رسائین شاستر اُردو زبان میں آیور ویدک علم کیمیا پرپہلی کتاب جسمیںپارہ – گندھک سونا، چاندی، تانبہ ، فولا و قلعی ، سکہ جست۔ہیرا۔ پنا، لعل، موتی ۔ سنکھیا۔ ہڑتال شنگرف وغیرہ تمام معد نی رس۔ رسائین دھاتوں اید با توں جواہرات وسمیات کی شدھی اور کشتہ جات کی عام فہم و آسان تراکیب اور سیدھ مکر دھوج وغیرہ شہرہ آفاق رسائیوں کی عملی وسہل تدابیر ہر قسم کی کیمیاوی اصطلاحات نیز سر سے پاؤں تک ہونیوالی جملہ امراض کے لئے بے شمار و بیخطانسخے اور تمام ضروری پٹوں جنتروں و بھٹیوں کی صحیح و عملی تصاویر نہایت محنت و جانفشانی سے درج کئے گئے ہیںمرتبہ و مؤلفہ راج وئید کرشن دیال وئید شاستری مصنف مخزن آیوروید. ویدک نگھنٹو آسو پر کاش. چکتا پرستی ۔ جیبی و ئید و غیرہ کتاب یہاں سے حاصل کریں
اردوسائنس انسائیکلوپیڈیا_1
پیش لفظ اردو سائنس بورڈ اب تک ساڑھے سات سو سے زائد کتب شائع کر چکا ہے۔ ان میں کئی کتب کو اولیات کی حیثیت حاصل ہے کہ ان موضوعات پر اردو زبان میں اس سے پہلے کتب شائع نہیں ہوئیں۔ بہت سی کتب کے تیں تھیں اور بتیس بتیں ایڈیشن اس امر کا ثبوت ہیں کہ ان کو علم دوست قارئین نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے اور بعض کتب کو ” بجا طور پر اُردو سائنس بورڈ کا اعزاز اور امتیاز کہا جا سکتا ہے۔ اُردو سائنس انسائیکلو پیڈیا ایسی کتابوں میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ عربوں نے فراموش کردہ یونانی علوم کا فقط ترجمہ ہی نہیں کیا بلکہ اسلامی انقلاب کے طفیل حاصل ہونے والی سیاسی قوت اور تمدنی برتری کے بل بوتے پر اسے وہ اعتبار بھی دیا کہ یورپ میں نشاۃ ثانیہ ممکن ہو سکی۔ یہ امر بھی بحث طلب ہے کہ کیا یونانیوں نے بھی بابل و نینوا، سندھ و ہند کے ساتھ ساتھ مصر کی تہذیبی ترقی سے روشنی حاصل کی؟ ہند جیسے قدیم علمی مرکز سے تاریخی اور جغرافیائی تعلق کی حامل فارسی زبان بھی اس عمل میں عربی کی ہم قدم رہی ۔ اگر فارسی اور عربی کے ساتھ اُردو کے ہمہ نوع تعلق کو دیکھا جائے تو اس میں سائنسی مضامین اور مطالب و مفاہیم کی ادائیگی اصل سے رجوع کا عمل ہے۔ حروف تہجی اور قواعد سے لے کر جملے کے تیور اور اظہاری تشکیلات تک اُردو نے عربی اور فارسی کے ساختی اجزاء اور مجموعی مزاج سے استفادہ کیا ہے۔ اس میں ایک نہایت عمیق سطح پر علوم وفنون کے لیے عمومی اساس موجود ہے جس پر بہت بڑی عمارت استوار کی جاسکتی ہے۔ غالباً اسی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علی گڑھ سائنٹفک سوسائٹی، جامعہ ملیہ ، دہلی اور عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد، دکن جیسے ہمارے پیشر واداروں نے اصطلاح سازی میں بنیادی اہمیت کا کام کیا۔ بعض تاریخی مجبوریوں کے سبب اگر عربی اور فارسی سے ہمارا عصری تعلق کمزور نہ پڑ جاتا تو ان کے قابل فخر کام سے نہ صرف استفادہ کیا جاتا بلکہ اسے آگے بھی بڑھایا جا سکتا تھا۔ اگر چہ اصطلاح کے لیے اس کا بہت عام فہم ہونا لازمی شرط نہیں لیکن اس کے کسی نسبتا زیادہ معروف علمی سرچشموں سے قطع تعلق کے بعد اس طرح کی اصطلاح سازی مترجم اور قاری دونوں کے لیے مشکل پیدا کرنے لگی ہے۔ چنانچہ کوشش کی گئی ہے کہ اصطلاحات کے ترجمے کی بجائے اُن کی وضاحت پر توجہ دی جائے۔ انسائیکلو پیڈیا میں اصطلاحات کی ترتیب انگریزی حروف تہجی کے مطابق ہے لیکن متن اردو میں ہونے کی وجہ سے اسے دائیں جانب سے شروع کیا گیا ہے کیونکہ اس کتاب سے استفادہ کرنے والے قارئین اردو اور انگریزی دونوں لفظیات سے مانوس ہیں اس لیے انہیں پڑھنے میں وقت نہیں ہوگی۔ اس انسائیکلو پیڈیا میں کئی جگہ انگریزی اصطلاحات کو اُردو ترجمے کی بجائے ان کی اصل شکل میں برتا گیا ہے۔ اس حکمت عملی کے پس پردہ فقط اصطلاح تراشی کی عملی مجبوریاں ہی کارفرما نہ تھیں بلکہ اُردو کے مزاج پر ایقان بھی تھا کہ اثباتیت کے سبب یہ بہت جلد ان اصطلاحات کی مغائرت ختم کر دے گی اور یہ اپنے مطالب بڑی وضاحت کے ساتھ ادا کرنے لگیں گی۔ اس انسائیکلو پیڈیا سے نہ صرف یہ کہ مڈل سے لے کر گریجوایشن تک کے طلبہ بھر پور استفادہ کر سکتے ہیں بلکہ اس کا مطالعہ ان کے ذوق و شوق کے لیے مہمیز کا کام بھی کرے گا۔ اس کے علاوہ عام علم دوست قارئین کے لیے بھی یہ ایک نہایت مفید اور کار آمد ذخیرہ ہے جس سے وہ اپنی روز مرہ علمی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔ کچھ بڑے کاموں کی پیش بندی ریاضیاتی صحت کے ساتھ کی جا سکتی ہے لیکن کچھ کام اپنی ماہیت اور مزاج میں نامیاتی ہوتے ہیں۔ دوران تحمیل یہ اپنے ماضی سے متاثر ہوتے اور مستقبل کو متعین کرتے ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا اس طرح کا ایک کام ہے۔ اس کے مختلف حصے الگ ہوتے ہوئے بھی مزاج اور مواد میں با ہم مسلک اور متعلق ہوتے ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا کے ان تمام معیارات سے کما حقہ آگاہ ہوتے ہوئے بھی زیر نظر کام کے وابستگان انہیں برقرار نہیں رکھ سکتے تھے۔ بشری کمزوریاں اور اردو میں اس طرح کے کام کی نظیر نہ ہونے جیسے عملی مسائل اپنی جگہ لیکن یہ امر نظری سطح پر بھی مکن نہیں ہے۔ انسائیکلو پیڈیا کو مزاج کے اعتبار سے ایک یکجان تحریر اور اپنی زبان کا مؤقر نمائندہ ہونے میں صدیوں کے وقت اور بیسیوں ایڈیشن انتظار کرنا پڑتا ہے۔ مصنفین، مدیران اور منتظمین وستمین کی محنت شاقہ اپنی جگہ لیکن معاشرے کے مختلف علمی حلقوں اور استفادہ کرنے والوں کی رائے کے بغیر تحریر کے مزاج سے شناسائی اور فہم عمومی نہیں ہو سکتی ۔ بالآخر برٹانیکا کو اپنا موجودہ مقام حاصل کرنے میں بھی دو سو سال کا سفر کرنا پڑا ہے۔ ایسے عالمی سطح کے معیاری انسائیکلو پیڈیا بھی نظری اختلافات اور علمی غلطیوں سے ابھی تک بالکل پاک نہیں ہیں۔ مندرجات بالا کی روشنی میں دیکھا جائے تو زیر نظر ایڈیشن کو تسویدی سے کچھ زیادہ خیال کرنا توقعات کا بوجھ بڑھانے کے مترادف ہے لیکن تسویدی ایڈیشن کے باوجود اس کی علمی اہمیت کم نہیں ہوتی ۔ گزرتا وقت، استفادہ کرنے والوں کا رد عمل اور مسلسل حکومتی سر پرستی اسے بہت جلد اردو ادب کا مایہ افتخار بنادے گی۔ خالد اقبال یاسر Read Online Vol 01 Vol 02 Vol 03 Vol 04 Vol 05 Vol 06 Vol 07 Vol 08 Download Link 1 Vol 01(29MB) Vol 02(31MB) Vol 03(28MB) Vol 04(28MB) Vol 05(27MB) Vol 06(27MB) Vol 07(28MB) Vol 08(28MB) Download Link 2 Vol 01(29MB) Vol 02(31MB) Vol 03(28MB) Vol 04(28MB) Vol 05(27MB) Vol 06(27MB) Vol 07(28MB) Vol 08(28MB) کتاب یہاں سے ڈائون لوڈ کریں
ایکٹو پلازم مادی جسم میں روحانی رابطہ
ایکٹو پلازم مادی جسم میں روحانی رابطہ ایکٹو پلاسم ایک جیل جیسا مادہ ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ روحانی مشقوں کے دوران روحوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے ذرائع سے خارج ہوتا ہے۔ یہ اکثر غیر معمولی اور نفسیاتی مظاہر کے ساتھ منسلک ہوتا ہے. ایکٹو پلاسم، ایک پراسرار اور پراسرار مادہ، طویل عرصے سے لوگوں کو اس کی عجیب خصوصیات اور روح کی دنیا سے تعلق سے متاثر کرتا رہا ہے. پوری تاریخ میں، ذرائع نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ جنسی تعلقات کے دوران ایکٹو پلاسم پیدا کرتے ہیں، اور اسے مرنے والوں کے ساتھ رابطے کے ذریعہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں. اس کے وجود کے بارے میں شکوک و شبہات اور تنازعات کے باوجود ، ایکٹوپلاسم محققین اور شوقین افراد کو یکساں طور پر متاثر کرتا ہے ، جس سے مافوق الفطرت کے دائرے میں اس کی صداقت اور اہمیت پر بحث شروع ہوتی ہے۔ آئیے ایکٹوپلزم کی ابتداء، خصوصیات اور ثقافتی تشریحات میں گہرائی سے جائیں تاکہ اس کے دائمی مصائب کو بے نقاب کیا جا سکے۔ ایکٹو پلاسم کی تاریخ ایکٹو پلاسم کی ایک پراسرار تاریخ ہے ، جس نے ابتدائی طور پر 19 ویں صدی میں ایک روحانی رجحان کے طور پر توجہ حاصل کی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا مادہ ہے جو سیانس کے دوران میڈیم کے ذریعہ خارج ہوتا ہے ، ایکٹو پلاسم کو اکثر روح کی دنیا کے ساتھ رابطے کے ثبوت کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اگرچہ اسے بڑے پیمانے پر بدنام کیا گیا ہے ، لیکن ایکٹو پلاسم غیر معمولی تاریخ کا ایک دلچسپ حصہ ہے۔ ایکٹو پلاسم کی تاریخ پیرانارمل اور روحانیت کی دنیا میں ایک دلچسپ سفر ہے۔ سالوں کے دوران ، ایکٹو پلاسم ایک پراسرار مادہ رہا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نفسیاتی توانائی کی ایک ٹھوس شکل کے طور پر سیانس کے دوران ظاہر ہوتا ہے۔ اس نے سائنس دانوں، ذرائع اور شکوک و شبہات رکھنے والوں کو یکساں طور پر اپنی پراسرار نوعیت اور متنازعہ اصل سے متاثر کیا ہے۔ ابتدائی تجربات 20 ویں صدی کے اوائل میں ، سائنسدانوں اور روحانیت پسندوں نے ایکٹو پلاسم کے رجحان کا مطالعہ کرنے کے لئے مختلف تجربات کیے۔ محققین کا خیال تھا کہ اس کا تعلق سانس کے دوران روحوں کے اظہار سے ہے۔ قابل ذکر میڈیم اور سیانس فلورنس کک اور ایوا کیریئر جیسے مشہور میڈیم ، اپنے موسم کے دوران ایکٹوپلاسم پیدا کرنے کے لئے جانے جاتے تھے۔ اس رجحان نے ان کے نفسیاتی مظاہروں میں سازش اور اسرار کی ایک پرت کا اضافہ کیا۔ ایکٹو پلاسم کی خصوصیات ایکٹو پلاسم ، ایک غیر معمولی مظہر ، اس کی ایتھرل اور جیل جیسی ظاہری شکل کی خصوصیت ہے۔ یہ اکثر روحانی ذرائع سے وابستہ ہوتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ یہ روحانی توانائی کا اظہار ہے۔ جسمانی خصوصیات ایکٹوپلزم ، مافوق الفطرت کے دائرے میں ایک پراسرار مادہ ، مختلف جسمانی شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ مبینہ نفسیاتی خصوصیات غیر معمولی مظاہر پر یقین رکھنے والے منفرد نفسیاتی خصوصیات کو ایکٹوپلزم سے منسوب کرتے ہیں۔ سائنسی مطالعہ اور شکوک و شبہات ایکٹو پلاسم، ایک مادی مادہ جو روحانیت کے دوران ظاہر ہوتا ہے، طویل عرصے سے سائنسی مطالعہ اور شکوک و شبہات کا موضوع رہا ہے۔ ایکٹو پلاسم کی مخفی نوعیت نے محققین اور شکوک و شبہات کو یکساں طور پر اپنی طرف متوجہ کیا ہے ، جس کی وجہ سے تنقید اور انکشافات کے ساتھ ساتھ جدید تحقیق اور مباحثوں کی ایک وسیع رینج بھی سامنے آئی ہے۔ تنقید اور انکشافات ایکٹو پلاسم کے تصور کو نمایاں تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے ، جس میں پوری تاریخ میں دھوکہ دہی کے طریقوں اور انکشافات کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ کنٹرول شدہ حالات کے تحت ، متعدد مبینہ ذرائع کو ایکٹوپلسمک اظہار پیدا کرنے کے لئے مختلف قسم کی چالبازیوں کا استعمال کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ ان انکشافات نے ایکٹو پلاسم اور اس کی صداقت کے ارد گرد شکوک و شبہات میں نمایاں کردار ادا کیا ہے جدید تحقیق اور مباحث جدید دور میں ، ایکٹو پلاسم کے مطالعہ نے دلچسپی کا احیا ء دیکھا ہے ، محققین سائنسی ذرائع سے اس کے وجود کی توثیق یا تردید کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس پر بحث کا سلسلہ جاری ہے، کچھ حامی اس مادے کی قانونی حیثیت کی وکالت کر رہے ہیں، جبکہ شکوک و شبہات رکھنے والے اس کی صداقت کا تعین کرنے کے لئے سخت سائنسی جانچ پڑتال کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ ایکٹو پلاسم کے ثقافتی اثرات ایکٹوپلاسم، ایک پراسرار مادہ ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ روحانی تسکین کے دوران ذرائع سے خارج ہوتا ہے، اس نے ثقافت کے مختلف پہلوؤں پر گہرا اثر ڈالا ہے. ادب اور پاپ کلچر سے لے کر روحانی تحریکوں تک اس کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ آئیے ایکٹوپلزم کے ثقافتی اثرات کو مزید تفصیل سے تلاش کرتے ہیں۔ ادب اور پاپ کلچر ایکٹو پلاسم نے ادب اور مقبول ثقافت کے متعدد کاموں میں اپنا راستہ تلاش کیا ہے ، جس نے اپنی اسپیکٹرل فطرت سے سامعین کو محظوظ کیا ہے۔ کلاسیکی بھوت کی کہانیوں میں ، ایکٹو پلاسم اکثر روحوں یا دیگر دنیاوی مظاہر کی موجودگی کی علامت ہے ، جس سے کہانیوں میں ایک خوفناک اور مافوق الفطرت عنصر شامل ہوتا ہے۔ یہ مادہ خوفناک ناولوں میں ایک مقبول اصطلاح بن گیا ہے ، جس سے مصنفین کو دل دہلا دینے والے اور فضائی مناظر تخلیق کرنے کی اجازت ملتی ہے جو قارئین کی ریڑھ کی ہڈی وں کو کانپنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مزید برآں ، ایکٹو پلاسم نے فلموں ، ٹی وی شوز اور ویڈیو گیمز کے ذریعے پاپ کلچر میں بھی اپنی شناخت بنائی ہے ، جہاں یہ خوف اور کشش دونوں کا ذریعہ ہے۔ Spiritual Movem روحانی تحریکیں خاص طور پر 19 ویں صدی کے آخر اور 20 ویں صدی کے اوائل میں ، ایکٹوپلاسم نے روحانی تحریکوں کے عروج میں اہم کردار ادا کیا۔ روحانیت پسندوں کا خیال تھا کہ ایکٹوپلزم روح کے دائرے کا ایک جسمانی اظہار اور مرنے والے کے ساتھ بات چیت
سموگ ایک موسمیاتی مسئلہ۔احتیاطی تدابیر۔
سموگ ایک موسمیاتی مسئلہ۔احتیاطی تدابیر۔ گھریلو طورپر بچائو کی کچھ تدابیر حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میوگھریلو طور پر کچھ طبی احیاطیں کار آمد ہوسکتی ہیں جن کا ذکر ذیل کی سطور میں کیا جائے گا۔وضو کاا ہتما رکھیں۔نیم گرم پانی میں نمک ڈال کر ہاتھ منہ دھویا کریںلونگ دار چینی کا قہوہ استعمال کریں۔ناف پر سرسوں کا تیل لگائیں ۔سوتے وقت مسواک کریں ۔ناک ۔کان۔اوع بھوئوں پر تیل لگائیں ۔گلے کی خراش کی صورت میں بنک اور اجوائن ڈال کر غرارہ کریں۔مچھلی کی سری کا سوپ بنا کر پئیں۔سوتے وقت سنت نبوی کے مطابق تین سلائیاں سرمہ آنکھوں میں ڈالیں۔چلن کی صورت میں پھکٹڑی آمیز پانی سے ہاتھ منہ دھوئیں ۔ سموگ ایک سنگین ماحولیاتی مسئلہ ہے جو خاص طور پر سردیوں میں بڑھتا ہے۔ یہ فضائی آلودگی کی ایک شکل ہے جو دھوئیں اور دھند کے مرکب سے بنتی ہے، جس میں مختلف زہریلے کیمیائی مادے شامل ہوتے ہیں۔ سموگ کی تشکیل کے پیچھے کئی وجوہات ہیں، جن میں انسانی سرگرمیاں اور موسمی حالات شامل ہیں۔ سموگ کے اسباب سموگ کا تدارک سموگ کے اثرات کو کم کرنے کے لیے چند اقدامات کیے جا سکتے ہیں: Citations:[1] https://www.dawnnews.tv/news/1067558[2] https://jang.com.pk/news/576162-how-to-save-from-smog
خلاصہ اعمال کیمیاء
۔ خلاصہ اعمال کیمیا ۔ 2 Tartar, Argol, Potassium bitartarate پوٹاشیم بائی ٹارٹریٹ یا ڈائی ٹار ٹریٹ ٹارٹر جو کہ در اصل دردِ شراب ہے ، شراب کے مرتبانوں میں پیندے میں اور مرتبان کی گردن میں اکٹھا ہونے والا نمک یا تلچھٹ ہے۔ یہ حد درجہ ترش ہوتا ہے، خصوصاً انگور سے بنے والی شراب کے برتن میں اکٹھا ہوتا ہے۔ سولہویں صدے کی کیمیا( جسے اور اصل الکیمی نہیں بلکہ آر کبھی کہنا جیسے ) میں جابجا مستعمل ہے۔ عام دستیاب ٹاٹری جسے عمومی طور پر ست لیموں یا پھر ست املی جانا جاتا ہے (بھی) ان اعمال میں مستعمل ہے ، یعنی جہاں سالٹ آف ٹارٹر کا بیان ہو وہاں ٹاٹری کا استعمال ہو سکتا ہے ، بازار میں عام دستیاب سٹرک ایسڈ بھی ہو سکتی ہے اور ٹار ٹارک ایسڈ بھی ۔ مقامی پنسار کے لیے ان دونوں میں فرق کرنا نہایت مشکل ہے چونکہ دونوں کارنگ، بو اور ذائقہ ایک جیسا ہوتا ہے، لہذہ یہ عمل کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ ٹارٹر کی پہچان کرے۔ اگر کیمیکل سٹور سے خرید اجائے تو کام بہت سہل ہو جاتا ہے کہ ان کو صرف اس کا فارمولا بتا کر یہ چیز حاصل کی جاسکتی ہے۔ Regulus, Star Regulus, Regulus of Antimony اس ترجمہ میں اصطلاح حجم الا سرب دی گئی ہے۔ یہ اصطلاح مترجم نے اپنی طرف سے شامل کی ہے اور کسی دوسری کتاب سے نقل نہیں کی گئی، مترجم کے علاوہ کوئی بھی اس اصطلاح کو استعمال کرتے جو پیش کرے گا وہ اپنے نسخے و ترکیب کا خود ذمہ دار ہے۔ یہ اصطلاح انگریزی و لاطینی میں سے بر اور است عربی میں ترجمہ کر کے اس دستاویز میں شامل کی گئی ہے، جس کے معنے سرمہ کا وہ میٹل ہے جو سرمہ کے ساتھ لوہا ایک خاص مقدار میں شامل کر کے حاصل کیا جاتا ہے۔ کتاب یہاں سے حاصل کریں یہ بھی پڑھئے
صنعت اکبر یعنی طب مخفی2
طب مخفی معہ خلاصۃ المجرباتصنعت اصغراس کتاب کی خصوصیات : (۱) قریباً ایک سو سے زائد زندہ اطبا و دید اور ڈاکٹروں نے اپنے ان مخفی نسخہ جات کا اظہار کر دیا ہے جو اس سے پیشتر کبھی شائع نہیں کئے گئے۔ قریباً ڈیڑھ سوصفحات ہیں۔(۲) دوسرے باب میں جناب حکیم محمد یوسف حسن مہتمم دارا انتخاب نے اپنے خاص مطلب کے تمام نسخہ جات بلا کم و کاست درج کئے ہیں۔ یہ ساٹھ صفحات میں” میری بیاض”کے عنوان سے درج ہیں: (۳) تیسرے باب میں قدیم وجدید چالیس کتابوں کے ایک لاکھ نسخہ جات میں سے قر یبا ایک ہزار بہترین صحیح اور مصدقہ نسخہ جات کا انتخاب ہے اور ہر نسخہ کے سامنے حوالہ دیا گیا ہے۔یونانی طب کی یہ پہلی فارما کو پیا یا خلاصتہ المجربات ہے ۔ قریباً دوسو صفحات(4) رموز الکیمیا ۔ اس میں کیمیا کے متعلق خاص قواعد و تجربات کا ذکر ہے۔ کل کتاب 480صفحات پر ختم ہوئی ہے لکھائی چھپائی اعلے۔ کاغذ ولایتی سفید قیمت چار روپے۔ مجلد چار روپے بارہ آئے۔ دونوں حصوں کے خریدار سےبحساب تین رو پیہ اور و در و پیہ پانچ روپیہعلاوہ محصولڈاک۔ کتاب یہاں سے حاصل کریں
مردوں سے بات کرنے کا طریقہ
مردوں سے بات کرنے کا طریقہروح کے بارہ میں دنیا بھر میں بسنے والے لوگ مختلف عقائد و نظریات رکھتے ہیں۔لیکن کیا مرنے کے بعد مردوں سے بات چیت کی جاسکتی ہے۔گوکہ آسمانی مذاہب میں اس کی گنجائش دکھائی دیتی ہے۔مشرق و مغرب والے روحوں سے بات چیت کرنے کے مختلف طریقے کام میں لاتے ہیں ۔گوکہ اس موضوع پر کم لکھا گیا گیا ہے لیکن جو لوگ دلچسپی رکھتے ہیں۔ان کے لئے کافی مواد موجود ہے۔اس ویڈیو میں اسی موضوع کو زیر بحث لایا گیا ہے
روحانیت کیا ہے؟
روحانیت کیا ہے؟ میرے والد محترم جناب سلطان محمود آشفتہ ؒ کے اس علمی اور روحانی تحقیق و تجربے کا نچوڑ ہے جو کم و بیش نصف صدی پر محیط ہے۔یہ کتاب ان مضامین پر مشتمل ہے جو انھوں نے وصال سے پہلے کے پانچ برسوں 1990ء تا 1995ء کے دوران وقتا فوقتا اپنے روحانی سلسلے کے پیروکاروں اور علم روحانیت کے عام قاری کی تعلیم و تربیت کی غرض سے لکھے تھے ۔ چونکہ ان مضامین سے ہر خاص و عام کو فیض یاب کرتا مقصود تھا اس لیے زبان اور بیان دونوں بھی نہایت سادہ اور عام فہم ہیں۔روحانیت جیسے گہرے اور دقیق علم کے اسرار در موڑ کو اس قدر بلاغت سے بیان کرنا انھی کا خاصہ ہے۔والد محترم خود بھی ان مضامین کو کتابی شکل دینا چاہتے تھے ۔ اگر یہ کتاب ان کی زندگی میں شائع ہوتی تو وہ اس میں کچھ اضافے اور تبد یاں بھی کرتےمگر میں اس بات کو خود پر واجب جانتا ہوں کہ ان کے قلم سے تحریر ہونے والے ایک ایک لفظ کو اپنی کم علمی کی زد سے محفوظ رکھوںلہذا میں نے حتی المقدور کوشش کی ہے کہ ان کی تحریر بغیر کسی تبدیلی یا کمی بیشی کے اپنی اصل حالت میں قارئین تک پہنچ جائے ۔البتہ مضامین کی ترتیب میں کہیں کہیں مجھے تبدیلی کرنا پڑی ۔ اس اہتمام کا مقصد یہ تھا کہ مضامین کے موضوعات باہم مربوط ہو جائیں اور ان میں ایک خاص قسم کا تنوع بھی پیدا ہو جائے تا کہ قاری کی دلچسپی برقرار رہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ کتاب مضامین کے ایک مجموعے کے بجائے ایک مسلسل تحریر کی شکل اختیار کرلے جسے خیال کی رو توڑے بغیر ایک سرے سے دوسرےسرے تک پڑھا جا سکے۔کتاب کی ترتیب و تدوین میں اگر کوئی خامی یا غلطی نظر آئے تو اس کی مکمل ذمے داری میں اپنے سر لیتا ہوں اور کوئی قابل تحسین بات نظر آئے تو داد کے مستحق وسیم قریشی، جمشید، ہارون اور میری والدہ ہوں گے جن کی مدد اور رہنمائی کے بغیر یہ اہم اور نازک مرحلہ طے کرنا میرے لیے ممکن نہ تھا۔ابتدائی مضامین روحانیت کے علمی پہلو سے متعلق ہیں۔پھر روحانیت کے عملی پہلو اور روحانی مشقوں کا بیان ہے۔وظائف اور عملیات کا ایک باب بھی شامل کیا گیا ہےتا کہ عام قاری اس کتاب سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔یوں تو والد محترم کے خزینہ وظائف و عملیات کو ایک الگ کتاب کی صورت میں شایع کیا جائے گالیکن ان میں سے روز مرہ زندگی کے مسائل سے تعلق رکھنے والے عملیات اسی کتاب میں شایع کیے جارہے ہیں۔ان کی اجازت ہر خاص و عام کو ہے۔ اس کے بعد روحانیت کے عملی پہلو اور روحانی مشقوں سے متعلق کچھ علمی مباحث ہیں جن میں روحانی عملیات کی دنیا میں قدم رکھنےوالوں کے لیے کچھ علمی اور ضمنی وضاحتیں اور تنبیہات ہیں۔آخر میں وہ مضامین ہیں جو خاص روحانی وارداتوں کے تحت یا کچھ سوالوں کے جواب میں لکھے گئے ہیں۔ان میں ان باکمال ہستیوں کا ذکر بھی ہے جو سلطان محمود آشفتہؒ کی روحانی پشتی بان ہیں۔جن کی نظیر کرم نے ان کے لیے روحانی دنیا کے ان دیکھے عالموں کا دروا کیا اور جن کی وجہ سے وہ سلطان الفقراء بنے ۔وہ اس کتاب کے قارئین پر بھی نظر کر سکتے ہیں اور ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور کریں گے۔قاری کے دل میں یہ یقین ہونا چاہیے کہ اہل نظر اپنے عقیدت مندوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتے۔وہ ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ ان کی رہنمائی کر سکتے ہیں ۔ ان ہستیوں میں مرشد پدری حضرت با بالعمل شاہ قلندر رامین اللہ کا تذکرہ خاص وارداتی اہمیت کا حامل ہے۔ کتاب کا اختتام سرور کونین، فخر دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی الہ الم کے ذکر منور پر ہورہا ہے۔ بقول والد محترم : ” یہی ابتدائے روحانیت ہے ، یہی انتہائے روحانیت ۔“ہاؤس نمبر 4 سٹریٹ نمبر 1 سیکٹر G6/3 ، اسلام آباد۔ثاقب سلطان المحمود کتاب یہاں سے حاصل کریں
کچھ راز اور بھی ہیں/There are some more secrets!
کچھ راز اور بھی ہیں! حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو {کائیناتی قوتوں سے استفادہ کرنا شرک ہے؟} اللہ تعالی نے انسان کی فلاح و بہبود کے لئے کایئنات میںبے شمارقوتیں پیدا کی ہیں جن سے ہمہ وقت انسان اپنی ضرورتیں پوری کرتا ہے ان کی اہمیت کا یہ حال ہے کہ اگر انہیں انسان تک نہ پہنچنے دیا جائے تو انسان کی زندگی اجڑ کر رہ جائے ۔مختلف شعاعیں ۔ گیسز۔موسموں کااختلاف وغیرہ سب ہی ااسی قبیل سے ہیں ،سائنسدانوں کے جدید تجربات کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ انسان کی زندگی کے لئے صرف غذا ہی ضروری نہیں ہے اور بھی بے شمار چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ،مختلف شعاعوں۔روشنی اورمختلف درجہ حرارت کی ضرورت پڑتی ہے۔تخلق کار نے کوئی چیز لایعنی و بے کار پیدا نہیں کی ہے کوتاہ فہمی یا تجربات نہ ہونے کی وجہ سے کسی چیز ظاہر نہ ہوسکے یہالگ بات ہے کسی چیز کا معلوم نہ ہونا اس کے عدم کی دلیل نہیں ۔ کچھ لوگ اپنے ہم جنسوں سے زیادہ ذہین و طباع ہوتے ہیں انہیں قدرت نے مخصوص صفات اور صلاحیتوں سے نوازا ہوتا ہے،وہ خدمت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں ان کی نگاہیں اور ان کی فہم وہ کچھ محسوس کرلیتی ہے جوعام نگاہوں سے اوجھل رہ جاتی ہیں ۔جنہیں دوسرے لوگ جب تسلیم کرتے ہیں جب انہیں مسلمات کا درجہ مل جاتا ہے ،علوم و فنون کی دنیا میں کچھ چیزیں وہ ہیں جن کا طلسم صرف ماہرین کے سامنے ہی ٹوٹتاہے دوسرے لوگ اس کے ادراک سے قاصر ہوتے ہیں،بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ دوسرے لوگوں کا اس طرف دھیان ہی نہیں جاتا کبھی کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کسی کے آگے ایک کائیناتی راز ظاہر ہوتا ہے لیکن وہ سمجھنے اور اس کی تیہ تک پہنچنے سے قاصر رہتا ہے مگر جب وہ کسی رمز آشنا سے گفتگو کرتا ہے تو اس کے ذہن میں لگی ہوئی ایک گرہ کھل جاتی ہے برسوں سے التوا میں پڑے ہوئے امور سر انجام پانے لگ جاتے وہی ایک کمی ان نظریات و قوانین کیاندر موجود تھی جو اس گفتگو سے دور ہوگئی ۔ کچھ راز اور بھی ہیں یہ بھی مطالعہ کی جئے دنیا وہی تو نہیں جو ہمیں دکھائی دیتی ہے اسرار صرف وہی تو نہیں جو ہمیں معلوم ہیں اس کے علاوہ بھی راز سربستہ ایسے موجود ہیں جو معمولی کاوش کے منظر ہیں کہ انہیں تھوڑی سی جدجہد سے آشکارا کیا جاسکتا ہے ،اللہ تعالی نے ہر انسان کو ایک نہ ایک جداگانہ صلاحیت دی ہو جس میں کوئی دوسرا شریک و سہیم نہیں ہے حتی کہ ایک جاہل گنوار اور کم عقل انسان میں بھی کوئی نہ کوئی ایسی انفرادیت موجود ہوتی ہے جس سے عقلاء بھی محروم ہوتے ہیں۔مگر اسے سمجھ نہیں ہوتی اور یہ انفرادی صلاحیت دب جاتی ہے جس کا خود اسے احساس تک نہیں ہوتا،کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے وہ علمی کمال و معلومات بھگارنے کے لئے اور اپنی صلاحیت کا لوہا منوانے کے لئے ہر موضوع پر اظہار خیال کرتے ہیں اور ہر ایک سے بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔جو ان کی فہم سے بالاہو اسکی تردید کرنا بھی اپنا ح سمجھتے ہیں ،ضروری نہیں کہ ان کی ہر بات لائق توجہ ہو ہر آدمی اپنے میدان کا ہی شہسوار ہوسکتا ہے اس کے فن اور تجربے کی وجہ سے مخصوص میدان میں اسے تفوق دیا جاسکتا ہے مگر ہر بات ان کی معتبر نہیں ہوسکتی بہت سے لوگ کسی کو نیک اور صالح سمجھتے ہیں اسے فرشتہ صفت تصور کرتے ہیں اس کی بات کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اسے اپنے نجی معاملات تک آگاہ رکھتے ہیں زندگی کے بہت سے امور میں دعا کے متمنی اور مشاورت کے آرزو مند دکھائی دیتے ہیں۔اسی عقیدت میں ان سے ایسے امور میں بھی مشاورت کرتے ہیں جو درحقیقت ان کی معلومات سے جدا ہوتے ہیں۔ایسے میں پوچھنے والااور بتانے والا دونوں اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ مثلا ایک انسان کو نیک ۔عالم سمجھ دار اور مسائل فقہ شریعت میں اور تقوی و طہار ت میں اسے مثالی مانا جاتا ہے۔مگر اس کی یہ اکتسابی صفات اس بات کی دلیل تو نہیں کہ اسے ہر میدان میں ایسا ہی مقام دیا جائے۔اس کا حق ہے جو اس نے پڑھا ہے یا جس فن میں اسے مہارت ہے اس میں مقام دیا جائے مثلاََ ایک آدمی مذہبی معالات میں سوجھ بوجھ رکھتا ہے تقوی وطہارت سے بھی متصف ہے اسے اپنے فن میں مہارت حاصل ہے اس سے یہ بات تو لازم نہیں آتی کہ اس سے تمام امور میں مشاورت کی جائے کاروبار میں اس سے مشورہ لیا جائے زمیندارہ کے بارہ میں اس سے معلومات لی جائیں ۔ اگر فصل باڑی بیجنی ہے تو اس کے کے لئے تو ایک زمیندار زیادہ معتبر ہوگا نہ کہ ایک مفتی ۔اکثر معالات مین بے اعتدالی دیکھنے میں آتی ہے کہ ایک مریض جو کہ جادو کا شکار ہے یا پھر اسے ایسی نادیدہ قوتوں نے دبایا ہوا ہے کہ اس کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے ایسے میں وہ کسی ماہر فن جادو کا توڑ کرنے والے کے پاس جانے کی بجائے وہ کسی نیک اور مفتی عالم کے پاس جاتا ہے اس سے اپنے معالجہ کا خواستگار ہوتا ہے۔ایسی صورت میں وہ اپنے اوپر ظلم کرتا ہے دوسری طرف وہ عالم صاحب بھی ظلم پر کمر کسے ہوئے ہیں انصاف کا تقاضاتو یہ تھا اگر جادو کے توڑ اور منفی قوتوں کے حالہ سے نکالنے والے فن سے اسے آگاہی تھی تو بہتر ورنہ وہ مریض کے ساتھ ساتھ اپنے پیشے اور فن کے ساتھ بھی بددنیاتی کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ وہ ایسے میدان میں طل نے کے لئے پر تول رہا ہے جس کے بارہ میں اسے معلومات نہیں وہ اناڑی سرجن کی طرح ہے جو بدن انسانی کے بارہ میں کچھ نہیں جانتا مگر چیر پھاڑ کے لئے مصروف عمل ہے، انصاف کا تقاضاتو یہ تھا کہ پہلے متعلقہ فن میں مہارت پیدا کی جاتی پھر علاج معالجہ کی طرف بڑھا جاتا۔بہت سے مریض جادوئی بلاخیزیوںمیں جکڑاہوتے ہیں وہ ان نیک لوگوں سے رابطہ کرتے ہیں جب کہ یہ اپنی
طب میں مہارت پیدا کرنے کا راز
طب میں مہارت پیدا کرنے کا راز طب قدرت کا انمول تحفہ ہے اس کے خدمت گزار قابل قدر لوگ ہیں۔جسے خدا یہ ہنر عطاء فرمادے وہ خوش نصیب ہے۔لیکن اس بدقسمتی ہے کہ اس کی نمائیدگی عمومی طورپر جہلا کررہے ہیں گوکہ ایک بڑا طبقہ ماہرین طب کا بھی موجود ہے۔لیکن جولوگ طب کے نام پر کاروبار کرتے ہیں دوا فروشی کا دھندہ کرتے ہیں ۔ان کا طب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔طب کے محسنین وہ ہیں جو اس میں تحقیق و تدقیق سے کام لیتے ہیں۔کسی نسخہ کے بارہ میں غیر ضروری فوائد ،اور غیر حقیقی باتیں کہنا طب کے ساتھ کھلی دشمنی ہے۔سوشل میڈیانے ایسی راہ بتادی ہے کہ ہر کوئی استاد الاطباء اور سنیاسی اور ماہرین طب بنے ہوئے ہیں۔امراض کی تعداد،مریضوں کی پریشانی دن بدن بڑھتی جارہی ہیں۔یہ عطائی قسم کے لوگ ایک چختی مین تمام امراض ختم کرنے کا دعویٰ کئے ہوئے ہیں۔دونوں صورتوں میں کہیں نہ کہیں تو خلا موجود ہے؟