ہے ۔قانون مفرد اعضاء ایک ایسا بند ہے جسے شخص واحد نے باندھا اور اس کے معانوت اس کے شاگردوں نے کی ۔آج جب باغ لہلہا رہا ہے تو خوشہ چین اپنی اپنی جھولیاں گل چینی کے لئے پھیلائے ہوئے ہیں۔۔اس شک نہیں کہ اس فن کو بے شمار لوگوں نے خون جگر دیکر سینچا۔لیکن اکثر ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اس سے فائدہ زیادہ اٹھایا اور اسے فائدہ کم پہنچایا ۔۔یہ ایک ایسا لگا بندھا راستہ ہے۔اور اتنی حقیقت پر مبنی راہ ہے یہاں سے اجنبی بھی گزرے توبھی اپنا دامن جواہرات سے بھر لیتا ہے۔ اس سے بڑا انقلاب کیا ہوگا کہ جو فن صرف اسی قدر رہ گیا ہو کہ کوئی اچھا سا نسخہ حاصل کرلیا جائے تاکہروزی روٹٰ کا بندوبست ہوسکے۔لیکن حجرت مجدد الطب دوست محمد صابر ملتانی نے تو مجربات کا ایسا دریا بہا دیا جسے ہر گھر میں تیار کیا جاسکے اور صعب و عسیر امراض کا علاج کیا جاسکے۔علم التشخیص طب کا وہ شعبہ ہے جس میں خال خال لوگوں کا ہی گزر ہوتا ہے۔انہوں نے اس دروازے کو ایسا کشادہ کیا آج ہر طرف استاد الاطباء دیکھائی دیتے ہیں/ کتاب ہذا ایک مختصر و جامع کتابچہ ہے۔جسے طالب علم حفظ کرنا چاہے تو ازبر کرسکتا ہے۔بغؤر مطالعہ کرنے سے طبیب یوں سمجھتا ہے اب دنیا کی کسی کتاب کی ضرورت نہیں ہے۔کوئی قیمتی جزو نہیں سہل الحصول اجزاء پر مشتمل نسخہ جات ہیں۔پھر نسخہ جات کی درجہ بندی اس انداز میں کی گئی ہے کہ ہر کوئی مرضی کے مطابق اجزاء کا انتخاب کرسکتا ہے۔انہوں نے جو انداز تفہیم اختیار کیا ہے ایک معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان بھی اسے بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ حضرت مجدد الطب علیہ الرحمۃ نے جو انداز اپنی کتب میں اختیار کیا وہ دنیائے طب میں کسی مصنف نے نہیں کیا۔اس میں شک نہیں کہ مسلم اطباء کا گرانقدر ذخیرہ ان کی نظر سے گزرا۔انہوں شیخ الرئیس کو بغور مطالعہ کیا۔ان کے حوالہ جات سے اپنی کتب کو مزین کیا۔ لیکن نقل در نقل یا کتاب کا پیٹ بھرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنی تجدد پسند طبیعت کو مطئن کرنے اور تحقیقات کا نیاد باب کھولنے کے لئے کیا۔اگر کسی کے پاس وقت ہوتو حضرت مجدد کی لکھی ہوئی کتب اور جن کتب پر انہوں نے داروگیر کی ہے کا مطالعہ کریں تو ان کی بلند نگاہی اور تجدد انہ عنصر کا اندازہ ہوجائے گا۔ کسی میں اتنی ہمت ہے کہ جو ۔قرشی۔۔۔۔۔۔وغیرہ لوگوں کو کٹہیرے میں کھڑا کرسکے۔یا مخزن حکمت وغیرہ کتب کا محاکمہ کرسکے۔یہ کتب اس وقت کے اساطین طب اور نمائینداگان طب نے لکھی تھیں ۔ان کی معاشرتی حیثیت اتنی زیادہ تھی کہ اس وقت سوائے سرخم تسلیم کے لوگوں کے ذہنوں میں کوئی خیال ہی نہ ابھرتا تھا۔اگر صابر صاحب کا دعویٰ بودا ہوتا تو اسی وقت یہ لوگ ان کی درگت بنا دیتے۔کیونکہ ان لوگوں کے پاس لابی تھی۔ادارے تھے۔حکومتی رسوخ تھا۔انہیں نمائیندہ سمجھا جاتا تھا۔ان کی بات کو اس لئے بی اہمیت دی جاتی تھی کہ ان کے زیر سایہ چلنے والے اداروں میں کثیر تعداد میں طلباء علم طب حاصل کررہے تھے۔اساتذۃ کے کام پر حرف تنکیر کاسوچنا ہمارے معاشرہ سے عنقاء ہوچکا ہے۔نئی سوچ کو ختم کرنے کے لئے ادب و تمیز نامی ایک دبیز پردہ تیار کیا ہوا ہے،کہ جس نے بھی بڑوں کے بارہ میں کوئی روش مروجہ کے خلاف بات کی وہ کتنا بھی قابل کیوں نہ گستاخ ہے۔اپنے علم سے مستفید نہیں ہوسکتا۔یہ بانچھ پر کےوہ جراثیم ہیں جنہوں نے امت کو بانجھ کردیا ہے۔اور شخصیت پرستی نے زوال کو من گھڑت روایات کی مدد سے مزین کردیا ہے۔ حضرت مجد الطب علیہ الرحمۃ کا منشاء۔ انہوں نے اپنی زندگی میں جس قدر جانفشانی سے کام لیا۔اور جس گہرائی سے علم الطب کا مطالعہ کیا وہ خال خال ہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔شخص واحد کتنا بھی جینئیس کیوں نہ ہو ۔اس کا دائرہ کار محدود رہتا ہے۔جب ایک پہلو کو پرکھتا ہے تو بے شمار پہلو نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔لیکن اس اوجھل پن کا مطلب یہ نہیں نکالا جاسکتا کہ دیگر پہلو غیر اہم ہیں۔ حضرت مجدد الطب نے چومکھی لڑائی لڑی۔ بھیڑ بکریوں کی چال والے معاشرہ میں ایک نظرہ و قانون کو متعارف کرانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔پھر لوگوں کو پیدائشی طور پر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے ہر عمارت کہن کی حفاظت کرنی ہے۔جوکوئی عمارت نو بنانے کی کوشش کرتا ہے اس کے وہ خدا واسطے کے دشمن ہوجاتے ہیں۔اس دشمنی میں اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ واپسی کی سب راہیں مسدود کردیتے ہیں۔ایسے لوگوں سے بھی نبرد آزما ہونا پڑا۔اس کے علاوہ مفاد پرست ٹولے سے بھی میدان عمل میں پرسرے پیکار ہونا پڑا۔اپنے نظر یہ کے لئے مواد اور تصنیفات بھی لکھنا پڑیں۔وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بہت سا وقت اس فکر میں بھی گزرا۔کہیں تجربات و فکر و نظریات کی نمو ہورہی تھی تو کہیں ان نظریات کے عملی ثبوت کے لئے مطب میں آزمائش جاری تھی۔ وہ اپنے فارماکوپیا کو اپنی وجود کی لبارٹری میں پرکھتے۔اس کے اثرات پر غور و فکر کرتے۔پھر اپنے مطب میں انہیں پیش فرماتے۔اسی کاوش نے کم خرچ بالا نشین سہل الحصول فارماکوپیا دیا جسے کوئی بھی طبیب کسی بھی وقت کسی مریض پر استعمال کرسکتا ہے۔اگر مجدد الطب کی تشخیص کو اپنا کر اپن کے فارماکوپیا سے استفادہ کیا جائے توکوئی وجہ نہیں کہ مطلوبہ نتائج دیکھنے کو نہ ملیں۔ حضرت مجدد الطب اپنی کتاب تحقیقات علاج جنسی امراض صفحہ 197میں لکھتے ہیں”ہم نے اپنی بیس سالہ تحقیق میں ثابت کیا ہے”یعنی ایک عمل کو جو انسان بیس سال تک کرتا رہے اس کے جنون کا اندازہ کون کرسکتا ہے؟ حضرت مجدد الطب کی خواہش۔ صابر ملتانی کے بارہ میں ان کے شاگرد حکیم محمد
آپ کا مجرب عمل کونسا ہے؟
آپ کا مجرب عمل کونسا ہے؟ایک استاد ہونے کی حیثیت سے مجھ سے پوچھا جانے والا سوال ۔یہ سوال اتنی مرتبہ پوچھا جاتا ہے کہ شمار کرنا مشکل ہے۔آخر طبی اسناد رکھنے والے لوگ ۔دواخانوں اور فارمیسیوں کے مالک حضرت اکثر یہی سوال کرتے ہیں آپ کا مجرب طنسخہ کونسا ہے۔ ہمیں تو آپ وہ نسخہ بتائیں جو آپ استعمال کرتے ہیں؟۔اس سوال کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے اس کے پیچھے کونسے عناصر کارفرما ہیں۔۔ہم نے اس ویڈیو میں اس سوال کے نفسیاتی پہلو اور اس کی معاشرتی ضرورت کے پیش نظر شافی ووافی جواب دینے کی کوشش کی ہے۔۔
الہامی نسخے ۔یعنی ۔مجربات صالحین
الہامی نسخے ۔یعنی ۔مجربات صالحین الہامی نسخے ۔یعنی ۔مجربات صالحین مرتبہ:۔مولانا حکیم ابو الوحید عبدالمجید صاحب خادم ایڈیٹر طبی میگزین۔سوہدرہ ۔ضلع گوجرانوالہ کچھ کہی ان کہی باتیں۔ جس میں صرف وہی نسخہ جات اور مجربات خاص اہتمام سے جمع کئے گئے ہیں جو مختلف بزرگوں سے مختلف اوقات میں بذریعہ الہام و کشف یا خواب میں بتائے گئے ہیں اور تجربہ پر سو فی صد مفید و کامیاب ثابت ہوئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیش لفظ مقدس و محترم نسخوں کا مبارک دگرانمایہ مجموعہ جو اسوقت آپ کے زیر مطالعہ ہے اپنے اندروہ تحریم و تقدیس رکھتا ہے۔ جواب تک اورکسی کتاب کو نصیب نہیں ہوئی یعنی اس مکرم گنجینہ مجربات میں وہ پاک اور پوتر دوائیں درج ہیں جو انبیا ، اولیا، صلحا، ابدال ۔غیاث، رشیوںمہرشیوں اوتار وں، منیوں مہاتماؤں، اور دوسرے بزرگوں کو وحی والہام کے ذریعے یا اشارہ داستعارہ کے طور پربتائی گئیں۔ اس قسم کا القاء یا اشارہ بعض اوقات معمولی اشخاص کو بھی ہو جاتا ہے ۔ اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ جب کوئی شخص شدید مرض میں مبتلاہو جاتا ہے ۔ اور دوا دارو کرنے کرانے کے باوجود ما یو سی اُس پر تسلط جما لیتی ہے۔ تو وہ عالم بیم وہر اس میں مضطرب و بیخود ہو کر مایوسوں کی آخری اسی امیدگاہ اور لا تقنطو امن رحمتہ اللہ کی نوید جانفز اسا نیوالے طبیب علی الاطلاق کا سہار الیتا اور اسے عجز وانکسار سے پکارنے لگتا ہے پر اس مجیب الدعوات قاضی الحاجات حکیم مطلق کی حکمت بالغہ جوش میں آتی ہےاور اسے بیداری یا خواب میں بتادیا جاتا ہے کہ فلاںدواکھائویا کھلاؤ پھر وہ دوا چاہے کیسی ہی حقیر اور معمولی سی ہو مریض استعمال کرتا ہےتو اس زبردست حکیم کے حکم سے وہ کامل شفا پاجاتا ہے۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔۔ بغیر حساب اس قسم کے نسخےا گرچہ چندسے باہر ہیں لیکن ہمنے نہایت تحقیق تفحص صرف وہی نسخے مرتب ومتخب کئےہیں جوروایات صحیحہ مطابق درست ہیں۔بفرض محال اگر کوئی سند راست طور پر غلط بھی ہو تواس میں ہمارا کوئی قصور نہیں بلکہ اس کا گناہ روایت کندہ کی گردن پرہو گا : عبدہ۔ابوالوحید عبدالمجید خادم ۔۔۔ الہامی نسخے .الہامی دواؤں کی تاریخ و فضیلت تاریخ طب کے در ق الٹئے جائیں ۔ تو اطبا کا وہ گروہ کسی ایک سچا نظر آئے گا ۔ جو طب کو الہامی سمجھتا ہے۔ اس جماعت کی رائے میں علم طب بذریعہ وحی و الہام نازل ہوا اور دیوتاؤں ، رشیوں نبیوں اور پیغمبروں نے اس کی بنیاد رکھی ۔ پھر یہ قصہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا۔ بلک طیبوں کا یہ گروہ مذہبی افتراق کی وجہ سے اس میں کئی رنگ آمیزیاں کرتا ہے ۔ اور بہت مختلف خیال دکھائی دیتا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ علم طب کی ابتدا حضرت آدم صفی اللہ سے ہوتی :: عَلَمَ آدَ ہَ الأَسْمَاء كُلما کی آیت کر یہ ہی استدلال کرتے اور ثبوت ہم پہنچاتے ہیں کہ حکیم علی الطلاق جل شانہ نے جناب ابوالبشر علیہ اسلام کو وحی کے ذریعہ دواؤں اور دیگر اشیاء کا علم سکھایا۔ بعض اصحاب حضرت شیث علیہ السلام کو عظیم طب مانتے ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ سب سے پہلے حضرت داؤد پر اور پھر حضرت سلیمان پرطب نازل ہوئی۔ چنا نچہ زبور میں اس کا ثبوت ملتا ہے۔ ایک جماعت کا قول ہے ۔ یہ جناب لقمان طبیب اول ہیں، اوران پر ہی طب کا نزول ہوا ہے۔ یہودی کہتے ہیں کہ حضرت موسی علیہ اسلام ہی سے طب وجود عالم شہود سے منصہ شہود پر جلوہ ریز ہوا۔ چنانچہ روایت ہے کہ ایک بار موچل کے مبارک میں درد اٹھا ۔ تو آپ کوہ طور تشریف لے گئے ۔ اور جناب باری کے حضور میں اپنی تکلیف بیان فرمائی حکیم مطلق نے ارشاد کیا کہ فلاں بوٹی یا فلاں دوا کھاؤ حضرت موسی نے اُس پر عمل کیا، تو درد رفع ہو گیا علی ہذا/ توریت مقدس میں بھی بعض دواؤں کا ذکر موجود ہے۔ نصاری کا خیال ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام طب کے موجد و ملہم ہیں۔ جہاں آپ روحانی علاج کرتے تھے ۔ وہاں جسمانی مداوا بھی فرماتے تھے اسی طرح عیسائیوں کا ایک فرقہ کہتا ہے کہ سب سے اول جناب عیسی کی والدہ ہیں حضرت مریم کو علم طب عطا ہوا۔ اور یہ تو ایک صحیح واقعہ ہے کہ حضرت مسیح کی ولادکے وقت جومریم علی السلام در درز میں مبتلا ہوئیں۔ تو آپ کو الہام ہوا کہ کھجور کے درخت کے پاس جا، آپ نے شارہ پاتے ہی کھجور کا رخ کیا۔ اور اس کے پاس کر چند کھجوریں تناول فرمائیں جن کے کھانے سے نہ صرف درد زہ ہی میں سکون نصیب ہوا بلکہ جناب روح اللہ حضرت مسیح علیہ السلام نہایت سہولت کیساتھ دنیا میں تشریف لے آئے۔ قرآن کریم میں وا وحَنَا إِلَى مَرْيَمَ میں اسی اہم واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ اور جب سے اب تک یہ علاج مشہور ہے کہ جب کوئی عورت ولادت کی دشواروں میں گرفتار ہو تو اس کھجوریں یا چھوہارے دودھ میں پکاکے کھلاتے رہیں جس سے تکلیف دور ہو جاتی ہے ۔ مجوسیوں یعنی آتش پرستوں کے زعم میں جناب زطشت پر طلب کا نزول جوا کہتے ہیں کوہند اور کشدندپاؤلا میں، جو اس مذہب کی دو مشہور کتابیں ہیں بہت سی دواؤں کا ذکر یا یا جاتا ہے، مجوسی اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ زرتشت کا کوئی مرید خاص قولنج کی بیماری میں مبتلا ہوا ۔تو اگنی دیوتا نے عالم خواب میں اس سے کہا کہ ارنڈ کے بیج آگ میں بریاں کر کے پانی میں گھوٹ لو اور گرم کر کے پی جاؤ ” مریض نے اس کی تعمیل کی، تو پانچ سات بڑے بڑے سدےخارج ہو ئے اور مرض جاتا رہا۔ برادران ہنود کا عقیدہ ہے کہ آیور دیک جس کے لغوی معنی فن شفا بخشی ہیں برہما جی ریشی نے پایا۔ اور انہی سے تمام دنیا میں پھیلا۔ چنانچہ قدیم دیدوں اور شاستروں میں علم طب اور بیشمار ادویہ کی صراحت موجود ہے۔ علاوہ بریں ایک وایت کے مطابق دھنو متری جی اس علم کے موجد ہیں۔ بند د کہتے ہیں کہ دھنونتری جی نے
رمضان اور یہودی سازش
رمضان اور یہودی سازش رمضان اور یہودی سازشمفادات پرستی انسان کو کہاں سے ہاں لے جاتی ہے۔مفاد پرستی پر شعبہ اور ہر مذہب میں پائی جاتی ہے۔مذہبی لوگ دوسرے مذہب کے خلاف کچھ اس طرح پرو پیگنڈہ کرتے ہیں کہ متعین اس پروپیگنڈہ کو حقیقت سمجھ لیتے ہیں۔۔۔اس سے اپنے متعین کو بیوقوف بنانا اور ذاتی مفادات کا حصول اور مخالف لوگوں سے نفرت پیدا کرنا ہوتی ہے۔اگر مفاد پرست لوگوں کو درمیان سے نکال دیا جائے تو بہت سی وہ باتیں جنہیں حقیقت سمجھا جاتا ہے کے بارے میں معلوم ہوکہ ان کا درحقیقت وجود ہی نہ تھا۔۔۔۔یہی بات اس ویڈیو میں سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے
روزہ اور حاملہ خواتین
روزہ اور حاملہ خواتیناز ۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔ قران کریم نے روزہ کے بارہ میں ضروری احکامات بیان کئے ہیں لیکن کچھ استثنائی صورتی میں رکھی ہیں۔جیسے بیماری سفر۔یا مجبوری کی دیگر صورتیں۔منجملہ حاملہ عورتوں کے بارہ۔اور دودھ پلانے والی عورتوں کے بارہ میں روزہ چھوڑنے کی اجازت مرحمت کی ہے۔اگر حاملہ کو کسی قسم کا خطرہ یا کمزوری کا اندیشہ ہے تو کسی کو پوچھنے کی ضرورت نہیں وہ روزہ چھوڑ سکتی ہیں۔البتہ اگر سہولت ہے اور جسمانی طورپر طاقتور و توانا ہے تو ایسی عورت روزہ رکھ سکتی ہے۔لیکن کمزور اور بیمار حاملہ عورتیں روزہ ترک کریں۔ایسے میں ایک معالج اور غذائی ماہر سے رجوع کریں تاکہ مناسب مشورہ دے سکیں۔اگر روزہ مذہب بے زاری کی بنیاد پر ترک کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو اس کی اہمیت نہیں ہے ہاں طبی ضرورت کے تحت بہت سی گنجائش موجود ہے۔حمل کے دوران روزہ رکھنے کی سفارش عام طور پر ڈاکٹر نہیں کرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حاملہ عورت کو اپنی صحت اور اپنے بچے کی نشوونما کے لیے کافی کیلوریز اور غذائی اجزاء استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔روزہ رکھنے سے ضروری غذائی اجزا کی کمی ہو سکتی ہے، جیسے آئرن، پروٹین اور کیلشیم، جو کہ صحت مند حمل کے لیے ضروری ہیں۔ حمل کے دوران روزہ رکھنے سے متعلق کچھ خطرات یہ ہیں: کم پیدائشی وزن:حمل کے دوران روزہ رکھنے والی ماؤں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کا وزن کم ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس سے بچے میں صحت کے مسائل کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، قلیل مدتی اور طویل مدتی دونوں میں۔قبل از وقت پیدائش: روزہ رکھنے سے قبل از وقت پیدائش کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے، یہ اس وقت ہوتا ہے جب بچہ حمل کے 37 ہفتوں سے پہلے پیدا ہوتا ہے۔ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کو کئی صحت کے مسائل کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے، بشمول سانس لینے میں دشواری، کھانا کھلانے کے مسائل، اور نشوونما میں تاخیر۔زچگی کی صحت کے مسائل:روزہ رکھنے سے ماں میں صحت کے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں، جیسے پانی کی کمی، غذائیت کی کمی اور تھکاوٹ۔اگر آپ حاملہ ہیں اور مذہبی یا دیگر وجوہات کی بنا پر روزہ رکھنے پر غور کر رہی ہیں، تو پہلے اپنے ڈاکٹر سے بات کرنا ضروری ہے۔ وہ اس بات کا تعین کرنے میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں کہ آیا روزہ آپ اور آپ کے بچے کے لیے محفوظ ہے، اور وہ آپ کو اس بارے میں رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں کہ اگر آپ آگے بڑھنے کا انتخاب کرتے ہیں تو اسے محفوظ طریقے سے کیسے کرنا ہے۔ حمل کے دوران محفوظ طریقے سے روزہ رکھنے کے لیے کچھ نکات یہ ہیں، اگر آپ کا ڈاکٹر منظور کرے: ہائیڈریٹڈ رہیں:دن بھر کافی مقدار میں سیال پئیں، چاہے آپ کچھ نہ کھا رہے ہوں۔چھوٹا، بار بار کھانا کھائیں:جب آپ کھاتے ہیں، تو غذائیت سے بھرپور کھانے پر توجہ دیں جو آپ کو اور آپ کے بچے کو آپ کی ضرورت کے مطابق غذائی اجزاء فراہم کرے گی۔اپنے جسم کو سنیں:اگر آپ کسی بھی وقت بیہوش، چکر آتے ہیں یا بیمار محسوس کرتے ہیں، تو اپنا روزہ توڑ دیں اور کچھ کھائیں۔بالآخر، حمل کے دوران روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ ذاتی ہے۔ تاہم، اس میں شامل خطرات سے آگاہ ہونا اور فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے بات کرنا ضروری ہے۔ خواتین کے لیے ضروری غذائی اجزاء کی مقدار کئی عوامل پر منحصر ہوتی ہے، بشمول عمر، سرگرمی کی سطح، اور حمل کی حیثیت۔ تاہم، ہم آپ کو عام خیال دینے کے لیے آئرن اور کیلشیم کی مثال استعمال کر سکتے ہیں۔ آئرن: زیادہ تر بالغ خواتین کو روزانہ تقریباً 18 ملی گرام آئرن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آئرن خون کے سرخ خلیات کا ایک لازمی جزو ہے، جو پورے جسم میں آکسیجن لے جاتا ہے۔ آئرن کی کمی خون کی کمی کا باعث بن سکتی ہے، جو تھکاوٹ، کمزوری اور سانس کی قلت کا باعث بنتی ہے۔ لوہے کے کچھ اچھے ذرائع یہ ہیں: دبلی پتلی سرخ گوشتمرغیمچھلیپھلیاںدالیںمضبوط اناجگہرے پتوں والی سبز سبزیاںگہرے پتوں والی سبز سبزیوں کی تصویر ایک نئی ونڈو میں کھلتی ہے۔گہرے پتوں والی سبز سبزیاںکیلشیم: بالغ خواتین کو روزانہ تقریباً 1000 ملی گرام کیلشیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیلشیم مضبوط ہڈیوں اور دانتوں کے لیے ضروری ہے۔ یہ پٹھوں کے کام، اعصاب کی منتقلی، اور خون کے جمنے میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔ کیلشیم کی کمی آسٹیوپوروسس کا باعث بن سکتی ہے، ایسی حالت جو ہڈیوں کو کمزور کرتی ہے اور فریکچر کا خطرہ بڑھاتی ہے۔ یہاں کیلشیم کے کچھ اچھے ذرائع ہیں: دودھ کی مصنوعات، جیسے دودھ، پنیر، اور دہیپتوں والی ہری سبزیاںتوفو اور مضبوط سویا کی مصنوعاتہڈیوں کے ساتھ ڈبہ بند سارڈینز اور سالمنکیلشیم سے مضبوط اناج اور جوسیہ صرف دو مثالیں ہیں، اور بہت سے دوسرے اہم غذائی اجزاء ہیں جن کی خواتین کو ضرورت ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ایک متوازن غذا کھائیں جس میں تمام فوڈ گروپس سے مختلف قسم کے کھانے شامل ہوں تاکہ آپ کو مطلوبہ غذائی اجزاء حاصل ہوں۔ یہاں کچھ دیگر غذائی اجزاء ہیں جو خواتین کی صحت کے لیے اہم ہیں: وٹامن ڈی: وٹامن ڈی جسم کو کیلشیم جذب کرنے میں مدد کرتا ہے۔ زیادہ تر لوگ سورج کی روشنی سے کافی وٹامن ڈی حاصل کرتے ہیں، لیکن کچھ لوگوں کو سپلیمنٹ لینے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔فولک ایسڈ: فولک ایسڈ ان خواتین کے لیے اہم ہے جو حاملہ ہیں یا حاملہ ہونے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ یہ دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے پیدائشی نقائص کو روکنے میں مدد کرتا ہے۔وٹامن بی 12: وٹامن بی 12 خون کے سرخ خلیوں کی پیداوار اور اعصابی کام کے لیے اہم ہے۔میگنیشیم: میگنیشیم بہت سے جسمانی افعال میں شامل ہے، بشمول پٹھوں کی تقریب اور خون میں شکر کنٹرول.
بدر کے معاشی و معاشرتی اثرات
جنگ بدر کے معاشی و معاشرتی اثرات3زندگی میں مشکل ترین اوقات وہ ہوتے ہیں جب آدمی کا سامانا اپنوں سے ہوتا ہے۔اور نظریہ اور کاز کے سامنے رشتہ دار بھی اتنا ہی شدیدرد عمل ہوتا ہے۔جنگ بدر کہنے کو ایک اسلام اور کفر کے خلاف ایک جنگ تھی۔ جس عام طریقے سے غزوہ بدر بیان کردیا جاتا ہے۔اور سننے والے بڑے مزے سے سنتے ہیں ۔اس کے علاوہ کچھ نہیں۔حالانکہ غزوہ بدر کے اثرات معاشی و معاشرتی۔خاندانی اور تہذیبی طورپر بہت گہرے تھے۔اس جنگ نے عرب کے صدیو پرانی روایات کو ملیا میٹ کردیا تھا اور اسلام کے پودے کو پروان چڑھانے کاسامان مہیا کردیا تھا یعنی ایک تہذیب غروب ہوئی تھی تو دوسری طلوع ہورہی تھی۔۔۔
غزوہ بدر کےاسباب و محرکات1
غزوہ بدر کےاسباب و محرکات1جب تک کسی واقعہ یا معاملات کے اسباب و محرکات کا علم نہ ہو اس کی اہمیت و افادیت واضح نہیں ہوسکتی۔قران کریم نے واقعہ بدر کو ،حق و باطل کا فرق قرار دیا ہے۔اس فرق اور واضح حکم کے اسباب و محرکات جاننا ہر ایک کے لئے ضروری ہے،تاکہ حق و باطل کی پہنچان ہوسکے۔ اس ویڈیو میں ان اسباب پر روشنی ڈالی گئی ہے
میواڑ اور مغل بادشاہ
میواڑ اور مغل بادشاہاردو ترجمہMewar the Mughal Emperors(1526-1707 A.D.)سعد ورچوئل سکلز/سعد طبیہ کالج کاہنہ نولاہور۔میو کالج انٹر نیشنل قصور۔میو سبھا۔کی مشترکہ کاوشمیواڑ اور مغل بادشاہ۔گوپی ناتھ شرما کی کئی سو صفحات پر محیط کتاب ہے۔کتاب کیا ہے،ایک ایسی سخت جان قوم کی بکھری ہوئی داستنا ن حیات ہے جس نے ایک ابھرتی ہوئی بلاخیز مغل سلطنت کے سامنے تقریبا181 سال بندھ باندھے رکھا۔اس طوفان کے سامنے ہندستان کی ساری حکومتیں اس طاتور طوفان کے سامنے ڈھیر ہورہی تھیں۔ایک میوات کا مختصر سا علاقہ مزاحمت کے استعارہ بنا ہوا تھا۔۔رانا پرتاب۔رانا سانگھا،حسن خان میواتی۔ مزاحمت کار اور میدان جنگ کے استعارہ تھے۔ (1526-1707 A.D.)۔ایک سو اکیاسی سال کی طویل جدوجہد۔ہندستان کے وسیع و عریض خطہ میں ایک چھوٹی سی ریاست کا ایک سو اکیاسی سال تک جنگی مصارف پورے کرنا تاریخی عجوبہ ہے۔۔کے بارے میں دس اہم نکات قطعی طور پر خود پڑھے بغیر کوئی نہیں بتا سکتا۔ تاہم، عنوان اور عام تاریخی سیاق و سباق کی بنیاد پر، یہاں میواڑ اور مغل بادشاہوں کے بارے میں ایک کتاب میں ممکنہ طور پر احاطہ کیے گئے دس اہم نکات ہیں:جغرافیائی ترتیب: یہ کتاب ممکنہ طور پر مغربی ہندوستان میں ایک راجپوت ریاست میواڑ کے مقام اور اہمیت کو قائم کرتی ہے۔مغل توسیع: اس میں مغل سلطنت کے عروج اور اس کی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر تبادلہ خیال کیا گیاہے جو اسے میواڑ کے ساتھ تنازعہ میں لے آئیں۔راجپوت مزاحمت: مغل تسلط کے خلاف رانا سانگا اور رانا پرتاپ جیسے راجپوت حکمرانوں کی قیادت میں میواڑ کی مزاحمت کا مرکزی موضوع ہے۔فوجی مہمات: اس کتاب میں میواڑ اور مغلوں کے درمیان لڑی جانے والی بڑی فوجی مہمات کی تفصیل دی گئی ہے، جس میں ہلدی گھاٹی کی مشہور جنگ (1576) بھی شامل ہے۔سفارتی چالبازی: یہ ممکنہ طور پر دونوں فریقوں کی طرف سے استعمال کی جانے والی سفارتی حکمت عملیوں کو تلاش کرکیا گیاہے، بشمول اتحاد، مذاکرات اور دھوکہ دہی۔سماجی اور ثقافتی اثرات: کتاب دونوں خطوں پر مغل-میوار تنازعہ کے سماجی اور ثقافتی اثرات پر بحث کی گئی ہے ۔قیادت کا کردار: رانا پرتاپ جیسی ممتاز شخصیات اور اکبر جیسے مغل بادشاہوں کی قائدانہ خصوصیات کا ممکنہ طور پر تجزیہ کیاگیا ہے ۔اقتصادی عوامل: کتاب ان معاشی عوامل کو تلاش کر سکتی ہے جنہوں نے تنازعہ کے دوران کو متاثر کیا، جیسے وسائل پر کنٹرول اور خراج تحسین کے مطالبات۔نتیجہ اور میراث: یہ میواڑ اور مغلوں کے درمیان جدوجہد کے حتمی نتائج اور اس کی دیرپا تاریخی اہمیت کو تلاش کی گئی ہے۔ماخذ کا تجزیہ: اس کتاب میں غالباً ان تاریخی ذرائع پر بحث کی گئی ہے جو مغل-میوار تنازعہ کی داستان کو دوبارہ تشکیل دینے کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔اگرچہ یہ ممکنہ توجہ ہیں، مخصوص تفصیلات اور تشریحات مصنف کے نقطہ نظر پر منحصر ہوں گی۔
فولادی مرکبات۔ کی ضرورت و اہمیت
فولادی مرکبات۔ کی ضرورت و اہمیت دیسی طب میں کشتہ فولاد یا شربت فولاد کو خاص اہمیت دی جاتی ہے کوئی کشتہ استعمال کرے یا نہ کرے لیکن شربت فولاد میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا جاتا امراض جگر حکماء حضرات بے دریغ شربت فولاد استعمال کراتے ہیں۔ فولاد کے بارہ میں جہاں بہت سے فوائد ہیں وہیں پر مضرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔اس بارہ میں پوری پوری کتابیں لکھی جاچکی ہیں کسی کتاب میں اسے امرت ساگر ثابت کرنے کے لئے طویل و مدید دلائل کا سہارا لیا جاتا ہے۔پڑھنے والے سمجھ تے ہیں کچھ بنے نہ بنے اگر کشتہ فولاد ہی بن گیا تو تمام امراض کی گردن دبوچنے کا فارمولا مل جائے گا۔ اس میں شک نہیں کہ انسانی ساخت اور اس کی رگوں میں دوڑ نے والا لہو بغیر فولاد کے مکمل نہیں ہوپاتے لیکن اس کا استعمال بغیر مہارت کے نقصان بھی دے سکتا ہے۔ امراض و علامات کا تعین اور امراض کی صحیح تشخیص کے بعد فولادی مرکبات استعمال کئے جائیں تو انسانی صحت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کھٹائی یا وٹامن سی فولاد کے انجذاب کو تیر کرتی ہے ۔ یاد رکھئے معدہ میں موجود غذا اور لزوجیت دوا کے انجذاب پر اثرا انداز ہوتے ہیں ان عوامل کا تعلق معدہ کے خالی ہونے کے وقفے پر بھی ہے۔کچھ ادویات کاخالی معدہ لینا سوزش کا سبب بن سکتا ہے۔اگر دوا کھانے سے پہلے لی جائے تو انجذاب تیز ہوتا ہے اس لئے کچھ ادویات خالی معدہ لینے سے سوزش کا سبب بن سکتی ہیں جیسے سلی سلیٹ(Salicylates)اور فولاد(Iron)کے نمکیات غذا کے بعد استعمال کئے جانے چاہیئں تاکہ معدہ کی خراش کا سبب نہ بن سکیں ۔تیزابی یعنی عضلاتی ادویات معدہ میں جا کر زیادہ انجذاب کرتی ہیں انہیں خوراکی طور پر لینا زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔اور اساسی /اعصابی کا انجذاب معدہ کے بجائے آنتوں میں بہتر انداز میں ہوتا ہے ۔اس لئے کشتہ فولاد خالی معدہ لینا ٹھیک نہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔انسانی جسم میں فولاد ایک اہم معدنی جز ہے جو متعدد اہم کام انجام دیتا ہے۔ یہ ہیموگلوبن کا ایک جزو ہے، جو ایک پروٹین ہے جو خون میں آکسیجن کو لے جانے کا ذمہ دار ہے۔ فولاد بھی مائیوسین اور ایکٹن کے لیے ضروری ہے، جو پروٹین ہیں جو پٹھوں کے سکڑنے اور آرام کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ، فولاد کئی انزائموں کے لیے ایک cofactor ہے جو توانائی کی پیداوار، ڈی این اے کی ترکیب، اور خلیوں کی مرمت سمیت متعدد حیاتیاتی عمل میں ملوث ہیں۔ فولاد کی کمی سے آئرن کی کمی انیمیا ہو سکتا ہے، جو ایک ایسی حالت ہے جس میں جسم میں کافی ہیموگلوبن نہیں ہوتا ہے۔ آئرن کی کمی انیمیا کی علامات میں تھکاوٹ، کمزوری، سانس کی قلت، اور سر چکرانا شامل ہیں۔ یہ حالت حاملہ خواتین، بچوں، اور نوجوانوں میں خاص طور پر عام ہے۔ انسانی جسم میں فولاد کے کچھ اہم کردار درج ذیل ہیں: ہیموگلوبن کی تشکیل میں مدد کرتا ہے: ہیموگلوبن خون میں آکسیجن کو لے جانے کا ذمہ دار ہے۔ فولاد ہیموگلوبن کا ایک جزو ہے، لہذا یہ جسم کے تمام حصوں کو آکسیجن فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے۔پٹھوں کے کام میں مدد کرتا ہے: فولاد مائیوسین اور ایکٹن کے لیے ضروری ہے، جو پروٹین ہیں جو پٹھوں کے سکڑنے اور آرام کرنے کے لیے ضروری ہیں۔توانائی کی پیداوار میں مدد کرتا ہے: فولاد کئی انزائموں کے لیے ایک cofactor ہے جو توانائی کی پیداوار میں ملوث ہیں۔ڈی این اے کی ترکیب میں مدد کرتا ہے: فولاد ڈی این اے کی ترکیب کے لیے ضروری ہے۔خلیوں کی مرمت میں مدد کرتا ہے: فولاد خلیوں کی مرمت کے لیے ضروری ہے۔فولاد کی کمی سے آئرن کی کمی انیمیا ہو سکتا ہے، جو ایک ایسی حالت ہے جس میں جسم میں کافی ہیموگلوبن نہیں ہوتا ہے۔ آئرن کی کمی انیمیا کی علامات میں تھکاوٹ، کمزوری، سانس کی قلت، اور سر چکرانا شامل ہیں۔ یہ حالت حاملہ خواتین، بچوں، اور نوجوانوں میں خاص طور پر عام ہے۔ فولاد کی اچھی غذائی ذرائع میں گوشت، مرغی، مچھلی، انڈے، پھلیاں، سبز پتوں والی سبزیاں، اور دال شامل ہیں۔ فولاد سے افزودہ اناج اور دیگر غذائیں بھی دستیاب ہیں۔ اگر آپ کو آئرن کی کمی انیمیا ہونے کا خطرہ ہے، تو اپنے ڈاکٹر سے بات کریں کہ کیا آپ کو فولاد کی سپلیمنٹ لینے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
The Power of Habit
“The Power of Habit: Why We Do What We Do in Life and Business” by Charles Duhigg is a highly regarded book that delves into the science of habit formation and how habits influence our personal and professional lives. Here are ten key lessons from the book: 1. Habit Loop: Duhigg explains the habit loop, consisting of a cue, routine, and reward. Understanding this loop is key to changing or creating habits. 2. The Golden Rule of Habit Change: The author introduces the concept of habit replacement, suggesting that you can change a habit by keeping the same cue and reward while altering the routine. 3. Keystone Habits: Duhigg discusses keystone habits, which are small changes that lead to widespread shifts in behavior. Identifying and focusing on these habits can have a significant impact on your life. 4. Cue Analysis: Analyzing and recognizing the cues that trigger your habits is a crucial step in understanding and changing your behavior. 5. Small Wins: The book emphasizes the importance of celebrating small wins as they create a positive feedback loop, encouraging continued effort and progress. 6. Willpower and Self-Discipline: Duhigg explores the idea that willpower and self-discipline can be strengthened through practice and habit formation. 7. Institutional Habits: The book also delves into how habits influence organizations and businesses. It discusses how companies can benefit from understanding and modifying institutional habits. 8. Social Habits: The book touches on the role of social influences in habit formation and change. Being part of a supportive community can be a powerful force in shaping habits. 9. Advertising and Marketing: Duhigg provides insights into how companies use consumer habits to drive sales and marketing strategies. Recognizing these tactics can make you a more informed consumer. 10. Habit Transformation: “The Power of Habit” demonstrates that habits are malleable, and with awareness and deliberate effort, individuals and organizations can transform their routines and behaviors to achieve better results. These are some of the key lessons from Charles Duhigg’s “The Power of Habit.” The book provides valuable insights and actionable strategies for understanding, changing, and leveraging the power of habits to improve both personal and professional aspects of life. Reading the book in its entirety will provide a more comprehensive understanding of the concepts and examples presented in the book. Thanks for reading. Download the books from here