تشخیص مزاج، علامات و امراض آسان زبان میں طب کو ایسے انداز میں پیش کیا گیا ھے کہ ھر شخص کی سمجھ میں آ سکے- طب اِسلامی و یُونانی کی ترقی اور ترویح میں سب گروپوں سے زیادہ مقبول گروپ یقیناً ‘مطبِ کامِل’ ہی ہے کیونکہ اس میں اُستاذُالحُکماء جناب حکیم محمود رسول بُھٹہ صاحب کی زیرنگرانی انتہائی قابِل و حاذق حکماء کرام شامل ہیںعرض حال آج میرے عزیز دوست میاں احسن صاحب میرے پاس عیادت و خیریت و مزاج پرسی کیلئے آئے اور ملکی پھلکی طبی گفتگو ہوئی اور میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ علم طب کے ان تاریک خانوں سے بھی روشناس ضرور کرائیں گے جن کا علم عام طبیب کو نہ ھو سکا اور ایسے رازوں سے بھی پر وہ اٹھا ئیں گے جو ابھی تک اچھے اچھے طبیبوں تک نہیں پہنچ سکا ابتداء میں کچھ ماضی بعید اور کچھ ماضی قریب کی ایسی تحقیقات پر روشنی ڈالتے ھیں جو صرف نظریات تک بھی محد و در تھی اور کچھ پر بحث مباحثہ بھی چلتا رھا ۔۔۔۔ علوم کی اسراری شاخوں میں مشہور ترین شاخیں علم نجوم علم رمل علم الاعداد علم جعفر علم الاید یا پامسٹری چهره شناسی ان سب علوم کے ماھرین نے اپنی اپنی جگہ طب کے موضوع پر بھی کچھ نہ کچھ سر دھنا ھے مضمون کی تفصیل لکھنے سے پہلے میں چند دوستوں کو جو راتوں رات امیر ہونے کے خواب دیکھنے کے قائل ھیں یا جن کا منشور یہ ھے کہ فورا اصل بات کا علم ھو جائے باقی چھوڑیں ایسے تمام دوست میری کتاب تشخیص بذریعہ نبض پڑھیں اور اپنا کام چلا ئیں اس کی پی ڈی ایف فائل نیٹ پر موجود ھے اللہ اللہ تے خیر صلا ۔۔۔۔ میں نے مضمون بہت آرام سے اور مکمل احاطہ کرتے ہوئے لکھنا ھے جو کافی قسطوں میں آئے گامبر سے پڑھیں گے تو وہ کچھ حاصل کر لیں گے جس کا آپ نے تصور بھی نہیں کیا ھو گا اس مضمون کو لکھنے کے لئے آزاد بھٹو صاحب عرصہ سے کہہ رھے تھے آج بھی آزاد بھٹو صاحب نے فون پر یہ ب نے فون پر یہی مطالبہ دھرایا پھر میاں احسن صاحب نے بھی زور دیا تو نا سازی طبع کے باوجود قلم کا نشتر تیز کیا خیر اپنے موضوع کی طرف چلتے ھیں میں بات اسراری علوم کی کر رھا تھا ان سب علوم کی مستند کتا میں اٹھا کر دیکھ میں یا پھر گروپ میں کوئی دوست ان میں سے کسی بھی علم پر عبور رکھتا ھو تو وہ میری بات کی تصدیق کر دے گا بس میں مختصر ابھی آپ کو ان علوم میں طب کی تشریحات بتاؤں گا سب سے پہلے بات کرتے ھیں علم نجوم پر علم نجوم یا علم فلکیات ستارون کی رفتار ان کی ایک دوسرے پہ نظرات جن میں نظر تثلیث نظر تمدیں اور نظر تنصیف کا عمل دخل رفتار کے درجات ثانیہ ثالثہ دقیقہ تک حساب پھر ستارہ کس گھر میں کسی وقت ھے یعنی زائچہ کے بارہ گھر ھوتے ھیں جو پیدائش سے شروع ھوتے ھیں اب ان میں بیت سفر بیت الزوج بیت الموت تک سب کچھ ھوتا ھے اس میں تشخیص یہاں تک ھے کہ ایک شخص کی پیدائش سے شروع کتاب یہاں سے حاصل کریں
مولی کھائواور جگر مثانہ کی صفائی کرو
Radish (Root) cleanses the liver and bladder
کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات/1
My experiences and observations about Kuchla Part One. کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات.1 My experiences and observations about Kuchla Part One. ……………………….. تحریر :حکیم قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان (کچلہ کے بارہ میں یہ مضمون ہماری ویب سائٹ(www.tibb4all.com)پر 25 قسطوں میں شائع ہوچکا تھا۔ویب سائٹ ہیک ہونے اور دیگر وجوہات کی وجہ سے مضمون کے مطالعہ میں مشکلات پیش آرہی تھیں اس لئے دوبارہ (www.dunyakailm.com) پر اس مضمون کو نظر ثانی جدید انداز میں پیش کیا جارہااہے۔شکریہ) اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے پنا ہ نعمتوںسے نوازا ہے۔اس کے لئے ایسی نعتمیں مہیا ردیں ہیں جن کا اظہار صدیوں سے ہوتا آیا ہے اور رہتی دنیا تک انکشافات و اظہار کا سلسلہ جاری رہے گا۔ طب انسانی زندگی میں سب سے زیادہ کام آنے والا فن و ہنر ہے جس کی بلا امتیاز ہر طبقہ و معاشرہ کے ہر فرد کو ضرورت رہتی ہے۔ یہ سلسلہ ہبوط آدم ؑ سے تاہبوز ،اور تا دم واپسیں جاری رہے گا۔ طب کا ایک حصہ تو وہ ہے جسے کتب میں مرقومہ حالت میں دیکھتے ہیں۔ایک حصہ وہ ہے جسے بے شمارلوگ اپنے ساتھ قبروں میں ساتھ لے گئے۔عملی طورپر جتنا حصہ کتب میں موجود ہے یا جس کے چرچے سنے جاتے ہیں ۔اس حصے کی نسبت بہت کم ہے جو سینہ بہ سینہ نسلا بعد نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔حادثاتی طورپر نابود بھی ہوجاتا ہے۔ کچلہ ایک اکسیری دوا ہے جسے حذاق حکماء بوقت ضرورت کام میں لاتے ہیں ۔اس سے امراض کہنہ اوربدن کے لئے اکسیرات مین استعما ل کرتے ہیں۔یہ دوا صدیوں سے طب مین استعمال ہوتی آئی ہے ج بھی بے دھڑک استعمال کی جارہے ہے۔اس پر مفصل مضامین اور رسائل و کتب لکھی گئیں ۔عقاقیر پر لکھی جانے والی کتب میں اس کا تذکرہ شرح و بسط سے پایا جاتا ہے۔ کچلہ کے بارہ میں جتنا ڈرایا جاتا ہے یا پہلے لوگوں نے اس کے استعمال کے بارہ مین جو احتیاطی تدابیر اختیار کی تھیں جو طریقے تبدیر ور اصلاح کے لکھے ہیں وہ اتنے طویل اور ڈرائونے لکھے ہیں کہ پڑھنے والا اور سننے والااستعمال سے پہلے ہی کانپ جاتا ہے۔کچلہ مارنا یا اسے تیار کرنا پہاڑ کی چوٹی سر کرنے والی بات سمجھی جاتی تھی۔ یہ بھی پڑھئے کچلہ کے بارہ میں میرے تجربات و مشاہدات عمومی طور ۔کچلہ ۔شنگرف۔سنکھیا۔رسکپور۔دار چکنا۔تیلا مکھی۔بیلا ڈونا۔مٹھا تیلہ وہ دوائیں سمجھی جاتی تھیں کہ ان کا مارنے والا یا انہیں قابل استعمال بنا نے والے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔اچھے بھلے حکماء ان چیزوں کی تیاری کے جھنجٹ میں پڑنے پر آمادہ نہ ہوتے تھے۔استاد الاطباء مولانا حکیم محمد عبد اللہ جھانیاں منڈی والوں کی کتب اس کی گواہی دیں گی۔ اس کے بعد حضرت مجدد الطب صابر ملتانی نے میدان طب میں ایک غلغلہ پیدا کردیا ۔طب کو اطباء کے لئے سوورہ فاتحہ بنا دیا۔قانون صابر نے ایک قابل عمل سہل لاحصول طریقہ تشخیص۔تجویز غذا،ترتیب نسخہ جات۔ادویہ سازی متعارف کرایا۔حکیم صاحب کی زندگی کانٹوں کی سیج ثابت ہوئی ایک طرف وہ اپنے قانون کو ترتیب دے رہے تھے۔دوسری طرف فسطائی ذہنوں والے حکماء سے نبرد آزما تھے ۔انہوں نے کتب بھی لکھیں ۔اعترضات کے جوابات بھی قلمبند کئے۔اپنی تھیوری کا پریکٹیکل بھی مہیا کیا۔وہ اجتماعات میں اپنا نکتہ نظر پیش کرتے۔ایلو پیٹھی کے طلسم کو پاش پاش کرتے اور اپنی بات کو مدلل انداز میں پیش کرتے۔ صابر صاحب مرحوم نے جو نظریہ پیش کیا ،اس کا فارماکوپیا بھی دیا۔ فارماکوپیا کی ترتیب میں ان کی دلکش ترتیب۔ان کا خلوص۔تجربہ باریک بینی بلکہ ان کے اخلاص کی بنیاد پر اس ترتیب کو الہامی ترتیب کہا جاسکتا ہے۔ اس فارماکوپیامیں کچلہ کو بطور ایک بنیادی جزو کے شامل کیا گیا۔گوکہ طبیب لوگ کچلہ ا پہلے بھی استعمال کرتے تھے۔لیکن مفرد اعضاء والوں نے اس کے استعمال اور اس کی تدبیر کو کمال درجہ تک پہنچ دیا۔ مجھے بے شمار طبی لٹریچر پڑھنے کا اتفاق ہوا۔عربی فارسی ۔اردو پنجابی وغیرہ زبانوں میں لکھی گئی کتب قرابادینیں۔ بیاضیں۔ڈائریاں۔یاد داشتیں نظروں سے گزریں۔بقراط کی لکھی ہوئی کتب سے لیکر خاندان شریفی۔مسیح الملک حکیم اجمل خان مرحوم وغیرہ تک کتب سے شغف رہا ۔لیکن جو تفہیمی انداز مفرد اعضاء والوں کا ہے،اس کا اپنا ہی مزہ ہے۔ کچلہ اس سب میں مفید بتایا گیا ہے۔لیکن جو استعمال مفرد والوں نے بتایا ہے۔اس کی ہمت کسی کو نہ ہوئی ۔کچلہ کی تیاری ،ہمالیہ چوٹی سرکرنے والی بات تھی۔
مرن سوپہلے بھی کندھان کی ضرورت پڑے ہے۔
مرن سوپہلے بھی کندھان کی ضرورت پڑے ہے۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میوزندگی کا اتنا رخ ہاں گِنن پے آئو تو حد رہ جائوگا۔زندگی نام ای ایک دوسرا سو تعاون کرن کوہے۔جو لوگ سوچا ہاں کہ ہم نے کائی کہا ضرورت ہے؟ وے غلط سوچاہاں اگر دوسران کی ضرورت نہ ہوئے تو ایک معاشرہ دھواں کی طرح فضاء میں بکھر جائے۔کدی سوچو ہے جا لباس اے پہرو ہو اُو کہا تم نے بنائیو ہے؟ایک دھاگہ بنانا کے مارے کتنو نظام ہے کتنی افرادی قوت کام کرری ہے۔کہاں کہاں سو کون کون سو سامان آرو ہے؟لتا کپڑا تو دوسرا کی بات جا نوالہ اے منہ میں لیکے جارا ہو۔یائی کا بارہ میں سوچ لئیو کہ ای تہارا منہ رک کیسے پہنچو ہے۔ایک نوالہ کے مارے بیج۔کھیت باری زمیندار کی محنت۔سو لیکے روٹی بنانا تک پھر تہارے آگے دھرنا تک قدرت نے کتنو نظام بنا ئیو ہے۔پھر بھی تہارو خیال ہے کہتم نے کائی کی ضرورت نہ ہے؟نظام حیات کچھ ایسے کام کرے ہے جیسے انسانی جسم۔،اگر ایک رَگ میں بھی درد ہوجائے تو پورو جسم تڑپ جاوے ہے۔ ہم نے کدی یا میں فرق نہ کرو ہے کہ سر درد ہوئے تو دوائی لے لئیو ۔پائوں میں درد ہوئے و مت لئیو؟جتنی تکلیف سر درد کی محسوس کرو ہو ایسی ای تکلیف پائوں میں ہون والا درد کی کرو ہو ۔کیونکہ سر کی اہمیت اپنی جگہ لیکن زندگی میں پائوں کو بھی ایک جاندار کردار ہے۔ یائے بھی پڑھو میو قوم میں خدمت کو جذبہ۔بس یہی انسانی معاشرہ ہے۔کہ کوئی سر کی جگہ ہوئے(مالدار۔عہدہ دار)یا کوئی پائوں کی جگہ ہوئے(نوکر چاکر۔غریب نادار)ہر کوئی اپنو اپنو کردار نبھا واہاں اگر سرباراہ یا دھنیڑی کی جگہ کوئی نادار نردھن ہے تو معاشرہ میں چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنو کردار ادا کرے ہے۔اگر نچلا طبقہ اے سات لیکے چلو جائے تو چلنا میں آسانی پیدا ہوسکے ہے۔گھوڑا سوا ی میں اگر کاٹھی لگام ضروری ہے تو تیہ نال(کھری) بھی اتنی ہی ضروری ہے۔یا پھر نوں سمجھ لئیو کہ۔قیمتی گاڑی کی آرام دہ سیٹ کو سب دھیان راکھاہاں لیکن واکا ٹارئر (پیہ)بھی اتنی اہمیت راکھاہاں جتنی سیٹ کی ہے۔میو قوم میں سارا طبقات موجود ہاں ۔پڑھا لکھا بھی ہاں ۔اَن پڑھ اور گنوار بھی ۔مالدار دھنیڑی بھی ہاں۔کنگال نردھن بھی ہاں۔لیکن ہر کوئی اپنو اپنو کردار ادا کررو ہے۔اگر دونوں اونچا نچلا طبقہ مین رابطہ پیدا ہوجائے تو بہتر انداز میں ترقی کو سفر ممکن ہوسکے ہے۔مالدار اپنی مالی حیثیت سو آگے آواں اور غریب لوگ افرادی قوت اور ہنر مندی کا اعتبار سو آگے بڑھا ں ۔جو جا میدان میں مہارت راکھے ہے اپنی خدمات قوم کے مارے پیش کردئے۔جب دھنیڑی مال پیش کرنگا اور غریب محنت کرنگا تو دونون کو فائدہ پہنچے گو اور قوم جلدی ترقی کرے گی۔ یائے بھی پڑھو ضروری تو نہ ہے کہ ہدیران کی منجھی کو ای کندھا دئیو۔ای تو سبن نے پتو ہے مردہ کی کھاٹ اے غریب لوگ ای اٹھاواہاں۔مرن سو پیچھے جو کھاٹ کو کندھا دینو ہے واکندھا اے زندان کے مارے پیش کردئیو تو قوم کو بہت بھلو ہوجائے گو۔
بین الاقوامی معاملات اور سورۃ الکہف کا پیغام
بین الاقوامی معاملات اور سورۃ الکہف کا پیغام حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو قران کریم تاقیامت رہبرو رہنمائی کےلے نازل کیا گیا ہے،یہ وہ سمندر ہے جس کی گہرائی مانتے مانتے قیامت آجائے گی لیکن اسرار و رموز ختم نہ ہونگے۔ہر زمانے کے محڈث و مفکر مفسر کو بغور مطالعہ کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ قران اسی کے لئے اترا ہے۔آیات پرغور کرنے پر یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے ان کا مخاطب پڑھنے والا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہر زمانہ کے مفسرین نے کچھ ایات کی تطبیق اپنے اپنے زمانے کے حوادثات اور نظریات کو مد نظر رکھا ہے۔نظریات و حوادت وقتی رجحانات کے پیش نظر جنم لیتے ہیں جبکہ قران کریم ابدی یہ بھی پڑھئے تفسیر قران کریم اور AIجدید ٹیکنالوجی حقائق کا خزانہ ہے۔ سورہ الکہف کے بارہ میں ہر جمعہ تلاوت کرنے کی فضیلت احادیث مبارکہ میں میں موجود ہے رعاقم الحروف بچپن سے سورہ کہف کی تلاوت کرتا آیا ہے۔تین باتیں ذہن میں موجود ہوتیں آج جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے جسے سطحی الذہن لوگ دجالی فتنہ قرار دیتے ہیں۔اور اس دور جدیدمیں(A.I)کو بہت بڑ فتنے کے طورپر دیکھتے ہیں۔جب کہ حقائق یہی نہیں جن انہوں نے اپنے اذہان میں بٹھا لئے ہیں ۔بلکہ جدید سہولیات سے خود اور ماننے والوں کو دور رکھنے اور حقائق سے راہ فرار اختیا ر کرنے کا ایک بہانہ ہے۔اگر وقت کی رفتار کو محسوس کریں اور لوگوں کے اذہان میں پیدا ہونے والی ضروریات و افکار پر توجہ دیں تو نیا جہان دکھائی دیتا ہے۔آج کا متلاشی اس بات سے مطمین نہیں ہوتا کہ فلاں نے یہی کہا۔اس امام و فقیہ نے یہ لکھا ۔اس کا قول یہ ہے۔اب لوگ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اس وقت کی ضرورت کو آُ کس تناظر میں دیکھتے ہیں۔اگر آپ اپنی علمیت اور حالات حاضرہ کی جائز ضروریات کو تطبیق بہتر انداز میں کرسکتے ہیں،ورنہ لوگ ان کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہونے جو انہیں دھوکہ دینے کی نیت رکھتے ہیں شاید یہی وج ہے کہ آج الحاد جس تیزی سے پھیل رہا ہے اس کا اندازہ مشکل ہے۔البتہ ملحدین جو شکوک اور شبہات ذہنوں ڈالتے ہیں ۔ان کا حل کافی حد تک سورہ الکہف میں موجود ہے۔آج جو باتیں اہمیت رکھتی ہیں انہیں ذیل کی سطور میں اکتصار کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے۔یہ وہ باتیں ہیں جو اسلام سے متصادم نہیں لیکن وقت کی ضرورت ہیں لوگ ا ن معاملات میں قران و حدیث کی روشنی میں رہنمائی کے طالب ہیں۔ آج کے بین الاقوامی معاملات پر اطلاق عصر حاضر میں دنیا “گلوبل ولیج” بن چکی ہے، لیکن زبان، کلچر اور جغرافیائی فرق ابھی بھی چیلنج ہیں۔ سورۃ الکہف کا یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ان چیلنجز کو دور کرنے کے لیے: یہ تعلیمات آج کے بین الاقوامی سفارتی تعلقات، تجارتی معاہدات اور انسانی حقوق کے معاملات میں رہنمائی فراہم کر سکتی ہیں۔ بین الاقوامی معاملات اور سورۃ الکہف کا پیغام سورۃ الکہف میں بیان کردہ ذوالقرنین کا واقعہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ زبان، ثقافت اور سرحدوں کے فرق کے باوجود انسانیت کے مسائل کو حکمت اور تدبر کے ساتھ حل کیا جا سکتا ہے۔ 1. زبان اور کلچر کے فرق کو سمجھنا ذوالقرنین ایک ایسی قوم کے پاس پہنچے جن کی زبان وہ نہیں سمجھ سکتے تھے۔ یہ واقعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ مختلف زبانوں اور کلچرز کو رکاوٹ کے بجائے ایک موقع کے طور پر دیکھا جائے۔ بین الاقوامی معاملات میں، مختلف قوموں کے کلچرز اور زبانوں کو سمجھنے کی کوشش عالمی ہم آہنگی میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ 2. ترجمہ اور جدید ٹیکنالوجی کی اہمیت ذوالقرنین نے قوم کے مسائل کو سمجھنے کے لیے وسائل کا استعمال کیا۔ آج کے دور میں مواصلاتی ٹیکنالوجی، مشین لرننگ، اور زبان کے ترجمے کے سسٹمز بین الاقوامی تعلقات کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ 3. عالمی مسائل کے حل کے لیے تعاون ذوالقرنین نے قوم کے ساتھ مل کر دیوار تعمیر کی تاکہ ان کے دشمنوں سے حفاظت کی جا سکے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عالمی مسائل جیسے ماحولیاتی تبدیلی، غربت، اور تنازعات کے حل کے لیے اقوام کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ 4. اختلافات کے باوجود انصاف اور ہمدردی ذوالقرنین نے انصاف کا مظاہرہ کیا اور طاقت کا غلط استعمال نہیں کیا۔ بین الاقوامی تعلقات میں یہ اصول آج بھی اہم ہے کہ تمام اقوام کے ساتھ برابر انصاف اور ہمدردی کی جائے۔ 5. مشترکہ فلاح اور امن کا قیام قوموں کے درمیان دیوار تعمیر کرنے کی مثال ہمیں سکھاتی ہے کہ اختلافات کے باوجود مشترکہ اہداف کے لیے کام کیا جا سکتا ہے۔ آج بھی اقوام کو چاہیے کہ وہ جنگ و جدل کے بجائے امن اور ترقی کے لیے اپنی توانائیاں صرف کریں۔ نتیجہ سورۃ الکہف کا یہ پیغام آج کے بین الاقوامی معاملات میں رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ مختلف زبانوں، کلچرز، اور قوموں کے درمیان تعاون، انصاف اور حکمت کے ساتھ عالمی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ قرآن کی جامع ہدایت ہے جو ہر دور کے لیے عملی سبق فراہم کرتی ہے۔
رائزک کیپسول کے استعمال نقصان وخطرات
(Raziq DSR) حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میورائزک کیپسول کے استعمال نقصان وخطرات (Raziq DSR)رائزک کیپسول کے استعمال نقصان وخطرات(رائسک کے استعمال کنندگان کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کی علامت ہےکہ جلد معدہ کے السر۔کنیسر۔زخموں کے مریض اتنے زیادہ ہوجائیں گےکہ سوچ کر رونگٹےے کھڑے ہوجاتے ہیں۔معالجین کو اس بارہ میں سوچنا چاہئے) معدہ انسانی جسم میں قدرت کا انمول عطیہ ہے۔اعتدال کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے ۔غذائی بے اعتدالی سے بچنے والوں کو یہ کبھی تنگ نہیں کرتا۔جو معدہ کو بار بار تنگ کرتے(بسیار خوری )انہیں معدہ بھی تنگ کرنا ہے ۔۔اس میں ہر وقت تغیرات کی لہر موجود ہوتی ہے ۔اس کا بھوک میں الگ مزاج ہوتا ہے۔بھرے پیٹ میں اس کا الگ سے کام ہوتا ہے۔جب خالی ہوتو یہ الگ سے اپنے افعال انجام دیتا ہے۔اگر بھوک ایک حد سے بڑھ جائے تو یہ خطرناک ترین کھانے (مردار)تک کو ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بسیار خوری کا طوفان اس وقت کیا صدیوں سے معدہ کے امراض کے امراض کے امراض بے قابو ہوتے چلے آئے ہیں ۔معدہ خالی ہونے پر نقصان نہیں کرتا مگر ایک حد سے زیادہ بھرے ہونے پر یہ جسم کا دشمن بن جاتا ہے۔بغر بیٹھتا ہے،ایک بار بگڑ جائے تو سدھرنے کا نام نہیں لیتا۔ دیسی طب میں بے شمار نسخہ جات ترتیب دئے گئے ہیں۔لیکن ایلو پیتھی میں جو ٹیبلٹ اور کیپسول۔انجیکشن بنائے گئے وہ کچھ دن تو معدہ کو یرغمال بنائے رکھتے ہیں۔اس کے بعد حالات ان کے کنٹرول سے باہر ہوجاتے ہیں۔ان اودیات میں سے ایک دوا رائسک کیپسول بھی ہیں پروپیگنڈہ وار میں سبقت رئسک ایک ایسا میٹھا زہر ہے جس کے نقصانات اتنے زیادہ ہیں جنہیں قابومیں کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔۔لوگ بیماری کے سبب اور جڑ کو تلاش کرکے علاج کی کوشش نہیں کرنے وہ صرف علامات کو دبانے اور وقتی فائدہ حاصل کرنے کی تگ و د و کرتے ہیں ۔رائسک کا استعمال جس مقدار میں لوگ کرنے لگے ہیں ایک وقت ایسا بھی آئے گا میدہ کے السر ۔کینسر۔اور معدہ کے زخم والے مریض اتنی تعداد میں ہوجائیں گے کہ سوچ کر روگنٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔رائسک تجویز کرنے والے معالجین سے گزارش کے کہ مریضوں پر رحم کریں اورنہار منہ رائسک تجویز کرنا بند کردیں۔ رائسک کا استعمال۔رائسک کا استعمال معدے اور آنتوں کے السر، ایسڈ ریفلکس، اور معدے میں تیزاب کی زیادہ پیداوار کی وجہ سے ہونے والے دیگر حالات کے علاج کے لئے کیا جاتا ہے، جیسے زولنگر-ایلیسن سنڈروم، اور گیسٹرواسفیگل ریفلکس بیماری (جی ای آر ڈی). اس میں اومیپرازول فعال اجزاء کے طور پر شامل ہوتا ہے ، ایک پروٹون پمپ انہیبیٹر ، جو پیٹ میں پیدا ہونے والے ایسڈ کی مقدار کو کم کرتا ہے۔ رائزک کیپسول کے ممکنہ استعمال Risek معدہ اور آنتوں کے السر، ایسڈ ریفلوکس، اور معدے میں تیزابیت کی زیادتی کی وجہ سے پیدا ہونے والی دیگر حالتوں جیسے Zollinger-Ellison syndrome، اور gastroesophageal reflux disease (GERD) کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں Omeprazole ایک فعال جزو کے طور پر ہوتا ہے، ایک پروٹون پمپ روکنے والا، جو معدے میں پیدا ہونے والے تیزاب کی مقدار کو کم کرتا ہے۔ رائزک کیپسول 40 ملی گرام فارمولا Omeprazoleدستیاب فارمکیپسولانجکشن خطرات اور انتباہ اس کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے آپ کو رائسک کیپسول کے خطرات اور انتباہات کو جاننا چاہئے۔کچھ مخصوص حالات ہیں جن کے تحت کچھ ادویات کے استعمال کی خلاف ورزی کی جاتی ہے یا خطرناک سمجھا جاتا ہے. لہذا جب کوئی بھی دوا لیتے ہیں تو ، اس کے خطرات اور انتباہات سے اپنے آپ کو واقف کرنا ہمیشہ ایک اچھا عمل ہوتا ہے۔ رائسک کیپسول سے وابستہ خطرات اور انتباہات یہ ہیں :حملاور دودھ پلانے:اگر آپ حاملہ ہیں یا دودھ پلا رہی ہیں تو اس دوا کو لینے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں.Hyper حساسیت:اومیپرازول یا رائسک میں موجود کسی بھی اجزاء سے الرجی والے مریضوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اس کا استعمال نہ کریں۔ گردے اور جگر کے مسائل:گردے اور جگر کے مسائل میں مبتلا مریضوں کو احتیاط کے ساتھ اس دوا کا استعمال کرنا چاہئے۔رائزک کیپسول 40 ملی گرام کیسے استعمال کریں؟دوا کو ایک گلاس پانی کے ساتھ منہ سے لیںاسے کھانے سے پہلے لیں، ترجیحی طور پر صبح کے وقتکیپسول کو کچل کر یا چبا نہ کریںاپنے ڈاکٹر کی خوراک کی ہدایات پر عمل کریںاگر آپ بہتر محسوس کرتے ہیں تو بھی اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کیے بغیر دوا لینا بند نہ کریں۔میعاد ختم ہونے کی تاریخ گزرنے کے بعد اسے استعمال نہ کریںرائزک ضمنی اثراترائسک کیپسول کے عام ضمنی اثرات یہ ہیں:سر درداسہالمتلیپیٹ میں دردکبجفلیٹولینسمنشیات کے تعاملاترائزک مندرجہ ذیل ادویات کے ساتھ تعامل کرسکتا ہے:ClopidogrelMethotrexateDigoxinWarfarinKetoconazole and itraconazoleTacrolimusسینٹ جانز وورٹRifampicinStorage کی شرائطدوا کو کمرے کے درجہ حرارت پر ذخیرہ کریں.بچوں کی پہنچ اور نظر وں سے دور رکھیں۔اسے روشنی، نمی اور گرمی سے محفوظ رکھیں. رائزک کیپسول (Raziq DSR)کے استعمال نقصان وخطرات
میوقوم کی عادت۔ دوسران کا کام میں ٹانگ اَڑانو۔
میوقوم کی عادت۔ دوسران کا کام میں ٹانگ اَڑانو۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میومیو قوم کو اللہ نے بہت ساری مثبت صفات دی ہاں ،لیکن کچھ بری عادات بھی ان کی زندگی میں دیکھن کو ملاہاں۔صفات اللہ ہر کائی کو دیوے ہے لیکن کچھ صٖات قومن کے ساتھ زیادہ نمایاں رہواہاں۔جب ان صفات کو نام لئیو جاوے ہے تو جھٹ ان لوگن کو ذہن میں کیال آجاوے ہے جو متصف بہ صفت رہواہاں۔جیسے میون کی وفاداری۔ایثار و قربانی۔ہمدردی۔دیالو پن۔مظلوم کی حمایت۔اپنا کام سو کام راکھنو وغیرہ۔یہ تو ہاں وے صفات جن کا میو مدعی ہاں لیکن اِنن نے اپنانا سو ڈرا ہاں۔ پہلی بُری عادت میو قوم میں ایک بہت بُری عادت ای بھی ہے کہ یہ ہوڈے ہوڈ گوڈے پھوٹ کا شکار ہاں ۔یعنی اگر کائی اے کوئی کام کرتو دیکھا ہاں تو ضد اور انحث میں آکے وائی اے کرن لگ پڑا ہاں۔کدی سوچن کی زحمت ای نہ کراہاں کہ جانے ای کام کرو ہے ہوسکے واکی مجبوری ہوئے؟۔یا اللہ نے والو فرصت دی ہوئے۔اور واسو مقابلہ کرن والان کی اتنی اوقات نہ ہوئے؟۔دیکھو جاوے ہے کہ برادی میں اگر کائی نے اپنی حیثیت اور فرصت کے مطابق کوئی بھلو یا بُرو کام کردیو ہے تو واکا بھائی بند ان کی مالی اور معاشرتی حیثیت کچھ بھی ہوئے ،واکا مقابلہ میں ایسو ای کرنگا۔ایسی ضد سو ان کو فائدہ ملے ہے نہ قوم کو۔البتہ انحث کرن والان کے مارے تنگی کو سبب ضرور بنے ہے۔ دوسری بڑی عادت۔ میو قوم کا سارا لوگ ای دوسران نے سُدھارن پے لگا پڑاہاں۔ہر کوئی سوچے ہے فلاں نے غلط کرو ہے وائے ٹوکو۔واپے تنقید کرو۔واکی ٹانگ کھینچو۔۔حالانکہ جانے جو بھی بُرو بھلو کرو ہے۔واکو ذمہ دار اُو خود ہے۔لیکن دوسرا لوگ ایسے ای ہلکان ہویا ڈولاہاں۔ای بات یا جدید دور میں بھی اتنی گھنی دیکھی جاوے ہے کہ محسوس ہووے ہے کہ آج بھی دادا ہیجا کا زمانہ میں رہ را ہاں؟۔یعنی جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیا۔دوسرا وسائل بھی ہماری عادت بدلن میں ناکام دیکھائی دیواہاں۔ یائے بھی پڑھو میو قوم کا محسن۔یامحسنن کی قوم۔ایک گُر کی بات۔ کامیابی تو محنت سو ملے ہے۔ناکامی کا ہزار طریقہ ہاں۔جیسے وقت۔مال۔وسائل کو ضیاع۔ایک دوسرا ن میں کیڑا نکالنو۔بُرائی ڈھونڈنو۔اور اصلاح کا چکر میں دوسران کی ٹانگ کھیچنو وغیرہ۔جولوگ اپنا کام سو کام راکھاہاں۔محنتی اور مخلص ہاں۔اُنن نے یا بات کی پروا نہ رہوے ہے کہ کوئی کہا کہہ رو ہے ؟کوئی کہا کررو ہے؟یاکام اے نکما نٹھلا لوگ سمنبھال لیواہاں۔کامیابی دوسران کی زندگی اجیرن کرن میں یا دوسران کاکام میں نقص نکالن میں نہ ہے۔ کامیابی ای ہے۔ اگر تم نے محنتی ہو اپنا کام سو کام راکھو ہو۔تو کائی کی بری سوچ تہارو کچھ نہ بگاڑ سکے ہے؟۔تم کام کرتا ہرو یہ لوگ جلتا بُھنتا رہینگا۔لوگن نے یاسو کوئی لینو دینو ن ہے کہ کوئی کہا سوچے ہے لوگ تو واکی قدر کراہاں جاسو انُ کو فائدہ ملے۔اُن کو بھلو ہوئے۔جب تم دوسران کی راحت رسانی کو سامان پیدا کروگا تو لوگ تہاری قدر کرنگا۔اگر تم نے لوگن کے مارے کانٹا بکھیرا تو لوگ تم نے نظر اندا ز کردینگا۔کام کرن والاے بتان کی ضرورت نہ رہے ہے کہ میں نے کام کرو ہے ۔کام تو خود بولے ہے ۔کہ میں فلاں نے کرو ہوں۔ یائے بھی پڑھو تاریخ میو اور داستان میواتناکامی کیسے ہووے ہے؟ میو قوم میں تانگ کھنچائی بہت گھنی ہے۔یہ اپنا کام اے تو کرانہ ہاں دوسران کا کام میں ٹانگ اڑا واہاں۔کامیاب لوگ اَن باتن سو کنی کتراواہاں ۔اور اگر کدی زندگی میں موقع آجائے کہ کائی سو مقابلہ کرنو پڑجائے تو۔ایسو طریقہ اختیار کرو کہ کائی کا گھر میں جاکے لڑائی کرن کے بجائے۔وائے اپنا میدان میں لے کے آئو۔تہاری جیت کا زیادہ مواقع پیدا ہوجانگا۔اگر تم دوسرا کے گھر جاکے لڑوگا تو مار کھائوگا۔کہاوت ہے کہ “اپنے گھرے تو چینٹی بھی شیر رہوے ہے”جولوگ یا نکتہ اے سمجھ جانگا وے کدی بھی مار نہ کھاساں۔۔۔
100 Amazing Uses of Essential Oils for Health
صحت کے لیے ضروری تیلوں کے 100 حیرت انگیزت استعمالات .ایون، میساچوسٹس … طب میں روغنیات کا استعمال۔ اروما تھراپی دنیا میں مقبول ترین اور مہنگا شوق ہے لیکن قدرت نے خوشبویات اور روغنیات ہمیں وافر مقدار میں عطاء کے ہیں لیکن اس ہنر کی طرف توجہ نہ ہونے کی وجہ ہمیں اغیار کی منصوعات پر انحصار کرنا پڑتا ہے حالانکہ خام مال ہمارے پاس بڑی مقدار میں موجود ہے۔ چکنائی/روغن انسانی زندگی کا جزو لازم ہیں ان کے بغیر زندگی گزارنا بہت مشکل ہے ۔کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو زندگی کا شعور رکھتا ہو لیکن روغنیات سے ناواقف ہو،کیونکہ روغنیات کا استعمال زندگئ وہ حصہ ہے جسے نذر انداز کرنا ممکن نہیں،اس کے مختلف استعمالات ہیں اندرونی بھی بیرونی بھی،خوردنی طورپر۔ مالش کے لئے۔خوبصورتی کے لئے۔اعضا کے اکڑائو کے لئے دردوں سے نجات کے لئے۔جلد کی خوبصورتئ کے لئے۔جسمانی قوت میں اضافہ کے لئے۔موسمی اثرات سے بچنے کے لئے۔ طب میں بھی روغنیات کا استعمال ہوتا ہے۔روغنیات کو بطوور مالش ۔بطور طلاء۔یہ روغنیات۔ نباتاتی ۔ حیوانی ۔حجریاتی۔اس کی ترکیب ساخت مختلف ہوتی ہے۔اور ان کے استعمالات متنوع قسم کے ہوتے ہیں ۔اس کتاب کو اردو میں ڈھالنے کا مقصد یہی ہے کہ تیلوں کوبنانے اور انہیں استعمال کے طریقے اور فوائد کے حصؤل مفید بنانے کے لئے انگریری اور دیسی طریقے بتائے گئے ہیں۔دیسی طب میں ناریل ۔ارنڈی۔سرسوں۔زیتون۔وغیرہ مشہور ہیں لیکن حاذق اطباء نے ہر قسم کے تیل بنانے کے بیشمار طریقے لکھے ہیں۔دیسی انداز میں لوگ مختلف روغیات تیار کرنے کے طریقت جانتے ہیں۔لیکن جو منافع بخش کاروبار مغرب والے کرتے ہیں ۔مشرق والے عمومی طورپر اس ہنر کو اس انداز میں استعمال نہیں کررہے جس کی ضرورت ہے۔اس کتاب میں تقریبا سو(100)ترکیبیں بیان کی گئی ہیں جو خواتین کے حسن و جمال کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔بیماروں کو راحت بخش اور صحت و تندرستی کے لئے سنگ میل ۔ اس کتاب کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ وہ چیزیں زیر بحث لائی گئی ہیں جن کو طب نے عمومی طورپر نظر انداز کیا یا کم گفتگو کی اور روحانیت والوں نے اسے اپنا رنگ دینے اور اپنی قابلیت جتانے کا راستہ تلاش کیا۔گوکہ میڈیکل سائنس بھی اس موضوع پر بحث کرنے سے گریز کرتی ہے۔جیس خوشی ۔غمی۔فکر غم۔مسرت۔ مراقبہ۔ وغیرہ۔یہ سب باتیں مشرقی و مغربی معاشرہ میں روحانیت سے وابسطہ سمجھی جاتی ہیں۔ کتاب ہذا میں میں ان باتوں کے لئے کئی عنوانات کو مختص کیا گیا ہے،۔اور بتایا گیا ہے ان کیفیات میں کونسا تیل کونس خوشبو استعمال کیا جائے گا۔جب کہ ہمارے ہاں خوشبو کو بطور تبرک یا عملیاتی ضروریات کے تحت کام میں لایا جاتا ہے۔ ہم نے اپنی کتاب جادو اور جنات کا طبی علاج۔میں یہی موقف اپنایا گیا کہ جادو اور جنات کا علاج صرف دم جھاڑا یا چلہ وظائف سے ہی ممکن نہیں بلکہ علاج کے دوسرے طریقے بھی موجود ہیں ۔لیکن روایتی معالجین اور روحانیت کے دعوے دار اس بات سے تنفر اختیار کئے ہوئے ہیں۔ طب و عملیات کے میدان میں پینتیس سالہ تجربات میں جو بات نچوڑ کے طورپر کہی جاسکتی ہے وہ ہے کہ لوگوں نے طب و عملیات کو ایسے گڈھ مڈ کردیا ہے کہ امتیاز کرنا مشکل ہے ۔عملیاتی کتب میں طبی نسخے اور طب کی کتابوں میں عملیاتی ٹوٹکے۔عمومی طورپر دیکھے جاتے ہیں۔یہ وہ فکری خلل ہے جس نے معاشرہ می جڑیںمضبوط کرلی ہیں ۔اگر اس باریک خط کی شناخت کرلی جائے کہ عملیاتی اور طبی میدان کہا ں سے شروع ہوکر کہاں ختم ہوتے ہیں تو بہت سے لایعنی مشق سے بچا جاسکتا ہے۔ دوسری بات یہ بھی قابل غور ہے جب تک محنت و مشقت کرکے جان حلقوم تک نہ آجائے ۔نسخہ کو نسخہ۔عمل کو عمل نہیں سمجھا جات۔یعنی جب تک کوئی ہمیں بھگا بھگا کر تھکا نہ دے تسلی نہیں ہوتی۔اس لئے جس چیز کے حصول میں مال جان ،وقت صرف نہ ہو اسے قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان انگریزی۔عربی۔فارسی کتب کو اردو قالب میں ڈھال کر اردو خواں طبقہ کے لئے آسانی پیدا کرنے میں دن رات مصروف عمل ہے۔ڈیڑھ سو سے زائد کتب ڈیجیٹل فارمیٹ یعنی (PDF) میں سوشل میڈیاز اور ادارہ ہذا کی نمائیندہ ویب سائٹس۔۔۔www.tibb4all.com اورwww.dunyakailm.com پر اپلوڈ کردی گئی ہیں۔یہ دونوں ویب سائٹس طبی اصلاحی عملیاتی تاریخی۔اور سب سے اہم قران و حدیث ۔تفسیر۔رجال ،تاریخ۔نایاب علوم و فنون پر بے شمار کتب سے مزین ہیں۔ہر کتب مفت میں ڈائون لوڈ کے لئے دستیاب ہے۔یہ عیب سائٹس اور سوشل میڈیاز کی بنیاد میرے بیٹے سعد یونس مرحوم نے رکھی تھی ۔یہ انہی کا صدقہ جاریہ ہے۔ کتب کی فہرست کتاب کے آخر میں ملاحظہ فرمائے۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔۔منتظم اعلی:سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور پاکستان کتاب یہاں سے حاصل کریں
توریت میں مذکور غذائیں اور غذائی اجزا
طبی لحاظ سے غذائوں کا استعمال انسانی زندگی کا جزو لازم ہے۔اگر غذائوں کو ان کتب سے اخذ کیا جائے جن سے ایمانی وابسطگی ہے تو اطمنانی کیفیت نمایاں ہوجاتی ہے۔غذاو خوراک کا ذخر تمام کتب آسمانی میں موضوع بحث بنایا گیا ہے۔۔جب گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو اس بحث سے کوئی مذۃبی کتاب خالی نہیں ہے۔نیکی کا معیار۔انسانیت ک خدمت وغیرہ کا محور کھانا پیبا اور ان سے متعلقہ اشیاء کو قرار دیا گیا ہے ۔کفارہ جات کو غذائی اجناس کی ادائیگی میں شامل کیا گیا ہے ٹیبل آف کونٹینٹ توریت میں مذکور غذائیں اور غذائی اجزا توریت میں مذکور غذائیں، غذائیت اور غذائی اجزا کا فیصد غذا توریت میں ذکر غذائیت اہم غذائی اجزا اور فیصد (فی 100 گرام) شہد خداوند نے اسرائیلیوں کو “دودھ اور شہد کی زمین” عطا کی۔ (خروج 3:8) جسمانی توانائی بڑھاتا ہے، اینٹی آکسیڈنٹس اور جراثیم کش خصوصیات رکھتا ہے۔ کیلوریز: 304 kcal، کاربوہائیڈریٹس: 82%، وٹامن بی6: 1%، پوٹاشیم: 3% زیتون اور زیتون کا تیل زیتون اور زیتون کا تیل بطور برکت اور مقدس استعمال (استثنا 8:8) دل کی صحت کے لیے مفید، اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور۔ کیلوریز: 115 kcal، چکنائی: 11%، وٹامن ای: 15%، کیلشیم: 2% انجیر انجیر کا ذکر بطور غذا اور شفا کے لیے (یسعیاہ 38:21) ہاضمے اور ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے مفید۔ کیلوریز: 74 kcal، فائبر: 8%، پوٹاشیم: 7%، کیلشیم: 4% گندم بنیادی غذا کے طور پر (استثنا 8:8) توانائی فراہم کرتا ہے، نظام ہاضمہ کے لیے بہتر۔ کیلوریز: 340 kcal، پروٹین: 13%، کاربوہائیڈریٹس: 72%، آئرن: 19% جو بنیادی غذا کے طور پر (استثنا 8:8) دل کی صحت کے لیے مفید، فائبر سے بھرپور۔ کیلوریز: 354 kcal، فائبر: 17%، پروٹین: 12%، میگنیشیم: 33% انگور انگور اور اس سے بننے والی شراب کا ذکر (پیدائش 9:20) قوت مدافعت بڑھاتا ہے، دل کی صحت کے لیے مفید۔ کیلوریز: 69 kcal، وٹامن سی: 18%، فائبر: 2%، پوٹاشیم: 6% کھجور خداوند نے کھجور کے درختوں کو نعمت قرار دیا (خروج 15:27) فوری توانائی، فائبر سے بھرپور۔ کیلوریز: 277 kcal، کاربوہائیڈریٹس: 75%، فائبر: 7%، پوٹاشیم: 20% دودھ “دودھ اور شہد کی زمین” کا ذکر (خروج 3:8) ہڈیوں اور دانتوں کو مضبوط کرتا ہے۔ کیلوریز: 42 kcal، کیلشیم: 12%، پروٹین: 3%، وٹامن ڈی: 10% گوشت حلال جانوروں کا گوشت کھانے کا حکم (احبار 11:1-47) پٹھوں کی تعمیر اور خون کی صحت کے لیے ضروری۔ کیلوریز: 250 kcal، پروٹین: 26%، آئرن: 15%، چکنائی: 20% مچھلی صاف مچھلی کھانے کا حکم (احبار 11:9-12) دماغ اور دل کے لیے مفید، اومیگا-3 فیٹی ایسڈز سے بھرپور۔ کیلوریز: 206 kcal، پروٹین: 22%، اومیگا-3: 30%، وٹامن ڈی: 25% یہ چارٹ نہ صرف غذاؤں کا مذہبی ذکر پیش کرتا ہے بلکہ ان کی سائنسی اہمیت اور غذائی اجزا کا فیصد بھی شامل کرتا ہے، جو صحت کے لیے بہت مفید ہے۔
امام ابن عبد البر رحمه الله_(ھ463_368)
امام ابن عبد البر رحمه الله_(ھ463_368) آپ کا نام یوسف بن عبد اللہ اور کنیت ابو عمر ہے۔ آپ ابن عبدالبر کے نام سے معروف ہیں۔ ابن عبدالبر کا شمار فقہ مالکی کے اکابر محققین اور مصنفین میں ہوتا ہے آپ علم حدیث فقہ تاریخ ادبیات اور مختلف علوم وفنون کے زبردست ماہر تھے۔ امام ابن عبد البر 25 ربیع الثانی 368 ہجری میں قرطبہ میں بنو نمر بن قاسط کے خاندان میں پیدا ہوئے اُن کے والد عبد اللہ ایک فقیہ تھے اور اُن کا شمار قرطبہ کے جلیل القدر اہل علم میں ہوتا تھا۔ ابن عبدالبر کی نشو و نما قرطبہ میں ہوئی، اُنہوں نے قرطبہ کے اکابر مشائخ سے علم فقہ حدیث لغت اور تاریخ کا علم حاصل کیا اُن کے اساتذہ میں نمایاں نام یہ ہیں: (1) ابو محمد عبد اللہ بن محمد بن عبد الرحمن اسد چمنی (2) ابو عمر احمد بن محمد بن جسور (3) ابو عمر احمد بن عبد اللہ باجی (4) ابو ولید بن فرضی ( ابن عبدالبر نے ان سے علم حدیث میں بہت زیادہ استفادہ کیا اور اُنہوں نے ان کے سامنے مند مالک بھی پڑھی تھی۔ (5) ابوعمر طلمنکی مقری ( یہ قرآت کے استاد ہیں ) ابن عبد البر نے شیخ ابو عمر احمد بن عبدالملک بن ہاشم کا ساتھ اختیار کیا جو اشبیلیہ سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے فقیہ تھے۔ ابن عبدالبر نے اُن سے علم فقہ میں بطور خاص استفادہ کیا اس کے علاوہ اُنہوں نے شیخ ابومحمد عبد الله بن محمد بن عبد المؤمن سے امام ابوداؤد کی سفن اُن کی کتاب: ناسخ و منسوخ، مسند احمد کا سماع کیا۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے محمد بن عبد الملک سے تفسیر محمد بن سنجر کا درس لیا انہوں نے ابن وہب کی نقل کردہ موطا کا درس شیخ عبد الوارث بن سفیان سے لیا۔ ابن عبد البر بہت جلد علم حدیث اسماء رجال قرات فقہاء کے اختلاف کے بڑے عالم بن گئے ابن عبد البر کا رجحان ابتداء میں ظاہری مسلک کی طرف تھا لیکن پھر بعد میں اُنہوں نے مالکی مسلک کو اختیار کر لیا۔ بعض فقہی مسائل میں اُن کا میلان فقہ شافعی کی طرف بھی ہے۔ ابن عبد البر کا شمار کثیر التصانیف بزرگوں میں ہوتا ہے اُنہوں نے بہت سا علمی ذخیرہ یاد گار چھوڑا ہے اُن کا سب سے عظیم علمی کام موطا امام مالک کی دو شرحیں تحریر کرنا ہے جو دونوں آج تک بے مثال ہیں۔ اُن میں سے ایک کتاب کا نام التمهيد لما في الموطأ من المعاني والاسانید ہے۔ اس کتاب کے بارے میں علامہ ابن حزم کی یہ رائے ہے کہ مجھے فقہ حدیث کے بارے میں اس جیسے کسی کلام کا علم نہیں ہے تو کوئی اس سے بہتر کیسے ہو سکتا ہے۔ ابن عبد البر کی دوسری عظیم شرح الاستذکار فی معرفہ مذاہب علماء الامصار ہے۔ ابن عبدالبر کی ایک اور اہم تصنیف “الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب” ہے جو صحابہ کرام کے احوال و آثار کے بارے میں بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مورخین نے ابن عبدالبر کی چند دیگر کتابوں کے اسماء بھی تحریر کیسے ہیں جن میں سے بعض کتا بیں شائع بھی ہو چکی ہیں۔ محدثین کے نزدیک ابن عبد البر کو نمایاں حیثیت حاصل ہوئی یہاں تک کہ امام ذہبی نے انہیں حافظ مغرب“ کا خطاب دیا اور اُن کے بارے میں ابو علی عسانی نے یہ کہا: ہمارے علاقوں میں علیم حدیث میں قاسم بن محمد اور احمد بن خالد حباب کے پایہ کا اور کوئی شخص نہیں ہے لیکن ابن عبد البر بھی ان سے کم نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے پیچھے ہیں۔ ابو ولید باجی نے ابن عبدالبر کے بارے میں یہ کہا: علم حدیث میں اندلس میں ابو عمر بن عبدالبر جیسا اور کوئی نہیں ہے انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ مغرب کے سب سے بڑے حافظ الحدیث ہیں ۔ شیخ ابو عبد اللہ بن ابوافتح کہتے ہیں: ابو عمر (یعنی ابن عبدالبر ) سنن آثار اور فقہاء کے اختلاف کے بارے میں اُندلس کے سب سے بڑے عالم تھے۔ ابن عبد البر کا انتقال ربیع الثانی کے مہینہ میں 463 ہجری میں شاطبہ میں ہوا۔