مریض معالج اور دوا مریض اور معالج کے درمیان اعتماد کا رشتہ ہوتا ہے اگر یہ رشتہ کمزور ہوجائے تو علاج ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجاتا ہے۔دوا کی افادیت و اہمیت سے انکار نہیں لیکن دوا کےفوائد کا حصؤل کا یہی ایک راستہ ہوتا ہے۔کتنا بھی قابل و حاذق معالج ہو ۔ اس کی مہارت اس یقین کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔جو معالج کے ساتھ مریض کے درمیان ہوتا ہے۔ باہمی رابطہ اگر کسی کم علم اور عطائی کے بارہ میں یقین ہوجائے کہ اس کی دوا فائدہ پہنچائے گی تو لامحالہ فائدہ ہوتا ہے۔اگر قابل معالج اپنا اعتماد بحال نہ کرسکے تو فوائد کا حصول مشکل ہوتا ہے۔۔۔شاید اشتہار بازی۔معالجین کا اپنے نام کے ساتھ کاحقے سابقے نتھی کرنا بھی اسی نفسیاتی سوچ کا حصہ ہے۔۔۔۔
موسمی بدلائو اور پھلوں کا استعمال۔
موسمی بدلائو اور پھلوں کا استعمال۔ از حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔قران کریم اور دیگر صحائف آسمانی کے ساتھ انسانی تاریخ میں صحت و تندرستی کے حوالے سے دنیا کی بہترین کتب میں پھلوں کا ذکر موجود ہے۔قران کریم نے پھلوں کو اسی ترتیب سے بیان کیا ہے۔جو موسمی لحاظ سے ایک دوسرے سے متصل پیدا ہونے والے پھلوں کو بیان کیا ہے۔پھل نسان کے لئے قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔انسانی ضرورت کے تحت مختلف آب و ہوا کے پیش نظر زمین پر الگ الگ پھل پائے جاتے ہیں ۔کچھ پھل مخصوص علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور کچھ بین الاقوامی طورپر استعمال کئے جاتے ہیں۔معروف پھلوں کو اپنے اپنے ذوق کے مطابق ہر کوئی الگ الگ انداز سے کھاتا ہے ۔حاذق معالج امراض کی صورت میں جہاں غذا و پرہیز بتاتا ہے وہیں پر پھلوں کے استعمال کی تاکید کرتا ہے۔لیکن ہر پھرل ہر جگہ و ہر موسم میں دستیاب ہونا بھی ایک مسئلہ ہے اس لئے جس موسم میں جو پھل پایا جائے اس کا بہتر استعمال ہی انسانی تندرستی میں طوالت کا سبب بن سکتاہےبے شک! بدلتے موسموں میں پھلوں کا استعمال موسمی ذائقوں کو اپنانے اور غذائی فوائد کو زیادہ سے زیادہ کرنے کا ایک خوشگوار طریقہ ہو سکتا ہے۔ مختلف موسموں میں آپ پھلوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا طریقہ یہاں ہے: ** موسم بہار کے پھل:** 3دہی:اپنے صبح کے دہی کو اوپر کی طرف مٹھی بھر کٹے ہوئے اسٹرابیری، رسبری، اور بلیو بیریز کے چھڑکاؤ کے ساتھ اوپر رکھیں۔ اس سے آپ کے ناشتے میں قدرتی مٹھاس، متحرک رنگ اور اینٹی آکسیڈنٹس کی خوراک شامل ہوتی ہے۔ مزیدار پارفیٹ بنانے کے لیے آپ بیریوں کو دہی اور گرینولا کے ساتھ بھی لگا سکتے ہیں۔ چاہے آپ ایک صحت بخش ناشتہ، تازگی بخش ناشتا، یا ایک متحرک میٹھا تلاش کر رہے ہوں، اسٹرابیری، رسبری، اور بلو بیریز ورسٹائل پھل ہیں جو آپ کی پاک تخلیقات میں موسم بہار کی خوشی کا ایک لمس شامل کر سکتے ہیں۔ موسم گرما کے پھل: خزاں کے پھل: موسم سرماکے پھل: موسمی پھلوں کو اپنی خوراک میں شامل کرکے، آپ نہ صرف ان کے بہترین ذائقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ ان کے غذائی فوائد بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ہر موسم کے دوران مقامی پیداوار کی حمایت کرنا مقامی زراعت کو برقرار رکھنے اور ماحولیاتی پائیداری کو فروغ دینے میں مدد کرتا ہے۔
کونسی سبزی کس مرض میں کھائیں۔
کونسی سبزی کس مرض میں کھائیں۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میویہ ایک بہت بڑا راز اور زندگی گزارنے کا بہترین انداز ہے کہ اسے سبزیاں کھانے کا ہنر آجائے۔صحت مند ہوں یا مرض دبوچ لے۔ تو سبزیوں کا انتخاب صحت کو برقرار رکھنے اور مرض سے چھٹکارا دلانے میں اہم کردار فراہم کرتا ہے۔سبزیوں کو کچی کھائیں اور پکاکر کھائیں۔سبزیاں کھانے کی بات نہیں بلکہ ضرور ت اس بات کی ہے کہ آپ کے جسم کو کس چیز کی ضرورت ہے۔ قدرت کی فیاضی قدرت کی فیاضی ہے کہ اس نے ہر قسم کی سبزیاں پیدا فرماکر انسانوں پر احسان فرمایا۔مثلاََ ایک دائمی قبض کا مرض ہے اور دوائیںکھاتے کھاتے تھک گیا ہے۔لیکن قبض دور ہونے کا نام نہیں لیتا ،ایسے مریض کے لئے ہم کھانے کے ساتھ سلاد کا استعمال کراتے ہیں۔قبض دور ہوجاتا ہے۔ مرض اور سبزیوں کا انتخاب اسی طرح اگر کسی کو گرمی کا مرض ہوگیا ۔اسے قلفہ۔اروی۔بھنڈی کا استعمال کریں ۔جسے قبض ہے۔تو دیسی گھی ،ریشہ دار سبزیاں۔کھائے۔جس کے اکڑائو میں ادرک اور وغیرہ فولادی کمی کے لئے پالک ۔سبزیوں کا استعمال اور مرض میں ان کے انتخاب اور ضرورت کے مطابق ایک ہنر ہے اس ہنر پر ہر معالج کو عبور ہونا چاہئے۔
ناشتے کے لیے کون سا بہتر ہے: کیلا یا سیب؟
ناشتے کے لیے کون سا بہتر ہے: کیلا یا سیب؟ازحکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میوپھل پہلے جس قدر پہنچ میں تھے آج گرانی اور مہنگائی کی وجہ سے عوام سے اتنے ہی دور جاچکے ہیں ۔پہلے کیلے اور سیب عام دستیاب اور سستے پھل تھے لیکن جنہیں میسر ہیں وہ صحت برقرار رکھنے کے لئے ان کا بہتر استعمال کرسکتے ہیں ۔۔ادنی سی رائے یہ ہے کہ کیلے کو ایسے لوگ استعمال کریں جنہیں جسم میں تازگی اور موٹاپا چاہئے۔اور سیب کو وہ لوگ استعمال کریں جنہہیں عارضہ قلب یا قبض کی شکایت ہو۔گولہ گرمی سے بچائو کے لئے کیلے کا شیک بہترین مشروب ہوتا ہے ۔لیکن وہ لوگ جنہیں پٹھوں میں دردوں کی شکایت ہو یا پھر جسم میں سستی محسوس ہوتی ہو وہ سیب کا ستعمال کریں۔ذیل میں یہ دنوں پھل ناشتہ میں کھانا طبیعت پر کونسے اثرات مرتب کرتے ہیں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔جب ناشتے کے لیے کیلے اور ایک سیب کے درمیان انتخاب کرنے کی بات آتی ہے، تو دونوں ہی صحت مند اختیارات ہیں۔ دونوں پھل غذائیت سے بھرپور ہیں اور صحت کے لیے بہت سے فوائد فراہم کر سکتے ہیں۔ تاہم، دو پھلوں کے درمیان کچھ اختلافات ہیں جو آپ کی ذاتی ترجیحات اور غذائی ضروریات کے لحاظ سے ایک کو دوسرے سے بہتر انتخاب کر سکتے ہیں۔ غذائی اہمیت کیلے اور سیب دونوں غذائیت سے بھرپور پھل ہیں، لیکن ان میں مختلف غذائیت کی خصوصیات ہیں۔ کیلے فائبر، وٹامن سی، وٹامن بی 6 اور پوٹاشیم کا ایک اچھا ذریعہ ہیں۔ ان میں کیلوریز اور چربی بھی کم ہوتی ہے۔ سیب فائبر اور وٹامن سی کے ساتھ ساتھ اینٹی آکسیڈنٹس کا بھی ایک اچھا ذریعہ ہیں۔ ان میں کیلوریز اور چکنائی بھی کم ہوتی ہے، لیکن ان میں کیلے جتنا پوٹاشیم نہیں ہوتا۔ غذائیت حقائق 1 درمیانے سائز کے کیلے (100 گرام) کے لیے غذائیت کے حقائق یہ ہیں ( 1 ): کیلوریز: 89پانی: 75%پروٹین: 1.1 گرامکاربوہائیڈریٹ: 22.8 گرامچینی: 12.2 گرامفائبر: 2.6 گرامچربی: 0.3 گرامGlycemic انڈیکس۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ایپل کی غذائیت کے حقائق یہاں ہیں غذائیت حقائق ایک کچے، چھلکے ہوئے، درمیانے سائز کے سیب کے لیے (182 گرام): کیلوریز: 94.6پانی: 156 گرامپروٹین: 0.43 گرامکاربوہائیڈریٹ: 25.1 گرامچینی: 18.9 گرامفائبر: 4.37 گرامچربی: 0.3 گرام گلیسیمک انڈیکس (GI) اس بات کا ایک پیمانہ ہے کہ خوراک میں موجود کاربوہائیڈریٹ کتنی جلدی خون میں گلوکوز میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اعلی جی آئی ویلیو والی غذائیں بلڈ شوگر کی سطح میں تیزی سے اضافے کا سبب بن سکتی ہیں، جب کہ کم جی آئی ویلیو والے کھانے زیادہ آہستہ ہضم ہوتے ہیں اور بلڈ شوگر کی زیادہ مستحکم سطح کو برقرار رکھنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ کیلے میں سیب سے زیادہ جی آئی ویلیو ہوتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ خون میں شوگر کی سطح میں تیزی سے اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔ تاہم، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کیلے غیر صحت بخش ہیں۔ درحقیقت، کیلے میں موجود فائبر اور دیگر غذائی اجزاء شوگر کے جذب کو کم کرنے اور بلڈ شوگر کے بہتر کنٹرول کو فروغ دینے میں مدد کر سکتے ہیں۔ ترپتی ترغیب اس بات کا پیمانہ ہے کہ کوئی خاص کھانا کھانے کے بعد آپ کتنا مطمئن اور بھر پور محسوس کرتے ہیں۔ کیلے اور سیب دونوں اپنے فائبر مواد کی وجہ سے ترپتی کو فروغ دینے میں مدد کر سکتے ہیں۔ تاہم، کیونکہ کیلے زیادہ گھنے ہوتے ہیں اور اس میں سیب کے مقابلے زیادہ کیلوریز اور کاربوہائیڈریٹ ہوتے ہیں، اس لیے وہ کچھ لوگوں کے لیے زیادہ بھرنے اور اطمینان بخش ہو سکتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے جو اپنی بھوک پر قابو پانا اور اپنے وزن کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ ذائقہ اور بناوٹ جب بات ذائقہ اور ساخت کی ہو تو کیلے اور سیب بہت مختلف ہوتے ہیں۔ کیلے نرم، کریمی اور میٹھے ہوتے ہیں، ایک مخصوص ذائقہ اور خوشبو کے ساتھ۔ سیب کرکرا، رسیلے اور قدرے ترش ہوتے ہیں، مختلف قسم کے لحاظ سے مختلف ذائقوں اور ساخت کے ساتھ۔ ہر پھل کے ذائقے اور ساخت سے فرق پڑ سکتا ہے کہ آپ ناشتے میں کس کو ترجیح دیتے ہیں۔ نتیجہ تو، ناشتے کے لیے کون سا بہتر ہے: کیلا یا سیب؟ جواب آپ کی ذاتی ترجیحات اور غذائی ضروریات پر منحصر ہے۔ دونوں پھل صحت مند اختیارات ہیں جو غذائی اجزاء اور صحت کے فوائد کی ایک حد فراہم کر سکتے ہیں۔ اگر آپ میٹھے، زیادہ بھرنے والے پھل کو ترجیح دیتے ہیں، تو ایک کیلا بہتر انتخاب ہو سکتا ہے۔ اگر آپ ایک کرکرا، تروتازہ پھل پسند کرتے ہیں جس میں کیلوریز اور چینی کم ہو، تو ایک سیب بہتر انتخاب ہو سکتا ہے۔ بالآخر، بہترین انتخاب وہ ہے جس سے آپ لطف اندوز ہوں اور آپ کے مجموعی صحت مند کھانے کے منصوبے میں فٹ بیٹھیں۔ براہ کرم اس مضمون کو ووٹ دے کر، نیچے تبصرہ کرکے، اور اپنے دوستوں کے ساتھ اس کا اشتراک کرکے میرے کام کی حمایت کریں۔ میرے دل کی گہرائیوں سے آپ کا شکریہ!
روڈایکسیڈنٹ کی رگڑ کا گھریلو علاج(کسٹرائل)
روڈایکسیڈنٹ کی رگڑ کا گھریلو علاج(کسٹرائل)از۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میوزندگی میں کچھ چیزوں کی سمجھ استعمال سے آتی ہے اورکچھ لوگوں کی قدر بچھڑنے کے بعد معلوم ہوتی ہے۔شکر کا بہتر انداز یہ ہے کہ موجودہ کی اہمیت کو محسوس کیا جائے اور رب کا شکر ادا کیا جائے۔صحت کی قدر اس کے چھن جانے کے بعد ہوتی ہے۔ہاتھوں اور جوڑوں کی سلامتی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔جولوگ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ہاتھ پائوں یا جسم کے دیگر حصوں پر رگڑ کھاتے ہیں۔انہیں احساس ہوگا کہ روڈ حادثہ کی صورت میں آنے والی چوٹوں اور رگڑوں میں کس قدر درد اور تکلیف کی شدت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔موٹر سائکل سواری عجیب ہے اس پر بیٹھنے والا کوئی ایسا خوش نصیب ہوگا جس نے اپنے ہاتھ پائوں زخمی نہ کرائے ہوں ۔جب بائیک سے گرتے ہیں تو گھٹنوں اور پائوں ۔ہاتھوں کی انگلیاں چھل جاتے ہیں۔حادثہ کی شدت ہڈیوں تک کو متاثر کردیتی ہے۔اللہ اپنی پناہ میں رکھے۔راقم الحروف کئی دیہائیوں سےبائک پے سفر کررہا ہے۔بار ہا رگڑیں اور چوٹیں بھی آئیں۔ان کی شدت درد وہی محسوس کرسکتا ہے جسے یہ چوٹیں پہنچی ہوں۔ان چوٹوں اور رگڑوں کی خاصیت ہوتی ہے کہ ان میں دیگر زخموں سے زیادہ درد ہوتا ہے اور رگڑ کے زخم بھرنے میں زیادہ دیر لگاتے ہیں۔سردیوں میں ان کی شدت کی اضافہ وہوجاتاہے۔دن میں جیسے تیسے گزارا ہوجاتا ہے۔لیکن ص﷽ح بیداری کے وقت ان میں اکڑائو زیادہ ہوجاتا ہے۔اٹھنے بیٹھنے میں دشواری ہوتی ہے۔روڈ ایکسیڈنٹ اور عام زخم میں فرق یہ ہوتا ہے کہ۔عام زخم کی جلد متاثر ہوتی ہے ادویات کے استعمال سے جلد بھر جاتی ہے۔لیکن رگڑ کا زخم دیر میں بھرتا ہے کیونکہ رگڑ کی وجہ سے جلد کے مساماتا اور خلئے بُری طرح متاثر ہوتے ہیں ۔اور گہرائی تک ان کا اثر ہوتا ہے۔مردہ خلئے ریشہ اور پیپ میں تبدیل ہوجاتے ہیں ۔۔باریک اعصابی رگیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔اس لئے درد میں شدت ہوتی ہے۔میر ی طبی زندگی کے تجربات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رگڑ کے زخموں اور متاثرہ جلد پر کسٹرائل یعنی رون ارنڈ لگایا جائے تو رگڑ کا زخم جلد بھر جاتا ہے۔مزہ داری کی بات یہ ہے۔یہ زخموں میں پس نہیں پڑنے دیتا۔مردہ خلیات کو الگکرکے تازہ خلئے بننے میں مدد کرتا ہے۔ابھی پچھلے ہفتے صبح کے وقت روڈ پر نکلا ایک دودھ والے نے پیچھے آکر ٹکر ماری۔دو افراد تھے وہ خود بھی گرے ہمیں بھی گرایا۔ہاتھ پائوں سر وغیرہ میں کافی چوٹی ں اور رگڑیں آئیں۔اصرار کرنے والوں نے ہسپتال سے انجیکشن لگوائے۔یوں خون میں لت پت گھر پہنچے۔دردوں کی وجہ سے برا حال تھا۔ہمارے پاس آزمودہ فارمولہ موجود تھا۔کسٹرائل رگڑوں اور زخموں پر لگانا شروع کردیا ۔الحمد ایک ہفتہ میں زخم ٹھیک ہوگئے ۔زخموں میں پس بھی نہ پڑی اور معمولات زندگی پھر سے رواں دواں ہوگئے۔کسٹرائل پر ہم نے ایک کتاب بھی لکھی تھی جو ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے میں بھی ایک سو زائد فوائد لکھے ہیں۔مطالعہ کی چیز ہے ضرور پڑھئے گا۔یہ سستی اور عام ملنے والی چیز کسٹرائل کے کتنے فوائد و اور طبی استعمالات ہیں۔داہنے پائوں کے انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کا ناخن اتر گیا تھا۔اس پر بھی کسٹرائل لگایا گیا ۔زخموں میں پس /پیپ بھی پیدا نہ ہوئی اور جلد پر جہاں رگڑیں لگیں اور جلد بری طرح مسلی گئی اور خلئے مردہ ہوئے وہاں دوبارہ سے صحت مند جلد آگئی۔سب سے مزہ داری کی بات یہ ہے کہ جلد پر زخم کا نشان بھی نہیں بنے ۔زخم ٹھیک ہونے پر یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا یہاں کوئی رگڑ یا زخم تھاہی نہیں۔بالخصؤص آنکھ کے نیچے آنے والے زخم کے بارہ میں کافی تشویس تھی کہ یہ گہرا نشان اپنا داغ دھبہ چہرے پر باقی رہ جائے گا۔لیکن بحمد اللہ وہ نشان نہ پڑا۔جلد بہلے کی طرح نرم و ملائم ہوگئی ۔
کچھ میوقوم کا گروپس کی کارکردگی۔
کچھ میوقوم کا گروپس کی کارکردگی۔از۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو(1)آسان نکاح۔۔(2)الجبارفائونڈیشن گروپ(3)میو میری پہچان۔(4) میواتی بیٹھکمیو قوم نے جدید سوشل میڈیا میں بھی اپنو حصہ گیرنو شروع کردئیو ہے۔اوراپنا جذبات کو اظہار کراہاں ۔اور کچھ گروپس تو ایسا بھی ہاں جن کی سیکورٹی ایڈمنز حضرات نے اتنی سخت کرراکھی ہے کہ معمولی سی خلاف مزاج بات پے،ممبر اے ماکھی طرح باہر نکال پھکاہاں ۔۔جب بھی کوئی چبھتو سوال کروجائے تو فورا وارننگ اری کردی جاوے ہے۔بلکہ سیدھو سٹ ریمو کردئیو جاوے ہے۔ایسو میرے ساتھ کئی بار ہوچکو ہے۔۔۔گروپن میں بنیادی طورپے لوگ اپنی انا کی تسکین ڈھونڈا ہاں۔چاہوا ہاں کہ سب اُن سو حاجی کہوا ں اور اُنن نے فرشتہ ثابت کرنے کے مارے اُوندھی سیدھی جو بات کہتا رہواں ۔خیر ایڈمنز لوگ اپنا گروپن کا مالک ہاں۔کہا کہو جاسکے ہے؟۔کچھ مفید واٹس ایپ گروپس۔کچھ گروپس ایسا ہاں جو ایک خاص مقصد کے مارے بنا ہاں اور اپنی دُھن میں مشغول ہاں ۔کوئی اچھو کہے کوئی بُرو کہے وے اپنا کام میں لگا پڑا ہاں۔(1)نکاح آسان بنائیں۔عمران میو صاحب کو گروپ ہے ۔نکاح آسان بنائیں۔۔۔ان کی خدمات قابل قدر ہاں۔میواتی قوم کا بیٹا بیٹی اور ہر عمر کا ضرورتن مندن کی پرو فائل شئیر کری جاواہاں۔میری ملاقات سیان گائوں میں احسن فیروز نمبردار کے گھرے ہوئی ہی۔اپنا مشن میں یہ کتنا کامیاب ہاں ،یہی بتاہاں۔(2)دوسرو گروپ الجبار فائونڈیشن۔۔۔یا میں بھی تعلیمی لحاظ سے بحث و مباحثہ کرو جاوے ہے۔بہت سی مفید آراء اور تجاویز سامنے آواہاں ،گوکہ میں جاوید صاحب سو ملو نہ ہوں۔لیکن عمراب بلا میو اور عابد میو۔عمر صاحب فیصل آباد والا۔کافی متحرک ہاں۔رات بابائے میواتی عاصد رمضان میو مہمان خصوصی ہو۔بہت ملوک پروگرام ہو۔بہت سی بات ایسی ملی جو میواتی قوم و ثقافت اور میواتی کے مارے جدوجہد کے بارہ میں معلوم ہوئی۔(3)تیسرو گروپ۔ میو میری پہچان۔۔۔۔۔میو میری پہچان ہے ۔یامیں بھی کئی ممبر لوگ کافی فعال اور چوکس ہاں ۔عبدالحمید میو۔عمر میو۔اکبر میو ۔مولوی الطاف قمر جیسا قیمتی لوگ یا کا روح رواہاں۔یہ لوگ بھی اپنی سی کوشش میں لگا پڑا ہاں۔روز ایک موضوع منتخب کرو جاوے ہے۔واپے اپنا اپنا خیالات کو اظہار کرو جاوے ہے۔۔۔یا گروپ میں جتنی بات ہووا ہاں۔ان کو قوم کو کہا فائدہ ملے ہے ؟ کچھ پتو نہ ہے۔۔۔کیونکہ بے شمار ایسا موضوعات ہاں جن کو میو قوم سو کوئی تعلق نہ ہے۔مفاد عامہ۔اخلاقایات۔معاشرتی موضوعات پے بات چیت کری جاوے ہے،میو قوم کے مارے کوئی لائحہ عمل پیش کرنا میں دوسران کی طرح کوئی خاکہ پیش کرنا میں پیچھے ہے۔چوتھو گروپ۔۔۔۔میواتی بیٹھک۔ای گروپ،سنن میں آوے ہے کہ نمبردارلوگن کو ہے۔ جن کو موضوع جہیزکو خاتمہ ہے۔فیزیکلی کئی ایک اجلاس کئی گاون میں ہوچکا ہاں ۔ایک دو پروگرامن میں مشتاق میو امبرلیا۔شکر اللہ میو۔اور سلیم میو کے ساتھ شریک ہوئیو۔باتن میں تو بہت وزن رہوے ہے۔لیکن دیکھو ای گئی ہو کہ جو جہیز کے خلاف تقریر کراہاں ۔وے اپنی اولاد کے بارہ میں پرانی جہیز کی روایت پے کاربند دکھائی دیواہاں ۔باقی گروپن کا بارہ میں اگلی قسط میں لکھونگو ۔۔۔
فرشتے۔جنات اور انسان
فرشتے۔جنات اور انسانانسانی زندگی میں ذہنی افکار اور دیگرنفسیاتی امور،اورزندگی میں تغیر پزیر حالات۔اس کے علاوہ خفیہ اثرات ۔جیست فرشتے اور جنات ۔موکلات۔غیبی اثرات کی حقیقت کیا ہے؟یہ کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں ۔ان کی غذا و خوراک کیا ہوتی ہے؟۔ان کے طبقات و درجات کے لحاظ سے طاقے کا توازن۔اس میں شک نہیں کہ انسانی سوچ اور وہم زندگی کے رغیرات میں بہت گہرے اثرات رکتھے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہکیا انسانوں پر جنات تسلط جما سکتے ہیں ؟جنات و شیاطین انسانی ذۃن پر کیسے اثرانداز ہوتے ہیں؟کیا جنات و شیاطین سے بچنا ممکن ہےَ اس قسم کے کئی سوالات کے جواباتاس ویڈیو میں دئے گئے ہیں
گرمی سے بچنے کی گھریلو تدابیر
گرمی سے بچنے کی گھریلو تدابیرگرمی کی شدت سے ہر کوئی نڈھال ہے۔اور ہر عمر کے لوگ بیمار پڑ رہے ہیں ۔لو لگنے سے بہت سے لوگ ہسپتالوں میں بھرتی ہوچکے ہیں ۔ہم نے کچھ ایسی آسان و گھریلو اشیاء کی نشان دہی کی ہے اوران کی تراکیب بیان کی ہیں جنہیں کام میں لاکر گرمی کی شدت سے بچا جاسکتا ہے۔ موسمی پھلوں اور سبزیوں میں یہ بھی پڑھئے کچا آم (کیری) :صاف شفاف اور چمکدار جلد کے لیے ماسک کچا آم ۔کھیرا ککڑی وغیرہ ایسی قدرتی غذائیں ہیں جنہیں مناسب طریقے ست استعمال کرکے گرمی شدت سے بچا جاسکتا ہے
احسان مندی اور اظہارِ تشکر کے کچھ کلمات.
مکتوب بھارت۔۔ احسان مندی اور اظہارِ تشکر کے کچھ کلمات.(سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی ﷺ کے فضلاء میں مرد و خواتین شامل ہوتے ہیں ۔ادارہ ہذا کی خدمات کا دائرہ کئی ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔معالجین طبور تشکر کچھ تجربات و مشاہدات قلمبندکرکے بھیجتے رہتے ہیں۔ان میں سے ایک عائشہ عابد ندوی صاحبہ بھی ہیں ۔انہوں نے ادارہ ہذاء کے وٹس ایپ گروپ۔اطباء و عاملین کی کلاس۔ میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا تھا،جسے افادہ ناظرین کے لئے پیش کیا جارہا ہے۔۔ ارداہ۔سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور پاکستان) .. استاد محترم: حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد صاحب کے نا م ۔یہ عائزہ ہے۔ننھی سی لڑکی۔ اسلام نگر، اتر پردیش کے شہر علی گڑھ سے…؛عمر یہی سات آٹھ سال۔ اس کے دماغ میں پہلے ایک، تین ، پانچ پھر سات گانٹھیں بن گئی تھیں۔ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اس لڑکی کا آپریشن بھی رِسکی ہے۔ آپریشن کے دوران بھی مر سکتی ہے۔ اور اگر بچ گئی تو عمر بھر کے لئے معذور ہو جائے گی۔وہ ہر طرف سے ناامید اور مایوس ہو کر ہمارے یہاں آئے تھے ۔ وہ لمحے مجھے یاد ہیں، اور شاید یاد رہینگے، جب اس کے گھر والے بیٹی کے لئے زارو قطار رو رہے تھے، بلک رہے تھے ۔وہ بس بیٹی کی صحت ، زندگی مانگ رہے تھے، کہتے تھے کہ بیٹی کو پالا اس لئے نہیں کہ اسے لمحہ لمحہ مرتے دیکھیں۔ یہ بھی پڑھئے سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی ﷺخدمات و اہدافیہ وہ وقت تھا، جب ہم خود ٹائیفائڈ کے ہاتھوں شکست کھائے ہوئے تھے۔ ہم نے پہلے معذرت کر لی۔وہ ہمارے ایک ایسے مریض کے توسط سے آئے تھے، جو اللہ کے حکم سے ہمارے یہاں سے شفایاب ہوئے تھے۔ دوبارہ ان لوگوں نے رابطہ کیا ، اور ساتھ ہی اس مریض سے بھی سفارش کروائی کہ… اس بچی کو کوئی ڈاکٹر لینا نہیں چاہتا، آپ انہیں مایوس نہ کریں۔ ہم نے استاد محترم سے اس لڑکی کا ذکر کیا، استاد محترم نے کہا تھا کہ امید ہی کہ یہ لڑکی ٹھیک ہو جائے گی ۔اس لڑکی کا کیس کچھ آسان نہیں تھا اس کے کچھ بڑے مسائل تھے:پیدائشی طور پر اس کے دل میں سوراخ تھا۔ اس سوراخ کے علاج کے دوران رگیں بلاک ہونے لگیں، پھر اس کو نمونیہ ہوگیا۔ اس کے علاج کے دوران سر میں درد کی شکایت ہوئی، دونوں کانوں سے گندا مواد بہتا تھا۔ جانچ کے دوران دماغ میں گانٹھ کی تشخیص کی گئی، پہلے ایک۔ پھر تین، پھر پانچ اور پھر سات۔ جتنا علاج دیا جاتا مرض اتنا بپھر رہا تھا۔ لڑکی کے سینے اور سر یعنی دل اور دماغ میں مستقل درد رہتا تھا۔کبھی تو درد کے شدید دورے پڑتے۔ خیر استاد محترم سے صلاح مشورہ کے بعد اس کا علاج شروع کیا گیا۔ اس کے علاج کے دوران کافی زیادہ نشیب و فراز آئے۔جب اس لڑکی کو درد کا دورہ پڑتا تو کسی تدبیر سے کم نہ ہوتا تھا۔ اس کے گھر والے مجھے بار بار میسیج کرتے، فون کرتے، ایک طرح سے مجھے پریشان کر کے رکھ دیا تھا۔میں نے ایک دن استاد محترم سے کہا کہ… ہم بھی دیسی طب میں ایک نیند آور دوا تیار کرینگے۔ جو مریضہ کو کھلاتے ہی نیند آ جائے، اور درد کا احساس کم ہو جائے۔ استاد محترم نے منع کیا۔ انہوں نے کہا کہ شفا دینا ہمارا کام نہیں ہے۔ ہم بس دوا اور تدبیر کر سکتے ہیں۔ یوں نشہ آور دوا دینے سے دیسی طب کا نام خراب ہوگا۔وہ لوگ اپنی بیٹی کے لئے بہت زیادہ پریشان تھے۔ وہ ایک بار ہمارے یہاں سے بھی مایوس ہو کر دوبارہ ایلوپیتھ ڈاکٹر کے یہاں گئے۔وہاں سفاکیت کی انتہا یہ ہوئی کہ ڈاکٹر نے بچی کو دیکھتے ہی دور سے ہی منع کردیا۔ کہ اسے میرے پاس مت لانا۔ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا…کہ اس کا اب میڈیکل میں سوائے آپریشن کے کوئی علاج نہیں ہے۔کبھی وہ دماغ کے ڈاکٹر کے پاس جاتے کبھی دل کے ڈاکٹر کے پاس۔ ہر جگہ سے ناامیدی اور مایوسی ہوتی۔ایک وقت آیا ان لوگوں نے طے کر لیا کہ وہ بچی کا دل کا آپرشن کروا لینگے۔ کیونکہ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اس کے گلے کے پاس دو رگیں آپس میں مل گئی ہیں، جس کی وجہ سے صاف اور گندا خون باہم مل جاتا ہے ، اور دماغ میں گلٹیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اگر آپریشن کر کے اتنی رگ کو کاٹ دیا جائے تو شاید دماغ کی گلٹیاں ٹھیک ہو جائیں۔ مگر یہاں آپریشن کا خرچ لاکھوں میں تھا۔ ایک بار وہ پھر تذبذب میں تھے۔ ہم نے بھی انہیں اختیار دے دیا تھا کہ اپنی بچی کے بارے میں جو فیصلہ کرنا ہو کریں، لیکن یہ ہمارے یہاں زیر علاج رہی تو ہر ممکن کوشش کرینگے کہ وہ آپریشن کی تکلیف اور خرچ دونوں سے بچ جائے۔ موت کے خطرات بچی پر منڈلاتے ہی رہے۔یہ بھی ایک رِسکی آپریشن ہی تھا۔ اسی لئے مجبور والدین نے پھر ایک بار ہم سے رابطہ کیا کہ جو بھی ہو ، آپ ہی علاج دیں۔ ہم اپنی بچی کو مزید تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے ہیں۔اس کا علاج دوبارہ شروع کیا گیا۔ لڑکی کی حالت میں کبھی افاقہ ہوتا۔ کبھی مزید بگڑ جاتی۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لڑکی نے کھانا پینا بھی بند کردیا تھا۔ کچھ کھاتی ہی نہیں، اگر زبردستی کھلایا جاتا تو الٹی کر دیتی۔ استاد محترم نے کہا کہ. معلوم ہوتا ہے اس کا نظام ہضم جواب دینے لگا ہو۔وہ تکلیف سے چیخ چیخ کر روتی تو اس کے گھر والے فون کر کے ہمیں سناتے کہ دیکھیں ہماری بیٹی اتنی تکلیف میں ہے۔پھر ایک وقت آیا کہ اس کو پیشاب میں خون یا پیشاب کے بجائے خون آنے لگا۔ گھر والے آدھی آدھی رات کو بھی فون کرتے…لڑکی کی والدہ رو رو کر کہتی تھیں کہ دیکھیں ہماری بچی اگر مرنے والی ہو نا تو ہمیں پہلے بتا دیں۔ گول مول باتیں نہ کریں اور ہمیں دھوکہ میں نہ رکھیں۔استاد محترم نے کہا کہ معالج مایوسی کی باتیں نہیں کرتا۔ ہمارا کام علاج جاری رکھنا ہے۔ ہم نے بھی
میو قوم کے وٹس ایپ گروپس۔
میو قوم کے وٹس ایپ گروپس۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔ کسی بھی وٹس ایپ گروپ کو کسی قوم یا یا کمیونٹی کی طرف منسوب کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایڈمنز حضرات اس توسط سے اپنی بات لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں ۔ڈیسکرپشن میں بھی گروپس کے اغراض ومقاصد لکھے جاتے ہیں۔یہ مواصلاتی دنیا میں ایک انقلاب ہے۔جس کے فوائد و ثمرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔وٹس ایپ گروپس میں شامل ممبران تک بات/افکار /اور مقاصد پہنچانے میں تریز ترین ذریعہ ہیں۔بنانے والے نے کمال مہارت سے اس کی کوڈنگ کی ہے کہ۔ایڈمنز لوگ اسے اونلی ایڈمن کردیں یا پھر ہر کسی کو بات کرنے اور اظہار خیال کی اجازت دیں ۔میو قوم کے لوگوں نے بھی بے شمار گروپس بنائے ہوئے ہیں۔جن میں ہزاروں لوگ ایڈ ہیں۔ان میں ہر سطح اور ہر درجہ کی ذہنیت کے لوگ ہوتے ہیں۔کچھ لوگ بظاہر ممبر ہوتے ہیں لیکن گروپس سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ۔کچھ لوگ ہر بات میں رائے دینا اور اپنی بات کرنا ضروری خیال کرتے ہیں ۔ میو گروپس میں کمزوریاں۔ مجھے (حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو)بہت سے گروپس میں لوگوں نے ایڈکیا ہوا ہے۔کچھ دنوں تک میو قوم کی خدمت کے جذبہ سے سرشار بحث و مباحثہ کا حصہ بھی رہا ۔لیکن جلد سمجھ میں آیا کہ یہ گروپس گوکہ میو قوم کے نام سے بنائے گئے ہیں۔لیکن ان کے ایڈمنز خود کو ایک اعلی مخلوقات میں شمار کرتے ہیں اختلاف رائے۔اور خلاف مزاج باتیں کسی بھی ممبر کو ریمو کرنے کا اعلی ترین جواز ہیں ۔یعنی خلاف مزاج بات کو گروپس پالیسیوں کی خلاف ورزی کہہ کر اپنی بھرانس نکال لیتا ہے۔ یہ بھی پڑھئے۔ میو قوم کے جوانوں کے لئے فلاحی منصوبہ سعد ورچوئل سکلز اورالجبارمیو ایجو کیشن گروپ کا اشتراک عمل Saad Tibbia College (Tibb4all) گروپس کے ایڈمنز اورمیوقوم کی خدمت۔ ایک دو سالوں سے گروپس میں شرکت سے جو تجربات حاصل ہوئے۔کی بنیا دپر کہہ سکتا ہوں کہ گروپس ایڈمنز نے اپنی کچھ ناآسودہ خواہشات۔دَبی ہوئی چوہدر۔اور اپنی انا کی تسکین کو میو قوم کی خدمت کا نام دیا ہوا ہے۔ان کے سامنے کوئی خاص منزل نہیں ہے ۔نہ ان کے ذۃن میں کوئی خدمت کا خاکہ ہے۔لفظ میو ہے۔اور ہم ہیں جو ایڈمنز کی مرضی ہوگی وہی میو قوم کی خدمت قرار پائے گی ۔اور اسے میو قوم کی خدمت سمجھ کر قبول کرلیا جائے گا۔یہی کچھ میو قوم کے نام پر بننے والی تنظیموں کا حال ہے۔ گروپس میں شرکت بلا مقصد وقت کا ضیاع۔ میو قوم کی خدمات میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا مقصد میو قوم کی خدمت قرار دیا ہوا ہے۔یہ لوگ بلاحیل و حجت ۔ داد و دہش کے بغیر یکسوئی سے خدمت میں لگے ہوئے ہیں انہیں کسی کے آنے جانے یا مالدار /غریب ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتایہ قوم کے سچے اور کھرے خدمت گزار ہیں۔ان کی قدر کرنا میو قوم پر لازم ہے۔یہ ہیرے لوگ قدرت کا عطیہ ہیں۔کچھ لوگ کرتے دھرتے کچھ نہیں ہیں صرف ٹانگ اڑانے کو میو قم کی خدمت قرار دیتے ہیں۔ان بے چاروں کی سوچ کا معیار ہی یہ ہے اس لئے انہیں نفسیاتی مریض سمجھنا چاہئے۔مجھے یہ لکھنے میں باک نہیں کہ ہمارے میو قوم کے لوگوں نے سوچنے کو گناہ قرار دیا ہوا ہے۔پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑ ھ کوئی فرق نہیں پڑتا ۔کیونکہ کسی کے پاس قوم کی بہتری یا فلاح و بہبود کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔جو لوگ منصوبہ بندی اور اپنی حدبندی کرکے کام میں مصروف ہیں امید ہے کہ ان کی کاوشیں ضرور رنگ لائیں گی۔میو قوم کی تنظیموں اور گروپس میں سوچ کا فقدان ہے۔منصوبہ بندی اور کام کی درجہ بندی نہیں ہے۔ورنہ اس وقت قوم کو منصوبہ بندی اور درجہ بندی کی سخت ضرورت ہے۔۔۔میو قوم کو درجہ بندی۔خدمات کا میدان منتخب کرنا اشد ضروری ہے۔منصوبہ بندی نہ ہونے کہ وجہ سے ٹکرائو کی پالیسی جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔مثلا ایک جماعت یا تنظیم اپنا منشور واضح کردے ۔ایک وٹس ایپ گروپ اپنے اغراض ومقاصد متعین کرلے ۔ بے شمار شعبے ہیں۔جو جس شعبے میں مہارت رکھتا ہے اسے حق پہنچتا ہے وہ اپنی میو قوم کی اس شعبہ میں بہتر خدمت کرسکے ۔مثلا ایک ٹیچر ہے اسے تعلیم کے حوالے سے اپنی خدمات پیش کرنے چاہیئں۔ایک زمیندار ہے اس حوالے سے قوم کو اس کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ایک انجینئر ہے۔قوم کو اس کی بھی سخت ضرورت ہے۔یہی حال کاروبار۔تجارت۔آئی ٹی سیکٹر۔ سرکاری ملازمت۔کارخانہ جات یعنی میدان عمل میں اتنی وسعت ہے کہ میو قوم کے بہترین تجربہ کار لوگوں کو آگے لایا جاسکتا ہے۔مثلاََ ایل شاعر و مصنف کو جو احترام ملنا چاہئے۔دیا جائے۔ایک کاروباری کو جو مواقع ملنا ضروری ہیں۔ایک دینی مدارس یا تعلیم و تعلم میں خدمات سرانجام دے رہا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔تمام شعبے اپنے اندر اتنی وسعت رکھتے ہیں کہ ہزاروں لوگ اپنی خدمات پیش کرسکتے ہیں ۔ٹکرائو کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔یہ کائنات اتنی وسیع ہے کہ ٹکائو کا سوال ہی پید نہیں ہوتا۔۔